سلوک کی پہلی منزل طاعت

یہ بیان 19 ستمبر 2019 کے ہمعات کے بیان سے لیا گیا ہے

خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمعات کے اسباق کی تشریح ہوتی ہے، تو آج سلوک کی پہلی منزل طاعت سے شروع کریں گے۔

متن:

جس شخص کو بھی مشائخ تصوف کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا ہوگا یا اس نے اہل تصوف کی کتابیں اور رسائل پڑھے ہوں گے اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں ہوگا کہ تصوف کے سب طریقوں کے بزرگوں اور اربابِ ارشاد کی غالب اکثریت یقیناً اس امر پر پورا اتفاق رکھتی ہے کہ طریقت کی اصل ایک ہے، گو اہلِ طُرق کے سلوک کی راہیں الگ الگ ہوگئی ہیں۔

طریقت کی یہ اصل جس سے آگے چل کر جملہ طُرقِ تصوف نکلے، سید الطائفہ جنید بغدادیؒ کی طرف منسوب ہے۔ اس لئے کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ ہی وہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے تصوف کے اکثر قواعد و قوانین کو مدوّن کیا۔ چنانچہ موصوف کے زمانے میں جو بھی اہلِ تصوف تھے، ان سب نے اپنے سلوک کی "نسبت" حضرت جنید سے ٹھیک کی تھی۔ سچ پوچھیے تو طریقت کا جو بھی سلسلہ اِس وقت موجود ہے، اس کا اصل سرچشمہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ ہی کی ذات گرامی ہے۔ بے شک اس ضمن میں ایسا بھی ہوا کہ کسی شخص کا طریقہ تو اویسی ہوا اور ظاہری اعتبار سے اس نے کسی اور طریقہ کا خرقہ پہن لیا، جیسا کہ شیخ بدیع الدین مدار تھے، یا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک شخص بہت سے مشائخ کی صحبت میں بیٹھا، لیکن اس کی دلی مراد حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کی دست گیری سے بر آئی ہو اور اس نے اس خیال سے کہ ایک تو حضرت جنید کا مرتبہ مشہور و معروف ہے اور دوسرے ان کی وجہ سے قرب الی اللہ کا واسطہ در واسطہ سلسلہ مختصر ہوجاتا ہے، مناسب یہ سمجھا ہو کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو جو اس کے لئے شیخ اول کا درجہ رکھتے تھے دوسرے مشائخ پر مقدم قرار دے اور اپنے آپ کو جنید رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرے جیسے کہ شیخ شمشاد دینوری نے کیا۔

جس طرح تمام اہلِ تصوف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طریقت کے سب سلسلوں کی اصل ایک ہے اسی طرح یہ سب بزرگ اس امر میں بھی متفق ہیں کہ سالکِ راہِ طریقت کا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے عقائد کو درست کرلے۔ چنانچہ اس ضمن میں اسے صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے عقائد کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔ عقائد کو درست کرنے کے بعد اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے جملہ ارکان بجا لائے۔ گناہوں سے بچے، شریعت نے جن مفاسد کو ملعون قرار دیا ہے، ان کا سدِّ باب کرے، یہ راہِ طریقت کا پہلا مقام ہے اور اسی کا نام طاعت ہے۔ طاعت در حقیقت تصوف اور احسان کی اصل جڑ ہے، اس کے بغیر طریقت اور سلوک کبھی درست ہو ہی نہیں سکتے۔

قبل اس کے کہ ہم آگے بڑھیں، یہاں تین باتوں کی وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک عقائد کی درستی کا تعلق ہے سالک کو اس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور سلف صالحین کے عقائد کو اپنا نمونہ بنانا چاہئے۔ بعد میں متکلمین نے عقائد کی جو نئی نئی تاویلیں کی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ اور پھر خاص طور پر جن عقائد میں متقدمین نے تاویل کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ انہوں نے ان عقائد کی اس طرح تاویل کی ہے کہ ایک رائے کو دوسری رایوں پر ترجیح دے کر صرف اسے ہی وہ اصل مراد قرار دے دیتے۔ سالک کو چاہئے کہ وہ بھی اسی طریق پر ان عقائد کو مانے۔

دوسری بات جس کا کہ سالک کو خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سلوک کی ابتدا میں وہ وحدت الوجود اور وجود کے تنزلاتِ خمسہ کی بحثوں سے بچے۔ ان بحثوں سے بجائے نفع کے الٹا اسے نقصان ہوگا۔ اللہ کی ذات واجب الوجود سے یہ محسوس کائنات کیسے ظہور پذیر ہوئی، اس کو سمجھانے کے لئے اہلِ طریقت نے پانچ تنزلات مانے ہیں۔ ایک تو ذاتِ احد کا درجہ ہے اس سے دوسرا تنزل وحدانیت میں ہوا، تیسرا تنزل ارواح کا ہوا۔ چوتھا عالمِ مثال کا اور پانچواں تنزل عالمِ اجسام کا۔ یہ ہیں وجود کے تنزلاتِ خمسہ اور مسئلہ وحدت الوجود میں اس عقدے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وجود کے یہ مختلف مراتب حقیقتاً ایک وحدت ہیں یا یہ محض دیکھنے میں ایک نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے تنزلاتِ خمسہ اور وحدت الوجود کے یہ معاملات بے حد نازک اور دقیق ہیں۔ اس لئے سالک کو ابتدائے سلوک میں ان سے بچنا لازمی ہے۔

تیسری بات جس کا کہ سالک کو خیال رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اگر وہ اتنی علمی استعداد نہیں رکھتا کہ حدیث کی کتابوں اور صحابہ و تابعین کے آثار کا براہِ راست مطالعہ کرسکے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فقہ کے چار مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کرے، لیکن اگر سالک میں احادیث و آثار سے استفادہ کرنے کی استعداد موجود ہے تو بہتر ہے کہ وہ خود ان کا مطالعہ کرے اور اس ضمن میں خاص طور پر وہ اس بات کی احتیاط کرے کہ بعد کے فقہاء نے طرح طرح کی جو بیکار فقہی موشگافیاں کی ہیں اور جو نئے نئے مسائل انہوں نے استنباط کیے ہیں وہ ان میں نہ الجھے۔

تشریح:

یہ جو حضرت نے پہلی منزل اطاعت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔

﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء: 59)

ترجمہ:1 "اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی بھی اطاعت کرو۔"

یہ اصل میں اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول کی اطاعت کی طرف اشارہ ہے۔ ہمارے لئے اصل چیز تو اللہ پاک کی بات ماننی ہے، اور اللہ پاک کی بات ماننے کے لئے حضور ﷺ کی بات ماننی ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کی بات ماننا اللہ پاک ہی کی بات ماننا ہے، اور اس کے لئے ہمیں آپ ﷺ کے صحابہ کی پیروکاری کرنی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے صحابہ نے جس طریقہ سے آپ ﷺ کے حکم کو سمجھا ہے تو وہی معیار ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ اس وقت تصحیح کا طریقہ موجود تھا۔ یعنی اگر ان سے کوئی غلطی ہوجاتی تو فوراً اس کی تصحیح بھی ہوجاتی کیونکہ آپ ﷺ موجود تھے، لہٰذا صحابہ کو غلطی پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی تصحیح ہونا ضروری ہے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی تصحیح کے قواعد سے پتا چلتا ہے کہ بعض دفعہ تو آپ ﷺ نے بات تبدیل کروائی ہے، مثلاً کسی شخص نے کوئی کام کیا اور اس کو آپ ﷺ نے دیکھ لیا تو آپ ﷺ نے اس کا بدل بتا دیا کہ نہیں، ایسا نہیں ہے، ایسا ہے۔ جیسے ایک صحابی رسول ﷺ کا پتا چلا کہ وہ دو دھاگے لئے ہوئے ہیں سفید اور سیاہ، اور ان کو دیکھتے تھے کہ جب تک ان میں تمیز ممکن نہ ہوتی تھی تو وہ سحری کھا لیتے تھے اور جس وقت ان میں تمیز واقع ہوجاتی تو وہ کھانا بند کرلیتے اور انہوں نے یہ آیت کریمہ سے مراد لیا تھا کہ:

﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(البقرة: 187)

ترجمہ: "اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہو جائے"۔

تو انہوں نے اس آیت کا مطلب یہ لیا تھا۔ صحابہ کرام ان کو آپ ﷺ کے پاس لے گئے، آپ ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو افق کی سفیدی ہے اور افق کی جو سیاہی ہے اس کے درمیان فرق محسوس ہوجائے۔ تو بات واضح ہوگئی، تو گویا کہ تصحیح ہوگئی۔ اور جس وقت کوئی اجتہادی امر ہوتا تو اس میں آپ ﷺ ان صحابہ کے بارے میں فرق نہیں کرتے تھے بلکہ جو بھی جن کی رائے ہوتی تھی تو ان کی رائے کو مان لیتے تھے اور گویا کہ اجتہاد کا دروازہ کا کھلا ہوا ہونا ان کو بتا دیتے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی ایسے ہوا تھا جن کو آپ ﷺ نے یمن کو رخصت کیا تھا اور آپ ﷺ پوچھتے تھے کہ آپ مسئلہ کیسے حل کریں گے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں قرآن سے کروں گا، پھر انہوں نے کہا کہ پھر سنت میں تلاش کروں گا، انہوں نے کہا پھر اگر اس میں بھی آپ نظیر نہ پاؤ؟ تو فرمایا پھر میں اس میں خود تحقیقی کرکے سوچوں گا، گویا کہ اجتہاد کروں گا۔ تو اس پر آپ ﷺ نے اس کی تصویب فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں چیزوں کا یعنی تبدیلی کا بھی پتا چل جاتا تھا اور اجتہاد کا بھی پتا چل جاتا کہ کن چیزوں میں اجتہاد ہوسکتا ہے کن چیزوں میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ تو یہ صحابہ کرام کے ساتھ speciality تھی جو کہ بعد کے لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ نے اپنے ساتھ ان کو معیار بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ“ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو آپ ﷺ کے صحابہ کا جو طریقہ کار ہے وہ اپنانا چاہئے۔

سب سے پہلے جو چیز دین کے اندر ہے وہ ایمان ہے اور عقائد ہیں، لہٰذا عقائد ہمیں درست کرنے چاہئیں، صحابہ کرام کے عقائد کی طرح بنانے چاہئیں۔ جو بعد کی تبدیلیاں ہوچکی ہیں، تو حضرت فرماتے ہیں کہ ان میں گھسنا نہیں چاہئے کیونکہ وہ چیزیں کچھ چیزوں کو حل کرنے کے لئے ہیں۔ یعنی کسی کو اگر غلط فہمی ہوئی ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ہیں۔ اصل عقائد تو صحابہ کرام ہی کے ہیں، لہٰذا صحابہ کرام نے جو فرمایا ہے بس وہی ٹھیک ہے۔ بعد میں لوگوں نے جو مختلف باتیں بنائیں جیسے خلقِ قرآن کا مسئلہ بعد میں آگیا اس کے جوابات آگئے، تو جن کو خلقِ قرآن کا مسئلہ نہیں ہے تو ان کو ان کے جوابات سے بھی غرض نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ (مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں) ایک صاحب چونکہ لنگڑے تھے تو ان کے پاس ایک special modern عصا تھا جس کے اندر بڑی facilities تھیں تو جو لنگڑے نہیں تھے وہ ان کو بھی بتاتے تھے کہ یہ عصا بہت زبردست ہے اور اس میں یہ facility ہے، اس میں facility ہے، اس کو استعمال کرنا چاہئے، تو اس کو کسی نے کہا کہ بھائی آپ کے لئے ہے ناں میرے لئے تو نہیں ہے، میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں، مجھے عصا کی کیا ضرورت ہے۔ مطلب آپ کو ضرورت ہے، مجھے تو ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ جن کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں تھی تو ان کو اس کی بات بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا جو خلقِ قرآن کے مسئلہ میں پھنسا نہیں ہے تو اس کو ان کے دلائل بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ علیحدہ بس ٹھیک ہے، اپنے صاف عقائد جو صحابہ کرام کے ہیں ان کو اپنانا چاہئے۔ تو ایک پہلا اصول تو یہ ہے کہ ہمیں صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین کے عقائد کو نمونہ بنانا چاہئے، جو بعد والی تبدیلیاں ہیں ان کی طرف نہیں جانا چاہئے۔

دوسری بات انہوں نے فرمائی ہے کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں لوگ کافی گہرائی میں چلے گئے ہیں، لیکن گہرائی میں جانا ان کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو ایک کیفیت ہے، اس کیفیت میں اگر کوئی آجائے تو پھر ان کی سمجھ میں آنا چاہئے، کوئی شیخ کامل ہوگا تو ان کو سمجھا دے گا۔ جن کو ان چیزوں کے ساتھ واسطہ نہیں ہے وہ اپنے آپ کو کیوں اس طرف لے جاتے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ کیفیت کو اگر فلسفہ بنایا جائے تو یہ گمراہی ہوجاتی ہے۔ یعنی کسی کو کیفیت حاصل نہیں ہے اور وہ اس کو فلسفیانہ طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرلے تو یہ گمراہی بن جاتی ہے۔ اس وجہ سے کیفیت کو کیفیت ہی رہنے دیا جائے۔ جس وقت وہ کیفیت کسی کو حاصل ہوگی تو ان کو بتا بھی دیا جائے گا کہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ یہ جو مسئلہ وحدت الوجود کا ہے، وحدت الشہود کا ہے، یہ کیفیت کا ہے، تو جن کو یہ کیفیت واقع ہوگی تو ان کو اس کے بارے میں بتا بھی دیا جائے گا اور جن کو یہ واقع نہیں ہے تو ان کو ان چیزوں میں گھسنا نہیں چاہئے۔ جو فلسفیانہ بحثیں ہوں گی تو فلسفیانہ باتوں میں گھسنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ایک بات حضرت نے ارشاد فرمائی۔ مطلب علاج بضرورت ہوتا ہے، بغیر ضرورت کے تو علاج کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے چل رہا ہے اور اس کی صحت کام کررہی ہے، مثال کے طور پر جن کی آنکھیں ہیں تو ان کو عینک کیوں لگوانا چاہتے ہیں؟ جن کی آنکھیں ہیں تو ان کو عینک لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ تو خواہ مخواہ آنکھوں کے اوپر بوجھ ہی ہوگا۔ اور اگر کسی کے کان صحیح ہیں تو ان کو آپ سننے والی مشین کیوں لگائیں گے؟ وہ تو ان کے اوپر مزید بوجھ ہوگا۔ جس کے دانت موجود ہیں تو اس کو نئے دانت کیوں لگوانے چاہئیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے اوپر بوجھ ہی ہوگا، تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو جو چیزیں بضرورت ہیں ان کو اس درجہ میں رکھنا چاہئے اور اس کے بارے میں اور کچھ نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ یہ جو بات حضرت نے ہمیں فرمائی ہے کہ جن لوگوں کی اتنی علمی استعداد نہیں ہے کہ وہ حدیث کی کتابوں سے اور صحابہ و تابعین کے آثار سے براہ راست مطالعہ کرسکیں تو ان کو چاہئے کہ وہ فقہ کے چار مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کریں۔ تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ البتہ اگر ہم کہتے ہیں کہ کسی میں یہ استعداد موجود ہے تو وہ ظاہر ہے کہ اس وقت آج کل یہ چیز نادر ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہئے۔ حضرت نے اصولاً بات بتائی ہے لیکن عملاً تحقیقاً بات یہ ہے کہ آج کل ایسے لوگ موجود ہی نہیں ہیں کہ وہ اتنی بصیرت اور بصارت رکھتے ہوں کہ جو تقلید سے نکل سکیں، اس وجہ سے آج کل تقلید مجبوری ہے۔ یعنی آدمی تقلید نہیں کرے گا تو اپنے آپ کو پھنسا دے گا۔ اس وجہ سے جو لوگ بھی بچنا چاہتے ہیں، ہم مثال لیتے ہیں، حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے کہ ایک غیر مقلد کے ساتھ بات ہورہی تھی تو حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو دلائل دے دیئے تو غیر مقلد عالم جو تھے وہ کہتے ہیں کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ! اخیر میں کہا کہ حضرت آپ جیسے آدمی بھی مقلد ہیں؟ یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا قرآن اور حدیث پر نظر دی ہے تو آپ کیسے مقلد بن گئے؟ اس پر حضرت نے فرمایا کہ بھائی کم از کم میرا مقلد ہونا آپ کے اوپر ایک حجت بن گیا ہے کہ کم از کم آپ کو تو پھر مقلد ہونا چاہئے۔ اگر آپ مجھے مقلد نہیں دیکھنا چاہتے اور مجھے اپنے لئے مقتدا سمجھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں جو کررہا ہوں تم بھی وہی کرلو، اور وہ کیا ہے کہ میں اگر مقلد ہوں تو تم بھی مقلد بن جاؤ اگر بچنا چاہتے ہو۔ تو بس یہی بات ہے، ہمیں اس طریقہ سے بچنا چاہئے۔ تو یہ جو سلوک کی پہلی منزل طاعت ہے یہ ما شاء اللہ اس طرح ہوگئی۔ اب اس کے بعد ذکر و اذکار اور اوراد و وظائف کی باری آتی ہے۔

متن:

ذکر و اذکار اور اوارد و وظائف

مقامِ طاعت کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ اپنا تمام وقت ذکر و اذکار، تلاوت، نماز اور نوافل میں صرف کرے۔ نیز وہ اچھے اخلاق حاصل کرنے اور بری باتوں مثلاً ریاکاری، حسد اور غیبت وغیرہ سے بچنے میں کوشاں ہو۔ اس ضمن میں تین باتوں کا جاننا ضروری ہے، ایک یہ کہ صوفیا کے ہر گروہ نے اپنے اپنے اوراد و نوافل کے طریقے بنائے ہیں۔ حضرت غوث اعظم قدس سرہ نے اپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" میں اوراد و نوافل و طاعات کا ایک طریقہ تلقین فرمایا ہے اور چشتی مشائخ نے دوسرا طریقہ فرمایا ہے۔ شیخ ابو الحسن شاذلی نے اس سلسلہ میں حزب البحر کا ورد تجویز فرمایا ہے اور میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے وظائف ہیں اور شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے اوراد مشہور ہیں۔ امام محمد غزالیؒ نے احیاء العلوم میں ان اوراد و وظائف کا ایک اور طریقہ لکھا ہے: اس فقیر نے آل علوی کے بعض سادات سے سنا ہے کہ طریقہ عیدروسیہ کی بنیاد احیاء العلوم کے انہی اوراد پر ہے۔ اور اس طریقے کے بزرگ نسلاً بعد نسلٍ اپنے بعد کے آنے والوں کو احیاء العلوم ہی کے اوراد کی تلقین فرماتے اور اسی کتاب کے مطالعہ کی ہدایت کرتے رہے ہیں۔ گو یہ سب اوراد وظائف اچھے اور مقبول ہیں لیکن ان میں بہتر اور زیادہ پسندیدہ وہ اوراد ہیں جو صحیح کتب احادیث کے مطابق ہیں۔

دوسرے یہ کہ سالک کو ابتدائے سلوک میں ریاکاری کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اس ضمن میں کتبِ حدیث و سنت میں ریاکاری کے متعلق جو موٹی موٹی باتیں بیان کی گئی ہیں، اس کے لئے صرف ان کا جان لینا کافی ہے۔ لیکن اگر سالک ان پر اکتفا نہ کرے گا اور ریاکاری کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی کرید میں رہے گا تو اس سے نہ صرف یہ کہ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اس کی وجہ سے الٹا اس کا دماغی توازن بھی مختل ہوجائے گا۔

سالک کا ابتدائے سلوک میں ریاکاری کی تفصیلات کی کرید میں لگ جانا ایسا ہی ہے، جیسے کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کو بھیڑیے سے اتنا ڈرا دے کہ بھیڑیے کے خیال ہی سے اس کی نیند اڑ جائے۔ اور اس کے ڈر کے مارے اس کا اطمینان یکسر جاتا رہے۔ اس کے برعکس باپ کا یہ فرض ہے کہ بیٹے تک بھیڑیے کے پہنچنے کے جو بھی ذرائع ہوسکتے ہیں ان کا سدِّ باب کردے اور اسے موقع نہ دے کہ وہ بھیڑیے کے متعلق وہم و احتمال میں پڑ جائے، بلکہ باپ کو چاہئے کہ وہ بیٹے کی اچھی تربیت کرے، اس کو توانا و تندرست بنائے اور اس پر واضح کردے کہ مضبوط آدمی بھیڑیے کو خود اپنے بل بوتے پر زیر کرسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں سالک کی تربیت کا زیادہ مفید اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرشد اس کو ایسے اذکار و وظائف میں لگائے جو محبت انگیز ہوں اور جن کی وجہ سے سالک کی توجہ دنیا کی پست اغراض سے ہٹ کر اعلیٰ اور ارفع مقاصد کی طرف مبذول ہوجائے، چنانچہ اس راہ کی سب سے پہلی ضرورت سالک کے اندر اسی توجہ کو پیدا کرنا ہے۔

سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل سے جاہ و مال کی محبت کو کم کرنے کی جہاں تک ہوسکے کوشش کرے۔ یعنی وہ اپنی توجہ کو جاہ و مال سے اس قدر ہٹائے کہ جب وہ ذکر و اذکار میں مشغول ہو تو اسے کوئی چیز دنیا کی طرف نہ کھینچ سکے۔ تاکہ ذکر و اذکار میں اسے پورا اطمینان حاصل ہو اور اس دوران میں اِدھر اُدھر کے خیالات اس کے دل کی طرف راہ نہ پا سکیں اور نیز اس ضمن میں اسے اپنے اوپر قابو حاصل ہونا چاہئے کہ جب وہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ اسے اگر محبت ہے تو صرف خدا سے اور اس کا مقصود و مطلوب ہے تو صرف وہی ذات، الغرض جب وہ یہ دعویٰ کرے تو اس وقت اس کا دل اس دعویٰ کی تکذیب نہ کرے اور اس معاملہ میں اس کا دل اس کی زبان کی پوری تائید کررہا ہو اور اگر یہ نہیں تو خواہ وہ کتنے ورد و وظیفے کرے گا اسے کبھی حلاوتِ ذکر نصیب نہیں ہوگی۔

تیسرے یہ کہ سلسلہ نقشبندیہ کے بعض صوفیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے طریقے میں سرے سے اوراد و وظائف ہیں ہی نہیں۔ ان لوگوں کا یہ کہنا اس صورت اور ان معنوں میں ٹھیک نہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صبح و شام اور سوتے وقت کے اذکار و وظائف صحیح احادیث میں مروی ہوں اور یہ روایات اتنی مشہور بھی ہوں اور اس کے باوجود حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اوراد و وظائف کا کلیتاً انکار کردیں۔ دراصل بات یہ نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں واقعہ صرف اتنا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند اور ان کے پیروؤں نے اوراد و وظائف کے معاملہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے ان کے مسئلہ کو کتبِ حدیث کے حوالے کردیا ہے اور وہ خود اوارد و وظائف کی ترتیب اور تعیین میں نہیں پڑے اور چونکہ بعد کے صوفیاء نے جو اذکار مقرر کرلئے تھے صحیح اور مشہور حدیثوں میں ان اذکار کی اصل موجود نہ تھی۔ اس لئے خواجہ نقشبند اور ان کے اتباع نے ان اذکار کا حکم نہیں فرمایا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سنت کے مطابق جو اوراد و اذکار تھے صرف ان کی پیروی کو اہم سمجھا اور یہ عام قاعدہ بھی ہے کہ جب ایک ہی معاملہ کے متعلق بہت سی مصلحتیں جمع ہوجائیں تو جو مصلحت سب سے اہم ہوگی اسی کو عملاً ترجیح دی جائے گی۔ غرضیکہ اوراد و وظائف کے متعلق خواجگان نقشبندیہ کا یہ فیصلہ اسی قبیل سے ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اگر کسی صاحب کو اس مسئلہ میں شک ہو تو اسے مولانا یعقوب چرخی کا رسالہ انسیہ دیکھنا چاہئے اور نیز اسے خواجہ نقشبند کے اس جامع معانی کلمہ پر کہ "ہمارے طریقے کی بنیاد احادیث و آثار کے اتباع پر ہے" غور اور فکر کرنا چاہئے۔

تشریح:

یہ اصل میں حضرت نے بہت بڑی بات فرمائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذکر و اذکار اور وظائف کی جو بات ہے بعض لوگوں کو اس کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ نہ تو یہ ہے کہ اس کا شوق نہیں ہونا چاہئے نہ یہ کہ اتنا شوق ہونا چاہئے کہ ضروری کام رہ جائے۔ یعنی درمیان کی بات ہونی چاہئے۔ تو درمیان کی بات کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ تو ظاہر ہے جیسے کہ حضرت نے پہلی منزل اطاعت میں جو بتا دیا تھا کہ ہمیں وہ کرنا چاہئے جو کہ آپ ﷺ کا طریقہ تھا اور جو آپ ﷺ کے صحابہ کا طریقہ تھا اس کی طرف جانا چاہئے۔ ”مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اس وجہ سے ہمیں اس طرف چاہئے کہ جو وہاں سے مقرر ہے اس سے بہترین اور کوئی نہیں ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں نے لوگوں میں استعداد نہیں دیکھی اور ان کے مطابق اپنے طور پر کچھ چیزیں ان کو بتا دیں۔ میں آپ کو اس ضمن میں ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک درود شریف منقول ہے اور بہت مقبول درود شریف ہے اور ما شاء اللہ اس کے اوپر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا اونچا مقام بنا ہوا تھا۔ اور شوافع کے نزدیک درود پاک کا تو بہت زیادہ اہتمام بھی ہے کیونکہ وہ نماز میں درود پاک کو فرض سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں سنت سمجھتے ہیں اور ان کے ہاں فرض سمجھتے ہیں، لہٰذا انہوں نے درود شریف پر بہت کام کیا، ان کو بڑی توفیقات ہوئیں۔ لیکن میں ایک دن سوچنے لگا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے جو اللہ پاک نے مقرر کیا وہ تو چونکہ بڑے عالم تھے، بڑے بزرگ تھے اور اللہ پاک نے ان کے لئے جو مناسب دیکھا تو ان کے دل پہ القا کردیا تو ان کے لئے تو واقعی بہت زیادہ ہے، لیکن کیا ہم درودِ شافعی پڑھنے میں زیادہ فائدہ حاصل کریں گے یا درودِ ابراہیمی میں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ درودِ ابراہیمی آپ ﷺ سے براہ راست منقول ہے اور چھ کی چھ کتابوں میں ہے، صحاحِ ستہ سے ثابت ہے، اس لئے اس کو نماز کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ تو افضل درود پاک تو یہی ہے، اب اگر مجھے موقع ملتا ہے تو میں افضل درود کیوں نہ پڑھوں؟ تو یہ جو بات ہے، یہ ظاہر ہے۔ میں ایک بزرگ کے ساتھ جارہا تھا سفر میں تو حضرت کو میں کہنے لگا کہ حضرت میں کبھی کبھی گنگناتا ہوں ؎

بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمَالِہٖ

کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِہٖ

حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَآلِہٖ

تو حضرت نے فرمایا: ”ما شاء اللہ، ما شاء اللہ، بہت اچھا ہے، بہت اچھا ہے، بہت اچھا ذوق ہے، لیکن اس سے بھی اچھا بتاؤں؟“ تو میں نے کہا کہ حضرت ضرور بتائیے۔ فرمایا: ”دیکھو اگر آپ کا کسی افسر کے ساتھ کام ہے تو وہ فرماتا ہے، اچھا ٹھیک ہے درخواست ان الفاظ میں لکھو تو میں آپ کا کام کردوں گا۔ اب اگر ان الفاظ میں درخواست لکھو گے جن کا بتایا گیا ہے تو وعدہ پکا ہے لہٰذا آپ کا کام ہوجائے گا۔ لیکن اپنے خیال میں آپ نے بہت اچھے الفاظ بنائے ہیں اگر اس پر وہ کہہ دے کہ میں نے جو تجھے الفاظ کہے تھے ان میں کیا مسئلہ تھا؟ پھر آپ کیا جواب دو گے؟ مسئلہ میں پڑ جاؤ گے۔ تو جو الفاظ بتائے گئے ہیں ان کے مطابق اگر کرو گے تو اس میں تو کوئی بات ہی نہیں ہوگی، اس میں تو وعدہ ہی پورا ہوگا“ تو اس وجہ سے فرمایا کہ جو درود پاک آپ ﷺ سے ثابت ہے اس میں تو کوئی بات ہی نہیں۔ تو میں نے کہا کہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والا درود پاک پڑھنے کی بجائے درود ابراہیمی پڑھنے کو ترجیح دوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ سے براہ راست منقول ہے۔ حالانکہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتبہ کو اس کی وجہ سے کم نہیں کروں گا، اپنے دل میں میں سمجھوں گا کہ وہ تو بہت بڑے تھے، لیکن یہ بات ہے کہ میرے لئے تو ایک آپ ﷺ کی بات ہے اور ایک امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے تو میں تو وہ بات اپنے لئے لوں گا، تو یہ نقشبندی مزاج ہے۔

اگر دیکھا جائے تو طریقہ یہی ہے، نقشبندی مزاج یہی ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے اوراد کرلیں، ہم آپ ﷺ سے جو منقول ہے اور صحابہ کا جو طریقہ ہے اس کے اوپر کیوں نہ جائیں۔ تو نقشبندی حضرات نے یہ کیا ہے۔ بہرحال یہ جو طریقہ کار ہے مختلف اوراد و وظائف جو مختلف طریقوں میں مقرر کیے گئے ہیں وہ اپنی اپنی جگہ بہت اچھے ہیں، بہت درست ہیں لیکن جو اذکار و اوراد احادیث شریفہ میں موجود ہیں، ان کی بات ہی کیا ہے۔ اب اس وجہ سے اگر کسی کا ذوق یہ بن جائے اور یہ بہت اعلیٰ ذوق ہے کہ وہ اوراد و اذکار جتنے بھی احادیث شریفہ میں ہیں انہی کو مقرر کرلے تو بہت زیادہ ہوجائے گا۔ البتہ چونکہ یہ مستحبات ہیں فرائض و واجبات نہیں ہیں، لہٰذا مستحبات کی تشکیل میں یہ بات ضرور ہے کہ کسی کو ممکن ہے کہا جائے، کسی کو نہ کہا جائے، یعنی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ جیسے کہ ریاکاری کے بارے میں حضرت نے فرمایا، اب ریاکاری بہت خطرناک چیز ہے، لیکن فرمایا کہ اس کی جو موٹی موٹی تعلیم موجود ہے احادیث کی کتابوں میں اسی پر چلو، اس سے زیادہ باریکات میں جاؤ گے تو نقصان ہوجائے گا۔ کیونکہ باریکات میں جانے سے چونکہ آپ کے پاس حل کرنے کا وہ نظام نہیں ہوگا لہٰذا پریشان ہوجاؤ گے، تو بعض دفعہ دماغی توازن بھی انسان کا بگڑ سکتا ہے کیونکہ وسوسے آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ریا خطرناک وسوسہ ہے، اپنے ہر عمل پر ہی یہ ہوگا کہ پتا نہیں میں نے ریا کیا ہے یا نہیں، پتا نہیں میں نے ریا کیا ہے یا نہیں، پتا نہیں میں نے ریا کیا ہے یا نہیں۔ اس طرح نہیں کرنا چاہئے، کم از کم آپ کو اپنی سمجھ کے مطابق اور اپنے ارادہ کے ساتھ ریا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ موٹی سی بات ہے اور باریک باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اس کی مثال حضرت نے یہ دی ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے بیٹے کو بھیڑیے سے اتنا ڈرا دے کہ ہر وقت اس کو بھیڑیے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور خواب میں بھی بھیڑیے سے ڈرنے لگے تو اس نے بھیڑیے سے حفاظت اس کی نہیں کی بلکہ اس نے بھیڑیے کو اس کے دماغ میں بٹھا دیا۔ یعنی پہلے جنگل میں بھیڑیا ہوتا تھا، اب تو اس کے دماغ میں بھیڑیا ہے۔ آپ نے تو اس کو اتنا نقصان پہنچا دیا۔ اس کی بجائے آپ یہ کرتے کہ بھیڑیے کے ساتھ مقابلے کے لئے اس کو تیار کرلیں اور اس کو طریقہ بتا دیں اور اس کے ذہن میں یہ بٹھا دیں کہ تم بھی بھیڑیے کو مار سکتے ہو اور جیسے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ؎

دشمن گر قوی است

نگهبان قوی تر است

دشمن اگر قوی ہے تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے۔ تو یہ بات ہے کہ ایک انسان کو بعض دفعہ یہ عامل لوگ اتنا ڈرا دیتے ہیں کہ ان کی سکت جتنی ہوتی ہے وہ سکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ مطلب یہ بات ہوجاتی ہے کہ جو انسان کرسکتا ہے وہ بھی نہیں کرپاتا۔ حالانکہ یہ آیت الکرسی سبحان اللہ! کتنا بڑا عمل ہے۔ اب آیت الکرسی کی موجودگی میں کوئی اور بات ہوسکتی ہے؟ انسان کو سمجھنا چاہئے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اشراق کی نماز میں نے پڑھی، ایک انٹرویو کے لئے میں جارہا تھا، تو میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ شبیر صاحب! آپ نے صلوٰۃ الحاجت پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ آپ حضرات سے سنا تھا کہ اشراق کی جو آخری دو رکعت ہیں، یہ صلوٰۃ الحاجت کی طرح ہیں، اس میں اس دن جتنے بھی کام ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کاموں میں مدد فرماتے ہیں۔ تو پھر؟ کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے آپ کے لئے صحیح ہے، آپ کے لئے یہ بات کافی ہے۔ مطلب ان چیزوں پہ یقین ہونا چاہئے کہ کس لئے ہیں۔ جب تک آپ کو اپنی دعا پر یقین نہیں ہے تو آپ کا دعا میں جی لگے گا؟ آپ کا دعا میں جی نہیں لگے گا۔ آپ کا دعا میں تب جی لگے گا جب آپ کو یقین ہوگا کہ اللہ پاک میری سنتے ہیں۔ اس طریقہ سے آپ کو یقین بڑھانا پڑے گا اور اس کو گویا کہ اتنا مقابلہ کے لئے تیار کرنا پڑے گا کہ شیطان اس کو کسی طریقہ سے بھی دھوکہ نہ دے سکے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب بات ایک موقع پہ فرمائی، فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ موت کے وقت شیطان ہمارے ایمان کو خراب کردے گا۔ فرمایا اگر تم اس وقت ہوش میں ہوگے تو اس کی بات مانو گے کیوں؟ اور ہوش میں نہیں ہوگے تو اللہ پاک اس پہ آپ کو مکلف نہیں بناتا، یعنی آپ کو ذمہ دار ہی نہیں بناتا۔ تو دونوں لحاظ سے تم بچے ہوئے ہو، کیونکہ ایسی بات نہیں۔ تو اب دیکھو! حضرت تھانوی صاحب نے کیسے ہمیں اَلْحَمْدُ للہ یہ ذوق دے دیا۔ اس طریقہ سے میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے ڈرنے کے بارے میں بتاتا رہتا کہ حضرت بس پتا نہیں میری موت کیسی ہوگی۔ فرمایا ایسے ہی جیسے کہ نیک مومن کی موت ہوتی ہے، اس طرح موت ہوگی۔ پھر میں ایمان کے بارے میں بات کرتا کہ حضرت مجھے تو ہر وقت ہی اس پر ڈر ہوتا ہے۔ فرمایا یہ ایمان کوئی چھوئی موئی کا پھول ہے کہ آپ touch کریں گے اور ختم ہوجائے گا، یہ ایسی بات تو نہیں ہے۔ مقصد میرا یہ ہے کہ یہ حضرات دل بڑھانے والے لوگ ہیں دل چھوٹا کرنے والے لوگ نہیں ہے۔ جن کا تعلق عاملوں کے ساتھ ہوتا ہے ناں وہ دل چھوٹا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے گویا کہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ ہٹاتے ہیں اور اپنے اوپر یقین بڑھاتے ہیں کہ میرے جو تعویذ ہیں اگر یہ پہنو گے تو بس تم بچ جاؤ گے، اور میرا اگر یہ وظیفہ تم کرو گے تو بچ جاؤ گے ورنہ پھر تیرے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، اللہ جب چاہے گا تو بچت ہوگی، اللہ نہیں چاہے گا تو بچت نہیں ہوگی۔ کسی کا کوئی تعویذ کام نہیں آسکتا، کوئی وظیفہ پھر کام نہیں آسکتا۔ آپ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تھا: ”اے معاذ! یاد رکھو اگر ساری مخلوق جمع ہو کر تمھیں کوئی خیر پہنچانا چاہیں اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو تمھیں خیر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر تمھیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے سب مل کے، لیکن اللہ کا ارادہ نہ ہو تو تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے“۔ تو آپ ﷺ نے بھی یہی بات کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی طرف متوجہ کرنا چاہئے، توحید کو ہمارے دل میں ایسے بٹھانا چاہئے کہ ہم لوگ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرنے والے ہوں۔

﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)

ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

یعنی میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں بے شک اللہ پاک اپنے بندوں پہ خوب نگہبان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ میری کیا ضرورت ہے، کوئی کام میرا اللہ پاک سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ ایسے وظائف اختیار کرنے چاہئیں جو محبت انگیز ہوں، جن سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت بڑھے۔ یہ ضروری ہے اور اس سے دنیا سے آپ کا رخ اللہ کی طرف مُڑ جائے، دنیا کی طرف آپ کا دھیان نہ ہو بلکہ اللہ پاک کی طرف دھیان ہو اور کوئی چیز بھی آپ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے وظیفے کے دوران۔ یعنی جو آپ اللہ پاک کی طرف جارہے ہیں اس وقت کوئی بھی چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ تو اس میں حضرت نے فرمایا کہ یہ وظائف اگر کسی کی یہ حالت نہیں ہے تو اس وقت وہ جتنے بھی ذکر اذکار کرے گا اس میں اس کو حلاوت نصیب نہیں ہوگی جو حلاوت اس میں نصیب ہوتی ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ جیسے مثال کے طور پر ہمیں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اللہ اللہ کا جب ذکر کرو تو اس تصور کے ساتھ کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ کتنی زبردست بات ہے، اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تاکہ اللہ کے ساتھ ہمیں محبت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمارے ساتھ محبت کر ہی رہے ہیں لیکن اس محبت کا جواب تو محبت ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کریں۔ اس وجہ سے ہمیں اس طریقہ سے کام کرنا چاہئے۔

تیسری ایک بہت بڑی بات حضرت نے فرمائی ہے کہ نقشبندی سلسلہ کے جو متاخرین ہیں وہ طرح طرح کے اِدھر اُدھر کے خیالات میں پڑ چکے ہیں۔ مثلًا ایک ان کا یہ بھی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اوراد و وظائف نہیں ہیں۔ حالانکہ اوراد و وظائف میں انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالہ کیا ہے یہ نہیں کہ اوراد و وظائف حدیث سے منع کرلیا ہے، منع نہیں کیا۔ صرف یہ ہے کہ اس کی بجائے کہ ہم آپ کو بتائیں، آپ قرآن و حدیث سے وظائف لے لو۔ جیسے نماز کے بعد جو وظائف ہم کرتے ہیں تو وہ احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ صبح شام کے جو اذکار ہیں وہ موجود ہیں، تسبیحات فاطمہ اور بہت سے اذکار احادیث شریفہ میں مروی ہیں، تو وہ ہمیں کرنے چاہئیں۔ اس طریقہ سے جو بھی ہم لوگ وظائف کرنا چاہیں تو اس کے لئے ہم لے لیں۔ نقشبندی حضرات کا جو کام ہے، وہ اصل میں اس طریقہ سے ہے کہ وہ احادیث شریفہ سے براہ راست لینے والے حضرات ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ اس میں خود سے کوئی بات کرلیں، وہ آپ کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھاتے ہیں تاکہ آپ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھا دیں اور بجائے یہ کہ لوگوں کے تجربات سے آپ لے لیں، آپ جو آپ ﷺ کے فرمودات ہیں ان سے لینے والے ہوجائیں تو یہ بہت اہم بات ہے۔

چونکہ جو چیزیں متقدمین نقشبندیہ میں تھیں وہ اب متاخرین میں نہیں ہیں لہٰذا ان کی وہ باتیں بجائے فائدہ کے نقصان پہنچا رہی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس سے غلط مطلب لے لیے ہیں۔ تو اس طریقہ سے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت ساری چیزوں کی اصلاح فرمائی ہے اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، یہ بھی ظاہر ہے حضرت کے بعد مجدد گزرے ہیں اور یہ بھی نقشبندی بزرگ ہیں۔ انہوں نے بھی اصلاح فرمائی ہے کہ اصل میں بات یہ ہے کہ جو نقشبندی طریقہ ہے اس میں ایک تو یہ بات ہے کہ جیسے کہ سلوک مجاہدات کے ذریعہ سے نہیں ہے بلکہ سلوک ان مجاہدات کے ذریعہ سے جو مسنون مجاہدات ہیں۔ مسنون مجاہدات یہ ہیں کہ آپ سنت طریقہ کے مطابق جب زندگی گزارتے ہیں تو فرمایا کہ ایسا وقت آئے گا کہ لوگ سنت پہ عمل کریں گے تو ایسا ہوگا جیسے کوئی انگارہ ہاتھ پہ لے کے جارہا ہو، تو یہ مجاہدہ ہے یا نہیں ہے؟ اس سے زیادہ مجاہدہ اور کیا ہوگا؟ یہ مجاہدہ ہے۔ اب ایسی حالت میں اگر کوئی سنت نہ چھوڑے تو یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے اور اس مجاہدہ کے ذریعہ سے اصلاح ہوگی یا نہیں ہوگی؟ مطلب یہ ہے کہ مجاہدات تو اس میں ہیں لیکن وہ مجاہدات دوسری قسم کے ہیں، یعنی سنت پر قائم رہنے والے مجاہدات ہیں۔ سنت پہ قائم رہنے کے جو مجاہدات ہیں ان کے ذریعہ سے ما شاء اللہ ان کی اصلاح ہے۔ اور جو اوراد و اذکار ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ہاں! البتہ جو ان حضرات نے ما شاء اللہ کیفیت بتائی، میں تو حضرت عبدالخالق ازدوانی رحمۃ اللہ علیہ کی جو ترتیب ہے اس پہ حیران ہوگیا کہ انہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں میں ما شاء اللہ اتنا زبردست طریقہ بتایا ہے کہ اگر کوئی اس پر کامل رہے جیسے نگہداشت ہے، اور ہوش در دم ہے، سفر در وطن ہے۔ ان کی تشریحات اگر آدمی دیکھ لے تو سبحان اللہ اسی سے سارا سلوک طے ہوسکتا ہے۔ جیسے خلوت در انجمن ہے، یعنی اپنی نسبت مضبوط رکھو کہ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی آپ خلوت میں ہو۔ تو اپنے قلب کی اتنی نگہداشت اگر کرسکتے ہیں تو یہ مجاہدہ نہیں ہے؟ مطلب سارا سلوک ما شاء اللہ اسی کے ذریعہ سے طے ہوسکتا ہے۔

اصل میں بات یہ ہے کہ اگر ہم لوگ نقشبندی سلوک کو نقشبندی طریقہ پر طے کرنا چاہتے ہیں تو ان کے مزاج کو لانا پڑے گا اور اسی کے مطابق کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ اس کو آڑ بنا دیں اپنے نفس کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے۔ اپنے نفس کی سستی کے لئے بنیاد بنائیں کہ یہاں پر تو یہ بھی نہیں، یہاں پر تو یہ بھی نہیں۔ بھائی! یہاں سب کچھ ہے لیکن اس کے اپنے طریقہ پر ہے۔ اس طریقہ سے ان شاء اللہ اگر ہم کریں گے تو ہر طریقہ کے اندر ما شاء اللہ بہت فیض ہے۔ صرف یہ بات ہے کہ ہم اپنے نفس کو درمیان میں نہ لائیں۔ جو طریقہ جن کا ہے اس طریقہ سے، اس انداز سے اختیار کرلیں جس طریقہ سے انہوں نے کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ تمام سلاسل کے ساتھ محبت ہو اور جس سلسلہ میں اللہ پاک ہمیں دے رہے ہوں اس میں ہم لیتے رہیں اور سستی نہ کریں۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سلوک کی پہلی منزل طاعت - ہمعات - دوسرا دور