نسبتِ یاد داشت کی وضاحت سے پہلے جن تمہیدی امور کا جاننا ضروری تھا ان کا اس مقدمے میں بیان ہوچکا ہے۔ اب ہم نسبتِ یاد داشت کے متعلق اصل مبحث پر آتے ہیں۔ عارف مجذوب دو لفظ ہیں عارف جس کو معرفت حاصل ہے، مجذوب جس کو جذب حاصل ہے۔ جب ”نسبت بے نشانی“ بے نشانی سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی ایسی چیز جس کا کوئی نشان نہیں ہے ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ مطلب اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بے چون و بے چگون حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسکا مطلب لیتے ہیں۔
عارف مجذوب جب ”نسبت بے نشانی“ کی حقیقت سے واقف ہوجاتا ہے اور اس کے بعد جب کبھی وہ اس نسبت کی طرف پوری دل جمعی سے متوجہ ہوتا ہے، تو اس حالت میں اس کے تمام قوائے اور احساسات کلیۃً اس حقیقت کے تابع ہوجاتے ہیں جو اس کے ذہن نے ادراک کی تھی۔
ذہن نے مختلف وجوہات سے مختلف چیزوں سے ادراک کی تھیں لیکن جس وقت اس نے توجہ کی تو سارے ادراکات اس کے ساتھ شامل ہوگئے اور اس نے ایک حقیقت کا روپ دھار لیا۔
یہاں عارف کی قوتِ متوہمہ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے جو اجمالی طور پر اس ”حقیقت بے نشانی“ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک خیال ہوتا ہے جس سے وہ conclude کرتا ہے کوئی چیز۔
اس منزل میں اس خیال کی کوئی مخصوص وضع، شکل یا صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت ایک خاص معنوی ہیئت کی ہوتی ہے۔
ہیئت بھی صورت کو کہتے ہیں۔ معنوی یعنی معنی کے لحاظ سے اس کی صورت بنتی ہے، معنوی صورت۔
یہی معنوی ہیئت تجلئ حق ہے جو عارف کی قوتِ متوہمہ میں نازل ہوئی۔
میں دوسری بات میں کہہ سکتا ہوں ہیلی کاپٹر land کرتا ہے جہاز land کرتا ہے اس کے لئے کوئی landing pad ہونا چاہئے، ایئر پورٹ ہونا چاہئے۔ یہ جتنی بھی محنت آپ قوتِ وہمہ اور قوتِ متخیلہ کو organize کرنے کی کرتے ہیں، یوں کہہ سکتے ہیں اس کو helipad بنانے اور ایئر پورٹ بنانے کے لئے کررہے ہوتے ہیں کہ اس پہ وہ تجلی نازل ہوجائے۔ کیونکہ اگر وہ نہیں ہے تو پھر وہ تجلی نہیں آئے گی۔ کیونکہ وہ اس کے لئے وہ موجود نہیں ہے مطلب جس کو کہتے ہیں نازل ہونے کی جگہ موجود نہیں ہے۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں ایک طرف تو حجابات ہیں جس کی وجہ سے آپ کو نظر نہیں آتا، اور ایک طرف آپ نے اس کے لئے وہ مناسب میدان نہیں بنایا تو اس وجہ سے وہ تجلئ حق نازل نہیں ہوتی۔ تو یہ پورا process جو ہے وہ اصل میں اس حقیقت بے نشانی کا جو نزول ہے اس کے لئے آپ اپنے دل کو سنوار رہے ہیں۔ کیا لکھا ہے یہ اوپر؟ یہ شعر سنو، پڑھ لو؛
دور باش افکارِ باطل، دور باش اغیار دل
یہ، یہ کیا چیز ہے؟ وہی نفسانی تقاضے ہیں نا، اور؟
سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لیے دربارِ دل
بس، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ حضرت نے یہی بات تو فرمائی ہے نا کہ ذکر سے پہلے اپنے ذکر کے لئے دل بناؤ تاکہ اس کے اوپر وہ تجلی آسکے۔ ورنہ آپ سر ہلا رہے ہوں گے لیکن وہ چیز نہیں آئے گی۔ مطلب اس کے لئے میدان بناؤ۔ دیکھیں نا کتنی زبردست حقیقت ہے کہ اس وقت جو نسبت بے نشانی ہے، چونکہ اب اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے تو اس اللہ کی یاد کے لئے پہلے تو جگہ بنا ؤ، صاف کرو، نفسانی تقاضوں سے پاک کرو، پھر جو carriers ہیں، نسبتِ یاد داشت یعنی اس کی قوت متخیلہ قوتِ وہمہ، اس کو ماشاء اللہ train کرو۔ train سے مراد یہ ہے کہ اس کو یعنی طریقہ کار سمجھاؤ کہ وہ عین موقع پر صحیح سوچ سکے، صحیح ادراک کرسکے، صحیح اندازہ کرسکے۔ تو یہ ایک پورا process ہے مطلب لیکن بہرحال یہ process اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن چیز تو ایسی ہے کہ اس کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔
اب دوبارہ پڑھتا ہوں، یہ بہت اہم چیز ہے۔
اور اس کے بعد جب کبھی وہ اس نسبت کی طرف پوری دل جمعی سے متوجہ ہوتا ہے، جو اس کے ذہن نے ادراک کی تھی۔ یہاں عارف کی قوتِ متوہمہ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے یہ قوتِ متخیلہ ہے۔ جو اجمالی طور پر اس ”حقیقت بے نشانی“ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس منزل میں اس خیال کی کوئی مخصوص وضع، شکل یا صورت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی نوعیت ایک خاص معنوی ہیئت کی ہوتی ہے۔
وہی والی بات جیسے قوتِ وہمہ والی بات۔ یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوگئیں، خیال ہے لیکن معنوی ہیئت۔ معنوی ہیئت اس لئے ہے کہ اللہ پاک کی صفات آپ کے ذہن میں ہیں تو معانی موجود ہیں۔ تو جو معانی موجود ہیں اس کی ایک ہیئت بنے گی آپ کے خیال میں۔ ان صفات کی ایک معنوی ہیئت بنے گی آپ کے خیال میں۔ یہ وہ ادراکات ہیں ٹھیک ہے نا؟ تو یہی معنوی ہیئت تجلئ حق ہے جو عارف کی قوتِ متوہمہ میں نازل ہوئی۔ start کہاں سے ہوئی، قوتِ متخیلہ۔ اور آئی کس طرف قوتِ متوہمہ۔ اسی طرح جب یہ معنوی ہیئت قوتِ متوہمہ کی بجائے عارف کی قوتِ متخیلہ کو اپنا آماجگاہ بناتی ہے تو عارف کے خیال میں ایک صورت آ موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ خیال میں صورت ہوتی ہے، خیال میں صورت ہوتی ہے اور قوتِ متوہمہ concept ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے نا؟ اور اسے عارف تجلی حق سمجھتا ہے۔ تو پھر قوتِ متوہمہ اس کو بتاتی ہے، نہیں یہ حق نہیں یہ تجلی حق نہیں ہے۔ مطلب یہ اللہ نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی نا بات؟ تو پھر کہتے ہیں یہ نہیں ہے، لیکن اس کو اپنے آپ میں مشغول تو کرلیتے ہیں۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم کی تجلی، تجلی وہمی ہوتی ہے پہلی والی قوتِ وہمہ والی اور دوسری قسم کی تجلی تجلی خیالی ہوتی ہے۔
عارف جب تجلی وہمی کو پا لیتا ہے تو پھر وہ اس کی باقاعدہ حفاظت کرتا ہے اور اس پر برابر نظر رکھتا ہے۔ تجلی وہمی کی اس طرح حفاظت اور نگہداشت کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عارف کے سامنے ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف ایک کشادہ راہ کھل جاتی ہے۔ وہ صفات اس پر کھلتی جاتی ہیں۔ اور اس سے اس کے اندر بڑی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ مشائخ میں سے جس بزرگ نے سب سے پہلے یہ راہ اختیار کی اور اس طریقے کو اپنا مسلک بنایا اور اس کی طرف اپنے اصحاب کو متوجہ کیا اور وہ خود بھی ہمہ تن اس میں لگ گئے۔ چنانچہ اس ضمن میں جو کچھ انہوں نے کہا، اس مقام سے کہا، اور جو کچھ کیا اسی مقام سے کیا۔ وہ بزرگ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس طریقے کو وہ ”دوام مراقبہ“ کہتے تھے۔ اور اسے انہوں نے ”وجہ خاص“ کا بھی نام دیا تھا۔
”نقشبند“ اس لئے تو یہ نام ہے اس کا۔ مطلب نقشبند یعنی نقش جو ہے ناں وہ چیز جو ہوجاتی ہے۔
خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے بعد خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ آئے اور انہوں نے جذب کے اس طریقے کو اور مختصر کردیا۔ دل کا ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف مائل ہونا اور اس کے سوا دل میں کسی اور خواہش کا باقی نہ رہنا۔ اور نیز جذبۂ محبت کی انتہائی کیفیت میں سرشار ہوکر چشمِ دل کو مسلسل اسی جانب متوجہ کردینا۔ خواجہ احرار نے ان کیفیات کو راہِ جذب کا خلاصہ قرار دیا۔
بالکل وہی چیز ہے۔ یعنی ہے مختصر لیکن چیز وہی ہے۔ یعنی اس میں مرتبہ بے نشانی یعنی پہلے سے آپ کو پتا ہے متوہمہ موجود ہے کہ اس کا کوئی خیال نہیں بن سکتا، تو فرق صرف یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو اپنی خواہشات سے فارغ کردیں، خالی کردیں، خالی کردیں، خالی کردیں، خالی کردیں خالی کردیں۔ جو کام آپ کے ذمہ ہے وہ کرتے ہیں۔ تو جو کام اس کا ہے وہ اپنا کرتا رہے گا۔ مطلب جو کام ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾ جو کوشش اور محنت ہے، میرے لئے جو کررہا ہے مجھ تک پہنچنے کے لئے ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ وہ راستہ بنائے گا وہ۔ تو خود بخود وہ چیز آئے گی سامنے۔
چنانچہ اس طرح راہِ جذب کا یہ مختصر طریقہ پیدا ہوگیا۔ اس طریقہ میں فیض پانے اور دوسروں کو فیض پہنچانے کا سارا دار و مدار دراصل صحبت پر ہے۔
کتابوں سے یہ نہیں پیدا ہو سکتی، وہ کہتے ہیں: ؎
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
تو اب میں آپ کو ایک کلیے کی بات بتاؤں۔ بات تو یہی ہے یہ نسبت کتنی قیمتی نسبت ہے، نسبتِ یاد داشت۔ اب یہ نسبت پیدا ہوتی ہے بزرگوں کی صحبت سے۔ confirm بات ہے۔ اب جب یہ بزرگوں کی صحبت سے پیدا ہوتی ہے تو بزرگوں کی صحبت میں آکر اگر انسان اپنے نفسانی تقاضوں کو نہ دبا سکے تو پیدا ہوگی؟ مثلًا کوئی دنیاوی تقاضا اس کے ساتھ لگا دیا، مجھے یہ فلاں چیز مل جائے. تو بعض دفعہ بعض بزرگ بڑے غیرت مند ہوتے ہیں، وہ ان کی وہ چیز قبول کرلیتے ہیں، کہتے ہیں اچھا لے لو، ٹھہرو، اور اصل چیز سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس کی قیمت بہت کم لگائی ہوتی ہے۔ تو کہتے ہیں چلو ٹھیک ہے لے لو تم اس پر خوش ہوتے ہو تو لے لو۔ اس کی طرف پھینک دیتے ہیں، اصل چیز سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ بزرگوں کے پاس اس نیت سے جانا ہوتا ہے، یہ چیز مل جائے۔ یہی چیز ہوتی ہے۔ اور میرے خیال ہے اس پر تو میں مسلسل بات کرتا آیا ہوں کہ جب درمیان میں کہیں پر بھی یہ چیز آجائے، نفسانی تقاضے وہ مدار بن جائیں جس میں خسیس تقاضے بھی ہوتے ہیں مثلًا مجھے پیسے مل جائیں، مجھے مطلب یہ ہے کہ اور فلاں چیز مل جائے، فلاں چیز مل جائے؛ یہ خسیس تقاضے ہیں۔ اور خسیس کے مقابلہ میں ذرا روحانی تقاضے بھی، مجھے خلافت مل جائے مجھے یہ، یہ سارے کے سارے اس چیز سے محروم کرنے والے ہیں۔ اس چیز سے محروم کرنے والے ہیں۔ ملتا ان کو ہے یہ چیز جب وہ ان چیزوں سے کٹ کے آجائیں، ان چیزوں کو چھوڑ دیں، بھئی یہ مجھے نہیں چاہئے، مجھے ایسی دنیا نہیں چاہئے۔ جو ان چیزوں سے کٹ کے آجائے تو پھر ان کو یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔
خواجہ احرار کے بعد ایک زمانہ دراز گزر گیا۔ اور اس دوران میں راہ جذب کی اس کیفیت میں جو سینہ بہ سینہ برابر چلی آتی تھی تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ اس کیفیت میں ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف جو میلان پایا جاتا تھا وہ مفقود ہوگیا۔ اور اس کی بجائے سالکوں نے اس چیز کو جو اصل ایمان میں داخل ہے اور اس پر وہ پہلے سے ایمان لاچکے تھے اپنا نصب العین بنایا۔ یہاں سے وہ آگے نہیں بڑھے بلکہ اسی مقام میں وہ رک گئے۔ اور اصل ایمان کی اس چیز کی حفاظت میں کوشاں ہوئے اور انہوں نے اسی نسبت کی تکمیل کی اور اسی کے قیام میں وہ مصروف ہوگئے۔ اور وہ سمجھے کہ ہم نے اصل مقصود کو پالیا۔
میر ابوالعلی کے متبعین میں سے عوام یہی نسبت رکھتے تھے اور فقیر نے ان میں سے ایک بڑی جماعت کو دیکھا بھی ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جو اسم ”اللہ“ کو اپنے خیال میں موجود اور حاضر پاتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان کی نسبت زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔ اور جن کے خیال میں اسم ”اللہ“ کا تصور قائم نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ نسبت اس شخص کے مشابہ ہے جس کے حواس سکر اور مستی کی کیفیات سے سرشار ہوں۔ غرضیکہ اہل جذب کے نزدیک اس نسبت کے دو رخ ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ اس نسبت کے ظاہری رخ سے مراد ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کے نسمہ میں جاگزیں ہوکر اس سے کلیۃً ملحق ہوجاتی ہے اور اسی نسبت کا باطنی رخ ”بے نشانی محض“ ہے، جس کو کہ صرف روح مجرد ہی ادراک کر سکتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جن کو جذب کی توفیق نہیں ملتی، وہ اس نسبت کو صرف اپنے نسمہ ہی میں مؤثر اور غالب دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ اس مقام سے اوپر اس نسبت کا کوئی اور وجود تسلیم نہیں کرتے۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگوں میں جتنا جتنا یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ قویٰ مضبوط تھے یا ادراک قوی تھا یا طلب زیادہ تھی تو انہوں نے تو اس کا اس وقت جتنا حصہ پانا تھا پا لیا، بعد میں مطلب یہ ہے کہ ایسی بات ہوگئی کہ کچھ لوگوں کے لئے وہ چیزیں حاصل کرنی ممکن نہیں رہیں تو انہوں نے پھر جو ایمان ہے وہ تو کم سے کم مطلب درجہ ہے نا، مطلب ظاہر ہے کم از کم ایمان کو تو بچانا ہے۔ تو ایمانیات کو بچانے کے لئے جو طریقہ کار تھا وہ انہوں نے حاصل کرلیا۔ اور پھر اپنے وقت میں انہوں نے اسی چیز کو حاصل کرلیا۔ تو جیسے مثال کے طور پر میر ابوعلی کے متبعین کے بارے میں کہا کہ وہ عوام جو ہے اس کا یہ کررہے تھے تو یہ لفظ ”اللہ“ کو خیال میں جما رہے تھے۔ لفظ ”اللہ“ کو خیال میں جما لیتے۔ اب لفظ ”اللہ“ اسم ”اللہ“ اور اس کی طرف خیال جانا یہ بھی سبحان اللہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اللہ کی طرف خیال جانا۔ جیسے ایک حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے روشن خان رحمۃ اللہ علیہ تو اخیر وقت میں لوگ تلقین کررہے تھے لیکن وہ صرف آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، کچھ بھی نہیں کہہ رہے تھے۔ تو ان کا ایک پرانا دوست آیا تو ان سے لوگوں نے شکایت کی حضرت! یہ تو بڑے ذاکر شاغل تھے، لیکن ابھی بالکل تلقین کررہے ہیں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ لیکن زبان سے کچھ نہیں نکل رہا، کیا بات ہے؟ تو ان کے ساتھ چونکہ بے تکلف تھے انہوں نے آتے ہی: روشن خان کیا بات ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: ان لوگوں کو روکو یہ مجھے مسمیٰ سے اسم کی طرف لارہے ہیں۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور یہ مجھے اللہ کے نام کی طرف لارہے ہیں۔ سمجھ میں آگئی نا بات؟ تو یہ والی بات ہے کہ رخ اپنا اپنا ہے۔ تو ایک ظاہر والا رخ ہے، ایک باطن والا رخ ہے۔ تو جو باطن رخ ہے وہ بے نشانی محض اس کی طرف دھیان کا ہوجانا یہ والی بات ہے۔
اس نسبت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ جس شخص کو یہ نسبت حاصل ہو وہ ”وجود عدم“ کی استعداد رکھتا ہے۔
وجود عدم یعنی جو بظاہر نہیں ادراک ہو سکتا اس کو بھی وہ پا لیتے ہیں۔
”وجود عدم“ کے معنی یہ ہیں کہ عارف جب ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف متوجہ ہو تو اس میں نہ تو گرد و پیش کی اشیاء کا کچھ ادراک باقی رہے اور نہ ادھر اُدھر کے خیالات اس کے ذہن میں داخل ہوں۔ اور اس نسبت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نسبت کی وجہ سے سالک پر ایسی قوی تاثیر طاری ہوجاتی ہے کہ وہ ایک نگاہ یا معمولی سی ”توجہ“ سے ”وجود عدم“ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور حواس کی تشویشات سے اسے کلی طور پر نجات مل جاتی ہے۔
یعنی یوں سمجھ لیجئے عدم سے مراد یہ ہے کہ وہاں کچھ بھی نہیں۔ بہت مشکل ہے سمجھانا اس کا، کیوں وجہ کیا ہے کہ الفاظ والی بات ہے۔ الفاظ کی تنگ دامانی۔ جہاں نہ مشرق ہے، نہ مغرب ہے، نہ شمال ہے نہ جنوب ہے، نہ دن ہے نہ رات ہے؛ تصور کریں کہ کیا ہے۔ یہ وجود عدم ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور تو کریں، دن اور رات کا تعلق کس چیز کے ساتھ ہے؟ سورج کے چڑھنے ڈوبنے سے، تو جہاں سورج نہ ہو تو وہاں پر کیا ہوگا؟ وہاں دن اور رات کی کیا حالت ہوگی؟ شمال و جنوب کا تعلق بھی جغرافیہ سے ہے نا؟ تو جہاں جغرافیہ exist نہیں کرتا تو وہاں پر کیا ہوگا؟ یہ تو ہم اپنی محدود دنیا میں ہیں، limited ہیں نا، اس وجہ سے یہ چیز ہمارے ہاں منقش ہے۔ ہم لوگ اس reference سے چیزوں کو جانتے ہیں، لیکن یہ خود references بھی تو مستقل نہیں ہیں، جب یہ نہیں ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ تو یہ گویا کہ وجودِ عدم جو ہے یہ ایسی چیز ہے جس کا پانا یہ کافی۔ لیکن بہرحال جن کو اللہ پاک نے ادراک قوی دیا ہوتا ہے تو وہ پا سکتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے نکل سکتے ہیں۔ پہلے نفسانی تقاضوں سے، پھر اپنے ان references سے۔ وہ ان چیزوں سے نکل سکتے ہیں۔ تو حواس کی تشویشات جس کو ہم کہتے ہیں، کلی طور پر نجات پا لیتے ہیں۔
اس سے سالک کی ہمت میں تیزی اور جدت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس کی قوت عزم ”شخص اکبر“ تک جا پہنچتی ہے۔
اب شخص اکبر کیا ہے؟ پوری کائنات ہے۔ تو اس وجہ سے یہ وہاں سے پھر بہت ساری چیزوں کو کرسکتے ہیں۔
چنانچہ کم ہمتوں کو ہمت بندھانا، امراض کو دور کرنا اور اس طرح کے اور تصرفات کرنے کی توفیق اسی نسبت کی طفیل حاصل ہوتی ہے۔ اور کشف و اشراف کے ذریعہ دوسروں کے دلوں کے احوال جاننا بھی اسی نسبت کا ثمرہ ہوتا ہے۔
تو یہ ہمارا آج کا سبق تھا یعنی نسبتِ یاد داشت۔ نسبتِ یاد داشت اصل میں بنیادی طور پر کیا ہے وہ جو بے نشانی محض، اس کا ذہن میں رہنا، اس کا ادراک کرنا، یہ بے نشانی محض کا ادراک جو ہے یہ نسبتِ یاد داشت ہے۔ چونکہ یہ بے نشان ہے لہٰذا اس پر محنت کرنی ہوتی ہے۔ کسی نشاندہی والی چیز ہوتی ہے اس کو یاد رکھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ تو آپ کسی کو دیکھ لیں تو ذرا تصور کرلیں تو آپ کے سامنے آجائے گا لیکن جو چیز آپ نے دیکھی نہیں، دیکھی بھی نہیں اس کی کوئی مثال بھی نہ ہو تو پھر اس کا ذہن میں کیسے بٹھانا ہے؟ اور اس کی طرف اپنی توجہ کیسے لگانی ہے، تو اس پہ پھر محنت ہے۔ اس وجہ سے اس کو نسبتِ یاد داشت کہتے ہیں۔ یہ فہم تصوف ذرا۔۔۔۔ یہ ذرا تھوڑا سا اب میرے خیال میں یہ چیزیں سمجھ میں آئی ہیں اس کے بعد اس وجہ سے میں اس کو کرنا چاہتا تھا۔
تجلی
کسی شئے کے دوسرے یا تیسرے درجے یا چوتھے یا جہاں تک اللہ چاہے۔ اس مرتبے میں ظاہر ہونے کو تجلی کہتے ہیں۔
یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ جل شانہ کسی تجلی سے کسی چیز کو ظاہر فرما دے۔
تجلی صوری
جب سالک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی موجودگی پر یقین ہونے کی وجہ سے اس کا خیال اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ تو قوتِ مدرکہ اور قوتِ واہمہ ایک ایسی وہمی صورت تراشتی ہیں کہ جس میں شکل و رنگ اور جہت نہیں ہوتی، لیکن یقین کے لیے ایک صورت بناتا اور درست کرتا ہے۔ تاکہ اس کی شرح و تفصیل پیش کریں۔ بعض اذہان میں یہ یقین صرف صورتِ خیالیہ کی شکل میں پھیل جاتا ہے۔ اس خیالی صورت کو تجلی صوری کہتے ہیں۔
کیونکہ خیال میں صورت بنتی ہے۔
قوتِ واہمہ
خیال کی قوت جس سے انسان تصور قائم کر سکتا ہے۔
قوتِ مدرکہ
وہ قوت جس سے اشیاء و احوال کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔
اچھا اب یہ آگے جاکر ہم اب آگے جاتے ہیں کہ نقشبندی طریقہ کیونکہ الفاظ نقشبندی ہیں نا، تو اس وجہ سے میں ادھر جاتا ہوں۔
نگہداشت
اس سے یہ مراد ہے کہ ذاکر اپنے قلب کے بارے میں خبر رکھے اور کمال ہوشمندی سے رہے اور جو وساوس و خیالات غیرِ خدا کے دل میں آئیں، اُن کا ابتدا ہی سے تدارک کرے۔ ورنہ طبیعت کے اس طرف مائل ہونے کا خطرہ ہے۔ پھر نجات مشکل ہو سکتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ خطرہ کو ایک ساعت بھی دل میں نہ رکھنا چاہیے۔ بزرگوں کے نزدیک یہ بہت اہم ہے۔ اولیائے کاملین کو یہ دولت طویل عرصے تک حاصل رہتی ہے۔
یاد داشت
یہ فکر اور دھیان کے ہم معنی ہے۔ اس سے مراد دوامِ آگاہی بحق سبحانہٗ و تعالیٰ ہے۔ یہ نگہداشت کہ جس میں طالب اپنی کوشش سے اللہ تعالیٰ کی طرف مشغول رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے اور اگلا مرحلہ وہ ہے جس میں سالک خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف مشغول و مخاطب ہوتا ہے۔ یہ مقام منتہی کو فنا و بقا کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد چاہے جیسی بھی حالت ہو اس سے متاثر ہوکر سالک اپنے محبوبِ حقیقی سے غافل نہیں ہوتا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پہ فرمایا کرتے تھے: ؎
دل کے میخانہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکا لی دیکھ لی
مطلب یہ ہے کہ اس طریقہ سے عارفین جو ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ تو میرے خیال میں اس chapter کے بعد یہ جو ہماری جو اصطلاحات ہیں اس میں ان سے مدد لی جا سکتی تھی۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ