اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے اور منگل کے دن ہماری خانقاہ میں ایک خاص مجلس ہوا کرتی ہے، جو مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا صاحب اور ہوگا، جس پر پورے عالم میں اتنی زیادہ research کی گئی ہوگی، نہ کسی شاعر پر اور نہ کسی بزرگ پر، انگریزی میں بھی، جرمنی میں بھی اور مختلف زبانوں میں اس پر کام ہوا ہے۔ اس میں خاص چیز ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے حاصل ہو اور جو دنیا کی محبت ہے، اس کو دل سے کیسے نکالا جائے۔ یہ بات بہت ہی خوبصورت پیرائے میں مختلف طریقوں سے حکایات یعنی قصے کہانیوں کے انداز میں بیان کی گئی ہے یعنی کوئی قصہ بیان کر کے حضرت اس سے پھر مفید مضامین اخذ کرتے ہیں، جس سے بات لوگوں کو سمجھ میں آجاتی ہے، جو مشکل مضامین ہیں، وہ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتے ہیں۔
الحمد للہ! ہمارا یہ سلسلہ 2008 میں شروع ہوا تھا اس مثنوی شریف کے درس کا، جو کہ 2024 تک چلا اور اس 2024 میں الحمد للہ! دو مہینے پہلے پورا ہوگیا۔ پھر اس کا جو منظوم ترجمہ ہے اردو کا، اس کو ہم نے شروع کرلیا، تاکہ پہلے فارسی اشعار ہوا کرتے تھے، ان کا ترجمہ ہوتا تھا، اس ترجمہ کے بعد اس کی تشریح ہوتی تھی، اب چونکہ منظوم ترجمہ ہے، لہٰذا اشعار کے ترجمہ کی ضرورت تو نہیں ہوتی، البتہ تشریح کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے۔ اب یہ دور شروع ہوا ہے، نہ جانے کب تک چلتا ہے، لیکن اس کا بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے الحمد للہ۔ تو اس سلسلہ کو اس طریقہ سے قائم رکھا ہے، چونکہ بہت سارے نئے حضرات ہیں، جنہوں نے پہلے درس نہیں سنا ہوگا، اس لئے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شروع کیسے ہوا۔ ہوا یہ کہ سرگودھا یونیورسٹی میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا چونکہ سال منایا جارہا تھا، انہوں نے اس پر ایک کانفرنس رکھی یونیورسٹی میں اور مختلف یونیورسٹیوں کو انہوں نے letters بھیجے کہ اگر کوئی مقالہ لکھنے والا ہے، جو اس میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو وہ آسکتا ہے۔ وہ خط ہماری یونیورسٹی میں بھی آگیا۔ ہماری یونیورسٹی نے اس کو میری طرف بھیج دیا کہ آپ کوئی مقالہ لکھ سکتے ہیں تو لکھ لیں۔ اس سے کچھ ہی مہینے پہلے مجھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی جو کلیدِ مثنوی ہے، وہ مجھے ملی، کسی نے گفٹ کی جو چھبیس جلدوں میں ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو من جانب اللہ ایک انعام ہے کہ ادھر کلید ملی ہے اور ادھر request بھی آگئی۔ تو پھر میں نے اس کلید مثنوی سے مقالہ لکھا اور بھیج دیا، جو انہوں نے accept کرلیا اور دعوت دی کہ آئیں اور مقالہ کو پڑھیں۔ تو میں چلا گیا۔ اب مجھے حقیقی صورتحال کا علم نہیں کہ یہ کانفرنس کس لئے ہورہی ہے اور اس میں کیا کیا طریقہ کار ہوگا۔ یہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ ویسے ہم سادہ لوگ ہیں۔ وہاں پہنچ کے میں نے request کی کہ میرا مقالہ پہلے دن رکھوایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پہلے دن رکھوایا۔ میں نے اپنا مقالہ پڑھا اور اس کو بہت پسند کیا گیا، ما شاء اللہ! بالخصوص جو organizer تھے۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ ہم اُدھر ہی تھے، کیونکہ تین دن کی کانفرنس تھی۔ اگلے دن کچھ اور لوگوں نے مقالے پڑھے، جس میں کچھ اور حضرات مختلف قسم کے تھے، جن میں ایک پروفیسر تھے، جو غالباً اسماعیلی تھے اور کچھ ترک حضرات بھی تھے، جنہوں نے رومی رقص کی ویڈیوز شو کرنا چاہیں۔ جب میں نے یہ دیکھا، تو میں نے کہا کہ او ہو! planning لگ رہی ہے، اس کو misuse کیا جارہا ہے یعنی غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ جو اسماعیلی پروفیسر تھے، انہوں نے بہت عجیب میدان بنا دیا، پہلے آیا، اس نے slides دیکھائیں، slide پہ اِس طرف کے لوگوں سے پوچھا کہ کیا نظر آرہا ہے؟ انہوں نے کہا: لڑکی ہے۔ پھر اُس طرف سے لوگوں سے پوچھا کہ آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: بڑھیا ہے۔ وہ تصویر ایسی تھی کہ وہ اِس طرف سے لڑکی نظر آئی اور اُس طرف سے بڑھیا نظر آرہی تھی۔ پھر اس نے کہا کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غزل ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں بہتر کے بہتر فرقوں کے ساتھ ہوں اور اس پر باقاعدہ اس نے پڑھ لیا۔ اور پھر کہا کہ یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے قرآن کا جو مغز ہے، اس کو لے لیا اور اس کی ہڈیاں کتوں کو ڈال دیں۔ یہ بھی اس نے پڑھ لیا۔ لوگ حیران ہیں اور میں تو خود بہت زیادہ حیران کہ بھائی! یہ کیا تماشا ہورہا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنا جو طریقہ کار ہے، جس سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، اس کے مطابق پہلے انہوں نے شو کرنا چاہا تصویر سے کہ لوگ جو کہتے ہیں کہ فلاں غلط ہے، فلاں غلط ہے، یہ کچھ بھی نہیں، یہ لوگوں کے نظریات کی وجہ سے ہے، اصل میں کوئی بات نہیں۔ یعنی جو لوگ مختلف مذاہب کو اکٹھا کرتے ہیں۔ ایک impression یہ دے دیا۔ دوسرا یہ کہا کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ میں بہتر کے بہتر فرقوں کے ساتھ ہوں۔ اور تیسرا یہ ہے کہ قرآن پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔ میں نے کہا: یا اللہ! خیر۔ یہ تو بہت غلطی ہوئی کہ میں نے مقالہ پہلے دن پڑھا۔ کاش! میں اس دن کے بعد پڑھتا، تو ان چیزوں کا جواب دینے کی کوشش کرتا۔ کیا ہوسکتا تھا! جو کچھ ہوچکا تھا۔ پھر میں نے یوں کیا کہ اس کے جو organizer تھے، جو کافی متاثر تھے ہمارے مقالے سے، ان کو چٹ بھیجی اور request کی کہ جب سارے لوگ گزر جائیں، تو اس کے بعد مجھے کچھ دیر کے لئے بلا لیں، میں پوری کانفرنس کو conclude کرنا چاہتا ہوں، یعنی اس پہ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے چٹ بھیجی کہ میں تو آپ کو پورا سیشن دینا چاہتا تھا، لیکن باہر سے وائس چانسلر حضرات آئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ٹائم کم ہوگیا، تو ٹھیک ہے، میں آپ کو کچھ وقت ضرور دوں گا۔ یہ اس نے کہہ دیا۔ اور آخر میں جب سارا کچھ بالکل ختم ہوگیا، تو اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک real صوفی ہے، میں اب ان سے request کرتا ہوں کہ وہ آئے اور کانفرنس کو پانچ منٹ کے اندر conclude کر لے۔ یا اللہ، پانچ منٹ! خیر! میں چلا گیا، اللہ کی مدد تھی، اللہ تعالیٰ اس موقع پہ مدد فرماتے ہیں۔ جاتے ہی میں نے عرض کیا کہ ایک ہوتا ہے وجد جو کہ ایک اندرونی تحریک کی وجہ سے ایک غیر اختیاری حرکت ہوتی ہے جسم میں، جس میں کرنے والا معذور ہوتا ہے، لیکن اس کی تقلید نہیں کی جاتی۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو وجد ہوتا تھا، وہ رقص نہیں کرتے تھے، کیونکہ رقص ایک organized activity ہے، وہ اختیاری ہوتا ہے، غیر اختیاری نہیں ہوتا۔ لہٰذا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے رومی رقص کو آپ کوئی شرعی چیز نہیں کہہ سکتے۔ اس پر کافی تالیاں بجیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ تنگ تو تھے۔ دوسری بات یہ کی کہ یہ کہتے ہیں کہ مولانا روم نے فرمایا کہ میں بہتر کے بہتر فرقوں کے ساتھ ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان فرقوں کے سچ کے ساتھ ہیں۔ اصل میں ہر فرقہ کے ساتھ ایک سچ ہوتا ہے، جس کے ارد گرد وہ فرقہ بنتا ہے۔ مثلاً: قرآن سچ ہے، تو اہلِ قرآن کا فرقہ بن گیا، جس نے حدیث کا انکار کردیا، اور وہ جھوٹ اور غلط ہے۔ اس طرح کوئی صحابہ کی بنیاد پر فرقہ بنا دے، کوئی اہل بیت کی بنیاد پر فرقہ بنا دے، تو وہ تو سچ ہے، لیکن اس کے ارد گرد اگر دوسری چیزوں کی مخالفت ہو، وہ غلط ہوتا ہے۔ پس اسی طرح انہوں نے کہا کہ میں سارے فرقوں کے سچ کے ساتھ ہوں۔ تو سارے فرقوں کا جو سچ ہے، وہ تو اصل دین ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس پہ بھی بہت زیادہ clapping ہوئی۔ تیسری بات میں نے کہی کہ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کا مغز لے لیا اور اس کی ہڈیاں کتوں کے آگے پھینک دیں۔ تو میں نے کہا کہ قرآن تو سارا کا سارا مغز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں فرمایا:
﴿الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾ (البقرۃ: 1-2)
ترجمہ1: ’’الم، یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مفتی تھے اور بہت بڑے عالم تھے، وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ قرآن میں ہڈی بھی ہے، وہ تو سارا کا سارا سچ ہے، اس پر کوئی شک نہیں۔ البتہ قرآن کی تفسیریں دو قسم کی ہوسکتی ہیں، دنیا دار لوگوں نے بھی کی ہے دنیا کے لئے اور اللہ والوں نے بھی کی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے، تو جو اللہ کے لئے تفسیر ہوئی ہے، وہ کیا ہے؟ وہ مغز ہے، وہ تو لے لیا۔ اور جو دنیا کے لوگوں نے تفسیریں کی ہیں دنیا کے لئے، تو چونکہ حدیث شریف میں ہے:
’’اَلدُّنْیَا جِیْفَۃٌ وَطُلَّابُهَا کِلَابٌ‘‘۔ (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري: 2388)
ترجمہ: ’’دنیا مردار ہے اور اس کے طلب کرنے والے کتے ہیں‘‘۔
تو حضرت نے فرمایا کہ جو اس کی دنیا کے لئے تفسیریں کی گئی ہیں، وہ میں نے دنیا کے کتوں کے آگے ڈال دیں، میرا ان کے ساتھ کوئی سروکار نہیں۔ اس پر تو پورا مجمع اچھل پڑا۔ جب میں نیچے آرہا تھا، تو وہاں تبلیغی جماعت کے حضرات بھی آئے تھے مرکز سے، ان کے جو بڑے تھے، وہ مجھے ملے اور کہا: شاہ صاحب! ہم clapping نہیں کرتے، لیکن آج ہمیں بھی وجد آگیا تھا، ہم نے بھی clapping کی۔
بہرحال یہ ہے کہ اس طریقہ سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ بڑا خطرناک game ہے، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اس پر اب درس ہونا چاہئے۔ تو توکلاً علی اللہ 2008 میں شروع کرلیا اور الحمد للہ! اللہ پاک نے مکمل بھی کردیا۔ پس یہ اصل میں اس درس کی بنیادی وجہ تھی۔ اب میرے خیال میں کچھ اشعار اس میں سے پڑھ لیتے ہیں۔
42
عشق بِن معشوق کو پرواہ ہو کیااک پرندہ بے پر و بال رہ گیا
اس شعر سے پھر عشق کی مدح مقصود ہے۔ یعنی عشق وصول الی الحق کا ذریعہ ہے، کیونکہ عشق کی وجہ سے معشوق کو بھی عاشق کے حال پر توجہ ہوجاتی ہے اور یہی توجہ عاشق کے وصول بلکہ اس کے وجود کی باعث ہے۔ لیکن جب معشوق کو پرواہ اور توجہ نہ رہے، تو وہ قربِ معشوق حاصل نہیں کرسکتا، بلکہ اس کا وجود ہی کالعدم ہوجائے گا۔
یعنی اللہ جل شانہٗ کے فضل کے بغیر انسان اس راستہ میں نہیں جاسکتا، اللہ کا فضل ہوگا تو آدمی آگے جاسکتا ہے۔
43
اس کا عشق ہیں پر و بال پہنچائے واںکوچۂ یار تک لے کے جائے موکشاں
اس شعر سے اوپر کے شعر کی توضیح مقصود ہے۔ یعنی اس کی کمند عشق ہی وہ چیز ہے، جو عاشق کو معشوق کی طرف جذب کرتی ہے۔ یہی اس کے پر و بال ہیں، جس سے وہ اپنے محبوب کی طرف پرواز کرتا ہے اور جس کے بغیر وہ گویا مرغِ بے پر تھا۔
واقعتاً اللہ خالق اور ہم مخلوق ہیں، کہاں خالق اور کہاں مخلوق! مخلوق کیسے اللہ کو پائے، یہ ممکن ہی نہیں، البتہ محبت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو محبت مخلوق کے ساتھ ہے اور مخلوق کو اس کے ساتھ ہے، تو بس یہی چیز جوڑ پیدا کرسکتی ہے، اس کے ذریعہ سے انسان جاسکتا ہے۔ اس کے لئے پھر بزرگوں نے طریقے دریافت کیے ہیں، جیسے ذکر اور مراقبات کے مختلف طریقے ہیں، جن کے ذریعہ سے جذب حاصل کیا جاتا ہے اور جذب کے حاصل ہونے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا تعلق حاصل ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کھینچ لیتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کو توفیق ہوجاتی ہے سلوک کو طے کرنے کی، نتیجتاً وہ اللہ پاک کا عاشق بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ بن جاتا ہے اور اللہ جل شانہٗ اس کو قبول فرما لیتے ہیں۔ یہ طریقہ ہے۔
44
پیش و پس کا ہوش ہو مجھ کو کہاںجب تلک نہ نورِ یار ہو رہنما
سبحان اللہ! اگر خداوند تعالیٰ کی عنایت کا نور میری طرف رہنمائی کرنے والا نہ ہو، تو مجھے اپنے پیش و پس کی کیا خبر رہے اور مکرِ شیطان سے کیونکر محفوظ رہوں۔
حدیث شریف ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، مگر اللہ پاک کے فضل سے جائے گا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ بھی؟ فرمایا: ہاں! میں بھی، لیکن مجھ پہ اللہ پاک فضل فرما دیں گے۔ آپ ﷺ تو یہ فرما سکتے تھے، ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اللہ کا فضل ہوگا، تو سارا کام بن جائے گا۔ اس لئے جتنا بھی انسان اللہ پاک کی محبت میں آگے بڑھتا ہے، اتنا ہی وہ ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میں کوئی ایسا کام نہ کروں، جس سے اللہ پاک مجھ سے ناراض ہوجائے۔
45
اس کا نور ہے دائیں بائیں تحت و فوقمیرے گردن سر پہ ہے مانندِ طوق
حق تعالیٰ کی معیت کا بیان ہے کہ اس کا نورِ عنایت میرے ہر طرف محیط ہے، جس کے متعلق حدیث شریف میں دعا آئی ہے:
"اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَّمِنْ تَحْتِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ شِمَالِیْ نُوْرًا" (صحیح مسلم)
یعنی "الٰہی! میرے اوپر اور نیچے اور دائیں اور بائیں نور ہی نور جلوہ گر کردے"۔
مولانا بحر العلومؒ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا نور ہر جگہ اور تمام جہات میں اور ساری کائنات میں ساری و طاری ہے، جس کو سالک فنا کے بعد نزول کر کے کثرتِ متغائرہ میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر یہ مشاہدہ نہ کرے، تو گویا مقامِ فنا میں ہے اور پیش و پس کی خبر نہیں، جس کا اشارہ شعرِ سابق میں ہے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ کا نور تو واقعی ہر جگہ ہے، ہر چیز میں ہے، ہاں! یہ ہے کہ اگر حجابات ہوں، تو پھر نظر نہیں آتا اور انسان محسوس نہیں کرتا۔ فنا کے بعد چونکہ حجابات زائل ہوجاتے ہیں، لہٰذا وہ پھر اس کے بعد نزول کر کے اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
46
عشق تو چاہے میں کہ بولوں واشگافپر نہیں آئینہ سامع کا ہو صاف
یعنی جوشِ عشق تو مقتضی ہے کہ وحدۃ الوجود یا مخلوق کے مظاہرِ خالق ہونے کا مسئلہ واشگاف بیان کردیا جائے، (جو حقیقت ہے) لیکن جب سامع کا دل روشن نہ ہو، تو اس میں ان باریک اسرار کا عکس کیوں کر پڑسکتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے پہلے صفائی کی ضرورت ہے، تب یہ چیزیں سمجھ میں آسکتی ہیں۔
47
عکس نما آئینہ تیرا کیوں نہیںزنگ سے اس کو کیا ہے صاف کبھی
یعنی اے مخاطب! تو اسرار و حقائق کو اس لیے نہیں سمجھ سکتا کہ تیرے آئینۂ قلب پر زنگِ غفلت چڑھا ہوا ہے اور اس زنگ کا باعث تعلقاتِ ما سویٰ اللہ ہیں۔
اب دیکھیں! کل جو میں نے بات کی تھی، یعنی کشفِ حقائق کے بارے میں بات کی تھی کہ جب ہمارے نفس کی آلائشیں اور حجابات دل کے اوپر پڑے ہوں، تو اس وقت تک ہمیں حقیقت نظر نہیں آسکتی، جب حقیقت نظر نہیں آئے گی، تو نتیجتاً ہم لوگ ان اسرار و حقائق کو نہیں سمجھ پاتے۔ لیکن جب ہم لوگ اپنے آئینہ دل کو صاف کریں، نفس کو مطمئن کریں، نفس مطمئنہ حاصل کرلیں۔ اصل میں دیکھیں! میں آپ کو ایک بات عرض کروں، یہ بار بار آپ لوگ سنیں گے، لہٰذا مجھے بتانے میں میرے خیال میں کچھ مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ جو دل ہے، بعض حضرات کہتے ہیں کہ دل تو جسم کا بادشاہ ہے، جب تک یہ ٹھیک نہ ہو، تو جسم کی کوئی چیز ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ یہ بات حدیث شریف سے ثابت ہے، بات صحیح ہے، لیکن اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔
اب دیکھیں! اللہ پاک نے تو یہ فرمایا کہ نفس کو پاک اور صاف کرلو رذائل سے اور آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ دل ٹھیک ہو، تو سارا کچھ ٹھیک۔ اب لوگ دو قسم کے ہوں کہ ایک حدیث کو مانیں اور ایک قرآن کو مانیں، یہ تو نہیں ہوسکتا۔ بھائی! ہر طرح کے لوگ جو ہیں، وہ قرآن کو بھی مانیں گے اور حدیث کو بھی مانیں گے، تبھی بات صحیح ہوسکتی ہے۔ ان دونوں باتوں کو صحیح ماننے میں کیا مانع ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم لوگ اگر صرف ایک چیز کو دیکھیں گے، تو پھر تو ایسا ہوگا، لیکن اگر ہم دونوں کو دیکھیں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دل بھی تب صاف ہوسکتا ہے، جب نفس پاک ہوجائے۔ اور نفس بھی تب صحیح مطمئن ہوگا، جب دل ساتھ دے۔ سمجھ میں آگئی بات؟ یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں، یہ علیحدہ علیحدہ نہیں ہوسکتیں۔ بس اتنی بات اس سے ثابت ہوگئی۔ اب اگر کسی کو یہ سمجھ میں نہیں آیا، تو وہ کہتا ہے کہ بس مراقبات سے سارا کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ خدا کے بندو! مراقبات کا تعلق تو دل کے ساتھ ہے، اس سے سارا کیسے حاصل ہوگا۔ جب تک جسم پر محنت نہیں کی، اس سے مجاہدہ نہیں لیا، اس وقت تک جسم surrender نہیں کرے گا۔ آپ سمجھیں گے کہ غلط کررہا ہے، لیکن پھر بھی وہ آپ کی بات نہیں مانے گا، تو پھر کیا کرو گے؟ بہت سارے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم اچھے ہوجائیں، لیکن ہو نہیں رہے۔ یہاں تک کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک صاحب نے لکھا کہ حضرت! کیا کریں ہماری آنکھ اوپر اٹھ ہی جاتی ہے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ جب تک انسان کا نفس باغی ہے، اس وقت تک اگر آپ کا دل بنا ہو ذکر اذکار سے، تو آپ کو اطلاع ہوجائے گی کہ یہ کام غلط کررہا ہے، لیکن آپ میں طاقت نہیں ہوگی کہ اس کو روک سکو۔ کیونکہ اس کا طریقہ کیا ہے کہ نفس کے اوپر محنت ہو، یعنی نفس کا کام ہے (اگر وہ امارہ ہو) برائی کی طرف جانا، آپ نے اس کو زبردستی روکنا ہے تکلف کے ساتھ، جب آپ تکلف کے ساتھ روکتے ہیں، تو اس میں اس چیز کی طرف جانا ہے، اِس کا زور کم ہوجاتا ہے، لہٰذا اگلی دفعہ آپ کو کم تکلف کرنا پڑے گا اور کام بن جائے گا، پھر اس سے اگلی دفعہ آپ کو اور کم تکلف کرنا پڑے گا، پھر اور کم تکلف کرنا پڑے گا، ہوتے ہوتے ایک وقت آئے گا کہ جب بالکل ہی تکلف ختم ہوجائے گا اور بے تکلف ہونے لگے گا۔ یہی چیز ہے اور یہی طریقہ کار ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، یہ مثال میں اکثر دیا کرتا ہوں۔ ایک آدمی ہے جو نماز بالکل نہیں پڑھتا، لوگوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں، جو نماز بالکل نہیں پڑھتے۔ ان کو کوئی کہہ دے کہ بھائی! نماز پڑھو، تو کہتے ہیں کہ مجھ سے پڑھی ہی نہیں جاتی۔ اس کا کوئی جگری دوست آجاتا ہے اور وہ اسے کہتا ہے کہ بھائی! نماز کے لئے چلتے ہیں، تو وہ کہتا ہے کہ چھوڑو، نہیں پڑھی جاتی۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اٹھو، چلو۔ اب وہ اس کو انکار نہیں کرسکتا۔ جگری دوست جو ہوتا ہے۔ تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو کسی سے کچھ بھی کروا دیتے ہیں۔ اب وہ اس کو اٹھا کے لے جاتا ہے کہ چلو، وضو کرلو۔ وضو کروا کے پھر اس کو مسجد لے جاتا ہے، نماز پڑھوا دیتا ہے۔ دوسری دفعہ اس کو کہتا ہے، تو اس وقت بھی وہ کہتا ہے کہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اٹھو۔ تو اس وقت اتنا زیادہ اس کو مشکل نہیں ہوتی۔ چوں کہ پہلی دفعہ پڑھی ہوتی ہے، لہٰذا آسانی سے پھر اٹھ جاتا ہے۔ تیسری دفعہ اس سے بھی آسانی کے ساتھ، چوتھی دفعہ اس سے بھی آسانی کے ساتھ۔ اس طرح آسانی ہوتی جائے گی، حتیٰ کہ حضرات فرماتے ہیں کہ چالیس دن تک کوئی نماز اگر قضا کیے بغیر مسلسل پڑھتا ہے، تو وہ نماز کا عادی ہوجائے گا، پھر اس سے نماز کبھی نہیں چھوٹے گی، بلکہ نماز چھوٹے گی تو مشکل ہوگی۔ اب یہ بتائیں کہ پہلے دن اتنی مشکل تھی کہ پڑھی نہیں جاتی۔ چالیس دن کے بعد چھوڑی نہیں جاتی۔ اب مجھے بتاؤ کہ درمیان میں کیا ہوا؟ درمیان میں نفس نے ماننا سیکھ لیا۔ آپ نے اس کی بات نہیں مانی، لہٰذا نفس نے بات مانی۔ اس پر ایک لطیفہ ہے کہ کسی نے اپنے مالک کو کہا کہ میری تنخواہ بڑھا دو، ورنہ۔ اس نے کہا ورنہ کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کہ پھر یہی ٹھیک ہے۔ تو نفس کے جو اس قسم کے نخرے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ پھر اس قسم کے کام کرنے پڑتے ہیں۔
48
آئینہ غفلت کی زنگ سے صاف ہوجبنورِ خورشیدِ خدا سے چمکے تب
اوپر آئینۂ مکدّر کا ذکر تھا۔ اب آئینۂ روشن کا وصف بیان فرماتے ہیں کہ جو آئینۂ دل تعلقاتِ ما سویٰ اللہ کی کدورت سے پاک ہو، وہ نورِ خدا سے منور ہے۔
49
آئینہ دل کو زنگ سے پاک کربعد ازاں اس نور کا ادراک کر
یعنی پہلے اس آئینۂ دل کو زنگ سے پاک کر یعنی گناہوں سے اور تمام چیزوں سے پاک کر، پھر اس کے بعد اس نور کا ادراک کرسکتے ہو، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہا ہے۔
50
یہ حقیقت گوشِ دل سے سن لے توآب و گِل سے اس طرح پھر چھوٹے تو
سبحان اللہ! صفائیِ باطن، تزکیۂ نفس اور تنویرِ قلب کی جو ہدایت اُوپر کی ہے، اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ سچی بات گوشِ ہوش سے سنو اور عمل کرو، تاکہ علائقِ سفلیہ سے پاک و صاف ہوجاؤ۔ کیونکہ علائقِ سفلیہ جسمانیہ ہی انسان کو عالمِ قدس کی سیر سے باز رکھتے ہیں۔
اس طریقہ سے کام بن جاتا ہے۔ ایک scientific approach ہے کہ ایک غبارہ لے لو اور اس میں hydrogen بھر دو، تو کیا ہوگا؟ وہ غبارہ اوپر اڑے گا۔ اگر زیادہ بھر دو، تو زیادہ اوپر اڑے گا۔ اب اس کے ساتھ اگر ایک چھوٹا سا پتھر باندھ دو یعنی اس غبارے کے ساتھ، تو پھر یہ غبارہ نیچے آئے گا اس پتھر کے وزن کی وجہ سے، اب اگر مزید hydrogen بھر دو، تو وہ اس پتھر کے وزن کو بھی ساتھ اٹھا سکے گا اور وہ اس کو بھی اوپر لے جائے گا۔ اب اگر غبارے کو آپ مزید اڑانا چاہتے ہو، تو دو کام ہوسکتے ہیں: یا اس میں hydrogen زیادہ بھرو یا اس میں پتھر کے وزن کو کم کردو۔ پتھر کے وزن کو کم کرنے سے بھی غبارہ اوپر جائے گا اور hydrogen مزید بھرنے سے بھی غبارہ اوپر جائے گا۔ پس ایک ہے؛ روحانیت اور ایک ہے؛ جسمانیت۔ جسم انسان کو نیچے لاتا ہے، کیوں کہ یہ سفلی ہے۔ لہٰذا روحانیت کی support کا ذریعہ ہے کہ اپنی جسمانیت کو کم کردو، یعنی جو جسمانی تقاضے ہیں، ان کی پروا کم کردو، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی روحانیت بڑھتی جائے گی اور مزید روحانیت آپ ذکر واذکار اور تمام چیزوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ تو گویا دونوں چیزیں آپ کریں گے، تو نورٌ علی نور، بہت زیادہ ما شاء اللہ! آپ اوپر جاسکیں گے۔
51
فہم گر تجھ کو ہوروح کو راہ دوشوق سے اس رستے پہ پھر چلتے رہو
یعنی اگر کچھ اپنی بہبودیِ دارین کا خیال ہے، تو روح کو تنزل سے بچا کر روحانی عروج کی طرف متوجہ کرو اور پھر منزل بمنزل ترقی کرتے جاؤ۔
میرے خیال میں اس کی صحیح تشریح حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اس طرح ہوگی کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ انسان کا جو نفس ہے، اس نے روح کو گھیرا ہوتا ہے اور یہ روح پہلے عاشق تھی اللہ تعالیٰ کی۔ جب اِدھر آئی تو نفس نے اس کو گھیرا لیا، لہٰذا نفس اس کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اور یہ غافل ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ سے۔ پھر جس وقت ذکر واذکار اور مراقبات سے اس کو پھر دوبارہ یاد دلایا جاتا ہے کہ تو اللہ کی عاشق تھی، تو پھر یہ اللہ کے ساتھ ملنا چاہتی ہے، لیکن نفس اس کو جانے نہیں دیتا، نفس اس کو پکڑے رکھتا ہے۔ جس وقت کسی روح کو دوبارہ اللہ یاد آجائے، تو یہ مقام قلب میں پہنچ گیا، یعنی جذب اس کو حاصل ہوگیا اور مقام قلب میں پہنچ گیا۔ اب اس مقام قلب میں نفس اور روح گتھم گتھا ہیں، یعنی نفس نے روح کو پکڑا ہوتا ہے، روح اوپر جانا چاہتی ہے اور یہ اس کو نیچے لانا چاہتا ہے، یہ گتھم گتھا ہے۔ ایسی صورت میں اگر آپ روح کی مدد کریں، یعنی نفس کے ہاتھ پیر پکڑیں، اسے روح کو نہ پکڑنے دیں، تو یہ روح اس سے آزاد ہوسکتی ہے۔ یہ روح اگر اس سے آزاد ہوگئی، تو اوپر منزل پہ جائے گی۔ اب دیکھیں! نفس کے ہاتھ پاؤں کیا ہیں؟ آنکھیں، کان، زبان، دماغ، ہاتھ پیر، جس چیز سے بھی کوئی احساس ہوسکتا ہے، وہ نفس کے ہاتھ پاؤں ہیں۔ اب ان کو پکڑیں گے، یعنی اپنی آنکھوں کو control کرو، اپنے کانوں کو control کرو، اپنے دماغ کو control کرلو، اپنے ہاتھ پاؤں کو control کرلو، جیسے control کرو گے تو روح اس سے آزاد ہو کے چلی جائے گی۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ اصل میں سلوک یہی ہے۔ یعنی یہ جو ہم لوگ نفس کے ہاتھ پیر باندھ دیتے ہیں، یہ سلوک ہے۔ اب دیکھو! نفس کس طریقہ سے ہمیں مصیبت میں ڈالتا ہے، مثلاً: سستی کی وجہ سے، ہمیں بہت سستی ہوتی ہے، نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو اٹھا نہیں جاتا، تو یہ سستی ہے۔ حرص ہے، کھانے کی حرص ہے، پینے کی حرص ہے، سونے کی حرص ہے، عزت کی حرص ہے، مختلف چیزوں کی حرص ہے، تو یہ کیا ہے؟ یہ بھی ہمیں کام نہیں کرنے دیتی، تو اب حرص کو control کرو، یعنی قناعت پیدا کرلو، بے صبری کو ختم کرو، اللہ پہ بھروسہ کو پیدا کرو۔ یہ تمام چیزیں مقامات کہلاتی ہیں، ان مقامات کے حصول کے بعد بعد سلوک طے ہوجاتا ہے۔ دس مقامات ہیں، ان دس مقامات کو تفصیل سے طے کرنا ہوتا ہے، اسی کو کیا کہتے ہیں؟ اسی کو سلوک طے کرنا کہتے ہیں۔ جب یہ سلوک طے ہوجاتا ہے تو پھر ما شاء اللہ! انسان کی جو روح ہے، وہ نفس کے اثر سے نکل جاتی ہے، نفس پھر نیچے آتا ہے اور روح اوپر جاتی ہے۔ نیچے آنے کا مطلب یہ ہے کہ نفس عبدیت اختیار کرلیتا ہے، ماننا سیکھ لیتا ہے اور کام کرنا شروع کرلیتا ہے۔ اور روح اوپر چلی جاتی ہے، تو اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوجاتا ہے، ملاء اعلیٰ کے ساتھ ہوجاتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہامات آتے ہیں، وہ روح اور سر کے ذریعہ سے آتے ہیں۔ بہرحال یہ ہے کہ اس طریقہ سے ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو واقعی اس طرح اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ما شاء اللہ! یہ سلسلہ تو چلتا جائے گا۔ لیکن ایک کلام ہے، ایک عجیب بات ہوگئی، ہمارے تبلیغی جماعت کے ایک بالکل سادہ آدمی جس سے مجھے کم از کم اس کی توقع نہیں تھی، وہ آئے اور مجھے کہتے ہیں کہ آپ مثنوی شریف کی تشریح کرتے ہیں، ذرا اس شعر کی بھی تشریح کرو۔ میں نے کہا کہ یہ تو بڑا صاحبِ ذوق آدمی ہے یعنی نظر نہیں آتا تھا کہ اس میں یہ بات تھی۔ اس نے مجھے بتایا:
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
ختم شد واللہ اعلم بالصواب
اس نے مجھے یہ شعر بتا دیا اور کہا کہ اس کی تشریح کرو۔ خیر! اس کی تشریح میں نے اس کے سامنے کردی۔ پھر میں نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا علم ہے، اس پہ کچھ کام کرنا چاہئے۔ پس اس پہ ایک کلام ہے، وہ میں سنا دیتا ہوں، اس کی تشریح بھی ساتھ ساتھ کروں گا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی ما شاء اللہ! برکت تھی، جس سے ہمیں بہت ساری چیزوں کا پتا چل جائے گا۔
عنوان ہے:
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
اس کا ترجمہ تو یہ ہے کہ جہد یعنی کوشش کرو بے خودی کو حاصل کرنے میں اور پھر خود کو پا جاؤ، اور بس بات ختم ہوگئی، واللہ اعلم بالصواب۔ یہ مولانا روم کا شعر ہے۔ کوشش کرو بے خودی کو حاصل کرنے میں اور خود کو پا لو اور بس بات ختم ہوگئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا
کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب
نفس کی آلائیشوں کو دور کر
چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب
یعنی یہاں پر بھی وہی بات کی گئی ہے کہ جو انسان کے نفس کے رذائل ہیں، جن کی وجہ سے آلائشیں دل کے اوپر اتنی پڑی ہوئی ہیں حجاب بن کے کہ انسان کو کچھ نظر نہیں آتا یعنی حقیقت نظر نہیں آتی، تو اس کو پہلے دور کرو۔
آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں
دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب
مطلب یہ ہے کہ آنکھیں پھر تمھاری کام کرنے لگیں گی اور تمھیں دنیا خیال و خواب نظر آئے گا۔ جو بھی انسان فوت ہوتا ہے، اس وقت سب کو اس چیز کا پتا چل جاتا ہے کہ میں نے کیا کیا، کیسا وقت گزارا۔ میں ایک دفعہ ایک ڈاکٹر کے پاس گیا، تو اس کے پاس ایک عورت لائی گئی۔ ڈاکٹر میرے دوست تھے۔ انہوں نے مجھے انگریزی میں کہا کہ اس کو heart attack ہورہا ہے۔ وہ اس کو انجیکشن لگوانا چاہتا تھا، لیکن انجیکشن اس کو نہیں لگ رہا تھا۔ کبھی اس قسم کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔ وہ عورت اس طرح ہائے ہائے کرتی۔ اور یہ چیز سب کے ساتھ ہوتی ہے، اخیر میں سب کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ افسوس کرتے ہیں کہ میں نے کیا کردیا، میں نے کیا کردیا، میں تو یہ کرسکتا تھا، میں تو یہ کرسکتا تھا۔ یہ چیز ہوتی ہے۔ پس بات یہ ہے کہ انسان حقیقت کو نہیں دیکھ رہا، جب حقیقت کو دیکھے گا، تو اس وقت وقت نہیں ہوگا، اس وجہ سے اس حقیقت کو وقت سے پہلے دیکھنے کے لئے انسان کو جو موت کے وقت کے حالات ہیں (فنا کی کیفیت) وہ اپنے اوپر طاری کرنے ہوتے ہیں اور فنائیت اسی کو کہتے ہیں کہ جو موت کی حالت ہے، اس کو اس وقت اپنے اوپر طاری کرنا۔ پھر اس کو پتا چل سکتا ہے کہ اصل کیا ہے، پھر اس کی آنکھیں حق دیکھ لیں گی۔ یہاں پر یہ بتایا ہے۔
کان تیرے حق سے روگرداں نہ ہوں
اور نہ سنوائے غلط نفسِ خراب
خود سے تم گم ہو صرف وہ یاد ہو
پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب
یعنی تو اپنے آپ کو بھول جائے اور صرف اس کو یاد رکھ، یعنی وہ یاد رہے۔ فنا کی کیفیت اسی کو کہتے ہیں۔ پھر ادھر سے جواب آئے اس کا، یعنی بقا نصیب ہوجائے، وہ اس فنا کو قبول فرما کر تجھے بقا نصیب فرما دے، تو پھر ادھر سے جواب آتا ہے۔
تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں
اور سب کچھ اس کا ہی ہے لا جواب
اپنے خود کو عشق میں معدوم کر
تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب
جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ تیرا
ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب
ہر موقع پہ سبحان اللہ! الہام موجود، ہر موقع پہ جواب موجود، ہر موقع پہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا مشاہدہ، یہ چیز پھر جاری رہتی ہے اور ہر وقت جاری رہتی ہے۔ لیکن یہ تب ہوتا ہے، جب اپنے نفس کو معدوم کرلے، پھر اللہ کی طرف سے ما شاء اللہ! تجھے جو بقا ملے گی، اس بقا کے ذریعہ سے اللہ کے ساتھ جو تعلق ہوگا، تو ان چیزوں کا تو خود مشاہدہ کرے گا کہ یہ چیزیں تو کچھ بھی نہیں ہیں، یہ میں کن چیزوں کے پیچھے پڑا ہوا تھا، ان کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، اصل بات تو اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ پاک ہی سب کچھ دیتا ہے، لہٰذا مجھے اللہ کے ساتھ تعلق سنوارنا چاہئے، پس یہ چیز انسان کے اوپر کھل جاتی ہے۔
تو کرے وہ جو اسے منظور ہو
وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب
خود کو پہچانو شبیرؔ کہ کیا ہو تم
ختم شد واللہ اعلم بالصواب
’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے اللہ کو پہچانا۔ یعنی جس نے اپنے نفس کی عبدیت کو جانا کہ اصل میں وہ بندہ ہے یعنی اس کو پہچان لیا، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو جان لیا اور اس کو اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوگئی۔ یہی اصل میں بنیادی بات ہے۔ جو انسان اپنے نفس کی بندگی کو نہیں جانتا اور کہتا ہے کہ میں ایسا اور میں ایسا اور میں ایسا، تو بس پھر ٹھیک ہے، وہ اسی میں لگا رہتا ہے، اس کو پھر حقیقت کا پتا نہیں چلتا۔ ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے: ’’ہم چوں ما دیگرے نیست‘‘ یعنی میری طرح کوئی اور نہیں ہے، یہ جو لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ میری طرح اور کون ہے؟ حضرت کہتے ہیں کہ اصل میں وہ کہنا چاہتے ہیں: ’’ہم چوں ما ڈنگرے نیست‘‘ یعنی میری طرح کوئی اور جانور نہیں ہے۔ کیونکہ سارے جانور ہی ہیں، یعنی انسان کے اندر دو ہی تو چیزیں ہیں: روحانیت ہے اور بہیمیت ہے۔ بہیمیت جانور کو کہتے ہیں۔ انسان حیوان ناطق ہے، اس کو حیوان ناطق کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بہیمیت تو اس میں ہے، جانور بھی کھاتا ہے، یہ بھی کھاتا ہے۔ جانور بھی پیتا ہے، یہ بھی پیتا ہے۔ جانور بھی سوتا ہے، یہ بھی سوتا ہے۔ جانور بھی اپنے نفس کی خواہشات پہ لگا ہے، یہ بھی لگا رہتا ہے۔ تو اس میں اور جانور میں کیا فرق ہے؟ فرق روحانیت کا ہے۔ جب اس کی روحانیت اس کے نفس پہ غالب آجائے، تو پھر اس میں انسانیت آجاتی ہے۔ پھر یہ انسان بنتا ہے، ورنہ پھر بھیڑیا بنتا ہے۔ کبھی بھیڑیا بنتا ہے، کبھی کتا بنتا ہے، کبھی خنزیر بنتا ہے، کبھی بچھو بنتا ہے، کبھی سانپ بنتا ہے، یعنی اس کے اندر یہ صفات جو جانوروں کی ہیں، وہ مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ راستے پہ جارہے ہوتے ہیں، کبھی ایک کو مارا تو کبھی دوسرے کو مارا بغیر کسی وجہ کے، یہ کون ہیں؟ یہ بھیڑیے ہیں۔ اگر کوئی خواہ مخواہ چھپے چھپے کوئی کام کرتا ہے، تو یہ چوہا ہے۔ جو آتا ہے اس کو ڈس لیتا ہے، تو یہ کیا ہے؟ یہ سانپ ہے۔ اور جو sex کی طرف جاتے ہیں، یہ کیا ہیں؟ یہ خنزیر ہیں۔ یعنی اصل میں یہ وہ صفات ہیں، جو جانوروں کی ہیں، جب تک انسان کے اندر یہ صفات ہیں، تو یہ انسان نہیں ہے، یہ انسان کی شکل میں جانور ہے۔ لیکن جس وقت اس کی اصلاح ہوجائے، تو سبحان اللہ! پھر فرشتے بھی اس پر رشک کرتے ہیں۔ فرشتے ان کی خدمت کو آتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے، جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے جو تم منگوانا چاہو۔ یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل‘‘۔
یعنی جن لوگوں نے کہا کہ رب ہمارا اللہ ہے اور اس پر قائم رہے یعنی استقامت اختیار کی، تو موت کے وقت فرشتے آئیں گے ان کے پاس، ان کو جنت کی بشارت دیں گے اور پھر کہیں گے کہ ہم تمھارے ساتھ ادھر تھے ہی، یعنی تیری خدمت کے لئے موجود تھے اور اب تمھارے ساتھ ہی جار ہے ہیں۔ ﴿نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نیک لوگ ہوتے ہیں، فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ساتھ ہونے میں ما شاء اللہ! وہ خوش ہوتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
تو یہ ہے کہ اگر انسان انسان بن جائے، تو فرشتے بھی اس پر رشک کرنے لگتے ہیں، لیکن اگر وہ حیوان بن جائے، تو پھر اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179)
ترجمہ: ’’وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ راستہ تو کامیابی کا یہی ہے کہ ہم اپنے نفس کا علاج کریں، اپنے نفس کو نفس امارہ سے نکال کے نفس مطمئنہ کے راستے پہ ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے، آپ کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔