اصلاحِ نفس، مجاہدہ اور صحبتِ اہل اللہ کے ثمرات

درس نمبر 19، حصہ 1، باب 1، ملفوظ 2، آداب شیخ و مرید: اپنی ظاہری و باطنی قوت کو دیکھ کر اصلاحِ غیر کی فکر میں پڑنا مناسب ہے اور اہل اللہ کی صحبت کا نفع ایک ظاہری دوسرا باطنی ( یہ ریکارڈڈ بیان نشر کیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس درس میں نفس کی اصلاح کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے۔ اس ضمن میں صالحین کی صحبت کے فوائد بتائے گئے ہیں، جن میں ان کی دعائیں، ان کے تجربات سے استفادہ، اور ان کی محبت سے اعمال میں برکت کا حصول شامل ہے۔ مزید برآں، مجاہدے کو نفس کو راحت طلبی سے نکال کر مشقت کا عادی بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد نفس کو پریشان کرنا نہیں بلکہ درست اعمال کی انجام دہی کو آسان بنانا ہے۔ نیز نفس پر جرمانہ کرنے اور مجاہدے میں اعتدال کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کی ضرورت

متن:

”اپنی ظاہری باطنی قوت کو دیکھ لو، اس کے بعد اور دوسرے کاموں میں پڑو۔ مگر اپنا نقصان کر کے بھی دوسرے کاموں میں لگنا یا اصلاح کے درپے رہنا یہ صحابہ سے کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ﴾ (الحشر: 09) اس آیت میں صحابہ کرام کے ایثار کی تعریف کی گئی کہ ان کے دلوں میں ایمان داخل ہوچکا ہے ان کے قلوب پاک ہوچکے ہیں اور محبتِ اسلام و مسلمین سے لبریز ہیں۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ نفس اصلاحِ غیر سے زیادہ مقدم ہے، اور دوسروں کی اصلاح کی اسی کو اجازت ہے جو اپنی اصلاح سے فراغت پاچکا ہو۔“

تشریح:

حضرت نے اس میں یہ بات ارشاد فرمائی ہوئی ہے کہ انسان کو دوسروں کی اصلاح میں پڑنے کے لئے اس وقت حرص کرنی چاہئے جب انسان کا اپنا دل محفوظ ہو اور اس کی اصلاح ہوچکی ہو، کیونکہ اگر خود اپنی اصلاح نہیں ہوئی تو نہ وہ اپنا فائدہ کرسکتا ہے نہ دوسروں کا فائدہ کرسکتا ہے۔ بلکہ اپنی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے چونکہ سمجھ بوجھ پوری اور صحیح نہیں ہوتی، لہٰذا وہ جس کو فائدہ سمجھ رہا ہوتا ہے اس میں اس کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں اس وقت لگنا چاہئے جب کہ انسان اپنی اصلاح کرچکا ہو۔ ویسے general نیکی کی باتیں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے اگر گھر میں کوئی دین کی بات کرتا ہے یا تعلیم کرتا ہے یا دوسرے لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ایسا کام کرنا جس میں انسان کے اپنے دین پہ حرف آئے اور وہ مشکل میں پڑے، اس سے بچنا چاہیے۔

بہتر یہی ہے کہ انسان جس شیخ کی نگرانی میں ہے اس کے مشورہ پہ چلے، جیسے وہ چاہیں اسی طریقہ سے کام کرے، کیونکہ دوسری صورت میں ساری ذمہ داری اس پر آجاتی ہے، تو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جو جو وہ بتاتے جائیں اس طریقہ سے عمل کرتے جائیں، اگر وہ آپ میں صلاحیت دیکھیں گے کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں تو پھر وہ صحیح ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد بھی ہوگی، کیونکہ یہ تشکیل کی طرح ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے کوئی کرے تو اس میں ایک تو کام خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان عُجب میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے۔ اور عجب میں مبتلا ہو کر دوسرے لوگوں کی ناقدری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ان کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک مرتبہ ایک بچہ ایک بزرگ کے ساتھ تہجد کے لئے اٹھا تھا، چونکہ وہ بچہ تھا، تو جب اس نے دیکھا کہ باقی لوگ سوئے ہوئے ہیں تو اس نے کہا: حضرت! یہ سارے لوگ سوئے ہوئے ہیں، دیکھیں! ہم نے تہجد پڑھ لی۔ اس بزرگ نے کہا کہ کاش آپ تہجد نہ پڑھتے۔ یہ جو آپ نے کہا ہے، یہ ایسے ہے گویا کہ آپ نے تہجد نہیں پڑھی۔ اس طریقے سے جب انسان مجاہدہ کرتا ہے اور اپنے زعم میں اللہ کے راستے میں نکلتا ہے تو پھر بڑے بڑے علماء کو حقیر سمجھتا ہے کہ وہ اس میں نہیں نکل رہے، حالانکہ ان کا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہونا دیکھ چکا ہوتا ہے، لیکن اس کو وہ کام صحیح نظر نہیں آتے۔ ایسی صورت میں وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا اور دوسروں کا فائدہ چاہ رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ دوسروں کا بھی اور اپنا بھی نقصان کررہا ہوتا ہے۔ اپنا نقصان اس طرح کررہا ہے کہ ان کو حقیر سمجھ کر عُجب اور تکبر میں مبتلا ہوگیا اور ان کی ناقدری میں مبتلا ہوگیا اور دوسروں کا نقصان اس طرح کہ ممکن ہے کہ وہ ان کے لئے کوئی فساد پیدا کردے یا ان کے کاموں میں رکاوٹ بن جائے یا کوئی شر پیدا کردے۔ ایسے لوگ دین کا کام کرتے ہیں، لیکن چونکہ بغیر سمجھ کے کررہے ہوتے ہیں اور کسی کی نگرانی میں نہیں کررہے ہوتے۔ تو اس وجہ سے بعض و اوقات انہیں نقصان ہوجاتا ہے۔

حضرت فرما رہے ہیں کہ اسی کو اصلاح کی اجازت ہے جو اپنی اصلاح سے فراغت پاچکا ہو۔ کیونکہ ایسے شخص کی نظر ان چیزوں پہ نہیں پڑتی، بلکہ وہ جتنا جتنا کام کرتا جاتا ہے اتنا اتنا اپنے آپ کو کم سمجھتا جاتا ہے اور دوسروں کو بڑا سمجھنے لگتا ہے۔

اہل اللہ کی صحبت کی برکات

متن:

فرمایا: "اہل اللہ کی صحبت کے میسر ہونے کا سبب یہ ہے کہ بار بار اچھی باتیں کان میں پڑیں گی تو کہاں تک اثر نہیں ہوگا؟ ایک وقت چوک ہوگئی، دوسرے وقت چوک ہوگئی، تیسری دفعہ تو اصلاح ہو ہی جائے گی اور ایک باطنی سبب یہ ہے کہ جب کسی کے پاس جاؤ گے اور تعلق بڑھاؤ گے تو ان کو تم سے محبت ہوجائے گی۔ تو اس سے دو طرح سے اصلاح ہوگی، ایک تو یہ کہ وہ دعا کریں گے ان کی دعا اکثر قبول ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ تم پر فضل فرمائیں گے۔ اور اصل یہ ہے کہ ان کی دعا من جانبِ حق ہوتی ہے، ان کے منہ سے دعا نکلنا اس بات کی علامت سمجھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وقت آگیا ہے۔ اور دوسری وجہ بڑی مخفی ہے کہ تمھارے اعمال میں ان کی محبت سے برکت ہوگی اور جلد جلد ترقی ہوگی اور جلد جلد اصلاح ہوگی۔" تشریح:

حضرت نے اس میں صحبتِ صالحین پہ زور دیا ہے کہ جو لوگ اللہ والوں کی صحبت میں رہتے ہیں، ان کو کئی طریقہ سے فائدہ ہوتا ہے، مثلاً علمی باتوں کا فائدہ کیونکہ وہ اپنا پورا پورا تجربہ بیان کرتے ہیں۔ ان کی باتیں عام باتیں نہیں ہوتیں، بلکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کتابوں میں بھی نہیں ملتیں۔ کیونکہ کتابوں میں محدود باتیں آسکتی ہیں جبکہ تجربہ لامحدود چیز ہے۔ اس لئے بعض اوقات وہ ایسی باتیں کرلیتے ہیں جو کتابوں میں نہیں ملتیں۔ اس وجہ سے جب ان کے ساتھ بیٹھیں گے تو بار بار اچھی باتیں کان میں پڑیں گی اور اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ انسان کمزور ہوتا ہے اور غفلت میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن جب بار بار وہ باتیں کان میں پڑیں گی تو کسی نہ کسی وقت اثر کر ہی جائیں گی۔ یہ تو ظاہری باتیں ہیں۔ باطنی سبب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے اور ان سے تعلق بڑھاتا ہے تو ان کو اس وجہ سے اس کے ساتھ محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت ما شاء اللہ بہت مفید ہے، کیونکہ اس سے دو طرح سے اصلاح ہوتی ہے: ایک تو وہ دعا کرتے ہیں، اور ما شاء اللہ وہ دعا من جانب اللہ ہوتی ہے، لہٰذا اس دعا کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر یہ دعا چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، لہٰذا ان کے منہ سے دعا کے الفاظ نکلنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ فضل کا وقت آگیا ہے۔

دوسری بات حضرت نے یہ فرمائی کہ تم جو بھی اعمال کرو گے، تو جو محبت تمہیں اللہ کے لئے ان کے ساتھ ہے، اس محبت کی وجہ سے ان اعمال میں برکت آجائے گی اور تمہاری ترقی اور اصلاح بھی جلدی ہوجائے گی۔

ہمیں ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ میں آپ کو اصلاح کا آسان طریقہ بتاتا ہوں، فرمایا کہ یا تو کسی اللہ والے کے دل میں بیٹھ جاؤ یا کسی اللہ والے کو دل میں بٹھا لو، ان دو باتوں میں سے کوئی ایک ہوجائے۔ کیونکہ اگر اللہ والوں کو دل میں بٹھاتے ہو تو جو محبت خدا کے لئے ان کے ساتھ ہے یہی تمھارے لئے اعمال میں ترقی کا ذریعہ بن جائے گی۔ اور ان کے حالات اور ان کی خاصیتیں آپ کے اندر خود بخود آتی جائیں گی۔ کیونکہ اہل محبت محبوب کی چیزوں کو خود بخود جذب کرتے ہیں۔ اور اگر آپ ان کے دل میں بیٹھ گئے تو وہ دل میں دعا کریں گے اور صحیح باتیں بتائیں گے جس سے آپ کو جلدی فائدہ ہوگا۔ حاصل یہ کہ دونوں صورتوں میں فائدہ ہوگا۔


نفس پر جرمانہ کرنے کا ثبوت اور اس کا فائدہ


متن: فرمایا: "نفس پر جرمانہ کرنے کی اصل نصوص یعنی سنت میں موجود ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ”مَنْ قَالَ لِصَاحِبِهٖ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ. فَلْيَتَصَدَّقْ“. (بخاری: 4860) ترجمہ: "جس کی زبان سے یہ کلمہ نکل جائے کہ آؤ جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے" اس طرح حیض کے زمانہ میں غلطی سے جماع ہوجائے تو بھی صدقہ کا حکم ہے، ابتدا حیض میں ایک دینار اور آخر میں نصف دینار۔ اور راز جرمانہ کا یہ ہے کہ صدقہ کرنے سے نفس پر زیادہ مشقت ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لئے سالک تھوڑی مشقت برداشت کرلیتا ہے"۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ چونکہ مشائخ نفس پر جرمانہ کرتے ہیں، تو اس کو نص سے ثابت کرنے کے لئے حضرت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کو کہہ دے کہ آؤ جوا کھیلیں، یہ چونکہ غلط کلمہ ہے، یہ اگر زبان سے نکل گیا تو اس کے بدلہ میں صدقہ کرے تاکہ اس کے اثرات ختم ہوجائیں۔ اس طرح حیض کے زمانہ میں اگر کوئی غلطی سے جماع کرلے تو وہاں پر بھی صدقہ کرنے کا حکم ہے، اگر ابتدائے حیض میں ہو تو ایک دینار کے بقدر اور اگر اخیر میں ہو تو نصف دینار کے بقدر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقہ کرنے سے انسان کا دل خفا ہوتا ہے اور نفس کے اوپر مشقت ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بچنے میں مشقت کم ہوتی ہے، لہٰذا وہ اس کو برداشت کرلیتا ہے بشرطیکہ اس جرمانہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلے۔

مجاہدے کا مقصد

متن:

فرمایا: "مجاہدہ سے مقصود نفس کو پریشان کرنا نہیں، بلکہ نفس کو مشقت کا خوگر بنانا اور راحت و آرام کی حالت سے نکالنا ہے اور اس کے لئے اتنا مجاہدہ کافی ہے جس سے نفس پر کسی قدر مشقت پڑے۔ نفس کو بہت زیادہ پریشان کرنا اچھا نہیں ورنہ معطل ہوجائے گا"۔

یعنی مجاہدے سے نفس کو پریشان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کو مشقت کا خوگر بنانا مقصود ہے۔ مثلًا انسان کوئی صحیح کام جو کرنے کا ہو، وہ کیوں نہیں کر پاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مشقت سے گھبرا رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم نفس کو اس سے زیادہ مشقت کا عادی بنا لیں تو وہ کام آسان ہوجائے گا۔ جیسے اگر کوئی چوبیس گھنٹے کا فاقہ کرلے تو اس کے لئے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے روزہ رکھنا کیا مشکل ہوگا؟

ایک دفعہ کچھ حالات کی وجہ سے سکردو سے فلائٹ نہیں آرہی تھی، جس وجہ سے ہمیں بائیس گھنٹے سفر کرنا پڑا۔ اس سے پہلے تین گھنٹے کے سفر میں بھی دل میں خیال ہوتا تھا کہ کہیں stay کرلیں تاکہ چائے وغیرہ پی لیں، تھوڑا سا چکر وغیرہ لگا لیں، تاکہ پیر کھل جائیں گے۔ جب سے وہ بائیس گھنٹے کا سفر کیا ہے تب سے چھ گھنٹے کا سفر بھی سفر نہیں لگتا، سمجھتے ہیں ادھر ہی ہیں۔ ایک دفعہ ہم رمضان شریف میں قاری نور اللہ صاحب کے پیچھے تراویح پڑھ رہے تھے، ابتدا میں ایک ایک پارہ تھا، حافظوں کو بعض اوقات کچھ غلطی لگ جاتی ہے، ان کے ساتھ بھی ایسے ہوا، ان کو پتہ بھی نہیں چلا اور پانچ سپارے پڑھ لیے۔ لوگوں نے بڑی الٹ پلٹ کی کہ کبھی اِس طرف جھکنا اور کبھی اُس طرف جھکنا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کی بجائے دو پارے کردئیے یعنی ایک پارہ بڑھا دیا، لیکن اس پر لوگوں نے کہا ما شاء اللہ! بڑی اچھی تراویح پڑھائی۔ کیونکہ انہوں نے پانچ پڑھ کے دیکھ لیے تھے۔ بس یہی مجاہدہ ہوتا ہے کہ روزمرہ جتنی مشقت آپ کو کرنی ہے خود کو اس سے زیادہ مشقت کا عادی بنا دیں تو پھر آسان ہوجائے گا اور کچھ بھی مشکل نہیں رہے گا۔

کاکول میں جو لوگ ٹریننگ کرتے ہیں وہ جب مشقت کے عادی ہوجاتے ہیں تو پھر بعد میں کبھی حالات بگڑ جائیں تو وہ گھبراتے نہیں ہیں۔

اعتدال کی اہمیت

متن: فرمایا: "محنت ہمیشہ مستحسن نہیں، بلکہ جب اعتدال سے اس پر اچھا نتیجہ مرتب ہو تو مجاہدہ میں اعتدال کی رعایت ضروری ہے، شریعت کی ہر شے میں اعتدال ضروری ہے"۔

تشریح: حضرت نے اس میں فرمایا کہ مجاہدہ یا محنت ضروری نہیں کہ ہر وقت اچھی ہو، کیونکہ بہت زیادہ مجاہدہ کرنے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ آپ کے قُویٰ ہیں کام چھوڑنے لگیں، وہ آپ اس کے ساتھ چل ہی نہ سکیں۔ اس وجہ سے اتنا مجاہدہ کرنا چاہئے کہ اس کا نتیجہ مثبت ہو اور آپ کو اس سے فائدہ ہو۔ جیسے میں نے ابھی آپ کو مثال دی کہ روزمرہ کے اعمال میں جتنا مجاہدہ آپ کو کرنا پڑتا ہے، کچھ عرصہ کے لئے اس سے زیادہ مجاہدہ کرو۔ جب زیادہ کے ساتھ آپ کا نفس مانوس ہوجائے گا تو پھر آپ کے لئے تھوڑا مجاہدہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ اور وہ تو ضرورت ہے۔ اس کے بعد normal مجاہدہ کرو، normal مجاہدہ یہ کہ پھر اعمال کرو گے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

عام طور پر مجاہدے کو اس حد تک نہیں بڑھانا چاہئے کہ انسان کے قویٰ پر بہت زیادہ اثر پڑ جائے۔ اس وجہ سے بزرگ فرماتے ہیں کہ یہ کام کسی ایسے شخص کی نگرانی میں کرنا چاہئے جو اس کام کو جانتا ہو، ورنہ اگر کوئی کسی کی نگرانی میں نہیں کرے گا تو عین ممکن ہے کہ انسان اپنے لئے کچھ زیادہ ہی مسئلہ بنا لے اور بجائے فائدے کے نقصان ہونے لگے۔ بعض لوگ کتابیں پڑھ کر مجاہدے کرتے ہیں اور بعض دفعہ اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ دیواروں کے ساتھ ٹکریں مارنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم ما شاء اللہ! مجاہدہ کررہے ہیں، حالانکہ یہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں۔ اصل مقصود مجاہدہ نہیں ہے، مجاہدہ صرف ذریعہ ہے، نظر ہمیشہ مقصود پہ ہونی چاہیے۔ مقصود یہ ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں ان کے اندر اگر نفس رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس رکاوٹ پر انسان قابو پا لے، اور جن چیزوں کو چھوڑنا ہوتا ہے اگر ان میں رکاوٹ آرہی ہے تو اس رکاوٹ پہ قابو پا کر اس کو چھوڑنا آسان ہوجائے۔ یعنی مجاہدہ بالمقصد ہے، مجاہدہ بلامقصد نہیں ہے۔ جس مجاہدہ کا نتیجہ صحیح نہیں ہے وہ مجاہدہ نہیں ہے بلکہ فقط اپنے نفس کو تنگ کرنا ہے۔ وہ تو رہبانیت ہے، اور ہمیں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ: ”رَبَّانِیَّۃٌ وَلَارَھْبَانِیَۃٌ“ یعنی ہمیں ربانی یعنی اللہ والا بننا چاہئے، راہب نہیں بننا چاہئے۔ یہی عیسائیوں سے ہمارا فرق ہے۔ عیسائیوں کی رہبانیت میں کوئی sense نہیں ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کا سہ روزہ بامقصد مجاہدہ ہے، اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ مسلمان شادی اس لئے کرتا ہے کہ اپنے نفس کو دوسری جگہ سے روک دے۔ یہ بامقصد مجاہدہ ہے، انسان اس کو کرسکتا ہے۔ جو لوگ شادی نہیں کرتے وہ نتیجتًا بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بجائے فائدہ ہونے کے نقصان ہونے لگتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

اصلاحِ نفس، مجاہدہ اور صحبتِ اہل اللہ کے ثمرات - انفاسِ عیسیٰ