فطرت اور عبادت: اسلام کا آفاقی نظام

درس نمبر 12 : ( یہ بیان 11جون 2020 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام کا نظامِ عبادت توحید اور فطرت پر مبنی ہے، جو کسی خاص جگہ یا عمارت تک محدود نہیں۔ پوری زمین مسلمانوں کے لیے مسجد ہے اور قبلہ کا مقصد محض اتحاد ہے، نہ کہ قید۔ حج کے ارکان، بالخصوص احرام، انسان کو دنیاوی تکلفات سے نکال کر اپنی طبیعت کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا درس دیتے ہیں۔ اس والہانہ انداز کو چشتی سلسلے کی روحانیت سے تشبیہ دی گئی ہے، جبکہ نقشبندی سلسلے کے وقار اور متانت کو بھی ایک اہم روحانی خوبی قرار دیا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ اور مجدد الف ثانیؒ کی مثالوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ نے دونوں طریقوں سے دین کا کام لیا ہے۔ بیان کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام روحانی سلسلوں کی خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ وہ ہر جہت سے فیض حاصل کر سکیں۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

توحید اور فطرت کے مطابق اسلام کا نظامِ عبادت

آج کل ہم ’’سیرت النبی‘‘ جو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ہے، اس کے حصۂ پنجم سے کچھ اہم باتیں الحمد للہ! بیان کرتے رہتے ہیں۔

مکان کی قید نہیں:

ہر مذہب نے اپنی عبادت کو اینٹ اور چونے کی چہار دیواری میں محدود کیا ہے۔ بت خانوں سے باہر پوجا نہیں، آتش خانوں سے الگ کوئی نماز نہیں، گرجوں کے سوا کہیں دعا نہیں اور صومعوں سے نکل کر کوئی پرستش نہیں، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقہ میں نہ کسی در و دیوار کی ضرورت، نہ محراب و منبر کی حاجت، وہ دیر و حرم معبد و صومعہ اور مسجد و کنیسہ سب سے بے نیاز ہے، زمین کا ہر گوشہ بلکہ پہنائے کائنات کا ہر حصہ اس کا معبد اور عبادت خانہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا "مجھے اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی خصوصیتیں عنایت کیں جو مجھ سے پہلے پیغمبروں کو نہیں دی گئیں, من جملہ ان کے ایک یہ ہے:

’وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا‘‘۔ (صحیح بخاری: 335)

’’اور میرے لئے تمام روئے زمین سجدہ گاہ بنا دی گئی‘‘۔

تم سوار ہو کہ پیادہ، گلگشت چمن میں ہو کہ ہنگامہ کارزار میں، خشکی میں ہو کہ تری میں، ہوا میں ہو کہ زمین پر، جہاز میں ہو کہ ریل پر، ہر جگہ خدا کی عبادت کرسکتے ہو اور اس کے سامنے سجدہ نیاز بجا لا سکتے ہو، یہاں تک کہ اگر تم کسی غیر مذہب کے ایسے معبد میں ہو جس میں سامنے اور مجسمے نہ ہوں تو وہاں بھی اپنا فریضہ عبادت ادا کرسکتے ہو۔

خاص خاص عبادتوں کے وقت مختلف سمتوں اور چیزوں کی طرف رخ کرنا بھی ہر مذہب میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کو ایک واحد رخ پر مجتمع کرنے کے لئے تاکہ ان میں وحدت کی شان نمایاں ہو مسلمانوں کے لئے بھی کسی ایک سمتِ خاص کی حاجت تھی اور اس کے لئے اسلام میں مسجد ابراہیمی کی تخصیص کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں خدائے واحد کی پرستش کا پہلا مقام ہے، لیکن اس کی حیثیت وہ نہیں قائم کی گئی، جو دوسرے مذاہب کے قبلوں کی ہے۔ اسلام کا قبلہ شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کی حدود سے پاک ہے، وہ ستاروں کے رخ یا چاند اور سورج کے مواجہ کا قائل نہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان ہر سمت اور ہر جہت سے اس کی طرف رخ کرتے ہیں، مغرب سے بھی، مشرق سے بھی، شمال سے بھی اور جنوب سے بھی۔ کسی ایک سمت کی تخصیص نہیں اور خود خانہ کعبہ کے صحن میں بیک وقت ہر جہت اور ہر سمت سے اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی سبب سے اس رخ کا بھی پتا نہ لگ سکے تو جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی خدا ہے۔ چنانچہ کسی چلتی ہوئی سواری پر سفر کرنے کی حالت میں اور عام نفل نمازوں کی درستی کے لئے قبلہ کی بھی تخصیص نہیں، جدھر سواری کا رخ ہو، ادھر ہی سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ لڑائیوں میں ہر رخ پر نماز برابر ادا کی جاسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ کعبہ کی عمارت باقی نہ رہے، تب بھی اس رخ کھڑا ہوجانا کافی ہے۔ کعبہ کے اندر کھڑے ہوکر جدھر چاہو سر جھکا دو۔

خانہ کعبہ وہ جگہ ہے، جس کو اللہ جل شانہٗ نے ہمارا قبلہ قرار دیا ہے اور اس کی جدید تعمیر کے لئے اللہ جل شانہٗ نے جس پیغمبر کو چن لیا، وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ نماز میں ہم جو نیت کرتے ہیں، اس کے جو الفاظ ہیں، وہ انہیں تمام چیزوں کے لئے ہیں، جن پر ابھی بات ہو رہی ہے۔

﴿اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الانعام: 162)

ترجمہ: ’’بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔

یعنی گویا کہ اس کے اندر بھی جو پیغام ہے، وہ یہی ہے۔ حج کے اندر بھی اگر دیکھیں تو سارے کے سارے جو احکامات ہیں، وہ یہی ہیں کہ وہ ان لوگوں کی نشانیاں ہیں، جنہوں نے سب کچھ اللہ پہ لوٹا دیا ہے۔ ہمارا جو مذہب ہے، وہ رسومات سے، تکلفات سے پاک بلکہ تکلفات کو دور کرتا ہے۔ جیسے احرام ہے، یہ تکلف کو دور کرنے کی علامت ہے کہ کم سے کم آپ کو ستر ڈھانپنے کے لئے دو چادریں چاہئیں تو وہ آپ کے لئے کافی ہیں، اس کے علاوہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پہ آپ کو کم از کم چند دن کے لئے لایا جاتا ہے کہ آپ یہ قدرتی زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ لیں کہ قدرتی زندگی یعنی جتنا انسان کے لئے ضروری ہے، بس وہ کافی ہے، اس پر آپ کو لایا جاتا ہے۔ اب واقعی بڑے ناز و نعم میں پلے ہوئے لوگ، بڑے نازک انداز میں چلنے والے لوگ، بڑے سلیقے سے اپنے لباس کو استعمال کرنے والے لوگ، وہاں جب جاتے ہیں، تو وہاں ان کی یہ چیز گویا کہ crush کی جاتی ہے (ویسے crush کہنا میرے خیال میں زیادہ اس کے لئے مناسب ہوگا) کہ وہاں پر جتنا میل کچیل ہوتا ہے حاجی کا، تو اتنا ہی زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے۔ میری بیٹی فوت ہوئی تھی بچپن یعنی چار سال کی عمر میں، تو میری بھانجی نے خواب دیکھا کہ وہ مٹی میں کھیلتے کھیلتے ابراہیم علیہ السلام کی گود میں چڑھ گئی۔ ویسے بھی ہمارا نظریہ یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس بچوں کی ارواح جاتی ہیں، ان کے ہاں جمع ہوتی ہیں۔ تو میری بھانجی کہتی ہے کہ میں نے کہا: اے ابراہیم علیہ السلام! یہ تو ابھی ابھی کھیل کے آئی ہے، اس سے تو آپ کے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ نہیں، مجھے ایسے بچے اچھے لگتے ہیں۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ وہاں پر احرام کی حالت کا جو میلا کچیلا ہونا ہے، اس کو آپ پاک کرنے کے لئے تو دھو سکتے ہیں، میل کچیل دور کرنے کے لئے نہیں۔ خود نہا سکتے ہیں یعنی اگر ضرورت ہو نہانے کی یا ٹھنڈک کے لئے نہانا ہو، تو نہا سکتے ہیں، لیکن میل کچیل دور کرنے کے لئے نہیں۔ کیوں کہ وہ میل کچیل اللہ کو پسند ہے اور جب پسند ہے تو پھر حاجی وہی کرے گا جو اللہ کو پسند ہے۔ چونکہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے تو گیا ہے۔ اور تکلف کو بھی دور کیا گیا ہے کہ زور زور سے ’’لَبَّيْكَ، اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ‘‘ کہے اور خون بہانا لوگ ظلم سمجھتے ہیں، چیخنا چلانا بد تہذیبی سمجھتے ہیں اور میل کچیل کو پسند نہیں کیا جاتا، لیکن تینوں چیزیں یعنی تین directions ہیں کہ باقاعدہ ان چیزوں کو crush کیا جاتا ہے کہ وہ میلا کچیلا رہے (اگرچہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نفاست پسند ہے، اچھی بات ہے، لیکن یہاں نہیں) آپ کو اس سے للٰہیت کا انتہائی اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے کہ میری طبیعت بھی اللہ پہ قربان ہے کہ میں طبیعت کا خیال نہیں رکھوں گا، اللہ تعالیٰ جس چیز سے راضی ہو، بس وہی ٹھیک ہے۔ پس طبیعت کو قربان کرنے والا یہ جو عمل ہے، یہ صرف حج میں ایک نمونہ دکھایا جاتا ہے، کسی اور جگہ نہیں۔ اس وجہ سے حج جس نے نہیں کیا ہو، اور اس کے اوپر فرض ہو، تو اس کے اندر ایک کمی پائی جائے گی، وہ کمی کسی اور چیز سے دور نہیں ہوسکتی، وہ صرف حج کے ذریعہ سے ہی دور ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بغیر اگر یہ دنیا سے چلا گیا، تو اس کے لئے بڑی ہی خطرناک وعید ہے کہ اللہ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرتا ہے یا عیسائی ہوکر مرتا ہے۔ گویا کہ اس نے وہ چیز نکالی نہیں، جو چیز حج سے نکلتی ہے، وہ اپنی طبیعت کا ابھی پابند ہے، طبیعت میں وہ گھرا ہوا ہے۔ وہ جو والہانہ پن ہے اللہ کی محبت میں، تو (وہ اس کا اس نے اظہار نہیں کیا)۔ ایک بات بار بار دل میں آرہی ہے، میں کر ہی لوں تو اچھا ہے۔ یہ میں تنقیص کے طور پہ نہیں کررہا ہوں، لیکن میں کہتا ہوں جو ان کی تنقیص کرتا ہے، اس کا جواب کم از کم میں دے سکتا ہوں۔ نقشبندی حضرات میں وقار ہے اور یہ بھی بہت زبردست ہے، اگر اللہ کے لئے ہو۔ اور چشتیوں میں والہانہ پن ہے یعنی وہ جو بالکل مٹنے والا اور اپنی چیز کی پروا نہ کرنے والا انداز،

سوختن افروختن و جامہ دریدن

پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموختن

تو حج کیا بہت زیادہ ان چیزوں کے قریب قریب نہیں ہے؟ یعنی حج کے جو اعمال ہیں، وہ زیادہ چشتیت کے قریب ہیں کہ چشتی بزرگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ پہلے سے وہ اسی لائن پر ہیں۔ جیسے مفتی مختار الدین شاہ صاحب، کسی وقت کسی نے ان کے خلاف باتیں کی تھیں، تو انہوں نے کہا کہ عزت کیا ہے؟ ہم نے عزت کے کپڑوں کو پہلے سے جلایا ہوا ہے، ہماری کون عزت کرتا ہے، کون نہیں کرتا، اس کی تو ہمیں پروا ہی نہیں۔ تو یہ انداز ہے، اس لحاظ سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہر سلسلے کے اندر ایک خاص چیز ہے، لہٰذا اس کی قدر تو کرنی چاہئے۔ باقی! میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ نقشبندی سلسلہ ان چیزوں سے خالی ہے۔ یہ جو شعر پڑھا ہے میں نے ابھی، یہ ایک نقشبندی بزرگ کا ہے یعنی مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

سوختن افروختن و جامہ دریدن

پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموختن

لہٰذا اب اگر کوئی نقشبندی اس کے خلاف بات کرے گا، تو اپنے بزرگ کے خلاف بات کرے گا یعنی اپنے جو بڑے اونچے بزرگ ہیں عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے خلاف بات کرے گا۔ لہذا اس وجہ سے ہم لوگوں کو ہر سلسلہ کی خوبی کو لینا چاہئے، ہر سلسلہ کے اپنے اپنے انداز کو لینا چاہئے، یہ بہت اہم ہے۔ تھوڑی سی میں آپ کو ذرا اس کی ایک اور خوبی بتا دوں (واللہ عالم بالصواب) کہ دل میں یہ باتیں آرہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے کام لیتا ہے، ہر خوبی استعمال فرماتا ہے، اگر کوئی تیار ہو اس کے لئے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے اندر یہ رنگ تھا، تو ان سے Low level پہ کام لیا گیا ہندوستان میں، لہٰذا نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے، کیونکہ ہندوؤں میں چھوت چھات، رسمی چیزیں یہ بہت زیادہ تھیں، وہ اسی میں پھنسے ہوئے تھے، تو جب انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں کو دیکھا کہ ان کو ان چیزوں کی پروا ہی نہیں، تو لازماً ان کا جو lower طبقہ ہے، وہ اس سے متأثر ہو رہا تھا۔ جب ہم KW-2 میں ایک project کے لئے گئے تھے، تو میرے ساتھ میرا technician بھی تھا، تو ہمارے technician کو ان کا ایک انجینئر کہہ رہا تھا کہ کمال ہے، آپ تو technician ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کا جو boss ہے، وہ ایسا ملتا ہے جیسے آپ بالکل دوست ہوں، لیکن ہم تو آپس میں بات نہیں کرسکتے اپنے boss کے ساتھ، تو کیا وجہ ہے؟ یعنی مجھ سے اس نے پوچھا کہ اس نے یہ کہا ہے تو میں نے کہا کہ اس کو بتاؤ کہ یہی فرق ہے project میں اور ایک Teaching institute میں۔ لہٰذا لوگ ان چیزوں سے متأثر ہوتے ہیں۔ تو lower طبقہ اس سے متأثر ہو رہا تھا، اور اوپر والا طبقہ اس کو اچھا نہیں سمجھتا ہوگا کہ بھائی! یہ کیوں اس طرح کررہا ہے؟ ہمارے لوگوں پہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن نیچے والا طبقہ اس سے متأثر ہو رہا تھا یا نہیں ہو رہا تھا؟ تو نیچے والا طبقہ زیادہ متأثر ہوتا ہے یا اوپر والا زیادہ ہوتا ہے؟ نیچے والا زیادہ ہوتا ہے، تو نوے لاکھ لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت کے ذریعہ سے مسلمان کردیئے۔ دوسری طرف جب مسلمانوں پہ اوپر والوں کی طرف سے یعنی اکبر کی وجہ سے بہت مشکل وقت آیا تو اللہ تعالیٰ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خاص رنگ جو دیا تھا کہ اوپر والے طبقوں کے لئے باوقار حالت کہ اوپر والے جس سے متأثر ہوتے ہیں، تو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وہ وقار والا طریقہ استعمال کر لیا اور بڑے بڑے لوگوں کو خطوط لکھے اور ان کی شان کے مطابق خطوط لکھے۔ آپ دیکھیں! حضرت کے خطوط کا انداز دیکھیں، محبت کے نشان والے، سردار اور پتا نہیں اس قسم کے انداز میں ان کے مخاطبات ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے، ہم لوگوں کو ماننا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ اپنے موتی بکھیرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے بڑے لوگوں کو متأثر کیا، خوانین کو متأثر کیا، بڑے علماء کو متأثر کیا، اکبر کے درباریوں کو متأثر کر لیا، تو اوپر سے ایک انقلاب لے آئے اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نیچے سے انقلاب لائے، تو پتا چل گیا کہ دونوں کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ہر جگہ سے اس کی خیر لینی چاہئے۔ ہمارے پاس choice ہے، ہم ہر جگہ سے خیر لے سکتے ہیں۔ کیا خوبی ہے!

سبحان اللہ۔ اب اگر میں تنگ وادی میں پھنس جاؤں کہ صرف اپنے سلسلے کو میں کہوں کہ بس یہ ٹھیک ہے اور باقی ٹھیک نہیں ہے، تو کتنا میں پھیلوں گا؟ کتنا میں پھلوں گا؟ کتنا میں بولوں گا؟ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو restrict کرلوں گا۔ لیکن جب میرے اندر وسعت ظرفی آئے گی، وسعت قلبی آئے گی، تو سبحان اللہ! پھر میں ہر ایک سے لے سکوں گا، ان شاء اللہ! اور یہی الحمد للہ! ہمارا نظام ہے۔ الحمد للہ! ہم نے جو ذکر شروع کیا، تو چاروں سلسلوں کا ذکر شروع کیا ہے۔ پتا نہیں کتنے عرصہ کے بعد چاروں سلسلوں کا ذکر شروع ہوا ہوگا، پہلے تو کبھی ایسا نہیں سنا۔ جب چاروں سلسلوں کا ذکر شروع ہوا، تو اس کے اتنے زبردست اثرات پڑ گئے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی نسبت مل گئی، سہروردی نسبت غالباً ہمارے چاروں سلسلوں کے ذکر کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہوگئی کہ بہت سارے سہروردی نسبت کے لوگ تھے اور ہمیں پتا نہیں تھا۔ اور قادری نسبت کے لوگ ہیں، الحمد للہ! ان کو اپنا فائدہ مل گیا۔ نقشبندی نسبت تو خیر! ہمارے ہاں مکتوبات کا درس ہی ہو رہا تھا اور چشتی نسبت کی پہلے سے بات چل رہی تھی۔ گویا کہ ہر ایک کو اپنا اپنا food مل گیا، لہٰذا فائدہ ہوا۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں، ان کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، تو انہوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! ہم تو وہ ذکر اب نہیں کررہے جو آپ والا ہے۔ وہ چار ذکر ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، اِلَّا اللہ، اَللہُ اَللہ اور اَللہ‘‘۔ حضرت نے فرمایا کہ جو آپ لوگ کررہے ہیں، وہ بھی ہمارا ہی ہے، اس میں چاروں ہیں۔ ماشاء اللہ! اس میں ہر ایک کو اپنی نسبت بھی مل جاتی ہے اور باقیوں سے بھی حصہ مل جاتا ہے، تو وہ بھی ہمارا ہی ہے۔ گویا کہ Green signal مل گیا کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اس پر ناراض نہیں ہیں۔ اور کیوں ناراض ہوں؟ اصل میں بات یہ ہے کہ بزرگوں میں بڑی ہی وسعت قلبی ہوتی ہے، اور دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد تو پھر بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا براہ راست اللہ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے، تو ان کی زبان سے جو بات نکلتی ہے، وہ تو پھر وہی بات ہوتی ہے، ان کے درمیان میں اور کوئی چیز ہوتی ہی نہیں ہے، تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،

گفت گفت اللہ بود

گرچہ حلقوم عبد اللہ بود

اس لئے وہ پھر کوئی دوسری بات کرتے ہی نہیں، وہ جو کریں گے، وہ من جانب اللہ ہی ہوگا، کیونکہ وہ بات پہنچانے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ ہے، اور تو کوئی نہیں ہے۔ سبحان اللہ

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


فطرت اور عبادت: اسلام کا آفاقی نظام - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور