عشقِ مجازی کا انجام اور عشقِ حقیقی کی عظمت

درس کی اصل تاریخ: 28مئی 2024 حصہ دوم - منظوم اردو مثنوی شریف دفتر اول حکایت نمبر 9

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

گزشتہ درس سے پیوستہ

شیخ سعدی بوستان میں فرماتے ہیں کہ پوست پر دلدادہ ہونے والا انسان کیا، نرا حیوان ہے۔

مطلب جو ظاہر کو دیکھتا ہے۔ انسان تو اندر کو دیکھتا ہے، دیکھتا ہے کہ پیچھے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کو شعور دیا ہوا ہے، اس کو معلوم ہوتا ہے کہ بھئی یہ چیز میرے لیے نقصان دہ ہے تو اس کو پھر نہیں استعمال کرتا، اس کو پتہ ہوتا ہے۔


27

کاش ہوتی یہ ہوس بھی پائیدار

عشق کو بدنام نہ کرتی یہ عار

ہوس تو بالکل پائیدار نہیں ہوتا نا، یہ تو بس instant ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ اس ظالم نے عشق کو بدنام کروا دیا۔ کیونکہ لوگ عشق اور ہوس میں فرق نہیں کر سکتے۔ اب جو مجنوں تھا نا، اصلی مجنوں، اس کے بارے میں واقعات بہت ہیں عربی میں۔ یہ عرب میں تھے۔ تو یہ جو ہے نا مطلب لیلیٰ اس کے لیے دودھ کا پیالہ بھیجا کرتی تھی چپکے سے۔ تو راستے میں کوئی اور مجنوں بیٹھا ہوا تھا، وہ بنا بیٹھا تھا۔ تو وہ دودھ کا پیالہ وہ پی جاتا۔ تو لیلیٰ کو پتہ چلا کہ اصلی مجنوں کو تو نہیں مل رہا تو اس نے کہا کہ وہ جا کر کہہ دو اس مجنوں کو کہ آپ یہ دودھ پی لیں اور اس میں جو اپنا خون ہے نا وہ بھرا ہوا، آپ کے لیلیٰ کو چاہیے تو وہ بھیج دیں، بھیج دو۔ تو وہ جب اس کو کہہ دیا، کہتے ہیں اوہ خون والا مجنوں ادھر بیٹھا ہوا ہے۔ مطلب ان کے پاس چلے جاؤ۔ تو مطلب یہ ہے کہ یعنی جو ہوتا ہے نا اس قسم کا، وہ بدنام کر لیتا ہے عشق کو۔

اس شعر میں اشارۃً اس امر کی تمنا کی ہے کہ وہ عشق جو لونڈی کو تھا مجازی نہ ہوتا بلکہ حقیقی ہوتا۔ وجہ اشارۃً ” پائیدار “ کے کلمہ میں ہے۔ یعنی وہ عشق جو ہر چند کہ رنگ و بو (یعنی صورت پرستی) پر موقوف ہونے کے باعث ننگ و عار کا موجب تھا مگر کاش دائمی و پائیدار ہی ہوتا تاکہ عشق کے نام پر مذمومیت کا دھبہ نہ لگتا اور ظاہر ہے کہ پائیداریِ عشق کے لیے پائیداریِ معشوق ضروری ہے اور ایسا معشوق صورت (مظہر) نہیں ہو سکتی جو فانی ہے بلکہ خالقِ صورت (ظاہر) ہو سکتا ہے۔ اگر دوسرے مصرعے میں ضمیر کا مرجع زرگر کو قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کاش یہ عشق باوجود ننگِ انسانیت ہونے کے زرگر کی موت پر زائل ہو جانے والا نہ سمجھا جاتا۔ تاکہ زرگر کو مارنے کی یہ تدبیر نہ کی جاتی بلکہ وہ دائمی ہوتا۔ تو پھر کنیزک کی سلامتی کے لیے زرگر کی سلامتی بھی مطلوب ہوتی۔

28

خون اس کی آنکھ سے بہنے لگا حسن اس کا دشمنی کرنے لگا

اب یہ کچھ اور بیان شروع ہو رہا ہے۔ اب یہ مظلومیت کی ایک داستان وہ زرگر خود تصور میں بیان کر رہا ہےکہ میں کیسا ہوں مطلب دیکھو میرے حسن نے میرے مجھے نقصان پہنچایا ہے۔

29

خون اس کی آنکھ سے بہنے لگا

حسن اس کا دشمنی کرنے لگا

30

مور کا دشمن بنے خود اس کا پر

مور کا شکار لوگ کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ اس کا پر بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ اسی نے اس کو شکار کروایا۔

مار ڈالے شاہ کو اس کا کروفر

یہ دو نظیریں ہیں شعر بالا کے مضمون کی یعنی مور کے پروں کی خوبصورتی اس کی ہلاکت کے باعث ہوتی ہے اور بادشاہ کی شان و شوکت ہر چند اس کے لیے قابلِ فخر چیز ہے پر جب کوئی دوسرا بادشاہ بہ وجہ حسد یا اس کی بڑھتی ہوئی سلطنت کے خوف سے اس کی ہلاکت کی تدبیر کرتا ہے تو وہی شان و شوکت ہی اس کی بربادی کا باعث بن جاتی ہے۔

یہ اکثر میں عرض کرتے رہتا ہوں بلکہ خود سوچتا رہتا ہوں کہ بعض لوگوں کے لیے ان کی صلاحیتیں مصیبت بن جاتی ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے ذہانت مصیبت بن جاتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے مالداری مصیبت بن جاتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے خاندان کا شریف ہونا مصیبت بن جاتا ہے۔ یعنی یہ اونچی چیزیں ہیں، اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں لیکن وہ مصیبت بن جاتی ہے۔ اب بنی اسرائیل کے لیے ایک نسب ہی مسئلہ بن گیا تھا نا؟ ان کے لیے تو نسب مسئلہ بن گیا۔ اس طریقے سے یہ جو یوسف علیہ السلام کے لیے خوبصورتی مسئلہ بن گیا تھا۔ اس طرح جو بڑے بڑے بادشاہ ان کو جو لوگوں نے مار ڈالا وہ ان کی بادشاہت کی وجہ سے، ان کے کروفر کی وجہ سے۔

31

جب وہ زرگر مرض سے بدحال ہوا

جسم گل جانے سے جیسے نال ہوا

نال وہ نہیں ہوتا وہ جو گھوڑے کو لگایا جاتا ہے۔ مطلب وہ بالکل جھک گیا۔ اب وہ کیا کہتا ہے؟

32

ہرن ہوں ناف سے میرے صیاد نے

خوں گرایا ظلم سے استاد نے

یعنی میری مثال ہرن کی ہے کہ مشکِ نافہ جو ہے نا وہ اس کو لینے کے لیے میرے ناف سے خون گرا دیا۔ اور مجھے نقصان پہنچا دیا۔ کیوں؟ کیونکہ میرے ساتھ یہ نعمت تھی۔

33

لومڑی ہوں اٹھے وہ پوستین واسطے کاٹنے سر میرا لوگ کمین گاہ سے

یعنی میں ایسی لومڑی کی طرح ہوں کہ جس کے پوستین کو پانے کے لیے لوگ کمین گاہ سے اٹھے اور انہوں نے میرا سر مار دیا، سر کاٹا۔

یہ اس کی پوستین جو ہوتی ہے ظاہر ہے وہ استعمال ہوتی ہے نا۔ تو واقعتاً مطلب ہے کہ۔۔۔ یہ نہیں ہوتا یہ جو مرغیاں ہوتی ہیں شیور ان کو تو صرف ذبح کرنے کے واسطے ہی کھلایا جاتا ہے نا۔ موٹے ہونے کے لیے تو ان کا موٹا ہونا ہی مصیبت ہے۔ وہ جلدی جلدی وہ grow ہوتی ہیں۔ تو بس وہ پھر ان کا اور کوئی کام ہوتا نہیں ہے۔ کہ ان کو تو چلنے پھرنے بھی نہیں دیا جاتا۔ بس پڑے پڑے موٹے ہو جاتے ہیں اور بس پھر جس مقصد کے لیے ہوتے ہیں اس مقصد کے لیے لائے جاتے ہیں۔ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ان کا۔

34

ہاتھی ہوں فیل بان نے کیا کر دیا

دانت واسطے خون میرا کر دیا

یہ نہیں ہے کہ جو ہاتھی دانت یہ بڑے قیمتی ہوتے ہیں۔ تو اس ہاتھی دانت کو پانے کے لیے فیل بان جو ہے وہ ہاتھی کو مار دیتے ہیں۔

35

مجھ سے کم کے واسطے ہے مارا مجھے

خوں میرا بدلے میں مارے اسے

اب یہ زرگر اپنے آپ کو سمجھ رہا ہے کچھ۔

یعنی زرگر گمراہ گزاف کے طور پر اپنے آپ کو ہرن اور جنگلی لومڑی سے اور کبھی ہاتھی سے تشبیہ دے کر اپنے قاتل کو کوس رہا ہے حتیٰ کہ بادشاہ کو بھی کہ اپنے سے کم رتبہ خیال کرتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ میں کنیزک کا معشوق ہوں اور بادشاہ اس کا عاشق ہے۔ والمطلوب افضل من الطالب یا یوں اعتذار ِنفس کے بک رہا ہے غرض آخر دم تک تقدیر الہی پر صبر و شکر اور دوائے زندگی کے وقت عجز و توبہ کے کلمات سے اس کی زبان پر نہیں آتے کہ اس ولی کے نزدیک مقبول ہو جاتا بلکہ متکبرانہ کلمات بول رہا ہے۔

یعنی یہ واقعتاً مطلب جو ہے نا انسان جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے وہ اخیر وقت تک مطلب اپنے عیب سے نہیں آگاہ ہوتا۔ اپنے عیوب سے آگاہی اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ جس وجہ سے بھی انسان کو حاصل ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ دوست وہ ہے جو آپ کو آپ کے عیب سے آگاہ کر لے۔ تو آپ کو فائدہ ہو مطلب آپ اس سے بچ جائیں اور جو آپ کو آپ کی خوبیوں کی طرف مطلب جو ہے نا بتائے کہ آپ کے اندر وہ پیدا ہو عجب پیدا ہو تو وہ آپ کا دشمن ہے۔ شیطان ہی عجب میں ڈالتا ہے نا؟ اور کون ڈالتا ہے تو شیطان ہمارا دشمن ہے یا دوست ہے؟ وہ ہمارے اندر یہ بات ڈالتا ہے کہ وہ تو تو بڑا قابل ہے، تو تو ایسا ہے، تو تو ایسا ہے۔ تو اس کے لحاظ سے پھر ہمیں گمراہ کرتا ہے۔


36

آج آئی ہے مصیبت مجھ پہ گر

کل کو خوار و زار ہوگا اس کا در

مطلب مجھے جو آج مار رہا ہے تو اس کا در کل خراب ہوگا۔ مطلب ظاہر ہے۔

زرگر پھر وہی دمِ واپسیں میں شیخی بگھار رہا ہے بلکہ طبیب پر اپنی مظلومی کی شامت پڑنے کا متوقع ہے۔ لیکن چونکہ اس کا قتل بالہامِ ربانی اور بمصلحتِ غیبی تھا۔ اس لیے قاتل پر اس کا کوئی وبال نہیں پڑ سکتا تھا۔ یہ محض زرگر کا اظہارِ تکبر ہے جو مرتے دم تک نہ گیا۔

37

سائہ دیوار گو ہووے دراز

پھر بالاخر اس کی جانب آئے باز

یعنی یہ شعر مقبول مولانا ہے۔ زرگر نے جو کہا تھا کہ

آج آئی ہے مصیبت مجھ پہ گر

کل کو خوار و زار ہوگا اس کا در

ہر چند کہ اس کا یہ قول خصوصِ واقعہ پر چسپاں نہیں کیونکہ طبیبِ غیبی نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ اس کو سزائے عاقبت ملنے کا خوف ہو سکتا مگر درجۂ عموم میں یہ بات حق ہے کہ آج کے اعمال کل کو نیک یا بد پاداش کا باعث ہوں گے۔

دیکھیے ایک ہوتا ہے تکوینی بزرگ، ایک ہوتا ہے تشریعی بزرگ۔ تشریعی بزرگ شریعت کو Followکرتے ہیں وہ اپنی رائے کو بالکل مطلب وہ جو ہے نا وہ کچھ نہیں کرتے۔ تو وہ شریعت کو Follow کرتے ہیں۔ اور تکوینی بزرگ جو ہوتے ہیں وہ اللہ تعالی کے امر کو نافذ کرتے ہیں۔ وہ بھی اپنی رائے کو دخل نہیں دیتے۔ اور اللہ تعالی کے تکوینی حکم کو نافذ کرتے ہیں۔ جیسے میں نے واقعہ بتایا تھا کہ مِنی میں آگ لگ گئی تھی۔ تو مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ خیمے میں رو رہے تھے مسلسل کہ یا اللہ معاف فرما، یا اللہ معاف فرما، یا اللہ معاف فرما۔ اور ایک مجذوب جو تھا وہ مقرر تھا اس پر۔ تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ جس طرف ہاتھ کرتا اس طرف آگ چلا جاتا۔ تو وہ حضرت کا جو رونا تھا وہ سن رہا تھا۔ تو وہ غصے سے کہہ رہا ہے فقیر محمد چپ ہو جاؤ میں نے سب کو جلانا ہے مجھے حکم ہے ان سب کو جلانے کا۔ اور حضرت اس کی پرواہ نہیں کر رہے تھے ان کو اپنی پڑی ہوئی تھی وہ رو رہے تھے مسلسل یا اللہ معاف فرما، یا اللہ معاف فرما، یا اللہ معاف فرما۔ وہ مسلسل رو رہا ہے۔ تو بس پھر ایک وقت کے بعد وہ مجذوب کا جو ہاتھ جو اس طرح اشارہ کرتا تھا وہ گر گیا نیچے۔ اور آگ جو ہے نا پہاڑ کی طرف چلی گئی اور پھر ختم ہو گئی۔ اللہ پاک نے معاف کر دیا مطلب جو مولانا فقیر محمد صاحب دعا کر رہے تھے۔

اب مولانا فقیر محمد صاحب تشریعی بزرگ تھے۔ اور مجذوب جو تھے وہ تکوینی بزرگ تھے۔ تو اس مجذوب کو کیا گناہ ہو رہا تھا لوگوں کے جلانے کا؟ اس کو تو گناہ نہیں ہو رہا تھا وہ تو مامور تھا۔ تو جو مامور ہوتے ہیں ان کو تو گناہ نہیں ہوتا وہ تو اللہ تعالی کے حکم پہ عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں! وہ حکم براہ راست ہوتا ہے بذریعہ الہام۔ وہ مطلب جو ہے نا وہ اس پہ عمل کرتے ہیں۔ اور ان کا اپنا نظام ہے وہ نظام ہمارے کتابوں میں نہیں پایا جاتا۔ نہ کتابوں میں آ سکتا ہے؛ کیونکہ اس میں ہر شخص کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ ڈائریکٹ ہے۔ اس کی کوئی کتاب نہیں ہوتی۔ مطلب اس مطلب کہ اس کو لوگوں کو پتہ چل جائے۔ وہ جس کے لیے جو ہوتا ہے وہ اسی وقت ہوتا ہے۔ یہ ہمارے حلیمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ جو تھے یہ بھی تکوینی بزرگوں میں سے تھے۔ تکوینی بزرگوں میں سے بھی تھے۔ بھی مطلب چونکہ تشریعی بھی تھے۔ تکوینی بزرگوں میں سے بھی تھے۔ تو وہ جو ہے نا مطلب ہے کہ یعنی اس قسم کے واقعات کبھی کبھی بیان کرتے بر سبیلِ تذکرہ تو وہ جو ہے نا مطلب ہے کہ ایسا یعنی ہوتا تھا کہ جو ہے نا مطلب جن کو حکم ہوتا تھا تو بس اس کے مطابق جو ہے نا وہ تو اپنا ایک واقعہ بیان کر رہے تھے کہ (ان کو ابھی اس منصب پہ نہیں لایا گیا تھا) تو کہتے بہت۔۔۔ آفیسر تھے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ان کے پاس ایک آدمی آیا ملاقاتی۔ تو اس نے کہا کہ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں آپ کے اوپر اپنے آپ کو ظاہر کروں۔ تو اس فیلڈ کا تھا نہیں اس وقت تو جیسے مذاق اڑانے میں اچھا اچھا کیا کیا کہتے ہو؟ ہاں جی کہ کیا ہو کیوں ظاہر ہو رہے ہو؟ جس طرح جیسے مذاق کوئی کرتا ہے نا ہاں جی۔ تو اتنے میں وہ اس سے بات کر رہا تھا اچانک اس نے اس طرح کر دیا۔ اس نے کہا کیا ہوا تجھے؟ کہتے دو بسیں آپس میں بالکل head on collision پہ آ رہی تھیں تو میں بس میں نے فورا ان کو ادھر جدا کر دیا۔ جا جا جدا کر دیا۔ بکواس کرتے ہو تو کیا ہے؟ تو خیر چائے تو میں نے پلائی ہوئی تھی وہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ وہ چلا گیا۔ چلا گیا تو کہتے ہیں ابھی وہ تھوڑی دیر وہ چلا گیا پہلے وہ پہنچا ہوگا باہر۔ کہتے ہیں میرا دوست آیا اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہ خیر تو ہے؟ کہتا ہے خیر تو نہیں تھا بس بچ گئے۔ کیا ہوا؟ کہتا ہے بس بسیں آمنے سامنے آنے والی تھیں بس ایک انچ کے فاصلے سے بچی ہیں۔ کہتے ہیں مجھے اس واقعے کا یاد آیا افوہ یہ تو وہی یہ تو یہی بات کر رہا تھا۔ وہ تو بات صحیح تھی۔ کہتے ہیں پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ خواہ مخواہ ایک ایک شخص صحیح تھا اور میں نے اس کو جو ہے نا مذاق اڑایا۔ خیر پھر فرمایا کہ مجھے اس کی بڑی سخت سزا دی گئی۔ یعنی اگلے دن۔ اگلے دن میں فجر کی نماز کے بعد بیٹھا ہوا تھا۔ کہتے ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے مجھے اس طرح یہ دو انگلیاں میرے گلے پہ رکھ دیں۔ اور مجھے کہا کہ روح تیری قبض کر دوں؟ میں نے آپ کے پاس ایک آدمی بھیجا تو نے اس کی یہ قدر کی۔ تو کہتے بہت سارے بزرگ کھڑے تھے۔ اور میں ان کی طرف جو سلسلے کے حضرات تھے نا وہ ، وہ کھڑے تھے لیکن کسی کا بس نہیں چل رہا تھا۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے دوسرے حضرات بھی تھے وہ سب کے چہرے زرد مطلب ظاہر ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر اتنے میں علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے حکم آ گیا کہ چھوڑ دو اس کو یہ میرا نواسہ ہے۔ تو بس بس اس کے بعد ان کے انگلیوں سے جان نکل گئی۔ تو بس پھر اس کے بعد ۔۔لیکن کہتے کئی دن تک میرا گلا دکھتا رہا۔ کئی دنوں تک، تو اب یہ ہوتا ہے مطلب جو جو لوگ تکوینی طور پر مامور ہوتے ہیں ان کا معاملہ الگ ہوتا ہے اور پھر وہ اس لیے کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے پاس جانا ہی ٹھیک نہیں ہوتا۔ مجذوبوں کے پاس نہیں جانا ٹھیک ہوتا۔ اگر خود آ جائے وہ بھی گائیڈڈ میزائل ہے خود آ جائیں گے تو چلو جو ان کے ذمے ہوگا تو وہ کر لیں گے۔ لیکن خود ہمیں نہیں اپنے آپ کو پھنسانا۔ ان کے بہت سارے لوگ اس شوق میں مارے جاتے ہیں۔ وہ مجذوبوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ خدا کے بندے مجذوب تو اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ تو فرشتوں کے نقش قدم پہ ہوتے ہیں۔ فرشتے جیسے

یَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ

"وہ وہی کرتے ہیں جن کا ان کو امر کیا جاتا ہے"۔ وہ اپنی طرف سے کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ تو خواہ مخواہ آپ ان کے پیچھے جائیں گے تو کیا کریں گے؟ تو ایسے لوگوں کے پاس تو جانا ہی نہیں چاہیے۔ ہاں اگر تشکیل ہو جائے پھر علیحدہ بات ہے پھر تو منجانب اللہ ہوتا ہے نا پھر تو اللہ پاک اس کا انتظام بھی کرواتا ہے۔ جیسے حلیمی صاحب کی تشکیل ہو گئی تو بس ٹھیک ہے جی صحیح ہے وہ اگرچہ ٹھوکروں سے ہوئی لیکن بہرحال ہو گئی تو وہ منجانب اللہ والی بات تھی تو لہذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن خود نہیں جانا چاہیے وہ تو گئے تو نہیں تھے ان کے پیچھے۔ بلکہ وہ ان کے پیچھے آ گئے تھے نا۔ تو ٹھیک ہے اگر اس قسم کی بات ہو تو بات ممکن ہے۔ لیکن خود کسی کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ میں کہتا ہوں یہ سادہ دین بہت اچھا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں سادہ دین پہ رکھے۔ بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ اپنے لیے مشکلات تجویز کوئی نہ کرے۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا بزرگوں کی نقل نہ کیا کرو اگر اللہ پاک نے بزرگوں والا معاملہ تمہارے ساتھ کر دیا پھر کیا کرو گے؟ بس یہ سادہ رہو یہ زیادہ بہتر ہے۔ ہاں! اس میں آسانی ہے۔ بچے نہیں ہوتے بچے؟ بچے کو لوگ mind کرتے ہیں بچے کو؟ لیکن جیسے بڑے ہو جاتے ہیں پھر خوب کھینچ کے رکھتے ہیں۔ تو اس طرح مطلب ہے اگر ہم سادہ ہیں تو ظاہر ہے ہمارے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جیسے سادہ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے بزرگ سمجھ لیا اپنے آپ کو اور بزرگوں والا معاملہ کیا گیا ہمارے ساتھ پھر دیکھو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر پھنس جاؤ گے۔ تو لہذا کبھی بھی اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ عام انسان سمجھنا چاہیے۔ اسی میں ہی ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دن ہمیں فرمایا: " بھائی ہم بزرگ نہیں ہیں۔ اگر بزرگ ہوتے تو ہمیں بزرگوں میں پیدا کیا جاتا۔ بس اتنا کرو کہ گناہ نہ ہو"۔ بس یہ کافی ہے۔ اتنا کرو کہ گناہ نہ ہو۔ بس یہ بھی کافی ہے۔ اس سے زیادہ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا ہے۔ اتنا ہمارا وہ ہے۔ باقی ان شاءاللہ فضیلت اللہ پاک دینے والے ہیں جب اللہ پاک فیصلہ کر دیں تو پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیں۔ وہ تو اس کا کام ہے۔ لیکن خود ہمارا کام کیا ہے؟ بس گناہ نہ ہو۔ اس پہ ہم لوگ بس زور دیں۔ کہ گناہ ہم سے نہ ہو۔ تو اس کے لیے علم کی ضرورت بھی ہے۔ گناہ سے بچنے کے لیے علم کی ضرورت ہے نا؟ اور ہمت کی بھی ضرورت ہے۔ صحبت صالحین کی بھی ضرورت ہے۔

آج آئی ہے مصیبت مجھ پہ گر

کل کو خوار و زار ہوگا اس کا در

ہر چند کہ اس کا یہ قول خصوصِ واقعہ پر چسپاں نہیں کیونکہ طبیبِ غیبی نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ اس کو سزائے عاقبت ملنے کا خوف ہو سکتا، مگر درجۂ عموم میں یہ بات حق ہے کہ آج کے اعمال کل کو نیک یا بد پاداش کا باعث ہوں گے۔

اس کی تائید میں مولانا تمثیلًا فرماتے ہیں کہ دیکھو طلوعِ آفتاب کے وقت ہر چیز اپنا سایہ کس قدر دور ڈالتی ہے۔ مگر جوں جوں سورج بلند ہوتا جاتا ہے وہ سایہ قریب آتا جاتا ہے۔ زوال کے وقت بالکل اس چیز کے ساتھ آ ملتا ہے۔ اسی طرح اعمال ہر چند کہ متعدی نہیں ہوتے ہیں مگر آخر ان کی جزا و سزا صاحبِ عمل کو مل کر رہتی ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾ (البقرہ: 286)

38

یہ جہاں پہاڑ و کام اپنا ندا

ہاں۔۔مثال، کیا بات ہے۔ یہ جہاں۔۔اس کی مثال ہے پہاڑ کا، اور ہمارا کام کیا ہے؟ آواز کا

اپنی جانب گونج بن آئے صدا

جیسے آواز ہم کرتے ہیں اور پہاڑ سے واپس ہماری طرف آ جاتا ہے۔ تو اسی طریقے سے ہمارے اعمال کا پاداش ہمارے پاس پہنچ جاتا ہے۔ وہ ہمیں ہی receive کرنا ہوتا ہے۔ کسی اور کے پاس نہیں جاتا۔ اچھا عمل ہے وہ بھی ہمارے پاس لوٹ کے آتا ہے، اس کا نتیجہ۔ اور جو برا عمل ہے وہ اس کا بھی نتیجہ ہمارے پاس لوٹ کے آتا ہے۔ تو ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔

یعنی یہ جہان (گویا) پہاڑ ہے اور ہمارا ہر کام ندا ہے (جب ہم آواز دیتے ہیں تو) ہماری نداؤں کی گونج ہماری طرف آتی ہے۔ (یعنی ہمارے اعمال کی سزا اور جزا ہم کو ملتی ہے۔)

مولانا پاداشِ اعمال کی دوسری نظیر بیان فرماتے ہیں۔

38

بولا زرگر یہ ہوا پھر زیرِ خاک ہوگئی کنیز اس کی رنج سے پاک

زرگر یہ بات ختم کر کے بولا تو پھر وہ بس مر گیا اور زیر خاک چلا گیا اور کنیز بھی اس کے غم سے پاک ہو گئی۔


39

عشق فانی ہے نہیں کہ پائیدار

کیونکہ مردہ آسکے نہ دوسری بار

اوپر کہا تھا کہ زرگر کے مرنے پر کنیزک مرضِ عشق سے بالکل صحت یاب ہو گئی۔ اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ عشق تو ایک عالی پایہ چیز ہے۔ کنیزک کا عشق ایسا نا پائیدار اور عارضی کیوں ثابت ہوا کہ محبوب کے مرنے پر زائل ہو گیا۔

مولانا اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس کا محبوب فانی تھا اور فانی چیز کا عشق بھی عارضی و فانی ہوتا ہے۔ محبوبِ باقی ہی کا عشق ہے جو پائیدار ہے جس کو عشقِ حقیقی کہتے ہیں۔ چنانچہ اگلے شعر میں اس کا ذکر فرمائیں گے۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ فانی چیز کا عشق نا پائیدار کیوں ہے؟ اس کا جواب دوسرے مصرعہ میں یہ دیا ہے کہ فانی چیز فنا ہو کر واپس نہیں آ سکتی۔ جب ایک چیز کا وصل اس کے فنا ہونے کے بعد عقلًا و عادۃً محال ہے تو اس کا عشق بھی فضول ہے۔

فرماتے ہیں۔۔

40

عشق زندہ در رَواں و در بصَرَ ہووے غنچہ کے مقابل تازہ تر

زندہ (معشوق یعنی حی و قیوم) کا عشق (ہی) ہر دم جان و بینائی میں غنچہ سے بڑھ کر تازہ رہتا ہے۔

نکتہ: فانی چیز کا عشق بھی فانی ہے لیکن معشوقِ حقیقی جو حیِ دائم ہے۔ اس کا عشق ابدی ہے۔ اس نکتہ کو "غنچہ" کے کلمہ میں مولانا نے ایک نہایت لطیف انداز سے ادا کیا ہے۔ یعنی غنچہ (گلِ نو شگفتہ) کی بہارِ حسن جو بلبلِ شیدا کی شیفتگی کی باعث ہے، چند روزہ ہے۔ دو دن میں گلِ رعنا افسردہ ہو کر رہ جاتا ہے اور بلبل کا عشق بھی اس سے منقطع ہو کر کسی اور گل سے متعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن شاہدِ حقیقی "لَا یَزَالُ وَ لَا یَمُوْتُ" ہے اور اس کا عشق بھی غنچۂ فانی اور اس کے عشق کے مقابلہ میں تازگیِ دوام رکھتا ہے۔


41

عشق اس سے ہی کرو جو باقی ہے

عشق را با حی و با قیوم دار، یہ مشہور شعر ہے جو حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ اکثر اپنے مواعظ میں بیان فرماتے تھے۔

عشق را با حی و با قیوم دار عشق بر مردہ نباشد پایدار

عشق سے اس سے ہی کرو جو باقی ہے

جو شرابِ جاں فزا کا ساقی ہے

یعنی عشق مجازی میں دل و دماغ کی ابتری و خواہش جان مضمر ہے مگر عشق حقیقی جاں فضا اور روح پرور ہے کہ اس میں بے انتہا روحانی ترقیات ہے۔

42

عشق اس کا ہو کہ جملہ انبیاء

ہو گئے ممتاز اس سے سن ذرا

مطلب یہ ہے کہ سارے انبیاء اس کے عشق میں مطلب جو تھے تو اس سے یہ سب لوگ سے ممتاز ہو گئے۔ یعنی اللہ تعالی کا عشق انسان کو عالی رتبہ بنا دیتا ہے بخلاف اس کے مخلوق کا عشق باعث ذلت و خواری ہوتا ہے۔

اصل بات میں آپ کو بتاؤں۔ دیکھیں اللہ پاک نے اس کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے قرآن پاک میں۔ لوگ کہتے ہیں جی قرآن میں عشق کدھر ہے؟ لوگ کہتے ہیں نا؟ کئی جگہوں پر ہے لیکن وہ اشارے لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ سمجھتے نہیں ہیں۔ سمجھنے کے لیے بھی تو اللہ تعالی کسی کو سمجھ عطا فرمائے تو سمجھتے ہیں نا؟

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ

یہ تو ہے ہی نا۔ "جو لوگ ایمان والے ہیں ان کو اللہ تعالی کے ساتھ شدید محبت ہے"۔ تو شدید محبت کس کو کہتے ہیں؟ تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ وہ عشق ہے اس کو عشق ہی کہتے ہیں۔ لفظ عشق کا ہونا تو ضروری نہیں ہے۔ عشق کا مطلب جو ہے وہ موجود ہے پھر

(إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا)

یعنی جس نے اپنا تعلق رب کے ساتھ جوڑا "رَبُّنَا اللّٰہُ" کہہ دیا۔ یہ صرف کہنا نہیں ہے۔ یہ وہ کہنا ہے جس کے ساتھ بہت کچھ اٹیچ ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ کہہ دے یہ میری چیز ہے۔ تو یہ میری چیز جو بادشاہ کی ہے اس وہ پھر معمولی چیز تو نہیں ہے نا؟ اس کو تو کوئی چھین نہیں سکتا کیونکہ تو اس کے ساتھ اٹیچمنٹ ہو گئی بادشاہ کے ساتھ اس کی اٹیچمنٹ ہو گئی۔ تو اس طرح

(إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا)

بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارے رب اللہ ہیں یعنی ہم نے اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ اٹیچ کر لیا اور رب کو اللہ سمجھا اور پھر اللہ ہی سے مانگتے رہے اور اللہ ہی کے لیے کرتے رہے۔

"اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ" کا معاملہ اس کے ساتھ ہوتا رہا۔ تو پھر کیا ہے؟ اس کے لیے پھر اللہ پاک نے بڑی عجیب بات فرمائی کہ فرشتے ان کے اوپر اترتے ہیں موت کے وقت اور ان سے کہتے ہیں کہ ڈرو نہیں، خوف نہ کرو، پریشان نہ ہو، غم نہ کرو، جنت کی بشارت حاصل کرو جس کا تمہارے ساتھ وعدہ تھا ہم تمہارے ساتھ ادھر بھی تھے اور اُدھر بھی جانے والے ہیں تمہارے ساتھ اور اس جنت میں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جو تمہارا جی چاہے گا، ہر وہ چیز ملے گی جو تم منہ سے مانگو گے۔

(نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ)

مطلب ہے کہ نا غفور رحیم کی مہمانی ہے۔ اب یہاں پر دیکھو جس کی اللہ کے ساتھ محبت ہے یاد رکھو، یاد رکھو، یاد رکھو، یاد رکھو اللہ بہت غیور ہے۔ اللہ تعالی اپنا ہاتھ اوپر رکھتا ہے۔ تم اللہ کے لیے جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بڑھ کر کرے گا۔ سوال نہیں ہو سکتا کہ وہ تجھ سے کم ہو۔ یہاں بادشاہ کو آپ کوئی چیز تحفہ کے طور پہ لے جاتے ہیں تو وہ اپنی شان کے مطابق اس کو لوٹاتے ہیں۔ مطلب وہ ایسے نہیں کہ وہ بھی تمہیں اس اس قسم کا چیز دے دیں گے۔ بلکہ اگر تمہیں اپنا دوست بنا لیا تو پھر اس کے مطابق ہی آپ کا معاملہ ہو گا۔ وہ یہاں پر ایک امریکی صدر آئے تھے، کراچی۔ پتہ نہیں کون سے صدر تھے اس وقت کا نام مجھے بھول گیا پتہ نہیں لنڈن جانسن تھے کون سے۔ تو ایک جو تانگے بان تھے نا انہوں نے اشارہ کیا تو کہتے ہیں آپ میرے ساتھ بیٹھ جائیں۔ تو اس سے دل رکھنے کے لیے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ بعد میں اس کو امریکہ بلایا تھا اس کی بڑی مہمان نوازی کی تھی۔ اس کوچوان کی۔ مطلب حالانکہ دیکھو کیا بات ہے اس کو ضرورت بھی تو نہیں تھی اس کی تانگے میں بیٹھنے کی۔ لیکن اس نے اس کی چیز کی بڑی قدر کی اور اس کو جو ہے نا وہاں پر بلا لیا امریکہ میں بلایا اور بہت انعام و اکرام مطلب اس سے نوازا۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ دنیا کے فانی چیزیں ہیں۔ یہاں پر یہ چیزیں ہیں تو جو بادشاہ ہوتے ہیں یہاں پر وہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ جس نے بادشاہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ تو وہ پھر اپنی شان کے مطابق دیتے ہیں۔

(نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ)

اپنی شان کے مطابق دیتے ہیں۔ تم کیا دو گے؟ وہ تمہارے پاس ہے ہی کیا؟ سب کچھ تو اس کا ہی ہے۔ لیکن اس کو بھی وہ تمہارے ہی سمجھ کر لے لیتا ہے اور پھر تمہیں اپنی طرف سے دے بھی دیتا ہے۔ اس وجہ سے بڑا ہی سستا سودا ہے۔ بڑا ہی اچھا سودا ہے۔ اگر کوئی کوئی یہ بات نہ سمجھ سکے تو دیکھو سن۔۔۔

43

تو نہ کہہ اس تک ہے رسائی کہاں

سن کریموں کو دشواری کہاں

"با کریماں کارہا دشوار نیست" یعنی کریموں پر کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ وہ تجھے کہاں سے اٹھائے اور کہاں پہنچائے۔ پھر اس کا کوئی حد نہیں ہے۔ لہذا اس کے ساتھ اپنا معاملہ سارا وابستہ کر لو۔ محبت کا، اطاعت کا، اور مطلب یہ ہے کہ پیار کا،محبت کا یہ سب اس کے ساتھ وابستہ کر لو۔ پھر دیکھو کہ وہ تجھے کیا دیتا ہے۔ اصل میں ہم جلدی مچاتے ہیں۔ جلدی مچاتے ہیں مطلب ہم سمجھتے ہیں ہم سمجھ اصل میں دیکھیں نا وہ وہ چاہتا ہے ہم سے اخلاص اور ہم لوگ درمیان میں چیزیں لاتے ہیں۔ تو جب چیزیں لائیں تو پھر اخلاص کدھر ہے؟ پھر اخلاص تو نہیں ہے نا؟ تو تم اخلاص کا معاملہ کرو پھر دیکھو تمہیں کیا دیتا ہے۔ ہاں جی تو اصل بات یہی ہے کہ اس وجہ سے تفویض ہے نا تفویض اس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تفویض کو اگر اس لیے کرو گے کہ مجھے اس سے راحت ملے تو پھر وہ تفویض نہیں ہے۔ لہذا پھر اس کے وہ اثرات نہیں ہوں گے۔ تفویض میں بڑی راحت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اس وقت ہے جب وہ تفویض کرو گے نا۔ تو جب آپ نے conditional تفویض کر لی تو پھر کیا ہوا؟ پھر تو تفویض نہیں ہوئی نا۔ conditional تونہیں کرو گے نا۔ تو بس یہی بات ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔

وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.


عشقِ مجازی کا انجام اور عشقِ حقیقی کی عظمت - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور