اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ (الفجر: 1-3)
ترجمہ: ’’قسم ہے فجر کے وقت کی۔ اور دس راتوں کی۔ اور جفت کی اور طاق کی‘‘۔
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام:
''مَا مِنْ أَیَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُّتَعَبَّدَ لَهٗ فِيْهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحَجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِّنْهَا بِصِيَامٍ سَنَةٍ وَّقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِّنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ''۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 758)
ترجمہ: ’’حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی دن عشرہ ذی الحجہ کے سوا ایسے نہیں کہ ان میں عبادت کرنا خدائے تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو، ان میں سے ایک دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہے (دسویں کو روزہ رکھنا حرام ہے، پس یہ فضیلت نو دنوں کے لئے ہے) اور ان کی ہر رات کا جاگنا شب قدر کے برابر ہے‘‘۔
لَا سِيَّمَا صَوْمَ عَرْفَةَ الَّتِيْ
قَالَ فِيْهَا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهٗ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1162)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اُمید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ عرفہ کا روزہ کفارہ ہوجاتا ہے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئنده کا‘‘۔
وَمِنْهَا التَّکْبِيْرُ دُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوْبَاتِ۔
''وَكَانَ عَبْدُ اللهِ یُکَبِّرُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مِنْ یَّوْمِ النَّحْرِ، يَقُوْلُ: اَللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ''۔ (مصنف ابن ابي شیبة، رقم الحدیث: 5631)
ترجمہ: ’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تکبیر پڑھا کرتے تھے عرفہ کی فجر سے یومِ نحر کی عصر تک (ہر نماز کے بعد بآواز بلند) فرمایا کرتے تھے: ''اَللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ''۔
''وَكَانَ عَلِيٌّ يُّكَبِّرُ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مِنْ اٰخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ وَيُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ''۔ (مصنف ابن ابي شیبة، رقم الحدیث: 5631)
ترجمہ: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے اخیر دن (یعنی تیرھویں) کی عصر تک (ہر نماز کے بعد) تکبیر پڑھا کرتے تھے‘‘۔
وَمِنْهَا إِحْيَاءُ لَيْلَةِ الْعِيْدِ،
معزز خواتین وحضرات! ایک تو یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے جس چیز کے اندر جو خیر رکھی ہے اس خیر کو حاصل کرنے کے جو اسباب ہیں ان کو اگر اختیار کیا جائے تو وہ خیر ہمیں مل سکتی ہے، ان اسباب کو اگر کوئی اختیار نہ کرے تو بس ٹھیک ہے پھر محرومی ہے۔ مثلاً ایک چیز بہت میٹھی ہے لیکن کوئی اس کو کھائے نہیں تو اس کے میٹھے ہونے کا کیا فائدہ، بس معلومات کی حد تک ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے، تو اسی طریقے سے خانہ کعبہ کے اندر جتنے انوارات اور برکات ہیں اور وہاں جو اسباب ہیں اس کے مطابق اس سے حاصل ہوں گے یعنی وہاں تین طریقے ہیں کہ خانہ کعبہ کا طواف، وہاں پر نماز، چونکہ ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے وہاں پر اور خانہ کعبہ کو دیکھنا، اب نہ کوئی وہاں طواف کرے، نہ وہاں نماز پڑھے اور نہ اس کو دیکھے تو عین ممکن ہے کہ وہ تو اپنے اوپر کچھ حجتیں لگا کے واپس آجائے، کچھ ایسی باتیں کرکے آجائے کہ جہاں پر اگر ایک لاکھ کا ثواب ہے تو ایک لاکھ کا گناہ بھی ہوسکتا ہے اور اپنے لئے کچھ مسائل پیدا کرکے وہ شاید اُدھر سے آجائے، اس وجہ سے محتاط رہنا پڑتا ہے کہ وہاں جب ہم جائیں تو پھر وہاں کی برکات کو سمیٹنے کے طریقے بھی آنے چاہئیں۔ اس طرح زمانے میں بھی برکات ہوتی ہیں، اوقات میں برکات ہوتی ہیں، مثلاً دیکھیں ایک وقت روزانہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیتے ہیں اور ہر شخص کو دیتے ہیں لیکن قسمت والے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ وقت ہے تہجد کا، تہجد کے وقت فرشتے کے ذریعے سے منادی کرائی جاتی ہے کہ ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت کو ختم کروں، ہے کوئی تکلیف میں مبتلا کہ اس کو تکلیف سے بچاؤں، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا، مسلسل مسلسل یہ سحری کے وقت آواز لگائی جاتی ہے۔ اب جن کا دل بنا ہوتا ہے وہ اس وقت اٹھ جاتے ہیں، نماز پڑھ لیتے ہیں، اللہ سے مناجات کرلیتے ہیں، ذکر واذکار کرتے ہیں، اپنے دل کو صاف کرلیتے ہیں، اپنی خطاؤں پہ آنسو بہا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ معاف کروا لیتے ہیں اور اس وقت کی برکات سمیٹ لیتے ہیں۔ اس طرح رمضان شریف کا مہینہ ہمارے اوپر آتا ہے، تو رمضان شریف کے مہینے میں بے تحاشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں سحری کے وقت، افطاری کے وقت، تروایح کے دوران یہ مسلسل اللہ کی طرف سے multiplication factor بدل جاتا ہے ہر فرض نماز ستر گنا ہوجاتی ہے، نفل فرضوں کے برابر ہوجاتا ہے، افطاری کے وقت لاکھوں لوگوں کو جہنم سے خلاصی نصیب ہوتی ہے۔
رمضان شریف کا مہینہ بھی آجاتا ہے، گزر جاتا ہے، اب ہر شخص اُدھر سے ایک جیسا حاصل نہیں کرتا، جس نے اس سے حاصل کرنا ہوتا ہے اس کو موقع مل جاتا ہے اور وہ حاصل کرلیتا ہے، ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کہ جبرائیل علیہ السلام نے دعا کی کہ جس پر رمضان شریف کا مہینہ گزر گیا اور اس نے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش نہیں کروائی اللہ اس کو تباہ و برباد کرے۔ تو آپ ﷺ نے اس پر آمین کہا‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر 3545)
اب دیکھیں! رمضان شریف کا مہینہ اس پر بھی گزر گیا، اس طریقے سے ذی الحج کا جو مہینہ ہے یہ بھی بہت ساری برکات لے کے آتا ہے۔ ابھی میں نے آپ کے سامنے جو آیتِ کریمہ تلاوت کی ہے ﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ (الفجر: 1-3)
ظاہر ہے اس کا ایک مطلب ہے، تو فرماتے ہیں کہ درِ منصور میں متعدد اسناد سے روایت درج کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس آیت میں لَیَالٍ عَشْرٍ سے ذی الحجہ مراد ہے اور وَتْر یعنی طاق سے عرفہ کا دن مراد ہے اور شَفْع جفت سے قربانی کا دن مراد ہے یعنی دسویں تاریخ۔ اب دیکھ لیں اللہ پاک جن چیزوں کی قسم کھاتے ہیں اس کے اندر بہت کچھ رکھا ہوتا ہے، عشر کا بھی بتا دیا، پھر یہ دیکھیں ان دس راتوں اور دنوں کے اندر کیا ہے؟ ابھی احادیث شریفہ میں آپ کے سامنے تلاوت تو کی ہیں لیکن عربی میں، اس کا ترجمہ بھی سنا دیتا ہوں تاکہ عوام سمجھ جائے کہ اس کا مطلب کیا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی دن عشرہ ذی الحجہ کے سوائے ایسے نہیں کہ ان میں عبادت کرنا خدا تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو، ان میں سے ایک دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہوتا ہے کیونکہ دسویں کو روزہ رکھنا حرام ہے، پس یہ فضیلت نو دنوں کے لئے ہے، ان کا ہر رات کا جاگنا شبِ قدر کے جاگنے کی طرح ہوتا ہے، ترمذی اور ابنِ ماجہ کی روایت ہے، یہ صحاحِ ستہ میں سے ہیں دونوں کتابیں۔ ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ عرفہ کا روزہ کفارہ ہوجاتا ہے ایک سال گزشتہ کا اور ایک سال آئندہ کا۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے، اس میں ایک لطیف نقطہ عرض کروں، اگر یہ روزہ کوئی اخلاص کے ساتھ رکھ لے تو یہ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز حسنِ خاتمہ کا ذریعہ بن سکتا ہے، اب گزشتہ ایک سال کا تو ہے لیکن آئندہ جو ایک سال ہے، اگر آئندہ کے لئے کسی کے گناہ معاف ہوچکے ہوں یعنی اللہ تعالیٰ ان کے لئے کفارہ بنا رہے ہوں، اسباب بنا رہے ہوں، تو اگر اسی سال ان کی موت ہوگئی اِنْ شَاءَ اللہ، یہاں سے پاک وصاف چلے جائیں گے۔ ابتدا والی بات تو بہت ساری چیزوں میں ہے لیکن یہ بعد والی باتوں میں یہ روایت اور یہ روایت بھی مسلم شریف کی روایت ہے۔ تو جیسے حج کسی پہ فرض ہو اور کوئی نہ کرے، تو اس کے لئے فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں پروا نہیں کرتا کہ کوئی یہودی مرتا ہے، کوئی نصرانی مرتا ہے یعنی اگر کوئی حج فرض ہو اور فرض حج نہ کرے۔ اسی طریقہ سے وہ جیسے علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایک سبب سوء خاتمہ کا وہ حج فرض نہ کرنا ہوتا ہے، اسی طریقہ سے حسنِ خاتمہ کا ایک سبب یہ بھی ہے اور ایک مسواک کرنا بھی ہے، بڑی بڑی باتیں ہمارے پاس ہوتی ہیں لیکن دیکھو: نہ پتہ ہوتا ہے، پتہ ہوتا ہے تو خیال نہیں ہوتا اور آذان کا احترام بھی ان میں آتا ہے، جو آذان کے احترام میں رک جائے اپنی باتوں کو چھوڑ دے، یہ بھی حسنِ خاتمہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اصل وجہ کیا ہے؟ شعائر اللہ، مطلب اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ایک جگہ پہ ارشاد فرمایا کہ ’’جس نے شرک کیا اس نے ایسا کیا جیسے کوئی آسمان سے گر جاتا ہے یا پھر کوئی پرندہ اس کو اچک لیتا ہے یا پھر وہ دور کسی وادی میں گر کے پاش پاش ہوجاتا ہے‘‘۔
شرک کی اتنی سخت مذمت ہے اس آیت میں۔ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
ترجمہ: ’’اسی طریقے سے جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ ان کے دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے‘‘ اور شعائر اللہ کی تعظیم یہ بہت بڑی بات ہے، تو آذان کا معاملہ بھی اس سے آتا ہے، کیوں اللہ کا نام بلند کیا جارہا ہے، اَللہُ اَکْبَر، اَللہُ اَکْبَر، اب اللہ کی بلندی کے تذکرے سے اتنا مرغوب ہوجائیں کہ آپ ساری باتیں روک دیں، میرے اللہ کی عظمت بیان کی جارہی ہے، اس کی بڑائی بیان کی جا رہی ہے، اب یہ والی بات بذاتِ خود بہت اونچی نیت ہے تو جو آذان کے وقت رک جائے۔ میں اکثر آج کل دیکھتا ہوں آج کل پروا نہیں کرتے لوگ، آج کل آذان ہورہی ہے لوگ آپس میں باتیں کررہے ہوتے ہیں، گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں، لطیفے سنا رہے ہوتے ہیں، مطلب آج کل ایسی حالت ہے تو یہ صرف دل کے سخت ہونے کی علامت ہے۔ اب مسجدِ نبوی ﷺ میں ہم دیکھتے ہیں، لوگ ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں یہ دل کے سخت ہونے کی علامت ہے، خانہ کعبہ میں وہاں پر ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں، selfie بنا رہے ہوتے ہیں، یہ سب دل کے سخت ہونے کی علامت ہے۔ وہاں ایک دفعہ ہم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے تو وہاں معمول نہیں ہے امام مسجد کا صرف جمعہ کے خطبہ کے وقت بیان ہوتا ہے، اس کے علاوہ نہیں ہوتا، معمول نہیں ہے، ایک دفعہ ہم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے تو مسجدِ نبوی ﷺ کے جو امام تھے جس نے نماز پڑھائی، یکدم لاؤڈ سپیکر آن ہوگیا، انہوں نے کوئی پانچ، چھ منٹ خطاب فرمایا، اس بات پر خطاب فرمایا کہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں جو کیمرے ہیں اور جو موبائل ہیں جن سے آپ تصویریں نکال رہے ہیں، یہ حرام ہیں، آپ ایک حرام کا ارتکاب کررہے ہیں مسجد نبوی میں، اس پہ بہت سخت بیان کیا۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ دیکھیں دل کی سختی بعض دفعہ اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ قبرستان میں بھی وہ ڈرتا نہیں ہے اور مردہ سامنے پڑا ہوتا ہے نہیں ڈرتا اور آذان ہورہی ہوتی ہے نہیں ڈرتا، قرآن سامنے پڑا ہے نہیں ڈرتا، قرآن زمین پہ رکھ دیں گے پروا، ہی نہیں، حالانکہ قرآن شعائر اللہ میں سے ہے، مطلب ظاہر ہے دل نہیں گھبراتا اس پر، خانہ کعبہ کی طرف پیر کرلیں گے پروا ہی نہیں۔ ایک دفعہ طواف میں کرچکا تھا اور میں نیچے آرہا تھا تو ایک مصری سویا ہوا تھا اور پیر خانہ کعبہ کی طرف کیے ہوئے تھے اور دوسرا مصری ان کے پاس کنارے بیٹھا ہوا تھا تلاوت کررہا تھا، اب جو سویا ہوا تھا اس کو تو میں نہیں جگا سکتا تھا، تو جو جاگ رہا تھا اس کے کان میں میں نے آہستہ سے کہا ﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32) صرف اتنا کہا، نہ اس سے پہلے کچھ کہا نہ اس کے بعد، وہ فوراً اٹھا اور اپنے ساتھی کو جگایا اور اس کے پیر خانہ کعبہ سے ہٹا دیئے، پھر اس کے بعد اس کو سمجھ میں آگئی بات، پتا چل گیا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ اس آیت کا مطلب یہی ہے۔ پھر صفا مروہ ہے اور اسی طرح خانہ کعبہ ہے اور اسی طرح قرآنِ پاک ہے، آذان ہے، آپ ﷺ کا تذکرہ ہے، یہ سب اونچے کام ہیں، تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس معاملے میں alert ہونا چاہئے۔
ایک بات میں عرض کردوں کہ ذی الحج کے ابتدا میں مَاشَاءَ اللہ جو پہلا عشرہ ہے اس میں آٹھ روزے تو اس کے ہیں کہ ایک سال روزے کے برابر، اور نویں ذی الحج کا جو روزہ ہے یہ کفارہ ہے گناہوں کا، ایک سال گزشتہ کا اور ایک سال آئندہ کا، ایک اس میں قربانی ہے، دل والی بات ہونی چاہئے، اصل میں دل ہی بنیادی چیز ہے اگر دل بن جائے تو ساری باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے حج کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی کی، کیا سو اونٹوں کی قربانی آپ ﷺ پر واجب تھی؟ ایک اونٹ کی بھی نہیں تھی، صرف ایک حصہ، اونٹ میں سات حصے پڑتے ہیں، صرف ایک حصے کی تھی لیکن سو اونٹوں کی قربانی کی، کیوں؟ تھوڑا سا اپنے دل سے پوچھیں، پتہ چلا معاملہ دل کا ہے، بھائی! دل تو چاہتا ہے اللہ کے لئے اپنے آپ کو ذبح کردیں، اس کی اجازت نہیں ہے، اب جہاں تک اجازت ہے اس سے پھر فائدہ اٹھاؤ، تو calculation میں لوگ پڑ جاتے ہیں، ٹھیک ہے پڑے رہیں، ایسے لوگ پھر شادی وغیرہ جب ہوتی ہے یا فوتگی کی رسمیں ہوتی ہیں اس وقت calculation میں نہیں پڑتے، ان کو کوئی بتاتے بھی ہیں کہ بھائی اس کے لئے کرلو، یہ ٹھیک ہے، یہ جائز نہیں ہے اس وقت وہ سنی ان سنی کردیتے ہیں، جب قربانی کا وقت آتا ہے تو calculation میں پڑتے ہیں کہ اوہ ہو! پتہ نہیں کیا ہوگا اور کس طرح ہوگا اور کیا ہوگا۔ تو قربانی جس پر واجب ہے اس پر تو واجب ہے، سُبْحَانَ اللہ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے صحیح قربانی کرنے کی، جس پر واجب نہیں ہے علماء کرام نے لکھا ہے اس کا اتنا زیادہ اجر ہے، اتنا زیادہ اجر ہے، اتنا زیادہ اجر ہے کہ اگر پتہ چل جائے تو جس پہ واجب نہیں ہے اس کا بھی جی چاہے گا کہ میں کروں۔
میں جرمنی میں تھا، ایک دفعہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو ایک جرمن مجھے غور سے دیکھ رہا تھا، گھور گھور کے دیکھ رہا تھا، ظاہر ہے وہ لوگ تجسس کرتے ہیں، تو جب نماز میں نے پڑھ لی مجھے کہا کہ یہ آپ کیا کررہے تھے؟ میں نے کہا کہ یہ ہماری عبادت ہے، پانچ دفعہ ہوتی ہے دن میں، کہتے ہیں کیا اگر کوئی اس کو نہ کرے تو گناہ ہے؟ اب جواب کیا تھا، جواب یہی تھا کہ گناہ ہے، جواب کیا تھا گناہ ہے لیکن چونکہ غیرمسلم تھا، میں اگر اس کو گناہ والی بات بتاتا تو اس کو ذرا اثر منفی پڑتا، تو میں نے اسی کی requirement کے مطابق جواب دیا، میں نے کہا: اس کا اتنا فائدہ ہے، اتنا فائدہ ہے، اتنا فائدہ ہے کہ کوئی بیوقوف ہی اس کو چھوڑ سکتا ہے، صحیح بات ہے واقعی بہت زیادہ فائدہ ہے اس کا۔ تو قربانی کا اتنا زیادہ اجر ہے، اتنا زیادہ اجر ہے، اتنا زیادہ کہ پتہ نہیں کیا بات ہوگی اگر کوئی واجب چھوڑے، کیا حکم ہے؟ کچھ نہیں کہتا، میرے خیال میں سمجھ گئے ہوں گے سارے لوگ کہ کیا کہنا چاہئے۔ اتنا زیادہ اس کا اجر ہے، بھائی اس کے بالوں کے بقدر نیکیاں مل رہی ہیں، پل صراط پر چلنے میں آپ کے لئے آسانی اس میں ہورہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ یہ بابِ محبت سے ہے۔ ذرا تھوڑا سا ایک اصول سمجھ لیں پھر اِنْ شَاءَ اللہ میری لمبی تقریر کی ضرورت نہیں ہوگی، اللہ جل شانہٗ کا ایک قاعدہ ہے، سنتِ عادیہ اس کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ایک سنتِ عادیہ ہے کہ اس کے لئے جو کام کرو گے وہ اس سے بڑھ کے تجھے دے گا، یہ قاعدہ ہے سنتِ عادیہ ہے، اس کے پاس کمی تو ہے نہیں، ’’اگر اللہ کے لئے اپنی عزت کو لٹاؤ گے، اللہ تمھیں بہت زیادہ عزت دے گا‘‘ حدیثِ قدسی ہے۔
’’جو صدقہ کرتا ہے اللہ کے لئے مال خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھاتا ہے‘‘۔
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ﴾ (البقرۃ: 276)
’’اور جو جان دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے لئے، اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ کی زندگی دیتے ہیں‘‘۔
﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرۃ: 154)
اب دیکھیں جو بھی دیا اللہ کو، اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت زیادہ کرکے لوٹایا۔ اب بتاؤ اللہ کے ساتھ محبت کرو گے تو جواب سننا ہمارے بس میں نہیں ہے، جواب سننا ہمارے بس میں نہیں ہے، تو جو چیز بابِ محبت سے ہو اس کے معاملے میں calculation نہیں لانی چاہئے، کیونکہ محبت میں calculation نہیں ہوا کرتی، آج کل معاملہ یہاں سرد ہوگیا ہے، دل کا معاملہ سرد ہوگیا ہے، لہٰذا calculation لوگ کرتے ہیں، ورنہ اگر حقیقت دیکھا جائے یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچنے کا ایک آسان ترین راستہ ہے۔ کیا خیال ہے؟ ویسے شاعری کی بات ہے لیکن میں ذرا تھوڑا سا اس کو اس کے ساتھ ملانے کی کوشش کررہا ہوں، ’’دل دینا‘‘ یہ محاورہ ہے، اب اگر ہم اللہ کو دل دینا چاہتے ہیں تو کوئی نظام تو ہونا چاہئے transportation کا، کسی طریقہ سے پہنچنا چاہئے ناں، تو اگر یہی قربانی کا جانور ہی آپ کے لئے transport بن جائے، آپ کا دل ادھر تک پہنچائے تو پھر کیسی بات ہو۔ اس لئے قربانی جب انسان کرے تو خوبصورت جانور کی کرے، ایسے جانور کی کہ جس کو ذبح کرنے کو جی نہ چاہے، اب جب اس محبت کو جو جانور کے ساتھ ہوئی ہے، اگر اس کو اللہ کے لئے آپ ذبح کریں گے تو بس پہنچ گئے۔ اس وجہ سے قرآن پاک میں بھی ہے:
﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا﴾ (الحج : 37)
ترجمہ: ’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون‘‘۔
مطلب دیکھیں یہ چیزیں نہیں پہنچتیں، اصل کیا چیز پہنچتی ہے، تقویٰ پہنچتا ہے، قربانی کے جانور کا خون ابھی زمین پہ نہیں گرا ہوتا کہ قبول ہوجاتا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ قربانی کا جانور شعائر اللہ میں سے ہے بلکہ یہ آیت جو آئی ہے اس پہ آئی ہے:
﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
ترجمہ: ’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اب جب دیکھا جائے تو یہ معاملہ ہمارے لئے بہت بڑی چیز ہے، اس وجہ سے قربانی میں سستی نہیں کرنی چاہئے، یہ باتیں میں اس لئے زور دے کر کہہ رہا ہوں کہ میں مخاطب ہوں بنیادی طور پر عورتوں سے اس وقت اور عورتیں دو چیزوں میں گڑبڑ کرتی ہیں، ایک قربانی میں اور ایک زکوٰۃ میں، اور ان کے پاس عذرِ لنگ بھی ہے، وہ عذرِ لنگ کیا ہے؟ کہتی ہیں ہمارے پاس پیسے تو ہیں نہیں، ہمارے پاس تو صرف زیور ہے، اب زیور کی وجہ سے قربانی تو ہمارے اوپر ہے لیکن ہمارے شوہر پیسے دیتے نہیں ہیں لہٰذا ہم کیسے قربانی کریں، کیسے زکوٰۃ دیں؟ یہ عذرِ لنگ ہے یا نہیں ہے؟ عذرِ لنگ ہے ناں، کیسے عذر لنگ ہے آپ ذرا فقہ کی کتابیں پڑھیں، مال جو اصل میں ہے وہ سونا اور چاندی ہے باقی چیزیں تو transfer ہوجاتی ہیں، سونا اور چاندی اصل مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی چیزیں اگر تجارت کی نیت سے ہوں پھر آپ کی اس پہ زکوٰۃ ہے، اگر آپ کے پاس کوئی فریج پڑا ہوا ہے تو اگر تجارت کی قبیل سے ہے پھر زکوٰۃ ہے اس پر ویسے استعمال میں ہے تو نہیں ہے، کار آپ کے پاس ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگر آپ نے تجارت کے لئے اپنے پاس کار رکھی ہے تو پھر کیا ہے؟ کوئی پلاٹ خریدا ہے اپنا مکان بنانے کے لئے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن آپ نے تجارت کے لئے خریدا ہے اس پر زکوٰۃ ہے اور پلاٹ value کے مطابق ہے پلاٹ value کے مطابق ہے، تو جب یہ والی بات سمجھ میں آگئی حالانکہ سونا اور چاندی اس کو بے شک آپ استعمال کررہے ہوں تب بھی اس کے اوپر زکوٰۃ ہے، کسی نے اس کا ہار بنایا، کسی نے اس کے کڑے بنائے ہیں اس صورت میں بھی اس پر زکوٰۃ ہے، یہ کیوں ہے؟ سوچا اس پہ کبھی؟ کیونکہ اصل مال ہے، تو جس کے پاس سونا اور چاندی چاہے کسی بھی شکل میں ہو وہ مال ہے، تو مال اس کے پاس ہے، تو مال سے کچھ مال نکال کے زکوٰۃ دو گے۔ جیسے آپ کے پاس دو لاکھ روپے ہیں تو اس میں سے آپ کے اوپر جتنی زکوٰۃ بنتی ہے وہ اسی دو لاکھ سے minus کرکے دو گے ناں، وہ کسی اور سے تو منگوا کے ضرورت نہیں ہے ناں، تو اس پہ بھی اس مال سے کاٹ کر آپ نے زکوٰۃ دینی ہے، اسی مال سے کاٹ کر آپ نے قربانی کرنی ہے، اگر آپ نے صحیح کرنا ہے تو۔ اس کا طریقہ کچھ خواتین نے یہ نکالا کہ وہ اپنے زیورات کو اپنے نابالغ بچوں کے نام کردیتی ہیں اب اس کے اوپر زکوٰۃ نہیں ہوگی، کسی نے بتایا ہوگا تو ٹھیک ہے وہ صحیح ہے، ایسا قانون صحیح ہے، لیکن اس میں ایک اور قانون بھی لگتا ہے ناں اور وہ قانون یہ ہے کہ اب آپ اس کو استعمال نہیں کرسکیں گی، کیونکہ نابالغ کی جو چیز ہے وہ آپ اس کی اجازت سے بھی استعمال نہیں کرسکتیں، تو یا تو اس کو بالکل دل سے نکالو اور بچیوں کو دے دو، تو جب تک وہ نابالغ ہے تو ٹھیک ہے اور یا پھر یہ ہے کہ استعمال کرنا ہو تو پھر یہ نہ کرو، پھر ان کو نہ دو اور اس سے زکوٰۃ نکالو۔
ایک دفعہ میں ایک بزرگ کے ساتھ کھڑا تھا اس کا بیٹا سائیکل پہ گزر گیا ہمارے سامنے سے، اس بزرگ نے فرمایا شبیر یہ سائیکل میرا ہے، میرا بیٹا اس کو چلا رہا ہے، میں نے بیٹے کو سائیکل دیا نہیں ہے، اس کے نام نہیں ہے، اگر اس کے نام ہوتا تو میں اس کو استعمال نہ کرسکتا، اس لئے میں نے اس کو دیا نہیں ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ مسائل کو جاننا ضروری ہے یہ تو فرضِ عین علم ہے، اس لئے تو ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس کو سیکھنا چاہئے، اس کو سیکھنا چاہئے۔ تو بہرحال یہ میں عرض کررہا تھا کہ قربانی واجب ہے عورتوں پہ، خوش ہوں کہ اللہ کا شکر ہے، اے اللہ تو نے مجھے اتنا دیا کہ آج میں قربانی کررہا ہوں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، خوش ہوجائے اس پر اور زکوٰۃ اگر کوئی دے رہا ہے تو وہ بھی بڑی خوشی سے دے کہ اے اللہ تیرا شکر کہ مجھے دینے والا بنایا ہے، مجھے لینے والا نہیں بنایا، لینے والا بھی بناتا تو صبر کرنا پڑتا، ظاہر ہے ٹھیک ہے ساری قسم کی مخلوقات ہیں لیکن اگر اللہ پاک نے دینے والا بنایا ہے تو اس پر شکر کرنا چاہئے۔ تو ایک تو زکوٰۃ بڑی خوش دلی سے دینی چاہئے اور اگر زیور پر زکوٰۃ آپ کا شوہر نہیں ادا کرتا تو اتنی ہمت اپنے اندر پیدا کرلو کہ خود ہی اس کو ادا کرو، شوہر کے اوپر ویسے واجب نہیں ہے، اگر وہ کرتا ہے تو اچھا کرتا ہے، اگر وہ آپ کی طرف سے دے دے تو اچھا کرتا ہے اس کا احسان مانو، احسان کرتا ہے احسان مان لو اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر نہیں دیتا تو اعتراض نہ کرو کیونکہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔
قربانی کا جو جانور ہے میں نے عرض کیا کہ خوبصورت ہونا چاہئے حضرت فاطمہ الزاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، دیکھو! مثال میں وہ دے رہا ہوں جو خواتین کے لئے بہت مناسب ہے، تھوڑا سا غور کریں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام میں غریب صحابہ میں تھے یا مالدار صحابہ میں تھے؟ غریب ترین صحابہ میں سے تھے، یہ حالت ہوتی تھی کہ ایک کجھور اور ایک ڈول پانی نکال کے یہودی کے باغ سے اور وہ ایک کجھور لیتے تھے اور جب مٹھی بھر کجھوریں ہوگئیں تو ڈول رکھ دیا، یہودی نے کہا: کیوں؟ اس نے کہا بس یرے لئے یہ کافی ہیں، انہوں نے کہا اور بھی لے لو، اس نے کہا نہیں بس میرے لئے یہ کافی ہیں، اتنی مزدوری کرتے تھے ل، غریب صحابہ میں سے تھے، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود فرماتی تھیں، اس وقت تو ویسے بھی یہ چیز نہیں تھی اور پھر آپ ﷺ کی بیٹی سارا گھر کا کام خود کرتی تھیں، اس سے ہاتھوں پہ گٹھے پڑ گئے تھے اور وہ چکی پیستی تھیں، اب ان ساری چیزوں کے باوجود دیکھو روایت موجود ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’فاطمہ جب تیرا جانور ذبح ہو قربانی والا اس کے پاس کھڑی ہوجاؤ۔ پتہ چل گیا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قربانی کرتی تھیں، تو یہ محبت والی بات ہے، قربانی کرنی چاہئے۔ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، چھوٹا جانور جیسے بکری، بکرا، دنبہ، دنبی اور اس طرح ان میں ایک حصہ ہوتا ہے، کچھ احتیاطیں ہیں، کچھ پابندیاں ہیں، احتیاطیں یہ ہیں کہ جس کا رزق حرام ہو واضح طور پر ان کو اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہ کرو، یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اور قربانی میں کوئی آدمی بھی ساتھ ایسا شریک نہیں ہونا چاہئے جس کا فقط گوشت کھانے کا ارادہ ہو، کیونکہ وہ اس کا حصہ نہیں بن سکتا، اور چھوٹا جانور اگر کسی نے لیا ہے اچھی بات ہے لیکن ذرا تھوڑا سا دل اور بڑا کرلیں اور اس کی شہرت نہ کریں، اس کے ساتھ محبت کریں شہرت نہ کریں۔ جیسے بعض لوگ پھیراتے ہیں ناں کہ میں نے دیکھو کیسا جانور لیا ہے، لوگوں سے تعریف کی توقع رکھتے ہیں، بھائی اللہ سے تعریف کی توقع رکھو، اللہ تعالیٰ کہہ دیں یہ قبول ہے بس کام ہوگیا، باقی لوگوں سے ہم نے کیا لینا ہے، کیا دینا ہے۔ تو ایک احتیاط بڑے جانور کی ہے کہ اس میں کسی ایسے کو شریک نہ ہونے دو جو صرف گوشت کھانے کے ارادے سے حصہ ڈال رہا ہو اور دوسرا یہ ہے کہ کسی کا مال حرام ہو واضح طور پر اور دوسری طرف یہ ہے کہ جو چھوٹا جانور ہے اس میں شہرت سے اپنے آپ کو بچاؤ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز۔ قربانی جب ہوجائے تو ویسے سارا گوشت خود کھا لو تو بھی جائز ہے، کیونکہ قربانی کا تعلق گوشت تقسیم کرنے کے ساتھ نہیں ہے لیکن یہ اس پر اضافی فائدہ ہے اور اضافی فائدہ یہ ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرلو، ایک حصہ اپنے لئے رکھ لو، ایک حصہ غرباء کو دو اور ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کو دو، یہ ایک مستحسن تقسیم ہے۔ ویسے کوئی سارا گوشت بھی خود کھا لے تو اس سے قربانی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ اس کی کھال اگر کوئی استعمال کرنا چاہے خود ذاتی طور پر تو جائز ہے مثلاً اس کی جائے نماز بنا لے، کوئی رسی بنا لے، ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر آپ نے اس کو بیچ دیا تو اب یہ مال آپ کا نہیں رہا، یہ فقراء کا ہے فقراء کو دینا پڑے گا، کھال وغیرہ اور رسی بھی جو اس کی ہے، مطلب جو چیزیں اس کی ہیں وہ اب غرباء کا حصہ ہے ان کو دو۔ قصائی جب مقرر کرلو تو قصائی کی اجرت طے کرنے میں گوشت نہ ہو، مطلب یہ کہ کچھ گوشت دے دیں اور کچھ اجرت، تاکہ اجرت کم ہوجائے نہیں، بے شک اس کو اجرت دو بے شک اسے گوشت بالکل نہ دو، کہیں معافی چاہتے ہیں یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے گوشت نہیں دے سکتے، البتہ اجرت جو آپ کی ہے وہ آپ کو دے رہے ہیں لیکن یہ ہے کہ اس میں اجرت میں گوشت شامل نہ کرو یہ آپ کی قربانی کو ضائع کروا دے گا۔ تقسیم جب کرتے ہو آپس میں جیسے سات حصے ہیں تو پورا پورا کرو، اس میں گڑبڑ نہ کرو ورنہ سود ہوسکتا ہے، البتہ یہ ہے کہ اگر ایک طرف سری پائے اور گوشت اور کسی طرف بالکل خالص گوشت ہے اس طرح اجازت ہے، مطلب یہ کہ اس طرح ہوسکتا ہے لیکن یہ بات ہے کہ اگر ایک قسم کی چیزیں ہیں تو پھر اس میں برابر سرابر ہونا ضروری ہے، تقسیم میں مطلب اس طرح کرنا چاہئے، ترازو کا استعمال ہونا چاہئے بہتر ہے، اندازے سے جو لوگ کرتے ہیں ٹھیک نہیں۔ بہرحال قربانی کا عمل بہت اونچا عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں توفیق عطا فرمائی اس پر بہت شکر ادا کرنا چاہئے، مستحسن طریقے سے اس کو کرنا چاہئے، جن لوگوں کو اللہ توفیق دے رہے ہیں قربانی کے لئے ان کے لئے ایک اور مستحب عمل یہ ہے کہ بہتر ہے کہ وہ اس دن یعنی دس ذی الحج جو کھانا پینا ہے جس کو ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کی ابتدا اپنے قربانی کے جانور کے گوشت سے کرلیں بہتر یہ ہے اور دوسرا بہتر مستحب عمل یہ ہے کہ جب یکم ذی الحج کا اعلان ہوجائے اس وقت سے قربانی کرنے والے حضرات اپنے ناخن، بال وغیرہ لینا بند کردیں اس وقت جب تک کہ قربانی وہ نہ کرلیں، یہ واجب نہیں ہے کوئی کرلے تو اس کو آپ غلط نہ کہیں مطلب تنگ نہ کریں، لیکن خود اگر اس پر عمل کرلیں تو اچھی بات ہے مستحب عمل ہے، مستحب کی دو extremes ہیں: ایک extreme یہ ہے کہ میں خود ایک مستحب پہ عمل کررہا ہوں دوسرا نہیں کررہا، میں اس کو لعن ملامت کررہا ہوں، آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ غلط، لعن ملامت نہیں کرسکتے کسی کو مستحب پر، دوسری طرف یہ ہے کہ میں خود کہوں کہ مستحب ہی تو ہے اور نہ کروں یہ بھی دوسری طرف ہے، کیونکہ ظاہر ہے مستحب کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی پسندیدہ، جو چیز اللہ کو پسند ہے آپ کیسے اس کی ناقدری کرسکتے ہیں، تو مطلب یہ ہے کہ اس کے کچھ مستحبات بھی ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور عید کی جو رات ہے اس کا اپنا ہی ہے، عیدین، ایک عید الفطر ہے، ایک عید الاضحیٰ ہے، ان راتوں میں بھی اللہ تعالیٰ بہت کچھ نوازتے ہیں لہٰذا کچھ حصہ عبادات کا اس میں کرنا چاہئے۔
میرا طریقہ تو یہ ہے کہ ان راتوں میں کم ازکم میں آخری دو پارے پڑھ لیتا ہوں، اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہزار آیتیں اس میں آجاتی ہیں، ایک قنطار اجر ہے اس کے حساب سے اور دوسری بات یہ ہے کہ کچھ نوافل پڑھ لیے جائیں، تہجد اگر کوئی پڑھتا ہے تو مَاشَاءَ اللہ تہجد تو پڑھ ہی لے گا، کچھ extra نوافل بھی اس کے ساتھ پڑھ لیں، پھر درود شریف پڑھ لیں، کچھ استغفار کرلیں، کچھ ذکر کرلیں، کسی نہ کسی طریقے سے کچھ اعمال خیر کے اس طرح کرلیں تاکہ وہ مَاشَاءَ اللہ آپ کے record میں اس رات میں آجائیں اور باقی جو ایام ہیں اس میں بھی آپ کوشش کرلیں کہ غافل نہ رہیں، کیونکہ لیلۃ القدر کی راتیں ہیں اور ان کو کمانا بہت اچھا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہت زیادہ اس کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائیں۔ یہ اصل میں اللہ تعالیٰ جب موقع عطا فرمائیں تو اس میں اپنا حصہ ضرور وصول کرنا چاہئے، آپ حضرات نے وہ حدیث شریف سنی ہوگی:
’’کہ جب آپ جنت کی چراہگاہوں میں پہنچو تو وہاں خوب چرو، تو صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ جنت کی چراہگاہیں کون سی ہیں؟ فرمایا: ذکر کے حلقے ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3510)
مطلب اس قسم کے مواقع اگر ہوں تو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اب ایک اور حدیث شریف ہے جس کا ایک اور عمل کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہے تکبیراتِ تشریق جس کو ہم کہتے ہیں، اور اس میں ’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر پڑھا کرتے تھے عرفہ کے فجر سے یوم النحر کی عصر تک‘‘
یوم النحر بارہ ذی الحج کو کہتے ہیں مطلب آخر یعنی غروب سے پہلے پہلے یہ ہوتا ہے بارہ ذی الحج تک، تو ''اَللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ'' یہ ہر نماز کے بعد کم ازکم ایک دفعہ مرد کو پڑھنا چاہئے، یہ یوم العرفہ کی فجر سے شروع ہوجاتا ہے اور بارہ ذی الحج کی عصر تک یہ عمل ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں۔ لیکن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے تیرہ ذی الحج کی عصر تک، تو ہم لوگ اس پر عمل کرتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو فرمایا ہے، عمل جو تھا اس سے آگے انکار نہیں کیا تو لہٰذا آگے بھی جاسکتے ہیں اس قانون کے مطابق اور ساتھ یہ ہے کہ مَاشَاءَ اللہ تیرہ ذی الحج والا قول تو موجود ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تو ہم اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق ’’عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے‘‘ اور ارشاد فرمایا کہ ’’جس نے عرفہ کا روزہ رکھا اس کے پہ در پہ دو سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 749) اور ارشاد فرمایا کہ ’’نہ کوئی دن اللہ کے نزدیک افضل ہے اس عشرہ ذی الحج سے اور نہ کسی میں عمل کرنا ان میں عمل کرنے سے افضل ہے، پس خصوصیت سے کثرت سے رکھو ان میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرْ کی کیونکہ تکبیر اور تہلیل ذکر اللہ کے دن ہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 2438)
یعنی اس میں بس اللہ کو یاد کرنا چاہئے کیونکہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ دیکھیں ذرا تھوڑا سا عرض کروں کہ یہ جو ان ایام کے اندر جو کچھ ہورہا ہے تھوڑا سا اگر ہم غور سے دیکھیں تو یہ ان لوگوں کی نقل ہورہی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو قربان کیا تھا، اپنی خواہشات کو قربان کیا تھا اور محبت کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کیا تھا، ایک طرف دیکھیں ہاجرہ بی بی کا، ایک طرف دیکھیں اسماعیل علیہ السلام کا اور ابراہیم علیہ السلام کا اور اسی طریقے سے آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو پہلی دفعہ جب ملاقات ہوئی عرفات میں، مزدلفہ میں پھر تشریف لائے رات وہاں گزاری، تو اس کا مطلب ہے یہ ساری نشانیاں ہیں رجال اللہ کی نشانیاں ہیں، اس سے اگر اعمال کی فضیلت کا بھی پتا چلتا ہے تو رجال اللہ کی اہمیت کا بھی پتا چلتا ہے، جس وقت اس کے ساتھ لگ گیا ناں اللہ کا نام رجال اللہ، کتاب اللہ، اب کتابیں تو بہت ساری ہیں لیکن کتاب اللہ بالکل مختلف ہے، اس طرح لوگ تو بہت ہیں، رجال تو بہت ہیں لیکن رجال اللہ معاملہ ہی بالکل مختلف ہوگیا، تو اس وجہ سے رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ معارف القرآن تفسیر ہے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی انہوں نے یہ بات لکھی ہے سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ کے بالکل ابتدا میں فرمایا کہ سورۂ فاتحہ میں ہم لوگ مانتے ہیں:
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7)
ترجمہ: ’’اے اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلا دے، ہدایت دے دے اس کی۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا اور نہ کہ ان کا جن پہ تیرا غصہ ہے اور جو گمراہ ہوچکے ہیں‘‘۔
تو یہاں پر دیکھ لیں جن پر انعام ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں قرآن میں وہ انبیاء ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں، صالحین ہیں، تو یہ لوگ کیا ہیں؟ یہ رجال اللہ ہیں۔ اب حضرت نے فرمایا دیکھو سورۂ فاتحہ میں رجال اللہ کی اہمیت بیان ہوئی اور سورۂ بقرہ کے بالکل ابتدا میں:
﴿الٓمّٓۚ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۛۖۚ فِیْهِ ۛۚ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 1-2)
ترجمہ: ’’الم۔ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے‘‘۔
تو کتاب اللہ کا جو مقام ہے بتایا گیا اور پھر فرمایا کہ ان دونوں کا بیک وقت لینا یہ ہے صحیح طریقہ، اس سے انسان ہدایت پہ رہ سکتا ہے اور ان میں سے کسی ایک کو لینا اور دوسرے کو چھوڑنا یہ گمراہی ہے، پھر اس کی مثال دی کہ رجال اللہ کو جنہوں نے چھوڑا اور کتاب اللہ کو لیا، ان کی مثال خوارج کی ہے، جن کے بارے میں آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی کہ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، تو وہ کتاب اللہ کو تو لے رہے ہیں لیکن رجال اللہ کے قائل نہیں تھے۔ تو ان کی مثال ہے خوارج کی اور رجال اللہ کو جنہوں نے لیا اور کتاب اللہ کو نہیں لیا ان کی مثال فاطمین کی ہے، جنہوں نے کتاب اللہ سے اعراض کرلیا اور رجال اللہ کو لیا، اس وجہ سے وہ رجال اللہ کو پہچان ہی نہیں سکے اور کتاب اللہ سے بھی محروم ہوگئے، نتیجتاً گمراہ ہوگئے۔ اس وجہ سے اگر ہمیں بچنا ہے تو بیک وقت رجال اللہ اور کتاب اللہ کو لینا پڑے گا، اس سے اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز ہماری بچت ہوگی، اللہ تعالیٰ مجھے بھی صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ