ہر عمل کا حقیقی محرک: رضائے الٰہی اور محبتِ الٰہی

(اشاعتِ اول) جمعہ،28 جنوری، 2022- بمقام:خانقاہ

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی
  • انسان کے اعمال کے پیچھے کارفرما محرکات (پیسہ، عزت، لذت)۔
    • نعت خوانی اور دیگر دینی اعمال میں نفسانی محرکات کی نشاندہی۔
      • حدیثِ غار: تین افراد کا قصہ اور اعمال کے وسیلے سے نجات۔
        • اجتہادی غلطی کے باوجود نیت کے اخلاص (رضائے الٰہی) کی برکت۔
          • اللہ کی محبت کا حصول اور اس کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں: مال، لذت، اور جاہ (عزت)۔
            • رضائے عقلی اور رضائے طبعی کا فرق۔
              • بہلول دانا کا واقعہ: اللہ اور بندوں کے درمیان صلح۔
                • محبتِ الٰہی کے حصول کے لیے مسنون دعائیں اور ان کی اہمیت۔
                  • ایمانی محبت اور نفسانی محبت کا موازنہ۔

                     

                    خلاصہ:

                    اس بیان میں حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتہم نے انسانی اعمال کے محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں لوگ مال، عزت اور لذت کی خاطر بڑے بڑے کام کرتے ہیں، لیکن ایک مومن کا سب سے بڑا محرک "اللہ کی رضا" ہونا چاہیے۔ آپ نے حدیثِ غار کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا کہ جب عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو، چاہے اس میں اجتہادی غلطی ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتے ہیں اور مشکلات کو دور کر دیتے ہیں۔ حضرت شیخ صاحب نے اللہ کی محبت کے حصول میں حائل تین بڑی رکاوٹوں (مال، لذت، عزت) کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کا توڑ صرف "شدید محبتِ الٰہی" سے ہی ممکن ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ "ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں"۔ آپ نے "رضائے عقلی" (شعوری کوشش) پر مداومت کا درس دیا جو بالاخر "رضائے طبعی" (فطری محبت) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آخر میں آپ نے وہ مسنون دعا سکھائی جس میں اللہ کی محبت، اس کے چاہنے والوں کی محبت اور اس عمل کی محبت مانگی گئی ہے جو اللہ تک پہنچا دے۔