سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

درس نمبر 8 : حصہ دوم

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس درس میں سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں انسان کو اللہ کی عبادت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور عبادت وہ جو نبی کریم ﷺ نے سکھائی ہو۔ اور عبادت کے نام پر یہود و نصاری کے افراط و تفریط اور دین میں غلو کرنا اور بدعات ایجاد کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور عبادت میں راہ نجات واضح کی ہے۔ پھر اس کے ساتھ رہبانیت اور تصوف میں فرق بیان کیا ہے اور تصوف پر اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں اَلْحَمْدُ للہ! سیرت پاک ﷺ کے بارے میں عمل کی نیت سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیرت پاک ﷺ کو اگر صرف ایک کہانی کے طور پر لیا جائے تو وہ مقصد جو اس کے ساتھ ہے، وہ فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ آپ ﷺ تو اس لئے دنیا میں تشریف لائے ہیں تاکہ وہ روشنی ہم تک پہنچا دیں اور اس روشنی میں ہم حق و باطل کو جان لیں اور پھر اس کے مطابق ہم اپنی زندگی گزاریں۔ اس لیے جو فرمایا گیا:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)

ترجمہ1: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔

تو لہٰذا آپ ﷺ کی سیرت کو سمجھنا، پھر آپ ﷺ کی سیرت کے مطابق اپنی زندگی گزارنا، اس میں دو چیزیں بہت اہم ہیں، بلکہ آپ تین کہہ سکتے ہیں ایک تو یہ کہ سمجھ کے لحاظ سے گویا کہ عقل کو صحیح استعمال کرنا چاہئے کہ ہم سمجھ جائیں کہ آپ ﷺ کی سیرت میں کس چیز سے کیا چیز مراد ہے، بس اس کو سمجھ جائیں اور اس کی عظمت کو بھی سمجھیں اور اس کی نسبت کو بھی سمجھ جائیں اور اس کا طریقۂ کار بھی سمجھ جائیں۔ اس پر ماشاء اللہ! علماء کرام جو اس کام کے اہل ہیں، انہوں نے پوری زندگیاں گزاری ہیں اور انہوں نے اس پر کام کیا ہے، جس میں حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا جو کام ہے ’’سیرت النبی‘‘ پر وہ بہت اہم ہے، کیونکہ حضرت نے اسی نقطۂ نظر سے سیرت لکھی ہے تو پھر ہم لوگ اسی نیت سے پڑھ رہے ہیں کہ حضرت نے کیسے اس کو سمجھا ہے اور اس کے ذریعہ سے ہم اس کو کیسے سمجھ جائیں؟ جو کہ ہماری بنیاد ہے۔ پھر آپ ﷺ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنا، کیونکہ اس محبت کے ذریعے ہی سے ہمیں آپ ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی۔ تیسری بات یہ ہے کہ پھر اپنے نفس کو اس کا تابع بنانا، جس کے لئے ہم مشائخ کے پاس جاتے ہیں اور ہم لوگ اپنے نفس کی تربیت کراتے ہیں۔

تو یہ تینوں چیزیں گویا کہ اس کے ساتھ وابستہ ہیں، اس لئے کوشش ہماری یہی ہوگی کہ ہم لوگ ان تین چیزوں کو سیرت کے مطابق اس طرح بنا لیں کہ بنیادی بات حاصل ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تعلق اور اس کے صحیح معنوں میں گویا کہ حکم کو مانیں اور پھر اس کے مطابق ہم اپنی زندگی گزاریں۔ اب چونکہ اللہ جل شانہٗ نے ہمیں عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اس لئے سب سے پہلی بات عبادات کے بارے میں ہے۔

یہودیّت، عیسائیت اور اسلام میں عبادات کے تصور میں فرق:

متن:

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ﴾ (البقرۃ: 21)

ترجمہ: ’’اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو‘‘۔

عبادت کے معنی عام طور سے وہ چند مخصوص اعمال سمجھے جاتے ہیں جن کو انسان خدا کی عظمت اور کبریائی کی بارگاہ میں بجا لاتا ہے۔ لیکن یہ عبادات کا نہایت تنگ مفہوم ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمدٌ رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے انسانوں پر جو حقیقت ظاہر فرمائی اس کا اصل جوہر یہ نہیں ہے کہ گذشتہ مذاہب کی عبادت کے طریقوں کے بجائے اسلام میں عبادت کے دوسرے طریقے مقرر ہوئے، بلکہ یہ ہے کہ انسانوں کو یہ بتایا گیا کہ عبادت کی حقیقت اور غایت کیا ہے۔ ساتھ ہی عبادات کے گذشتہ ناقص طریقوں کی تکمیل، مبہم بیانات کی تشریح اور مجمل تعلیمات کی تفصیل کی گئی۔

اہل عرب جہاں آسمانی مذہب کی دوسری حقیقتوں سے بے خبر تھے، وہاں عبادت کے مفہوم و معنی اور اس کے صحیح طریقوں سے بھی ناواقف تھے۔ عرب میں جو یہود اور عیسائی تھے وہ بھی اس کے متعلق اپنے عمل اور تعلیم سے کوئی واضح حقیقت ان کے سامنے پیش نہ کرسکے تھے۔ اس عہد میں جو عیسائی فرقے عرب میں تھے عقائد میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کو تسلیم کرتے تھے اور عبادات میں یہ تھا کہ تمام دنیا کے عیش و آرام اور لذتوں کو اپنے اوپر حرام کرکے عرب کے سنسان بیابانوں اور پہاڑوں میں انہوں نے اپنی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بنا لی تھیں اور ان میں بیٹھ کر تمام دنیا کی جدوجہد اور سعی و کوشش کے میدانوں سے ہٹ کر مجرد اور متقشفانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی لئے عربوں کی شاعری میں عیسائیت کا تخیل ایک "راہب متبتل" کی صورت میں تھا۔ عرب کا سب سے بڑا شاعر امراء القیس کہتا ہے:

’’مَنَارَۃُ مُمْسٰی رَاھِبٍ مُتَبَتِّلِِ‘‘

دنیا سے الگ تھلگ زندگی بسر کرنے والے راہب کے نام کا چراغ۔

عرب میں یہود اپنی اخلاقی اور مذہبی بدعملیوں کے سبب سے سخت بدنام تھے۔ ان میں روحانی خلوص و ایثار اور خداپرستی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ صرف سبت (سنیچر) کے دن تورات کے حکم کے مطابق تعطیل مناتے اور اس دن کوئی کام نہ کرنا بڑی عبادت سمجھتے تھے۔ قرآن پاک نے ان دونوں فرقوں کی اس حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ یہودیوں پر اس نے بے حکمی، نافرمانی، اکلِ حرام اور طاغوت کی پرستش کا اور عیسائیوں پر غلو فی الدین کا صحیح الزام قائم کیا ہے۔

یہودی جادو، ٹوٹکا اور عملیات کے توہمات میں گرفتار تھے اور جب کبھی موقع ملتا غیر قوموں کے بتوں کے سامنے بھی سر جھکا لیتے تھے۔ عیسائی حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیحی اولیاء اور شہیدوں کی تصویروں، مجسموں، یادگاروں اور مقبروں کو پوجتے تھے۔ انہوں نے راہبانہ عبادت کے نئے نئے اور جسم کو سخت تکلیف اور آزار پہنچانے والے طریقے ایجاد کیے تھے اور ان کا نام انہوں نے دینداری رکھا تھا۔ سورۃ حدید میں قرآن پاک نے یہود اور نصاریٰ دونوں کو فاسق کہا ہے۔ لیکن ان دونوں کے فسق میں نہایت نازک فرق ہے۔ یہود کا فسق دین میں کمی اور سستی کرنا اور نصاریٰ کا فسق دین میں زیادتی اور غلو کرنا تھا، اور خدا کے مشروع دین میں کمی اور زیادتی دونوں گناہ ہیں، اسی لئے قرآن نے دونوں کو برابر کا فسق قرار دیا:

﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍۚ وَكَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۝ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةًؕ وَرَهْبَانِیَّةَ اِبْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْۚ وَكَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ (الحدید 26-27)

’’اور ہم نے نوح علیہ السلام اور ابراہم علیہ السلام کو بھیجا اور ان کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھی تو ان میں سے کچھ راہ پر ہیں اور اکثر نافرمان ہیں۔ پھر ان کے بعد ان کے پیچھے ہم نے اپنے اور پیغمبر بھیجے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت فرمائی اور جنہوں نے عیسیٰ کی پیروی کی ان کے دل میں نرمی اور رحمدلی بنائی اور ایک رہبانیت انہوں نے نئی چیز نکالی جو ہم نے ان پر نہیں لکھی تھی، لیکن خدا کی خوشنودی حاصل کرنا، تو انہوں نے اس رہبانیت کو بھی جیسا نبھانا چاہئے تھا نہیں نبھایا۔ تو ان میں جو ایماندار تھے ان کو ہم نے ان کی مزدوری دی اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں۔‘‘

اصل میں اگر دیکھا جائے تو پورا ایک نقشہ اس کے اندر کھینچا گیا ہے۔ یہود کے اندر تفریط اور خشکی تھی، آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اپنی دنیاوی چیزوں کے لئے، دنیاوی فائدوں کے لئے نسبتوں کی ناقدری، گستاخی، وہم، جادو، ٹونا، ظلم یہ سب یہود کے شعار ہیں۔ جبکہ نصاریٰ کے اندر بالکل اس کا ایک دوسرا extreme ہے یعنی بزرگوں، اولیاء اللہ، انبیاء کرام کے ساتھ اتنی محبت کہ ان کو خدائی میں شامل کرنا اور دوسری طرف یہودیوں کی ضد یعنی رحمدلی اور شفقت ان میں رکھی، اس لئے جو طب کا کام تھا، وہ زیادہ تر ان لوگوں نے کیا، اور شفقت کا معاملہ کیا لوگوں کے ساتھ، تو یہ ان کی اچھی باتیں تھیں، لیکن ساتھ ہی وہ اللہ والوں کی محبت میں اتنے آگے گئے کہ اللہ کو بھول گئے اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا۔ گویا کہ اس میں اپنی جگہ پہ کھڑے نہیں رہے، بلکہ اس سے آگے چلے گئے اور افراط کا شکار ہوگئے۔ اور یہودیوں میں جیسے جاہ پسندی تھی اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے نسبتوں کی ناقدری تھی، تو اِن میں پھر نسبتوں کی حفاظت کے لئے انہوں نے reaction کے طور پہ افراط کا مظاہرہ کیا، اور ان کی سختی کے مقابلہ میں رحمدلی کا مظاہرہ کیا اور ان کی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے مقابلہ میں انہوں نے خواہشات کو kill کرنے کا مظاہرہ کیا کہ اپنی خواہشات کا سہارا نہ لیں اور اپنی خواہشات کو دبائیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس مسئلہ میں ہم لوگ کچھ نہیں ہیں کہ ہم فیصلہ کرسکیں، بلکہ اللہ پاک نے جو دین بنایا ہے، اس کو ہم دین سمجھیں اور اس سے زیادہ آگے نہ بڑھیں، تو یہ چیز ان میں نہیں تھی، اعتدال پہ کوئی نہیں رہا یعنی اعتدال پہ یہود بھی نہیں رہے، اعتدال پر یہ بھی نہیں رہے، جبکہ یہ لوگ اہل کتاب تھے، جب ان کی یہ حالت تھی تو جو اہل کتاب نہیں تھے، ان کی تو پھر اپنی مرضی تھی، جیسے مشرکین مکہ تھے، وہ جیسے بھی کرلیں، ان کے پاس کوئی reference ہی نہیں تھا، بس اپنے آباؤ اجداد کی سنی سنائی کہانیاں تھیں، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جو پارسی لوگ تھے، ان کے ہاں بھی کچھ اس قسم کی بات تھی اور جو دوسرے لوگ تھے، ان کے پاس ہدایت کی کوئی چیز ایسی نہیں تھی، جس کے گرد کوئی اکٹھے ہوسکتے، تو گویا کہ پورا ایک stage بنا ہوا تھا ان تمام چیزوں کی درستگی کے لئے۔ تو اللہ پاک نے جب قرآن بھیجا تو اس میں ان تمام چیزوں کو address کیا اور حق اور باطل کے درمیان فرق کیا، اس لئے قرآن کا دوسرا نام فرقان ہے۔ فرقان سے مراد حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا، اس لئے جب قرآن آیا تو اس نے پھر یہ کام کیا۔

متن:

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ عیسائی دین میں اضافہ اور افراط کے مرتکب ہوئے، اسی لئے قرآن نے ان کو بار بار کہا:

﴿لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ﴾ (النساء: 171)

’’اپنے دین میں غلو نہ کرو‘‘

ان کا سب سے بڑا غلو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن کو صرف رسول اللہ ماننے کا حکم دیا گیا تھا وہ ابن اللہ ماننے لگے اور یہود کا یہ حال تھا کہ وہ خدا کے رسولوں کو رسول بھی ماننا نہیں چاہتے تھے، بلکہ ان کو قتل کرتے تھے ﴿وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ﴾ (آل عمران: 21) اور ساتھ ہی وہ خدائے برحق کو چھوڑ کر بت پرست ہمسایہ قوموں کے بتوں کو پوجنے لگے تھے، چنانچہ تورات میں یہودیوں کی بت پرستی اور غیر خداؤں کے آگے سر جھکانے کا بار بار تذکرہ ہے اور قرآن میں ان کے متعلق ہے:

﴿وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ﴾ (المائدۃ: 60)

’’جنہوں نے شیطان کو (یابتوں) کو پوجا‘‘

آنحضرت ﷺ نے عیسائیوں کو تبلیغ کی:

﴿مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ وَاُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌؕ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ ۝ قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًاؕ وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۝ قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ﴾ (المائدۃ: 75-77)

’’مریم کا بیٹا مسیح ایک پیغمبر ہے اور بس۔ اس سے پہلے اور پیغمبر گذر چکے اور اس کی ماں ولی تھی، دونوں (انسان تھے) کھانا کھاتے تھے (خدا نہ تھے) دیکھ ہم ان (عیسائیوں) کے لئے اس طرح کھول کر دلیلیں بیان کرتے ہیں، پھر بھی دیکھ وہ کدھر الٹے جاتے ہیں۔ (ان سے) کہہ کہ کیا تم خدا کو چھوڑ کر ان (انسانوں) کو پوجتے ہو جن کے ہاتھ میں نہ نقصان ہے نہ نفع۔ اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے جو نفع نقصان پہنچا سکتا ہے کہ اے کتاب والو! اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کے خیال پر نہ چلو جو بہک گئے اور بہتوں کو بہکایا اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے۔‘‘

ان کی حالت یہ تھی:

﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ (التوبہ: 31)

’’خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا بنا لیا تھا‘‘

اس زمانہ میں عیسائیوں کے جو گرجے اور پرستش گاہیں عرب میں اور خصوصاً ملکِ حبش میں تھیں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام اور حواریوں اور ولیوں اور شہیدوں کی تصویریں اور مجسمے نصب تھے۔ عبادت گذار ان کے آگے دھیان اور مراقبہ میں سربسجود رہتے تھے۔ صحابہ میں سے جن لوگوں نے حبشہ کی ہجرت کی تو اس اثناء میں ان معبدوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، ان میں سے شاید بعض بیبیوں کی نگاہ میں ان بزرگوں کی تعظیم و تکریم کی یہ مناسب صورت معلوم ہوتی تھی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے مرض الموت میں بعض ازواج مطہرات نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا اور ان کی تصویریں اور مجسموں کے حسن و خوبی کو بیان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "خدا یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجے انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا، تم ایسا نہ کرنا، ان میں سے جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تھا تو وہ اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے اور اس میں اس کی تصویریں کھڑی کر دیتے تھے"

مسلمانوں میں یہود و نصاریٰ کی عادات و اطوار کا راوج:

یہ اصل میں واقعتاً شیطان کی کارستانی ہوتی ہے کہ زندگی میں جن اولیاء کی لوگ بات نہیں مانتے، جب وہ فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی عبادت کی جگہ بنا لیتے ہیں، کیا ہمارے مسلمانوں میں ایسا نہیں ہوتا؟ پاک پتن کے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، انہوں نے کیسی زندگی گزاری؟ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت میں گزاری، صحیح اعمال کی دعوت دی، مگر زندگی میں لوگ ان کے پاس دین کے لئے نہیں آئے اور اگر آ بھی گئے تو اپنی دنیا کے لئے کچھ لوگ آگئے، لیکن جیسے ہی وہ فوت ہوگئے، تو بس اس کے بعد پھر قبروں کی پوجا شروع ہوگئی، قبروں کے سامنے جھکنا اور سجدے کرنا شروع ہوگئے۔ اور یہ سجدہ میں نے خود وہاں پر لوگوں کو کرتے دیکھا ہے۔ اب یہ چیز اگرچہ بظاہر عقیدت اور محبت کی علامت دکھائی دیتی ہے اور اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ شاید ہم حق پر ہیں کہ ہم بڑی محبت کرتے ہیں اللہ والوں کے ساتھ، لیکن اللہ والوں کے ساتھ محبت میں ہم آزاد تو نہیں ہے کہ ہم جس طریقے سے چاہیں محبت کرلیں، بلکہ اس کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول نے طریقے بتائے ہیں۔ اور پھر دوسری طرف ان کے reaction میں بعض لوگ جو صحیح طریقہ ہے، اس سے بھی انکار کررہے ہیں یعنی بزرگوں کی گستاخیاں کررہے ہیں، ان کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کررہے ہیں۔ جیسے کراچی میں ایک طبقہ ہے جماعت المسلمین، وہ عجیب و غریب لوگ ہیں۔ جو اولیاء اللہ گزرے ہیں ان کی گستاخیاں کرتے ہیں۔ تو جیسے عیسیٰ علیہ السلام نے عیسائیوں کو نہیں بتایا کہ میری عبادت کرو، تو عیسائیوں کی غلطیوں کی ذمہ داری عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں دی جاسکتی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کسی کو نہیں کہا کہ دوسرے صحابہ کی مخالفت کرو، تو ان کی غلطیوں کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے نہیں لاسکتے کہ ان کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ، علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ یہ سب حضرات جو اکابر تھے، انہوں نے کسی کو نہیں کہا کہ میری قبر کو سجدے کرو یا میری قبر کا طواف کرو یا میرے نام کی دیگ چڑھا دو، ان حضرات نے یہ نہیں کہا، اس لئے اس طرح کے لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ان بزرگوں کی مخالفت، یہ گستاخی ہے اور یہ گستاخی بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ کراچی میں باقاعدہ یہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی دوسرے کو کہتا تھا کہ کاکا صاحب! آجاؤ مدد کرو تو وہ دوڑا دوڑا آجاتا، کوئی کہتا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مدد کرو، تو وہ دوڑا دوڑا آجاتا کہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہوں، بتاؤ کیا مدد ہے؟ ڈرامہ سا بنا لیتے ہیں۔ اب انہوں نے تو ایسا نہیں کہا تھا، اس لئے آپ ان کو کیوں غلط کہہ رہے ہیں، بلکہ ان لوگوں کو کہو جو غلط کرتے ہیں، ان کے خلاف بات کرو نا، کس نے روکا ہے؟ یہ تو صحیح بات ہے، بلکہ یہ تو ہم سب سے زیادہ کرتے ہیں، لیکن ان کی وجہ سے بزرگوں کی توہین کرنا یہ عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مسلمانوں میں دونوں گروہوں کی یعنی یہود کی بھی علامتیں موجود ہیں اور نصاریٰ کی علامتیں بھی موجود ہیں، اگرچہ ان جیسے نہیں ہیں، ہم ایماندار ہیں، لیکن ان کی طرح ان کے نقشہ قدم پہ چلنے والے لوگ موجود ہیں، اس لئے ہم لوگوں کو اپنے آپ کو بھی بچانا ہوگا۔ ایک دفعہ میں سوچ رہا تھا تو ایک بڑی عجیب بات ذہن میں آگئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ امتوں میں سے یہود میں اکہتر فرقے تھے اور نصاریٰ میں بہتر تھے، میری امت میں عنقریب تہتر ہوجائیں گے۔ اس سے ایک بات کی طرف ذہن انتقال کر گیا اور ایک اور واقعہ کی طرف ذہن چلا گیا، جس کی وجہ سے یہ سوچ آئی۔ وہ یہ ہے کہ یہود کے جو اکہتر فرقے تھے وہ گویا کہ سارے کے سارے نصاریٰ میں چلے گئے، اس کے علاوہ ایک اور طبقہ پیدا ہوگیا، جو ان کا حق والا تھا، اس لئے وہ بہتر ہوگئے، اب یہ بہتر کے بہتر سارے فرقے مسمانوں میں بھی آگئے یعنی ان کی طرز پہ چلنے والے۔ اور جو حق والا تھا وہ تہترواں ہوگا، وہی حق پر ہے۔ اس کا ثبوت پھر مجھے اس طرح ملا کہ ہمارے ایک بزرگ ہیں یوسف صاحب، انہوں نے فرمایا کہ ایک یہودی مسلمان ہوا تھا اور وہ کراچی میں بنوری ٹاؤن آگیا تھا، وہ کہتے کہ میرا بھی ان کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا تھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ جتنے فرقے آپ لوگوں کے اندر ہیں، یہ سارے ہمارے اندر تھے، یعنی اسی طریقہ سے کوئی ایک ہے اور کوئی دوسرا ہے، وہ کہتے ہیں کہ بالکل یہ ساری چیزیں ہمارے اندر موجود تھیں۔ اس سے پتا چلا کہ ان کی ساری چیزیں ہمارے اندر transfer ہوچکی ہیں۔ اور یہ باقاعدہ حدیث شریف بھی ہے: تم ضرور ان لوگوں کے طریقوں پر بالشت بر بالشت اور ہاتھ بر ہاتھ چلتے جاؤ گے جو تم سے پہلے تھے (بعینہ ان کے طریقے اختیار کرو گے، ان سے ذرہ برابر آگے پیچھے نہ ہو گے) حتی کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے تو تم بھی ان کے پیچھے گھسو گے۔ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہود اور نصاریٰ (کے پیچھے چلیں گے؟) آپ نے فرمایا: تو (اور) کن کے؟(صحیح مسلم: 6782) اب یہ چیز ہم دیکھ رہے ہیں، ان لوگوں سے لوگ اثر لے رہے ہیں۔ اب یہ جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں، یہ سب متواتر چلے آرہے ہوتے ہیں، صرف ان کی شکل و صورت بدلتی ہے وقت کے ساتھ، لیکن ان کے پیچھے concepts وہی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بگاڑ ہوتا ہے، مگر اسلام میں جو ایک فرقہ صحیح ہے، جس کی اسلام نے تعلیم کی ہے، وہی حق پر ہوگا، جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مَا اَنا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2641)

ترجمہ: ’’(حق وہ راستہ ہے) جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں)

بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ صحیح مسلمان یہی ہوں گے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو بہت محتاط رہنا ہے اور ہمیں صرف وہی طریقۂ کار جو قرآن و سنت نے بتایا ہے، اس کے اوپر چلنا ہے، جس کی تشریح صحابہ کرام کی زندگی سے ہوتی ہے یعنی طریقۂ صحابہ پہ چلنا ہے، ہمارے پاس کوئی اور option ہے ہی نہیں، اسی option کو avail کرنا ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور option نہیں ہے۔

عیسائیوں کے سابقہ اور موجودہ حالات سے قرآن پاک کی صداقت کا اظہار:

متن:

ایڈورڈگبن نے تاریخ ترقی و زوال روم کی متعدد جلدوں کے خاص ابواب میں عیسوی مذہب کے عبادات کے جو حالات بیان کیے ہیں وہ تمام تر حدیث مذکور کی تصدیق و تائید میں ہیں۔ خصوصاً تیسری اور پانچویں جلد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام سینٹ پال اور متعدد ولیوں اور شہیدوں کی پرستش کی جو کیفیت درج ہے وہ بالکل اس کے مطابق ہے اور آج تک روم کیتھولک اور قدیم مسیحی فرقوں کی پرستش گاہوں کے در و دیوار سے قرآن پاک کی صداقت کی آوازیں آرہی ہیں اور آج بھی دیندار عیسائی دن رات مومی بتیوں کی روشنی میں ان کے آگے مراقبوں اور تسبیحوں میں سرنگوں نظر آتے ہیں۔ روم (اٹلی) کے تاریخی گرجاؤں میں یہ منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی اصلی تشریح میری آنکھوں کے سامنے تھی۔

یہودیوں اور عیسائیوں کو چھوڑ کر خاص عرب کے لوگ اللہ نام کی ایک ہستی سے واقف ضرور تھے مگر اس کی عبادت اور پرستش کے مفہوم سے بے خبر تھے۔ لات، عزیٰ، ہبل اور اپنے اپنے قبیلہ کے جن بتوں کو حاجت اور پرستش کے قابل سمجھتے تھے ان پر جانور قربان کرتے اور اپنی اولادوں کو بھینٹ چڑھاتے تھے۔ سال کے مختلف اوقات میں مختلف بت خانوں کے میلوں میں شریک ہوتے تھے اور پتھروں کے ڈھیروں کے سامنے بعض مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے۔ خانہ کعبہ یعنی خلیل علیہ السلام بت شکن کا معبد تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز تھا اور ان کی نماز یہ تھی کہ خانہ کعبہ کے صحن میں جمع ہوکر سیٹی اور تالی بجا بجا کر بتوں کو خوش اور راضی رکھیں۔ قریش کا موحد زید بن عمرو جو آنحضرت ﷺ کی نبوت سے پہلے بت پرستی سے تائب ہوچکا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ "اے خدا مجھے نہیں معلوم کہ میں تجھ کو کس طرح پوجوں، اگر جانتا تو اسی طرح عبادت کرتا" ایک صحابی شاعر عامر بن اکوع خیبر کے سفر میں ترانہ گا رہے تھے اور آنحضرت ﷺ سن رہے تھے۔

وَاللہِ لَوْ لَا اَنْتَ مَا اھْتَدَیْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

خدا کی قسم اگر تو نہ ہوتا تو نہ ہم راستہ پاتے

نہ خیرات کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔

اس شعر میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ محمد رسول ﷺ ہی کی تعلیم تھی جس نے اہل عرب کو عبادت کے صحیح طریقوں سے آشنا کیا۔

عرب میں بت پرستی کا ناسور اور اسلام کی دعوتِ توحید:

عرب سے باہر بھی کہیں خدائے واحد کی پرستش نہ تھی۔ بت پرست یونانی اپنے بادشاہوں اور ہیروؤں کے مجسمے اور ستاروں کے ہیکل پوجتے تھے۔ روم، ایشیائے کوچک، یورپ، افریقہ، مصر، بربر، حبشہ وغیرہ عیسائی ملکوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام اور سینکڑوں ولیوں اور شہیدوں کی مورتیاں اور ہڈیاں اور ان کی مصنوعی یادگاریں پوجی جارہی تھیں۔ زرتشت کی مملکت میں آگ کی پرستش جاری تھی۔ ہندوستان سے لے کر کابل و ترکستان اور چین اور جزائرِ ہند تک بدھ کی مورتوں سمادھوں اور ان کی جلی ہوئی ہڈیوں کی راکھ کی پوجا ہو رہی تھی۔ چین کے کنفیوشس اپنے باپ دادوں کی مورتیوں کے آگے خم تھے۔ خاص ہندوستان میں سورج دیوتا، گنگامائی اور اوتاروں کی پوجا ہو رہی تھی۔ عراق کے صائبی سبع سیارہ کی پرستش کی تاریکی میں مبتلا تھے۔ باقی تمام دنیا درختوں، پتھروں، جانورں، بھوتوں اور دیوتاؤں کی پرستش کررہی تھی۔ غرض عین اس وقت جب تمام دنیا خدائے واحد کو چھوڑ کر آسمان سے زمین تک کی مخلوقات کی پرستش میں مصروف تھی، ایک بے آب و گیاہ ملک کے ایک گوشہ سے آواز آئی:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ﴾ (البقرۃ: 21)

’’لوگو! اپنے اس پروردگار کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا۔‘‘

سابق کتبِ الہٰی کے ایمان داروں کو آواز دی گئی:

﴿قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ﴾ (آل عمران: 64)

’’اے کتاب والو! آؤ ہم تم اس بات پر عملاً متحد ہوجائیں، جس میں ہم تم عقیدۃ میں متفق ہیں کہ ہم خدائے برحق کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں۔ ‘‘

مگر یہ آواز ریگستان عرب کے صرف چند حق پرستوں نے سنی اور پکار اٹھے:

﴿رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا﴾ (آل عمران: 193)

’’خداوند! ہم نے ایمان کے منادی کی آواز سنی کہ اپنے پروردرگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے، تو اے پروردگار ہمارے گناہ معاف کر۔‘‘

ان واقعات کو سامنے رکھ کر آنحضرت ﷺ کی اس دعا کی صداقت کا اندازہ کرو جو بدر کے امتحان گاہ میں آپ کی زبان عبودیت ترجمان سے بارگاہِ الہٰی میں کی گئی تھی:

خداوند! تیرے پوجنے والوں کی یہ مٹھی بھر جماعت آج تیرے لئے لڑنے پر آمادہ ہے۔ خداوند! آج اگر یہ مٹ گئی تو پھر زمین میں تیری کبھی پرستش نہ ہوگی۔

خدا نے اپنے نبی کی دعا سنی اور قبول فرمائی کیونکہ خاتم الانبیاء کے بعد کوئی دوسرا آنے والا نہ تھا جو غافل دنیا کو خدا کی یاد دلاتا اور خدا کی سچی اور مخلصانہ عبادت کی تعلیم دیتا۔

لہٰذا اس مسئلہ میں بنیادی عقیدہ جو توحید ہے، اس کی جو دعوت ہے، اس کے لئے پیغمبر تشریف لاتے تھے، لیکن انسان بہت جلدی بھول جاتا ہے۔ جو قومیں تباہ ہوئی ہیں، ان کے اثرات، گھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور بعض کے اُس وقت موجود تھے، اب نہیں ہیں، تو ان کی قرآن میں باقاعدہ دعوت دی گئی ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ لیکن انسان بہت جلدی بھول جاتا ہے اور اپنے نفس کے تقاضوں کے پیش نظر وہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا ہوتا ہے اور اس بات کی طرف دھیان دینے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا، فرصت نہیں ہوتی کہ یہ ایسا کیوں ہوا تھا اور کب ہوا تھا اور کیا ہوا تھا؟ اس طرف تصور جاتا ہی نہیں، بلکہ یہاں تک ہے کہ خود اپنے ساتھ کوئی واقعہ گزرا ہو مثلاً موت سامنے آچکی ہو اور اس وقت صدق دل سے اللہ کو پکارا ہو، پھر اللہ پاک نے اس کو بچایا ہو تو یہ بات بھی بھول جاتا ہے، قرآن میں اس کا ذکر باقاعدہ موجود ہے کہ یہ بات بھی بھول جاتا ہے اور پھر اپنے نفس کے مکر و فریب میں مصروف ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ انسان بھولنے والا ہے، تو بار بار اس کو یاد دلانا پڑتا ہے، تاکہ یہ نفس کے شر سے نکل آئے اور اللہ تعالیٰ کی سچی بات کرسکے، اللہ پاک کو اپنا واقعی رب سمجھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب سمجھنا اور پھر اس کے مطابق تمام کام کرنا یہ بہت بڑی بات ہے، چنانچہ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)

ترجمہ: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔

نفس کی اصلاح کی ضرورت:

لہٰذا یہ قائم رہنا یہ بہت اہم بات ہوتی ہے، اگرچہ کہنا کوئی مشکل نہیں ہوتا، مثلاً اس وقت یہ corona والا جو کیس آچکا ہے، تو یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی باقاعدہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ کے جلوس نکلے ہیں، کیونکہ ان کے لئے جلوس نکالنا کون سا مشکل کام ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس سے ہم بچ سکتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، بالکل ٹھیک ہے، پڑھ لیں گے، لیکن اس کلمہ کا تقاضا کیا ہے؟ یہ ان کو نہیں سمجھتے، اس کے لئے نہیں آسکتے۔ خیر! انسان کو یہ ہمیشہ سمجھنا ہے کہ نفس کو مستقل طور پہ دبا کے رکھنا یہ ضروری ہے، اس کے لئے محنت ہے۔ اس کے لئے ایک کلام بھی ہے، وہ بھی سنا دیتے ہیں۔

یہ حب دنیا سے اپنے دل کو بچا کے رکھنا کمال یہ ہے

نفس کے جو جو بھی ہیں رذائل دبا کے رکھنا کمال یہ ہے

یعنی جو جو رذائل ہیں وہ دبا کے رکھنا، یہ نہیں کہ بس ایک دفعہ دبا لیا تو بس کام ہوگیا، نہیں! دبا کے رکھنا مستقل طور پہ ہے۔

یہ نفرتیں محبتیں ہیں یہ دل کی دنیا یہ دل کا میداں

انہیں اس ایک ہی کی محبت میں مٹا کے رکھنا کمال یہ ہے


عقل ہے نعمت اگر یہ خادم ہو شریعت کا ہر ایک کام میں

تو واسطے اس کے اسے اس در پہ ہی لا کے رکھنا کمال یہ ہے


یہ دل بھی صاف ہو عقل بھی درست ہو نفس بھی قابو ہو اپنا یارو

ان لطائف کو جو منتشر ہیں ملا کے رکھنا کمال یہ ہے

منتشر سے مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے جو اس کے تقاضے ہیں، ان کو علیحدہ علیحدہ پورا کرنا یہ منتشر ہے یعنی دل اپنا میدان سجاتا ہے، عقل اپنی بات کرتی ہے اور نفس اپنی چلاتا ہے، لیکن اس کو اس طریقہ سے اعتدال پہ لانا کہ عقل کی جتنی ضرورتیں ہیں، وہاں پر عقل استعمال ہو، جہاں پر محبت کی ضرورت ہے، وہاں پر محبت استعمال ہو اور جہاں پر نفس کی محنت کی ضرورت ہے، تو اس پر محنت کی جائے یعنی ہر چیز اپنے اپنے درجہ میں ہو، اس کو منتشر سے بچا کر اعتدال پر لانا ہے، یہ کام بہت اہم ہے، اسی کو ہم تربیت کہتے ہیں۔

یہ باتیں کتنی ہوں اپنی اونچی اگر اثر سے ہوں رہتی خالی

نہیں مگر یہ دلوں دماغ کو ہلا کے رکھنا کمال یہ ہے

یہ اصل میں اس طرف اشارہ ہے کہ بعض لوگ باتوں کی حد تک باتیں کرتے ہیں، مگر جو اصل کام ہے اس کی طرف نہیں جاتے۔ اب باتیں کرنے میں کیا مشکل ہے؟ باتیں تو انسان بہت کرسکتا ہے، دنیا میں سارے لوگ باتیں ہی کررہے ہیں، مگر باتوں سے نہیں، بلکہ باتوں سے عمل پہ آنا یہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر میں رات کو نعتیں سن رہا ہوں، تقریریں سن رہا ہوں اور میرا نفس خوش ہورہا ہے کہ میں بڑا اچھا کام کررہا ہوں اور اس وقت یہ بات مجھے اچھی لگ رہی ہے، لیکن اس کی وجہ سے میری فجر کی نماز اگر چلی جائے تو نقصان ہوگیا، اللہ کا حکم ٹوٹ گیا۔ اب اگر اس کے بجائے میں عشاء کے بعد جلدی سو جاتا اور فجر کی نماز کے لئے اٹھ جاتا تو یہ میرے لئے اصل تھا، کیونکہ اس میں اللہ پاک کا حکم پورا ہو رہا ہے یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پوری رات اس محفل میں رہنا اگر مستحب تھا، اگرچہ اُس وقت یہ مستحب بھی نہیں رہتا اگر یہ بات ہو یعنی اگر فجر کی نماز رہ جائے تو، لیکن میں مثال دے رہا ہوں کہ اگر یہ مستحب تھا اور فرض اس کی وجہ سے قضا ہوگیا تو مستحب کو لے کر اور فرض کو چھوڑ کر یہ کون سی عقلمندی ہے؟ یہ عقلمندی نہیں ہے۔ تو یہاں پر اس بات کا ذکر ہے کہ یہ باتیں بے شک کتنی اونچی کیوں نہ ہوں، لیکن اس نے مجھ پر اثر نہیں کیا اور میں شریعت پہ نہیں آیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن اس کی جگہ پر اگر میرا دل و دماغ متأثر ہوجائے اس سے اور عمل پہ میں آجاؤں تو یہ اصل بات ہے، یہ کرنا چاہئے، آج کل دنیا اس میں پھنسی ہوئی ہے۔

یہی تو جذب ہے کہ جس کے بل پہ سلوک طے ہو یہ اپنا شبیرؔ

سلوک کے واسطے یہ جذب کی بھٹی جلا کے رکھنا کمال یہ ہے

جذب کا مقصد اور مجاہدہ کا فائدہ:

یعنی صرف جذب مقصود نہیں ہے، بلکہ سلوک طے کرنے کے لئے جذب ہے۔ اس لئے جب تک سلوک طے نہیں ہوا تو اپنے جذب کو maintain رکھنا ہے، تاکہ وہ سلوک سارے کا سارا طے کرے۔ سلوک میں انسان کے character میں تبدیلی آجاتی ہے اور جذب میں انسان اپنے آپ میں نہیں ہوتا، اس میں پھر وہی بات ہے کہ جیسے پوری رات نعتیں سنتے ہیں اور فجر قضا کرتے ہیں، تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے، اب اس کو اگر پتا نہیں چلتا کہ میں ٹھیک کررہا ہوں یا غلط کررہا ہوں، تو اس سے پھر کیا فائدہ اٹھانا۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر میں اگر ایک نعت سنا دوں اور نعت سنانے کے ساتھ یہ دعوت دوں کہ بھائی! آپ ﷺ کی محبت جس کو حاصل ہوگئی ہے وہ یہ نیت کرلے کہ میں آپ ﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزاروں گا، یعنی آپ ﷺ کی سنت کی دعوت بھی دی اور اس پر لایا جائے، تو یہ سلوک ہوگا، یعنی اس وقت جس چیز کی طرف دعوت دی جائے، وہ ایک عمل ہے اور اس عمل کی جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کرنا اور مشکلات کو دور کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر میں کسی کو بتاؤں کہ بھائی! فرائض سب سے اہم ہیں، فرائض چھوڑنے نہیں چاہئیں، لہٰذا فرائض کو بچاؤ، واجبات کو بچاؤ۔ تو یہ اب پہلے اس پہ قائم کرنا ہوگا، پھر اس کے بعد مزید development ہوگی کہ سنتیں مؤکدہ پر آئے گا، پھر اس کے بعد اس سے مستحب پہ آئے گا، اور اگر اس طریقہ سے کوئی مستحب پہ آجائے تو یہ مقبول ہے یعنی فرائض پورے ہوں اور واجبات بھی پورے ہوں اور سنن مؤکدہ بھی پوری ہوں، پھر مستحب پہ آجائے تو یہ مقبول طریقہ ہے، لیکن اگر میں اس طرف سے چلا جاؤں کہ مستحبات تو کرلوں اور سنت مؤکدہ رہ جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا، یہ ترتیب ہی غلط ہے۔ لہٰذا سلوک سے مراد یہ ہے کہ آپ اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں، دین پر چلنے کے لئے تیار کرلیں، اور اس میں آپ جذبات سے کام نہ لیں، بلکہ حقیقت کا خیال رکھیں کہ اصل چیز کیا ہے۔ اس کے مطابق اگر نفس resistance کرتا ہے تو اس resistance کو cover کرلو۔ مثال کے طور پر ایک شخص ہے، اس کے اندر سستی ہے، تو سستی کو نکالنے کے لئے اس کو ایسے کام دو جس سے اس کی سستی ختم ہوجائے، کیونکہ نفس کی بار بار مخالفت سے نفس مان جاتا ہے۔ اس کی میں مثال دیتا ہوں، بہت آسان مثال ہے، وہ یہ کہ ہمارے قاری نور اللہ صاحب قرآن پاک سناتے ہیں رمضان شریف میں، تو اس میں کچھ لوگ ہمارے پاس accidental اعتکاف کرنے لگے، کیونکہ ان کو فیصل مسجد میں جگہ نہیں ملی، یعنی ان کو وہاں موقع نہیں ملا، لہٰذا وہ accidental ادھر سے رہ گئے تو ہمارے پاس آگئے یعنی مجبوراً آئے، اور اِدھر ہماری ترتیب آخری عشرہ میں تین ختم قرآن کی تھی، اس کے لئے قاری صاحب ایک ایک پارہ ابتدا میں سناتے تھے یعنی ایک رکعت میں ایک پارہ ہوتا تھا، اب وہ لوگ کہاں اس کے عادی تھے، اس لئے مشکل تو تھا، مگر وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے رہے اور ایک ایک پارہ وہ سنتے رہے۔ اگرچہ بعد میں کم ہوجاتا ہے، لیکن ابتدا میں ایک پارہ ہوتا ہے۔ ایک دن قاری صاحب کو پتا ہی نہیں لگا اور انہوں نے ایک رکعت میں پانچ پارے پڑھ لئے، یہ بھی ایک اثر ہے قرآن پاک کا، تو پانچ پارے پڑھ لئے، اب پیچھے وہ تنگ تو بہت ہوئے، کیونکہ پہلی دفعہ تھے، اس لئے تنگ تو بہت ہوئے جو نئے ساتھی تھے، ہم تو خیر اَلْحَمْدُ للہ! کسی نہ کسی درجے میں عادی تھے، لیکن وہ تنگ بہت ہوگئے، مگر پھر خود اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ ایک پارے کے لئے کھڑا ہونا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں رہا اور پھر وہ ان کا فیصل مسجد میں آخری اعتکاف تھا یعنی اس سے پہلے والا، اس کے بعد پھر وہ کبھی اُدھر نہیں گئے، ہمیشہ ہمارے ساتھ اعتکاف کرتے رہے۔ اب اس کی کیا وجہ تھی؟ بس نفس نے ماننا سیکھ لیا، بس ایک جھٹکا جو لگا تو تکلیف تو بہت ہوئی، لیکن پھر کام آسان ہوگیا، جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ (الم نشرح: 6)

ترجمہ: ’’بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔

یعنی بس ایک جھٹکا جو لگا تو جھٹکے نے اگلا کام آسان کردیا اور وہ accidental ہوا تھا، انہوں نے planning سے نہیں کیا تھا، من جانب اللہ ہوگیا تھا۔ مجھے جو فائدہ ہوا وہ کیا تھا؟ میرے ساتھ پہلے دن ایسے ہوا تھا، میں بالکل experience نہیں تھا، مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے ہاں بھی یہی ترتیب چلتی تھی اور ہم نے حضرت سے ہی سیکھی تھی۔ خیر وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے بڑے صحتمند اور تھے بھی بڑے پکے حافظ اور آواز بھی کافی زوردار تھی، مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ ہمارے ساتھ کیوں قرآن نہیں سنتے؟ میں نے کہا حضرت آپ کافی زیادہ پڑھتے ہیں اور میں اتنا زیادہ نہیں سن سکتا، اور ہمارے پاس عذر بھی موجود تھا کہ ہم سٹوڈنٹ تھے، مگر مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے، آج ہمارے ساتھ سن لینا، اگر مزہ نہ آئے تو پھر آپ جہاں پر جانا چاہیں چلے جائیں، میں نے کہا ٹھیک ہے، میں آج چل پڑتا ہوں اور یہ رات ستائیسویں تھی اور حضرت کا معمول یہ تھا کہ ستائیسویں کی ایک رات میں پورا ختم قرآن ہوتا تھا، چونکہ راتیں لمبی تھیں، اس لئے ایک رات میں پورا ختم قرآن ہوتا تھا، اب مجھے تو پتا بھی نہیں تھا اور ڈاکٹر صاحب کو پتا تھا یا نہیں واللہ اعلم، لیکن مجھے اس وقت علم نہیں تھا اور میں نے پوچھا بھی نہیں لیکن کم از کم مجھے پتا نہیں تھا کہ کیا پروگرام ہے، حتیٰ کہ مولانا صاحب کو بھی پتا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا کرنے والے ہیں، خیر ہوا یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے پڑھنا شروع کرلیا، (میں تو دوسری صف میں تھا) تو ایک پارہ پڑھ لیا، میں نے کہا کہ ابھی رکوع کرے گا، چونکہ میں تو عادی ہی نہیں تھا، پہلا دن تھا، تو ایک پارہ پڑھ لیا، مگر رکوع نہیں ہوا، دوسرا پارہ پڑھ لیا، نہیں ہوا، تیسرا پڑھ لیا تو میں نے کہا اب سورۃ بقرۃ ختم کرے گا، سورۃ بقرۃ پڑھ کے رکوع کرے گا، لیکن سورۃ بقرۃ بھی گزر گئی، تیسرا پارہ ہوگیا، چوتھا بھی ہوگیا، پانچواں بھی ہوگیا، چھٹا بھی ہوگیا، ساتواں بھی ہوگیا، آٹھواں، نواں، دسواں جب ہوگیا تو میں نے کہا کہ اس آدمی کے ارادے خطرناک لگتے ہیں، یہ بیس پاروں پہ پہلا رکوع کرے گا یعنی میرے ذہن نے کہہ دیا کہ بیس پارے پہ رکوع کرے گا اور دوسری رکعت میں اس نے پورا قرآن پڑھنا ہے، بس یہ اس کا ارادہ ہے، تو میں نے کہا بس ٹھیک ہے، اب جم جاؤ، اب نیت تو توڑ نہیں سکتے، اب کیا کرسکتے ہو، نیت توڑی تو پوری محنت رائیگاں چلی جائے گی، تو گیارواں، بارہواں، تیرہواں، سولہواں، سترہواں، اٹھارہواں اور بیس پر رکوع کرلیا یعنی بالکل اسی طرح ہوگیا، پھر اس کے بعد دوسری رکعت شروع ہوگئی، اکیسواں، بائیسواں، تیسواں، چوبیسواں، پچیسواں، چھبیسواں، ستائیس، اٹھائیس، انتیس، یہاں تک کہ تیسواں شروع ہوگیا اور سورۃ والضحیٰ پہ آکر اس نے رکوع کرلیا پھر سلام پھیر لیا۔ جب سلام پھیر لیا تو ڈاکٹر صاحب چونکہ میرے ساتھ ہی کھڑے تھے تو مجھے کہتے کہ اب اگر کہیں جانا چاہتے ہو تو بے شک چلے جاؤ، میں نے کہا اب کدھر جاؤں؟ سحری کا وقت قریب ہی آگیا، اور ساری جگہ پہ تراویح ہوچکی تھی، میرے پاس تو کوئی option ہی نہیں تھا اور پھر تراویح بھی چھوٹی رہ گئی تھیں، چونکہ پورا قرآن تو پڑھ لیا تھا اس نے۔ خیر پھر حضرت نے بھی ان کو سمجھایا کہ اس طرح نہیں کرتے، کم از کم بتا دیتے ہیں کہ میرا یہ ارادہ ہے، آئندہ اس طرح اگر کبھی ارادہ ہو تو بتا دیا کریں، تاکہ کمزور لوگ نیت نہ باندھیں، بہرحال حافظوں کی بعض دفعہ اپنے اپنے techniques ہوتے ہیں۔ اور بعینہٖ اسی طرح میرے ساتھ دوسری دفعہ بھی ہوا ہے، وہ دو ختم والی بات تھی، اس میں بھی انہوں نے ایسے ہی کیا تھا۔ مگر اب اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی کہ اَلْحَمْدُ للہ! ثم اَلْحَمْدُ للہ! پھر اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور طریقہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم اِدھر سے اُدھر جاتے تھے یعنی صرف ختم میں شامل ہونے کے لئے آخری عشرہ میں ہم ادھر جاتے تھے اور لمبی لمبی رکعتیں ہم پڑھتے تھے، کیونکہ نفس نے ماننا سیکھ لیا، اور جب نفس نے ماننا سیکھ لیا تو اس کے لئے پھر کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ اسی کو مجاہدہ کہتے ہیں کہ نفس کو مجاہدہ سے منوایا جاتا ہے، ورنہ نفس خود نہیں مانتا، بلکہ نفس کو منوایا جاتا ہے ڈنڈے کے زور پر، کوئی اور طریقہ اس کے ساتھ نہیں ہے، اور اگر آپ نے اس کو منوا لیا اور کام کا بنا لیا تو بس سبحان اللہ! لیکن یہ محبت کی وجہ سے ہوسکتا ہے، محبت کے بغیر نہیں ہوسکتا اور اس وقت ہمارے لئے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت تھی، بس ان کے ساتھ محبت تھی، اسی لئے ہمارے لئے کام آسان ہوگیا، ورنہ کون سا طریقہ ہے کہ کسی اور جگہ ہم کرتے؟ نہیں کرسکتے تھے۔ یہی حضرت مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت mould کرنے والی تھی اور نفس مجاہدہ سے سیدھا ہونے والا ہوتا ہے، یہی طریقہ جذب اور سلوک کا ہے۔ اس لئے سلوک کے واسطے جذب کی بھٹی کو جلا کے رکھنا یہ ہمارا کام ہے، اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو واقعتاً بڑا ہی لطف ہے زندگی میں، مگر عیسائیوں کی طرح رہبانیت نہیں ہے، چونکہ عیسائیوں کی رہبانیت مقصودی ہے، مقصودی سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو تنگ کرنا، اپنے نفس کو ذلیل کرنا، اپنے نفس کو تکلیف پہنچانا، یہ ثواب سمجھتے ہیں اور یہ رہبانیت ہے۔ ہمارے ہاں یہ چیز نہیں ہے، ہم اس کو ثواب نہیں سمجھتے، البتہ ہم اس کو تربیت سمجھتے ہیں اور جب تربیت ہوجائے تو بس پھر تنگ نہیں کرتے۔ جیسے ہمارے فوجی دو سال cadets کی تربیت کرتے ہیں، تو اس دو سال میں tough time ان کو دیتے ہیں، مگر کیا بعد میں بھی ان کو tough time دیتے ہیں؟ بعد میں نہیں دیتے، اب وپ جو ان کا tough time ہے، وہ رہبانیت تو نہیں ہے، وہ ایک تربیت کا حصہ ہے کہ ان کے اندر کچھ تبدیلی پیدا کرتے ہیں structure میں۔ تو فوجی جو ہوتا ہے پھر وہ فوجی رہتا ہے پوری عمر، وہ دو سال جو اس نے گزارے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے فوجی فوجی رہتا ہے۔ مجھے خوب پتا ہے کہ جب میں ایک فوجی ادارہ میں ملازم تھا، تو میں تو fresh گیا تھا یعنی انجینئر بن کر بطور assistant works manager میں appointed تھا، لہٰذا میں ان چیزوں کا عادی نہیں تھا، لیکن وہ لوگ فوجی تھے، وہ عادی تھے، تو مجھے ایک میجر صاحب نے دیکھا تو کہا کہ مجھے پتا ہے کہ آپ سٹوڈنٹ سے direct آئے ہوئے ہیں، آپ نے یونیورسٹی سے ادھر join کیا ہے، آپ ڈانٹ نہیں سہہ سکتے، مگر میں سہہ سکتا ہوں، مجھے experience ہے، تو میں آپ کے لئے ڈانٹ سہہ لیا کروں گا اور آپ جس officer کے ساتھ attach ہونا چاہتے ہیں، تو میں اس کے ساتھ آپ کو attach کردوں گا، لیکن آپ یہاں سے نہ جائیں۔ اب دیکھیں کہ وہ خود کہہ رہا ہے کہ مجھے ٹریننگ یہی دی گئی ہے اور آپ کو یہ ٹریننگ نہیں دی گئی، یہ بات تو وہ بالکل صحیح کہہ رہا تھا کہ مجھے وہ ٹریننگ نہیں دی گئی تھی، اس لئے میں اس طرح نہیں کرسکتا تھا جو وہ کرسکتے تھے، یہ بات اس نے خود بتائی۔ لہٰذا اگر اس طرح جو ٹریننگ باقاعدہ کسی خاص طریقۂ کار کے مطابق دی جائے، جس سے مقصد کسی کو تکلیف دینا نہ ہو، بلکہ اس تکلیف کی وجہ سے اس کی تربیت مقصود ہو، تو یہ چیز تربیت میں آجاتی ہے اور یہ جو ہمارا سلوک طے کرنے کے لئے مجاہدہ ہے، یہ رہبانیت نہیں ہے، جیسے کہ لوگ بیان کرتے ہیں: ’’لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ‘‘ کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، اور پھر یہ جملہ صوفیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور خانقاہوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ ہمارے اوپر لاگو ہی نہیں ہوتا، کیونکہ ہم لوگ اسے ثواب سمجھتے ہی نہیں ہیں، ہم لوگ اس کو مقصود سمجھتے ہی نہیں۔ ہاں! اگر ہم اس کو مقصود سمجھتے، اور سمجھتے کہ خانقاہوں میں ایسا ہی ہوتا ہو، ںہیں! ایسا نہیں ہے، اور ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہوتا، بلکہ جس کے لئے ضرورت ہوتی ہے اس کو یہ کراتے ہیں، مثال کے طور پر ایک شخص ہے جس میں پہلے سے صبر موجود ہے تو اس کو وہ مجاہدہ کیوں کرایا جائے گا جس میں اس کو صبر حاصل ہو؟ کیونکہ یہ چیز پہلے سے موجود ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ اس کے اندر سستی پائی جاتی ہو، تو اس کو سستی دور کرنے کا مجاہدہ دیا جائے گا، مگر اس کو صبر والا مجاہدہ نہیں دیا جائے گا۔ ایسے ہی ایک شخص ہے، جس کے اندر توکل کی کمی ہے، تو اس میں توکل پیدا کرنے والا مجاہدہ اس کو دیا جائے گا یعنی جس کو جس چیز کی ضرورت ہے، اس کے مطابق اس کی تربیت کرنا یہ ہوتا ہے سلوک طے کرنا، اس میں مقصود کوئی چیز نہیں ہے، اس میں سارا procedures ہیں، سارے طریقۂ کار ہیں، بس نیت اس میں یہ ہوتی ہے کہ فلاں چیز آپ میں پیدا ہوجائے۔ اس لئے اگر کوئی اس مقصد کے لئے یہ کرتے ہیں تو اس کے اوپر ’’لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ‘‘ والی definition لاگو ہی نہیں ہوتی، کیونکہ تصوف میں بھی رہبانیت نہیں ہے، البتہ تصوف میں تربیت ہے اور تربیت سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اب صحابہ کرام کی من جانب اللہ تربیت ہوئی یعنی صحابہ کرام کی آپ ﷺ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تربیت ہوئی ہے، کیونکہ اس سے زیادہ تربیت آپ کو اور کیا چاہئے کہ ابھی ان کی باقاعدہ فصلیں تیار ہیں اور جہاد کے لئے حکم آگیا:

﴿اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا﴾ (التوبہ: 41)

ترجمہ: ’’نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل‘‘۔

اب ان کے دل پہ کیا گزری ہوگی، کیونکہ سارا کاروبار ان کا، سارا سیزن ان کا وہی تھا، ساری چیزیں ان کے اوپر منحصر تھیں، لیکن وقت آگیا تھا کہ نکلو۔ اب اس وقت جو نکلے تو کیا پھر دوبارہ اس قسم کی چیزیں ان کے دل میں کوئی رہ سکتی تھیں؟ جو مجاہدہ انہوں نے کیا بس اس کے ساتھ وہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں، drop ہوگئیں۔ لہٰذا یہ ایک تربیتی مجاہدہ ہوگیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس میں وہ ساری چیزیں حاصل ہوگئیں۔ کیا ان کو دوبارہ اس قسم کا مجاہدہ کرانے کی ضرورت تھی؟ نہیں، بس وہ تو اللہ پاک نے کرا دیا۔ اب جو امیر کی اطاعت والا مجاہدہ تھا وہ احد میں ہوگیا تھا، کیا دوبارہ ان کو یہ کرانے کی ضرورت تھی؟ بس وہ ہوگیا، مقصد حاصل ہوگیا۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کے اندر تو یہ چیزیں نہیں تھیں۔ خدا کے بندو! وہاں وہ آپ ﷺ کے پاس تھے، اللہ تعالیٰ ان کی براہِ راست تربیت فرما رہے تھے، کیونکہ وحی نازل ہو رہی تھی، مگر اب وحی نازل نہیں ہو رہی، اس وقت آپ ﷺ موجود تھے، اللہ تعالیٰ براہِ راست ان کی تربیت فرما رہے تھے اور بس حکم آ جاتا تھا، اور جب حکم آجاتا تو اس کے بعد پھر کوئی انکار تو ہو نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا ان کے لئے جو option تھا، وہ آپ کے پاس کہاں ہے؟ آپ کے پاس تو option ہے ہی نہیں۔ اور اس وقت ساری چیزیں جو ہوئیں، وہ تدریجاً ہوئیں اور جو تربیت میں مقصود ہے، وہ صحابہ کرام کے ساتھ ہوا ہے یا نہیں ہوا؟ ہوا ہے، بلکہ ہم اسی تدریج کی بنیاد پر ہی یہاں تدریج کے قائل ہیں کہ جو صحابہ کرام کے ساتھ اللہ نے تدریج کا معاملہ کیا، تو اب شیخ اسی تدریج کی نقل کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ ان کو لے جاتا ہے طریقۂ کار کے مطابق۔ جیسے شراب تین حصوں میں بند ہوئی تھی، تو اب جو بری چیزیں ہیں جن کو ہم لوگ کم کروانا چاہتے ہیں، تو اسی طریقہ سے آہستہ آہستہ کرواتے ہیں، ایک دن میں نہیں۔ یہ طریقہ کس سے سیکھا ہے؟ انہی سے سیکھا ہے، کیونکہ اللہ پاک نے یہ نظام چلایا ہوا ہے، اور وہ ہمارے لئے نمونہ ہے۔ لہٰذا وہ direct تربیت میں تھے اور ہم لوگ انہی کے طریقہ پہ چلنے کی کوشش کرتے ہیں، بس فرق صرف یہ ہے وہاں براہ راست وحی کی بات تھی اور یہاں الہام کی بات تھی یعنی یہاں شیخ کا شرح صدر ہوتا ہے، شیخ کے دل پہ بات آتی ہے کہ اس کے ساتھ یہ معاملہ کرو، یہاں وحی نہیں آئے گی، وحی والا سلسلہ بند ہوگیا ہے، لیکن شیخ کا شرح صدر موجود ہے اور وہ اپنے طور پہ موجود ہے اور باقاعدہ ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ نظام ہی چل رہا ہے یعنی اس طریقہ سے جو شیخ کا شرح صدر ہے، وہ وحی کے طریقہ پہ اللہ پاک ان کے دل پہ لاتا ہے، اس کے ذریعہ سے وہ اس کی تربیت فرماتے ہیں، ورنہ اپنے طور پہ تو کچھ نہیں کرسکتے. مثلاً جو مفتی کو اجازت نہیں ہے کسی چیز کی، مگر شیخ کو اس کی اجازت ہے یعنی ایک چیز اگر مفتی سے پوچھو گے تو وہ آپ کو آخری حکم بتائے گا، وہ آپ کو تدریج پہ نہیں لے جاسکتا، بس وہ آپ کو آخری حکم بتائے گا، جبکہ شیخ سے پوچھو گے تو آپ کو تدریج پہ لے جائے گا، وہ آہستہ آہستہ کرنا چاہے گا، اس کے ذہن میں، اس کے دل میں یہ بات ہوگی کہ میں اگر اس کو آخری حکم بتاؤں تو کچھ بھی نہیں ہوگا، نہ یہ ہوگا، نہ دوسرا ہوگا اور اس طریقہ سے اگر میں بتاؤں تو کچھ نہ کچھ یہ کرلے گا، چلو اس کو پورا حاصل نہیں ہوا، لیکن کچھ تو حاصل ہوا ہے، پھر اس کے بعد کچھ حاصل ہوا، پھر اس کے بعد اور حاصل ہوا اور اخیر میں وہاں تک پہنچ گیا۔ لہٰذا سارے بزرگوں نے تربتیں اس طرح ہی کی ہیں کہ آہستہ آہستہ ساری چیزیں کی ہیں، بہرحال اس وجہ سے ہم لوگوں کو ان دونوں چیزوں کو سمجھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اللہ جل شانہٗ ہمیں صحیح عقائد اور صحیح اعمال نصیب فرما دے، اس کے لئے جس تربیت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہماری پوری فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور