نقشبندی سلوک حصہ اول

مراقبات اور سلوک سے متعلق ( یہ ریکارڈنگ چلائی گی)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

سلوک النساء کتاب میں اصلاح اور لطائف کے ذکر شامل ہیں، جنہیں جسم کے اندر محسوس کیا جا سکتا ہے۔   وقوف قلبی، یعنی دل سے دل کا دھیان، روحانی ترقی کے لیے ضروری ہے، جو کیفیتِ حضوری اور احسان کے  حصول میں مددگار ہے۔ مراقبہ کسی چیز کی طرف ہمہ تن توجہ کرنا ہے، جیسے بلی شکار کو محسوس کرتی ہے، بغیر خود کچھ کرنے کے۔ لطائف (قلب، روح، سِر، خفی، اخفی) عرش سے اوپر کے اصولوں کے ظلال ہیں، جنہیں ذکر سے منور کیا جا سکتا ہے۔ ان کی توجہ سے علوم و معارف حاصل ہوتے ہیں، جو علم کو حال میں بدلتی ہے، جیسے صبر اور شکر۔ شیخ کی بصیرت سے مراقبوں کی ترتیب دی جاتی ہے، جیسے احدیت، تجلیات افعالیہ، صفات ثبوتیہ، شیونات ذاتیہ، تنزیہ، اور شان جامع۔ ہر مراقبہ مخصوص لطیفے سے جڑا ہے، جو فیض کے استحضار اور اللہ کی صفات کو حال میں محسوس کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اخلاص اور توجہ کے ساتھ ان کا مقصد تخلق بالاخلاق اور سنت پر عمل ہے۔

تمہید:


اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37) صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! ہماری سلوک النساء کتاب خواتین تک پہنچ گئی ہے، بعض کو پہنچ گئی ہے اور جن کو نہیں پہنچی، وہ طلب کرسکتی ہیں۔ اور کتاب میں خواتین کے لئے اصلاح کا جو نصاب ہے، وہ دیا ہوا ہے۔ بنیادی ذکر کرنے کے بعد ان کو لطائف کا ذکر بتایا جاتا ہے۔ آج ان شاء اللہ اجمالی طور پر ہم سارے لطائف کے بارے میں اور مراقبات کے سارے اسباق کے بارے میں بتائیں گے، تاکہ اگر کسی کا نہ ہو، تو اس کو پتا چل جائے۔ لطائف کا ذکر جو ہوتا ہے، یہ اصل میں جسم کے اندر کچھ مقامات ہیں، جن پہ انسان ذکر محسوس کرسکتا ہے۔ ویسے ساری چیزیں ذکر کرتی ہیں، لیکن اس کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں، جہاں پر ذکر آسانی کے ساتھ محسوس ہوسکتا ہے، اگر کوئی محنت کرلے۔ پس ان کو محسوس کرنا ہوتا ہے اور اس کا نظام یہی ہے کہ اس پہ ذکر کرایا جاتا ہے۔

متن:

اس کو یوں کرنا ہوتا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ جہاں ذکر کرانا ہے، وہاں ذکر ہورہا ہے۔

جیسے میں نے عرض کیا کہ ہر چیز ذکر کررہی ہے، وہاں بھی ذکر ہورہا ہے۔ اس کو سننے کی کوشش ہو، تصور سے کروانے کی کوشش نہیں کرنی۔

تصور سے اس کو کروانے کی کوشش کرنے کا نظام اس میں نہیں ہے، کیونکہ ہم دل کو نہیں چھیڑ سکتے۔ ہم کسی سے ذکر کروا نہیں سکتے، ہاں اگر وہ کررہا ہو، تو اسکو ہم سن سکتے ہیں۔

وقوف قلبی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور نقشبندی سلوک میں نیت، وقوف قلبی اور اس کے ساتھ نفس کے تزکیہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یاد رکھنا ہے کہ دل پر اتنی محنت ہو جتنا کہ نفس کا تزکیہ ہو، ان دونوں کے درمیان توازن اگر نہیں ہوگا، تو سالکہ بغیر تکمیل کے اپنے آپ کو کامل سمجھ سکتی ہے، جو طریقت میں سمِ قاتل ہے۔

اب وقوفِ قلبی بتایا جاتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے۔

وقوف قلبی:

قلب کہتے ہیں دل کو۔

اس سے مراد دل سے دل کا دھیان ہے۔

مطلب یہ کہ دل سے ہم نے دھیان رکھنا ہے اور دل کا دھیان رکھنا ہے۔

پہلے ذہن سے شروع ہوتا ہے، یعنی ذہن سے دل پر توجہ کرتے ہیں جو بعد ازاں دل کی دل پر توجہ میں بدل جاتی ہے۔ یہ مشق سے آہستہ آہستہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ کیفیتِ حضوری اور کیفیتِ احسان کے حصول کے لئے ہوتا ہے، تاہم اس سے اطمینان کی کیفیت جو حاصل ہوتی ہے، وہ ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28) کے زمرے میں آتی ہے، اس کی نیت نہیں کرنی ہوتی۔ وہ بھی جب حاصل ہو تو اس پر شکر کے ساتھ اس کو جاری رکھنا ہوتا ہے، دل کا دھیان بڑی دولت ہے۔ نصیب ہوجائے، تو پھر چاہے پتا چلے یا نہیں، روحانی ترقی ہوتی رہتی ہے۔

مراقبہ کیا ہے:

اب مراقبہ کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں پہلے بتا چکا ہوں، لیکن میں اس کو ایک ہی موقع پہ بتانا چاہتا ہوں، تاکہ ساری خواتین تک یہ بات پہنچ جائے۔

متن:

کسی بھی چیز کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونے کا نام مراقبہ ہے۔ مثلاً: کسی آواز کے سننے یا کسی چیز کو محسوس کرنے یا قلبی آنکھ سے کسی چیز کے دیکھنے کی کوشش کرنا۔ اس میں خود کچھ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ جو ہورہا ہوتا ہے اس کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔

تشریح:

مثلاً: جیسے بلی شکار کرنا چاہتی ہے، تو بلی اس شکار کو لا تو نہیں سکتی، لیکن شکار اگر آجائے، تو پھر اس کو حاصل کرسکتی ہے۔ اب اس میں اگر اس سے سستی ہوئی، تو حاصل نہیں کرسکے گی۔ اس وقت وہ اپنی تمام سستیوں کو ختم کرکے ہمہ تن اپنے شکار کی طرف متوجہ ہوتی ہے، آنکھوں کے ذریعہ سے، کان کے ذریعہ سے، بالوں کے ذریعہ سے، پیروں کے ذریعہ سے، دماغ کے ذریعہ سے، جسم کے سارے اعضاء اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ جو کام اس وقت جس نے کرنا ہو، اس وقت اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اور اس وقت وہ کرسکے۔ اس کو مراقبہ کی طرح کہا جاسکتا ہے۔ یعنی مراقبہ اسی طرح ہوتا ہے۔

متن:

کہتے ہیں دل پر کسی کو اختیار نہیں۔ اس لئے دل سے ہم کچھ نہیں کروا سکتے، لیکن دل جو کچھ کررہا ہے، اس کو محسوس کرنے کی مشق تو کرسکتے ہیں۔

لطائف کا ذکر:

متن:

اصل میں دل ایک لطیفہ ہے۔

لطیفہ باریک چیز کو کہتے ہیں۔ باریک چیز جو جلدی محسوس نہیں کی جاسکتی، ذرا غور و فکر سے محسوس ہوتی ہے۔ تو دل ایک لطیفہ ہے، اس طرح اور بھی لطائف ہے جیسے لطیفہ روح، لطیفہ سِر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ اور لطیفہ نفس۔ ان لطائف کے اصل عرش سے اوپر ہیں۔ یعنی پہلے جو پانچ لطائف ہیں: لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سِر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ؛ ان سب کے جو اصول یعنی جڑیں ہیں، وہ عرش سے اوپر ہیں، ان کے جو ظلال یعنی سائے ہیں، وہ ہمارے جسم کے اندر ہیں۔ چونکہ ان کا علم کشفاً ہوا ہے، اس لئے ان کے مقامات کے تعین میں اختلاف بھی ہوا ہے۔ ان لطائف کے حال کی طرف توجہ کرنے سے ہم پر بہت کچھ کھل سکتا ہے۔

تشریح:

کیسے کھل سکتا ہے؟ اب دیکھو! وہاں تک تو ہماری رسائی نہیں ہے، جہاں تک لطائف کی رسائی ہے، تو اب لطائف تک ہم رسائی حاصل کرلیں اور لطائف کی رسائی وہاں تک ہے، تو ہماری وہاں تک رسائی ہوجائے گی۔

متن:

ان لطائف کے حال کی طرف توجہ کرنے سے ہم پر بہت کچھ کھل سکتا ہے۔ اگر ہم ان محسوسات کا صحیح استعمال کرلیں، تو ہمیں وہ علوم و معارف حاصل ہوسکتے ہیں جن کو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں ان ظلال پر توجہ کرکے ان پر ذکر کے ذریعہ سے ان کے اصول تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ مختلف مراقبات کے ذریعہ ان علوم و معارف تک محض خدا کے فضل سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں، جس کے ذریعہ سے ہمارا علم حال میں بدل جاتا ہے۔

تشریح:

حال کیا ہوتا ہے اور علم کیا ہوتا ہے؟ علم تو کتاب میں ہوتا ہے، لیکن جب وہ علم ہمارے اندر آجائے، اس کے ذریعہ سے ہم ایسے ہوجائیں جیسے کہ وہ علم کہتا ہے، تو یہ حال ہے۔

مثال کے طور پر خدا کی یاد ایک علم کے درجہ میں ہے، اور ایک خدا کی یاد اصل میں کہ مجھے خدا تعالیٰ یاد رہے۔ مجھے خدا تعالیٰ اصل میں اس وقت یاد رہ رہا ہوگا، جس وقت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی سرتابی کرنے کی جرات نہ کرسکوں اور اللہ کو جو پسند ہے، اس کی طرف میری توجہ بڑھ جائے، تو میں کہوں گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی یاد حاصل ہوگئی۔ تو اللہ تعالیٰ کی یاد کو اصل میں حال کے درجہ میں حاصل کرنا ہے، علم کے درجہ میں نہیں، علم کے درجہ میں تو سب کو حاصل ہے۔ صبر کا علم سب کے پاس ہے، لیکن صبر کسی کسی کے پاس ہے۔ شکر کا علم سب کے پاس ہے، لیکن شکر کسی کسی کے پاس ہے۔ اخلاص کا علم سب کے پاس ہے، لیکن اخلاص کسی کسی کے پاس ہے۔ توکل کا علم سب کے پاس ہے، لیکن توکل کسی کسی کے پاس ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو محنت انسان کرتا ہے، وہ یہی ہے کہ اپنے علم کو حال کے درجہ میں بدل لے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ ارشاد فرمایا تھا: ؎

قال را بگذار مرد حال شو

پیش مرد کامل پامال شو

"قال کو ایک طرف کردو اور حال کو حاصل کرلو اور اس کے لئے کسی صاحب کمال کے سامنے اپنے آپ کو پامال کردو"۔ تو یہ میں عرض کررہا تھا کہ:

متن:

یہاں پر ظلال کے اوپر توجہ کرکے ان پر ذکر کے ذریعہ ان کے اصول تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں، پھر ان کے ذریعہ مختلف مراقبات کے ذریعہ علوم و معارف تک محض خدا کے فضل سے رسائل حاصل کرسکتے ہیں جس کے ذریعہ ہمارا علم حال میں بدل سکتا ہے اور یہی مراقبات کا ثانوی مقصد ہوتا ہے، کیونکہ اصل میں تو شریعت پر کیفیتِ احسان کے ساتھ عمل مقصود ہے، لیکن عمل کا درجہ اس کی معرفت کے مطابق ہوتا ہے اور اسی میں فرق ہوتا ہے، ان محسوسات کی نیت کرکے بس ان لطائف کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونا، یہ ہمیں کرنا پڑے گا۔ ہمیں کروانا نہیں، بلکہ اس نیت کے مطابق محسوس کرنا ہے۔ اگر ہم اس سے کچھ کروانے کی کوشش کریں گے، تو اس میں ہماری سوچ کو دخل ہوگا جو محدود ہے اور یہ لطائف ہماری range سے بھی باہر ہیں، اس لئے فائدہ نہیں ہوگا نیز تھکاوٹ بھی ہوگی، لیکن اگر جو ہورہا ہے ہم اس کو محسوس کرنے کی کوشش کریں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ البتہ جو ہم محسوس کریں گے وہ امرِ واقعہ ہوگا، محض خیال نہیں ہوگا، لیکن اس کے امرِ واقعہ ہونے کے لئے دلیل کی ضرورت تو پڑے گی۔ اپنے شیخ سے سیکھ کر ذکر کے ذریعہ ان تمام لطائف کو زندہ کرنا ہوتا ہے یعنی ان کا اپنے اصول کے ساتھ رابطہ حاصل کرنا ہوتا ہے، اس کو عروج کہتے ہیں۔ کیونکہ اس سے عالمِ بالا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، اس سے لطائف منور ہوجاتے ہیں۔

تشریح:

لطائف کیوں منور ہوجاتے ہیں؟ کیونکہ عرش سے بالا ہیں اور وہ تو نور ہی نور ہے، اور یہاں اس کے ظلال ہیں۔ یہاں ہمارے ہاں تو اندھیرا ہے۔ جس وقت ہم لوگ اس کے ذریعہ سے وہاں تک پہنچ جائیں گے گویا کہ رابطہ قائم ہوجائے گا، تو وہاں کا نور اس میں آجائے گا، لہٰذا یہ لطیفے نورانی ہوجائیں گے، لیکن نور بھی ہر شخص کو نظر نہیں آتا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک شعر پڑھا کرتے تھے:؎

مردِ حقانی کی پیشانی کا نور

چھپ نہیں سکتا ہے پیشِ ذی شعور

جو مرد حقانی ہوتا ہے، اس کی پیشانی کا نور کسی ذی شعور کے سامنے چھپ نہیں سکتا، وہ اس کو ضرور پہچان لیتا ہے۔ اس کے لئے ذی شعور ہونا بھی ضروری ہے اور پیشانی والا نور ہونا بھی ضروری ہے، دونوں چیزیں اگر ہوں تو پھر یہ واقعہ ہوگا۔

متن:

اور ان سے لطائف منور ہوتے ہیں، ان کا رنگ بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ کشف سے تعلق رکھتا ہے اور مقصود نہیں اس لئے جن کو کشف کے ساتھ مناسبت ہو ان کو تو محسوس ہوجائے گا اور اگر کسی کو نظر نہ آئے، تو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مقصود نہیں ہے۔

لطائف کا دور مکمل ہونے کے بعد ان کو مراقبات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ترتیب شیخ کی بصیرت پر منحصر ہے۔

تشریح:

یہ پہلے پہل ہر لطیفہ کو ہم لوگ باقاعدہ منور کرتے ہیں ذکر کے ذریعہ سے، تو اگر اس کی ترتیب آپ دیکھ لیں سلوک النساء میں، تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ اس کے لطائف کچھ اس طرح ہیں کہ جو ہمارا دل ہے، یہ تو لطیفۂ قلب ہے۔ اب اگر ناک سے پیروں تک ایک لکیر لگائی جائے تو یہ دل جتنا بائیں طرف ہے تو دائیں طرف اس لکیر سے جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ روح کہتے ہیں، یعنی اس لکیر سے جتنا بائیں طرف دل ہے، اتنے فاصلہ پہ دائیں طرف لطیفۂ روح ہے۔ پھر ہم لوگ دل سے بالکل سیدھ میں اگر چار انگل اوپر جائیں، پھر وہاں سے دو انگل اس لکیر کی طرف آجائیں جس لکیر کا میں ذکر کرچکا ہوں، تو یہ جگہ سِر ہے۔ دوسری طرف جو لطیفۂ روح ہے، جو ابھی ابھی بتایا ہے اس سے اگر ہم چار انگل اوپر چلے جائیں اور دو انگل لکیر کی طرف آجائیں تو یہ لطیفۂ خفی بن جائے گا۔ اور پھر اگر لطیفۂ خفی اور لطیفۂ سِر کو ملا دیا جائے تو یہ جس نقطہ پہ اس لکیر کو touch کرتے ہیں اس کو اور جو گلے کی جڑ ہے، جہاں سے گلا شروع ہوتا ہے، اس کی ایک لکیر کا درمیانی نقطہ جو ہوگا، یہ لطیفۂ اخفیٰ ہے۔ تو پانچوں لطائف جسم کے اندر موجود ہیں، جن کو منور کیا جاسکتا ہے ذکر کے ذریعہ سے۔ مقامات میں نے اس لئے بتا دیئے، تاکہ میری بات سمجھنا آسان ہوجائے۔ ویسے کتاب میں اس کا نقشہ موجود ہے، اس نقشہ کو دیکھ کر آپ ان لطائف کو جان سکتے ہیں۔

متن:

لطائف کا دور مکمل ہونے کے بعد ان کو مراقبات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ترتیب شیخ کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ کون سا مراقبہ کس ترتیب سے کرنے کو بتاتا ہے، کیونکہ اس میں اصل مقصود کیفیتِ حضوری اور کیفیتِ احسان ہے، اس کے حصول کے لئے جو ترتیب شیخ کامل کے قلب پر مرید کے لئے وارد ہوگی، وہی اس کے لئے بہتر ہوگی۔ تاہم شیخ دوسرے مشائخ کے تجربات سے فائدہ ضرور اٹھا سکتا ہے، اس میں مرید کی پسند اور ناپسند کو نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ اس کے مقصد کے حصول کو دیکھا جائے گا۔

تشریح:

کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو کوئی مراقبہ پسند ہوتا ہے، کوئی چیز پسند ہوتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ دے دیں، تو شیخ اس کا پابند نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ تو معالج ہے، جیسے ڈاکٹر کو اگر کوئی کہہ دے کہ مجھے فلاں دوائی دے دو تو ڈاکٹر کہے گا کہ کیا تم میں عقل ہے؟ ڈاکٹر میں ہوں یا ڈاکٹر تو ہے؟ ظاہر ہے اس کو اس کی مرضی کے مطابق نہیں دیتا، بلکہ وہ ضرور اس سے پوچھتا ہے کہ تمھیں اس سے کیا ہوتا ہے؟ وہ باتیں پوچھنا ڈاکٹر کا حق ہے لیکن یہ نہیں ہوگا کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق کرلے۔ بعض دفعہ سختی سے روک دیتا ہے کہ نہیں، تمھارے لئے یہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طریقہ سے یہاں جو مراقبہ کسی کو پسند ہے، تو اس کی پسند کے مطابق نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کو اس کے فائدہ کے مطابق دیا جائے گا۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک مرید آئے اور کہا کہ حضرت! ایک مسئلہ ہے کہ مجھے ہر چیز سے خوشبو آتی ہے۔ جو بھی چیز میں دیکھتا ہوں، تو اس سے مجھے خوشبو آتی ہے۔ حضرت نے فرمایا: ان شاء اللہ اب نہیں آئے گی۔ تو حیران ہوگیا کہ حضرت نے کون سی بات فرما دی، خوشبو تو اچھی چیز ہے۔ بہرحال اس کے بعد واقعی خوشبو نہیں آتی تھی، تو وہ بڑا گھبرا گیا اور جاکر حضرت کے پاس کہا کہ حضرت! آپ نے فرمایا تھا کہ اب نہیں آئے گی، تو واقعی اب نہیں آتی۔ یہ خوشبو تو اچھی چیز ہے، اور یہ مجھے آنا ختم ہوگئی۔ حضرت نے فرمایا: بھائی! میں نے آپ کو اس سے اگلے درجہ میں ترقی دی ہے، جہاں خوشبو نہیں آتی۔ اب آپ کہیں گے کہ بھائی! اگلے درجہ میں خوشبو نہیں ہے تو کیسے ترقی ہوگئی؟ تو بتاتا ہوں، جیسے اب کوئی پنڈی سے اگر لاہور جاتا ہے، تو راستہ میں بہت سرسبز، بہت خوبصورت جگہ آتی ہے۔ پانی بھی وافر ہے، greenery بھی ہے اور چیزیں بھی بڑی اچھی ہیں، جو لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ آج کل موبائل کا دور ہے، وہ اپنے والد کو اگر موبائل پہ کہتا ہے کہ میں ایسی جگہ پر آیا ہوں، جہاں پر ماحول ایسا ہے، اور والد صاحب کو اس کا راستہ معلوم ہو، تو والد صاحب کہہ دیں اچھا بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ گھبرا کے فون کرتا ہے کہ میں تو ایسی جگہ پر آیا ہوں، جہاں ایسی چیزیں ہیں کہ پچھلے مقام جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ ما شاء اللہ، ما شاء اللہ! اب اور بھی قریب ہوگئے منزل کے۔ ابھی اور بھی آگے جاؤ۔ وہ کہے کہ کمال ہے، یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ اب مجھے بتاؤ کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے، وہ اپنی منزل کے قریب ہے یا جہاں پر بہت کچھ تھا، وہ منزل کے قریب ہے؟ اگر کسی کو وہی رنگ و نگار پسند ہے، تو وہ تو وہیں رک جائے گا اور اگر کسی کو منزل پہ پہنچنا ہے، تو وہ وہاں نہیں رکے گا۔ بہرحال مراقبات جس ترتیب سے ہیں، اس ترتیب سے شیخ بتائے گا۔ یہ مرید کی مرضی کے مطابق نہیں کہ مرید کہے کہ مجھے فلاں مراقبہ دے دو۔

متن:

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے عقیدہ کا اصل وجود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ واجب الوجود ہے یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا، وہ تھے۔ اس کے پیدا کرنے سے سب کچھ پیدا ہوا یہ سب جو پیدا ہوا چاہے امر ’’کُنْ“ سے پیدا ہو یا تخلیق کے ذریعہ سے۔

تشریح:

امر ”کُنْ“ سے آناً فاناً پیدا ہوتا ہے، اسباب کے بغیر اللہ پاک کے حکم سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے:

﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (بنی اسرائیل: 85)

ترجمہ: ’’کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے‘‘۔

اور اسباب کے ساتھ تخلیق ہوتی ہے۔

متن:

یہ سب ممکنات ہیں اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم جو گمان رکھیں گے، تو ”أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ“ (بخاری: 7405) کے مطابق ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ وہی معاملہ رکھیں گے پس اگر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو ہمارے لئے ممکن بنایا ہو ان کا اپنے آپ کو محتاج محض سمجھ کر متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ہمارا بھی اس میں حصہ ہوجائے گا۔ البتہ دو چیزوں کی ضرورت ہوگی: ایک اخلاص نیت کی اور دوسری متوجہ ہونے کی۔

تشریح:

نیت کے اخلاص کی ضرورت بھی ہوگی اور متوجہ بھی ہونا پڑے گا۔ جیسے بلی کی میں نے مثال دی کہ بلی جس طریقہ سے اپنے شکار کو دبوچنے کے لئے تیار بیٹھی ہوتی ہے اپنی آنکھوں کے لحاظ سے، اپنے کانوں کے لحاظ سے، اپنے دماغ کے لحاظ سے، اپنے پیروں کے style کے لحاظ سے، اپنے بالوں کے لحاظ سے، سانس کو روک دیتی ہے؛ ہر چیز کے ساتھ وہ متوجہ ہوتی ہے کہ جیسے شکار میری range میں آجائے گا، میں جھپٹ کے اس کو پکڑ لوں گی، تو وہ اس وقت شکار کو لا تو نہیں سکتی، شکار لانا اس کے اختیار میں تو نہیں ہے، لیکن شکار آئے، تو اس کو دبوچنا اس کا کام ہوگا۔ اسی طریقہ سے یہ ذکر والی حالت ہے کہ ذکر انسان کروا نہیں سکتا دل سے، لیکن جس وقت دل کا ذکر آپ کی range میں آئے گا، تو فوراً آپ اس کو catch کرلیں، تمام آوازوں کے اندر اس کو پہچان لیں اور اس کو catch کرلیں۔ تو یہ جو آپ کا alert بیٹھنا ہے، وہ اس مقصد کے لئے بیٹھنا ہے، آپ کروا نہیں سکتے، لیکن آپ کا alert رہنا تو ضروری ہوتا ہے۔ ایک اخلاص نیت ضروری ہے اور دوسرا توجہ۔

متن:

آگے انتظار ہے ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: 23) کا۔ اس کے مطابق اس بڑے در سے جہاں سب کچھ ہے، جو مل جائے اس کو نعمت عظمیٰ سمجھ کر خوشی خوشی حاصل کرلے۔

تشریح:

دیکھیں! کبھی کسی کے اوپر اعتراض نہ کریں کہ اس کو کیوں ملا اور مجھے کیوں نہیں ملا۔ یہ حسد ہے۔ اور حسد اللہ تعالیٰ کے فعل پہ اعتراض ہے۔ اس لئے یہ بہت خطرناک ہے، لہٰذا اگر کسی کے سارے لطائف چل پڑے اور آپ کا ایک بھی نہیں چلا، تو اس پہ کچھ نہ کہیں۔ آپ کہیں کہ میرے اندر قصور ہے، سستی ہے یا اور کوئی چیز ہے، میں اپنے آپ کو ٹھیک کرسکتا ہوں، باقی فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ آپ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اس چیز کو ضرور حاصل کرلیں، لیکن کسی اور کو کچھ مل رہا ہے تو اس کو آپ اپنے ذہن میں نہ لائیں۔ وہ تیرا کام نہیں ہے، وہ اللہ کا کام ہے۔ تیرا جو کام ہے تو اس کو کیے جا، اس میں سستی نہ کر لیکن جو اللہ کا کام ہے، اللہ تعالیٰ اپنے کام کو خوب جانتا ہے، کب کون سا کام کرنا ہے، اس کو پتا ہوتا ہے۔ اس کو یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ کسی کا ایک لطیفہ اگر جاری ہوجائے اور وہ اس کا اہل نہ ہو، وہ پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹے گا کہ میرا دل جاری ہوگیا اور سارا بیڑہ غرق کردے گا اپنا۔ تو اس کا نہیں جاری ہوتا۔ اس کی مرضی ہے، اس کو پتا ہے کہ کوئی کیا کرے گا۔ اپنی نیت کو درست کرنا چاہئے۔ باقی! اس کے بعد جو اللہ تعالیٰ کرلے، وہ ٹھیک ہے۔ اب مراقبات شروع ہورہے ہیں۔

متن:

﴿1. مراقبہ احدیت…یعنی قلب پر عام فیض کا اجراء﴾

یہ نیت کرکے دل کی طرف متوجہ ہونا کہ دل میں (جو موردِ فیض ہے) (یعنی جس میں فیض وارد ہوتا ہے) اس ذات کی طرف سے فیض آرہا ہے جو کہ تمام نقائص و زوال سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے۔ اس کو غور سے دیکھا جائے، تو اس کے دو حصے ہیں: اللہ تعالی کی صفات کا استحضار اور اس کی طرف سے فیض آنے کا استحضار۔

تشریح:

یہ بیک وقت کرنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بیک وقت کیسے ہوگا؟ بھائی! بیک وقت بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ جس وقت آپ کسی کے ساتھ deal کررہے ہیں، تو آپ اس کو جانتے بھی ہیں کہ یہ کیسا ہے، میں اس کے ساتھ کون سی بات کروں۔ یہ آپ جانتے ہوتے ہیں اور اس کے مطابق بات بھی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کسی وقت آپ جانتے ہوں اور کسی وقت آپ اس کے ساتھ بات کررہے ہوں۔ یہ تو بیک وقت ہی یہ ساری چیزیں ہورہی ہوتی ہیں۔ اب اس کو اس طریقہ سے کرنا کہ آپ کو بیک وقت اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار بھی ہو۔ دیکھو! استحضار بہت بڑی چیز ہے، بعض دفعہ کسی کو ایک چیز کا علم ہوتا ہے، استحضار نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ کسی چیز کا علم تو ہوتا ہے، لیکن استحضار نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ لڑائی کے بعد اگر آپ کو چلے کہ میں فلاں جگہ مکا مار سکتا تھا، تو اس کو اپنے منہ پہ مارو۔ ظاہر ہے کہ اس وقت اس کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا پشتو میں مترادف وہ ضرب المثل ہے، جو کہتے ہیں: ”چې اختر تير شی نو نکريزې پهٔ ديوال وتَپه“ یعنی "جس وقت عید گزر جائے، تو مہندی کو دیوار کے اوپر لگا دو"۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کا پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تو بات یہی ہے کہ بھائی! استحضار ضروری ہے، جس وقت آپ کو جو کچھ کرنا ہے، اس وقت آپ کو یاد ہو، یہ بات بہت اہم ہے۔

متن:

اس کے دو حصے ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار اور اس کی طرف سے فیض آنے کا استحضار۔ ان دونوں کو قلبی طور پر دہرانا مقصود نہیں۔

تشریح:

لوگ دہراتے ہیں، آج کل تو لوگ بڑے کام کرتے ہیں، بھائی! دہرانا مقصود نہیں، یہ علمی چیز نہیں ہے، یہ حالی چیز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس کو علمی چیز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ علمی چیز نہیں ہے۔ جس وقت علم استحضار میں بدل جائے، تو وہ حال بن جاتا ہے۔ تو یہ علمی چیز نہیں ہے، یہ حالی چیز ہے۔ حال کے درجہ میں آپ کو معلوم ہونا چاہئے، آپ کو احساس ہونا چاہئے، آپ کو اسی طرح ہونا چاہئے، جس طرح ہونا چاہئے اس وقت۔

متن:

جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے علم کو حال کے طور پر محسوس کرنا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں، میں اگر کسی بڑی ہستی کے سامنے بیٹھوں اور اس کی بات کی طرف دھیان کروں، تو یہ ذہن میں نہیں دہراؤں گا کہ ایک بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں، (ایک بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں، اس کے سامنے بات کر رہا ہوں)

تشریح:

کوئی اس طرح نہیں کرتا، کوئی کرے گا، تو پاگل ہی ہوگا۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ ہے کہ بس اس وقت وہ جان رہا ہو کہ بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس کی بات کی طرف کان لگاوں۔ دیکھو! یہ ہمارا بچہ ہے، اس کو احساس نہیں ہے کہ میں کدھر بیٹھا ہوں۔ تو بچہ بچہ ہوتا ہے لیکن جس وقت وہ بڑا ہوجاتا ہے، تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں کہاں بیٹھا ہوں تو آرام سے بیٹھا ہوتا ہے، وہ اس طرح نہیں کرتا، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کو احساس اور ادراک ہوتا ہے، اسی کو شعور کہتے ہیں۔

متن:

اور اس کی بات سن رہا ہوں، بلکہ اس کو جان رہا ہوں گا کہ بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس کی بات کی طرف کان لگاؤں کہ کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ بس اس طرح اس ذات کا جو تمام نقائص و زوال سے پاک اور تمام کمالات سے متصف ہے، کا دھیان دل میں جما کر بیٹھ جاؤں اور اس کی طرف سے فیض کے آنے کو قلب سے محسوس کرتا رہوں، اس میں جتنا بھی محسوس ہو، پھر وہ نعمت ہے۔ میرا کام اتنا ہے، آگے کتنا آتا ہے، وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اس پر شکر کروں۔ شکر سے مزید نعمت بڑھتی ہے۔ اور مزید کے لئے دل کو کُھلا رکھوں کہ جس وقت فیض کا جو قطرہ بھی آئے گا، مجھ سے غفلت کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ ساتھ ساتھ جس ذکر سے ان لطائف کا اجراء کیا ہو، وہ اگر چلتا رہے، تو چلتا رہے۔ یہ غفلت سے بچنے کے لئے ہے، ورنہ اس مراقبہ کا مطلوب تو فیض کے آنے کا احساس ہے۔ جب یہ مراقبہ پکا ہوجائے، تو پھر صرف فیض کا دھیان ہوتا ہے، ذکر بھی محسوس نہیں ہوتا یعنی سالکہ اسم سے مسمی کی جانب ترقی کرلیتی ہے۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ ذکر چل رہا ہے، تو اس وقت مسمی ہے اور جس وقت وہ بھی غائب ہوجائے اور بس محض فیض آنے کا استحضار بدون کسی اور کیفیت کے ہونے لگے، تو سمجھو کہ ما شاء اللہ راستہ کھل گیا۔

متن:

اس مراقبہ کو دل سے شروع کیا جاتا ہے اور باقی لطائف پر بھی باری باری کرایا جاتا ہے۔

تشریح:

جیسے پہلے ہم نے سارے لطائف پہ باری باری ذکر کرایا تھا۔ اس میں فرق صرف یہ تھا کہ اس میں ہم قلب پہ کراتے تھے، تو قلب کے اوپر ختم نہیں کرتے، بلکہ قلب کے اوپر رہتے ہوئے روح پہ جاتے تھے۔ پھر دونوں پہ رہتے ہوئے تیسرے پہ جاتے تھے، پھر تینوں پہ رہتے ہوئے چوتھے پہ جاتے تھے، پھر چاروں پہ رہتے ہوئے پانچویں پہ جاتے، کیونکہ وہ باہم مربوط ہیں۔ یعنی پہلا stage clear نہ ہو، تو اگلا stage ممکن نہیں۔ لیکن یہاں آپس میں باہم ربط ضروری نہیں ہے۔ اصل میں فیض آنے کا استحضار تو کسی اور جگہ سے ہے، ان کا آپس میں مسئلہ نہیں ہے، لہٰذا یہاں پر الگ الگ ہوتا ہے۔ مطلب پہلے قلب کا کرایا جاتا ہے، پھر اس کو موقوف کرکے روح کا کرایا جاتا ہے، پھر اگلی دفعہ سِر کا کرایا جاتا ہے، پھر اگلی دفعہ خفی کا کرایا جاتا ہے، پھر اگلی دفعہ اخفیٰ کا کرایا جاتا ہے۔ کیونکہ مراقبات میں ایک دوسرے کے ساتھ connection ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ آپس میں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اور باقی لطائف پر بھی باری باری کرا دیا جاتا ہے۔ مراقبہ تو وہی ہے، صرف موردِ فیض بدلتا رہتا ہے۔ اس مراقبہ میں اگر موردِ فیض اوپر کی جانب کچھاؤ محسوس کرے، موردِ فیض سے مراد کسی کا قلب ہے، کسی کا روح، جس وقت وہ اوپر کھچاؤ محسوس کرے، تو یہ اس کا نفسیاتی اثر ہے، کیونکہ ہم عرش کو اوپر سمجھتے ہیں۔


لطائف پر خاص فیض کا اجراء

مشارب کے مراقبات

متن:

﴿2. مراقبہ تجلیات افعالیہ﴾

اس میں موردِ فیض قلب ہوتا ہے، اس میں ہم اس کا دھیان بناتے ہیں کہ فیض اس ذات سے جو ”فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ“ہے۔

تشریح:

دیکھو! پہلے ہم محض فیض کا استحضار کرتے تھے، اب یہاں ہم فیض کے ساتھ کچھ صفات کا استحضار وابستہ کررہے ہیں۔

متن:

آپ ﷺ کے قلبِ پر آتا ہے، وہاں سے سالکہ کے قلب پر۔

تشریح:

ہم ساتھ شامل کرتے ہیں شیخ کو بھی۔ دوسری کتاب میں ہے، یہاں پر رہ گیا ہے۔ یعنی شیخ کے قلب پر آتا ہے اور شیخ کے قلب سے پھر میرے قلب پر آتا ہے۔ پہلے آپ ﷺ کے قلب پر، آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر، شیخ کے قلب سے میرے قلب پر، کیونکہ میرے لئے ذریعہ تو شیخ ہے۔

متن:

اس مراقبہ میں یہ محسوس کیا جاتا ہے یا وہ علم حال بنتا ہے جس کے مطابق سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی چیز، عزت ذلت، کامیابی ناکامی، موت و حیات؛ سب اس کے امر سے ہوتا ہے۔ اس کو توحیدِ افعالی کہتے ہیں اس کو درجۂ حال میں حاصل کرنا ہوتا ہے۔

تشریح:

درجہ علم میں سب کو پتا ہے۔ درجہ علم میں کوئی اس سے محروم نہیں ہے۔ جو بھی مومن ہوتا ہے، اس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اسکو درجہ حال میں حاصل کرنا ہوتا ہے، کیونکہ دیکھو! عقیدہ کا تعلق اس علم کے ساتھ ہے۔ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدہ کا علم رکھتے ہیں۔ عقیدہ تو ماننا ہوتا ہے، تو اس کا علم تو رکھنا ہوتا ہے، تو اس کا ہم علم رکھتے ہیں، لیکن اب اس علم سے وہ حال بن جائے۔ کیونکہ حال سے عمل وجود میں آتا ہے۔ عقیدہ سے عمل وجود میں نہیں آتا، عقیدہ تو بنیاد ہے، وہ بنیاد کھڑی ہوگئی، اب اس کے بعد آپ نے جتنا اسلام پہ عمل کرنا ہے، وہ آپ کے حال کے مطابق ہوگا۔ آپ کا یقین جتنا ہوگا، اس کے مطابق ہوگا۔ آخرت پر یقین جتنا ہوتا ہے، اسی کے حساب سے انسان اس کے لئے تیاری کرتا ہے۔ یہ یقین خود بنانا پڑتا ہے، یہ ایک کسبی چیز ہے۔

﴿3. مراقبہ صفات ثبوتیہ﴾

دو قسم کی صفات ہیں: صفاتِ ثبوتیہ اور صفاتِ سلبیہ۔ ثبوتیہ بھی ضروری ہیں اور سلبیہ بھی ضروری ہیں۔ ثبوتیہ اس لئے ضروری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو ہیں، ان سے انکار نہ ہو اور وہ حال کے درجہ میں حاصل ہوں۔ اور سلبیہ اس لئے ضروری ہیں کہ جس طرح اللہ نہیں ہے، کہو کہ اس طرح نہیں ہے۔ جیسے: نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ کوئی اللہ کے بارے میں کہے کہ اللہ بھول سکتا ہے، ہم کہیں کہ یہ نہیں ہے، اللہ بھول نہیں سکتا، یہ اللہ کی شان نہیں ہے۔ اس طرح بہت ساری چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق نہیں ہیں، انکا جاننا بھی ضروری ہے، بلکہ درجہ حال میں جاننا ضروری ہے۔ درجہ حال میں اگر انسان نہیں جان سکتا، تو پھر اس کا اثر نہیں ہوگا، اس سے پھر وہ چیز نہیں ہوگی۔

متن:

مراقبہ صفات ثبوتیہ

اس میں موردِ فیض لطیفۂ روح ہوتا ہے۔ اس میں فیض اس ذات سے جو حی و قيوم ہے، قادرہے، سمیع، بصیر ہے، یعنی جو صفاتِ ثبوتیہ ہیں، جس کے پاس اصل علم ہے، اصل ارادہ اس کا ہے، اس کا کلام اصل کلام ہے، اور وہی ذات ”كُنْ فَيَكُوْنُ“ ہے، آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے سالکہ کے لطیفۂ روح پر آتا ہے۔

تشریح:

دیکھیں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفہ پر جس لطیفہ پہ بھی آپ کام کررہے ہیں۔ اگر آپ کا لطیفۂ روح ہے، تو لطیفۂ روح پر۔ تو یہ جو صفات ثبوتیہ ہیں، یہ لطیفۂ روح پہ ہوتی ہیں۔ مراقبۂ احدیت گویا کہ اس کی بنیاد ہے اور یہ جو مراقبات مزید ہیں، وہ اس کے اوپر مزید تعمیر ہے۔ پہلے ہم نے مراقبۂ احدیت کروایا تمام لطائف پر، اب مختلف مراقبات کررہے ہیں اپنی اپنی جگہوں پہ، تو جو قلب کی جگہ ہے، وہ تجلیات افعالیہ کا ہے اور جو روح کی جگہ ہے، وہ صفاتِ ثبوتیہ کا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بات ہے۔

متن:

﴿يَا اَيُّھَا النَّاسُ اَنتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِۚ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ۝ اِنْ يَّشَاْ يُذْھِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ۝ وَمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰہِ بِعَزِيْزٍ﴾ (فاطر: 17-15) ہم ان سب کو علماً جانتے اور مانتے ہیں، حال کے درجے میں بھی حاصل ہوں، اس کے لیے یہ مراقبہ ہے۔ یعنی آپﷺ نے جیسے ان کو علماً وحالاً پایا، آپ ﷺ کے طفیل ہمیں بھی اس طرح حاصل ہو۔

تشریح:

اب پتا چل گیا کہ فیض کا مراقبہ کیوں کراتے ہیں۔ دیکھو! اللہ نے حکم دیا، سب سے پہلے عمل کس نے کیا؟ آپ ﷺ نے کیا۔ علماً اور حالاً اس کو پایا ہے، پھر میرے پاس میرے شیخ کے ذریعہ سے آتا ہے، میرے شیخ میرے لئے ذریعہ ہیں، لہٰذا آپ ﷺ کے قلب سے میرے لئے میرے شیخ کے دل پر آگیا اور میرے شیخ کے قلب سے میرے لطیفہ پر آگیا، جس لطیفہ پر اس وقت میں کام کررہا ہوں۔

چوتھا مراقبہ ہے: مراقبہ شیونات ذاتیہ

﴿4. مراقبہ شیونات ذاتیہ﴾

اس میں موردِ فیض سِر ہوتا ہے، (یعنی لطیفۂ سر) اور فیض آتا ہے اس ذات پاک سے جس کی ہر لمحے ایک خاص شان ہے۔ ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن: 29) آپ ﷺ کے قلب پر، اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے سالکہ کے سِر پر۔ شان سے صفات وجود میں آتی ہیں، صفات خارج میں علیحدہ وجود رکھتی ہیں، جبکہ شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ اس مراقبے میں مختلف صفات کی طرف جو توجہ ہوتی ہے، اس کا رخ ذات کی طرف موڑا جاتا ہے۔

تشریح:

تدریج ضروری ہے اصلاح میں۔ تربیت میں تدریج ضروری ہے۔ دیکھو! اسلام آنے میں بھی تدریج تھی اور اپنے اوپر نافذ کرنے میں بھی تدریج ہے۔ تدریج اس طرح ہے کہ آہستہ آہستہ ہمیں اس کے لئے تیار کرایا جاتا ہے۔ بہرحال اس میں موردِ فیض سِر ہوتا ہے اور فیض آتا ہے اس ذات پاک سے جس کی ہر لمحہ ایک خاص شان ہوتی ہے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے سِر پر۔

متن:

شان سے صفات وجود میں آتی ہیں۔ صفات خارج میں علیحدہ وجود رکھتی ہیں جبکہ شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ اس مراقبے میں مختلف صفات کی طرف جو توجہ ہوتی ہے اس کا رخ ذات کی طرف موڑا جاتا ہے جس کی شیونات سے مختلف صفات وجود میں آتی ہیں۔ ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن: 29)

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ ساری صفات شیونات سے آتی ہیں اور شیونات کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔

پانچواں مراقبہ ہے: مراقبہ تنزیھہ وصفات سلبیہ

﴿5. مراقبہ تنزیہہ وصفات سلبیہ﴾

اس میں موردِ فیض لطیفۂ خفی ہے۔ اس میں اس ذات سے فیض آتا ہے کہ جو بے چون و بے چگون ہے۔ وہی والی بات ہے: ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ (الشوریٰ: 11)

ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے‘‘۔

اس کی طرح کوئی نہیں۔

تشریح:

کسی چیز سے بھی اس کی مثال نہیں دی جاسکتی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم سب اس کی مخلوق ہیں، مخلوق خالق کی طرح ہو ہی نہیں سکتی، لہٰذا اس کی مثال موجود ہی نہیں ہے۔ جب مثال موجود نہیں، تو ہم اس کو بیان کیا کریں گے؟ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بے چون و بے چگون ہے، اس کی طرح کوئی نہیں۔

متن:

وہ جسم سے پاک ہے، وراء الوراء ہے، قریب ہے لیکن ایسا نہیں جس طرح ہم کسی کو قریب سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہے لیکن اس کا ساتھ ہونا ایسا نہیں جس طرح ہم کسی کو ساتھ سمجھتے ہیں۔ یہ فیض آپﷺ کے قلب مبارک پر آتا ہے، اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر آتا ہے اور وہاں سے سالکہ کے (یعنی میرے) لطیفۂ خفی پر آتا ہے۔ اس مراقبہ میں ہم اللہ تعالی جن چیزوں سے پاک ہے، ان کا دھیان حال کے درجے میں حاصل کرتے ہیں۔

تشریح:

سبحان اللہ، تنزیہ کیا چیز ہے؟ یہ purity ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی ایسی چیز آپ شامل نہیں کرتے، جو اللہ کی نہیں ہے۔ بلکہ صرف وہی چیز آپ بیان کرتے ہیں جو صرف اللہ کی ہیں۔ صفات ثبوتیہ اللہ کے لئے ثابت ہیں، اللہ حلیم ہے، ثابت ہے۔ اللہ کریم ہے، ثابت ہے۔ اللہ بڑے ہیں، ثابت ہے۔ اللہ مہربان ہے، ثابت ہے۔ یہ ساری چیزیں ثابت ہیں اللہ تعالیٰ کے لئے، لہٰذا اللہ ویسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار ضروری ہے، لیکن جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے، جیسے اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی، اس کی شان کے لائق کوئی ہے نہیں، تو اگر کوئی صفت اس کی شان کے مطابق نہیں ہے، تو ہم کہیں گے کہ جیسے وہ جسم سے پاک ہے، اس کا جسم نہیں ہے۔اس کی اولاد نہیں ہے۔ دیکھیں! سورۃ اخلاص کو کیوں کہتے ہیں سورۃ اخلاص؟

﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(الاخلاص: 1)

ترجمہ: ’’کہہ دو: بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے‘‘۔

اس میں "احد" کا پہلے اقرار ہے۔

﴿اَللّٰهُ الصَّمَدُ(الاخلاص: 2)

ترجمہ: ’’اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں‘‘۔

یعنی وہ اللہ بے نیاز ہے۔

﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ(الاخلاص: 3)

ترجمہ: ’’نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘‘۔

یعنی نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ کسی سے جنا گیا۔

﴿وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص: 4)

ترجمہ: ’’اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘۔

یعنی کوئی اس کا ہم سر نہیں۔ یہ سورۃ اخلاص ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالکل purified form میں ماننا۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کی صفات میں نہیں آتی، اس کی اللہ کی طرف نسبت نہ کریں۔ یہ صفتِ تنزیہ بہت ضروری ہیں، کیونکہ بہت ساری گڑبڑیں اسی وجہ سے ہوتی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ عقیدہ میں ایسی چیزیں شامل کرلیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نہیں ہیں، لہٰذا پھر نقصان ہوجاتا ہے۔ اللہ کی صفات میں کسی کو شریک بھی نہ کرو، جس میں کوئی شریک نہ ہو۔ اور دوسرے انسانوں کی صفات جو اللہ کی نہ ہوں، اللہ کے لئے ثابت بھی نہ کرو، یہ بھی ضروری ہے۔

متن:

اس مراقبہ میں اللہ تعالیٰ جن چیزوں سے پاک ہے ان کا دھیان حال کے درجہ میں حاصل کرلیتے ہیں۔

اب اس کے بعد مراقبہ شان جامع ہے، یہ چھٹا مراقبہ ہے۔

﴿6. مراقبہ شان جامع﴾

متن:

اس میں موردِ فیض اخفی ہے اور فیض آتا ہے اس ذات سے جو اپنی شان کے مطابق تمام صفات و شیونات کی جامع ہے، فیض آپ ﷺ کے قلب سے سالکہ کے لطیفہ اخفی پر آتا ہے۔

تشریح:

یعنی آپﷺ کے قلب پر، آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ اخفی پر۔دیکھو! اس میں پہلے آپ کو صفات ثبوتیہ کے بارے میں کرایا گیا۔ پھر اس کے بعد آپ کو شیونات ذاتیہ کے بارے میں کرایا گیا اور یہاں پر صفات اور شیونات کو جمع کردیا گیا، تو اس لئے اس کو شانِ جامع کہتے ہیں، یہ مراقبہ شان جامع ہے۔

متن:

نوٹ: چونکہ قلب قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے اور باقی لطائف کشفی ہیں، آپ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو ظنی ہو، اس سے بچنے کے لیے اگر ہم مراقبہ میں یہ کہیں کہ فیض آپ ﷺ کے قلب پر آتا ہے، تو اس میں زیادہ حفاظت نظر آتی ہے، کیونکہ پہلے کہا گیا کہ ان ظنیات کے لیے دلیل کی ضرورت ہوگی۔

تشریح:

اصل میں بعض نقشبندی کتابوں میں ایسا لکھا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے لطیفہ روح پر، آپ ﷺ کے لطیفہ سر پر؛ یہ جسارت نہیں کی جاسکتی ہے، یہ مشکل ہے، کیونکہ جو چیزیں ظناً ثابت ہیں، ان کو اتنی یقینی چیز کے ساتھ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ چونکہ قلب کا لطیفہ یقینی طور پر ثابت ہے اور قطعی ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا آپ ﷺ کے لئے وہی کہو جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

متن:

ان مراقبات کا ماحاصل یہ ہونا چاہئے کہ ”تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللّٰہ“ اور ”اَلْاِعْتِصَامُ بِالسُّنَّۃ“ سے متصف ہوجائیں۔

تشریح:

دیکھو! جو اللہ پاک کی صفات انسان کے لئے بھی ہوسکتی ہیں، ان کو ہم حاصل کرلیں۔ ان کو چونکہ آپ ﷺ نے سب سے زیادہ حاصل کیا ہے، لہٰذا اعتصام بالسنۃ کریں۔ سنت میں ساری چیزیں شامل ہیں، کیوں کہ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے سب سے پہلے اس کو کیا ہے، لہٰذا جب ہم سنت پر عمل کریں گے، تو وہ خود بخود اس میں آجائے گا۔

متن:

یہ سالکات کے مشارب بھی ہیں، اس لئے جس کی جس لطیفے کے ساتھ زیادہ مناسبت ہوگی، وہ اس کے ذریعے زیادہ حاصل کرے گی۔

تشریح:

مشرب اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے پانی پیا جاتا ہے۔ جیسے بہت بڑا تالاب ہے، تو جہاں جہاں سے access آپ کا ہے، تو وہ آپ کا مشرب ہے۔ یہاں پر یہ بات ہے کہ بعض لطائف بعض کے لئے مشرب ہوتے ہیں۔ تو اس طرح سے جس کو جس طرف زیادہ مناسبت ہوتی ہے، تو وہ وہاں سے لیتا ہے۔

نقشبندی سلوک حصہ اول - سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ: تعلیم و تربیت