متن:
دفتر اول مکتوب 243
ملا ایوب محتسب1 کی طرف طریقۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی ترغیب میں صادر فرمایا۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ چند بار آپ نے اپنے خطوط نصیحتوں کی طلب میں تحریر کئے، لیکن یہ حقیر اپنی خرابیوں پر نظر کر کے آپ کے سوالات کے جوابات میں پیش قدمی نہیں کرتا تھا، اب جب کہ آپ کی طرف سے بار بار طلب ہوئی تو چند بے ربط و نا مربوط فقرے تحریر میں آگئے، غور سے سنیں اور جان لیں کہ ہر شخص کے لئے جو چیز ضروری ہے اور وہ اس کا مکلف ہے وہ اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے پرہیز کرنا ہے۔ آیۂ کریمہ ﴿مَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ“۔ اس معنی کی شاہد ہے۔ اور چونکہ (طالب کو) اخلاص کا حکم ہے: ﴿أَ لَا لِلّٰهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) ترجمہ: ”یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے“ اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبتِ ذاتیہ کے بغیر متصور نہیں ہوتا۔ لہٰذا طریقِ صوفیہ کا سلوک جس میں فنا اور محبتِ ذاتیہ کا حصول ہے، ضروری ہوا
تشریح:
یہ بات اکثر میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ اعمال انسان کرتا ہے، لیکن اس سے آگے جو کیفیت مطلوب ہے اس کو حاصل کرنا مقصود ہے، اگر وہ نہ ہو تو وہ بے جان تصور ہوتا ہے۔ لہٰذا اس عمل کو جاندار بنانے کے لئے اور ان رذائل سے بچنے کے لئے جن کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، یہ تصوف ضروری ہے۔
متن:
تاکہ اخلاص کی حقیقت شکل پذیر ہو، اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال اور تکمیل کے مرتبوں ميں تفاوت ہیں؛ اس لئے ایسے طریقے کو، جو روشن سنت کی پیروی کو لازم جانے اور احکامِ شرعیہ کی بجا آوری کے (بالکل) مطابق ہو اختیار کرنا اولیٰ اور بہت بہتر ہے، اور وہ طریقہ اکابر نقشبند قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم العلیا کا طریق ہے کیونکہ اس طریق کے بزرگوں نے سنت کو لازم قرار دیا ہے اور بدعت سے پرہیز فرمایا ہے۔ جہاں تک ہوسکے رخصت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں نافع پائیں اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جانیں۔ انہوں نے احوال و مواجید کو احکامِ شریعہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف (کیفیات و کشفیات) کو علوم دینیہ کا خادم جانتے ہیں، اور احکامِ شرعیہ کے نفیس جواہرات کو بچوں کی طرح جوز و مویز (اخروٹ و منقی) اور وجد و حال کے بدلے نہیں دیتے، اور صوفیہ کی (حالتِ سکر والی) بے کار باتوں پر مغرور و مفتون نہیں ہوتے، اور نص (قرآن) کو چھوڑ کر فص (فصوص الحکم) کی طرف سے مائل نہیں ہوتے، اور فتوحاتِ مدنیہ (احادیث ونصوصِ شرعیہ) کو چھوڑ کر فتوحاتِ مکیہ (شیخ اکبر کی تصنیف) کی طرف سے التفات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری (مستقل) ہے اور ان کے باطن سے ما سویٰ کے نقوش اس طرح محو و زائل ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ (ما سوی اللہ کو دل میں) حاضر کرنے کے لئے ہزار سال تک کوشش کریں تب بھی میسر نہ ہو، اور وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی مانند ہے ان بزرگوں کے لئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک دائرۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ (آیت کریمہ) ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ﴾ (النور: 37) ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے“۔ ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقینًا موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے، اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کردیں۔
قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن قصور
حاش لِلّٰہ کہ بر آرم بزباں ایں گلہ را
ترجمہ:
گر کوئی طعن ان پہ کرتا ہے
توبہ توبہ، نہ کروں اس کا گِلہ
شاعرِ عرب (فرزدق) فرماتا ہے
أُوْلَآئِكَ آبَائِيْ فَجِئْنِيْ بِمِثْلِہِمْ
إِذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعُ
ترجمہ:
ایسے ایسے باپ دادا تھے جریر
ذکر ان کا کیوں نہ ہو جب تھے کبیر
حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اس سلسلۂ عالیہ کے خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم ہر زراّق اور رقّاص (مکار اور رقص کرنے والے) کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے، ان کا کار خانہ بلند ہے
حیف باشد شرح او اندر جہاں
ہم چو رازِ عشق باید در نہاں
لیک گفتم وصفِ او تارہ برند
پیش ازاں کز فوتِ آں حسرت خورند
ترجمہ:
شرح ان کی خوبیوں کی کیا کروں
مثلِ رازِ عشق انہیں پنہاں رکھوں
لیکن ان کا وصف کم کم ہے بیاں
ہو نہ محرومی پہ حسرت بے گماں
اگر ان برگزیدہ حضرات کے خصائص و کمالات کے بیان میں دفتروں کے دفتر لکھے جائیں تب بھی وہ دریائے بے کراں کے مقابلے میں قطرے کے مانند ہیں۔
دادیم ترا ز گنجِ مقصود نشاں
ترجمہ:
گنجِ مقصود کا پتا یہ ہے
وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا)
تشریح:
جس صاحب نے بار بار خط لکھا ہے کہ میری رہنمائی کی جائے، اس میں حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو آپ کی طرف توجہ نہیں ہوئی، لیکن آپ کے بار بار اس کی طرف توجہ کرانے سے اب کچھ باتیں لکھ رہا ہوں۔ اس سلسلے میں حضرت نے بنیادی باتیں کی ہیں۔
نمبر 1: اصل تو شریعت ہے، شریعت پر عمل کرنا ہے۔ شریعت پر جس طریقے سے بھی آپ آ جائیں، ٹھیک ہے، کیونکہ اصل شریعت ہے۔ لیکن شریعت کے ساتھ جو نیت کا تعلق ہے اور کیفیت کا تعلق ہے اس کو پیدا کرنے کے لئے تصوف کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿أَ لَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) تو اس کا نیت کے ساتھ تعلق ہے اور یہ بغیر فنا اور محبتِ ذاتیہ کے حاصل نہیں ہوتی۔ تو اس فنائیت اور محبت ذاتیہ کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور یہ تصوف کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا شریعت پر صحیح معنوں میں چلنا یہ تصوف کے ذریعے سے ممکن ہے۔ تاکہ یہ نیت صحیح حاصل ہوجائے۔ اور ایسے طریقے اس کے لئے ڈھونڈنے چاہئیں جو شریعت اور سنت کے داعی ہوں، اس کے علاوہ دوسری باتوں کی طرف نہ مائل کرے۔ بار بار میں ایک بات کرتا ہوں کہ حضرت کی جتنی بھی باتیں ہیں ان کو حضرت کے احوال اور ان دنوں کے حساب سے دیکھنا چاہیے۔ اس وقت جو دوسرے سلسلے تھے ان کے احوال کچھ ایسے تھے کہ کچھ لوگ احوال و مواجید میں گم تھے یعنی جو موجود تھے، اور کچھ وحدت الوجود جیسی چیزوں کی غلط تشریحات میں گم تھے۔ یعنی وہ نام بڑے بڑوں کے لیتے تھے۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ چونکہ عوام ساری باتوں کو نہیں سمجھتی، اس لئے پھر تشریحات درکار ہوتی ہیں، لہٰذا جہاں سے نا سمجھی ابل پڑی ہوتی ہے، تو Source کو ہی Condemn کردیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس طرف جائیں ہی نہ۔ جیسے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، میں نے اپنی Student Ship میں ایک کتاب پڑھی، بہت اعلیٰ کتاب تھی، ابھی بھی بہت اونچی کتاب ہے، لیکن مجھ پر یہ حالت ہوئی کہ پوری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ صبح میں حضرت کے پاس چلا گیا، حضرت کے پاس جا کر حضرت سے میں نے عرض کیا کہ پوری رات نیند نہیں آئی، حضرت نے فوراً پوچھا کہ کون سی کتاب پڑھی تھی؟ میں نے کتاب کا نام بتا دیا۔ فرمایا: آج سے تمھارے لئے یہ کتابیں پڑھنا بند ہے، تم نہیں پڑھو گے۔ اور فرمایا کہ صرف حضرت مولانا تھانویؒ کی کتابیں پڑھنے کی اجازت ہے، کسی اور کی کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہ کتاب غلط ہے، بعض دفعہ مریض کے لئے ڈاکٹر ملائی بھی روک دیتا ہے۔ تو اپنے آپ کو مریض سمجھنا، اس پر محمول کرنا کہ مجھے اس لئے روکا گیا ہے۔ اب اگر حضرت مجھے اتنی بڑی کتاب سے منع کر سکتے تھے، وہ اس کتاب کے مخالف تو نہیں تھے، وہ صرف اس لئے تھا کہ چونکہ میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، تو حضرت شیخ کتاب کے مخالف نہیں ہیں۔ لیکن شیخؒ کی باتیں چونکہ عوام کو سمجھ نہیں آ سکتیں، لہٰذا یہ وہی بات ہے جیسے مجھے حضرت نے حکم دیا تھا، اور وہی حضرت بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی کتابیں نہ پڑھو۔ قرآن و حدیث کی بات اور ہے اور اس کے بعد ایسی باتوں کو نہ پڑھو۔ تو یہ اصل میں یہ بات ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دوسرے سلسلوں میں نقص نکالتے ہیں، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، یہ چاہنے والے کو کوئی اور طریقہ راس آتا ہے، یہ اس کے مطابق ہے۔ باقی یہ ہے کہ جو حضرت کے ساتھ متعلق سلسلہ تھا، اس میں حضرت نے ان چیزوں کا انتظام چونکہ کیا ہوا تھا، تو ظاہر ہے اس کی طرف تو دعوت دینی تھی۔ اس میں انہوں نے جو انتظام کیا تھا، وہ یہی کیا تھا کہ اس میں عزیمت کا خیال رکھا جاتا ہے، رخصت کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ بے شک اس کو اس میں یقین ہو کہ رخصت میں اس کو زیادہ فائدہ ہے، لیکن وہ عزیمت اس لئے نہیں چھوڑتے کہ ان دنوں عزیمت ضروری تھی، رخصتوں میں رستے نکلتے تھے۔ چونکہ رخصتوں میں عوام رستے نکال لیتے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے انڈہ لے لیا تو جو اس کے کارندے تھے وہ ساری مرغیاں ساتھ لے آئے۔ لہٰذا لوگ پھر اس پر رکتے نہیں ہیں، وہ تو بس گنجائش نکال لیتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے جی۔ آج کل کے دور کی ایک مثال دیتا ہوں، یہاں پر ایک عرب صاحب تھے، وہ یہاں پر نماز پڑھ رہے تھے، نماز کے دوران موبائل پر گھنٹی بجی، اس نے موبائل نکالا اور کہا: ’’اَخِیْ! فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ اور موبائل رکھ دیا۔ مجھے یہ واقعہ ایک عالم نے سنایا، کہتے ہیں، میں نے اس سے پوچھا کہ اس سے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ کہتے ہیں اس نے کہا کہ ’’عِنْدَکَ اَمْ عِنْدَنَا؟‘‘ یعنی آپ لوگوں کے نزدیک یا ہمارے نزدیک؟ بس گنجائش نکال لی۔ تو وہ جو گنجائش امام ابو حنیفہؒ نے روکی تھی، یعنی عملِ کثیر والی تمام چیزیں روکی تھیں، کیونکہ حضرت امام اعظم بہت دور اندیش تھے، تو حضرت نے ان تمام چیزوں کو روکا ہوا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اگر تین دفعہ اس طرح کرو گے تو یہ عملِ کثیر ہوجائے گا۔ اس لئے ہمارے ہاں اس لحاظ سے نمازیں الحمد للہ محفوظ ہیں۔ ورنہ آپ دیکھو کہ نماز کی کیا صورت حال ہے؟ کم از کم میرے سامنے ایک صاحب نے نماز کے اندر پریڈ کی ہے، نماز کے دوران ہی اس طرح چلنا شروع کردیا۔ یہ ساری باتیں کیوں ہیں؟ یہ گنجائش اور رخصت کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہیں، رخصت لینا اور قلبی کیفیت کا ایسا نہ ہونا کہ جس میں انسان پہچان سکے کہ کہاں رخصت کی ضرورت ہے اور کہاں نہیں۔ ایسے لوگ جن کی وہ کیفیت نہ ہو تو پھر ایسے لوگوں کے لئے رخصت بند کردینی چاہیے۔ اس کو سدِ باب کہتے ہیں۔ یعنی سدِ باب کر لیا جاتا ہے کہ اس طرف انسان جائے ہی نہیں۔ تو حضرت نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ ان حضرات نے سنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعات سے پرہیز کیا ہے اور جہاں تک رخصت ہے، اسے پسند نہیں کرتے، بیشک اس کی کتنی ہی حاجت ہو اور عزیمت کو لازم پکڑتے ہیں اور رخصت کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اور جو اس قسم کی چیزیں ہیں مثلاً عورتوں اور بچوں کے کھیلنے کی، ان کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اور اصل بات یعنی اللہ جل شانہٗ کا تعلق، اس کو وہ لازم پکڑتے ہیں۔ اس میں حضرت نے فرمایا کہ لوگوں نے وصال کی جو تعریفیں کی ہیں، وہ بھی ہمارے ہاں اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کوئی اگر ہزار سال بھی اس طرح کرے تو وہ وصال حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں تو مزید عظمت بڑھے گی اور مزید دوری کا احساس ہوگا۔
اور تجلی ذاتی جو دوسروں کے ہاں برق کی مانند ہے یعنی بعض حالات میں تجلی ذاتی حاصل ہوتی ہے، ان کے ہاں دائمی طور پر حاصل ہوتی ہے۔ دائمی اس لئے کہ ان کا صفات کی طرف رجحان ہی نہیں ہوتا، یہ صرف ذات کی طرف ہی دیکھتے ہیں، تو ذات کی طرف توجہ دیں تو وہ تجلی ذاتی ہوگی، کیونکہ یہ اللہ جل شانہٗ کا قاعدہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے لئے آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے زیادہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اللہ کے لئے مال خرچ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مال کو بڑھا دیتے ہیں، آپ اگر اللہ تعالیٰ کے لئے عزت کو قربان کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اور معزز کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اگر آپ اپنی جان دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیتے ہیں۔ اسی طریقے سے جو ذات کی طرف متوجہ ہو تو اسے تجلی ذاتی حاصل ہوگی۔ تو جو دائماً ذات کی طرف متوجہ ہوسکا تو اسے دائمی تجلی حاصل ہوگی۔ تو یہ ان بزرگوں کے نزدیک ہے۔ اب اس بارے میں میں یہ بات عرض کروں گا کہ نقشبندی سلسلے میں عوام کی رعایت زیادہ ہے، کیونکہ عوام چونکہ ان چیزوں کو نہیں جانتے، وہ ان چیزوں میں پڑ سکتے ہیں، وہ غلطیوں میں پڑ سکتے ہیں، اس لئے ان کو ان غلطیوں سے بچانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن جو خواص ہیں، جن کو پہلے سے ذوق و شوق حاصل ہے، جو حق شناس ہیں وہ دوسرے سلسلوں میں پہلے سے ہی یہ چیزیں شروع کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ خواص کے لئے چشتیہ سلسلہ ہے اور عوام کے لئے نقشبندی سلسلہ ہے۔ چونکہ عوام زیادہ ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ کافی مفید سلسلہ ہوا، کیونکہ یہ عوام کے لئے ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ کوئی سلسلہ بھی ناقص نہیں ہے۔ لیکن اپنا اپنا ذوق ہے اور اپنی اپنی مناسبت ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ چشتیہ سلسلے کے ذریعے سے دینا چاہتے ہیں ان کے لئے چشتیہ زیادہ محفوظ بنایا گیا ہے، اور اس کے اندر چشتیہ کا ہی سارا کچھ کارفرما ہے۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ نے نقشبندی سلسلے کا ذوق عطا فرمایا ہے، ان کو نقشبندیہ ہی سے دیتے ہیں، جن کو قادریہ کا ذوق ہو ان کو قادریہ کے ذریعے سے دیتے ہیں، جن کو سہروردیہ کا ذوق ہے ان کو سہروردیہ میں عطا فرما دیتے ہیں۔ لیکن بہرحال ہر شخص اپنے اپنے سلسلے کا ترجمان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے سلسلے کے بارے میں ساری بات کرسکتے ہیں اور دوسروں سے بدگمان نہیں ہوتے۔ لیکن یہ بات ہے کہ دوسروں کی تمام تفصیلات چونکہ ان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں، لہٰذا وہ اپنی بات ہی کرسکتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی بات ھے۔
متن:
﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ﴾ (النور: 37) ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے“۔ ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقینًا موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے۔
تشریح:
اس کی تو حضرت نے خود ہی تشریح فرمائی ہے کہ اصل میں چونکہ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو یہ اندازہ ہوا کہ لوگوں میں شوق نہیں ہے کام کرنے کا، سلوک طے کرنے کا، تو انہوں نے نیت کے ساتھ کسبی طریقے سے وہ جذبی حالت جو کہ وہبی طور پر باقی لوگوں کو دوسرے سلاسل میں حاصل ہوتی ہے، وہ کسبی طور پر پہلے حاصل کر لیتے ہیں ذکر و اذکار اور مراقبات کے ذریعے سے۔ لیکن جس مقصد کے لئے وہ ہے، وہ یہ ہے کہ اس شوق کو پیدا کرنے کے بعد سلوک طے کرنا ہے، اگر کوئی وہ نہ حاصل کرے اور صرف یہ کر لے تو وہ مجذوبِ متمکن بن جاتا ہے۔ بہرحال باقی سلسلے اس سے محفوظ ہیں، لہٰذا ان کو اس مسئلے سے نہیں گزرنا ہوتا۔ اگر وہ اپنے مسائل، جو ان کے ہیں، ان سے اگر بچ جائیں تو وہ پھر اس چیز میں نہیں پڑتے۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جتنے بھی امام ہیں ہمارے امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالکؒ یہ سب جتنے بھی ہیں یہ مشکلات اور آسانیوں کا ایک مجموعہ ہیں، Net Result سب کا ایک ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے احناف میں بعض چیزیں بہت مشکل ہیں، لیکن شوافع میں آسان ہیں۔ لیکن دوسری چیزیں شوافع میں بہت زیادہ مشکل ہیں اور ہمارے ہاں آسان ہیں۔ گویا Net Result میں تو سارا معاملہ ایک ہی ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ نہ کرو کہ کچھ اس سے لو، کچھ اس سے لو، کچھ اس سے لو۔ یہ نہیں کرنا، کیونکہ اس سے پھر آپ کا نفس حاوی ہوجائے گا اور ہر جگہ سے صرف آسان آسان ڈھونڈے گا، تو وہ اصل چیز تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اگر آپ کسی بھی سلسلے میں مکمل چلے جائیں اور کسی بھی امام کے پیچھے مکمل چلتے رہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ آسانی اور مشکلات دونوں کو اپنے اپنے طریقے جمع کر رہے ہیں۔
متن:
اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کردیں۔
تشریح:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ علیہ عنہ کو نقشبندی سلسلے کے ساتھ ایک تعلق ہے، لہٰذا باقی وہی نسبت کی بات ہے، تبھی تو عوام میں کام کرنے کی اللہ نے توفیق عطا فرمائی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو Source ہے اگر دیکھا جائے تو وہ انسان کے اندر خود موجود ہوتا ہے مثلاً سو واٹ کا ایک بلب ہے، تربیلا ڈیم میں زیادہ روشنی دے گا یا پنڈی میں؟ روشنی تو اس کی ہر جگہ یکساں رہے گی کیونکہ سو واٹ کا ہے۔ اور اگر بلب ہزار واٹ کا ہو، تو وہ سو واٹ سے زیادہ روشنی دے گا یا کم؟ چنانچہ اصل تو بلب کے اندر کی بات ہے کہ وہ کتنا کھینچتا ہے۔ اسی طریقے سے جس سلسلے میں بھی کوئی چلا جائے، جس شیخ کے پاس بھی چلا جائے، اس کے اندر کا جو ظرف ہے وہ کتنا بڑا ہے، اس پر منحصر ہے کہ وہ کتنا لے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ بطخ کا انڈا مرغی کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس سے بچہ بطخ کا نکلے گا، اور اگر مرغی کا انڈا بطخ کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس سے چوزہ مرغی کا نکلے گا۔ تو یہ Depend کرتا ہے کہ کون خود کیا ہے اور کتنا لے سکتا ہے، تو جو جتنا لے سکتا ہے اتنا ہی ملے گا۔ سارے سلسلوں کے بارے میں ہمارا یہی تصور ہے۔ ہاں! البتہ یہ الگ بات ہے اور چونکہ ہم یہ بات کر سکتے ہیں کیونکہ وہ دور گیا جس کے بارے میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا، جس میں بہت زیادہ گڑبڑ آگئی تھی۔ اس وجہ سے بعد میں دیوبند والوں نے ماشاء اللہ سلسلہ چشتیہ کی بہت زیادہ اصلاح کردی تھی۔ انہوں نے بہت زیادہ احتیاط سے وہ تمام چیزیں شامل کردیں، اور خلافِ شرع چیزیں ختم ہوگئیں، یعنی سماع کا جو غلط استعمال تھا، مزامیر کا استعمال ہوتا تھا، وہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ ہمارے شیخ کے ہاں سماع ہوتا تھا لیکن وہ سماع مزامیر کے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ بس کوئی آتا تھا تو اسی وقت پوچھتے تھے کہ کوئی پڑھ سکتا ہے؟ تو کوئی کھڑا ہوجاتا اور سنانا شروع کردیتا، تو ان کے ہاں یہ چیزیں نہیں تھیں۔ تو جو چیزیں پہلے شامل ہوچکی تھیں، ہمارے بزرگوں نے اپنے اپنے دور میں ان کو ختم کیا۔ مثلاً حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ تو اس دور میں یہ مسئلہ نہیں ہے جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں تھا۔ اب ماشاء اللہ ہر سلسلے کے اندر اگر آپ ان تک پہنچ جائیں تو ماشاء اللہ آپ کو وہاں پہ صحیح چیز مل جائے گی۔ لہٰذا جو جس کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے وہ ان کے ساتھ اپنا تعلق بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو فائدہ نہ ہو۔ اس وجہ سے ہم لوگ کسی بھی سلسلے کو کم نہیں سمجھتے۔ ہاں! البتہ یہ بات ہے کہ ہم مناسبت ضروری سمجھتے ہیں کہ جس کو جس سلسلے کے ساتھ مناسبت ہو وہ نکھرے گا وہاں۔ جیسے مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے، اس وقت اگر مجھے دیکھا جاتا کہ میں کیسا تھا، تو کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ میں نقشبندی ہوسکتا ہوں۔ لیکن بعد میں پتا چل گیا کہ واقعی ایسا تھا۔ تو بعد میں پتا چلا کہ واقعی یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ بہرحال جب یہ آ گیا تو الحمدللہ اللہ پاک نے اس میں کافی راستہ دے دیا۔ تو یہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کی جو نسبت ہوتی ہے وہ نسبت اسی جگہ نکھرتی ہے جہاں اس کے لئے ماحول ہوتا ہے، ہر چیز ہر جگہ نکھرتی نہیں ہے۔ تو ہر چیز کے لئے اپنا اپنا ماحول ہوتا ہے، اگر وہ ماحول اس کو میسر ہوجائے تو سبحان اللہ بہت اچھا ہے۔ بہرحال ہم سارے سلسلوں کو صحیح سمجھتے ہیں، ہر سلسلے کے اندر ماشاء اللہ ایک صلاحیت ہوتی ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے ساتھ تعلق حاصل کرا رہے ہیں۔ البتہ یہ بات ہے کہ مناسبت کا ہونا ضروری ہے، جیسے مثال کے طور پر Unions ہوتے ہیں، Unions پائپوں کے جوڑنے کے لئے ہوتے ہیں، اگر وہ یونین صحیح نہ لگے تو پھر پائپ لیک بھی کرتا ہے اور اس میں Bubbling بھی ہوتی ہے، باقاعدہ آواز آتی ہے۔ Heart کا ایک Specialist تھا، میں اس کے پاس Check up کے لئے گیا، اس نے اچھی طرح Check up کر لیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے پائپوں کے جوڑ کو دیکھا ہے کہ اگر وہ اس میں صحیح فٹ نہیں ہوتے تو ان میں آواز آتی ہے، ارتعاش ہوتا ہے۔ کہتے ہیں بس یہ وہی چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر سلسلہ جڑا ہوا نہیں ہے اور مناسبت نہ ہو تو پھر آوازیں آئیں گی، ارتعاش ہوگا اور چیزیں Set نہیں ہوں گی۔ اس وجہ سے مناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جتنی محنت کرو گے اللہ تعالیٰ اتنی آپ کو ترقی دیں گے، لیکن شیخ کامل ضرور ہونا چاہیے۔ اگر شیخ کامل نہ ہو تو جتنی محنت کریں گے ضروری نہیں کہ آپ کو فائدہ ہو، کیونکہ عموماً اس میں یہ خرابی ہے کہ جیسے آپ نے اپنے لئے مجاہدہ ڈھونڈ لیا کہ میں نے مجاہدہ کرنا ہے اور آپ کے اندر اس کی استطاعت نہیں ہے تو وہ مجاہدہ آپ کریں گے تو دو چیزیں ہوں گی۔ یا آپ ٹوٹ جائیں گے یا آپ ہمیشہ کے لئے کام چھوڑ دیں گے، یا پھر اس کا آپ کے جسم پر اثر ہوگا اور آپ کی صحت خراب ہوجائے گی، کام خراب ہوجائے گا۔ اور اگر آپ اس سے کم کریں گے، تو آپ کو فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جو میٹھا پانی کہلاتا ہے، آپ اس کو پیئں تو کوئی کہے کہ پانی کیسا ہے؟ آپ کہیں گے کہ میٹھا ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن اگر مثال کے طور پر پانچ چمچ چینی کے ساتھ ایک گلاس میں شربت بنتا ہو، تو اس میں آپ دو چمچ چینی ڈالیں گے تو آپ پیئں گے تو کیسا لگے گا؟ پھیکا ہوگا۔ کمال کی بات ہے کہ جب چینی بالکل نہیں تھی تو میٹھا تھا، اب اگر دو چمچ چینی ڈالی تو پھیکا ہوگیا، کیوں ہوا یہ؟ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان جس وقت دو چمچ چینی ڈالتا ہے تو چینی کے ایک دانے کا بھی اثر چلا جاتا ہے، تو دماغ شربت پینے کے لئے تیار ہوگیا کہ شربت پیئں گے، اور شربت کا جو معیار ہے دماغ اس سے Compare کرے گا اور جو اس معیار سے کم ہوگا تو سمجھے گا کہ پھیکا ہے۔ اور جب چینی بالکل بھی نہیں تھی تو اس کو پانی کے ساتھ Compare کرتا تھا، جو پانی کا معیار ہے کہ اتنا پانی پھیکا اور اتنا پانی میٹھا ہے۔ اسی طریقے سے ہمارا جو مجاہدہ ہے، اگر مجاہدے کا معیار پورا ہے تو ٹھیک ہے، اس کا آپ کو فائدہ ہوجاتا ہے، اگر وہاں تک نہ پہنچے، نیچے رہ گیا تو کچھ حاصل نہیں، وہ چیز تو آپ کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اپنی مرضی سے نہ کم کر سکتے ہیں نہ زیادہ کر سکتے ہیں، تو یہ اندازے سے مجاہدہ کون کرائے گا؟ کوئی ماہر ہوگا تو وہی کرائے گا۔ ماہر کون ہوتا ہے؟ شیخِ کامل ہوتا ہے۔ اس طرح ذکر کا بھی یہی معاملہ ہے، ذکر کا بھی ایک اندازہ ہوتا ہے، ہر ایک نہیں کر سکتا۔ تو یہ جو علاجاً چیزیں ہوتی ہیں اس کے لئے ماہر کی نگرانی ضروری ہے۔ میرے TT Test کرائے جا رہے تھے، تو جو medical specialist تھے انھوں نے لکھ دیا اور MBBS سارا process باقاعدہ Observe کر رہے تھے اس وقت، وہ سامنے موجود تھے اور سارے انتظامات مکمل تھے، تاکہ اگر اس وقت کچھ ہوجائے تو فوراً recover کیا جاسکے۔ یعنی انجیکشن وغیرہ کا جو سارا انتظام ہوتا ہے وہ کر لیتے ہیں، کیونکہ Risk تو ہے نا، Heart کا Problem ہے اور اس دوران اگر heart function shoot ہوجائے تو پھر اس کو کچھ کرنا تو ہوتا ہے۔ اکیلے ڈاکٹر یہ کام نہیں کرسکتا، اکیلے میں کر ہی نہیں سکتے، کیا اکیلے کرنے سے کام کامیاب ہوجائے گا؟ انسان فوت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ذکر بھی شیخ کی نگرانی میں شیخ کے طریقے سے کرنا ہوتا ہے، کیونکہ یہ علاجی ذکر ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مجاہدہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، بس چھوڑو، اس میں خطرہ ہے۔ تو ٹھیک ہے پھر گھر میں بیٹھ جاؤ، خطرہ نہیں ہوگا۔ جیسے مثلاً بریک خطرے سے بچنے کے لئے یعنی Accident سے بچنے کے لئے ہے، اور Accelerator راستہ طے کرنے کے لئے ہے۔ اب اگر کوئی بہت ہی محتاط ہے اور بریک ہی پر پاؤں رکھے اور Accelerator سے اٹھا لے، تو کیا وہ پہنچ جائے گا کہیں؟ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ دوسرا آدمی بریک پہ پاؤں ہی نہ رکھے اورAccelerator ہی دبائے جائے، تو کیا ہوگا؟ Accident کردے گا، تباہ کردے گا۔ اسی طریقے سے ہر چیز کا اپنا اپنا Balance ہے، جیسے ایک ماہر ڈرائیور کرتا ہے، اس طریقے سے ایک شیخ ہی کرسکتا ہے کہ جس چیز کی جس جگہ جتنی ضرورت ہے اتنا اس کو کرے۔ اور باقی یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، تو اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ جیسے میں نے پہلے بتایا کہ اصل چیز شریعت ہے، شریعت کو اگر صحیح طریقے سے تھام لو تو اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میں آپ کو ایک Test بتاتا ہوں، اس کو Litmus test کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ شریعت میں اللہ جل شانہٗ نے نماز کی جو صلاحیت بتائی ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘
اب یہ آیت تو صحیح ہے، تو جو نماز پڑھتا ہے اس کو یہ چیز حاصل ہونی چاہیے، بے حیائی اور منکرات سے بچنا چاہیے۔ اگر وہ بے حیائی اور منکرات سے نہیں بچتا تو آیت تو غلط نہیں ہوسکتی، تو پھر کون سی چیز گڑبڑ ہے؟ نماز گڑبڑ ہے، نماز پوری نہیں ہے، صحیح نہیں ہے، اس میں کچھ مسائل ہیں۔ وہ مسائل کیا ہیں؟ یا نیت کا مسئلہ ہوگا یا پھر کیفیت کا مسئلہ ہوگا، خشوع و خضوع کا مسئلہ ہوگا۔ تو یہ کیفیت، خشوع اور نیت کو درست کرنا ہے۔ یہی تو طریقت ہے۔ اس کے بغیر تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ ابھی مکتوب شریف میں گزرا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو اس کی ضرورت ہے۔ جب ضرورت ہے اور کرنا تو ہے، جیسے کوئی بیمار ہو، علاج کرنا تو ہے، چلو! ماہر ڈاکٹر سے کروا لو، اناڑی کے پاس نہ جاؤ۔ اگر ماہر ڈاکٹر سے کراؤ تو رسک Risk میں کمی تو ہوسکتی ہے اور تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے آپریشن نہیں کروانا اور آپریشن ضروری ہو، تو اس سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ میرا آپریشن نہ ہو، پھر تو اس بیماری کے ساتھ رہے گا۔ لہٰذا کروانا تو ہے، لیکن آپ کسی ماہر سے کراؤ، اناڑی سے نہ کراؤ۔ جس طرح ماہر ڈاکٹروں کی پہچان کی نشانیاں ہوتی ہیں اسی طرح مشائخ کی بھی نشانیان ہوتی ہیں۔ آٹھ نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، اور عقیدہ صحابہ کا صحیح ہوتا ہے، یہ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے۔ جیسے صحابہ سے اللہ پاک نے فرمایا: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (البقرہ 137)
ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑگئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔‘‘
تو صحابہ کا جو ایمان ہے یہ اللہ پاک نے مثالی بتایا ہے، لہٰذا صحابہ کا عقیدہ بھی معیار ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ فرضِ عین درجے کا علم اسے حاصل ہو۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ اس کے اوپر چوبیس گھنٹے عمل حاصل ہو۔ چوتھی یہ کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ پانچویں یہ کہ اُدھر سے اجازت ہو۔ چھٹی یہ کہ ان کا فیض جاری ہو، ان کے پاس جو بھی اس مقصد کے لئے جاتا ہو ان کے پاس سے فیض جاری ہوجاتا ہو۔ ساتویں یہ کہ اس اصلاح میں عفلت نہ کرتا ہو۔ آٹھویں یہ کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کے اللہ یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں پائی جائیں تو پھر اور نشانیاں کسی میں نہ دیکھیں، صرف اپنے آپ کو دیکھیں کہ میری ان کے ساتھ مناسبت ہے کہ نہیں ہے۔ اور مناسبت یہ ہوتی ہے کہ ان آٹھوں نشانیوں والے جتنے بھی انسان ہیں، مثال کے طور پر وہ ایک لاکھ ہیں، تو جن سے آپ کو زیادہ فائدہ محسوس ہو رہا ہے، ان کے ساتھ آپ کو مناسبت ہے۔ بہرحال ترتیب تو یہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو دین کی سمجھ کی توفیق عطا فرما دیں۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاَغُ