اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! اللہ جل شانہ نے دو عیدیں ہمیں نصیب فرمائیں، عید الفطر، اس کے بعد عید الاضحیٰ اور عیدالضحیٰ میں اللہ پاک نے حجاج کرام کو حج نصیب فرمایا، اللہ ان کے حجوں کو قبول فرمائے۔ اور ہمیں قربانی کی توفیق عطا فرمائی، اللہ ہماری قربانی کو قبول فرمائے۔ اور اللہ جل شانہٗ نے اپنی بڑائی بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اس کے لئے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی، اللہ پاک ہماری نمازوں کو بھی قبول فرمائے۔ اب جو آنے والا مہینہ ہے یہ ہے محرم، یہ بھی بہت اونچا مہینہ ہے اور بہت سی یادیں بھی اس کے ساتھ وابستہ ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ وفات بھی یکم محرم کا ہے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت بھی اسی محرم میں ہے اور محرم میں عاشورہ بھی ہے۔ عاشورہ کے بارے میں ایک بات عرض کروں، اس میں دو روزے رکھے جاتے ہیں، آپ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہود کو دیکھا کہ وہ دس محرم کا روزہ رکھ رہے ہیں، تو ان سے پوچھا کہ آپ کس لئے رکھ رہے ہیں یہ؟ انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو چونکہ اس دن نجات ہوئی تھی، ہم اس خوشی میں یہ روزہ رکھ رہے ہیں۔ فرمایا: پھر تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو ہمارے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے، وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک ہی ہے اسلام دو تین چار نہیں ہیں، جتنے بھی پیغمبر آئے ہوئے ہیں سب اسلام پر تھے۔
’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ‘‘ (آل عمران: 81)
ترجمہ: ’’بیشک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘۔
تو جتنے بھی پیغمبر آئے، وہ سب ایک ہی پیغام لے کے آئے حق کا پیغام، ایک ہی پیغام سارے پیغمبر لائے تو موسیٰ علیہ السلام اولو العزم پیغمبر ہیں بنی اسرائیل میں سے تھے اور اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام ہے، یعقوب علیہ السلام بیٹا ہے اسحاق علیہ السلام کا، اسحاق علیہ السلام بیٹا ہے ابراہیم علیہ السلام کا اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا بیٹا اسماعیل علیہ السلام ہے اور آپ ﷺ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہیں۔ تو یہ سارے ایک ہی بابا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ لہٰذا ایک ہی دین اور ایک ہی نسل ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم بھی روزہ رکھیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! کہیں اس سے یہود کی مشابہت تو نہیں ہوجائے گی؟ اس سے اندازہ ہوا کہ صحابہ کرام کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ مشابہت سے بچتے تھے۔ آج کل افسوس کی بات یہ ہے کہ اس چیز کو بہت لوگ بھول گئے ہیں، یعنی لوگ یہود و نصاریٰ کی کھلم کھلا مشابہت کرتے ہیں اور ان میں ذرہ بھر بھی خوف محسوس نہیں کرتے ہیں اور کمال کی بات ہے گناہ کی باتوں میں، حالانکہ وہ روزہ رکھنا تھا اور اللہ کے لئے روزہ رکھنا تھا، لیکن اس پہ بھی مشابہت کے لئے صحابہ کرام کو یہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ مشابہت تو نہیں ہوجائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں زندہ رہا، ان شاء اللہ اگلے سال ہم دو روزے رکھیں گے، یعنی اس کے ساتھ ایک ملا دیں گے، یا نواں ملا دیں گے یا گیارواں ملا دیں گے، یعنی یا نویں اور دسویں کا روزہ رکھیں گے یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھیں گے، جب یہ دو روزے ہوجائیں گے مشابہت ختم ہوجائے گی۔ اس میں وہ روزہ بھی آجائے گا جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی آزادی کے لئے رکھا جاتا تھا، وہ روزہ بھی آجاے گا اور ساتھ ایک اور روزہ رکھ کر مشابہت سے نکل جائیں گے۔ تو پتا چلا کہ اچھے کاموں میں بھی ہمیں اس بات کا احتیاط کرنا چاہئے کہ مشابہت کہیں ایسے لوگوں کے ساتھ نہ ہو جو مبغوض لوگ ہوں۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ محرم کا مہینہ یہ بہت ساری چیزوں کو لیے ہوئے ہے۔ اب ایک بات میں آج خصوصی طور پر عرض کرتا ہوں اور یہ باتیں آج کل بیان نہیں کی جاتیں، افسوس کی بات ہے۔ ان کو ممبر سے بیان کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کا ذہن صاف ہوجائے۔ آپ ﷺ کے ساتھی اس حد تک اللہ پاک کے پسندیدہ حضرات اور خواتین کہ ان کو ایسی تشبیہ دی کہ یہ لوگ ایسے ہیں جیسے کھیتی سے ایک کونپل نکلتا ہے کمزور، پھر آہستہ آہستہ اس کے اندر قوت آجاتی ہے، پھر اس کا تنا بن جاتا ہے پھر وہ تنا مضبوط ہوتا جاتا ہے اور اپنے تنے پہ کھڑا ہوجاتا ہے اور بڑی سخت آندھیاں بھی آتی ہیں اس کو نہیں ہلا سکتیں۔ تو پہلے جو صحابہ کرام تھے نئے نئے جو آئے تھے، وہ کمزور تھے مکہ مکرمہ میں، پھر آہستہ آہستہ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے، ان میں طاقت آتی گئی، حتیٰ کہ ایسا ہے کہ بڑوں بڑوں کو شکست دی، اپنی طاقت کے اوپر کھڑے ہوگئے۔ اور پھر اللہ پاک ایک عجیب بات فرماتے ہیں، فرمایا یہ باتیں میں اس لئے بتا رہا ہوں، ان کی تعریف میں اس لئے کررہا ہوں، تاکہ کفار کے دل جلیں:
’’لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ‘‘ (الفتح: 29)
ترجمہ: ’’تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے‘‘۔
اب بات کس کی ہورہی ہے؟ صحابہ کی ہورہی ہے۔ اللہ پاک کیوں بیان فرما رہے ہیں؟ تاکہ کفار کے دل جلیں۔ صحابہ کرام سے کس کا دل جلتا ہے؟ بات سمجھ میں آرہی یا نہیں آرہی؟ ان کے لئے پیغام موجود ہے، جن کا صحابہ کے تذکرہ سے دل جلتا ہے، اللہ پھر ان کے ساتھ اسی طرح معاملہ کرتا ہے، ان کے دلوں کو جلاتے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگایا، پتا چلا کہ صحابہ کرام کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن آج ایک اور اہم نکتہ میں بیان کرنے والا ہوں، جس کا میں عرض کر رہا ہوں یہ بات، یہاں تک تو سب میرے ساتھ ہیں۔ لیکن آج ایک بات اور بہت اہم بیان کرنے والا ہوں، جس کا ذکر آپ کو بہت کم ملے گا لیکن وہ ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ صحابہ کون ہیں، صحابہ کا تعارف کیا ہے، صحابہ کون لوگ ہیں، صحابہ تین گروپوں پر مشتمل ہیں، تین گروہوں پر مشتمل ہیں: وہ صحابہ جن کا آپ ﷺ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا، جن کا آپ ﷺ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا، لیکن ایمان کا رشتہ تھا۔ باہر، حضر، سفر کے ساتھی تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ سب اونچے درجہ کے صحابہ ہیں، بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ خلفاء راشدین ہیں، تو ان کا بہت اونچا مقام ہے، یہ صحابہ کا ایک گروہ ہے۔
دوسرا صحابہ کا گروہ وہ ہے جو اہل بیت ہیں، جو گھر کے لوگ ہیں جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسنین کریمین، یہ حضرات گھر کے افراد ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے! کسی کی مخالفت میں ہم حق سے روگردانی نہ کریں، کیوں کہ بھگتنا پھر ہمیں ہی پڑے گا، ان کو تو کچھ نہیں ہوگا، بھگتنا ہمیں ہی پڑے گا، حق سے روگردانی نہ کریں۔ اب حق سے روگردانی کا مطلب کیا ہے؟ اگر کوئی صحابہ کی مخالفت کرتا ہے اور اہل بیت کا اپنے آپ کو ساتھی بتاتے ہیں، کیا ہمیں جرات ہوسکتی ہے کہ ہم اہل بیت کی مخالفت کریں، کیا یہ جرات ہوسکتی ہے؟ بھئی! اہل بیت صحابہ نہیں ہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ صحابی نہیں ہیں؟ کیا فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ نہیں ہیں؟ کیا حسنین کریمین صحابی نہیں ہیں؟ وہ بھی تو صحابہ ہیں۔ ہاں! ان کا ایک اور تعارف بھی ہے اور وہ تعارف کیا ہے؟ وہ آپ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، آپ ﷺ کے اہل بیت بھی ہیں۔ تھوڑا سا میں آپ حضرات کو سمجھانے کے لئے عرض کرتا ہوں، ایک کتاب ملتی ہے چہل حدیث شریف، مقبول وظیفہ، جس میں حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے پچیس صیغے درود شریف کے اور پندرہ صیغے سلام کے جمع کیے ہیں صحیح احادیث شریفہ سے، جو پچیس صیغے درود شریف کے ہیں ان میں سے بائیس میں اہل بیت کا ساتھ ذکر ہے:
’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ کون ہوگئے؟ آلِ محمد کون ہیں؟ ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ، وَعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ‘‘۔
یہ وہ درود پاک ہے جس کو افضل ترین درود پاک کہا جاتا ہے، جس کو نماز میں ہم پڑھتے ہیں۔ اس میں کس کا ذکر ہے؟ آل رسول کا ذکر ہے، آل رسول کا ذکر ہے۔ اس طریقہ سے بائیس صیغے ایسے ہیں اس میں، صحیح احادیث شریفہ کے کہ جس میں آل کا ذکر ہے، تین چار صیغے ایسے ہیں جس میں باقی صحابہ کا ذکر ہے۔ اور غالباً دو تین ایسے ہیں جن میں امہاتُ المؤمنین کا بھی ذکر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ نَعُوْذُ بِاللہِ ان کا مقام کم ہے، نہیں! ان کا مقام کم نہیں ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے؟ بس صرف میرا مطلب یہ ہے کہ دیکھو! صحیح احادیثِ شریفہ سے اہلِ بیت کا مقام ثابت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اہلِ بیت کو چھیڑنا بہت خطرناک، اپنے آپ کو انگاروں کے حوالے کرنا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تو اہلِ بیت صحابہ رضوان اللہ اجمعین جو ہیں، ان کو اسی محبت کے ساتھ دیکھنا ہے جس محبت کے ساتھ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں۔
خدا کے بندو! کہیں اپنے آپ کو غرق نہ کرو، اہل بیت کی مخالفت نہ کرو، اہل بیت کا مقابلہ باقی صحابہ کے ساتھ نہ کرو، سارے اچھے ہیں، صحابہ بھی اچھے ہیں، اہل بیت بھی اچھے ہیں اور امہات المؤمنین بھی اچھی ہیں۔ سب میں بڑے بڑے لوگ موجود ہیں، حضرت فاطمۃ الزہراء ’’سَیِّدَۃُ النِّسَاءِ فَاطِمَۃُ الزَّھْرَاءِ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا‘‘، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ: ’’سَیِّدَا شَبَابِ اَہلِ الْجَنَّۃِ‘‘ یہ الفاظ کس کے ہیں؟ آپ ﷺ کے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سَیِّدَا شَبَابِ اَہلِ الْجَنَّۃِ‘‘۔ ایک دن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ کندھے پر سوار کرکے آرہے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا، خوشی سے کہا: ما شاء اللہ! کیسی اچھی سواری پائی ہے، (واہ سبحان اللہ) امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے، کندھے پہ سوار کرکے آپ ﷺ تشریف لا رہے ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی سے کہا: ما شاء اللہ! کیسی اچھی سواری پائی ہے۔ تو آپ ﷺ کیا فرما رہے ہیں؟ سوار بھی کتنا اچھا ہے، سوار بھی کتنا اچھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو! اتنا پیار آپ ﷺ کا ان کے ساتھ، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اسی طرح امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑکھڑا لڑکھڑا کے آرہے ہیں، آپ ﷺ خطبہ پڑھ رہے ہیں، خطبہ چھوڑ کے ان کو اٹھا لیا اور یہ کبھی کبھی آپ ﷺ کے کندھے پہ نماز کی حالت میں سوار ہوجاتے تھے، بچے تھے، آپ ﷺ اس وقت تک سر نہ اٹھاتے جس وقت کہ وہ اتر نہ جاتے، یہ ہے محبت۔
اور آپ ﷺ کا فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ یہ معاملہ تھا جب آپ ﷺ تشریف لے جاتے فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے، تو وہ کھڑی ہوجاتیں، آپ ﷺ کا استقبال کرتیں، پھر وہ آپ ﷺ کو لے کر اپنی جگہ پر بٹھا دیتیں اور آپ ﷺ کے پاس جب فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تشریف آوری ہوتی، آپ ﷺ ان کے استقبال کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر ان کو لے کر اپنی جگہ پر ان کو بٹھا دیتے۔ یہ ہے بات، مطلب یہ ہے کہ اتنی محبت۔ اور سب سے پہلے جس وقت باہر سے تشریف لاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم، سب سے پہلے حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ملاقات فرماتے اور جس وقت جاتے کہیں سفر پہ، سب سے آخری ملاقات فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہوتی، کیسی محبت ہے۔ اور یاد رکھئے کہ جس وقت آپ ﷺ کی وفات ہورہی تھی اور تکلیف تھی آپ ﷺ کو، فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے لگ گئیں، ہائے میرے ابا جان کی تکلیف! آپ ﷺ نے فرمایا: آج کے بعد تیرے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، آج کے بعد تیرے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ ﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا، فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے لگ گئیں، پھر دوبارہ کان میں کچھ کہا، پھر ہنسنے لگیں، اپنے اس راز کو اپنے ساتھ رکھا، اخیر میں لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات تھی کہ ایک دفعہ آپ رونے لگ گئیں دوسری دفعہ آپ ہنسنے لگیں۔ فرمایا: مجھے آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرا آخری دن ہے میں جانے والا ہوں۔ تو میں رونے لگ گئی، پھر آپ ﷺ نے دوسری بار فرمایا: سب سے پہلے تم میرے ساتھ آملو گی، سب سے پہلے تم میرے ساتھ آملو گی۔ تو اس پر میں ہنسنے لگی۔ یہ ہے پیار صحابہ کرام کے ساتھ اور اہلِ بیت کے ساتھ اور پھر امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن اجمعین ان کی بات سبحان اللہ! حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زینت رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور اس طرح ساری جو امہات المؤمنین ہیں ان کا بہت اونچا مقام ہے، جنت میں آپ ﷺ کے ساتھ رہیں گی۔ تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ ان تینوں گروہوں کی قدر کرنی چاہئے۔ اگر کوئی ان میں سے کسی کا مخالف ہے اور وہ کسی کی حمایت کا دعویدار ہے، ہم اُن کی وجہ سے جس کا وہ دعویدار ہے، ان کے مخالف نہیں ہوں گے۔ دیکھو! کیا ہے؟ اعتدال۔ یہ امت اعتدال والی امت ہے، امت وسطیٰ ہے، یہ اعتدال والی امت ہے، اس میں اعتدال پہ سب کو رکھا جاتا ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو کسی طرف سے انتہا پسندی پہ نہیں جانا چاہئے۔ سارے صحابہ کرام جتنے بھی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہیں اور ہم لوگ ان کے راستے پہ ہیں۔
آپ ﷺ نے ایک موقع پہ فرمایا: گزشتہ امتوں میں یہود میں اکہتر فرقے ہوگئے، نصاریٰ میں بہتر فرقے ہوگئے، میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوجائیں گے، صرف ایک حق پر ہوگا۔ صحابہ کرام ڈر گئے، پوچھا یارسول اللہ! کون ہوں گے جو حق پر ہوں گے جو نجات پائیں گے؟ فرمایا:
’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (سنن ترمذی: 2641)
ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں‘‘۔
تو قانون بتاتا ہوں، قانون کیا ہے؟ جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے، جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے ان میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں، جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے ان میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں۔ ورنہ اگر اہلِ بیت کا ذکر آئے تو وہ اصحاب جو اہل بیت بھی ہیں، اگر امھات المؤمنین کا ذکر آتا ہے تو وہ صحابیات جو امھات المؤمنین ہیں، ان کا اپنا ایک الگ تعارف بھی ہے، لیکن یہ بات ہے کہ ہیں سارے صحابہ۔ تو یہاں جس کے بارے میں فرمایا: ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں۔ اصل میں ان میں یہ تینوں آجاتے ہیں۔ نصف علم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا، نصف علم عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کرام پوچھنے کے لئے حاضر ہوجاتے اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اور پوچھتے اور اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو جواب دیتیں۔ ایک دفعہ اس طرح ایک مسئلہ تھا جس میں ظاہر ہے وہ صحابی پوچھنے میں شرم محسوس کررہے تھے، لیکن آپ ﷺ کا وہ طریقہ معلوم کرنے کے لئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے معلوم بھی کرنا ضروری تھا، کیونکہ وہ صرف امھات المؤمین کو ہی معلوم ہوسکتا تھا، تو شرم کرنے لگے، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بیٹا! شرم نہ کیا کرو میں تمھاری ماں ہوں پوچھو میں جواب دوں گی، اور پھر اس کے بعد انہوں نے مسئلہ پوچھا اور اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ تو آدھا علم آپ ﷺ کی طرف سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتقل ہوا، ان کی جو کم عمری میں شادی ہوئی ہے اس کے پیچھے علماء کرام یہی حکمت بتاتے ہیں، کیونکہ اگر کم عمری میں شادی نہ ہوتی ان کو اتنا موقع نہ ملتا آپ ﷺ سے اخذ کرنے کا، اس کے لئے ایک قوی ذہن کی ضرورت تھی اور ہر وقت ساتھ رہنے والی کی ضرورت تھی جو کہ زوجہ محترمہ ہی ہوسکتی تھیں، تو اللہ پاک نے ان کو چن لیا، آپ لوگوں کو پتا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کس نے پڑھایا تھا؟ اللہ جل شانہٗ نے، اللہ جل شانہٗ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح پڑھایا تھا۔ تو پتا چل گیا کہ کس مقصد کے لئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چن لیا گیا تھا۔ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اگر خدانخواستہ کسی بدزبانی کے ساتھ ذکر کیا تو تباہی والی بات ہے۔ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پہلے اماں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا آپ ﷺ پر، اپنا مال قربان کرلیا، اپنی جان قربان کرلی تھی، سب کچھ قربان کرلیا تھا۔ اس وجہ سے آپ ﷺ ان کا بہت ہی زیادہ محبت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ان کا کیوں اس طرح ذکر کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے میرے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ تو معلوم ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دیکھو! یہ سب ما شاء اللہ ہماری مائیں ہیں، ہم ان کے لئے ما شاء اللہ بیٹوں کی طرح ہیں اور ہمارے جذبات ان کے لئے ایسے ہی ہونے چاہئیں۔ اور اہل بیت سبحان اللہ!
جو امام مہدی علیہ السلام آئیں گے وہ بھی اہلِ بیت میں سے ہوں گے، مطلب اہلِ بیت کی اولاد میں سے ہوں گے، حسنی بھی ہوں گے حسینی بھی ہوں گے، باپ کی طرف سے حسنی ہوں گے ماں کی طرف سے حسینی ہوں گے۔ یہ میں اس لئے باتیں کررہا ہوں کہ معاملہ بہت قریب قریب آنے والا ہے، معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اللہ خیر کرے! پتا نہیں حالات کیا بننے والے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے وقت میں ہی دجال کا ظہور ہوجائے، ممکن ہے امام مہدی علیہ السلام ہمارے وقت میں ہی آجائیں، جتنی تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں۔ تو یاد رکھئے! اگر کسی کو اہل بیت کے ساتھ بغض ہوا وہ امام مہدی علیہ السلام کے پاس نہیں آسکیں گے اور امام مہدی علیہ السلام کی حالت یہ ہوگی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر برف کے پہاڑ پر پھسلنے سے کام بنتا ہو اور آپ امام مہدی تک پہنچ سکتے ہوں تو پہنچو! ان سے بیعت کرنے کے لئے۔ چاہے برف کے پہاڑ سے پھسلنا پڑے، اتنی زیادہ لازمی بات ہوگی ان کی بیعت میں آنا یعنی جتنا مشکل بھی ہو تب بھی اس کو کرنا ہے۔اگر کسی کو اہل بیت کے ساتھ بغض ہوگا، ان کے قریب جاسکیں گے؟ وہ حسنی بھی ہیں حسینی بھی ہیں۔
میں آپ کو صاف ستھری بات بتاؤں! اللہ پاک ہادی برحق ہیں، اللہ پاک ہادی برحق ہیں، آپ ﷺ اسمِ ہادی کے مظہر ہیں، یعنی ہدایت کس کے ذریعہ سے ملتی ہے؟ آپ ﷺ کے ذریعہ سے، ایک ہی راستہ اللہ تعالیٰ نے چنا ہے اور وہ ہے آپ ﷺ کا طریقہ، آپ ﷺ کی اس ہدایت کو لینے کے لئے ہمارے پاس تین راستے ہیں۔
پہلا راستہ عام صحابہ کرام، دوسرا راستہ اہل بیت کرام، تیسرا راستہ صحابیات میں سے جو امھات المؤمنین ہیں۔جنہوں نے تینوں راستوں کو لے لیا انہوں نے پورا دین لے لیا ہے، کیونکہ کچھ روایتیں اِن سے ہیں، کچھ اِن سے ہیں، کچھ اِن سے ہیں، دین تو مختلف راستوں سے آیا ہوا ہے ہمارے پاس، اگر کسی نے عام صحابہ سے لیا اور اہل بیت سے نہیں لیا تو وہ ناقص دین لے لیا انہوں نے، کم، کچھ لے لیا، بات سمجھ آرہی ہے یا نہیں؟ یا امھات المؤمنین سے نہیں لیا، کچھ کم لے لیا، جنہوں نے ان میں سے کسی ایک سے نہیں لیا تو کم لے لیا، اور جنہوں نے ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کی، چاہے صحابہ کی مخالفت کی، چاہے اہل بیت کی مخالفت کی، چاہے امھات المؤمنین کی مخالفت کی، انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، کیوں کچھ بھی نہیں لیا؟ انہوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کی۔ کیونکہ ان میں سے تینوں کے بارے میں آپ ﷺ کے اقوال موجود ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عام صحابہ کے بارے میں موجود ہیں:
’’اَصْحَابِيْ كَالنُّجّوْمِ فَبِاَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکٰوۃ المصابیح: 6018)
ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن کے پیچھے جاؤ گے ہدایت پا لو گے‘‘۔
اہل بیت کے بارے میں، اہل بیت کیا ہیں؟ یہ تو کشتی کی مانند ہیں، نوح علیہ السلام کی کشتی، جو اس میں سوار ہوگیا بچ گیا ورنہ پھر! ان کے بارے میں ہے۔ اور ان میں اہل بیت یہ آپس میں ملے رہیں گے، حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے ساتھ ملیں گے۔ آپ یقین کیجئے جو ہمارے چاروں امام ہیں، آپ یقین کیجئے چاروں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ چاروں اہل بیت کے ساتھ تھے، چاروں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ براہ راست حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، جو امام جعفر صادق کا بیٹا تھا ان کے خلیفہ ہیں، یہ چاروں ما شاء اللہ ان کے ساتھ شامل ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان کو پتا تھا۔ ایک دفعہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے، پتا نہیں تھا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو، وہ فتوؤں کے جوابات دے رہے تھے، استفتاؤں کے جوابات دے رہے تھے۔ تو کسی نے کان میں کہا حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں پر ہیں، تو حضرت کا چہرہ زرد ہوگیا، کہا اچھا میں ان کے سامنے باتیں کررہا ہوں، تو اٹھ کر ڈرتے ڈرتے حضرت کے پاس پہنچ گئے، حضرت غلطی ہوگئی مجھے پتا نہیں تھا، آپ آئیے اپنی مسند پر تشریف فرما ہوں، آپ سے ہم پوچھیں گے آپ جواب دیں گے، میری کیا حیثیت ہے کہ میں آپ کے ہوتے ہوئے سوالوں کے جواب دوں۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا میں نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، آپ کی کوئی بات ہمارے آباؤ اجداد کی بات کے خلاف نہیں ہے، آپ جواب دیتے رہیں۔ یہ وہ سند ہے حضرت کے ساتھ سبحان اللہ! امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تم جواب دیتے رہو اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’لَوْلَا سَنَتَانِ لَهَلَکَ النُّعْمَانُ‘‘ اگر وہ دو سال میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نہ گزارے ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تو ما شاء اللہ عاشقانہ الفاظ ہیں، مجھے وہ عربی کا شعر یاد نہیں ہے، لیکن مفہوم سناتا ہوں فرمایا اے حج کو جانے والے، منیٰ کو جانے والے ثقلین گواہ رہیں، یعنی جن و انس گواہ رہیں اگر اہل بیت کے ساتھ محبت رفض ہے ’’فَاَنَا رَافِضِیٌّ‘‘ تو میں رافضی ہوں۔ ’’اِذَا کَانَ حُبُّ اَہْلِ البَیْتِ رِفْضاً فَاَنَا رَافِضِیٌّ‘‘ یہ فرمایا اگر اہل بیت کے ساتھ محبت رفض ہے تو میں رافضی ہوں۔ بتاؤ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں۔ افسوس کی بات ہے! کہ آج کل ان چیزوں سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا جارہا، لوگ اپنی اپنی باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں ادھر ادھر کی باتیں کرلیں گے، اصل بات کی طرف نہیں آئیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب کو جمع کرلو، سب کو جمع کرو، امت کو جمع کرو امت کے اندر توڑ نہ بناؤ امت کے اندر جوڑ پیدا کرو، امت کے اندر محبت کو پیدا کرو۔ مجھ سے ایک گروہ جو کہ صحابہ کے خلاف ہے اس کی ایک بچی نے فون پر پوچھا! شاہ صاحب آپ لوگوں کو جوابات دیتے ہیں میرے ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا بیٹا بتاؤ کیا سوال ہے؟ انہوں نے کہا شیعہ اور سنی کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ شیعہ اور سنی کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ میں نے کہا بیٹا بات یہ ہے کہ ہمیں تین راستوں سے دین مل رہا ہے، آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ کو اللہ پاک سے ملا ہوا ہے، تو ایک ہیں عام صحابہ، ایک ہیں اہل بیت اور ایک ہیں امھات المؤمنین۔ جنہوں نے سب سے لیا انہوں نے پورا لے لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی سے لیا اور کسی سے نہیں لیا انہوں نے ناقص لے لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی کی مخالفت کی انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، تو ہم سب کے ساتھ ہیں۔ فرمایا میں سمجھ گئی، مجھے آپ وظیفہ دے دیں، میں سمجھ گئی، مجھے آپ وظیفہ دے دیں۔
مقصد یہ ہے کہ یہ بالکل direct باتیں ہیں یہ کوئی ادھر ادھر کی باتیں نہیں ہیں، ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں کھلی باتیں ہیں۔ خدا کے بندو! اگر اپنے آپ کو بچانا ہے، تو آپ ﷺ کے جو بھی محبوبین ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ نفرت نہ کرو، ان میں سے کسی کے ساتھ نفرت نہ کرو جو بھی آپ ﷺ محبوبین ہیں، اور اللہ پاک کے محبوب کے کسی حکم کی مخالفت نہ کرو، بے شک عمل نہ ہو، کیونکہ انسان ہے کمزور ہے، عمل میں کمزوری آسکتی ہے، مخالفت نہ کرنا مثلاً داڑھی کا مذاق نہ اڑاؤ، داڑھی کا مذاق نہ اڑاؤ۔ ٹخنوں سے پاجامہ اوپر ہونے کا مذاق نہ اڑاؤ، مسواک کا مذاق نہ اڑاؤ، ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہ آپ ﷺ کے طریقے ہیں اگر آپ کو نصیب نہیں ہیں تو بدبخت اپنے آپ کو مزید بدبخت تو بناؤ ناں، تمھاری پسند نا پسند سے تو یہ چیز تو نہیں بدل سکتی۔ یہ حضور ﷺ کا طریقہ ہے، داڑھی کی مخالفت، لوگ کہتے ہیں داڑھی میں اسلام نہیں ہے، خدا کے بندو! داڑھی میں اسلام نہیں اسلام میں داڑھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ کہ داڑھی کی مخالفت کرو، داڑھی کی مخالفت میں کفر کا اندیشہ ہے، داڑھی کی مخالفت میں کفر کا اندیشہ ہے۔ کیوں؟ آپ حضور ﷺ کی سنت کی مخالفت کررہے ہیں، مسواک کی مخالفت یا آپ ﷺ کے لباس کی مخالفت، آپ ﷺ کے کسی طریقہ کی مخالفت، بہت خطرناک ہے۔کبھی کسی سنت کی مخالفت نہ کرنا۔آپ ﷺ کا طریقہ اگر تمھیں نصیب نہیں ہے اپنے آپ کو کمزور سمجھو، اپنے آپ کو گناہگار سمجھو اور اللہ پاک سے توفیق مانگو کہ اللہ پاک آپ کو نصیب فرما دے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب نے ایک موقع پر، حالانکہ حضرت تقریریں نہیں کیا کرتے تھے، لیکن کچھ تقریریں جو حضرت کی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے جو میں نے سنی ہے۔ فرمایا: دیکھو! شوگر کا مریض میٹھا نہیں کھا سکتا، شوگر کا مریض میٹھا نہیں کھا سکتا، لیکن کیا وہ میٹھے کی برائی کرتا ہے؟ کہ میٹھا اچھی چیز نہیں ہے، اس کا دل کڑہتا ہے کہ کاش! میں بھی میٹھا کھا سکتا ہوتا۔ اس طرح اگر آپ کسی سنت پر عمل پیرا نہیں تو اس کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اس پر کڑہنا چاہئے کہ کاش! مجھے بھی نصیب ہوجائے، بس یہ چند باتیں تھیں۔ اللہ مجھے بھی اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ