اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
متن:
26
ہر شخص سچ سننے پہ آئے نہیںجیسا انجیر ہر پرند کھائے نہیں
تشریح:
یعنی ہر شخص سچ نہیں سننا چاہتا، ناقص شخص کو حالِ کامل کا پتا نہیں چلتا۔ میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ دنیاداروں کو دینداروں کی باتیں سمجھ نہیں آتیں اور عام دینداروں کو اللہ پاک کی محبت میں فنا ہونے والوں کی بات سمجھ نہیں آتی، اس کے لئے ترقی کرنی پڑتی ہے۔ یہاں اس کی مثال دی گئی کہ انجیر بہت مزے دار اور بہت مفید پھل ہے، لیکن یہ ہر پرندہ نہیں کھاتا بلکہ جو پرندے اس کے لئے خاص ہیں وہ اس کو کھاتے ہیں اور اس کو ہضم کرسکتے ہیں۔
متن:
27
بیٹا قید کو توڑ لے آزاد ہوچاندی سونے میں کیوں برباد ہو
تشریح:
یعنی چونکہ ہم لوگوں نے اپنے آپ کو مختلف خواہشات میں جکڑا ہوا ہے، اس لئے حضرت فرما رہے ہیں کہ بیٹا! اس قید سے اپنے آپ کو آزاد کردو، یہ سونا چاندی وغیرہ عارضی چیزیں ہیں، ان میں کیوں اپنے آپ کو ضائع کرتے ہو؟ کیونکہ وقت بالکل fixed ہے، جتنا وقت کوئی لے کے آیا ہے اتنا ہی رہے گا، اب یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ سونا چاندی جمع کرلے جو یہاں ختم ہو جائیں گے یا اچھے اعمال جمع کرلے جو وہاں کام آئیں گے۔ اس وجہ سے خود کو اصل کام میں ہی مصروف کرلو۔
متن:
اوپر کے اشعار میں یہ مضمون چلا آتا تھا کہ پختہ لوگوں کے حالات کو خام کار نہیں سمجھ سکتا۔ اب مولانا رحمۃ اللہ علیہ پختہ ہونے کا اصول بتاتے ہیں جس سے خامی دُور ہوجائے اور ان میں اسرارِ عشق کے سمجھنے کی اہلیت پیدا ہوجائے۔ خلاصہ اس اصول کا یہ ہے کہ ما سِوی اللہ سے تعلقات نہ رکھے جائیں اور مال و دولت کا شوق منقطع کردیا جائے۔ سونا چاندی وغیرہ اموالِ دنیا خصوصیت سے عشقِ الٰہی کے لیے سنگِ راہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بزرگانِ دین نے درویشی کو پسند فرمایا ہے۔
28
گر سمندر ڈال دو گے کوزہ میںکتنا ہوگا قسمتِ یک روزۂِ
اس شعر میں سیم و زر کو ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کی بیہودگی کا اظہار ہے۔ یعنی زندگی کا سامان اسی قدر درکار ہے جس سے دنیوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہوں۔ اور ضرورت صرف اتنی ہے کہ تن ڈھکنے کو کپڑا، پیٹ پالنے کو دو روٹیاں ملتی رہیں۔ اس سے زیادہ کی حرص کرنی فضول ہے۔ اگر دنیوی نعمتوں کا انبار پیٹ میں ڈالنا چاہیں تو دو روٹی سے زیادہ اس میں نہیں پڑ سکتا۔ پھر حرصِ زائد سے کیا حاصل؟
تشریح:
پرسوں ایک گروپ میں ایک message share کیا گیا تھا، جو میں پڑھ رہا تھا، بہت اچھا message تھا، اس میں انہوں نے کہا کہ سحری کے وقت لوگ زیادہ کھاتے ہیں تاکہ دن بھر آرام سے رہیں۔ فرمایا یہ کوئی میزائل تھوڑی ہے؟ میزائل میں مختلف fuel stages ہوتے ہیں، جب میزائل ایک خاص سفر طے کرلیتے ہیں تو جو stage استعمال ہوچکا ہوتا ہے، اس کو گرا دیتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے stage سے کام لیتے ہیں۔ پھر جب وہ ختم ہوجائے تو وہ گرا دیتے ہیں اور تیسرے stage سے کام لیتے ہیں۔ تو انسان کوئی میزائل تو نہیں ہے کہ ہم لوگ ایک پراٹھا کھائیں تو وہ دس بجے تک کام دے گا، دوسرا پراٹھا کھائیں تو تین بجے تک کام دے گا، تیسرا پراٹھا کھائیں گے تو وہ مغرب تک کام دے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ کوئی تین پراٹھے بھی کھائے تو انہیں معدہ اسی وقت ہی ہضم کرنا چاہتا ہے۔ اور اگر ہضم کرنے میں فیل ہوجائے تو آدمی بیمار ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنا کھاؤ جتنا ہضم کرسکو، اس سے زیادہ کھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ دنیوی نعمتوں کا انبار بھی لگ جائے تو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ میں اس کی اکثر مثال دیتا ہوں کہ اگر بینک میں کسی کے دو ارب روپے پڑے ہوئے ہیں تو اگر وہ بہت ہی عیش کا کھانا بھی کھائے، بہت ہی پرتعیش محل میں رہے تب بھی آخر کتنا استعمال کرلے گا؟ باقی بچنے والے پیسوں سے متعلق وہ بس اسی خیال سے خوش ہوگا کہ میرے اتنے پیسے بینک میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی خوشی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تو آدمی اس نفسیاتی خوشی کے لئے حقائق کو کیوں قربان کرے؟ یہاں بھی یہی بات ہے۔
متن:
28
گر سمندر ڈال دو گے کوزہ میںکتنا ہوگا قسمتِ یک روزۂِ
29
آنکھ حریص کا کوزہ پُر ہوتا ہے کببے قناعت سیپ میں دُر بنتا ہے کب
تشریح:
یعنی آنکھ جو حریص ہے، وہ کب سیر ہوتی ہے؟ ہماری پشتو میں ایک محاورہ ہے: ”اوږې سترګې نه مړیږی“ یعنی بھوکی آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں، یہاں پر بھی یہی بتا رہے ہیں۔
متن:
29
آنکھ حریص کا کوزہ پُر ہوتا ہے کببے قناعت سیپ میں دُر بنتا ہے کب
تشریح:
سیپ میں بھی اگر زیادہ پانی ڈالو تو وہ سیپ موتی نہیں بنے گا، موتی بننے کے لیے بس ایک قطرہ چاہئے ہوتا ہے۔
متن:
پہلے مصرعہ کا یہ مطلب ہے کہ حریص کو خواہ کتنا ہی مال ہاتھ لگ جائے کسی حد تک بھی اس کو سیری حاصل نہیں ہوسکتی۔ حقیقی غنا اور تموّل اگر ہے تو وہ قناعت ہی میں ہوسکتا ہے۔
تشریح:
اگر غور کیا جائے تو واقعتاً قناعت بہت بڑی دولت ہے۔ جیسے بہت زیادہ مال بینک میں رکھ کر اس پر خوش ہونا، ایک نفسیاتی خلش ہے اور یہ قناعت ایک نفسیاتی علاج ہے یعنی انسان قناعت کرے کہ بس میرے لئے یہ کافی ہے، آج کا ہوگیا، کل کا اللہ مالک ہے۔ بلکہ میں آپ کو ایک practical مسئلہ بتاتا ہوں، یعنی یہ کوئی theoretical بات نہیں ہے لیکن اس کو theory کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ایک شخص اس بات سے ڈر رہا ہے کہ میں اگر بیمار ہوگیا اور میرے پاس پیسے نہیں ہوئے تو پھر کیا ہوگا، اس لئے پیسے جمع کرنے چاہئیں۔ کیا اسے بیماری کے بارے میں کچھ خبر ہے کہ کون سی بیماری ہوگی؟ بھئی اگر نزلہ زکام ہوگا تو وہ یا تو خود ٹھیک ہوجائے گا، یا پھر اگر بخار بھی ساتھ ہوگا تو چند سو روپے کے علاج سے ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن خدانخواستہ اگر liver خراب ہوجائے اور تبدیل کرنا پڑے تو ایک کروڑ روپے کا سودا ہے، اگر گردے خراب ہو جائیں اور transplant کرنا چاہیں تو دوسرے ایک کروڑ کی بات ہے، اس طرح heart کا مسئلہ اور دوسری چیزیں بھی آج کل ہوتی ہیں۔ مجھے بتاؤ کون کون سی چیز کا سوچو گے؟ کیا اس سے اچھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ کرلو؟ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں دی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان تمام چیزوں سے حفاظت کرنے والے ہیں۔ پشتو میں ایک ضرب المثل ہے که ”اوښ په کاسیره شی که کاسیره نه وی نو بیا“ یعنی اونٹ اگر ایک دھیلے کا ہوجائے اور ایک دھیلہ پاس نہ ہو تو کیا کرو گے؟ اس کے مقابلہ میں بزرگوں کا ایک مقولہ ہے، وہ فرماتے ہیں اگر اللہ نے کھلانا ہوا اور ایک من سونے کی ایک روٹی ہوجائے تو اللہ ایک من سونا دے دیں گے۔ اور اگر اللہ نے نہیں کھلانا ہوگا تو اونٹ ایک دھیلے کا ہوجائے تب بھی دھیلہ نہیں ہوگا۔ تو یہی بات ہے کہ اگر انسان غور کرے تو اللہ پر بھروسہ اور قناعت واقعی بہت بڑی دولت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
متن:
دوسرے مصرعہ میں اس کی مثال میں صدف کو پیش کیا ہے۔ اگلے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک خاص موسم میں جب سیپ کے اندر بارش کا قطرہ پڑ جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کا منہ بند ہوجاتا ہے تو قطرہ موتی بن جاتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں دیکھو سیپ ایک قطرے پر قناعت کرتا ہے اور زیادہ کی حرص نہیں کرتا، تو دولتِ مروارید سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ اگر اس کا دہانِ حرص بند نہ ہوتا تو انعام کیونکر پاتا۔
30
جس کسی کا جامہ عشق سے چاک ہواوہ حرص و عیب سے بالکل پاک ہوا
تشریح:
سبحان اللہ! بہت خوبصورت شعر ہے۔
متن:
اس شعر میں یہ ظاہر فرمایا ہے کہ عشقِ حقیقی تہذیبِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔ تہذیب اخلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک ایک خُلق کو فردًا فردًا لے کر اس کو اعتدال پر لانے کی کوشش کی جائے۔ یہ ماہرانِ فنِ اخلاق کا طریقہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ذکر و شغل وغیرہ سے قلب میں محبتِ حق پیدا کی جائے، جس سے تمام اخلاقِ ذمیمہ خود بخود دور ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ روح میں جو لطافت پیدا ہوجاتی ہے وہ ان کیفیاتِ کثیفہ کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اور یہ تعلیم اہلِ عرفان کی ہے۔ مولانا دوسرے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نے عشق میں اپنی ہستی کو بے جان کرلیا وہ رجائے ملائم اور خوفِ نا ملائم سے اور دیگر سب مصائب سے پاک ہے۔
تشریح:
اس میں ایک ترمیم کی ضرورت ہے، عشق کس کو کہتے ہیں؟ عشق اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان معشوق کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس کو اتنا عشق حاصل کرنا چاہئے۔ اور یہ کوہِ گراں ہے، یہ ایسے مشکل ہے جیسے پہاڑ پہ چڑھنا۔ نفس کی اصلاح آسان نہیں ہے، اس کے لئے پہلے عملًا تیار ہونا چاہئے۔ جب کوئی آدمی مشکل کام کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو کیا وہ اسباب کو چھوڑ دیتا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ اپنے طور پر بہترین اسباب استعمال کرتا ہے جو اس کے پاس ہوں، یا اگر نہ ہوں تو ان کو حاصل کرکے استعمال کرتا ہے۔ حضرت نے مختلف جگہوں پہ فرہاد و شیریں کی مثال دی ہے۔ فرہاد شیریں کا عاشق تھا، اس نے اس کے لئے پہاڑ کھود کر اس میں سرنگ بنائی۔ اگر فرہاد کو عشقِ محض ایک کیفیت کی حد تک حاصل ہوتا تو کیا آج اس کو یاد کیا جاتا؟ کیونکہ اس طرح تو وہ ناکام ہوجاتا۔ کیونکہ محض اس کیفیت سے اس نے وہ چیز حاصل نہیں کرنی تھی، بلکہ اس کے لئے اس نے پھاوڑا، طاقت، وقت، محنت اور کوشش سب چیزیں استعمال کیں تو پہاڑ کو اس نے کھود دیا۔ سلوک طے کرنے کو آپ پہاڑ کھودنا کہہ سکتے ہیں۔ اس پہاڑ کو کھودنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا، یہ عشق کا کام ہے، یہی جذب و سلوک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس شعر میں تو تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اس کی تشریح میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس وقت یہ کہا گیا شاید یہ مسائل نہیں تھے، لیکن اب مسائل ہیں۔ آج کل لوگ صرف باتوں ہی باتوں میں سب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھئی! باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، باتوں سے باتیں ہی حاصل ہوتی ہیں، حقیقت، حقیقت سے حاصل ہوتی ہے۔ محنت اور کوشش کرنی ہوتی ہے، اس محنت اور کوشش کو جو نام بھی دیا جائے، اس کو کرنا پڑتا ہے۔ اب میں دوبارہ شعر پڑھتا ہوں، اس کو آپس میں ملائیں۔
متن:
30
جس کسی کا جامہ عشق سے چاک ہواوہ حرص و عیب سے بالکل پاک ہوا
تشریح:
جامہ لباس کو کہتے ہیں، ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ جو چیزوں کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے، اس کو پھر عشق ہی توڑتا ہے۔
متن:
30
جس کسی کا جامہ عشق سے چاک ہواوہ حرص و عیب سے بالکل پاک ہوا
تشریح:
یہ حرص و عیب سے پاک ہونا output ہے اور عشق سے چاک ہونا پہلا input ہے۔ یہ پہلا input دوسرے input پہ ہم لوگوں کو لاتا ہے اور وہ سلوک ہے، سلوک سے انسان پھر یہ چیز حاصل کرتا ہے۔
متن:
31
اے مرے عشق خوش رہو شا د باد ہومیرے سب امراض کے ہو طبیب جو
اوپر کے شعر میں عشق کو اخلاق کی درستی کا بہترین ذریعہ قرار دیا تھا۔ اب بطور مدح کے فرماتے ہیں کہ اے عشق تیرا بھلا ہو تو ہماری ان تمام روحانی و اخلاقی بیماریوں کا معالج ہے جو نہ جسمانی علاج کرنے والوں کے ہاتھوں دور ہونی ممکن ہیں اور نہ حکمائے فنِ اخلاق سے۔
تشریح:
حکمائے فن اخلاق کی بات میں تھوڑی احتیاط چاہئے۔ حکمائے فنِ اخلاق جو بغیر عشق کے اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ٹھنڈے لوہے کو موڑنا چاہے۔ یہ بہت مشکل ہوتا ہے، اس کو ہماری انجینئرنگ میں cold forging کہتے ہیں اور گرم کرکے موڑنے کو hot forging کہتے ہیں۔ یہ اگرچہ ناممکن نہیں ہے، جیسے یہاں پر سوئی گیس کا میٹر لگا رہے تھے تو اس Ji pipe میں چونکہ bend آرہا تھا تو یہ چار پانچ لوگ اور اس کے ایک حصے کو کھمبے کے اندر ڈال کر سب نے زور لگایا تو اس میں bend آگیا، وہ bend کرکے لے آئے اور اس کو fit کردیا۔ یہ ان کو تجربہ تھا تو ہوگیا۔ لیکن یہ مشکل سے ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوسکتا، لیکن hot forging میں لوہا نرم پڑ جاتا ہے، لہٰذا اس کو موڑا جاسکتا ہے اور آپ اس کو جو shape دینا چاہیں آپ دے سکتے ہیں۔
متن:
32
تو دوائے نخوت و ناموس مراتو ہے افلاطون و جالینوس مرا
تشریح:
سبحان اللہ! تو میرے نخوت و تکبر اور غرور کا علاج ہے اور تو میرا افلاطون اور جالینوس ہے۔ یہ دو بڑے مشہور حکیموں کے نام ہیں۔
متن:
اوپر کہا تھا کہ عشق ہماری تمام بیماریوں کا معالج ہے۔ اب تمام بیماریوں میں سے تکبّر اور جاہ طلبی کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو اکثر برائیوں کا سرچشمہ ہیں۔اور ابلیس نے، جو موجدِ معاصی ہے، سب سے پہلے تکبّر ہی کا ارتکاب کیا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ عشق اپنی ذلّت و رسوائی کی بدولت ان دو روحانی مرضوں کے لیے تو خاص طور پر دوائے شافی ہے اور نہ صرف دوا بلکہ خود افلاطون و جالینوس کا طبیبِ حاذق ہے جو ذلّت کے مسہل سے تنقیۂ دماغ کرکے مرضِ غرور کو دور کردیتا ہے۔
تشریح:
ذلت تکبر کا علاج بالضد ہے، علاج بالضد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی طبیعت گرم اور خشک ہے تو اس کو تر اور سرد چیزیں دیں گے تو علاج ہوجائے گا۔ اگر کسی کا مزاج سرد خشک ہے تو اس کو تر اور گرم دوائی یا چیزیں دی جائیں گی۔ اس طریقہ سے تکبر میں تعلی، بلندی اور اونچا پن ہے کہ میں ایسا ہوں، میں ایسا ہوں۔ تو اس کو زبردستی نیچا کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ خود نیچا ہونا نہیں چاہتا تو اس وقت زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ پہلے پہل زبردستی کیا جاتا ہے، بعد میں وہ خود ہی اس کو مان لیتا ہے۔ ایک صاحب نے بڑی عجیب مثال دی تھی، جہاں ہاتھی ہوتے ہیں جیسے مثلاً Philippines اور ہندوستان وغیرہ میں بھی نیچے علاقوں میں ہوتے ہیں، وہاں ایک جگہ ہاتھی ایک باریک رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ بچے نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ یہ اگر زور لگائے تو رسی تو یہ توڑ سکتا ہے، رسی کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے، تو یہ کیوں نہیں توڑتا؟ اس نے کہا کہ بیٹا پچپن میں اس کو اس رسی سے باندھا گیا تھا، اس وقت یہ اس کو نہیں توڑ سکتا تھا اور اسی کے ساتھ ہی یہ بڑا ہوا ہے تو اس کے ذہن میں یہ ہے کہ میں اس کو نہیں توڑ سکتا، لہٰذا یہ اس کے ساتھ set ہے۔ اسی طریقہ سے اگر ایک انسان کو زبردستی ذلت پر لایا جائے تو وہ اس ذلت کو مان لیتا ہے اور اپنی حالت کو پہچان لیتا ہے۔ پھر وہ بڑائی نہیں کرتا۔ سبحان اللہ! ایک اچھا خیال آگیا اَلْحَمْدُ للہ، دیکھیں! بڑائی کے مقابلہ میں ذلت تو آئے گی، چاہے وہ ذلت یہاں قبول کرلو تو وہاں بچت ہوجائے گی، چاہے یہاں قبول نہ کرو تو پھر وہاں پر ہوگی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ متکبرین کو حشرات الارض یعنی چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو روند دیں گے۔ کیونکہ ان لوگوں نے لوگوں کو روندا تھا۔ یعنی اگر کوئی آدمی اپنی اصلاح ادھر نہیں کرتا تو وہاں پر ہوگی۔ اگر کوئی اپنے نفس کے رذائل کا علاج یہاں نہیں کرتا تو اس کا علاج اُدھر ہوگا، یعنی اگر وہ صاحبِ ایمان ہے تو اس کا علاج ادھر ہوگا اور اگر کافر ہے تو اس کے لئے جہنم ہے، کیونکہ اس کے لئے تو کوئی دوسرا سوال ہی نہیں ہے۔ اگر مسلمان ہے تو اللہ پاک اسے جنت میں تو پہنچائیں گے، لیکن جنت پہنچانے کے لئے تعذیب کی بجائے تہذیب ہوگی۔ کافروں کے لئے تعذیب ہے اور مسلمانوں کے لئے تہذیب ہے۔ تہذیب سے مراد یہ ہے کہ پہلے ان کے ان رذائل کو جن کی وجہ سے یہ جنت میں نہیں جاسکتا، جہنم سے جلایا جائے گا۔ حسد، کینہ، بغض، تکبر؛ ان تمام چیزوں کو جلایا جائے گا، جب یہ جل جائیں گے تو پھر ان شاء اللہ اس کو جنت کی طرف لے جائیں گے۔ حضرت فرماتے ہیں:
متن:
32
تو دوائے نخوت و ناموس مراتو ہے افلاطون و جالینوس مرا
اوپر کہا تھا کہ عشق ہماری تمام بیماریوں کا معالج ہے۔ اب تمام بیماریوں میں سے تکبّر اور جاہ طلبی کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو اکثر برائیوں کا سرچشمہ ہیں۔اور ابلیس نے، جو موجدِ معاصی ہے، سب سے پہلے تکبّر ہی کا ارتکاب کیا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ عشق اپنی ذلّت و رسوائی کی بدولت ان دو روحانی مرضوں کے لیے تو خاص طور پر دوائے شافی ہے اور نہ صرف دوا بلکہ خود افلاطون و جالینوس کا طبیبِ حاذق ہے جو ذلّت کے مسہل سے تنقیۂ دماغ کرکے مرضِ غرور کو دور کردیتا ہے۔
33
جسم خاکی عشق سے آسمان پر گیاعشق سے کوہِ طور بھی رقص کرگیا
یہ عشق ہی کی طاقت ہے کہ خاکی جسم کو عالمِ بالا پر پہنچا دے، جہاں اجسام کا گزر نہیں ہوسکتا۔ اور یہ عشق ہی کا کرشمہ ہے جو پہاڑ جیسی بے حس چیز کو حرکت میں لے آئے۔ بحر العلوم لکھتے ہیں کہ کوہِ طور تجلّی کو قبول کرنے کے لیے مستعد تو ہوگیا مگر چونکہ بفحوائے ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) اس میں تجلّی کو برداشت کرنے کی تاب نہ تھی۔ اس لیے آخر پارہ پارہ ہوگیا۔ یہ طاقت اور یہ سمائی حضرتِ انسان کے دل ہی کو حاصل ہے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ کوہ طور نے اگرچہ کوشش کی پھر بھی وہ تجلی برداشت نہیں کرسکا۔ لیکن انسان اس عشق کے ذریعہ سے اللہ کے ساتھ مل سکتا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے محبت کی وجہ سے اس عالم کو پیدا کیا۔ چانچہ فرمایا کہ میں گِنج مخفی تھا، میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہو جاؤں اور پہچانا جاؤں تو میں نے کائنات کو پیدا کیا۔ لفظ چاہا، چاہت سے ہے اور چاہت محبت سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چونکہ کائنات پیدا ہی محبت سے ہوئی ہے لہٰذا محبت سے ہی انسان اللہ تک جاسکتا ہے اور اللہ پاک کو پا سکتا ہے۔
متن:
34
عشق سے عاشق کوہ طور کا جان بنایہ تھا مست و خَرَّ موسیٰ صَعِقا
ذاتِ حق نے جب کوہِ طور پر تجلّی فرمائی تو وہ عشق ہی تھا جس نے جان بن کر کوہِ مذکور میں حرکت ڈال دی۔ اور عشق ہی اس کا باعث تھا کہ موسیٰ علیہ السلام اس تجلّی کی تابِ نظارہ نہ لا کر بیہوش ہوکر گر پڑے اور بات بھی نہ کرسکے۔
تشریح:
اس شعر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عشق کوہ طور کے رقص کا ذریعہ بن گیا، عاشق مست اور بیہوش ہوگیا اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کے گر پڑا۔
متن:
رفعِ اشتباہ: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام پر جو تجلّیِ حق ہوئی تو اس سے دنیا میں دیدارِ الٰہی کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ بڑی غلط فہمی ہے۔ تجلّی سے دیدار ثابت نہیں ہوتا۔
تشریح:
تجلی تنزل کو کہتے ہیں۔ کچھ ایسے الفاظ ہیں کہ ان کا مطلب کچھ ہوتا ہے اور لوگ کچھ سمجھتے ہیں۔ تجلی بھی ان میں سے ہے اور مقام بھی ان میں سے ہے۔ تجلی کا مطلب لوگ یہ لیتے ہیں کہ جیسے روشنی ہوتی ہے، حالانکہ اگر ہزار watt کا بلب ہو جس کی طرف کوئی دیکھ نہ سکے اور آپ کے پاس اس کے علاوہ دوسرا بلب نہیں ہے، تو اس کو کمرے میں استعمال کرنے کے لئے کوئی filter لگا دیں گے جس سے روشنی چھن کے آئے گی، لیکن کم ہوجائے گی۔ جیسے دوپہر میں روشنی جب زیادہ ہوتی ہے تو گاڑی میں dark شیشے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کرنے کے بعد اب جو کم روشنی ہے وہ تجلی ہے۔ پہلے والی روشنی اصل ہوتی ہے اور تجلی اس کا ظل ہوتی ہے۔ جب یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ کا دیدار تو نہیں ہوسکا، اس لئے یہاں تجلی کا فرمایا ہے، تو تجلی ایک ظل ہے، یعنی اس ظل کا ظہور ہوا۔
متن:
کیونکہ دیدار، رؤیت، موسیٰ علیہ السلام کا فعل ہے جس کی نفی قرآن مجید میں آچکی ہے۔ ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ (الأعراف: 143) یعنی "تو مجھ کو نہیں دیکھ سکتا"۔ اور تجلّی کے معنٰی جلوہ گر ہونا۔ یہ فعل ہے اللہ کا۔ اس کا اثبات قرآن مجید میں بے شک ہے۔ مگر اس سے دیدار و رؤیت ثابت نہیں ہوتی۔ ورنہ نعوذ باللہ قرآن مجید میں تعارض لازم آئے گا۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا مگر موسیٰ علیہ السلام اسے نہ دیکھ سکے اور بے ہوش ہوگئے۔
تشریح:
یعنی وہ روشنی ان کے بس میں نہیں تھی، کیونکہ تجلی ہی برداشت نہیں کرسکے۔
متن:
35
سر پنہاں میرے زیر و بم میں ہےکھل کے کہہ دوں تو جہاں برہم بنے
تشریح:
سبحان اللہ! یعنی اس کا چھپا ہوا جو راز ہے وہ میرے زیر و بم میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اور اگر کھل کے کہہ دوں تو لوگ بڑا غصہ ہوجائیں اور مجھے جینے نہ دیں۔ جیسے حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا تھا کہ ایک علم میں نے ظاہر کردیا، اگر دوسرا ظاہر کروں گا تو یہ سر گردن پر نہیں رہے گا۔ تو یہی بات ہے کہ لوگ ایسے علوم کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لوگوں نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو برداشت نہیں کیا، ان پہ قاتلانہ حملے ہوئے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو سچ بولنا پڑا تو انہیں لوگوں نے برداشت نہیں کیا۔ سچ بولنا بڑا مشکل کام ہے، کیونکہ وہ برداشت نہیں ہوسکتا۔ خوارج امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو قتل کرنے کے لئے آئے، امام صاحب تو بڑے جہاندیدہ تھے، ان سے فرمایا کہ آپ لوگ مجھے بلا دلیل مارنا چاہتے ہیں یا کوئی دلیل بھی آپ کے پاس؟ اگر ہے تو آپ حق پر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دلیل سے آپ کو مارنا چاہتے ہیں۔ پوچھا کیا دلیل ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ فاتحہ خلف الامام کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے، اس وجہ سے ہم آپ کو مارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بات کرلیتے ہیں، آپ سب لوگ میرے ساتھ بات کریں گے یا آپ میں سے کوئی ایک آدمی آپ کی طرف سے بات کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا نمائندہ چن لیتے ہیں وہ آپ سے بات کرلے گا۔ اب انہوں نے نمائندہ چن لیا تو حضرت نے کہا کہ اب تو آپ میری بات مان چکے ہیں، میں مزید کیا بات کروں؟ کہنے لگے کہ ابھی تو بات شروع ہی نہیں ہوئی۔ حضرت نے فرمایا کہ بات ختم ہوگئی ہے۔ میں کہتا ہوں: ”قِرَاءَةُ الْإِمَامِ قِرَاءَةُ الْمَأْمُوْمِ“ یعنی امام کی قرات مقتدی کی قرأت ہے، مقتدی کی طرف سے امام کرلیتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ مقتدی کی طرف سے بھی سنتا ہے۔ یہ سن کر وہ ہکے بکے رہ گئے اور وہاں سے خاموش ہوکر چلے گئے۔ تو امام صاحب کے اوپر بھی قاتلانہ حملے ہوئے ہیں، جیل میں بھی وقت گزارا ہے، بہت ساری فقہ جیل سے مرتب ہوئی ہے۔ امام مالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی پہنچے، ان کو گدھے پہ سوار کرکے ہڈیوں کی مالا ان کے گلے میں ڈال کے پورے بازار میں پھرایا گیا۔ امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ”جو مجھے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں، اور جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ میں مالک بن انس ہوں اور میں کہتا ہوں کہ طلاقِ مکرہ واقع ہوجاتی ہے۔“ اس مسئلہ میں ان کا بادشاہ کے ساتھ اختلاف تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ سچ بتانا بڑا مشکل کام ہے۔
متن:
ہمارے مجمل اقوال میں وحدت الوجود کا راز مضمر ہے، جس کو ہم کنایۃً اور اشارۃً ہی کہنے پر مجبور ہیں۔ اور اس مسئلہ کا مقصد یہ ہے کہ ما سِویٰ اللہ کا وجود کالعدم ہے۔
تشریح:
عدم نہیں ہے، کالعدم ہے۔ عدم کا دعویٰ نہیں ہے کالعدم کا مطلب ”جیسے نہیں ہے“ ہے۔ آپ ﷺ نے بھی فرمایا کہ:
”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ (بخاری، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔
یہاں دیکھنا مراد نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ دیکھنے سے جو کیفیت حاصل ہوتی وہ کیفیت آپ کو بغیر دیکھے حاصل ہو۔ اس طرح یہاں پر بھی کالعدم یعنی عدم کی طرح ہے۔ عدم نہیں ہے۔
متن:
مگر چونکہ یہ بات عوام کے فہم و ادراک سے برتر ہے اور یہ لوگ اس مسئلے کا مطلب یہی سمجھیں گے کہ جب ما سِویٰ اللہ کچھ نہیں ہے تو فرض و واجب اور حلال و حرام اور امر و نہی بھی کچھ نہیں۔ پس یہ لوگ احکامِ شریعت کو بے حقیقت سمجھنے لگیں گے جو نظامِ عالم کے بگڑ جانے کا مترادف ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو صاف طور پر نہیں کہا جاسکتا۔
علاوہ ازیں اسرارِ عشق کا اظہار اہلِ ظواہر کی تکفیر و تشنیع کا باعث بھی ہوتا ہے۔
تشریح:
سرگودھا یونیورسٹی میں مثنوی شریف کا پروگرام تھا، کانفرس میں اسلامی یونیورسٹی سے بھی ایک صاحب اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے تھے، وہ مثنوی شریف کی مخالفت میں تھا اور اس میں مثنوی پہ اعتراضات تھے۔ وہ مقالہ انہوں نے عربی میں لکھا تھا۔ پروگرام کے organizer راجپوت صاحب بڑے ہوشیار آدمی تھے، انہوں نے اعلان کیا کہ مقالہ عربی میں ہے اور چونکہ یہ انٹرنیشل کانفرس ہے تو اس میں کسی بھی زبان میں تقریر کی جاسکتی ہے، لہٰذا یہ عربی میں کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے انہوں نے مسئلہ کا حل نکالا کہ اگر یہ اردو میں کریں گے تو لوگ بڑے مخالف ہو جائیں گے۔ کیونکہ پوری کانفرس مولانا روم کے بارے میں ہے اور یہ ان کی مخالفت میں بولے گا تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ عربی میں بات کریں، لہٰذا اس نے پورا مقالہ عربی میں پڑھا، اب عربی کس کو سمجھ آنی تھی۔ مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آرہا تھا، جس میں اس نے کہا کہ مثنوی ایک دینی کتاب نہیں ہے کیونکہ بِسْمِ اللّٰهِ سے شروع نہیں ہوئی ہے، اس طرح کے کافی سارے اعتراضات اس پہ کردیئے، لیکن لوگوں کو کیا پتا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو اہل ظواہر اس طرح کرتے ہیں۔ میں اسلامی یونیورسٹی میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور مثنوی شریف پہ بیان کے لئے گیا تھا، میں نے وہاں presentation دینی تھی، مجھے پتا تھا کہ یہاں اہلِ حدیث موجود ہیں اور یہ بہت تنگ کریں گے، تو میں نے ان چیزوں کو جن پہ وہ اعتراض کرسکتے تھے، ان کے جوابات پہلے سے بیان میں رکھ لیے تھے۔ چنانچہ جب بیان کیا تو کسی کو کوئی سوال کرنے کی جرات ہی نہیں ہوئی اور وہ بات ما شاء اللہ پوری ہوگئی۔
متن:
36
دو سُروں میں نَے کہے ان کے دروںہو خراب سارا جہاں گر بول دوں
37
میں اگر ملتا لبِ دمساز سےمیں بھی کچھ کہتا کہ جیسا نَے کہے
اسرارِ عشق چونکہ عوام کی سمجھ سے بالا ہیں، اس لیے انہیں لوگوں کے آگے بیان کرنے سے عوام کی غلط فہمی کے باعث الحاد و زندقہ کے خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اس لیے مولانا تمنا کرتے ہیں کہ کاش! ہم کو کسی اپنے ہم خیال اور صاحبِ فراست سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا تو جو کہنے کی باتیں ہیں اس سے جی کھول کر کہہ لیتے۔
تشریح:
یعنی میں کسی ایسے شخص سے ملتا جو میرا ہمدم ہے تو پھر جیسے نے کہتا اس طرح میں بھی کہتا۔ ”نے“ سے مراد یہاں روح ہے۔ یعنی تب اپنی روحانی کیفیت کو میں کھل کے بیان کرتا۔ لیکن چونکہ اب ایسے حالات نہیں ہیں اس وجہ سے مجبوراً اشاروں کنایوں میں بات کرنی پڑ رہی ہے۔
متن:
37
ہم زباں سے جو بھی ہوتا ہے جداچاہے رکھے صد نوا ہو بے نوا
اظہارِ حقائق اور بیانِ معارف کے لیے سامعین کی ارادت و قابلیت ضروری ہے۔
تشریح:
یعنی طلب بھی ہو اور قابلیت بھی ہو، طلب کے بغیر بھی انسان کچھ حاصل نہیں کرسکتا اور قابلیت کے بغیر بھی حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ اگر قابلیت اور استعداد نہ ہو مثلاً terminology ہی نہ جانے تو کیا حاصل کرے گا۔ اب اسی ”نَے“ کو ہی لے لیں، یہ ایک terminology ہے، تو اگر کوئی ”نَے“ کو ہی نہیں سمجھے گا کہ یہ کیا چیز ہے، تو کچھ بھی نہیں سمجھے گا۔ اس طرح اظہارِ حقائق اور معارف کے بیان کے لئے سامعین میں قابلیت بھی ہونی چاہئے اور طلب بھی ہونی چاہئے۔
متن:
اگر یہ بات نہیں تو صاحبِ سخن کو مصلحتًا یا سامعین کی سرد مزاجی سے متاثر ہوکر اس طرح خاموش ہوجانا پڑتا ہے گویا اس کے پاس کچھ علم و تحقیق کا سامان ہی نہ تھا۔ غرض اسرارِ عشق کے بیان کرنے کے لیے سامعین کی صلاحیت لازم ہے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہماری زبان سے ادا ہورہا ہے، بے شک وہ سرد نوا ہو یعنی ما شاء اللہ اس کی بڑی دھوم ہو، لیکن جو نہیں سمجھتا اس کے لئے بے نوا ہے۔ اس کے لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی استاد نے ایک بار کوئی ایسا فن بتایا جس کی قدردانی نہیں ہورہی تھی۔ شاگرد پریشان ہوگیا اور استاد سے شکایت کی لوگ تو اس کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، انہوں نے کہا یہ ایک انمول موتی ہے، آپ نے اس کو بیچنا نہیں ہے، جا کے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کی قیمت کیا ہے؟ مختلف لوگوں کے پاس جاؤ اور پوچھو۔ وہ ایک شخص کے پاس گیا جو سبزی بیچ رہا تھا کہ آپ کتنے کا لیں گے؟ اس نے کہا کہ پتھر ہی ہے چاہے خوبصورت ہے، میں آپ کو تین سیر آلو دے دوں گا۔ تین سیر آلوؤں سے اس کا کیا لینا دینا، وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا عجیب بات کررہا ہے۔ پھر وہ اس کو پرچون کی دکان والے کے پاس گیا، اس نے بھی اسی قسم کی بات کی، پھر وہ اسے لوہا بیچنے والے کے پاس لے گیا تو اس نے بھی ایسی بات کی۔ اخیر میں اس کو استاذ نے ایک جوہری کے پاس بھیجا کہ جوہری کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ اس کی کیا قیمت ہے؟ جوہری نے جب دیکھا تو کہا کہ کیا آپ اسے بیچنا چاہتے ہیں؟ مگر میں اس کو نہیں خرید سکتا، اس کی بہت بڑی قیمت ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ اس نے جاکر استاد سے کہہ دیا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے، فلاں نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا اور یہ اس طرح کہتا ہے۔ استاذ نے کہا کہ میں آپ کو یہی سمجھا رہا تھا کہ ”قدر جوہر جوہری می شناسد“ یعنی جوہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے، باقی لوگ نہیں جانتے۔ یا پھر انسان اس کا طالب ہو، جیسے انسان بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کا طالب ہوتا ہے اور ڈاکٹر کی بڑی قدر کرتا ہے اور بیمار نہ ہو تو پروا بھی نہیں کرتا۔ اگر صحتمند ہو تو ڈاکٹر کو سلام بھی نہیں کرتا لیکن جب بیمار ہوتا ہے تو دور سے سلام کرتا ہے کہ السلام علیکم ڈاکٹر صاحب! کیا حال ہے، خیریت سے ہیں، طبیعت ٹھیک ہے؟ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، کیونکہ اس وقت وہ طالب ہوتا ہے۔ اس لئے اگر قابلیت اور طلب ہو تو پھر بات بنتی ہے۔
متن:
39
نہ رہے جب گل اور اجڑے گلستاںتو معاً خود بند ہو بلبل کی زباں
یہ مضمونِ بالا کی نظیر ہے۔ یعنی پھول کا حسن ہی تھا جو بلبل کے چہچہے کا محرک تھا۔ جب وہ نہ رہے تو بلبل اپنے آشیانے میں دم بخود ہوکر بیٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح مخاطبِ سخنِ فہم ہی جاذبِ مضامین ہوتا ہے۔ جب وہ نہ ہو تو سکوت لازم ہے۔
تشریح:
سکوت کے لازم ہونے کا تو خیر انہوں نے فرما دیا، ”تو معًا خود بند ہو بلبل کی زباں“ کی تشریح میں کچھ الگ طریقہ سے کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھیں! بلبل کو بھی زبان تو اللہ نے دی ہے، تو جب اس کی قدر ہوتی ہے تو بلبل کی چہک ہوتی ہے اور اس سے بڑے اچھے اچھے نغمے پھوٹتے ہیں، لیکن جب قدر نہیں ہوتی تو پھر بلبل خاموش ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک بہت بڑا عالم ہو لیکن لوگوں میں طلب نہ ہو تو اس پہ علوم کا ورود نہیں ہوتا، لیکن جس وقت لوگوں میں طلب ہو تو خود بخود علوم آتے ہیں اور اس عالم کو بھی احساس ہوتا ہے۔
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ دیوبند میں حدیث شریف کا درس دیا کرتے تھے تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اکثر تو عرب میں ہوتے تھے، لیکن جب کبھی حضرت ان کی مجلس میں تشریف لاتے تھے تو اس وقت حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے علوم دریا کی طرح رواں ہوتے تھے، لوگوں کو پتا چلتا تھا کہ مدنی صاحب تشریف لائے ہیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے پاس بلاتے تھے تو اپنی حدیث شریف کا درس اس وقت تک شروع نہیں کرتے تھے جب تک حضرت پہنچ نہیں جاتے تھے۔ حضرت چونکہ معذور تھے تو ایک دفعہ وضو کرنے میں کافی دیر لگ گئی، حضرت خاموش تھے، سارے طلباء بیٹھے ہوئے تھے، لیکن حضرت کچھ بول نہیں رہے تھے۔ جب حضرت پہنچ گئے تو حضرت بنوری نے بڑے جلالی انداز میں کہا آپ کو کس نے کہا ہے کہ حدیث شریف کے سننے کے لئے وضو ضروری ہے، میں آپ کے لئے انتظار کرتا ہوں اور آپ دیر کرتے ہیں۔ اس وقت لوگوں کو بات سمجھ آگئی کہ حضرت کیوں خاموش تھے۔ دیکھیں! اسی مقالہ میں ایک بات ہے کہ وضو ایک مستحسن چیز ہے کیونکہ ”اَلْوُضُوْءُ صِرَاطُ الْمُؤْمِنِ“ کہا گیا ہے۔ لہٰذا عام لوگوں کو تو وضو کرکے ہی حدیث شریف کے درس میں بیٹھنا چاہئے، یہی ادب ہے اور اس میں فائدہ ہے۔ لیکن ایک معذور شخص کے لئے چونکہ یہ نفل کام ہے تو نفل کام میں اپنے آپ کو اتنا تنگ نہیں کرنا چاہئے کہ اصل چیز رک جائے۔ اس وجہ سے حضرت نے ان سے فرمایا کہ آپ کو کس نے کہا ہے کہ حدیث شریف سننے کے لئے وضو لازمی ہے، حالانکہ عام طور پر حضرت جب درس دیا کرتے تھے تو خود بھی باوضو ہوتے تھے، کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ خود بے وضوء پڑھاتے ہوں۔
اَلْحَمْدُ للہ، اللہ کا احسان ہے، میرا بھی یہ طریقہ ہے کہ میں جب بھی کوئی بیان کرتا ہوں اور جہاں پر بھی کرتا ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ باوضو ہوکر کروں، کیونکہ وضو کی اپنی برکات ہیں۔ لیکن بعض دفعہ حالات ایسے آجاتے ہیں کہ اگر وضو کریں تو کام ہی ختم ہوجاتا ہے، اس وقت آپ کیا کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت مجبوراً آپ بغیر وضو کے بھی کام چلا سکتے ہیں، کیونکہ بہرحال یہ نفل ہے، تو کم از کم شریعت کے مسئلہ کو ظاہر کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت بغیر وضو کے وہ کام کرلیں تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ اس کام کے لئے وضو لازمی نہیں ہے، بہتر ہے۔ فقہ میں یہ بات صاف اور طے شدہ ہے کہ اگر مستحب پر عمل ایسا شدید ہو کہ اس پہ واجب کا گمان ہونے لگے تو اس کا ترک کچھ دیر کے لئے لازم ہوجاتا ہے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ حضرت نے شاید اس لئے یہ مسئلہ اتنی شان سے اپنے مقالہ سے واضح فرما دیا ہے۔
متن:
یہ مضمونِ بالا کی نظیر ہے۔ یعنی پھول کا حسن ہی تھا جو بلبل کے چہچہانے کا محرک تھا۔ جب وہ نہ رہے تو بلبل اپنے آشیانے میں دم بخود ہوکر بیٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح مخاطبِ سخنِ فہم ہی جاذبِ مضامین ہوتا ہے۔ جب وہ نہ ہو تو سکوت لازم ہے۔
تشریح:
یعنی سکوت ہوجاتا ہے، کیونکہ مضامین ہی نہیں آتے۔
متن:
40
گل ہو رخصت اور گلستان ہو خراببوئے گل سے کیسے پائیں گے گلاب
تشریح:
واہ جی واہ! یعنی گل رخصت ہوجائے اور گلستان خراب ہوجائے تو گلاب گل کی خوشبو سے ہم کیسے اس پھول کو پا سکتے ہیں؟
متن:
جب لوگوں میں اسرار کو سمجھنے کی قابلیتیں ہی نہیں رہیں تو قابل لوگوں کو، جن سے ان مضامین میں تخاطب اور ہم کلامی کرسکیں، کہاں تلاش کریں؟ گر کسی میں کچھ قابلیت ہے بھی تو ایسی ہی برائے نام ہے جیسے گلاب میں بوئے گل۔ اور بوئے گلاب بلبل کی تسلی خاطر کا موجب نہیں ہوسکتی۔
تشریح:
آپ ہماری شاعری کو دیکھیں، اس شاعری میں وہ عوامی رنگ نہیں ہے جس پہ لوگ واہ واہ کریں، لیکن عملی طور پر یہ ایک مفید شاعری ہے۔ لیکن ابھی لوگ اس کی قدر کے متحمل نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو تو شغل میلہ چاہئے اور شغل میلہ کے شاعر تو اور لوگ ہوتے ہیں جو میدان کو سجا دیتے ہیں، لیکن جب بات ختم ہوجاتی ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا، صرف واہ واہ رہ جاتی ہے۔ جب کہ یہ شاعری conceptual ہے، اس میں مفاہیم بیان کیے جاتے ہیں، تو اگر کوئی شاعری بھول بھی جائے تو مفاہیم باقی رہتے ہیں۔
میرا بیٹا محمد جس وقت چھوٹا تھا اور پڑھ رہا تھا، میں نے کہا محمد! مغرب کے بعد میرا بیان ہے اس میں آؤ گے؟ کہتے ہیں، آؤں گا لیکن آپ کس چیز پہ بیان کریں گے؟ میں نے کہا آپ بتاؤ۔ قلم اس کے ہاتھ میں تھا، کہتے ہیں اس قلم پہ کرسکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ کرلوں گا، کہنے لگے کہ اچھا ٹھیک ہے میں آؤں گا۔ یہ تقریر سننے کا بڑا شوقین تھا، لیکن میری تقریر کا آپ کو پتا ہے کہ وہ تو پھیکی پھیکی اور دھیمی دھیمی ہوتی ہے، ان میں ویسی tone نہیں ہوتی جیسے لوگ چیخ چیخ کر بیان کرتے ہیں، ہر ایک تو اس کا متحمل نہیں ہے۔ خیر یہ آگیا اور جب بیٹھ گیا تو میں نے شروع کیا: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ﴾ (القلم: 1) اور اس پر اَلْحَمْدُ للہ پورا بیان ہوگیا۔ یہ بیٹھا رہا کیونکہ بیان قلم پہ ہی تھا۔ گھر میں گیا تو میں نے اس سے کہا بیان سن لیا؟ کہتے ہیں، ہاں! میں نے کہا آپ جتنے بیان اور سنتے ہیں، اس میں اور ان بیانوں میں کیا فرق ہے وہ مجھے بتاؤ۔ تو اس نے دو لفظوں میں فرق بیان کیا۔ کہتے ہیں، ابو! وہ بیان لوگوں کو یاد نہیں رہتے، الفاظ بے شک یاد ہوں لیکن ان کے اندر والی چیز یاد نہیں ہوتی، آپ کا بیان یاد ہوتا ہے، پتا ہوتا ہے کہ آپ نے کیا کہا ہے۔ میں نے کہا بس ٹھیک ہے، آپ صحیح سمجھے۔ مطلب یہ کہ یہ مفاہیم ہیں، جس وقت ایک انسان مفہوم سمجھ لے تو بے شک اس کو وہ الفاظ یاد نہ بھی ہوں تو اس کا کام بن جاتا ہے۔ جس وقت میں بیان کررہا ہوں تو کیا آپ کو اشعار یاد ہوں گے؟ کسی کو بھی یاد نہیں ہوں گے، لیکن اس کے مفاہیم یاد ہوں گے، اور اصل اس کے مفاہیم ہیں۔ خود حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ میں جو حکایات بیان کرتا ہوں اگر لوگوں نے میرے اشعار کو صرف حکایات پر مبنی سمجھا کہ اس میں مقصود صرف حکایات ہیں تو اس نے میری شاعری کی قدر نہیں کی، یہ حکایات تو میں اس لئے بیان کرتا ہوں تاکہ اس سے میں مفاہیم کو سمجھاؤں۔ یہ حضرت نے خود ایک شعر میں فرمایا ہے۔ تو میرا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ بھی اصل چیز لے لیں۔ یعنی اِدھر اُدھر کی جھاڑ پھونک نما چیزوں کے ساتھ ہم کوئی تعرض نہ کریں، لیکن اصل مفاہیم کو ہم لے لیں اور ان سے اپنی زندگی کے متعلق فیصلے کریں۔ یہ نہیں ہے کہ ان اشعار سے آپ کی اصلاح ہوجائے گی، اشعار سے اصلاح نہیں ہوتی، یہ اصلاح کے لئے راستہ بتا رہے ہیں اور اس کے لئے جو محنت مطلوب ہے اس محنت کی justification دے رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے آپ ان چیزوں کو حاصل کرسکتے ہیں لیکن کام تو پھر بھی کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ ان سے ہی اصلاح ہوجائے گی، اصلاح کے لئے الگ سے پورا میدان ہے، اس کو اپنانا پڑتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان مبارک اشعار کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ ان مفاہیم کو اپنی زندگی میں جذب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ