الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّينَ۔أَمَّا بَعْدُ۔ أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ۔ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى :لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ۔ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ۔ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
معزز خواتین و حضرات، سب سے پہلے تو میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ کافی عرصے کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔
اللہ تعالیٰ اس کو جاری رکھے۔ اس وقت ان چیزوں کی بڑی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بگاڑ کی فضا تو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بگاڑ کی جو کوششیں ہیں، وہ بڑھ رہی ہیں۔ ہر نئی چیز جو ایجاد ہوتی ہے اس میں خیر کا پہلو کم اور شر کا زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جتنی بھی ایجادات ہو رہی ہیں تو اس میں لوگوں کی دوری اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے اور شیطانیت کے قریب ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ اچھے کاموں کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں یہ نہیں کہ صرف لیکن وہ اصلاح کی کوششیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ چیزیں غلط چیزوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ مثلاً یہ موبائل ہی دیکھو۔ اب موبائل کے اندر بڑی خوبیاں بھی ہیں۔ لیکن اس کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ انہوں نے ان خوبیوں کو چھپا لیا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی کا جو دین پر رہنا چاہتا ہو، اللہ پاک کا بننا چاہتا ہو، اس کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کو آزادانہ استعمال کرے۔
اور بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے آسائش کے لیے وجود میں آئی لیکن اس پر شکر کرنے کے بجائے اس نے ہمیں ناشکرا بنا دیا۔
تو شر کی طاقتیں بڑھ رہی ہیں، دجالی اور دجالی قوتیں، دجال اور دجالی قوتیں یہ بہت زیادہ فروغ پا رہی ہیں۔ جبکہ خیر کی کوششوں کو دبایا جا رہا ہے، مسلسل دبایا جا رہا ہے۔
ان میں آپ کو صرف ایک چھوٹی سی مثال دوں۔ قانون بن گیا یورپ میں، امریکہ میں۔ قانون ہے۔ کہ مرضی سے جو کرو تو وہ ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپس میں جانبین کی مرضی ہو۔ بے حیائی کی، تو اس پہ کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی زبردستی کرنا چاہے پھر وہ جرم ہے۔ اب مجھے بتاو پلس اور مائنس جب قریب آئیں گے تو ان میں خود بخود attraction ہو گی یا نہیں ہو گی؟ تو خود بخود جو ہو رہی تھی وہ اگر آپ نے جائز کر دیا تو بس دھماکے تو ہوں گے نا پھر۔
تو اب وہاں کسی کو روک نہیں سکتے۔ روکنا منع ہے۔
تو یہ مطلب ظاہر ہے تمام فضائیں اس طرح بن گئی ہیں تو شر تو پھیل رہا ہے۔ وہاں کھلے بندوں، نعوذ باللہ من ذالک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں۔ اور اس کو آزادی مطلب اظہارِ رائے کی آزادی کہا جاتا ہے۔ لیکن جو اس کو روکتا ہے اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ہے اس طرح؟ مطلب اگر کوئی نہیں مانتا تو ٹھیک ہے اس کی آنکھیں نہیں ہوں گی۔ ہے تو یہی چیز۔ جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ دہشت گرد ہے۔ جو شر کے لیے اٹھتا ہے وہ بہت مطلب ظاہر ہے اچھے کام کر رہا ہے۔
سو افغانستان میں دیکھو کیا ہو رہا ہے؟ کہتے ہیں ہم نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے وہ آزادی برقرار رہے۔ کونسی آزادی دی؟ بے حیائی کی آزادی۔ اور کچھ نہیں۔ بے پردگی کی آزادی۔ اور کون سی آزادی ہے؟ بھائی پردے کے اندر کام کرنا کوئی مشکل تو نہیں ہے۔ لیکن جو اپنا حق یہ بنا دے کہ نہیں میں جس طرح اب یہاں جیسے عورتیں نعرے لگاتی ہیں کہ ہمارا جسم، ہماری مرضی۔ اگر کسی کو یہ اجازت دے دی جائے تو مجھے بتاؤ فساد بڑھے گا یا خیر بڑھے گا؟ تو آج کل یہ چیز ہے۔
اس وجہ سے کچھ ایسے محافل ہونے چاہئیں۔ جس میں کم از کم کوئی اللہ کی بات کانوں میں پڑتی رہے۔ کوئی خیر کا کلمہ کانوں میں پڑتا رہے۔ کوئی حق و باطل کی پہچان کی بات انسان کو ملتی رہے، تو یہ بہت فائدہ دیتی ہے۔
ہم جب اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جب حیات تھے یونیورسٹی میں، تو دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ظاہر ہے وہ تو انسان کو پتہ چلتا ہے، دل کو پتہ چلتا ہے باقی تو بعد میں، تو جس وقت ہم اسلامک کالج کا گیٹ پار کر لیتے نا، ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ ہم دوسری جگہ میں آ گئے ہیں۔ بالکل مختلف جگہ پہ۔ یہ ہمارے دل کی کیفیت ہوتی تھی۔ چاہے آپ کوئی کوئی اس کو مانے نہ مانے، لیکن ہمارے ساتھ تو ایسا ہوتا تھا۔ تو یہ یہ اس محفل کی روشنی تھی جو نظر نہیں آ رہی تھی لیکن دلوں کو محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی سند بھی موجود ہے۔ سند بتاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے تشریف لے گئے، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک سے ابھی ہاتھ ہی جھاڑے تھے مٹی سے، کہ ہم اپنے دلوں میں فرق محسوس ہو گیا۔ اپنے دلوں میں فرق محسوس ہو گیا۔
تو یہ چیز ہوتی ہے۔ تو اس وجہ سے ایسے محافل جس میں اللہ اور اللہ کے رسول کا نام لیا جانے لگے، خیر کی بات کی جائے، شر کا رد کیا جائے، حق بات کی جائے، باطل سے خبردار کیا جائے، یہ اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ حکمت کے ساتھ، بصیرت کے ساتھ۔ یہ ضروری ہے۔ بے ڈھنگے پن سے نہیں۔ حکمت کے ساتھ، بصیرت کے ساتھ، یہ ضروری ہے۔
تو میں عرض کر رہا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے کافی عرصے کے بعد دوبارہ یہ سلسلہ بحال ہو گیا۔ اگرچہ آن لائن تو چلتا رہا۔ لیکن آن لائن کے اپنے برکات ہیں کیونکہ دور دور لوگ سن لیتے ہیں۔ لیکن جو اصل بات ہے وہ جو یہاں خانقاہ میں، وہ ایک بڑی بات۔ اور وہ میں کیا عرض کروں۔
کنکریٹ ہے نا، آج کل ہر چیز تقریباً کمرے ومرے کنکریٹ سے بنتے ہیں۔ تو کنکریٹ کی یہ property ہے کہ گرمی میں یہ heat کو سٹور کر لیتا ہے، دن کے وقت۔ heat جب اس پہ پڑتی ہے تو وہ سٹور کر لیتا ہے۔ اور رات کے وقت heat چھوڑتا ہے۔ تو اس کے نیچے پھر گرمی لگتی ہے۔ یہ چیز ہے اس میں۔
تو اسی طریقے سے ذکر جہاں پر ہوتا ہے تو در و دیوار بھی اس کو جذب کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر جب نیا آدمی آتا ہے اس میں تو وہ اس کے دل پہ اس کا اثر پڑتا ہے۔ اور باقاعدہ اس کے اوپر اس کا اثر پڑتا ہے تو اس کا رخ بھی اس طرف ہونے لگتا ہے۔
اور جو شیاطین لوگ ہوتے ہیں نا، شیاطین، یعنی یا شیاطین یا شیاطین کے ماننے والے، وہ وہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ ان کو تکلیف ہوتی ہے۔
مولانا حاشر صاحب ہیں نا، ان کو جانتے ہو نا؟ اس نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔ کہ ہمارا ادھر پروگرام ہوا کرتے تھے تو میں ادھر جایا کرتا تھا ہفتے میں ایک دفعہ۔ کہتا ہے ایک دفعہ آپ تشریف لا رہے تھے تو وہاں پر ایک یہ جادوگر ٹائپ آدمی تھے نا۔ یعنی عاملین میں یہ چیزیں بھی ہوتی ہیں نا عاملوں میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ تو اس قسم کا آدمی تھے۔ کہتے ہیں اس کو میں نے دعوت دی کہ شاہ صاحب آ رہے ہیں آپ ذرا تھوڑا سا ان سے مل لیں۔ تو اس نے کہا میں ہرگز اس سے نہیں ملوں گا۔ کہتے ہیں میں حیران ہوں کہ بھئی اتنی سختی کے ساتھ کیوں کہہ رہا ہو کہ میں ہرگز اس سے نہیں ملوں گا۔ کہتا ہے اگر میرا اس کے ساتھ ہاتھ بھی ملا میرا سارا کچھ ختم ہو جائے گا۔ اگر اس کے ساتھ ہاتھ بھی ملا لیا صرف میرا سارا کچھ ختم ہو جائے گا۔ وجہ کیا ہے؟ کیوں ختم ہو جائے گا؟
وجہ کیا ہے؟ ان کا ساری چیزیں سفلی ہیں۔ اور سفلی چیز جب ظاہر ہے روحانیت کی چیزوں کی طرف قریب آتی ہے نا تو وہ ختم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ حدیث شریف میں آتا ہے نا کہ انسان کے دل پر شیطان بیٹھا ہوتا ہے تاک میں۔ جب اگر وہ ذکر سے غافل ہوتا ہے تو اس میں اپنے سونڈ سے جو ہے نا وہ وسوسوں کی زہر بھر لیتے ہیں۔ اور اگر وہ ذکر کرتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ بات ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاکرین سے بھاگتے ہیں۔ اور غافلین کے پاس آتے ہیں۔
غافلین کس قسم کے ہوتے ہیں؟ ایک تو ذکر نہ کرنے والے غافل ہیں۔ وہ تو ہیں۔ لیکن کچھ ایسے کام ہیں جو غفلت کے ہیں۔ مثلاً یہ تصویریں جب لگی ہوتی ہیں۔ یہ انسان کو غافل کرتی ہیں۔ کتے کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں ہوتے۔ وہ نہیں آتے اس طرف۔ تو یہ اس قسم کی چیزیں جب گھر میں ہوتی ہیں تو وہاں پر شیاطین آتے ہیں، فرشتے نہیں آتے، رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
اس پر ایک لطیفہ بھی ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک آدمی تھے وہ اپنے ساتھ کتا رکھا ہوا تھا اس نے۔ تو اس کو کسی نے کہا بھئی کتا کیوں رکھا ہے؟ اس نے کہا بس وہ میرا شوق ہے۔ انہوں نے کہا بھئی رحمت کے فرشتے تو پھر نہیں آتے۔ تو اس نے کہا اس لیے تو رکھا ہے۔ کہ آخر ملک الموت ہے وہ بھی نہیں آئے گا۔ تو انہوں نے کہا نہیں نہیں نہیں، ملک الموت تو آئے گا۔ اس نے کہا، انہوں نے کہا آخر کتے کے روح کو بھی ضبط کرنے کے لیے تو کوئی آئے گا نا؟ تو جو فرشتہ اس کی روح کو ضبط کرنے کے لیے آتا ہے وہ تمہاری روح کو ضبط کرنے کے لیے بھی آئے گا۔
تو رحمت کے فرشتے نہیں آتے، زحمت کے تو آتے ہیں، مطلب جو سزا دینے والے ہیں وہ تو آتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو ہے اگر غافل ہوتا ہے تو پھر وہ شیطان کے لیے تر نوالہ ہوتا ہے۔ اور جس وقت وہ ذاکر ہوتا ہے پھر اس پہ اتنا شیطان کا اثر نہیں ہوتا۔
اس کا انتظار کرتا ہے کہ کب غافل ہوتا ہے۔ وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جب یہ غافل ہو تو پھر میں اس پہ اوپر حملہ کروں۔
تو بہرحال میں عرض کر رہا ہوں کہ الحمدللہ، خانقاہوں کی اور اس طرح دینی مجالس کی، یہ ہمیں بہت قدر کرنی چاہیے۔ اس کے ذریعے سے ہم الحمدللہ قائم ہیں۔ اور پوری دنیا بھی قائم ہے۔ آپ کہیں گے یہ تو آپ نے بہت بڑا دعویٰ کیا۔ نہیں دعویٰ میں نے نہیں کیا، یہ حقیقت ہے۔ کیسے؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تک ایک آدمی بھی اللہ اللہ کرنے والا موجود ہے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی۔
تو یہ لوگ دفعتاً تو ختم نہیں ہوں گے نا کہ بس یہ آج ذاکرین ہیں سارے اگلے دن کچھ بھی نہیں ہو گا۔ نہیں، آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ ہو گا۔ اب میں آپ کو اپنے واقعہ سنا دوں۔ ہمارے گاؤں میں ظاہر ہے کچے گھر تھے، چھوٹے چھوٹے گھر تھے، صبح کے وقت میں دودھ لینے کے لیے جایا کرتا تھا، میں چھوٹا سا تھا، میرا شوق تھا دودھ میں لایا کرتا تھا۔ ایک گھر سے۔
تو ان گھروں میں جب جاتا تھا تو راستے میں جو گھر ہوتے تھے تو وہاں سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آیا کرتی تھی، بوڑھوں کی، مردوں کی، عورتوں کی، بچوں کی، قرآن کی تلاوت کی، ان دنوں یہ معمول تھا۔ صبح تلاوت کرتے تھے، جب نماز پڑھ لیتے تھے۔ اس کے بعد تلاوت کرتے تھے۔
اب آج کل جب ہم ادھر سے گزرتے ہیں تو یا ٹیلی ویژن کی آواز آتی ہے اور یا بالکل آواز نہیں آتی۔ یعنی یا سو رہے ہوتے ہیں اور اگر جاگ رہے ہوتے ہیں تو پھر ٹیلی ویژن ہوتا ہے۔
اس وقت جب لوگ ریٹائر ہو جاتے تو ماشاءاللہ تسبیح ہاتھ میں آ جاتی اور ذکر کیا کرتے تھے۔ بوڑھے لوگ جو ہوتے تھے۔ اور ان کے پاس بیٹھ کر لوگ اچھی اچھی باتیں سیکھتے تھے۔ وہ نصیحتیں کیا کرتے تھے۔ میں نے کہا کیوں کہ پوری زندگی ان کی گزری ہوتی تھی۔ ان کو اچھائی برائی کا احساس ہو چکا ہوتا تھا۔ لہٰذا وہ یہ کام کرتے تھے کہ لوگوں کو سمجھاتے تھے۔ حجرے ہوتے تھے تو حجرے میں بھی جو بڑے لوگ ہوتے تھے وہ اپنے باتیں کرتے تھے تو چھوٹے وہ ان کی سن رہے ہوتے تھے۔ تو ان کو فائدہ ہوتا تھا۔
اب آج کل وہ حجرے سسٹم تو ختم ہو گئے، بہت سارے بیٹھکیں ہو گئیں اور بیٹھکوں میں ٹیلی ویژن وغیرہ آ گیا۔ اب تو حرمین شریفین میں، ہوٹلوں میں ہر ہوٹل میں ہر کمرے میں ٹیلی ویژن ہے۔ یہ مکہ، خانہ کعبہ کے بالکل سامنے جو مکہ ٹاور ہے۔ اس میں ایک صاحب نے ہماری دعوت کی تھی۔ وہ وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔
تو عشاء کے بعد کھانے کی دعوت تھی تو ہم جب وہاں گئے، تو غالباً کچھ اور علماء بھی تھے، مشہور مشہور علماء تھے، وہ تشریف لے گئے تھے۔ تو سب ان کے کمرے سے پہنچنے سے پہلے کھٹک گئے جیسے مطلب جیسے انسان بھونچکا جاتا ہے نا، تو کھٹک گئے اور آپس میں بات کرنے لگے کہ یہاں تو اللہ کی طرف توجہ نہیں جا سکتی۔ ایسی حالت تھی میں آپ کو کیا بتاؤں؟ بالکل دنیا داری۔ بالکل دنیا داری، مکہ، خانہ کعبہ کے بالکل سامنے۔ یہاں تو کسی کی نظر بھی اللہ کی طرف نہیں جا سکتی۔
تو ایسی صورت میں اب جو وہاں بھی آپ جائیں اب تو اس وقت منیٰ میں بھی ایسے حالات ہیں کہ جیسے بالکل وہ جو بہت زیادہ پرتعیش کمرے بنائے گئے ہیں اور اس میں لوگ رہتے ہیں۔ اب بتاؤ اللہ کی طرف توجہ کب جائے گی؟ تو یہ چیزیں آہستہ آہستہ وہ دنیا داری اور دنیا پرستی یہ بڑھ رہی ہے۔ اور نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ انسان ذکر سے غافل ہوتا رہتا ہے۔
تو ایسے لوگ دجال کے لیے تر نوالہ ہوں گے۔ جب دجال آئے گا تو ان کے لیے کوئی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بس وہ ٹھیک ہے اپنے پیچھے، کیونکہ اس کے پاس یہ چیزیں بہت زیادہ ہوں گی جو لوگ چاہتے ہوں گے۔ عورتیں ہوں گی، میوزک ہو گا، کھانے اچھے اچھے ہوں گے اور بہت سارے، جنت بھی بنائی ہو گی، دوزخ بھی بنایا ہو گا۔ تو جو ان کے ساتھ ہوں گے وہ جنت میں رکھیں گے اور جو ان کے ساتھ نہیں ہوں گے تو ان کو دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ان کی جنت میں ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔ اور جو ان کے دوزخ میں ہیں وہ جنت میں جائیں گے۔ تو یہ تو مطلب یہ چیز ہے۔
اب اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے آپ کو stable کرنا ہے۔ جس حالت میں بھی ہے کم از کم خراب اور نہ ہو۔ اور خراب نہ ہو۔ زیادہ اچھا ہونا تو قسمت کی بات ہے۔ زیادہ اچھا ہونا تو بہت قسمت کی بات ہے۔ لیکن کم از کم اور خراب تو نہ ہو نا۔
تو وہ کہتے ہیں ہیلی کاپٹر جو ہے وہ اپنے آپ کو اپنے پوزیشن پہ برقرار رکھنے کے لیے بھی اس کو پر چلانے پڑتے ہیں۔ ورنہ پھر نیچے پتھر کی طرح گرے گا۔
تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی محنت کرنی پڑے گی۔ اور یہ محنت اپنی حفاظت کی ہے۔
اب کس چیز سے حفاظت ہے؟
تو ظاہر ہے ہم تو نہیں جانتے، اس مسئلے میں تو ہم وحی کے محتاج ہیں۔ وحی سے جو چیز سامنے آئے گی تو وہی ہم عرض کر سکتے ہیں۔ اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تو غیب کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں یہ چیزیں۔ تو وحی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ:
كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (20) وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ (21)
ہرگز نہیں بلکہ تم جو فوری چیز ہے اس کو لے لیتے ہو، اس کو پسند کرتے ہو، جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑ دیتے ہو۔
تو جو فوری چیز کی جو محبت ہے، یہ ہمیں اصل چیز سے روکنے والی ہے۔ اس کو آپ ذرا تھوڑا سا اس معنی میں سمجھیں کہ کوئی شوگر کا مریض ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو بچائے، آج کل یہ بہت عام ہے۔ کوئی شوگر کا مریض ہے۔ اس کو ڈاکٹر لوگ سمجھا دیتے ہیں اور وہ بھی ہوشیار آدمی ہوتا ہے، یہ نہیں کہ مطلب بیوقوف ہوتا ہے، آخر سمجھدار ہوتا ہے، دوسرے لوگوں کو عقل سکھانے والا ہوتا ہے۔ ان کو سمجھا دیتا ہے کہ بھئی آپ نے میٹھا نہیں کھانا۔ آپ نے یہ نہیں کرنا، یہ نہیں کرنا، وہ ساری چیزیں بتا دیتے ہیں۔
پھر آپ تھوڑا سا اپنے اپنے معلومات کے مطابق سوچیں، کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟ کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ تھوڑا سا آپ نے، آپ لوگوں کا ڈیٹا تو ہو گا نا، کتنے عمل کرتے ہیں؟ نہیں کرتے۔ بلکہ ان کو چھوٹے جو ہوتے ہیں ان کے بچے، وہ ان سے مٹھائی کے جو ہے نا وہ پلیٹ چھینتے ہیں، زردے کی پلیٹ ان سے چھینتے ہیں اور اگر کہیں کسی فنکشن میں جائیں تو ان کے سر پہ سوار رہتے ہیں کہ کہیں یہ کوئی میٹھا نہ کھا لیں۔ حالانکہ خود بڑے سمجھدار ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ فوری چیز کی طرف بہت زیادہ۔ بعد میں جو ہوگا وہ تو ہو گا نا۔
تو میں اس پر ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ میں جب دفتر میں تھا تو ہماری ایک میٹنگ تھی۔ اس میں Head LAO بڑے ذمہ دار آدمی ہوتے ہیں۔ وہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، ایڈمنسٹریٹر بھی بیٹھے ہوئے تھے، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ چائے آ گئی، اس میں بسکٹ بھی تھے۔ تو جو ہیڈ لوگ صاحب تھے اس نے دو بسکٹ اٹھا کے مجھے کہا، شاہ صاحب یہ دم کر لیں، مجھے شوگر ہے۔ میں نے کہا کل مجھ سے زہر دم کروائیں اپنے لیے۔ کہتے ہیں کیا مطلب؟ میں نے کہا مطلب یہ آپ کو پتہ ہے یہ آپ کے لیے زہر ہے یا نہیں ہے؟ کہ ہے؟ تو میں نے کہا کہ پھر پانی نہیں دم کروا سکتے مجھ سے؟ پانی دم کروا دو، نمک دم کروا دو، اگر آپ کو بلڈ پریشر نہیں ہے۔ یہ میٹھے بسکٹ ہی کیوں دم کروا رہے ہیں؟
وہ تقدس کی مار اس کو کہتے ہیں۔ سمجھ میں آ گئی نا؟ تقدس کی مار۔ کہ چاہتا تو دل ہے، نفس ہے، لیکن اب تقدس، بھئی اللہ کا نام اس پہ آ جائے گا تو بس ٹھیک ہے جی، بس بچ جاؤں گا۔ بھئی اللہ کا نام لے کر پہلے آگ کے اندر ہاتھ رکھو، اگر آپ کا ہاتھ نہ جلے پھر یہ بھی کر لینا۔ کیوں؟ غلط کہا؟ اللہ کا نام لے کر ہاتھ آگ میں رکھ لو، آخر آگ بھی تو یہی چیز ہے نا، وہ تو بھی ایک property ہے نا اس کی۔ تو میٹھی چیز کی بھی تو ایک property ہے نا، اللہ نے بنائی ہے دونوں۔ تو اگر آپ کا ہاتھ نہیں جلتا تو آپ کے اللہ کہنے میں اتنی طاقت ہے۔ تو پھر آپ کر لیں، لیکن اگر وہاں پر نہیں کرتے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہ نفس کا گڑبڑ ہے۔ یہ آپ نفس کے لیے کر رہے ہیں۔ کوئی آپ کو اس پہ یقین نہیں ہے۔
تو ایسی صورت میں ہم لوگوں کو اسباب اختیار کرنے ہوتے ہیں۔ بزرگ نہیں بننا ہوتا۔ یہ جس کو ہم کہتے ہیں نا کیا ہے؟ یہ غلط بزرگی ہے۔ خوامخواہ اپنے ذہن کو سمجھایا ہوا ہے کہ بس میں اس طرح کر لوں گا تو کچھ نہیں ہو گا۔ بھئی سب سے بڑی بات یہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے قوانین کو بلاوجہ نہیں کسی کے لیے توڑتا۔ بلاوجہ کسی کے لیے نہیں توڑتا۔ ٹھیک ہے اللہ کر سکتے ہیں، معجزے بھی ہوتے ہیں، کرامت بھی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے بتاؤ پورے زندگی میں معجزے کتنے ہیں، کرامتیں کتنی ہیں اور عام حالات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر معجزے ہوئے ہیں لیکن کیا ہر وقت معجزے ہی ہوتے رہے ہیں؟ ہر وقت تو معجزے نہیں ہوتے تھے نا، عام زندگی کے آخر، جو جنگ کے اندر پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے تو یہ معجزہ تھا؟ یہ تو مطلب ہے کہ یہ ایک سبب والی بات تھی کہ اس وقت یہ طریقہ تھا کہ جب اس کو بھوک زیادہ لگتی تھی تو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے۔
تو صحابہ کرام نے باندھے ہوئے تھے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم نے تو پیٹ پر پتھر باندھے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھایا تو دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ یہ بات صحیح ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اسباب ہیں وہ اختیار کرنے پڑتے ہیں اور ہمیں وہی کرنا ہے جو طریقہ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ہے۔ وہی کرنا ہے۔ کیونکہ دیکھیں میں آپ کو ایک بات بتاؤں، صاف بات عرض کر رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا، کہ یہود میں 71 فرقے تھے۔ نصاری میں 72 اور میری امت میں عنقریب 73 ہو جائیں گے۔ صرف ایک بچے گا۔ باقی سب۔ تو صحابہ کرام ڈر گئے، یا رسول اللہ ان کی نشانی کیا ہے؟ وہ کون لوگ ہوں گے جو بچیں گے؟ فرمایا: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔ جس پر میں ہوں، جس پر میرے صحابہ چلتے ہیں۔
یہ وہ، یہ لوگ ہیں جو بچیں گے۔ پس پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خیر ڈائریکٹ وحی سے لینے والے تھے نا۔ ڈائریکٹ وحی سے لینے والے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ قرآن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تو لینا ہی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ لینے کے لیے ہمارے پاس پوری ایک جماعت ہے۔ اور وہ جماعت، جماعتِ صحابہ ہے۔ کہ انہوں نے من و عن وہی لیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا۔ کیونکہ تین نعرے تھے، تین نعرے۔ پہلا نعرہ: آمَنَّا وَصَدَّقْنَا۔ ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کر لی۔ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا۔ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔
اور بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ۔ مطلب یہ کہ ماں باپ ہمارے آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ۔ آپ دیکھ لیں، یہ تین نعرے تھے۔ ان تین نعروں نے صحابہ کو صحابہ بنایا۔ اب ہمارا بھی جب یہ حالت ہو جائے گا تو ہم بھی بچیں گے۔ ہم بھی ان کے طریقے پہ جائیں گے۔ نمبر ایک: آمَنَّا وَصَدَّقْنَا۔ ہم جو چیز اللہ کی طرف سے آئی ہے بس آنکھیں بند کر کے قبول، اس میں ہم لوگ سوچیں گے نہیں، سوچنے والی بات نہیں، ایمان بالغیب میں سوچنا نہیں ہوتا۔ سائنس میں سوچنا ہے۔ سائنس میں سوچتے رہو نا، کس نے منع کیا آپ کو؟ سوچتے رہو۔ انجینئرنگ میں سوچو، ڈاکٹری میں سوچو، ان ساری چیزوں میں سوچنا ہے لیکن ایمان بالغیب میں نہیں سوچنا۔ جنت نہیں دیکھی، ماننا ہے۔ دوزخ نہیں دیکھی، ماننا ہے۔ اللہ نہیں دیکھا، ماننا ہے۔ فرشتے نہیں دیکھے، ماننے ہیں۔ کتابیں جو اتری ہیں نہیں دیکھیں، لیکن ماننا ہے۔ اس میں یہ بات نہیں ہے کہ میں نے نہیں دیکھی، جب تک میں ثابت نہ کروں اس وقت تک نہیں، نہیں بھائی، بات۔ اس کے لیے ایک ہی چیز کافی ہے اور وہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین تھے۔
قیصر جو تھا بادشاہ تھا روم کا، اس کے پاس ،ابو سفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ وہ پہنچے تھے۔ تو انہوں نے باقاعدہ انٹرویو لیا اس سے، ابو سفیان سے۔ اس وقت کافر تھے۔ تو انٹرویو لیا تھا۔ پوچھا کہ یہ جو صاحب کی بات آپ کر رہے ہیں، اس نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ اس نے کہا نہیں جھوٹ تو کبھی نہیں بولا۔ کون ہے؟ سخت جانی دشمن ہے۔ جانی دشمن ہے۔ لیکن کیوں؟ مطلب کوئی اس کے پاس evidence نہیں ہے کہ جھوٹ بھی کبھی بولا ہو۔ تو اس نے کہا کہ نہیں جھوٹ تو کبھی نہیں بولا۔ تو انہوں نے کہا جو بندوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پہ کیسے جھوٹ بولے گا؟ جو بندوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے پاس، اللہ پر کیسے جھوٹ بولے گا؟ سبحان اللہ۔
اور اس طریقے سے اور سوالات وغیرہ کیے۔ سب کا انہوں نے اقرار کر دیا۔ وہ تقریباََ تقریباََ مسلمان ہونے کو تھا۔ لیکن بس وہ درباریوں کے پنجے میں آ گیا اور نہیں اعلان کر سکا۔ ورنہ وہ مسلمان ہونے کو تھا کیونکہ اس نے ساری باتیں مان لی تھیں کہ ہاں اگر یہ بات ہے تو پھر کہو۔ پھر تو صحیح ہے۔ یہی نجاشی نے بھی کیا تھا لیکن نجاشی نے اپنے درباریوں کو منوا لیا، وہ مسلمان ہو گئے، یہ نہیں ہو سکے۔ لیکن بہرحال بات سب، سب کے سامنے آ گئی تھی۔
تو یہ میں عرض کر رہا ہوں کہ صادق اور امین، یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین تھے۔ اس وقت بھی صادق و امین ڈکلیئرڈ تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پوچھا، اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن ہم پر حملہ آور ہونے والا ہے، کیا تم اس بات کا یقین کرو گے؟ سب کا اس وقت جو قریش تھے، تو انہوں نے کہا جی کیوں نہیں، ہم نے آپ کو صادق و امین پایا ہے۔ تو ہم آپ کی بات پر کیوں یقین نہیں کریں؟ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی۔ جب دعوت دی تو سب سے پہلے چچا ابو لہب، اس نے کہا کہ تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں، تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟ تو پھر دشمن سارے، دشمن ہو گئے۔ لیکن ان کے جھوٹ پہ الزام نہیں لگا سکے، جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکے۔
اور امین اتنے تھے، امین اتنے تھے کہ ہجرت جب کر رہے تھے تو علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جو چارپائی پہ سلایا تھا کس مقصد کے لیے سلایا تھا؟ امانتیں پہنچانے کے لیے۔ جو امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی، کفار نے رکھی تھی نا اس وقت۔ جو امانتیں پہنچانے کی تھیں، واپس کرنی تھیں، اس کے لیے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو۔ اپنے چارپائی پہ سلایا تھا۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رات جو میں چارپائی پہ سویا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے، چادر اوڑھ لی تھی، جس سکون کی نیند میں اس رات سویا ہوں، کبھی دوسری رات ایسی نہیں آئی کہ اتنا سکون سے میں کبھی سویا ہوں۔ حالانکہ اس وقت بالکل موت سر پہ تھی۔ کیونکہ لوگ تو ان پہ یکبارگی حملہ کر سکتے تھے۔ چادر تو بعد میں اٹھتے نا، تلوار تو پہلے پڑ سکتی تھی۔ لیکن نہیں سکینہ اس کو کہتے ہیں، سکینہ ایسا نازل ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہ کہ بالکل ہی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب تشریف لے جا رہے ہیں باہر، تو دشمن سارا گھیرا کیا ہوا ہے، گھیرا کیا ہوا ہے۔ لیکن آپ اللہ تعالی نے بس ان کے دل میں ڈالا، بھائی ہو گیا، اس نے مٹی اٹھا لی، پھینک دی سب کی طرف۔ پھینک دی سب کی آنکھوں میں پہنچ گئی۔ تو اللہ پاک نے فرمایا: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ کہ تو نے جو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ پاک نے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ پھر سبحان اللہ۔
تو یہ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پوری جماعت تھی اور یہ جماعت صحابہ جو ہے یہ امین ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ساتھ نہ ہو تو یقین کیجیے دین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا، کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فرد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرد ہے، عورت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہری ہے، دیہاتی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے خاندان کے ہیں، کم خاندان کے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت فصیح ہیں، سادہ نہیں۔ یہ ساری باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اب، اب ظاہر ہے کند ہم جنس با ہم جنس پرواز والی بات ہے کہ جو جیسا ہوتا ہے اس کو اس جیسے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مرد تھے تو ہم تو عورتیں ہیں تو ہم کیسے مانیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟ یعنی کیسے، تو طریقہ کیا ہو گا؟ تو عورتیں تھیں۔ عورتوں کو جو کرنے کو بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی عورتیں اب موجودہ عورتوں کے لیے وہ ہیں۔ نمونے ہیں۔ اچھا، شہری صحابہ بھی تھے، دیہاتی صحابہ بھی تھے۔ بہت فصیح بھی تھے، بہت سادہ بھی تھے۔ غلام بھی تھے، بڑے اونچے خاندانوں کے بھی تھے۔ پہاڑی بھی تھے، صحرائی بھی تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے، مطلب لوگوں میں صحابہ کرام موجود تھے۔ نتیجتاً ہر ایک کو اپنا اپنا طریقہ پہنچا۔ کیونکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جو انہوں نے کیا وہ سند ہو گیا۔ وہ مستند ہو گیا۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین قسم کے احادیث شریفہ ہیں۔ ایک ہے قولی، ایک ہے فعلی اور ایک ہے تقریری۔ قولی تو وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کرو یا نہ کرو۔ اور فعلی یہ ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر لیا خود۔ اور تقریری یہ ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو روکا یا نہ روکا۔ اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہ بھی حدیث بن گیا۔ اور نہ روکا، یہ بھی حدیث بن گیا۔ تو اس کے لیے کچھ لوگ ہونے چاہئیں نا جو، جن کو روکا جائے، جن کو نہ روکا جائے۔ کچھ نمونے چاہئیں نا؟ تو یہ نمونے یہی صحابہ تھے۔ اور سارے حدیث کو اگر دیکھیں تو اسی قسم کے واقعات آپ کو ملیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ایسا ہوا اور ایسا ہوا اور صاحب صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ فرما دیا یا یہ کر دیا۔ تو اسی سے ظاہر ہے حدیث بن گیا، اس حدیث شریف سے آگے فقہ بن گیا۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا پورا دین جو بنا ہے وہ اسی دو سنت اور طریقِ صحابہ۔ سنت اور طریقِ صحابہ۔ لہذا جو سنت سے ہٹ گیا وہ بھی ہٹ گیا دین سے۔ اور جو طریقِ صحابہ سے ہٹ گیا وہ بھی دین سے ہٹ گیا۔ ایک بچی نے مجھے ٹیلیفون کیا۔ ماشاءاللہ بڑی اچھی بچی تھی۔ مجھے فون کیا، شاہ صاحب شیعہ اور سنی میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میں نے کہا یہ تو بڑی طالبہ ہے، ظاہر ہے پوچھنا چاہتی ہے، سمجھنا چاہتی ہے، کیوں وجہ کیا ہے، ہمیں تو کسی کے ساتھ بھی وہ نہیں ہے۔ جو سمجھنا چاہتے ہو، اس کے لیے تو ہم حاضر ہیں۔
تو مجھے بڑی خوشی ہوئی، میں نے کہا یہ طالبہ ہے، سمجھدار ہے اور یہ پوچھنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا بیٹا بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالی کے صفت ہادی کے مظہر ہیں۔ پھر ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اس کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہتی ہے ہاں میں جانتی ہوں۔ میں نے کہا مگر پھر یہ تین واسطوں سے ہماری طرف آتا ہے، تین واسطوں سے۔ ایک ہے عام صحابہ، ایک ہے اہلِ بیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اور ایک ہے امہات المومنین۔ یہ تین گروہ ہیں جن سے ہمیں ہدایت مل رہی ہے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی، کیونکہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں کی ہے وہ تو باہر والوں کو پتہ نہیں ہے نا؟ وہ تو اندر گھر والے ہی بتائیں گے نا، کوئی اور تو نہیں بتا سکتا۔ تو اس کے لیے ذریعہ وہ ہیں۔ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور میں کی ہے تو اس میں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تھے نا؟ وہ تو کوئی اور نہیں تھے۔ تو ظاہر ہے وہ تو ہمیں وہی بتائیں گے، جو عام صحابہ ہیں جنہوں نے، مطلب باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی بات کی، عام صحابہ ان کے ساتھ تھے تو وہی بتائیں گے۔ اور جو خاص باتیں میاں بیوی کی ہوتی ہیں وہ تو صرف ازواجِ مطہرات ہی بتا سکتے ہیں نا، کوئی اور تو نہیں بتا سکتا۔
اس وجہ سے پورا دین اگر آپ لینا چاہتی ہیں تو آپ کو تینوں کی بات ماننی پڑے گی۔ تو جنہوں نے، پورا جنہوں نے تینوں سے لیا انہوں نے پورا دین لے لیا اور جنہوں نے کسی ایک سے لیا اور ایک سے، کسی اور سے نہیں لیا، تو بس اس نے ناقص دین لیا ہے۔ مطلب جتنا اس کو ملا ہے اتنا ملا ہے اور جو باقی نہیں ملا تو وہ نہیں ملا۔ وہاں سے محروم ہے۔ اور جنہوں نے کسی بھی ایک کی مخالفت کی جیسے مثال کے طور کسی نے اہلِ بیت کی مخالفت کی یا کسی نے امہات المومنین کی مخالفت کی یا کسی نے عام صحابہ کی مخالفت کی، انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا۔ کچھ بھی نہیں لیا کا مطلب کیا ہے؟ وہ میں سمجھاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں گروہ کے بارے میں کچھ باتیں فرمائی ہیں۔ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں۔ اور عام صحابہ کے بارے میں۔
اس طرح ازواجِ مطہرات کے بارے میں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں، خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں یا حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں، زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں باتیں فرمائی ہیں، اونچی اونچی باتیں فرمائی ہیں۔ اچھا اور اس طرح اہلِ بیت، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں، اس طرح حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، ان کے بارے میں باتیں فرمائی ہیں۔ اب اگر میں یہ باتیں نہ مانوں تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ اگر یہ باتیں نہ مانوں تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے، اگر یہ باتیں نہ مانوں تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ اب مجھے بتاؤ، پھر بچ سکتا ہے کوئی؟ بھئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ مانے تو کدھر ہے وہ؟ وہ تو دین پر نہیں ہے نا؟
ایک ہوتا ہے بات نہ ماننے کا مطلب عمل نہ کرنا، وہ اور بات ہے۔ اور ایک اس کو ماننا ہی نہیں۔ تو یہ ایمان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، سمجھ میں آ گئی بات؟ ماننا ہی نہیں کا مطلب ایمان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ تو وہ تو گیا۔ یہ والی بات۔ تو بس جیسے میں نے یہ بات کی تو میں نے لمبی بات کی سمجھانے کے لیے، اس کو تو میں نے مختصر بات کی، میں نے مختصر، میں نے کہا کہ بیٹا بات یہ ہے کہ عام صحابہ کے طرف سے بھی ہدایت مل رہی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم والی اور امہات المومنین کی طرف سے بھی اور اہلِ بیت کی طرف سے بھی مل رہی ہے۔ تو ان میں سے جس نے سب کا لے لیا اس نے پورا لے لیا اور جس نے کسی ایک کا لیا دوسرے کا نہیں لیا اس نے ناقص لیا اور جس نے کسی ایک کی مخالفت کی تو اس نے کچھ بھی نہیں۔ اس نے فورا کہا شاہ صاحب میں سمجھ گئی بس مجھے وظیفہ دے دیں۔ میں سمجھ گئی ہوں۔ آپ بس مجھے وظیفہ دے دیں، تو میں نے پھر ان کو وظیفہ دے دیا۔
تو مقصد میرا یہ دیکھو نا یہ اتنا، یہ بہت کلیئر قسم کی چیز ہے۔ تو اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ سب سے پہلے ہم اپنا concept درست کر لیں۔ concept درست کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اب دیکھو چاند ہے نا چاند، اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ زمین اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ اچھا، اب اگر چاند پر راکٹ پہنچنا ہے۔ اگر چاند پر راکٹ نے پہنچنا ہے تو جس وقت اسی طرف جس طرف اس وقت چاند ہے، اس طرف سے کھولیں گے تو چاند تو ادھر نہیں کھڑا ہو گا نا۔ وہ تو ہٹ گیا ہو گا۔ تو ادھر تو چاند تو نہیں پہنچے گا نا۔ تو اس کو باقاعدہ کیلکولیٹ کرتے ہیں کہ یہ رفتار کتنی رفتار سے یہ جائے گا اور کتنی رفتار سے چاند مڑ رہا ہے، پھر کون سا ڈائریکشن ہونا چاہیے کہ جب یہ ادھر پہنچ جائے تو یہ ادھر پہنچ جائے، سمجھ میں آ گئی بات؟ یہ کرنا پڑتا ہے۔
تو اسی طریقے سے ہمیں بھی concept درست کرنا ہے۔ کیونکہ concept درست نہیں ہوا تو راستہ ہی غلط ہے، راستہ غلط ہے کبھی بھی اپنے منزل پہ نہیں پہنچ سکتے۔ کبھی بھی اپنے منزل پہ نہیں پہنچ سکتے تو سب سے پہلے اپنے concept درست کرنے ہیں۔ نمبر 1۔ نمبر 2: پھر عمل درست کرنا ہے۔ عمل کس چیز پہ کرنا ہے؟ شریعت پر کرنا ہے۔ شریعت کیا ہے؟ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، صحابہ کرام کے ذریعے سے ہمیں ملا ہے۔ فقہاء نے اس کی تشریح فرمائی ہے۔ بس یہ تین باتیں ہیں۔
تین باتیں۔ یہ جو یہ شریعت ہے اس پر عمل کرنا ہے۔ عمل کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک رکاوٹ میرا نفس۔ وہی عاجلہ والی بات۔ میرا نفس نہیں ماننے کے لیے تیار۔ لہٰذا مجھے پتہ بھی ہو گا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے لیکن پھر بھی۔ ایک لفظ ہوتا ہے جس کو زبان سے کوئی ادا نہیں کرتا لیکن موجود ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں دیکھا جائے گا۔ دیکھا جائے گا۔ تو پھر اِدھر سے جب کہا دیکھا جائے گا تو اُدھر سے بھی پھر آتا ہے کہ اچھا دیکھا جائے گا۔ ظاہر ہے جانا تو اُدھر ہے نا۔ اب جو ہم کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ ہم اللہ کے لیے اور اللہ کی طرف جانے والے ہیں۔ تو یہ تو ہے، فیکٹ ہے۔ اللہ کی طرف تو جانا ہے۔ تو ادھر سے اگر کوئی کسی نے کہا دیکھا جائے گا تو ادھر سے بھی، تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔
اس وجہ سے عمل کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے چاہے انسان عمل کر سکے یا نہ کر سکے وہ علیحدہ بات ہے۔ لیکن conceptually عمل سے بغاوت نہ اختیار کرے۔ وہ خطرناک بات ہے۔ تو یہ میں عرض کر رہا ہوں کہ عمل، اب عمل کے لیے شریعت پر کا علم چاہیے۔ تو شریعت کا علم دو قسم کا ہے۔ ایک ہے تفصیلی علم جو مدرسوں میں حاصل ہوتی ہے۔ تفصیلی علم۔ مدرسوں میں حاصل ہوتی ہے اور ماشاءاللہ علماء ہمارے خیر خواہ ہیں اور بڑے ہیں اور ہم ان سے یہ چیز سیکھتے ہیں۔ تو یہ تو ان کا کام ہے کہ آٹھ سال، دس سال، بارہ سال جو ان کا ٹائم ہوتا ہے وہ اس میں لگاتے ہیں اور وہ ماشاءاللہ پھر ہمارے رہنما ہوتے ہیں علم میں۔ یا دوسرا جو ہے نا وہ فرض عین علم ہے۔ فرض عین علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔ وہ سب پر فرض ہے۔ وہ فرض عین علم سب کو حاصل کرنا چاہیے۔ وہ سب کے ذمے ڈیو ہے۔ اور وہ مشکل نہیں ہے۔ ہم نے اپنا حساب لگایا ہے کہ اگر کوئی دو گھنٹے کی لیکچر روزانہ سنے اس پر اور سمجھے تو دو مہینے میں وہ اس کو سیکھ سکتا ہے۔
دو مہینے کا مطلب 60 دن۔ 60 ضرب 2، 120 گھنٹے ہو گئے نا۔ اب 120 گھنٹے آپ کے پاس نہیں ہیں۔ پوری عمر کو سیدھا کرنے کے لیے 120 گھنٹے بھی نہیں ہیں۔
تو یہ مطلب فرض عین علم حاصل کرو۔
اب آگے عمل کی بات۔ طریقہ آپ کو آتا ہے اب۔ لیکن عمل کے لیے رکاوٹ ہے نفس۔ تو نفس کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ نفس کو مارنا نہیں ہے۔ یہ بعض لوگ کہتے ہیں نفس کو مارا ہوا ہے۔ بھئی نفس کو مارنا نہیں ہے، نفس ہی سے تو آپ کام کرتے ہیں۔ نفس ہی کے ذریعے سے تو آپ کام کرتے تو اگر نفس مار دیا تو پھر کام کیا کرو گے؟ وہ تو موت ہے۔
نفس کو مارنا نہیں، نفس کو قابو کرنا ہے۔ حدیث شریف میں قابو کا لفظ آتا ہے۔ عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیے کام کیا۔ اور بے وقوف ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے دیا اور پھر بعد میں ویسی ہی تمنائیں کرتا رہا۔ وَتَمَنَّىٰ عَلَى اللَّهِ۔ بعد میں ویسی ہی تمنائیں کرتا رہا۔
تو یہ مطلب یہ یہ بات ہے کہ نفس کو قابو کرنے کا۔ اور قرآن پاک میں جو اس کے لیے لفظ ہے وہ ہے تزکیہ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا۔ یقیناً کامیاب وہ شخص جس نے اپنے نفس کے رذائل کو دبا دیا، اس کا تزکیہ کیا۔ اور یقیناً تباہ و برباد وہ شخص جس نے اپنے نفس کو ویسے ہی چھوڑ دیا جس طریقے سے ہے۔
تو پتہ چل گیا کہ نفس کا تزکیہ قرآن میں ہے، حدیث شریف میں قابو کرنا ہے۔ اور اس کو احسان کا لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ فرمایا أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ۔ تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر ایسی کیفیت تیری نہیں تو کم از کم یہ تو ہے کہ بے شک اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ بات ہے کہ مطلب حدیث شریف میں یہ بات ہے۔
تو تصوف ایک عملی چیز ہے۔ وہ تھیوری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ہے وہ پوری کتاب پڑھتا ہے نماز کیسے پڑھی جائے۔ لیکن نماز غلط پڑھتا ہے۔ نماز غلط پڑھتا ہے۔ جب عمل آ جاتا ہے، عمل غلط پڑھتا ہے۔ دوسرا آدمی اس نے کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ لیکن اس نے کسی کو دیکھ کر نماز سیکھ لی۔ دیکھتے دیکھتے پوچھتے پوچھتے نماز سیکھ لی اور پورا صحیح نماز پڑھتا ہے۔ مفتی صاحب کس کو؟ جس نے سیکھ لی۔ مطلب کتاب، کتاب کی اپنی ضرورت ہے، اس میں یہ نہیں کہ کتاب کا انکار نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر عمل کی بات ہے۔ یہاں پر عمل کی بات ہے۔
تو یہ جو چیز ہے کہ عملی طور پر جو کامیاب ہوگیا بس وہ کافی ہے۔ ہاں اس کے لیے جو کوششیں ہیں وہ اپنی اپنی جگہ پہ ضروری ہیں۔ تو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے جو کوششیں ہیں وہ کیا ہیں؟ سب سے پہلے تو اپنے رہنما کو تلاش کرنا ہوتا ہے نا۔ یعنی دیکھو یہ میں آپ کو بتاؤں جو نفس آپ کے اندر ہے وہ جانتا ہے کہ میٹھا میرے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ پھر بھی کھاتا ہے تو اس پر آپ اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا؟ خود بخود کیسے ٹھیک ہوگا؟ بھئی وہ ٹیسٹ میں تو فیل ہو گیا۔ خود بخود تو نہیں ہو رہا نا۔ اس کو کسی کے قابو میں دینا پڑے گا، کسی کے کنٹرول میں دینا پڑے گا۔
اب ایک کنٹرول زبردستی ہوتا ہے۔ ایک کنٹرول زبردستی ہوتا ہے، مثال کے طور پر آپ غلام بن جائیں کسی کے۔ تو مجبوراً آپ کو کرنا پڑے گا جو کہ وہ کروائے گا۔ ایک ہوتا ہے محبت کے دام میں گرفتار ہو جائے۔ اس کے لیے پھر رسی وسی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود ہی بغیر رسی کے گرفتار ہے۔ تو ایسا اگر کسی کو کسی اللہ والے کے ساتھ محبت ہو جائے، جو شیخ بھی ہو، تو بس اب وہ اس کی بات کا انکار نہیں کر سکتا۔
اب کمال کی بات یہ ہے کہ وہ بات کرے گا کیا؟ اللہ ہی کی بات کرے گا، کسی اور کی بات نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی کی بات کرے گا، اللہ پاک نے یہ فرمایا۔ وہ کرے گا۔ تو اللہ کی بات نہیں مانتا تھا لیکن اس کی بات مانے گا۔ لیکن اس نے چونکہ اللہ کے لیے اس کو پکڑا ہوگا لہٰذا اللہ اس پہ ناراض نہیں بلکہ اللہ اس پہ خوش ہوگا۔ سمجھ میں آ گئی نا بات؟ کیونکہ وہ وہی والی بات عاجلہ والی بات۔ كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ۔
تو اس وقت یہ شیخ عاجلہ ہے۔ یعنی نفس کے عاجلہ کے مقابلے میں شیخ آپ کو اللہ کے ساتھ ملانے والا عاجلہ ہے۔ تو عاجلہ کا جواب عاجلہ نے دے دیا۔ diamond cuts diamond۔ مطلب جو چیز اسی کی طرح برابر آپ کے پاس کوئی چیز ہونی چاہیے اس کا توڑ۔ تو یہاں پر کیا ہے؟ اس عاجلہ کا جواب یہ عاجلہ۔ تو اپنے شیخ کی بات آپ نہیں چھوڑ سکتے۔ نہیں چھوڑ سکتے تو وہ آپ کو کہتے ہیں بھئی یہ نہ کرو۔ تو آپ نہیں کرتے۔
اب نفس کے اندر بھی اللہ پاک نے یہ صلاحیت رکھی ہے۔ کہ اس کو جتنا دباتے ہو یہ دبتا جائے گا۔ اور آزاد چھوڑو گے تو مزید شیر ہوتا جائے گا۔ یہ نفس کی خاصیت ہے۔ پس جس وقت آپ اپنے شیخ کی بات پر عمل کرتے ہیں تو پہلی دفعہ تو آپ کی دل پہ آرے چلتے ہیں نا کہ عمل کرتے ہوئے کہ یار یہ تو بڑا مشکل ہے لیکن ظاہر ہے حضرت نے فرمایا ہے تو میں تو چھوڑ نہیں سکتا۔ تو پہلی دفعہ تو بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن دوسری دفعہ کرنے سے پھر وہ مشکل نہیں ہوتا۔ اتنا زیادہ۔ تیسری دفعہ کرنے سے اور آسان ہو جاتا ہے۔ چوتھی دفعہ کرنے سے اور آسان ہو جاتا ہے۔ حتی کہ ہوتے ہوتے ماشاءاللہ بالکل انسان اس پہ آ جاتا ہے جو شریعت کی بات ہے۔ بس یہی تکمیل ہے۔
تو اس کے لیے سب سے بڑی بات ہے کہ صحیح شیخ کو چننا۔ جب آپ اپنے آپ سب کچھ اس کے حوالے کر رہے ہوں گے تو کسی ڈاکو کو تو نہیں کر سکتے نا۔ وہ تو کم از کم یہ ہو کہ وہ صحیح آدمی ہو اور جو آپ کا خیر خواہ ہو وہ سب کچھ آپ کو کرنا پڑے گا اس طریقے سے۔ تو اس کے لیے پھر یہ آٹھ شرائط ہیں۔ آٹھ شرائط آپ کو دیکھنے پڑیں گے اس میں۔
پہلا شرط یہ کہ اس کا عقیدہ کیسا ہے؟ صحیح عقیدہ والا ہو۔ وہی مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي والی بات۔ اس پر ہو۔ صحیح عقیدہ ہو۔
دوسری بات، فرض عین درجے کا علم اس کے پاس کم از کم ہو۔ کیونکہ یہ تو ہر ایک سے مطالبہ ہے۔
تیسری بات، صرف علم نہ ہو بلکہ اس پر عمل بھی ہو۔ یہاں تو معاملہ پورا ہو گیا۔ علم کا عمل کے ساتھ۔ تو اس میں تو یہ چیز موجود ہے تبھی آپ اس کے پاس جا رہے ہیں۔ لیکن اب اس میں مزید برکت۔ وہ کیا؟ کہ اس کے صحبت کا سلسلہ، کیونکہ آپ کو پتہ ہے صحبت کے مقابلے میں اور کوئی چیز نہیں ہے۔ صحابہ کرام اس لیے صحابہ کرام تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تھے۔ تابعین اس لیے تابعین تھے کہ وہ صحابہ کی صحبت میں تھے۔ تبع تابعین اس لیے تبع تابعین تھے کہ وہ تابعین کی صحبت میں تھے۔ تو اس صحبت سے انسان کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ تو یہ صحبت کا سلسلہ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تک پہنچتا ہے یا نہیں؟ اگر پہنچتا ہے تو پھر ٹھیک ہے، پھر ان میں ہے جگہ۔ چار باتیں ہو گئیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کسی نے اس کو authorize کیا ہو۔ کیونکہ صحت مند تو دنیا میں بہت ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر تو بہت نہیں ہوتے نا۔ ڈاکٹر تو کوئی کوئی ہوتا ہے۔ تو کم از کم وہ دیکھو کہ آیا دوسروں کا علاج بھی کر سکتا ہے یا نہیں؟ صرف ٹھیک ہونا اچھی بات، کافی بات نہیں ہے۔ بلکہ دیکھو کہ آیا وہ علاج بھی کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے لیے کسی نے authorize کیا ہو گا اس کو۔ یعنی وہ لوگ جو پہلے سے ٹھیک چلے آ رہے ہیں انہوں نے اس کو اتھورائز کیا ہو گا۔ پانچ باتیں ہو گئیں؟
چھٹی بات، reputation اس کی صحیح ہو، یعنی لوگوں میں، مشائخ میں، علماء میں وہ اچھا سمجھا جاتا ہو کہ یہ ٹھیک ہے۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ ان کا results اچھے آ رہے ہیں۔ چھ باتیں ہو گئیں۔
ساتویں بات، مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔ آج کل یہ بہت بڑی بات ہے۔ آج کل لوگ مروت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایک شاہ جی تھے، میرے ساتھ ملنے جلنے والے۔ میں نے کہا بھئی آپ شیخ تلاش کریں۔ تو کہتے ہیں میں جہاں بھی جاتا ہوں تو کہتے ہیں جی آپ تو خود شاہ جی ہیں، آپ تو ایسے ہیں اور آپ تو ایسے ہیں۔ میں نے کہا پھر آپ نے کسی پیر کو ابھی تک نہیں دیکھا۔ پیر کیا ہوتا ہے؟ وہ تو آپ کو سامنے بتائے گا۔ کہ آپ کے اندر یہ عیب ہے، یہ چیز ہے۔ میں نے کہا بنی اسرائیل تو سب انبیاء کی اولاد ہیں۔ لیکن انہوں نے جب اپنا سب کچھ بگاڑ لیا تو کہاں پہنچ گئے؟ تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ آپ ذرا شیخ اپنے لیے ۔ خیر۔
تو شیخ جو ہوتا ہے وہ مروت نہیں کرتا۔ وہ صحیح بات کرتا ہے۔ ڈاکٹر مروت کر سکتا ہے؟ ڈاکٹر مروت نہیں کرتا، کرے گا تو بیچارے کا کباڑا کر دے گا مریض کا۔ وہ کہتا ہے جی پانچ گولیاں کھاؤ۔ جی پانچ تو نہیں کھا سکتے، کچھ رحم کرو۔ اچھا چلو پھر تین کھا لو۔ یہ ڈاکٹر ہے؟ ڈاکٹر نہیں ہے۔
اب دیکھو جو صبح، دوپہر، شام گولی کا بتایا، صبح، دوپہر، شام کھائیں گے اور اگر کہہ دے کہ سارے گولیاں 50 کے 50 گولیاں ایک ہی وقت میں کھانی ہیں، وہ کیڑوں کے لیے جو ہوتی ہے نا۔ تو اگر وہ تقسیم کر کے کھائے گا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اور وہ جو صبح، دوپہر، شام کا بتایا وہ اگر اکٹھے کھا لیا تو فائدہ نہیں ہوگا، نقصان ہوگا۔ ٹھیک ہے نا؟ تو مطلب یہ ہے کہ مروت نہ کرتا ہو۔
اور آخری بات، اللہ اکبر، اللہ ہمیں نصیب فرمائے، ان کو دیکھ کر اللہ یاد آتا ہو۔ دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ ان کی مجلس میں اللہ کی یاد آتی ہو، اللہ پاک کی محبت بڑھتی ہو، دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ یہ بہت بڑا ٹیسٹ ہے۔ litmus test اس کو ہم کہہ سکتے ہیں۔ تو اگر اللہ کی محبت شروع ہو رہی ہے وہاں، تو سمجھو کہ اللہ والا ہے۔ اور اگر کسی دنیا کی محبت شروع ہو رہی ہے تو بس سمجھو کہ پھر دنیا والا ہے۔
تو یہ آٹھ باتیں ہیں ان کو یاد رکھو۔ اور جب آپ نے ان کو چن لیا، پھر اس کے بعد ان کے ساتھ کوئی argument نہ کرو۔ کیونکہ ڈاکٹر کے ساتھ بھی کوئی argument نہیں ہوتا۔ نہ تعجیل کرو۔ جلدی بھی نہ مچاؤ۔ نہ اپنی مرضی کی دوائی کا درخواست کرو۔ بعض لوگ کہتے ہیں جی حضرت مجھے وہ ذکر دے دیں، بھئی کیوں دے دوں؟ آپ کو وہ ذکر کیوں دے دوں؟ اگر آپ کے لیے ہو تو دوں گا نا۔ یہ فیصلہ آپ نے مجھ پہ چھوڑنا ہے یا آپ نے خود کرنا ہے؟ خود کرنا ہے تو پھر آئے کیوں ہیں؟ تو یہ مطلب ہے کہ یعنی یہ والی بات نہیں ہونی چاہیے۔
وہ بہت سارے لوگ جو ہیں نا مطلب کسی اچھی کتاب کو دیکھ کر نا، اچھا ایک بات یاد رکھیں۔ یہاں پر ایک بہت بڑا ٹیسٹ ہے۔ وہ ایسے ہوتا ہے کہ اگر آپ نے میڈیکل کی کتاب پڑھی نا میڈیکل کی اور آپ ڈاکٹر نہیں ہیں، تو آپ ساری بیماریاں اپنے اندر دیکھ لیں گے، اوہ یہ بھی مجھ میں یہ بھی بیماری ہے، مجھ میں یہ بھی بیماری ہے۔ بڑا پریشان ہو جائے گا، آپ ڈاکٹر کے پاس پہنچ جائیں۔ ڈاکٹر کہے گا آپ بے وقوف تو نہیں ہو۔ یہ تو اس وجہ سے نہیں، یہ تو اس وجہ سے نہیں۔ وہ آپ کو سمجھا دے گا اور آپ سمجھیں گے مجھ میں ساری بیماریاں ہیں۔ اگر میڈیکل کی کتاب پڑھی ہے۔ لیکن اگر آپ تصوف کی کتاب پڑھیں گے نا تو الٹا ہوتا ہے اس کا۔ اس میں جو اچھی باتیں ہوتی ہیں نا وہ ساری بزرگیاں، وہ آپ اپنے آپ میں دیکھیں گے۔ یہ تو مجھ میں بھی ہے، یہ تو مجھ میں بھی ہے، یہ تو مجھ میں بھی ہے۔ آپ بہت بزرگ بن جائیں گے۔ حالانکہ وہ نہیں ہوگا۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ وہی عاجلہ والی بات ہے۔
تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ اپنے طور پہ نہیں کرنا، بلکہ اپنے شیخ سے پوچھ کے کرنا ہے۔ کوئی بات بھی ہو، اس سے پوچھنا ہے کہ میں کروں یا نہ کروں۔ تقویۃ الایمان کتاب ہے شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی۔ میں نے حضرت سے پوچھا، حضرت میں وہ کتاب پڑھوں؟ خاموش، کچھ نہیں فرمایا۔ پھر میں نے پوچھا حضرت وہ کتاب پڑھوں؟ پھر خاموش۔ پھر میں نے حضرت سے پوچھا حضرت وہ کتاب پڑھوں؟ پھر فرمایا ہاں پڑھو لیکن اچھی طرح پھر پڑھو۔ درمیان میں چھوڑو نہیں۔ کیوں اگر selected پڑھ لیا تو پتہ نہیں کیا سمجھ جاؤ گے۔ پھر اچھی طرح پڑھو۔ میں نے سمجھا کہ اس میں کچھ مسئلہ ہے، اس کو جب تک پورا نہیں پڑھو گے اس وقت تک مسئلہ ہو سکتا ہے۔
تو ایسا ہوتا ہے، مطلب ظاہر ہے جو جو اس راستے سے آگاہ ہوتے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اس میں کیا کیا مسئلے ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک ہمارے ساتھی تھے ہاسٹل میں۔ ان کو کچھ مسائل ہو گئے۔ پریشان ہو گئے۔ میں نے کہا جی مولانا صاحب سے ملتے ہیں، کہتے ٹھیک ہے جی۔ صبح سویرے میں لے گیا مولانا صاحب کے پاس۔ مولانا صاحب نے ان کو دیکھا تو فرمایا کس کو پڑھتے ہو؟ فوراً پوچھا کس کو پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا رئیس امروہی۔ انہوں نے کہا آئندہ نہیں پڑھنا اچھا، ٹھیک ہے؟
پھر اس نے اپنے بارے میں کہا حضرت مجھے تو اپنے بارے میں بڑی گھبراہٹ ہے، فرمایا آپ کے ماتھے پہ خوش بختی کے آثار ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ بس آپ ان کو نہ پڑھیں اور صرف جو میں بتاؤں وہ پڑھیں۔
ایک بہت اچھی کتاب میں نے پڑھی، پوری رات نیند نہیں آئی۔ پوری رات نیند نہیں آئی۔ اور وہ بہت بڑے بزرگ کی ہے۔ بہت بڑے بزرگ اب نام لوں گا تو آپ کہیں گے مجھ پر آپ کو شک ہو جائے گا کہ بھئی پاگل ہیں کیا ہے، اس کتاب کے بارے میں اس قسم کی بات کر رہے ہیں۔ تو میں نے پڑھی تو مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ میں خیر صبح سویرے پہنچ گیا حضرت کے پاس۔ حضرت مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ حضرت نے پوچھا کون سی کتاب پڑھی ہے؟ میں نے کہا حضرت فلاں۔ خیر بہرحال یہ ہے کہ وہ وہ جو ہے نا وہ مجھ سے پوچھا، کون سی کتاب پڑھی ہے؟ میں نے بتا دیا کہ حضرت فلاں کتاب پڑھی ہے۔ آپ کے اوپر ساری کتابیں بند۔ آپ نے صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ اور ملفوظات پڑھنے ہیں، اس کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھنی ہے۔ اور پھر فرمایا، یہ نہ کہنا کہ یہ کتاب غلط ہے۔ یہ نہ کہنا کہ یہ کتاب غلط ہے۔ بعض دفعہ ڈاکٹر ملائی بھی روک دیتے ہیں، معدہ کمزور ہونے کی وجہ سے، ملائی بھی روک دیتے ہیں۔ بس اتنی بات کافی ہے۔ پھر میں نے نہیں پڑھی۔
تو اب ظاہر ہے مطلب ہے اگر اللہ والوں کے پاس انسان ہوتا ہے تو وہ کنٹرول کر لیتے ہیں۔ سب کو ذکر دے رہے تھے، زیادہ زیادہ، مجھے نہیں دے رہے تھے۔ اب میں جب بھی کہتا حضرت ذکر، آپ کے پاس ٹائم ہے؟ چپ ہو گیا تھا۔ پھر اس کے بعد پھر کبھی کہہ دیتا تھا تو نہیں۔ اور میں حضرت سے لوگوں کو بیعت کراتا، ان کو میرے سامنے زیادہ ذکر دیتے۔ مجھے نہیں دیتے۔ تو ایک دن فرمایا، جتنا ذکر، جونسا ذکر کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ یہ اچانک فرما دیا۔ بس وہ کیا بات تھی اور کیا بات نہیں تھی، کیا ہو گیا، پھر کیا نہیں ہوا، یہ تو اللہ کو پتہ ہے، لیکن میرے ساتھ تو یہ ہوا ہے۔
ایسے ہی باتیں ہوتی ہیں، اسی کے لیے لوگ مشائخ کے پاس جاتے ہیں۔ تاکہ انسان کی ٹیوننگ صحیح ہو جائے۔ ہماری گاڑی چلتی ہے نا تو درمیان میں کچھ گڑبڑ ہو جاتی ہے تو پھر کدھر چلے جاتے ہیں؟ ٹیوننگ درست کراتے ہیں نا۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں نا اللہ ہمیں ٹھیک کرنے کے لیے ایسے حضرات کے پاس جانا ضروری ہے جو کہ ان چیزوں کو جانتے ہوں۔
باقی یہ ہے کہ فضل تو اللہ کا ہی ہوتا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ انسان استعمال ہوتا ہے۔ اور جو استعمال ہو رہے ہیں وہ بڑے خوش قسمت ہیں۔ الحمدللہ۔ وہ بڑے خوش قسمت ہیں جو استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ان کا کمال نہیں، کمال کس کا ہے؟ اللہ کا ہے۔ اللہ ہی کرتا ہے۔
یہی فرق ہوتا ہے لوگوں میں سوچنے کا کہ جن کو اپنے شیخ سے ہوتا ہوانظر آتا ہے نا، تو اپنے شیخ پر یقین کر لیتے ہیں کہ سب کچھ وہ کر رہا ہے۔ یہاں سے گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے۔ بھئی سب کچھ وہ نہیں کر رہا، سب کچھ کون کر رہا ہے؟ سب کچھ اللہ کر رہے ہیں۔ ہاں ذریعہ وہ اس کو بنا رہے ہیں۔ تو اب اللہ کا یہ قانون ہے کہ جس کو ذریعہ بناتے ہیں اس کی قدر بھی کرواتے ہیں۔ مثلاً والدین کی قدر کراتے ہیں کیونکہ ان کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ استادوں کی قدر کراتے ہیں کیونکہ علم کا ذریعہ ہے۔ مشائخ کی قدر کراتے ہیں کیونکہ تعلق مع اللہ کے ذریعہ ہیں۔ تو ہر ایک کی جو قدر کرواتے ہیں وہ قدر تو کروائے گا اللہ تعالیٰ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک آپ اس کو اللہ کی صفات میں شریک کر دیں۔ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
اور یہ بات جس پر بھی کھلتی ہے وہ خود بخود سمجھ جاتا ہے کہ واقعی کرتا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرمائے۔ دعا کریں کہ اللہ جل شانہ ان ساری باتوں پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔