اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات شریف کا درس ہورہا ہے۔ آج مکتوب نمبر 240 کے بارے میں ان شاء اللہ تعلیم ہوگی۔
متن:
شیخ یوسف برکی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس راہِ (سلوک) کی بے نہایتی اور کلمہ طیبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے بعض فوائد کے بیان میں۔
الَْحَمْدُ لِلہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام ہو) وہ مکتوب جو آپ کی خیریت کے انجام والے احوال پر مشتمل تھا موصول ہوا، اور اس کا مطالعہ خوشی کا باعث ہو۔
در عشق چنیں بو العجبی ہا باشد
ترجمہ:
عشق میں باتیں ہیں ایسی ہی عجیب
لیکن ان احوال سے گزر کر احوال کے بدلنے والے (یعنی حق تعالیٰ) تک پہنچنا چاہیے کہ وہاں سب جہالت و نا دانی ہے۔
اس کے بعد اگر معرفت سے مشرف فرمائیں تو کیا ہی نعمت و سعادت ہے۔ مختصر یہ کہ جو کچھ دید و دانش(دیکھنے اور سمجھنے) میں آئے قابلِ نفی ہے، اگرچہ وہ کثرت میں وحدت کا شہود ہی ہو۔ کیونکہ اس وحدت کی کثرت میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ جو کچھ دیکھنے میں آتا ہے اس وحدت کی مثال اور صورت ہے نہ کہ وہ خود لہٰذا آپ کے حال کے مناسب اس وقت کلمہ طیبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا ذکر ہے۔ اس کلمے کا اس قدر تکرار کریں کہ آپ کی دید و دانش میں کوئی اور چیز باقی نہ رہے اور سامان کو حیرت و نا دانی میں ڈال دے اور معاملے کو فنا کی طرف لے جائے۔
جب تک (سالک) حیرت و جہل کی طرف نہ چلا جائے فنا نصیب نہیں ہوتی اور جس کو آپ نے فنا سمجھا ہے، اس کا فنا سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی تعبیر عدم سے ہے نہ کہ فنا سے۔ جب جہل تک پہنچنے کے بعد فنا حاصل ہوجائے تو وہ اس راہ (سلوک) کا پہلا قدم ہوگا۔ وصل کہاں اور اتصال کس کو؟
کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَهَا
قُلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَ خُیُوْفٗ
ترجمہ:
کس طرح جاؤں درِ محبوب تک
درمیان ہیں پُر خطرہ کوہ اور غار
آپ کے احوال درست ہیں لیکن ان سے گزرنا ضروری ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ َوالتَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَأَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا)
دوسری نصیحت شریعت پر استقامت ہے اور اپنے احوال کو شرعی اصول کے مطابق درست کرنا ہے۔ عیاذًا باللہ سبحانہٗ (اللہ سبحانہٗ کی پناہ) اگر قول و فعل میں شریعت کے خلاف کوئی بات ظاہر ہو تو اس میں اپنی خرابی جاننا چاہیے۔ استقامت والے حضرات کا یہی طریقہ ہے۔ و السلام
تشریح:
مجھے لگتا ہے کہ یہ مکتوب شریف پہلے ہو چکا ہے۔ بہرحال میں اس سے متعلق مختصر بات عرض کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ احوال بدلتے رہتے ہیں۔ احوال کے اندر Directly پڑنا نہیں چاہیے، اور خود ہی احوال آتے رہتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر ہم کسی جگہ جا رہے ہیں تو راستے میں مختلف حالات پیش آتے رہتے ہیں، لیکن وہ حالات ہمارا مقصود نہیں ہوتے، بلکہ ہم تو منزل کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، منزل پر پہنچ جائیں تو بس ٹھیک ہے۔ اس وجہ سے حالات واحوال کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، بلکہ جو احوال کو بدلنے والا ہے اس کی طرف جانا چاہیے۔ یعنی ہم کسی اور چیز کی طرف نہ جائیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہماری طرف صرف جہل اور نادانی ہے، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے، مکمل جہل اور نادانی ہے، یعنی ہم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جو سوچا غلط سوچا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾، یہ سب کی طرف ہے۔ یعنی کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات کے اندر پتا نہیں چلا سکتی۔ اللہ جل شانہٗ کی ذات ایسی ہے کہ جو سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ پھر جب اللہ جل شانہٗ معرفت نصیب فرمائیں، معرفت سے مراد یہ ہے کہ یہی چیز معلوم ہوجائے کہ اللہ جل شانہٗ کے بارے میں ہمیں کیا بولنا چاہیے، کیا کہنا چاہیے، کیا سننا چاہیے، جب یہ معرفت نصیب ہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔ البتہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں، یہ چیزیں قابلِ نفی ہیں، کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو نہیں پا سکتے۔ اور جو کثرت میں وحدت کا شعور ہے یعنی جب ہم دیکھتے ہیں کہ سارا کچھ جو ہو رہا ہے یہ سارا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں تو پھر بھی ہم کچھ بھی نہیں جانیں گے۔ تو اس وحدت کی جو ذات ہے وہ ہم نہیں معلوم کر سکتے، البتہ اس کی جو صفات ہیں ان پر ہم غور کر سکتے ہیں۔ اور جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے اس وحدت کی مثال اور صورت ہے۔ یعنی ایک صوری انداز ہے، اصلی انداز نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا کثرت سے ذکر کرنا چاہیے۔ اتنا ذکر کرنا چاہیے کہ ہمیں یہ نادانی اور حیرت حاصل ہوجائے، یعنی اللہ جل شانہٗ کی معرفت کے ساتھ ہی یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں، کیونکہ جو اصل میں سمجھ لیتا ہے کہ اللہ ان تمام چیزوں سے وراء الوراء ہے، وہ کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکے گا۔ لہٰذا یہیں پر ہی حیرت و نادانی شروع ہوجاتی ہیں اور معاملہ فنا کی طرف چلا جاتا ہے، پھر انسان اپنی رائے کو چھوڑ دیتا ہے اور اپنی کوئی بات اس قابل نہیں سمجھتا۔ باقی ہم جو کہتے ہیں کہ یہ چیز فانی ہے، وہ تو فنا عدم کی صورت میں ہے، یعنی ہم کہتے ہیں کہ اصل میں کچھ بھی نہیں، واقعتاً اصل میں تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ عدم ہے، فنا نہیں ہے، فنا اپنی رائے کو چھوڑنا ہے، جو کچھ سمجھا ہے اس کو کچھ نہیں سمجھنا ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے، یہ فنا کے ساتھ ہوتا ہے۔ تو اس کے لئے اپنے جہل کا اقرار لازم ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمیں فنا حاصل ہوجائے، وہی راہِ سلوک کا پہلا قدم ہے۔ اور وصال کہاں ہے؟ کیونکہ وصال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ جل شانہٗ کی ذات وراء الوراء ہے، تو اس کے ساتھ کوئی کیسے مل سکے گا، البتہ ہم اللہ جل شانہٗ کی باتیں اتنی مانیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اتنا بچیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قریب کر لیں، قریب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ محبت اور تعلق کے لحاظ سے قریب کر لے۔ ظاہر ہے کہ یہ موقع ہے، یہ ہم کر سکتے ہیں۔ باقی جس طرح ہم کسی کے ساتھ مل کر ملاقات کرتے ہیں، یہ چیز اللہ جل شانہٗ کے ہاں نہیں ہوسکتی، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کی ذات وراء الوراء ہے۔
متن:
دفتر اول مکتوب 241
مولانا محمد صالح کی طرف بعض دوستوں کی ترقی کے بیان میں صادر فرمایا۔
حمد و صلوٰۃ کے بعد میرے سعادت مند بھائی کو معلوم ہو کہ اس جگہ کے حالات حمد کے لائق ہیں اور یہاں کے سب دوست خوش و خرم ہیں، بالخصوص مولانا محمد صدیق2 ان دنوں اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے ولایتِ خاصہ سے مشرف ہوگئے ہیں اور اسمِ جُزئی سے اسمِ کُلیّ کے ساتھ ملحق ہوگئے ہیں اس کے با وجود نظر فوق کی جانب رکھتے ہیں۔ وہاں (فوق) سے نصیبِ وافر (بہت بڑا حصہ) حاصل کر کے شاید رجوع کی طرف رجحان کریں۔ ﴿وَاللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَن يَّشَآءُ…اَلاٰیۃ﴾ (البقرہ: 105) ترجمہ: ”اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے“۔ کبھی کبھی اپنے اور ان دوستوں کے احوال جو طریقے میں داخل ہوگئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں، لکھ دیا کریں اور چند روز وہیں قیام پذیر رہیں۔
والسلام
تشریح:
یہ بھی حضرت کے خلیفہ لگتے ہیں، حضرت نے ان کے بارے میں یہ فرمایا کہ الحمد للہ یہاں پر خیریت ہے اور مولانا محمد صدیق صاحب کے بارے میں فرمایا کہ ولایتِ خاص سے مشرف ہوگئے ہیں۔ ولایتِ عامہ تو سب کو حاصل ہے، جیسے قرآن کریم میں ہے: ﴿اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ (البقرہ: 257)
ترجمہ1: ’’اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے۔‘‘
ظاہر ہے اس میں تقویٰ کی شرط نہیں ہے، سارے مومنین اللہ کے دوست ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کسی کو یہ کہہ دیں کہ یہ اللہ کا ولی ہے، تو یہ غلط نہیں ہوگا، کیونکہ ولایتِ عامہ تو ہر کسی کو حاصل ہے۔ لیکن ولایتِ خاصہ ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی، اس کے لئے تقویٰ کا ہونا شرط ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ وہ ولایتِ خاصہ سے مشرف ہوگئے ہیں اور اسمِ جُزئی سے اسمِ کُلیّ کے ساتھ ملحق ہوگئے ہیں۔ یعنی نظر اچھی ہوگئی ہے اور اللہ جل شانہٗ کی ذاتِ باری کے بارے میں جو تنگی بعض دفعہ ہوتی ہے، اس سے نکل گئے ہیں اور اس وسعت میں آ گئے ہیں، یعنی اللہ جل شانہٗ کی ذات کے ساتھ تعلق حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود نظر فوق کی جانب رکھتے ہیں، مزید اعلیٰ پر نظر رکھتے ہیں، گویا کہ ابھی عروج چل رہا ہے۔ البتہ یہ بات عین ممکن ہے کہ نیچے یعنی رجوع کی طرف رجحان کریں یعنی نزول کی طرف آ جائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَاللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَن يَّشَآءُ﴾ (البقرہ: 105) اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے۔
متن:
دفتر اول مکتوب 242
ملا بدیع الدین1 کی جانب ان کے بعض سوالات کے جواب میں صادر فرمایا۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ درویش کمال نے آپ کا مکتوب شریف پہنچایا، بہت خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے اپنے اعمال اور نیتوں کوچ’’دیدِ قصور‘‘ کی وجہ سے متّہم سمجھنے کے بارے میں تحریر کیا تھا، اس کی وضاحت ہوئی۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس ’’دیدِ قصور‘‘کے مشاہدے میں زیادتی فرمائے اور اس اتہام کی تکمیل فرمائے۔ کیونکہ اس راہِ سلوک میں یہ دونوں (یعنی دیدِ قصور اور اتہامِ نیات و اعمال) بڑی دولتیں ہیں۔
تشریح:
دیدِ قصور کا مطلب ہے اپنے آپ کو قصور وار سمجھنا اور اپنی نیت پر بدگمانی کرنا، یعنی جو آدمی غافل ہوتا ہے وہ خوش گمان ہوتا ہے اور جو غافل نہیں ہوتا وہ بدگمان ہوتا ہے۔ یہ طریقِ کار صالحین میں بھی ہے۔ جو ترقی کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے بارے میں فکر رکھتا ہے، وہ بہت خیال رکھتا ہے ہر چیز کے بارے میں، اور جو ترقی نہیں کر رہا ہوتا اسے کوئی پروا نہیں ہوتی۔ جو جتنی بڑی اعلیٰ گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے اسے اپنی گاڑی کی اتنی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ جو پچاس ماڈل کی ٹیکسی والا ہوتا ہے، اسے کیا فکر! کسی سے بھی ٹکرا جائے اسے کیا نقصان ہوگا؟ اپنا نقصان تھوڑا ہوگا۔ اسی طرح جو اپنے آپ کی فکر کرتے ہیں وہ اپنے بارے میں بدگمان رہتے ہیں اور سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں۔ یہ خوش گمانی غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جو جتنا متکبر ہوتا ہے وہ اپنے آپ میں تکبر نہیں پاتا اور جو متکبر نہیں ہوتا وہ اپنے اندر تکبر دیکھتا ہے، یعنی اسے خطرہ ہوتا ہے۔ کسی وقت حضرت تھانویؒ سے کسی نے کہا کہ مجھے تو یہ خطرہ ہے۔ فرمایا: یہ خطرہ معرفت کا خطرہ ہے۔ یعنی اس کے ذریعے سے تمہیں معرفت حاصل ہوگی۔ کیونکہ جس کو خطرہ ہوگیا کہ کہیں میں غلط نہ ہوجاؤں، اسی کو راستہ ملے گا
هر کجا مشکل جو راہ آب رود
ہر کجا پستی می راہ آب رود
تشریح:
جہاں پستی ہوتی ہے اُس طرف پانی جاتا ہے اور جہاں مشکل ہوتا ہے وہاں سے آ جاتا ہے۔ تو جو لوگ اپنے اوپر بدگمان ہوتے ہیں ان کو اللہ بچا لیتے ہیں اور جو لوگ اپنے اوپر نیک گمان ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو پھنسا لیتے ہیں۔ امید اللہ تعالیٰ سے اچھی رکھنی چاہیے، اپنے آپ سے نہیں۔ لیکن اپنے اوپر بدگمان رہنا چاہیے، اپنی طرف کسی اچھائی کی نسبت نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میری بھی ایک رائے ہے اگر ٹھیک ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اب ہمارے ہاں الٹ مسئلہ چلتا ہے کہ اگر مر گیا تو کہتے ہیں کہ اللہ نے مار دیا، اور اگر بچ گیا تو ڈاکٹر نے بچا لیا۔ ہر چیز میں تقریباً یہی بات ہے، یہ سب غفلت کی نشانیاں ہیں، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کے نظام کی جو کارفرمائی ہے وہ سامنے نہیں ہے، اپنا مشاہدہ سامنے ہے، اپنے اوپر نظر ہے اللہ کے اوپر نظر نہیں ہے۔ جب اپنے اوپر نظر ہوتی ہے تو پھر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے کیا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے تو پھر کہتے ہیں کہ اللہ نے کیا ہے۔ وہ اپنے اوپر برائی کی نظر رکھتے ہیں، کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ میں نے غلطی کی ہے، کوئی اچھی بات ہوگئی تو کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے کی ہے۔ اور یہ دل سے ہو، زبانی نہ ہو۔ کیونکہ نیت کا تعلق تو دل سے ہے، یہاں پر ہر چیز نیت کے اعتبار سے ہے۔
متن:
آپ نے لکھا تھا اور دریافت کیا تھا کہ اسم ذات تعالیٰ و تقدس کا شغل کس حد تک کرنا چاہیے اور اس اسمِ مبارک کی کس مقدار کی مداومت سے حجابات دُور ہوجاتے ہیں، اور نفی واثبات کی نہایت حد کہاں تک ہے، اور اس کلمۂ متبرکہ سے کیا کیا کشائشیں (وسعتیں) پیش آتی ہیں اور کس مقدار میں حجابات اُٹھ جاتے ہیں؟
جاننا چاہیے کہ ذکر سے مراد غفلت کا دور کرنا ہے اور چونکہ ظاہر کو غفلت سے چارہ نہیں ہے خواہ ابتدا میں ہو یا انتہا میں، لہٰذا ظاہر ہے کہ ہمہ وقت ذکر کا محتاج ہے۔
تشریح:
یہ وہی بات ہے جو میں نے شروع میں کی کہ ہمارا جو نفس ہے وہ ہر چیز سے اثر لے رہا ہے اپنی خواہشات کے مطابق، جو بھی ہمیں نظر آ رہا ہے سب ہماری اپنی تاویلیں ہیں۔ لہٰذا ہر وقت ہم غفلت کی طرف جا رہے ہیں اور نفس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور جارہے ہیں، تو اس نفس کے اوپر پیر رکھنا اور اللہ کی طرف ارادے سے بڑھنا یہ مقصود ہے۔ ارادہ نہیں ہوگا تو خود بخود برائی کی طرف جائیں گے، کیونکہ نفس تو برائی کی طرف ہی جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ﴾ (یوسف: 53)
ترجمہ: ’’اور میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا)‘‘
تو نفس تو برائی کی طرف ہی لے جاتا ہے، لہٰذا اچھائی کے لئے کوشش لازم ہے، برائی خود بخود ملتی ہے۔ لہٰذا اگر غفلت کی تو برائی میں چلے جاؤ گے۔ کیا خیال ہے Driving جو کر رہے ہو، تو صحیح Driving کے لئے Alert رہنا چاہیے یا غلط Driving کے لئے Alert رہنا چاہیے؟ ہر لمحے آپ نے اپنے آپ کو صحیح راستے پر رکھنا ہے، ذرا بھر بھی آپ غافل نہیں ہوسکتے، کیونکہ جس دم غافل اُس دم Accident۔ تو یہ جو بزرگوں نے فرمایا کہ "جس دم غافل اس دم کافر" اس کا مطلب یہی ہے کہ جس دم غافل ہو اسی دم Accident۔ مثلاً ہم گاڑی چلا رہے ہیں تو اس میں کوئی Relexciation Period نہیں ہے آپ کے لئے اس رستے میں، بس غفلت کو دور کرنا ہے۔ اب ہر وقت انسان کو غفلت سے بچنا ہے، ذرا بھی Relex ہوگیا تو شیطان اپنا کام کر گیا، اس سے پھر Situation بگڑ گئی، کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو یہی وہ چیز ہے کہ ذکر اتنا کرو اتنا کرو کہ ہر وقت اللہ یاد رہے۔ اللہ کو یاد کرنا اور بات ہے اور اللہ یاد رہنا اور بات ہے۔ یاد کرنا ہمارا کام ہے، یاد رہنا اللہ کا فضل ہے۔ اس کے اندر بڑی محنت ہے، یاد کرنے سے یاد رہیں گے۔ اس میں بڑی محنت ہے۔
صوفی نہ شود صافی تا در نہ کشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
صوفی اس وقت تک صافی نہیں بن سکتا، یعنی اس سے بچ نہیں سکتا جب تک کہ عشق کا جام نہ پی لے۔ بہت لمبا سفر ہے خام سے پختہ ہونے میں۔ تو انسان جو اللہ کو یاد کرتا ہے، یہ ہماری کوشش ہے، اس پر اللہ کا فضل ہوجاتا ہے، اللہ پاک یاد رہتا ہے۔ تو جس کو اللہ پاک یاد رہے، تو اس کی بات اور ہے۔ اللہ یاد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ملکۂ یاد داشت حاصل ہو، یعنی ہر وقت اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جو اس احساس کے بغیر ہو۔
متن:
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بعض اوقات اسمِ ذات عز و جل کا ذکر زیادہ نفع بخش ہے اور بعض دوسرے اوقات میں ذکر نفی و اثبات انسب ہے۔ باقی رہا باطن کا معاملہ تو وہاں بھی جب تک غفلت بالکل دُور نہ ہوجائے ذکر کے بغیر چارہ نہیں ہے البتہ اس قدر ہے کہ ابتدا میں یہ دو ذکر متعین (ضروری) ہیں اور وسط و انتہا میں یہ دونوں ذکر متعین نہیں ہیں۔ اگر تلاوتِ قرآن مجید اور نماز کی ادائیگی سے غفلت دُور ہوجائے تو گنجائش ہے۔ لیکن قرآن مجید کی تلاوت متوسط حال والوں کے مناسب ہے اور نماز نوافل کی ادائیگی منتہی حال والوں کے مناسب ہے۔
تشریح:
یعنی نماز بھی ذکر کی ایک صورت ہے، جیسے قرآن کریم میں ہے: ﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ اس میں ایک بہت بڑا نکتہ ہے، وہ یہ کہ مبتدی کے لئے کیوں نہیں فرمایا؟ مبتدی کے لئے اس لئے نہیں فرمایا کہ نماز میں یہ جو ذکر والی کیفیت ہے یعنی یاد رہنے والی کیفیت ہے، یہ استعمال ہوتی ہے۔ یعنی انسان کی نماز تب کامل ہوگی جب اس کو اللہ یاد ہوگا، لیکن نماز کے اندر اس کو کمایا نہیں جاسکتا، البتہ نماز کے اندر اس کو Use کیا جاتا ہے۔ تو کمانے کے وقت مبتدی ذکر کرتا ہے۔ یعنی یہ جو اللہ اللہ کا ذکر کرنا ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا ذکر کرنا ہے، یہ کثرت کے ساتھ کرنا ہوتا ہے، اتنا کہ اللہ یاد ہوجائے۔ اور متوسط جس وقت ہوجاتا ہے تو پھر قرآن مجید سے بھی اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور حدیث سے بھی کہ اللہ تعالیٰ یاد رہتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس میں بھی ذکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس وقت وہ منتہی ہوجاتا ہے تو پھر اس کو اللہ یاد رہتا ہے، وہ غفلت سے نکل آتا ہے۔ جب غفلت سے نکل آتا ہے تو اُس وقت چونکہ جس مقصد کے لئے ذکر تھا وہ مقصد حاصل ہوگیا، تو اب جو ذکر کی اصل صورت ہے یعنی نماز، اس میں لگے رہنا۔ جیسے میں اِدھر بیٹھا ہوں، مجھے اللہ یاد ہے، تو بس ٹھیک ہے، اصل حاصل ہے۔ اور اگر مجھے بھولنا شروع ہوجائے تو پھر وہ دوبارہ کرنا پڑے گا۔ جس چیز کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوئی تھی وہ کمزور ہوگئی ہے، اس لئے دوبارہ بڑھانا پڑے گا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اوراد و اشغال میں منتہی کو بھی لگنا چاہیے، کیونکہ بعد میں پھر اس کو اتنی ضرورت نہیں ہوتی، دوسرے لوگوں کو تو زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس کو بہت کم سے بھی کوئی چیز حاصل ہوجاتی ہے، لیکن بہرحال یہ ہے کہ ضرورت تو پڑتی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ابتداء میں یہ دونوں ذکر ہیں: اَللہْ اور لَا اِلٰہ اِلَّا اللہُ، یہ دونوں ثابت ہیں۔ اور پھر اس کے بعد منتہی صورت میں نوافل اور اعمال ہیں اور متوسط کی صورت میں قرآن شریف سے گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
متن:
جاننا چاہیے کہ حضرتِ ذات تعالیٰ و تقدس کا وہ حضور جو اسماء و صفات کے ملاحظے سے ہو اگرچہ دائمی ہو لیکن احدیتِ مجردہ کی طرف متوجہ ہونے والوں کے نزدیک غفلت میں داخل ہے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ یہ ایک صفت ہے، لیکن جس وقت احدیتِ مجردہ (مجرد کا معنیٰ ہے بالکل کوئی اور چیز شامل نہیں ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی اور چیز شامل نہیں ہے۔ ایسے افراد کو جن کو یہ کیفیت حاصل ہوچکی ہو ان کے نزدیک صفات کی طرف رجوع نہیں کیا جاسکتا ہے، وہ صفات کی طرف نہیں لوٹتے بلکہ صرف ذات کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔
متن:
اس غفلت کو بھی دُور کرنا چاہیے، اور وراء الوراء کی طرف جانا چاہیے
فراقِ دوست اگر اندک است اندک نیست
درونِ دیدہ اگر نیم موست بسیار است
ترجمہ:
فراقِ یار اگر کم ہے کم نہیں سمجھو
اگر ہے آنکھ میں کچھ بال، کم نہیں جانو
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ اگر آنکھ میں ایک بال بھی پڑ جائے تو وہ کم نہیں ہے۔
متن:
آپ نے وہ واقعات جو پیش آتے رہتے ہیں تحریر کئے تھے، ان کا جواب پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ یہ سب مبشرات (خوش خبری دینے والے) ہیں، ابھی ان کے ظہور کا وقت نہیں آیا، منتظر رہیں اور کام میں مشغول رہیں۔
کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَهَا
قُلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ
ترجمہ:
کس طرح جاؤں درِمحبوب تک درمیاں ہیں پُر خطر کوہ اور غار
و السلام
تشریح:
اصل میں انسان کو بہت جلدی ہوتی ہے، اور یہ جلدی والی بات ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ جیسے فرمایا کہ یہ تو مبشرات ہیں، مبشرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ Future میں پورے ہوں گے۔ ابھی چونکہ اس کا وقت نہیں آیا تو اپنا کام جاری رکھیں۔ اور جو کامل شیخ ہوتا ہے وہ یہ کام کرتا ہے کہ وہ انسان کو خوش فہمی سے نکالتا ہے۔ انسان کو اپنے بارے میں بہت جلدی خوش فہمی ہوتی ہے، بلکہ اس خوش فہمی کا باقاعدہ انتظار کرتے ہیں کہ کوئی میرے لئے بشارت لے کر آئے۔ تو اس میں کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ تو یہ جو چیزیں ہوتی ہیں یہ نفس پروری میں آتی ہیں، اس میں انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، جبکہ یہ اپنے آپ کو یہ باور کرواتا ہے کہ یہ نفس کی مخالف ہے۔
متن:
دفتر اول مکتوب 243
ملا ایوب محتسب1 کی طرف طریقۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی ترغیب میں صادر فرمایا۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ چند بار آپ نے اپنے خطوط نصیحتوں کی طلب میں تحریر کئے، لیکن یہ حقیر اپنی خرابیوں پر نظر کر کے آپ کے سوالات کے جوابات میں پیش قدمی نہیں کرتا تھا، اب جب کہ آپ کی طرف سے بار بار طلب ہوئی تو چند بے ربط و نا مربوط فقرے تحریر میں آگئے، غور سے سنیں اور جان لیں کہ ہر شخص کے لئے جو چیز ضروری ہے اور وہ اس کا مکلف ہے وہ اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے پرہیز کرنا ہے۔ آیۂ کریمہ ﴿مَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ“۔ اس معنی کی شاہد ہے۔ اور چونکہ (طالب کو) اخلاص کا حکم ہے: ﴿أَ لَا لِلّٰهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) ترجمہ: ”یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے“ اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبتِ ذاتیہ کے بغیر متصور نہیں ہوتا۔ لہٰذا طریقِ صوفیہ کا سلوک جس میں فنا اور محبتِ ذاتیہ کا حصول ہے، ضروری ہوا
تشریح:
یہ بات اکثر میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ اعمال انسان کرتا ہے، لیکن اس سے آگے جو کیفیت مطلوب ہے اس کو حاصل کرنا مقصود ہے، اگر وہ نہ ہو تو وہ بے جان تصور ہوتا ہے۔ لہٰذا اس عمل کو جاندار بنانے کے لئے اور ان رذائل سے بچنے کے لئے جن کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، یہ تصوف ضروری ہے۔
متن:
تاکہ اخلاص کی حقیقت شکل پذیر ہو، اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال اور تکمیل کے مرتبوں ميں تفاوت ہیں؛ اس لئے ایسے طریقے کو، جو روشن سنت کی پیروی کو لازم جانے اور احکامِ شرعیہ کی بجا آوری کے (بالکل) مطابق ہو اختیار کرنا اولیٰ اور بہت بہتر ہے، اور وہ طریقہ اکابر نقشبند قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم العلیا کا طریق ہے کیونکہ اس طریق کے بزرگوں نے سنت کو لازم قرار دیا ہے اور بدعت سے پرہیز فرمایا ہے۔ جہاں تک ہوسکے رخصت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں نافع پائیں اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جانیں۔ انہوں نے احوال و مواجید کو احکامِ شریعہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف (کیفیات و کشفیات) کو علوم دینیہ کا خادم جانتے ہیں، اور احکامِ شرعیہ کے نفیس جواہرات کو بچوں کی طرح جوز و مویز (اخروٹ و منقی) اور وجد و حال کے بدلے نہیں دیتے، اور صوفیہ کی (حالتِ سکر والی) بے کار باتوں پر مغرور و مفتون نہیں ہوتے، اور نص (قرآن) کو چھوڑ کر فص (فصوص الحکم) کی طرف سے مائل نہیں ہوتے، اور فتوحاتِ مدنیہ (احادیث ونصوصِ شرعیہ) کو چھوڑ کر فتوحاتِ مکیہ (شیخ اکبر کی تصنیف) کی طرف سے التفات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری (مستقل) ہے اور ان کے باطن سے ما سویٰ کے نقوش اس طرح محو و زائل ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ (ما سوی اللہ کو دل میں) حاضر کرنے کے لئے ہزار سال تک کوشش کریں تب بھی میسر نہ ہو، اور وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی مانند ہے ان بزرگوں کے لئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک دائرۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ (آیت کریمہ) ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ﴾ (النور: 37) ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے“۔ ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقینًا موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے، اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کردیں۔
قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن قصور
حاش لِلّٰہ کہ بر آرم بزباں ایں گلہ را
ترجمہ:
گر کوئی طعن ان پہ کرتا ہے
توبہ توبہ، نہ کروں اس کا گِلہ
شاعرِ عرب (فرزدق) فرماتا ہے
أُوْلَآئِكَ آبَائِيْ فَجِئْنِيْ بِمِثْلِہِمْ
إِذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعُ
ترجمہ:
ایسے ایسے باپ دادا تھے جریر
ذکر ان کا کیوں نہ ہو جب تھے کبیر
حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اس سلسلۂ عالیہ کے خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم ہر زراّق اور رقّاص (مکار اور رقص کرنے والے) کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے، ان کا کار خانہ بلند ہے
حیف باشد شرح او اندر جہاں
ہم چو رازِ عشق باید در نہاں
لیک گفتم وصفِ او تارہ برند
پیش ازاں کز فوتِ آں حسرت خورند
ترجمہ:
شرح ان کی خوبیوں کی کیا کروں
مثلِ رازِ عشق انہیں پنہاں رکھوں
لیکن ان کا وصف کم کم ہے بیاں
ہو نہ محرومی پہ حسرت بے گماں
اگر ان برگزیدہ حضرات کے خصائص و کمالات کے بیان میں دفتروں کے دفتر لکھے جائیں تب بھی وہ دریائے بے کراں کے مقابلے میں قطرے کے مانند ہیں۔
دادیم ترا ز گنجِ مقصود نشاں
ترجمہ:
گنجِ مقصود کا پتا یہ ہے
وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا)
تشریح:
جس صاحب نے بار بار خط لکھا ہے کہ میری رہنمائی کی جائے، اس میں حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو آپ کی طرف توجہ نہیں ہوئی، لیکن آپ کے بار بار اس کی طرف توجہ کرانے سے اب کچھ باتیں لکھ رہا ہوں۔ اس سلسلے میں حضرت نے بنیادی باتیں کی ہیں۔
نمبر 1: اصل تو شریعت ہے، شریعت پر عمل کرنا ہے۔ شریعت پر جس طریقے سے بھی آپ آ جائیں، ٹھیک ہے، کیونکہ اصل شریعت ہے۔ لیکن شریعت کے ساتھ جو نیت کا تعلق ہے اور کیفیت کا تعلق ہے اس کو پیدا کرنے کے لئے تصوف کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿أَ لَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) تو اس کا نیت کے ساتھ تعلق ہے اور یہ بغیر فنا اور محبتِ ذاتیہ کے حاصل نہیں ہوتی۔ تو اس فنائیت اور محبت ذاتیہ کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور یہ تصوف کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا شریعت پر صحیح معنوں میں چلنا یہ تصوف کے ذریعے سے ممکن ہے۔ تاکہ یہ نیت صحیح حاصل ہوجائے۔ اور ایسے طریقے اس کے لئے ڈھونڈنے چاہئیں جو شریعت اور سنت کے داعی ہوں، اس کے علاوہ دوسری باتوں کی طرف نہ مائل کرے۔ بار بار میں ایک بات کرتا ہوں کہ حضرت کی جتنی بھی باتیں ہیں ان کو حضرت کے احوال اور ان دنوں کے حساب سے دیکھنا چاہیے۔ اس وقت جو دوسرے سلسلے تھے ان کے احوال کچھ ایسے تھے کہ کچھ لوگ احوال و مواجید میں گم تھے یعنی جو موجود تھے، اور کچھ وحدت الوجود جیسی چیزوں کی غلط تشریحات میں گم تھے۔ یعنی وہ نام بڑے بڑوں کے لیتے تھے۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ چونکہ عوام ساری باتوں کو نہیں سمجھتی، اس لئے پھر تشریحات درکار ہوتی ہیں، لہٰذا جہاں سے نا سمجھی ابل پڑی ہوتی ہے، تو Source کو ہی Condome کردیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس طرف جائیں ہی نہ۔ جیسے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، میں نے اپنی Student Ship میں ایک کتاب پڑھی، بہت اعلیٰ کتاب تھی، ابھی بھی بہت اونچی کتاب ہے، لیکن مجھ پر یہ حالت ہوئی کہ پوری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ صبح میں حضرت کے پاس چلا گیا، حضرت کے پاس جا کر حضرت سے میں نے عرض کیا کہ پوری رات نیند نہیں آئی، حضرت نے فوراً پوچھا کہ کون سی کتاب پڑھی تھی؟ میں نے کتاب کا نام بتا دیا۔ فرمایا: آج سے تمھارے لئے یہ کتابیں پڑھنا بند ہے، تم نہیں پڑھو گے۔ اور فرمایا کہ صرف حضرت مولانا تھانویؒ کی کتابیں پڑھنے کی اجازت ہے، کسی اور کی کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہ کتاب غلط ہے، بعض دفعہ مریض کے لئے ڈاکٹر ملائی بھی روک دیتا ہے۔ تو اپنے آپ کو مریض سمجھنا، اس پر محمول کرنا کہ مجھے اس لئے روکا گیا ہے۔ اب اگر حضرت مجھے اتنی بڑی کتاب سے منع کر سکتے تھے، وہ اس کتاب کے مخالف تو نہیں تھے، وہ صرف اس لئے تھا کہ چونکہ میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، تو حضرت شیخ کتاب کے مخالف نہیں ہیں۔ لیکن شیخؒ کی باتیں چونکہ عوام کو سمجھ نہیں آ سکتیں، لہٰذا یہ وہی بات ہے جیسے مجھے حضرت نے حکم دیا تھا، اور وہی حضرت بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی کتابیں نہ پڑھو۔ قرآن و حدیث کی بات اور ہے اور اس کے بعد ایسی باتوں کو نہ پڑھو۔ تو یہ اصل میں یہ بات ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دوسرے سلسلوں میں نقص نکالتے ہیں، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، یہ چاہنے والے کو کوئی اور طریقہ راس آتا ہے، یہ اس کے مطابق ہے۔ باقی یہ ہے کہ جو حضرت کے ساتھ متعلق سلسلہ تھا، اس میں حضرت نے ان چیزوں کا انتظام چونکہ کیا ہوا تھا، تو ظاہر ہے اس کی طرف تو دعوت دینی تھی۔ اس میں انہوں نے جو انتظام کیا تھا، وہ یہی کیا تھا کہ اس میں عزیمت کا خیال رکھا جاتا ہے، رخصت کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ بے شک اس کو اس میں یقین ہو کہ رخصت میں اس کو زیادہ فائدہ ہے، لیکن وہ عزیمت اس لئے نہیں چھوڑتے کہ ان دنوں عزیمت ضروری تھی، رخصتوں میں رستے نکلتے تھے۔ چونکہ رخصتوں میں عوام رستے نکال لیتے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے انڈہ لے لیا تو جو اس کے کارندے تھے وہ ساری مرغیاں ساتھ لے آئے۔ لہٰذا لوگ پھر اس پر رکتے نہیں ہیں، وہ تو بس گنجائش نکال لیتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے جی۔ آج کل کے دور کی ایک مثال دیتا ہوں، یہاں پر ایک عرب صاحب تھے، وہ یہاں پر نماز پڑھ رہے تھے، نماز کے دوران موبائل پر گھنٹی بجی، اس نے موبائل نکالا اور کہا: ’’اَخِیْ! فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ اور موبائل رکھ دیا۔ مجھے یہ واقعہ ایک عالم نے سنایا، کہتے ہیں، میں نے اس سے پوچھا کہ اس سے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ کہتے ہیں اس نے کہا کہ ’’عِنْدَکَ اَمْ عِنْدَنَا؟‘‘ یعنی آپ لوگوں کے نزدیک یا ہمارے نزدیک؟ بس گنجائش نکال لی۔ تو وہ جو گنجائش امام ابو حنیفہؒ نے روکی تھی، یعنی عملِ کثیر والی تمام چیزیں روکی تھیں، کیونکہ حضرت امام اعظم بہت دور اندیش تھے، تو حضرت نے ان تمام چیزوں کو روکا ہوا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اگر تین دفعہ اس طرح کرو گے تو یہ عملِ کثیر ہوجائے گا۔ اس لئے ہمارے ہاں اس لحاظ سے نمازیں الحمد للہ محفوظ ہیں۔ ورنہ آپ دیکھو کہ نماز کی کیا صورت حال ہے؟ کم از کم میرے سامنے ایک صاحب نے نماز کے اندر پریڈ کی ہے، نماز کے دوران ہی اس طرح چلنا شروع کردیا۔ یہ ساری باتیں کیوں ہیں؟ یہ گنجائش اور رخصت کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہیں، رخصت لینا اور قلبی کیفیت کا ایسا نہ ہونا کہ جس میں انسان پہچان سکے کہ کہاں رخصت کی ضرورت ہے اور کہاں نہیں۔ ایسے لوگ جن کی وہ کیفیت نہ ہو تو پھر ایسے لوگوں کے لئے رخصت بند کردینی چاہیے۔ اس کو سدِ باب کہتے ہیں۔ یعنی سدِ باب کر لیا جاتا ہے کہ اس طرف انسان جائے ہی نہیں۔ تو حضرت نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ ان حضرات نے سنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعات سے پرہیز کیا ہے اور جہاں تک رخصت ہے، اسے پسند نہیں کرتے، بیشک اس کی کتنی ہی حاجت ہو اور عزیمت کو لازم پکڑتے ہیں اور رخصت کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اور جو اس قسم کی چیزیں ہیں مثلاً عورتوں اور بچوں کے کھیلنے کی، ان کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اور اصل بات یعنی اللہ جل شانہٗ کا تعلق، اس کو وہ لازم پکڑتے ہیں۔ اس میں حضرت نے فرمایا کہ لوگوں نے وصال کی جو تعریفیں کی ہیں، وہ بھی ہمارے ہاں اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کوئی اگر ہزار سال بھی اس طرح کرے تو وہ وصال حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں تو مزید عظمت بڑھے گی اور مزید دوری کا احساس ہوگا۔
اور تجلی ذاتی جو دوسروں کے ہاں برق کی مانند ہے یعنی بعض حالات میں تجلی ذاتی حاصل ہوتی ہے، ان کے ہاں دائمی طور پر حاصل ہوتی ہے۔ دائمی اس لئے کہ ان کا صفات کی طرف رجحان ہی نہیں ہوتا، یہ صرف ذات کی طرف ہی دیکھتے ہیں، تو ذات کی طرف توجہ دیں تو وہ تجلی ذاتی ہوگی، کیونکہ یہ اللہ جل شانہٗ کا قاعدہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے لئے آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے زیادہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اللہ کے لئے مال خرچ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مال کو بڑھا دیتے ہیں، آپ اگر اللہ تعالیٰ کے لئے عزت کو قربان کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اور معزز کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اگر آپ اپنی جان دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیتے ہیں۔ اسی طریقے سے جو ذات کی طرف متوجہ ہو تو اسے تجلی ذاتی حاصل ہوگی۔ تو جو دائماً ذات کی طرف متوجہ ہوسکا تو اسے دائمی تجلی حاصل ہوگی۔ تو یہ ان بزرگوں کے نزدیک ہے۔ اب اس بارے میں میں یہ بات عرض کروں گا کہ نقشبندی سلسلے میں عوام کی رعایت زیادہ ہے، کیونکہ عوام چونکہ ان چیزوں کو نہیں جانتے، وہ ان چیزوں میں پڑ سکتے ہیں، وہ غلطیوں میں پڑ سکتے ہیں، اس لئے ان کو ان غلطیوں سے بچانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن جو خواص ہیں، جن کو پہلے سے ذوق و شوق حاصل ہے، جو حق شناس ہیں وہ دوسرے سلسلوں میں پہلے سے ہی یہ چیزیں شروع کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ خواص کے لئے چشتیہ سلسلہ ہے اور عوام کے لئے نقشبندی سلسلہ ہے۔ چونکہ عوام زیادہ ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ کافی مفید سلسلہ ہوا، کیونکہ یہ عوام کے لئے ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ کوئی سلسلہ بھی ناقص نہیں ہے۔ لیکن اپنا اپنا ذوق ہے اور اپنی اپنی مناسبت ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ چشتیہ سلسلے کے ذریعے سے دینا چاہتے ہیں ان کے لئے چشتیہ زیادہ محفوظ بنایا گیا ہے، اور اس کے اندر چشتیہ کا ہی سارا کچھ کارفرما ہے۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ نے نقشبندی سلسلے کا ذوق عطا فرمایا ہے، ان کو نقشبندیہ ہی سے دیتے ہیں، جن کو قادریہ کا ذوق ہو ان کو قادریہ کے ذریعے سے دیتے ہیں، جن کو سہروردیہ کا ذوق ہے ان کو سہروردیہ میں عطا فرما دیتے ہیں۔ لیکن بہرحال ہر شخص اپنے اپنے سلسلے کا ترجمان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے سلسلے کے بارے میں ساری بات کرسکتے ہیں اور دوسروں سے بدگمان نہیں ہوتے۔ لیکن یہ بات ہے کہ دوسروں کی تمام تفصیلات چونکہ ان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں، لہٰذا وہ اپنی بات ہی کرسکتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی بات ھے۔
متن:
﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ﴾ (النور: 37) ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے“۔ ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقینًا موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے۔
تشریح:
اس کی تو حضرت نے خود ہی تشریح فرمائی ہے کہ اصل میں چونکہ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو یہ اندازہ ہوا کہ لوگوں میں شوق نہیں ہے کام کرنے کا، سلوک طے کرنے کا، تو انہوں نے نیت کے ساتھ کسبی طریقے سے وہ جذبی حالت جو کہ وہبی طور پر باقی لوگوں کو دوسرے سلاسل میں حاصل ہوتی ہے، وہ کسبی طور پر پہلے حاصل کر لیتے ہیں ذکر و اذکار اور مراقبات کے ذریعے سے۔ لیکن جس مقصد کے لئے وہ ہے، وہ یہ ہے کہ اس شوق کو پیدا کرنے کے بعد سلوک طے کرنا ہے، اگر کوئی وہ نہ حاصل کرے اور صرف یہ کر لے تو وہ مجذوبِ متمکن بن جاتا ہے۔ بہرحال باقی سلسلے اس سے محفوظ ہیں، لہٰذا ان کو اس مسئلے سے نہیں گزرنا ہوتا۔ اگر وہ اپنے مسائل، جو ان کے ہیں، ان سے اگر بچ جائیں تو وہ پھر اس چیز میں نہیں پڑتے۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جتنے بھی امام ہیں ہمارے امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالکؒ یہ سب جتنے بھی ہیں یہ مشکلات اور آسانیوں کا ایک مجموعہ ہیں، Net Result سب کا ایک ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے احناف میں بعض چیزیں بہت مشکل ہیں، لیکن شوافع میں آسان ہیں۔ لیکن دوسری چیزیں شوافع میں بہت زیادہ مشکل ہیں اور ہمارے ہاں آسان ہیں۔ گویا Net Result میں تو سارا معاملہ ایک ہی ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ نہ کرو کہ کچھ اس سے لو، کچھ اس سے لو، کچھ اس سے لو۔ یہ نہیں کرنا، کیونکہ اس سے پھر آپ کا نفس حاوی ہوجائے گا اور ہر جگہ سے صرف آسان آسان ڈھونڈے گا، تو وہ اصل چیز تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اگر آپ کسی بھی سلسلے میں مکمل چلے جائیں اور کسی بھی امام کے پیچھے مکمل چلتے رہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ آسانی اور مشکلات دونوں کو اپنے اپنے طریقے جمع کر رہے ہیں۔
متن:
اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کردیں۔
تشریح:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ علیہ عنہ کو نقشبندی سلسلے کے ساتھ ایک تعلق ہے، لہٰذا باقی وہی نسبت کی بات ہے، تبھی تو عوام میں کام کرنے کی اللہ نے توفیق عطا فرمائی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو Source ہے اگر دیکھا جائے تو وہ انسان کے اندر خود موجود ہوتا ہے مثلاً سو واٹ کا ایک بلب ہے، تربیلا ڈیم میں زیادہ روشنی دے گا یا پنڈی میں؟ روشنی تو اس کی ہر جگہ یکساں رہے گی کیونکہ سو واٹ کا ہے۔ اور اگر بلب ہزار واٹ کا ہو، تو وہ سو واٹ سے زیادہ روشنی دے گا یا کم؟ چنانچہ اصل تو بلب کے اندر کی بات ہے کہ وہ کتنا کھینچتا ہے۔ اسی طریقے سے جس سلسلے میں بھی کوئی چلا جائے، جس شیخ کے پاس بھی چلا جائے، اس کے اندر کا جو ظرف ہے وہ کتنا بڑا ہے، اس پر منحصر ہے کہ وہ کتنا لے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ بطخ کا انڈا مرغی کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس سے بچہ بطخ کا نکلے گا، اور اگر مرغی کا انڈا بطخ کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس سے چوزہ مرغی کا نکلے گا۔ تو یہ Depend کرتا ہے کہ کون خود کیا ہے اور کتنا لے سکتا ہے، تو جو جتنا لے سکتا ہے اتنا ہی ملے گا۔ سارے سلسلوں کے بارے میں ہمارا یہی تصور ہے۔ ہاں! البتہ یہ الگ بات ہے اور چونکہ ہم یہ بات کر سکتے ہیں کیونکہ وہ دور گیا جس کے بارے میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا، جس میں بہت زیادہ گڑبڑ آگئی تھی۔ اس وجہ سے بعد میں دیوبند والوں نے ماشاء اللہ سلسلہ چشتیہ کی بہت زیادہ اصلاح کردی تھی۔ انہوں نے بہت زیادہ احتیاط سے وہ تمام چیزیں شامل کردیں، اور خلافِ شرع چیزیں ختم ہوگئیں، یعنی سماع کا جو غلط استعمال تھا، مزامیر کا استعمال ہوتا تھا، وہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ ہمارے شیخ کے ہاں سماع ہوتا تھا لیکن وہ سماع مزامیر کے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ بس کوئی آتا تھا تو اسی وقت پوچھتے تھے کہ کوئی پڑھ سکتا ہے؟ تو کوئی کھڑا ہوجاتا اور سنانا شروع کردیتا، تو ان کے ہاں یہ چیزیں نہیں تھیں۔ تو جو چیزیں پہلے شامل ہوچکی تھیں، ہمارے بزرگوں نے اپنے اپنے دور میں ان کو ختم کیا۔ مثلاً حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ تو اس دور میں یہ مسئلہ نہیں ہے جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں تھا۔ اب ماشاء اللہ ہر سلسلے کے اندر اگر آپ ان تک پہنچ جائیں تو ماشاء اللہ آپ کو وہاں پہ صحیح چیز مل جائے گی۔ لہٰذا جو جس کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے وہ ان کے ساتھ اپنا تعلق بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو فائدہ نہ ہو۔ اس وجہ سے ہم لوگ کسی بھی سلسلے کو کم نہیں سمجھتے۔ ہاں! البتہ یہ بات ہے کہ ہم مناسبت ضروری سمجھتے ہیں کہ جس کو جس سلسلے کے ساتھ مناسبت ہو وہ نکھرے گا وہاں۔ جیسے مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے، اس وقت اگر مجھے دیکھا جاتا کہ میں کیسا تھا، تو کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ میں نقشبندی ہوسکتا ہوں۔ لیکن بعد میں پتا چل گیا کہ واقعی ایسا تھا۔ تو بعد میں پتا چلا کہ واقعی یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ بہرحال جب یہ آ گیا تو الحمدللہ اللہ پاک نے اس میں کافی راستہ دے دیا۔ تو یہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کی جو نسبت ہوتی ہے وہ نسبت اسی جگہ نکھرتی ہے جہاں اس کے لئے ماحول ہوتا ہے، ہر چیز ہر جگہ نکھرتی نہیں ہے۔ تو ہر چیز کے لئے اپنا اپنا ماحول ہوتا ہے، اگر وہ ماحول اس کو میسر ہوجائے تو سبحان اللہ بہت اچھا ہے۔ بہرحال ہم سارے سلسلوں کو صحیح سمجھتے ہیں، ہر سلسلے کے اندر ماشاء اللہ ایک صلاحیت ہوتی ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے ساتھ تعلق حاصل کرا رہے ہیں۔ البتہ یہ بات ہے کہ مناسبت کا ہونا ضروری ہے، جیسے مثال کے طور پر Unions ہوتے ہیں، Unions پائپوں کے جوڑنے کے لئے ہوتے ہیں، اگر وہ یونین صحیح نہ لگے تو پھر پائپ لیک بھی کرتا ہے اور اس میں Bubling بھی ہوتی ہے، باقاعدہ آواز آتی ہے۔ Heart کا ایک Specialist تھا، میں اس کے پاس Check up کے لئے گیا، اس نے اچھی طرح Check up کر لیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے پائپوں کے جوڑ کو دیکھا ہے کہ اگر وہ اس میں صحیح فٹ نہیں ہوتے تو ان میں آواز آتی ہے، ارتعاش ہوتا ہے۔ کہتے ہیں بس یہ وہی چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر سلسلہ جڑا ہوا نہیں ہے اور مناسبت نہ ہو تو پھر آوازیں آئیں گی، ارتعاش ہوگا اور چیزیں Set نہیں ہوں گی۔ اس وجہ سے مناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جتنی محنت کرو گے اللہ تعالیٰ اتنی آپ کو ترقی دیں گے، لیکن شیخ کامل ضرور ہونا چاہیے۔ اگر شیخ کامل نہ ہو تو جتنی محنت کریں گے ضروری نہیں کہ آپ کو فائدہ ہو، کیونکہ عموماً اس میں یہ خرابی ہے کہ جیسے آپ نے اپنے لئے مجاہدہ ڈھونڈ لیا کہ میں نے مجاہدہ کرنا ہے اور آپ کے اندر اس کی استطاعت نہیں ہے تو وہ مجاہدہ آپ کریں گے تو دو چیزیں ہوں گی۔ یا آپ ٹوٹ جائیں گے یا آپ ہمیشہ کے لئے کام چھوڑ دیں گے، یا پھر اس کا آپ کے جسم پر اثر ہوگا اور آپ کی صحت خراب ہوجائے گی، کام خراب ہوجائے گا۔ اور اگر آپ اس سے کم کریں گے، تو آپ کو فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جو میٹھا پانی کہلاتا ہے، آپ اس کو پیئں تو کوئی کہے کہ پانی کیسا ہے؟ آپ کہیں گے کہ میٹھا ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن اگر مثال کے طور پر پانچ چمچ چینی کے ساتھ ایک گلاس میں شربت بنتا ہو، تو اس میں آپ دو چمچ چینی ڈالیں گے تو آپ پیئں گے تو کیسا لگے گا؟ پھیکا ہوگا۔ کمال کی بات ہے کہ جب چینی بالکل نہیں تھی تو میٹھا تھا، اب اگر دو چمچ چینی ڈالی تو پھیکا ہوگیا، کیوں ہوا یہ؟ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان جس وقت دو چمچ چینی ڈالتا ہے تو چینی کے ایک دانے کا بھی اثر چلا جاتا ہے، تو دماغ شربت پینے کے لئے تیار ہوگیا کہ شربت پیئں گے، اور شربت کا جو معیار ہے دماغ اس سے Compare کرے گا اور جو اس معیار سے کم ہوگا تو سمجھے گا کہ پھیکا ہے۔ اور جب چینی بالکل بھی نہیں تھی تو اس کو پانی کے ساتھ Compare کرتا تھا، جو پانی کا معیار ہے کہ اتنا پانی پھیکا اور اتنا پانی میٹھا ہے۔ اسی طریقے سے ہمارا جو مجاہدہ ہے، اگر مجاہدے کا معیار پورا ہے تو ٹھیک ہے، اس کا آپ کو فائدہ ہوجاتا ہے، اگر وہاں تک نہ پہنچے، نیچے رہ گیا تو کچھ حاصل نہیں، وہ چیز تو آپ کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اپنی مرضی سے نہ کم کر سکتے ہیں نہ زیادہ کر سکتے ہیں، تو یہ اندازے سے مجاہدہ کون کرائے گا؟ کوئی ماہر ہوگا تو وہی کرائے گا۔ ماہر کون ہوتا ہے؟ شیخِ کامل ہوتا ہے۔ اس طرح ذکر کا بھی یہی معاملہ ہے، ذکر کا بھی ایک اندازہ ہوتا ہے، ہر ایک نہیں کر سکتا۔ تو یہ جو علاجاً چیزیں ہوتی ہیں اس کے لئے ماہر کی نگرانی ضروری ہے۔ میرے TT Test کرائے جا رہے تھے، تو جو medical specialist تھے انھوں نے لکھ دیا اور MBBS سارا process باقاعدہ Observe کر رہے تھے اس وقت، وہ سامنے موجود تھے اور سارے انتظامات مکمل تھے، تاکہ اگر اس وقت کچھ ہوجائے تو فوراً recover کیا جاسکے۔ یعنی انجیکشن وغیرہ کا جو سارا انتظام ہوتا ہے وہ کر لیتے ہیں، کیونکہ Risk تو ہے نا، Heart کا Problem ہے اور اس دوران اگر heart function shoot ہوجائے تو پھر اس کو کچھ کرنا تو ہوتا ہے۔ اکیلے ڈاکٹر یہ کام نہیں کرسکتا، اکیلے میں کر ہی نہیں سکتے، کیا اکیلے کرنے سے کام کامیاب ہوجائے گا؟ انسان فوت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ذکر بھی شیخ کی نگرانی میں شیخ کے طریقے سے کرنا ہوتا ہے، کیونکہ یہ علاجی ذکر ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مجاہدہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، بس چھوڑو، اس میں خطرہ ہے۔ تو ٹھیک ہے پھر گھر میں بیٹھ جاؤ، خطرہ نہیں ہوگا۔ جیسے مثلاً بریک خطرے سے بچنے کے لئے یعنی Accident سے بچنے کے لئے ہے، اور Accelerator راستہ طے کرنے کے لئے ہے۔ اب اگر کوئی بہت ہی محتاط ہے اور بریک ہی پر پاؤں رکھے اور Accelerator سے اٹھا لے، تو کیا وہ پہنچ جائے گا کہیں؟ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ دوسرا آدمی بریک پہ پاؤں ہی نہ رکھے اورAccelerator ہی دبائے جائے، تو کیا ہوگا؟ Accident کردے گا، تباہ کردے گا۔ اسی طریقے سے ہر چیز کا اپنا اپنا Balance ہے، جیسے ایک ماہر ڈرائیور کرتا ہے، اس طریقے سے ایک شیخ ہی کرسکتا ہے کہ جس چیز کی جس جگہ جتنی ضرورت ہے اتنا اس کو کرے۔ اور باقی یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، تو اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ جیسے میں نے پہلے بتایا کہ اصل چیز شریعت ہے، شریعت کو اگر صحیح طریقے سے تھام لو تو اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میں آپ کو ایک Test بتاتا ہوں litmis ٹیست اس کو کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ شریعت میں اللہ جل شانہٗ نے نماز کی جو صلاحیت بتائی ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘
اب یہ آیت تو صحیح ہے، تو جو نماز پڑھتا ہے اس کو یہ چیز حاصل ہونی چاہیے، بے حیائی اور منکرات سے بچنا چاہیے۔ اگر وہ بے حیائی اور منکرات سے نہیں بچتا تو آیت تو غلط نہیں ہوسکتی، تو پھر کون سی چیز گڑبڑ ہے؟ نماز گڑبڑ ہے، نماز پوری نہیں ہے، صحیح نہیں ہے، اس میں کچھ مسائل ہیں۔ وہ مسائل کیا ہیں؟ یا نیت کا مسئلہ ہوگا یا پھر کیفیت کا مسئلہ ہوگا، خشوع و خضوع کا مسئلہ ہوگا۔ تو یہ کیفیت، خشوع اور نیت کو درست کرنا ہے۔ یہی تو طریقت ہے۔ اس کے بغیر تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ ابھی مکتوب شریف میں گزرا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو اس کی ضرورت ہے۔ جب ضرورت ہے اور کرنا تو ہے، جیسے کوئی بیمار ہو، علاج کرنا تو ہے، چلو! ماہر ڈاکٹر سے کروا لو، اناڑی کے پاس نہ جاؤ۔ اگر ماہر ڈاکٹر سے کراؤ تو رسک Risk میں کمی تو ہوسکتی ہے اور تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے آپریشن نہیں کروانا اور آپریشن ضروری ہو، تو اس سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ میرا آپریشن نہ ہو، پھر تو اس بیماری کے ساتھ رہے گا۔ لہٰذا کروانا تو ہے، لیکن آپ کسی ماہر سے کراؤ، اناڑی سے نہ کراؤ۔ جس طرح ماہر ڈاکٹروں کی پہچان کی نشانیاں ہوتی ہیں اسی طرح مشائخ کی بھی نشانیان ہوتی ہیں۔ آٹھ نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، اور عقیدہ صحابہ کا صحیح ہوتا ہے، یہ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے۔ جیسے صحابہ سے اللہ پاک نے فرمایا: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (البقرہ 137)
ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑگئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔‘‘
تو صحابہ کا جو ایمان ہے یہ اللہ پاک نے مثالی بتایا ہے، لہٰذا صحابہ کا عقیدہ بھی معیار ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ فرضِ عین درجے کا علم اسے حاصل ہو۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ اس کے اوپر چوبیس گھنٹے عمل حاصل ہو۔ چوتھی یہ کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ پانچویں یہ کہ اُدھر سے اجازت ہو۔ چھٹی یہ کہ ان کا فیض جاری ہو، ان کے پاس جو بھی اس مقصد کے لئے جاتا ہو ان کے پاس سے فیض جاری ہوجاتا ہو۔ ساتویں یہ کہ اس اصلاح میں عفلت نہ کرتا ہو۔ آٹھویں یہ کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کے اللہ یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں پائی جائیں تو پھر اور نشانیاں کسی میں نہ دیکھیں، صرف اپنے آپ کو دیکھیں کہ میری ان کے ساتھ مناسبت ہے کہ نہیں ہے۔ اور مناسبت یہ ہوتی ہے کہ ان آٹھوں نشانیوں والے جتنے بھی انسان ہیں، مثال کے طور پر وہ ایک لاکھ ہیں، تو جن سے آپ کو زیادہ فائدہ محسوس ہو رہا ہے، ان کے ساتھ آپ کو مناسبت ہے۔ بہرحال ترتیب تو یہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو دین کی سمجھ کی توفیق عطا فرما دیں۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاَغُ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔