اصلاحِ نفس کے دو بنیادی اصول: محبتِ الٰہی اور خوفِ خدا

اشاعت اول: اتوار، 29 اکتوبر 2023

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ٱَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ ٱلۡعَالَمِينَ، وَٱلصَّلَاةُ وَٱلسَّلَامُ عَلىٰ خَاتَمِ ٱلنَّبِيِّينَ، أَمَّا بَعْدُ. أَعُوذُ بِٱللَّهِ مِنَ ٱلشَّيۡطَانِ ٱلرَّجِيمِ ۔ بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمٰنِ ٱلرَّحِيمِ

﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ﴾ [النّٰزعٰت: 40-41] وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی ﴿وَالَّذِيْنَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ [البقرۃ: 165] وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ "اَلدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ"۔ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ"۔ صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ۔

معزز خواتین و حضرات! دنیا میں دو جذبے ہیں جو انسان سے بہت کچھ کرا دیتے ہیں۔ وہ دو جذبے اگر صحیح چیز کے لیے استعمال ہو جائیں تو انسان کی زندگی بن جاتی ہے۔ اور اگر غلط چیز کی طرف چلے جائیں تو انسان کی زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔

وہ دو جذبے جو ہیں، ایک اس میں محبت ہے اور دوسرا خوف ہے۔ انسان محبت میں بھی بہت آگے چلا جاتا ہے۔ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ جس چیز کی محبت اس پہ طاری ہوتی ہے، اس کے لیے ساری قربانیاں کرنا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ تو یہی محبت اگر دنیا کے ساتھ ہو تو یہ تباہی ہے۔ جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ۔ دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔

لیکن یہی محبت اگر اللہ کے لیے ہو جائے، یعنی اللہ کے ساتھ ہو جائے تو پھر یہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ جس کو اللہ کے ساتھ محبت ہوگی تو دنیا کی محبت اور اللہ کی محبت یہ آپس میں اضداد ہیں، ضد ہیں ایک دوسرے کی۔ لہٰذا اگر دنیا کی محبت ہے تو اللہ کی محبت نہیں ہے اور اگر اللہ کی محبت ہے تو دنیا کی محبت نہیں ہے۔ اس صورت میں اللہ کی جو محبت ہے وہ اگر غالب ہے تو پھر وہ دنیا کے اندر اس طرح رہے گا جیسے اللہ چاہے گا اور وہ کرے گا جو اللہ چاہے گا۔ لہٰذا اس کے لیے دنیا آخرت کی کھیتی بن جائے گی۔ اَلدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ، دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

پس ہم لوگوں کو اس محبت کو سمجھنا بھی چاہیے اور جو صحیح محبت ہے اس کو حاصل بھی کرنا چاہیے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے جس محنت کی ضرورت ہے اس محنت کو بھی کرنا چاہیے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے ہو جب تک کہ مجھے اپنی اولاد سے زیادہ، اپنے والدین سے زیادہ اور بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھو"۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق فرمایا کہ "جب تک تم مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھو اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا"۔

یہ ایک ایسی بات ہے جس پہ بہت سارے لوگ سمجھ نہیں، سمجھتے نہیں ہیں اور confuse ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے۔ کیونکہ بظاہر لگتا ہے کہ انسان ان چیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہے، اولاد سے زیادہ اور والدین سے زیادہ، اور لوگوں سے بھی کرتے ہیں۔ اللہ کی محبت اتنی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ایک سوال ہے مطلب جو ذہنوں میں ہے۔ تو جو حساس لوگ ہوتے ہیں وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ تو پھر ایمان ہمارا نہیں ہے۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت جو ہے یہ بہت لطیف ہے۔ اور عین وقت پہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے عمومی نظر سے نظر نہیں آتا۔ لیکن جب کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جس میں یہ استعمال ہو جاتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ہاں یہ بات تو ہے۔

وہ ایک دفعہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ یہ مجھے تو اس پر بڑی گھبراہٹ ہے کہ میں تو ان چیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں بظاہر اللہ تعالیٰ سے تو یہ تو بڑا خطرہ ہے۔ تو وہ عالم تھے، وہ سمجھدار تھے، جس سے بات کی۔ تو انہوں نے ان سے فرمایا کہ، یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بات کی، اللہ ایسے ہیں، اللہ ایسے ہیں ماشاء اللہ صفات بیان کرتے رہے وہ دلچسپی سے سنتا رہا۔ درمیان میں اچانک اس نے اس کے والد کے بارے میں بات کرنی شروع کی۔ اس نے کہا کیا ہو گیا آپ کو؟ وہ بات چل رہی ہے درمیان میں آپ نے میرے والد کی بات شروع کی، یہ کیا طریقہ ہے؟ تو انہوں نے کہا اب دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہے والد کی محبت زیادہ ہے؟ پتہ چل گیا۔

اس طرح اگر اولاد اور والدین نعوذ باللہ من ذالک کسی وقت اللہ کے خلاف کوئی بات کر لیں، بے ادبی کی، گستاخی کی بات کر لیں۔ تو ان کو مارنے کو انسان دوڑتا ہے۔ پھر یہ کیا بات ہے؟ تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے ساتھ محبت زیادہ ہے۔

تو اس طرح ایمانی محبت تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ زیادہ ہے۔ طبعی محبت یہ فوری طور پر جو ہوتا ہے وہ ان چیزوں کا زیادہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ کہ یہ چیزیں قریب ہیں۔ ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بہت بڑا مقناطیس ہو لیکن دور ہو۔ اس کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے مقناطیس جو قریب ہوتے ہیں وہ زیادہ مؤثر محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا اگر اصل مقابلہ کیا جائے تو اس بڑے مقناطیس کے ساتھ ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔

تو اس طریقے سے یہ جو ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ﴾ [القیامۃ: 20] ہرگز نہیں بلکہ تم جو فوری چیز ہے اس کے ساتھ محبت کرتے ہو۔ یہ اصل میں وہ بات ہے کہ انسان کے ساتھ جو فوری چیز ہوتی ہے اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اس پر۔ تو محسوس ایسا ہوتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ یہ ہے طبعی محبت۔ ایک ایمانی اور عقلی محبت جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔

یہ جو اس وقت ہم مراقبات کرتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں، تو اس ایمانی محبت کو ہم طبعی محبت کے قریب لاتے ہیں۔ یعنی وہ محسوس ہونے لگتا ہے اور مطلب مؤثر بھی ہونے لگتا ہے۔ مطلب گویا کہ ﴿فَذَكِّرْ إِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [الذاریات: 55] جیسے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں پس یاد دہانی کیا کرو، یاد دہانی مومن کو نفع پہنچاتی ہے۔

تو یہ جو ہم لوگ یاد دہانی کرتے ہیں ذکر کرتے ہیں لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، یہ یاد دہانی ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں جتنے advertisement کے ادارے ہیں وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ ایک چیز کو بار بار آپ کے سامنے مختلف صورتوں میں لائیں گے۔ ایک ہی چیز کو۔ اور آپ مجبور ہو جائیں گے اس کو خریدنے پہ۔ وہ اس طریقے سے مطلب، کہتے ہیں کہ ایک آدمی بیل بیچنا چاہتا تھا۔ تو اس کو طریقہ نہیں آتا تھا تو ویسے واپس آیا، نہیں بیچ سکا۔ کسی نے کہا بھئی دلال سے بات کرو، agent سے بات کرو۔ وہ اس کو بیچے گا۔ تو وہ اس نے اس کے ساتھ بات کی، انہوں نے کہا ہاں۔ وہ لے گیا اس کو۔ اب وہ دلال جو ہے اس نے اتنی تعریفیں کیں اس بیل کی، اتنی تعریفیں کیں، اتنی تعریفیں کیں کہ سب سے زیادہ بولی لگانے والا وہی شخص خود تھا جو بیچنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا تم تو بیچ رہے ہو۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ اس میں اتنی چیزیں ہیں۔ یہ تو مجھے اب پتہ چلا۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ agent، دلال، یا advertisement، اس کا انسان کے اوپر اثر ہوتا ہے۔ وہ بار بار جب آپ کے سامنے آتا ہے، سامنے آتا ہے، یہ دیکھو نا پشاور روڈ پہ آپ جو ہے نا روانہ ہو جائیں گاڑی میں تو آپ کو ایک ہی چیز کے advertisement کے بورڈ نظر آئیں گے۔ وہ تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر۔ یہ بھی آ گیا، پھر آ گیا، پھر آ گیا، پھر آ گیا۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ بھئی ایک دفعہ تو دیکھ لیا نا تو اس کو بار بار دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو ہمارے ایک دوست تھے وہ ذرا تھوڑے سے ان چیزوں کو جانتے تھے، اس نے کہا کہ یہ ایک آدمی تھا جو ایسی company کے advertisement جس کے بورڈ لگے ہوئے اس کے advertisement کے انچارج تھے۔ تو اس پر میں نے اس سے پوچھا، میں نے کہا یہ تم لوگ اتنے زیادہ کیوں کرتے ہو؟ بھئی اتنے سارے آپ نے 100 بورڈ لگائے ہوئے ہیں۔ اس پہ تو بڑا خرچہ ہوتا ہے۔ تو دو ایک دو بورڈ کافی نہیں تھے؟ لوگوں کو پتہ چل جاتا۔ انہوں نے کہا ہمارا تجربہ ہے، experience ہے کہ جس مہینے ہم یہ وہ نہ کریں، advertisement اس طرح تو ہمارے sale جو ہیں نا وہ 10 فیصد پہ آ جاتی ہے۔ لوگ نہیں لیتے۔ پتہ چل گیا کہ لوگ لیتے اسی وجہ سے ہیں۔

ہمارے ایک دوست تھے۔ اس کا بیٹا بڑا آوارہ پھرتا تھا، پڑھتا نہیں تھا، بس کھیلوں میں مگن ہوتا تھا، وقت ضائع کرتا تھا۔ تو ہمارے دوست کو اس کی بڑی پریشانی تھی کہ کیا کروں اس کے ساتھ۔ تو اس کو ایک نفسیاتی ماہر کے پاس لے گئے۔ اس نفسیاتی ماہر نے اس کی پوری ہسٹری لی اور ہسٹری لینے کے بعد اس بچے کو کہا کہ تو نے 15 دفعہ روزانہ، چاہے تم سمجھو نہ سمجھو، ایک فقرہ بار بار کہنا ہے 15 دفعہ کہ ہنرمند بے ہنر سے اچھا ہوتا ہے۔ ہنرمند بے ہنر سے اچھا ہوتا ہے۔ یہ فقرہ آپ نے بار بار کہنا ہے۔ تو گویا کہ یہ وہ اس کو یہی سمجھانا چاہتا تھا کہ اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ مجھے ہنرمند ہونا چاہیے۔ تو ہنرمند ہونے کے لیے پھر وہ محنت بھی کر لے گا۔

ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں سن لیتے ہیں، او فلاں بیرون ملک میں فلاں چلا گیا تھا تو اس یہ ہو گیا، فلاں یہ چیز لایا اور یہ چیز لایا، مطلب وہ جو ہے نا وہ تو بعض لوگ اپنے یہاں چلتے کاروباروں کو بیچ کر وہ باہر ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔ اور اپنا سارا سرمایہ ادھر ضائع کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ کیوں؟ ظاہر ہے وہاں وہاں بھی تو competition ہے نا۔ ضروری تو نہیں ہے کہ آپ کے لیے ساری چیزیں وہاں تیار پڑی ہوں گی۔ competition ہے۔ تو جاب جب نہیں ملتا تو اخراجات تو بہت ہوتے ہیں۔ نتیجتاً اپنے پیسے خرچ کر کے وہ ویسے کے ویسے آ جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کی سرمایہ کاریاں اس سے تباہ ہو گئی ہیں۔ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہمارے لیے دنیا کی چیزوں میں یہ عبرت کا سامان موجود ہے۔ کہ جو جس چیز کا تذکرہ ہمارے ہاں بار بار ہوتا ہے، تو اس کا ہمارے اوپر اثر ہوتا ہے۔ ﴿فَذَكِّرْ إِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [الذاریات: 55]۔ پس یاد دہانی کیا کریں، بے شک یاد دہانی مومنوں کو نفع دیتی ہے۔

تو یہ جو ہم ذکر کرتے ہیں یہ بھی یاد دہانی ہے۔جب ہم کہتے ہیں لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، یہ یاد دہانی ہے۔ اور اس کو مؤثر بنانے کے لیے یہ بھی تجربے کی بات ہے نا۔ اصل میں کچھ علوم تجرباتی ہوتے ہیں اور کچھ علوم منصوص ہوتے ہیں۔ جو منصوص علوم ہوتے ہیں ان کو ایسے ہی ماننا ہوتا ہے جیسے کہ ہیں۔ اس میں تجربے کی بات نہیں کرنی چاہیے، بس جیسے فرمایا گیا اسی طریقے سے کرنا چاہیے۔ لیکن جو تجرباتی چیزیں ہیں اس کے لیے تجربہ ضروری ہوتا ہے اور تجربے کی بنیاد پر ہی اس کو لوگ کرتے ہیں۔

تو یہ مطلب یہ ہے کہ یہ تجرباتی چیزیں ہیں، ہمارے جو ذکر اذکار ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے ساتھ ضرب و جہر جب شامل ہو جاتا ہے، ضرب و جہر۔ یعنی ضرب سے مراد دل کے اوپر ضرب لگانا، یعنی اس کو جھٹکا دینا۔ اور جہر کا مطلب ہے کہ زور سے کہنا۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ مؤثریت کے لیے ہے تاکہ دل اثر لے لے۔ دل اثر لے لے۔

تو وہ کیا چیز ہے؟ مثلاً دیکھو میں اس طرح بھی، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، مطلب ویسے اپنے ساتھ جیسے عام لسانی ذکر ہوتا ہے وہ کرتا ہوں، اس کا الگ فائدہ ہے۔ ثواب کے لیے کرو، بے شک ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر آپ اثر کے لیے کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ تجربے والی بات ہے۔ کہ تجربے سے کس چیز میں اثر وہ زیادہ ہوتا ہے؟ تو کیا ہے؟ یعنی ایک ہوتا ہے اجر، ایک ہوتا ہے اثر۔ تو اجر جو ہے یہ منصوص ہے۔ اس میں آپ تجربے کی بات نہیں کریں گے۔ ایک دفعہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ پڑھنے سے کیا ملتا ہے؟ یہ وہ بتائے گا، اوپر سے آئے گا۔ یہ ہمارے تجربے کی باتیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ آپ کے اوپر کتنا اثر کرے گا؟ یہ تجربے کی بات ہے۔ تو کیا ہے؟ اور وہ ہر شخص کے لیے اپنا اپنا ہوتا ہے، مختلف ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب کے لیے ایک جیسا ہو۔ کیونکہ تجربے میں یہ بھی بات آئی ہے کہ ہر شخص کے اوپر ایک جیسے اثر ہر چیز نہیں کرتی۔ دوائیوں کو دیکھیں۔ ہمارے ملکوں میں یہ بڑا ایک عیب ہے کہ جس کو جو تجربہ ہو جائے خود اپنے ذات پر، وہ سمجھتا ہے کہ سب کے لیے ٹھیک ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ایک شخص ہے اس کو ایک گولی سے فائدہ ہوتا ہے ایک قسم کی، دوسرے کو دوسرے قسم کی گولی سے فائدہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی کیمسٹری جدا ہے۔ یعنی جو معدے کی کیمسٹری جدا ہے۔ ہر ایک کے لیے، بعض دوائیاں reaction کرتی ہیں۔ تو کیا سب پہ کرتی ہیں؟ سب پہ نہیں کرتی۔ کسی کسی پہ کرتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اس کی کیمسٹری اس کے ساتھ compatible نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے اوپر reaction اس کو کہا جاتا ہے کہ بھئی تم استعمال نہ کرو۔ مجھے خود اپنے ڈاکٹر نے بتایا کافی research کے بعد۔ مجھے کہتا ہے کہ اگر کوئی آپ کو مسئلہ ہو جائے بخار وغیرہ کا ہو جائے تو آپ نے پنسلین کی بنیاد پر جو چیز بنی ہو نا اس کو استعمال نہیں کرنا۔ Amoxicillin پنسلین یہ استعمال نہیں کرنا۔ آپ کو Vibramycin اور یہ چیزیں Tetracycline یہ چیزیں استعمال کرنی ہوں گی۔ اب دیکھو۔ اب یہ کہ میں اگر وہ استعمال کر لوں تو میرے لیے ایک مصیبت ہے، ایک بیماری کی جگہ دوسری بیماری شروع ہو جائے گی۔ تو مجھے پتا ہے لہٰذا میں استعمال نہیں کرتا۔

تو گویا کہ ہر شخص کے لیے ایک چیز مفید نہیں ہوتی۔ لیکن وہ بھی تجربے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کس کے لیے کون سی چیز مفید ہے، کس کے لیے کون سی چیز مفید نہیں ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ انسان دوسروں کو دیکھ کر جس چیز سے فائدہ ہوتا ہو آپ کو بھی اس سے فائدہ ہو تو آپ بھی اس کو کریں۔ نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو خوف سے فائدہ ہوتا ہے، بعض لوگوں کو محبت سے فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً یہ۔ تو اللہ پاک نے قرآن پاک میں دونوں کا ذکر کیا ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ﴾ [النّٰزعٰت: 40-41]۔ اور جو اس بات سے ڈر گیا کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے نفس کو برائیوں سے روک دیا، تو اس کے لیے جنت ٹھکانہ ہے۔ ﴿فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ﴾ ساتھ فرمایا دیا۔

تو بعض کے لیے خوف زبردست نظام ہوتا ہے مطلب اس کو خیر کی طرف دھکیلتا ہے۔ اور بعض کے لیے محبت قائد ہوتا ہے، وہ اس کو خیر کی طرف کھینچ کے لاتا ہے۔ اب یہ ہے کہ محبت کس وقت بہتر ہے اور یعنی فائدہ پہنچاتا ہے اور خوف کس وقت فائدہ پہنچاتا ہے؟ یہ پھر مشائخ کا کام ہے۔ میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ بہت بڑے بزرگ کی کتاب تھی۔ شام کو پڑھی، رات کو۔ اور پوری رات نیند نہیں آئی۔ ہاسٹل میں تھا، صبح مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے شیخ تھے، ان کے پاس میں چلا گیا۔ اور حضرت کو میں نے کہا کارگزاری سنائی کہ حضرت مجھے تو پوری رات نیند نہیں آئی ہے۔ حضرت نے فوراً پوچھا کونسی کتاب پڑھی؟ تو میں نے عرض کیا کہ حضرت وہ کتاب پڑھی۔ آئندہ تم پر یہ کتاب پڑھنا بند۔ پھر فرمایا آپ کے اوپر ساری کتابیں پڑھنا بند۔ بس صرف آپ، یعنی ساری دینی کتابیں، بس صرف آپ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ یہ پڑھ سکتے ہیں، اس کے علاوہ آپ کچھ نہیں۔

بس ٹھیک ہے جی، حضرت میرے شیخ تھے ان کو پتا تھا کہ میں کیسے ہوں۔ پابندی لگا دی۔ پھر ساتھ فرمایا تاکہ میرا دماغ ٹھیک رہے۔ ساتھ یہ فرمایا کتاب بری نہیں ہے۔ کتاب اچھی ہے، ساری کتابیں اچھی ہیں۔ بعض دفعہ ڈاکٹر کسی کو بیماری کی وجہ سے ملائی بھی روک دیتے ہیں تو ملائی تو بری نہیں ہوتی، لیکن اس کا معدہ کمزور ہے وہ ملائی کو ہضم نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ملائی روک دیتے ہیں۔ تو کتابیں ٹھیک ہیں، آپ ہضم نہیں کر سکتے، لہٰذا آپ نہ پڑھیں۔ ٹھیک۔ تو اب یہی، شیخ اس لیے تو ہوتا ہے؟ اب اگر میرا شیخ نہ ہوتا، اول تو مجھے اس بات کا پتا ہی نہیں چلتا۔ کتنے سارے لوگ بے چارے mis-handle ہو جاتے ہیں۔ پاگل تک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ان کو پتا نہیں ہوتا کسی چیز کا کہ کس چیز سے کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے طور پر کوئی ٹکریں مارتے ہیں، نتیجتاً نقصان ہو جاتا ہے۔ تو یہ بات میں عرض کر رہا تھا کہ مطلب یہ ہے کہ حضرت نے مجھے اس وقت روک دیا۔ مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ آپ نے موت کا مراقبہ نہیں کرنا۔ حالانکہ وہ بہت مفید مراقبہ ہے۔ بہت سارے لوگوں کو دیا جاتا ہے، ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے روک دیا کہ نہیں تو نے موت کا مراقبہ نہیں کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کہ، یہ وعظ میں میں نے پڑھا ہے حضرت کا، کہ ایک وکیل صاحب آئے تھے اور بالکل ان کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ بڑے گھبرائے ہوئے تھے۔ میرے پاس آئے۔ ان دنوں یہ لوگوں میں علم کا چسکا تھا کتابیں پڑھ لیتے تھے۔ آج کل تو کتابیں پڑھنے کا رواج ہی نہیں، بس media پر ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ ساری چیزیں اسی کی ہوتی ہیں۔ تو حضرت نے اس سے پوچھا کہ آپ نے کونسی کتاب پڑھی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ کتاب الخوف۔ یہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی۔ اب امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے بزرگ ہیں۔ حضرت نے فرمایا یہ کتاب تمہارے لیے نہیں ہے، تم نہیں پڑھو گے۔ اس کو روک دیا۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنا کسی کے اندر ہے جذب کی طاقت، وہ کتنا کر سکتا ہے، ہضم کر سکتا ہے، اتنا دینا چاہیے۔ یہ ہمارے جو مشائخ ہیں، یہ پہلے دن بہت سارا ذکر نہیں دیتے۔ پہلے دن مختصر سا ذکر دیتے ہیں۔ اگر وہ اس قابل ہو جائیں، اس کو کر سکیں، پھر اس کو اگلا دیتے ہیں۔ پھر وہ کر سکے تو اس سے اگلا دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس کا بڑھاتے جاتے ہیں۔ تاکہ ان کے اندر استعداد پیدا ہو اور استعداد کے ساتھ ساتھ پھر ماشاءاللہ ان کو ذکر بڑھاتے جائیں، حتی کہ ایک وقت آ جاتا ہے کہ سبحان اللہ وہ پورا ذکر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اثرات بھی اس کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ پہلے دن سب کچھ نہیں کرتے۔

تو یہی بات ہے کہ انسان کے اندر، ظاہر ہے capacity تو بہت ہے، capability بہت ہے، بہت ہی زیادہ استعداد ہے کہ وہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے۔ لیکن ہر چیز کے لیے ایک فطرتی طریقہ ہے۔ اس کو کرنے کے لیے۔

تو بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ اس محبتِ ایمانی کو محبتِ طبعی بنانا یہ کیا ہے وہ بتاتا ہوں۔ کیسے ہو گا؟ اب دیکھیں نفس کی جو ہے نا نفس، نفس کی جو خواہش ہے طبعی ہے عقلی ہے؟ طبعی ہے۔ اب جب عقل اور طبیعت میں مقابلہ ہو جاتا ہے تو جیت کس کی ہوتی ہے؟ طبیعت کی ہوتی ہے۔ اگر طبیعت کی اصلاح نہیں ہوئی ہے، اس کو 100 چیزیں بتاؤ۔ میں سب سے بڑی بات بتاؤں یہ ہمارے جو Pepsi-Cola ہے۔ مجھے بتاؤ آج کل کس کو پتہ نہیں کہ یہ زہر ہے؟ کس کو پتا نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت بڑا جاہل ہے آج کل کے دور میں بھی کہ اس کو یہ بھی پتا نہیں ہے۔ ابھی internet کھولو اس کے اوپر Pepsi-Cola لکھو، پھر اس کے بارے میں پڑھو۔ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے تو نہیں ہے۔ تو Pepsi-Cola، اب بعض لوگ Pepsi-Cola کے بغیر جی ہی نہیں سکتے۔ ہر کھانے کے ساتھ Pepsi-Cola پیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو بہت خطرناک چیز ہے۔ یہ تو معدے کو بالکل ختم کر دیتا ہے۔ بیماریوں کا بالکل وہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے اندر ایک گلاس کے اندر سات چمچ چینی ہے۔ ایک گلاس کے اندر سات چمچ چینی ہے۔ اور سات چمچ ایک صحت مند آدمی کے لیے پورے 24 گھنٹے کا dose ہے۔ کہ اس کی requirement اس سے پوری ہو جاتی ہے۔ تو کیا اس کے بعد وہ کچھ بھی نہیں کرے گا؟ بھئی چائے بھی پیے گا، اور فروٹ میں بھی مٹھاس ہوتا ہے، دودھ میں بھی مٹھاس ہوتا ہے، ہر چیز کے اندر کچھ نہ کچھ مٹھاس ہوتا ہے۔ اب یہ sum ہو جائے گا، جمع ہو جائے گا تو کتنا ہو جائے گا؟ اس کا بوجھ کس چیز پہ پڑے گا؟ لبلبے پہ پڑے گا۔ اس کو بہت جلدی شوگر ہو جائے گا۔ تو آج کل جلدی جلدی شوگر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اب یہ بیماری ہے۔ لیکن لوگ باوجود اس کے جاننے کے، پیتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ نیت بھی کر لیتے ہیں کہ اب نہیں پئیں گے، اب نہیں پئیں گے۔ تو جس وقت کسی محفل میں چلے جاتے ہیں اور کوئی offer کرتا ہے کیونکہ offer کرنے کا رواج ہے، تو بس اس وقت وہ کہتے ہیں یہ تو بس چلو میں تو، میں نہیں پی رہا ہوں تو مجھے زبردستی پلا رہے ہیں، چلو پی لو۔ کیونکہ اصل میں تو پینا چاہتا ہے نا۔ صرف سرسری طور پر انکار کر رہا ہے۔ مطلب نفس تو اس کا چاہتا ہے کہ میں پی لوں۔ لہٰذا بس جو دیتے ہیں تو بس وہ پی لیتے ہیں۔ اپنے آپ پر زیادتی کر لیتے ہیں۔

اس طریقے سے ہماری جتنی بھی خوراک وغیرہ کے طریقے ہیں، یہ دیکھیں نا یہ ہمارے جو junk food ہے، یہ کیا چیز ہے؟ بہت نقصان دہ ہے۔ لیکن آج کل سارے junk food ہی چلتا ہے۔ ڈبوں کے جو cooking ہے مطلب کوئی چیزیں ہیں جو ڈبوں میں تیار ملتی ہیں۔ مجھے یہ نہیں ہوتا، یہ سرخ رنگ کا شربت ہے کیا ہے؟ شربت شیریں ہے پتہ نہیں کیا ہے؟ جام شیریں۔ یہ میں ایک گلاس بھی پی لوں میرے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔ جب تک اس کے ساتھ میں کوئی solid غذا نہ کھاؤں نا فوراً تو اس وقت تو پیٹ کا درد ٹھیک نہیں ہوتا۔ تو میں نے ڈاکٹر سلمان صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کیونکہ وہ ہمارے اس چیز کے ماہر تھے۔ اسپیشلسٹ تھے۔ میں نے کہا میرے ساتھ یہ ہوتا ہے کیا وجہ ہے؟ وہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے ہوئے تھے میں پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے کہتے ہیں کتنا سچا پیٹ ہے آپ کا؟ کتنا سچا پیٹ ہے آپ کا؟ کہتے ہیں اس میں جو جتنا مطلب یعنی وہ جس کو یہ کیا ہوتے ہیں permissible limit ہوتا ہے یہ preservative کا preservative کا، اس سے پانچ گنا ہے اس کے اندر۔ پانچ گنا اس کے اندر preservative ہے۔ تو اکثر لوگ اس کو وہ نہیں کر لیتے لیکن آپ کا پیٹ اس کو فورا sense کر لیتا ہے کہ بھئی یہ مجھ پہ لوڈ زیادہ آ گیا۔ لہٰذا پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔ تو مقصد یہ ہے، اب دیکھو نا صرف اب لوگ روزہ افطار کس چیز سے کرتے ہیں؟ اس سے کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری ساری زندگی مصنوعی ہو گئی۔ اور مصنوعی کس وجہ سے ہو گئی؟ جام شیریں کا اشتہار، Pepsi-Cola کا اشتہار، Coca-Cola کا اشتہار، فلاں حلوہ کا اشتہار، فلاں sweets کا اشتہار، یہ سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ اب متاثر ہوتے رہتے ہیں، نتیجتاً بس وہ پھر۔۔۔ یہ credit card ہے نا credit card، یہ بہت زبردست ڈیزائن ہے۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک انجینئر صاحب آئے۔ architect، مکانوں کے نقشے بنانے والے، ان کا بڑا فرم ہے لاہور میں۔ کوئی صاحب ان کو لے آیا، ان کو problem تھا۔ مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب بس میرا سارا کاروبار ختم ہو گیا، قرض بہت زیادہ چڑھ گیا اور میرے سارے پیسے جو ہیں نا block ہو گئے اور ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا۔ کیا کروں؟ میں نے پتا نہیں مطلب ظاہر ہے calculation والی بات ہوتی نہیں ہے تو بس دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈال دی۔ میں نے کہا کہ آپ اگر credit card استعمال کرتے ہیں نا تو اس کو چھوڑ دیں۔ آپ اگر credit card استعمال کرتے ہیں تو اس کو چھوڑ دیں۔ مجھے کہتے ہیں ہماری ساری، سارا کاروبار ہی credit card پر ہے، کیسے اس کو چھوڑ دوں؟ اسی کے ذریعے سے تو ہم سارا کچھ کرتے ہیں credit card کے ذریعے سے۔ میں نے کہا یہ آپ کا مسئلہ ہے، میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے ہیں تو جیسے میں نے عرض کیا اس پر عمل کر لیں اور اگر نہیں کرنا چاہتے وہ آپ کی مرضی ہے میں اس میں کیا کروں؟ آپ اپنے مسائل کو خود جانتے ہیں۔ خیر مایوس لوٹ گیا۔ اس کو میں نے وہ جواب نہیں دیا جو چاہتا تھا مجھ سے۔ چلا گیا۔

دو تین مہینے کے بعد آیا۔ مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب تکلیف تو بہت زیادہ ہو گئی، بہت زیادہ ہو گئی، بہت مشکل سے میں نے اس سے پیچھا چھڑایا۔ لیکن الحمدللہ بس آج میں فارغ ہو گیا، اب credit card میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے کہا ان شاء اللہ امید ہے کہ اب کچھ فائدہ ہو جائے گا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی اطلاع آئی کہ میرے سارے cheque clear ہو گئے، سارے قرض میرے ادا ہو گئے ہیں اور حج کے لیے داخلہ کر لیا وہ بھی منظور ہو گیا، اس سال حج پہ چلے گئے۔ سبحان اللہ، اللہ پاک نے بڑا فضل فرمایا۔ پھر آیا کہتے ہیں یہ خانقاہ اب میں آپ کے، مطلب اپنے نقشے آپ کے لیے بنا کے میں بنوا دوں گا۔ یہ خانقاہ کا نقشہ اس نے بنایا ہے۔ اور ہر موقعے پہ موجود ہوتے تھے جو بھی اہم موقع ہوتا تھا۔ تو اس میں آتے تھے اور سب کو طریقہ سکھاتے تھے کہ اس طرح ہونا چاہیے، اس طرح ہونا چاہیے، اس طرح ہونا چاہیے، اب دیکھو۔

اب credit card ہے کیا وہ بتاتا ہوں۔ یہ بھی advertisement کا کمال ہے۔ credit card میں ان لوگوں نے کہا ہے کہ اگر آپ لوگ credit پہ یعنی قرض پر کوئی چیز لے لیں، یعنی اس سے ادائیگی ہو جائے گی۔ اگر آپ اس کا due time مہینے ہوتا ہے کتنا ہوتا ہے؟ بہر حال اس دوران اگر آپ ادا کر لیں تو کوئی سود نہیں ہے۔ ٹھیک ہے نا؟ اور اگر اس کے بعد اگر رہ گیا تو پھر اس کا سود ہوگا۔ اب بظاہر ایک دانہ ڈال دیا کہ دیکھو اگر آپ سود سے بچنا چاہتے ہیں تو بچ سکتے ہیں۔ یہ تو ہے دیندار لوگوں کو اپنی طرف لانے کے لیے ایک طریقہ کار۔ ٹھیک ہے نا؟ اب آگئے لوگ۔ کریڈٹ کارڈ آ گیا۔

کریڈٹ کارڈ میں کیا ہوتا ہے؟ آپ ڈیپارٹمنٹل سٹور میں چلے گئے۔ اور زبردست اشتہاری طور پر چیزیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ زبردست اور یہ زبردست اور یہ زبردست۔ اب نفس آپ کا چاہتا ہے کہ یہ بھی لے لوں، یہ بھی لے لوں، یہ بھی لے لوں۔ اب اگر آپ کے پاس اپنی پاکٹ منی ہوتی تو اپنی پاکٹ منی کے حساب سے لیتے نا؟ بھئی میرے پاس جیب میں دس ہزار روپیہ ہے۔ تو دس ہزار روپے کی جتنی چیزیں آ سکتی ہیں میں اس کا کر لوں، باقی تو میں کر ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا میں اس میں وہ سلیکشن کر لوں گا اچھا یہ مجبوری ہے چلو یہ تو لے لیتا ہوں یہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں اگر یہ نہ بھی ہو، یہ ہو سکتا ہے، یہ ہو سکتا ہے۔ میں دس ہزار کے اندر اندر سودا کر لوں گا۔ مجھ پہ قرض نہیں آئے گا۔ ٹھیک ہے نا؟ لیکن اگر میرے پاس کریڈٹ کارڈ ہے۔ تو پاکٹ منی کی تو بات ہی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بھی پسند ہے اور بالخصوص جب بیوی ساتھ ہو پھر تو مزے ہیں۔ بچے بھی ساتھ ہوں، پھر سبحان اللہ، سونے پہ سہاگہ۔ پھر کون روکے گا؟ میرے خیال میں خواتین ناراض نہ ہو جائیں لیکن بات ایسی ہے۔ مطلب اس سے میں شرماتا نہیں ہوں۔ وہ ہمارے ساتھ گھر والے جاتے ہیں نا تو ہم تو راستے پہ جاتے ہیں، بعض دفعہ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کون سے راستے سے ہم گزرے ہیں اور کیا اس میں تھا لیکن یہاں آ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ فلاں جگہ یہ چیز پڑی ہوئی تھی، فلاں جگہ یہ چیز پڑی ہوئی تھی، فلاں جگہ یہ چیز پڑی ہوئی تھی۔ مطلب ظاہر ہے ان کا پورا ایک نظام ہے۔ ان کے نفس کا ایک خواہش ہے۔ اور وہ ظاہر ہے ان کو بہت مجبور کرتی ہے۔ لہٰذا مطلب جو ہے نا وہ یہ بھی لے لو، یہ بھی لے لو، یہ بھی لے لو۔ نتیجتاً کیا ہوتا ہے؟ اب دس ہزار کی آپ کی سکت ہے اور آپ نے پچیس ہزار کا سودا کر لیا تو کیا خیال ہے؟ پندرہ ہزار روپے آسمان سے برسیں گے؟ وہ بن جائے گا سود۔ تو آپ سودی نظام میں پھنس گئے نا؟ اور نہ جانتے ہوئے پھنس گئے، مطلب بغیر ارادے کے پھنس گئے۔

بس یہی طریقہ ہے۔ تو اس کریڈٹ کارڈ کا اس کے ساتھ مسئلہ تھا۔ سودی نظام میں تو برکت نہیں ہوتی نا؟ تو بہرحال یہ اسی کی وجہ سے وہ سارا کچھ اس کو نقصان ہو گیا تھا۔ تو میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ انسان کا جو طبعی نظام ہے، وہ نفس کا ہے۔ لہٰذا نفس کی خواہش کو ٹھکرانا آسان نہیں ہے۔ اس کو ٹھکرانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لیے طریقہ کار کیا ہو گا؟ یہ یہی دو آیتیں ہیں۔ کہ جو ہے نا محبت اور خوف۔ یہ دو چیزیں ہیں، sources ہیں۔ کہ محبت اللہ کی بڑھاؤ۔ اتنا بڑھاؤ کہ باقی محبتیں ماند پڑ جائیں۔ لہٰذا جب آپ کی محبت زیادہ ہو گی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو آپ کو جو چیز جتنا بھی پسند ہے، آپ دیکھیں گے حلال بھی ہے یا نہیں؟ یا حلال طریقے سے آ رہا ہے یا نہیں؟ کہیں کسی اور چیز کا حق تو نہیں مارا جا رہا؟ آپ اس پر سوچیں گے۔ آپ اس چیز کے فضائل پہ نہیں سوچیں گے۔ آپ اردگرد کے مسائل پہ سوچیں گے کہ مسائل کیا ہیں؟ اس کو لینے کی وجہ سے مجھے کیا کیا مسئلے پیش آ سکتے ہیں۔ تو آپ بچ جائیں گے۔ آپ اس طرح نہیں کریں گے۔ ایک تو محبت کا سودا ہے۔ اللہ کے ساتھ محبت اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت۔ یہ ہے بہت بڑی چیز۔ دوسری چیز خوف ہے۔ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ (النازعات: 40-41)۔ اور جو بھی آدمی بھی اس بات سے ڈر گیا کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ حساب دینا ہے۔ تو اور اپنے نفس کو روک لیا ان باتوں سے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہے۔ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ۔ پس ان کا ٹھکانہ کیا ہے؟ جنت ہے۔

تو یہ بات ہے کہ اگر ہم لوگ یہ کام کر لیں تو پھر ہو گا تو اب کیسے کریں ہم؟ محبت کو بڑھانے کے لیے ذکر ہے۔ محبت کو بڑھانے کے لیے ذکر ہے اور اہلِ محبت کی صحبت ہے، یعنی ان کے ساتھ رابطہ اور تعلق ہے۔ یہ جو عادتیں ٹرانسفر ہونا اور ایک دوسرے پہ اثر ہونا، یہ مسلمہ بات ہے نفسیاتی طور پر۔ کہتے ہیں ایک پادری اور ایک ایتھیسٹ جو خدا کو جو نہیں مانتا، دہریہ۔ ان کے درمیان مناظرہ ہو گیا۔ مناظرہ کئی دن چلتا رہا۔ جب مناظرہ ختم ہوا تو پادری دہریہ بن چکا تھا اور دہریہ جو ہے نا وہ عیسائی ہو گیا۔ ایک دوسرے پہ اثر کر لیا۔ ٹھیک ہے نا؟ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے کہ انسان ایک دوسرے پہ اثر کرتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ہر آدمی دوسرے آدمی سے چوری کرتا ہے۔ چوری سے مراد یہ ہے کہ وہ اس کے ارادے کے بغیر اس سے لیتا ہے کیونکہ چوری کیا ہوتا ہے؟ یعنی اجازت تو اس کی نہیں ہوتی اور دوسری بات یہ ہوتی ہے اس کو پتہ بھی نہیں چلتا بعض دفعہ کیونکہ ڈاکہ تو پتہ چلتا ہے، چوری کا تو بعد میں پتہ چلتا ہے نا؟ تو ہر آدمی دوسرے سے چوری کرتا ہے، کیسے کرتا ہے؟ وہ یہ بات ہے کہ عادتیں جو ہوتی ہیں، مثال کے طور پر کسی میں اچھی بات ہوتی ہے تو جو جس میں اچھی بات نہیں ہوتی اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اس کی اچھی باتیں اس میں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کی بری باتیں اس میں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ دونوں ساتھ چلتے ہیں۔ اس کی بات آسان مثال جو ہے وہ یہ ہے کہ ایک نل میں گرم پانی آتا ہے اور اس کے اوپر دوسرا نل ہے، مطلب اس کے اردگرد وہ اس میں ٹھنڈا پانی ہے۔ تو جب دونوں پائپوں سے پانی باہر نکلے گا تو اس end پر جو گرم پانی کا ٹمپریچر ہے، اس end پر گرم پانی کا ٹمپریچر کم ہو چکا ہو گا۔ اور اس end پر جتنا ٹھنڈا پانی کا ٹمپریچر ہے اس end پر پانی کا ٹمپریچر بڑھ چکا ہو گا۔ یعنی ٹھنڈا پانی کچھ گرم ہو چکا ہو گا اور گرم پانی تھوڑا سا ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔ یہی مطلب ایک چیز ہے۔

یہ اتنا بڑا زبردست اصول ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ کیا؟ سن لیں۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ تبلیغی جماعت کے بڑے حضرات میں سے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں وہ بانی تبلیغ، بانی تبلیغ نہیں تھے، اس سے پہلے شروع ہو گیا تھا لیکن بہت بڑے آدمی تھے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے۔ اس کو بہت فروغ دے دیا۔ تو خیر حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ملفوظ ہے حضرت کا، میں جب میوات جاتا ہوں گشت کے لیے تو صلحاء کی جماعت کو اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ یعنی اپنی حفاظت کے لیے کہ مجھ پر برا اثر نہ ہو جائے۔ صلحاء کی جماعت کو اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ پھر بھی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی وجہ سے میرے دل پر اثر ہو جاتا ہے۔ اس اثر کو دور کرنے کے لیے میں رائے پور شریف کی خانقاہ جاتا ہوں یا سہارنپور شریف کی خانقاہ جاتا ہوں یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ اب سنیں۔ اب دیکھو جا کدھر رہے ہیں؟ گشت کے لیے جا رہے ہیں۔ جو نیک کام ہے۔ صلحاء کی جماعت کے ساتھ جا رہے ہیں لیکن interaction کن لوگوں سے ہو رہی ہے؟ جو دوسرے لوگ ہیں۔ اب ان کو تو فائدہ ہو رہا ہے جن کے ساتھ مل رہے ہیں لیکن ان کا اثر ان پر ہو رہا ہے۔ اب چونکہ وہ بہت حساس تھے ان کو ذرا پتہ چلتا تھا۔ پتہ چلتا کہ میرے دل پہ اثر ہو گیا۔ ہر ایک کو اثر پتہ نہیں چلتا۔ بھئی سفید کپڑے پہ داغ لگتا ہے تو پتہ چلتا ہے نا بھئی، کالے کپڑے پہ داغ لگے تو اس کا کیا پتہ چلے گا؟ تو وہ مطلب یہ ہے کہ وہ ذرا یہ بات تھی۔ حضرت کو پتہ چل جاتا تھا۔ لہٰذا پھر وہ یہ کرتے تھے۔

اب آج کل اس چیز کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ ہر ایک آدمی کو جوش ہوتا ہے کہ میں دین پھیلاؤں۔ تو ٹھیک ہے، جوش تو اچھی، اچھی بات ہے۔ لیکن اپنی حفاظت بھی تو کرو نا؟ بھئی اگر کوئی لعل وغیرہ گر جائے کسی نالی میں، اس کو اٹھانا تو ضروری ہے کیونکہ نہ اٹھائیں گے تو بہت بڑا نقصان ہے۔ لیکن اگر آپ اس کو اٹھانے کے لیے اندر جائیں گے نالی کے تو پیر تو خراب ہوں گے نا، کپڑے بھی خراب ہوں گے۔ تو اس کے لیے آپ کے پاس صابن بھی ہونا چاہیے، تولیہ بھی ہونا چاہیے، پانی بھی ہونا چاہیے، انتظام ہونا چاہیے نا تاکہ پھر آپ اپنے آپ کو صاف کریں۔ ورنہ بیماریاں آپ کو لگ جائیں گی۔ یہ ڈاکٹر حضرات یہ جو کرتے ہیں تو اپنے آپ کی کتنی protection کرتے ہیں۔ پوری کوشش کرتے ہیں۔ تو اسی طریقے سے ہم لوگ اگر نیکی کا کام کرتے ہیں تو وہ تو اچھی بات ہے، مبارک ہے لیکن اپنی حفاظت کے ساتھ ہو۔ اپنی حفاظت کے ساتھ۔ خیر یہ بات تو بہت آگے چلی گئی۔ میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اس صحبتِ صالحین کے ذریعے سے، بالخصوص ان لوگوں کی صحبت سے جن کو اللہ کے ساتھ محبت ہو اور وہ محبت طبعی و حسی ہو۔ عقلی محبت جو ہوتی ہے وہ تو اس کا پتہ نہیں چلتا۔ لیکن طبعی محبت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا پتہ چلتا ہے، حسی محبت ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھنے سے وہ آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ آپ میں بھی وہ چیز آ جائے گی۔ اس میں آپ میں بھی آ جائے گی۔ اب دیکھو ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے گئے ہیں کسی اور جگہ میں، غالباً سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ اور نوالہ ہاتھ سے گر گیا۔ تو سنت طریقہ یہ ہے کہ اس کو اٹھا کے صاف کر کے کھا لیا جائے۔ تو اس کو اٹھا کے صاف کر کے کھانا چاہتا تھا۔ کسی نے کان میں کہا کہ یہاں کے لوگ اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ یہاں کے لوگ اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ تو حضرت نے ویسے تو اس طرح آہستہ سے اٹھا کے کھا لیا ہوتا لیکن جب حضرت کو پتہ چلا کہ یہ نہیں، یہ نہیں اچھا سمجھتے تو اس طرح لہرا کے اٹھا کے منہ میں لے گیا کہ ان بے وقوفوں کے لیے میں حضور ﷺ کی سنت کو چھوڑوں گا؟ یہ کیا چیز ہے؟ یہ حسی محبت ہے۔ نظر آ رہا ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ کیا بات ہے۔ یعنی حضور ﷺ کی محبت کی وجہ سے وہ باقی لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کر رہے تھے۔ یہ بات ہے۔

تو ایسے حضرات کے ساتھ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے اندر یہ چیز آ جاتی ہے۔ نتیجتاً سبحان اللہ! اس محبت کی وجہ سے پھر آپ کے اندر بھی تبدیلی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اور یہ فطری بات ہے۔ تو ایک راستہ تو ہمارے لیے کیا ہے؟ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت کا ہے۔

دوسرا راستہ خوف کا ہے۔ کہ آپ کو اَن دیکھی چیزوں کا جو بتایا گیا ہو، اس کا خوف محسوس ہونے لگے۔ دیکھیں کورونا جہاں نہیں بھی تھا لیکن آواز گئی تھی نا؟ تو لوگ کتنے گھبرائے ہوئے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے تھے۔ اور دور دور رہتے تھے۔ نماز میں بھی وہ بتاتے تھے بھئی فاصلہ کرو۔ یہ ساری کچھ انتظامات کس وجہ سے کیے؟ ہر ایک کو خوف تھا کہ کہیں مجھے کورونا نہ ہو جائے۔ اب کورونا جس کو نہیں ہوا تھا اس نے تو نہیں دیکھا تھا۔ اور عین ممکن ہے ان میں سے بعض نے کورونا کا مریض بھی کوئی نہ دیکھا ہو۔ ضروری تو نہیں کہ سارے لوگوں نے دیکھا ہو۔ لیکن وہ سنی ہوئی باتوں پر اتنا بڑا زبردست یقین آ گیا تھا کہ ہر ایک اس سے ڈر رہا تھا۔ بلکہ میں کہتا ہوں جس گھر میں کورونا ہو چکا ہے ان کا خوف کافی کم ہو چکا ہو گا۔ بس انہوں نے تو دیکھ لیا نا تو وہ خوف ان کا اتنا نہیں رہا۔ جنہوں نے نہیں دیکھا تھا ان کا خوف زیادہ تھا۔ نتیجتاً وہ اس سے وہ ڈرتے تھے۔ تو اب یہ یہاں کے لوگوں کی سنی ہوئی باتیں ہیں، یہاں کے لوگوں کی سنی ہوئی باتیں ہیں جس کا بعد میں پتہ چلا کہ یہ باقاعدہ دہشت پھیلائی گئی تھی۔ اس کے اپنے کچھ سیاسی مقاصد تھے۔ اس وجہ سے تھا سارا کچھ۔ لیکن پیغمبر جو بات لاتا ہے اس میں تو کوئی سیاسی مقصد نہیں ہوتا۔ اس میں تو کوئی ڈپلومیسی نہیں ہوتی۔ وہ تو خالص بات کرتے ہیں جو اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ تو آپ ﷺ نے اگر جنت کا حال بیان کر دیا ہے، دوزخ کا حال بھی بیان کر دیا ہے، قبر کی حالت بھی بیان کر دیا ہے، وہاں کے تکالیف کے بارے میں باتیں کی ہیں، یہ سب احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ تو یہ کس لیے ہیں؟ تاکہ ہم اس سے اثر لے لیں۔

تو ان باتوں پر ہمارا عقلی یقین اتنا زیادہ آ جائے۔ ایک ہوتا ہے عقلی ایمان، ایک ہوتا ہے عقلی یقین۔ کورونا کی باتیں سننے سے ہمارا ایمان نہیں تھا اس پر، ہمارا کیا تھا؟ یقین تھا۔ اور یقین بھی علم الیقین تھا۔ علم الیقین تھا، کوئی عین الیقین بہت سارے لوگوں کو نہیں تھا۔ جنہوں نے نہیں دیکھا تھا تو ان کو عین الیقین نہیں تھا نا؟ علم الیقین تھا، اس کا اتنا اثر تھا۔ تو اگر آپ کو سبحان اللہ! آخرت کی باتوں پر علم الیقین ہو جائے، پھر اس سے بڑھ کر عین الیقین ہو جائے، پھر اس سے بڑھ کر حق الیقین ہو جائے، سبحان اللہ! پھر کیسے ہوں گے؟ پھر آپ ایسا کام کیسے کریں گے؟ دیکھو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات سنو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک دفعہ فاقہ کی شدت کی وجہ سے اپنے غلام سے پوچھا، کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا میرے پاس کچھ پیسے ہیں میں لے آتا ہوں۔ انہوں نے کہا اچھا لے آؤ۔ یہ بات تو ہے کہ غلام کی کمائی جو ہوتی ہے وہ آقا کی کمائی ہوتی ہے، یہ تو طے شدہ بات ہے۔ تو ظاہر ہے وہ ان کی اپنی چیز ہوتی ہے جیسے اپنے جیب میں کوئی چیز پڑا ہو، غلام ان کا جیب ہوتا ہے ایک قسم کا۔ تو ان سے کہا اچھا لے آؤ۔ وہ لے آئے۔ حضرت کو اتنی بھوک تھی کہ پوچھا بھی نہیں کہ یہ کس بنیاد پر ہے، وہ کیا چیز تھی، بس وہ کھا لی۔ اب جب کھا لیا تو ہوش آ گیا کہ پتہ نہیں کیا چیز تھی؟ ان سے پوچھا بھئی یہ کیا چیز کھلائی ہے تو نے؟ انہوں نے کہا میں نے اپنے جاہلیت کے دور میں کچھ جنتر منتر کیا تھا، اس کے پیسے ابھی مل گئے تھے۔ ان پیسوں سے میں نے آپ کو یہ چیز لا کے دی ہے۔ اب حضرت کا رنگ فق ہو گیا کہ یہ کیا ہو گیا؟ تو حضرت نے اپنے منہ کے اندر انگلیاں دے کر ان کو قے کرنا چاہا۔ اب قے کیسے ہو گا؟ اتنی بھوک کے ساتھ کوئی چیز کھائی ہو تو پھر واپس آتی ہے؟ بڑی مشکل، لوگوں نے تسلی بھی دی کہ حضرت آپ کو پتہ نہیں تھا، آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوا، یہ تو اس کی غلطی تھی۔ فرمایا نہیں۔ بھئی اگر اس سے بن گیا خون اور خون سے بن گیا گوشت تو اس گوشت کو جہنم سے جلایا جائے گا۔ تو میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اب یہ کیا چیز تھی؟ یہ حق الیقین تھا۔ سمجھ میں آ گئی نا بات؟ اب اگر ہمارا حق الیقین ایسا ہو جائے تو کیا ہم کوئی کام ایسا کر سکیں گے؟

دیکھو سود کھانا، جیسے ابھی میں نے مثال دی تھوڑی دیر پہلے کریڈٹ کارڈ کی۔ بینک کا ہوتا ہے سود۔ بہاولپور میں گیا تھا وہاں پر ایک بڑے مالدار آدمی نے ہماری دعوت کی۔ ہمارے دوستوں کی وجہ سے، کہ میں تو ان کو نہیں جانتا تھا، وہ جانتے تھے۔ ان سے بات کی، انہوں نے کہا جی ہم ناشتے کی دعوت کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ چلے گئے۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ میری بیوی جو ہے نا وہ میری کمائی سے نہیں کھاتی۔ یعنی وہ میں اگر اس کو کوئی چیز اپنے پیسوں سے لا کے دوں تو وہ نہیں کھاتی۔ وہ اپنے طور پہ arrange کر کے کھا لیتی ہے۔ مالدار عورت ہو گی، ظاہر ہے مطلب خاندانی طور پر۔ تو میں نے کہا کیوں؟ وہ کیوں نہیں کھاتی آپ کے مال سے؟ کہتی ہے تیرا مال حرام ہے۔ میں نے کہا تیرا مال کیوں حرام ہے؟ کیوں کہتی ہے؟ کہتے میں نے اپنے پیسے فکسڈ ڈپازٹ (fixed deposit) بنک میں جمع کیے ہیں۔ اب اس سے جو پیسہ آتا ہے میں وہ استعمال کرتا ہوں۔ تو میری بیوی کہتی ہے یہ تو سود ہے، تو میں اس سے کہتا ہوں میرے لیے ماں کا دودھ ہے۔ میں نے کہا آپ کیوں کہتے ہیں کہ یہ ماں کا دودھ ہے؟ کہتے ہیں دیکھو نا آج سود سے کون خالی ہے؟ کیا بینکوں سے لوگ تنخواہیں نہیں لیتے؟ تو بینک تو سارے سود والے ہوتے ہیں تو تنخواہیں تو سودی ہو گئیں۔ میں نے کہا حضرت ایک بات سنیں، کہا۔ ایک بہت بڑا subject ہے، اس کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، جو فقہ جاننے والے ہیں ان سے پوچھو کہ کیا چیز کیا ہے؟ میں نے کہا بات ایسی ہے کہ جس چیز پر آپ کا بس نہ چلے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 286) کے قانون سے وہ آپ سے خارج ہے۔ آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ تو بینکوں کا کوئی نظام ہمارا، ہمارے بس میں نہیں ہے، لہٰذا ہم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ وہ بینک سے تنخواہ آپ کیوں لیتے ہیں؟ وہ بینک والے تو تنخواہ نہیں دیتے نا، وہ صرف بینک کے ذریعے سے آتا ہے۔ تو وہ آپ کے بس میں ہے نہیں کہ آپ اپنے کمپنی کو یہ نہیں کہہ سکتے، اپنے کسی ادارے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے بینک کے ذریعے سے تنخواہ نہ دو۔ وہ تو اسی طریقے سے دیتے ہیں لہٰذا ان کا طریقہ کار ہے۔ تو وہ آپ کے بس میں نہیں ہے، لہٰذا آپ پر اس کا وہ نہیں ہے، وہ اس کا پوچھا جائے گا کن سے؟ حاکموں سے۔ اچھا، لیکن یہ جو آپ شرط کرتے ہیں نا سودی پیسہ یعنی مطلب باقاعدہ آپ دونوں کی جانب ایک، سود تب بنتا ہے جب دونوں کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ ہو۔ یعنی ایک کہتا ہے میں مجھے آپ یہ دیں گے تو آپ کہتے ہیں اچھا میں آپ کو دوں گا اور اس بنیاد پر آپ قرض لیں گے۔ تو کیا ہو گا؟ یہ سود بن جائے گا۔ تو اب آپ کا فکسڈ ڈپازٹ (fixed deposit) جو آپ نے رکھا ہے تو بینک نے آپ کو کہا ہے کہ میں آپ کو فکسڈ اتنا پیسہ دوں گا۔ آپ نے اس بنیاد پر رکھا ہے، یہ سود ہے۔ اور یہ حرام ہے کیونکہ آپ change کر سکتے ہیں، آپ ابھی پیسے نکالیں بس آپ کے پاس اختیار ہے۔ نکال لیں۔ کس نے آپ کو روکا ہے؟ تو میں نے کہا یہ جائز نہیں ہے اور وہ جائز ہے کیونکہ وجہ ایک وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ کہتے جزاک اللہ، آج میں اس بات کو سمجھ گیا۔ مجھے آج پتہ چلا، ورنہ دیکھو نا یہ تصویر حرام ہے لیکن پاسپورٹ پر مولویوں کے، بزرگوں کے، سب کے، حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ کی بھی تصویر پاسپورٹ پہ لگی ہوئی تھی نا؟ ہاں اس طرح جو ہے نا وہ حضرت مولانا، یہ سب لوگوں بزرگوں کی تصویریں جو نیٹ پر ڈالی ہوئی ہیں، یہ کہاں سے لی ہیں؟ پاسپورٹوں سے لی ہیں۔ ورنہ وہ تصویر تھوڑی نکالتے تھے۔ اب چونکہ اس کے لیے ضروری تھی، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ بغیر اس کے آپ جا نہیں سکتے لہٰذا اس کی اجازت ہے تو وہ اجازت مشروط ہے۔ ویسے آپ اس کو بنیاد بنا کے تصویریں نکلوانا شروع کر لیں۔ یہ ایک الگ chapter ہے۔ ہاں جی! تو ہر چیز کا اپنا اپنا، تو میں نے کہا بھئی فقہ جو ہے نا یہ بہت بڑا subject ہے، اس کو ہر ایک آدمی نہیں handle کر سکتا۔ لہٰذا جو handleکر سکتے ہیں ان سے پوچھو، وہ آپ کو بتائیں گے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ وہ پھر الحمدللہ اس کو بات سمجھ میں آ گئی۔

تو اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ خوف، خوف ایک بہت بڑا سائق ہے، ہانکنے والا ہے حق کی طرف۔ تو اگر آپ اپنی عقل سے، کیونکہ علم عقل میں آتا ہے، علم کا ذریعہ کون سا ہے؟ عقل ہے، مطلب عقل میں علم آتا ہے۔ تو جو علم آپ کو آیا ہے قرآن اور سنت کا، آپ کے عقل نے اس کو لے لیا ہے۔ اب اس عقل کے ذریعے سے آپ کو معلوم ہے کہ یہ چیز اس کا یہ اثر ہو گا، اس سے آپ کو جو خوف لاحق ہو گیا یہ ایمانی خوف ہے جو آپ کو لاحق ہو گیا اور اس ایمانی خوف کو اگر آپ بڑھا دیں تو آپ کو پھر ماشاءاللہ اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں کر سکتے ہیں یا تو عقلی ایمانی بڑھا دو جو آپ کو ہر موقعے پہ گائیڈ کرے اور ساتھ نفس کی جو خواہشات ہیں وہ دبا دو تاکہ اس کے اندر اتنا زور نہ رہے۔ نفس ایک ایسی چیز ہے کہ آپ اس کی مانتے جائیں تو یہ مزید مانگے گا۔ اور آپ اس کو دباتے جائیں تو دبتا جائے گا۔ اس پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں اکثر کہ کسی ملازم نے اپنے آقا سے کہا کہ میری تنخواہ بڑھا دو ورنہ، تو انہوں نے کہا کیا کرو؟ انہوں نے کہا پھر اسی پہ گزارہ کروں گا۔ تو بس بات یہ ہے کہ ہمارا جو نفس ہے یہ بھی ایسے ہی ہے۔ یہ بہت زبردست دھمکاتا ہے لیکن آپ کہتے کچھ بھی نہیں، کوئی پرواہ نہیں، کرنا پڑے گا تجھے۔ روزے میں کیا ہوتا ہے؟ صبح جب انسان روزہ رکھتا ہے بالخصوص پہلا روزہ تو انسان کہتا ہے پتہ نہیں کیا ہو گا، وہ ہو گا۔ لیکن آپ سمجھاتے ہیں بھئی ہو گا تو یہی، روزہ تو رکھنا ہے، چاہے آپ کچھ بھی کہیں۔ روزہ تو میں نے رکھنا ہے۔ تو ماشاءاللہ روزہ رکھ لیتے ہیں آدمی، وہ ایک دن گزر جاتا ہے، پھر دوسرا دن، پھر سب عادی ہو جاتے ہیں۔ یعنی ابتداء میں پریشانی ہوتی ہے، اس کے بعد پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ پھر آدمی، بلکہ باڈی ایڈجسٹ ہو جاتی ہے۔ باڈی ایڈجسٹ ہو جاتی ہے۔ یہ بھی بات ہے۔ باڈی کیسے ایڈجسٹ ہوتی ہے؟ یہ (intermittent fasting) آج کل بہت چلتا ہے نا، یہ آج کل ڈاکٹر لوگ (intermittent fasting) کراتے ہیں۔ یہ ایسا عجیب گیم ہے کہ جن لوگوں نے شروع کیا ہے ان سے پوچھو۔ ابتداء میں عام لوگ ہوتے ہیں، کھانے کے وقت کھانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ ان کے سامنے کوئی کھائے تو ضرور اس کی بھی طبیعت ہوتی ہے کہ میں بھی کھاؤں۔ لیکن (intermittent fasting) کا کوئی عادی ہو جائے مثال کے طور پر عشاء کے وقت وہ نہیں کھاتا، عشاء کے وقت اس کے سامنے کھائیں کوئی پرواہ نہیں ہو گی اس کو۔ اس کو طلب ہی نہیں ہو گی۔ چاہے وہ کتنی اچھی چیز کھا رہا ہو، اس کو طلب ہی نہیں ہو گی۔ یہ کیا چیز ہے؟ باڈی ایڈجسٹ ہو گئی نا؟ باڈی ایڈجسٹ، حتیٰ کہ بعض لوگ آٹھ آٹھ، نو نو دن تک صرف پانی پیتے ہیں۔ پانی پیتے ہیں، پانی پیتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ بھئی کیا ہے؟ بھئی آپ کو خواہش ہوتی ہے؟ نہیں بالکل ظاہر بات ہے۔ وہ چلتا رہتا ہے۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ باڈی ایڈجسٹ ہو جاتی ہے۔ تو اگر باڈی ایڈجسٹ ہو سکتی ہے تو نفس باڈی سے ہی تو ہے نا؟ تو وہ بھی ایڈجسٹ ہو جاتا ہے۔ تو یہ تو بہت بڑا ثبوت ہے تصوف کا۔ کہ (intermittent fasting) پر باڈی ایڈجسٹ ہو سکتی ہے تو آپ کے ان تمام نفسانی خواہشات پر باڈی ایڈجسٹ ہو سکتی ہے نا؟ آپ کھانے پہ ایڈجسٹ کر لیں، آپ سونے پہ ایڈجسٹ کر لیں، آپ ملنے جلنے پہ ایڈجسٹ کر لیں، یہ سب چیزیں مطلب، آپ بولنے پر ایڈجسٹ کر لیں۔ مطلب بولنے پر، ایک آدمی بہت زیادہ بولتا ہے۔ ایک صاحب تھے مجھے کہا کہ جی اس کو خواب آیا تو خواب میں اس کو گویا کہ گائیڈ کیا گیا کہ اب تمہیں اختیاری مجاہدہ کرنا چاہیے۔ مجھے خود ہی کہا کہ اب بتائیں کہ میں کیا کروں؟ میں نے کہا تم زیادہ بولتے ہو، اپنا بولنا کم کر دو۔ ہر جگہ نہ بولا کرو۔ بس یہ بات ہے۔ اب دیکھو سبحان اللہ! یہ مجاہدہ ہے، لوگ شاید اس کو مجاہدہ نہ مانیں لیکن بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ جن کو بولنے کی عادت ہوتی ہے اس کی بولتی بند کرو تو وہ تو کافی، اب اگر کسی کا بولنا بند ہو جائے مطلب کم ہو جائے، کنٹرول ہو جائے تو غیبت کنٹرول ہو گیا یا نہیں؟ وہ کہتے ہیں نا پہلے تولو پھر بولو۔ بھئی تولنے کے لیے آپ کے پاس وقت تو ہو نا؟ اگر مسلسل آپ بولتے جائیں گے تولیں گے کب؟ تو آپ خاموش رہنا سیکھیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے مَنْ صَمَتَ نَجَا۔ جو خاموش ہو گیا، وہ نجات پا گیا، سبحان اللہ!

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری باتیں کرنے کی ہیں، اسی کو ہم تصوف کہتے ہیں۔ اب پتہ نہیں تصوف سے لوگ کیوں ڈرتے ہیں؟ یہی تصوف ہے۔ اور ظاہر ہے اس کا جو نیت ہے وہ بہت اعلیٰ ہے۔ وہ نیت کیا ہے؟ میں اللہ کا بن جاؤں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے فرماتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں ذکر سے ہمیں فائدہ نہیں ہوتا۔ بھئی فائدہ کیسے ہو؟ آپ ذکر کی نیت نہیں کرتے۔ تو لوگوں نے پوچھا حضرت ذکر کی نیت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا اللہ کی محبت کو حاصل کرنے کی نیت۔ اللہ کی محبت کو حاصل کرنے کی نیت۔ تو اگر اللہ کی محبت کو کوئی حاصل کرنے کی نیت سے ذکر کرتا ہے، سبحان اللہ! اس کو اس کے ذریعے سے اللہ کی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ آپ کی طرف سے ایک کوشش کا اظہار ہو گیا۔ اور اس وقت اللہ پاک کو آپ پہ پیار آ گیا کہ آپ ایک کوشش کر رہے ہیں تو کیسے مطلب؟ تو پھر اللہ جل شانہ اس کو اپنی طرف سے دے دیتے ہیں۔ تو آپ اپنا کام کریں۔ ہاں اس کے لیے طریقے جو ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں بنانے چاہیے کیونکہ ظاہر ہے اس یہ جیسے ہمارا medical field ہے، اس میں اتنے سارے ٹیسٹ ہوتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں، پھر بھی ڈاکٹر دھوکا ہو جاتا ہے، غلطی ہو جاتی ہے اس سے۔ تو یہاں تو وہ چیزیں ہے ہی نہیں اور field اس سے نازک ہے کیونکہ وہ جسم کی چیز ہے، یہ روح کی چیز ہے۔ تو اب بتاؤ کہ یہ کتنا نازک کام ہے۔ تو اس میں کوئی اس طرح گڑبڑ فیصلہ کر سکتا ہے؟ نہیں۔ اس لیے جن کو اجازت نہ ہو ان چیزوں کی، وہ ان سے حاصل کریں جن کو اجازت ہو۔ یعنی ان سے پوچھا کریں۔ اپنی طرف سے کوئی کام نہ کرے۔ اپنی طرف سے کوئی کرے گا، نقصان اٹھائے گا۔ نقصان اٹھائے گا اور نقصان کون سا اٹھائے گا؟ یہ depend کرتا ہے ہر ایک کے اپنے اپنے حالات پر۔ کس قسم کا نقصان، یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے۔ لیکن یہ بات ہے کہ نقصان اٹھائے گا۔ تو بس ہم سب کو اس بات کو پکا کرنا چاہیے کہ ہم لوگ اپنی اصلاح کریں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں بڑھانے کے لیے کوشش کریں، ذکر اذکار محبت کے ساتھ کریں، اس میں نیت اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کی کریں۔ اور عقلی ایمانی کو ماشاءاللہ زیادہ موثر کر لیں جس میں اس کا علم الیقین سے ترقی ہو کر حق الیقین تک ہم پہنچائیں۔ پھر اس کے بعد ان شاءاللہ العزیز ہمارے لیے اعمال آسان ہو جائیں گے۔ اس کا آسان طریقہ ہے کہ اپنے شیخ سے پوچھ پوچھ کے چلیں۔ جو وہ بتائے کرنے کو، وہ کریں۔ اور جس چیز سے وہ منع کرے تو اس سے منع ہوں۔ یہی چیز آپ کو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل کرنے تک لے جائے گا۔ کیونکہ شریعت کیا چیز ہے؟ اللہ پاک نے کچھ چیزوں سے منع کیا ہے اس سے منع ہونا اور جن چیزوں کے کرنے کا حکم دے ان کو کرنا۔ چیز تو وہی ہے۔ تو آپ شیخ سے شروع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی، یعنی شیخ کے کہنے پر عمل کرتے ہیں تو اس سے آپ اللہ کے کہنے پہ عمل کرنے تک پہنچ جاتے ہیں۔ بس یہی بات ہے۔ اللہ ہمیں نصیب فرمائے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ،وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔ اللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وحبیبک مُحَمَّدٌ ﷺ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وحبیبک مُحَمَّدٌ ﷺ۔ أَنتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ۔ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ، وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔

اصلاحِ نفس کے دو بنیادی اصول: محبتِ الٰہی اور خوفِ خدا - خواتین کیلئے اصلاحی بیان