اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔اَلصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ (سُوْرَةُ الذَّارِيَات: 56) وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: الٓمٓ ﴿١﴾ ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولـٰئِكَ عَلىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾ (سُوْرَةُ الْبَقَرَة: 1-5) وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا، (سُوْرَةُ آلِ عِمْرَان: 193) وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي دُعَاءِنَا رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٢٨﴾ (سُوْرَةُ الْبَقَرَة: 127-128) صَدَقَ اللهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ وَصَدَقَ رَسُولُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيمُ۔
بزرگو اور دوستو، ہر شخص کا سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقصد سمجھ لے کہ اس کا مقصد کیا ہے، کسی بھی کام کا۔ مثلاً وہ دفتر آتا ہے تو دفتر آنے میں اس کا مقصد کیا ہے؟ گھر بناتا ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ کسی پوسٹ کو جوائن کرتا ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ جب تک اس کو اس کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تو وہ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا۔
تو مقصدیت جو ہے وہ ہماری زندگی کا جزو اول ہے۔ ہماری پوری زندگی اسی مقصدیت کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔ اور جس کے زندگی میں مقصدیت کا خیال نہ ہو، اس کی زندگی میں افراتفری ہوتی ہے۔ وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا۔
تو یہی حال ہماری دینی زندگی کا بھی ہے کہ ہم لوگ یہ دیکھ لیں کہ ہمارے، مطلب ہمارے یہاں پر آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم ویسے ہی آ گئے ہیں؟ بس بھیج دیے گئے اور کوئی کام نہیں ہو گا؟ اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ جو بھی کام کرتا ہے وہ ایک حکمت کے ساتھ کرتا ہے، اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ جیسے اس کائنات کو پیدا فرمایا تو یہ بھی فرمایا کہ:
مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سُوْرَةُ آلِ عِمْرَان: 191)
تو اس کائنات کے بنانے کا بھی مقصد ہے۔ ہمیں پیدا فرمایا تو اس کا بھی مقصد ہے۔ جو حالات ہم پر آتے ہیں، چاہے مشکل ہے چاہے آسان ہے، اس کا بھی مقصد ہوتا ہے۔
تو اس مقصد کو پانے کے لیے اللہ پاک نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ تو ابھی جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی اس میں یہی بات ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سُوْرَةُ الذَّارِيَات: 56)
”نہیں پیدا کیا میں نے جنات کو اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لیے“
اب یہاں پر بعض لوگوں کے اشکالات ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کا یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ صرف ہم یہاں بس نماز پڑھیں گے، روزہ رکھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، حج کریں گے، بس اتنا کام ہے؟ تو وہ اصل میں عبادت کو صحیح طور پر سمجھے نہیں۔ اصل میں یہ جو عبادت ہے یہ تو عبدیت کا اظہار ہے۔ یعنی بندگی کا اظہار ہے۔ تو یہ تو ہے ہی۔ لیکن بہت ساری چیزیں ہیں جس میں ہمیں وہی کرنا ہوتا ہے جو اللہ ہم سے چاہتا ہے۔ اسی کو بندگی کہتے ہیں۔ یعنی اگر ہم اپنی مرضی کرتے ہیں تو یہ بندگی نہیں ہے۔ اور اگر ہم اللہ پاک کی مرضی کرتے ہیں تو یہ بندگی ہے۔ تو کون سی چیز ایسی ہے جو اس سے نکلی ہو؟
مثلاً ہم اٹھتے ہیں تو اگر ہم سنت طریقے پہ اٹھتے ہیں تو یہ بندگی ہے۔ اور اگر ہم اپنی مرضی سے اٹھتے ہیں تو یہ بندگی نہیں ہے۔ اگر ہم جاب کرتے ہیں تو اگر ہم شریعت کے قوانین کے مطابق کرتے ہیں تو یہ بندگی ہے۔ اگر شریعت کے مطابق نہیں کرتے تو یہ بندگی نہیں ہے۔
بلکہ میں عرض کرتا ہوں کہ ایک تو یہ عبادت ہے نا جیسے مثال کے طور پر میں نے عرض کر لیا، نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، حج ہے۔ لیکن ایک مثلاً انجینئر ہے۔ وہ اپنی انجینئرنگ میں اللہ جل شانہ کے احکامات کو مدنظر رکھتا ہے اور اس کے مطابق وہ انجینئرنگ کرتا ہے۔ تو وہ انجینئرنگ میں بندگی ہے۔ اور یہ انجینئرنگ اس کے لیے عبادت بن جائے گی۔
ایک ڈاکٹر ہے، وہ اپنی ڈاکٹری میں اس کا خیال رکھتا ہے کہ اللہ پاک کے احکامات کیا ہیں۔ ایک دفعہ، ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ہمارے دوست ہیں، میں اپنے بچوں کو کیونکہ وہ چلڈرن سپیشلسٹ ہے تو میں ان کو اپنے بچوں کو علاج کے لیے ان کے پاس لے جایا کرتا تھا، ہے بڑا دیندار آدمی۔ تو جب بھی میں جاتا تو اپنے آپ کو کوسنے لگتا اور کہتا دیکھو آپ بھی ملازم ہیں، میں بھی ملازم ہوں، میں اتنا فیس لیتا ہوں، یہ کرتا ہوں وہ کرتا ہوں، مجھ میں ہندو ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مطلب وہ اپنے آپ کو، تو ایک دن میں نے کہا، میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ ماشاء اللہ جنت کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں، تھوڑا سا آپ ذرا کوشش کر لیں تو بس جنت کے اندر ہوں گے۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ میں نے کہا حدیث شریف ہے، حدیث قدسی ہے:
أنا عند المنكسرة قلوبهم
”میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہوں“
تو اب مجھے بتاؤ بیمار سے زیادہ ٹوٹا ہوا دل کس کا ہوگا؟ اگر آپ اس کو انسان سمجھیں اور اس کے جتنا حق ہے ٹائم کا اور توجہ کا، آپ اس کو دے دیں انسان سمجھ کر، اللہ کا مخلوق سمجھ کر، اور اس کو ذمہ داری سمجھیں اپنی تو سبحان اللہ وہ جو ٹوٹا ہوا دل ہے وہ آپ کے لیے ایسے دعا کرے گا کہ جو آپ کو پہنچا دے گا۔ کہتا ہے آپ مجھے لکھ کے دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ میں نے لکھ کے دے دیا، بعد میں جب گیا تو انہوں نے اپنے تو بڑا خوبصورت لکھا تھا اور اپنے سامنے اس کو فریم کیا ہوا تھا۔
تو اب ڈاکٹر ہے، یہ کام کر سکتا ہے۔ اس طرح کوئی پروفیسر ہے، سٹوڈنٹس کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رابطہ رکھتا ہے۔ ان کو پڑھاتا ہے صحیح معنوں میں اور اس میں کوئی unfair means استعمال نہیں کرتا۔ تو اب ظاہر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کام کر رہا ہے، لہٰذا وہ بندگی ہے۔ اور وہ اس کی عبادت بن جائے گی۔ مطلب وہ اعمال جو اللہ جل شانہ کے منشاء کے مطابق انسان کرتا ہے اور اس میں اللہ پاک کے بھیجے ہوئے قوانین کا خیال رکھتا ہے تو بندگی ہے۔ اور وہ عبادت بن جاتی ہے۔
اب مثال کے طور پر دیکھیں سونا ہے۔ تو اپنے آرام کے لیے ہے۔ اگر ہم سوئے نہیں تو شاید اگلے دن کام نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر اگلے دن کام کر بھی لے تو تیسرے دن پھر نہیں کر سکیں گے۔ مطلب breakout ہو جاتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ ہم، یہ ہماری ضرورت ہے، ہم نے سونا ہے۔ لیکن اگر یہ سونا ہم اس نیت سے کریں کہ ہم پھر اللہ پاک کے احکامات پر اس میں عمل کریں گے جو ہمارا جو ٹائم ہو گا، اس میں ہم، اور اس لیے مجھے آرام چاہیے تو مجھے آرام کرنا ہے اس کے لیے، تو یہ عبادت بن جائے گی۔ مثلاً میں اللہ پاک کے احکامات بجا لاؤں گا، اس میں عبادت کروں گا، جو اللہ پاک کا حکم ہو گا اس کے مطابق چلوں گا۔ تو یہی نیند ہماری عبادت بن جائے گی۔ کھانا، اب میں کھانا اپنے صحت کے لیے کھا رہا ہوں، مطلب وہ میری ضرورت ہے، نہیں کھاؤں گا تو کام ہی نہیں کر سکوں گا۔ لیکن یہ ہے کہ اگر میں اس میں یہ نیت رکھوں کہ جب قوت مجھے حاصل ہو گی وہ میں اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے استعمال کروں گا، بس یہ کھانا بھی عبادت بن جائے گا۔ یعنی ہر وہ چیز جو ہم اس نیت کے ساتھ، اس لیے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
یعنی ایک اچھی سے اچھی چیز کو اگر آپ غلط نیت کے ساتھ کرو گے تو وہ چیز ختم ہو جائے گی، خراب ہو جائے گی۔ اور جو عام چیز، دنیا کی چیز جس کو سمجھا جاتا ہے، اگر آپ اس کو دین کی نیت سے کریں گے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کریں گے تو وہی کام دین بن جائے گا۔
تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے، ہم لوگ ایک معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے کے اندر کوئی بھی شخص جو بھی کام کر رہا ہے وہ کام ضروری نہیں کہ باقی لوگ بھی کریں، سارے لوگ کر لیں۔ بلکہ تقسیم کار ہے۔ مثال کے طور پر اگر سارے لوگ ڈاکٹر بن جائیں پھر بھی معاشرہ unbalance، سارے لوگ انجینئر بن جائیں پھر بھی unbalance، سارے لوگ مولوی بن جائیں پھر بھی unbalance، سارے لوگ سائنٹسٹ بن جائیں پھر بھی unbalance، مطلب یہ ہے کہ مختلف النوع کام ہے۔ اور اس میں ہر شخص اپنے اپنے کام میں اگر مخلص رہتا ہے تو یہ پورے جو efforts ہیں سارے کے سارے معاشرے کے وہ ایک صحیح معاشرے کو تشکیل دینے میں استعمال ہو گا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ معاشرہ balance نہیں ہو گا۔ اس کے اندر مسائل ہوں گے۔ اور وہ مسائل حل کرنا مشکل ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے ہم لوگ اگر ایک طریقہ کار کے ساتھ چلیں گے۔ اس لیے تو فرمایا گیا ہے نا کہ ہر جگہ پر امیر ہونا چاہیے۔ جماعت کا امیر ہونا چاہیے۔ جماعت کے امیر ہونے کا کیا فائدہ ہے؟ امیر کا یہ کام ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کی ڈیوٹیاں اپنے وقت کی ضرورت کے مطابق رکھ دے۔ مطلب ایک شخص کو کہہ دے تم یہ کرو، دوسرے کو کہتا ہے یہ کرو، تو balance لانے کے لیے وہ استعمال ہو جاتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کیا ہوتا ہے؟ ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی سمجھ اتنا زیادہ اعلیٰ ہو کہ وہ distribution of efforts جو ہے وہ صحیح طور پر ہو جائے، وہ نہیں ہو پاتا۔ تو یہی ہمارے پورے معاشرے کے اندر اس بات کو ہم مدنظر رکھیں کہ جب ہم دیندار بن جائیں گے، اکثر لوگوں نے دیندار کو اس مطلب سمجھا ہوا ہے کہ بس وہ نماز روزہ صحیح طور پر کرے تو بس وہ دیندار ہے۔ یہ ایک جز ہے۔ یہ ایک جز ہے، یہ ہے ضروری، یہ نہیں کہ مطلب ضروری نہیں ہے، ایک جز ہے۔ اس کے ساتھ اور کام بھی ہے۔ وہ تمام کام کرنے پڑتے ہیں۔ تب ہی ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں صحیح معاشرہ ہو جائے گا۔ اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تو سب صحابہ کرام نے تو ایک جیسا کام تو نہیں کیا۔ کوئی تجارت کر رہا تھا، کوئی جہاد میں جا رہا ہوتا تھا، کوئی پڑھاتا تھا، کوئی وہ بھیڑیں چراتا تھا، کبھی کیا، مطلب مختلف النوع کام انہوں نے اپنے ذمے لیے تھے اور سارے کاموں کا مقصد، جو محور تھا وہ ایک ہی تھا، وہ اللہ پاک کی اطاعت اور اللہ کے رسول کی اطاعت، یہی اصل میں بنیادی چیز ہے۔ تو اگر ہم لوگ اس بات کو مدنظر رکھیں تو میرے خیال میں ہمارا معاشرہ بہت اچھا ہو سکتا ہے۔
اب میں دوسرے آیت کی طرف آتا ہوں۔ مقصد کا پتہ چل گیا؟ اب میں دوسری طرف آتا ہوں کہ اللہ جل شانہ نے ہمیں صحیح طور پر چلنے کا کیسا رستہ دیا ہے۔ تو یہ فرماتے ہیں:
الٓمٓ ﴿١﴾ ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾
الم کا معنی تو نہ مجھے آتا ہے نہ کسی اور کو ہے، صرف اللہ اور اللہ کے رسول کو پتہ ہے۔ یقینی طور پر۔ ویسے اندازے بہت لوگوں نے لگائے ہیں لیکن اندازے ہی ہیں۔ اندازے اندازے ہوتے ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ پتہ صرف اللہ اور اللہ کے رسول کو، ان کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں۔
لیکن ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ، یہاں سے قرآن شروع ہو رہا ہے۔ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ قرآن کا تعارف ہو گیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ جو اس میں شک کرے گا اس کے عقل میں شک ہو گا کہ اس کا عقل کام کر رہا ہے یا نہیں کر رہا؟ تو یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی شک نہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے، اس کی بہت بڑی دلیلیں ہیں۔ سب سے بڑا دلیل یہ ہے کہ 1400 سال گزر گئے اور اس میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی کوئی نہیں کر سکا۔ وہ چیلنج ہے، قرآن میں چیلنج ہے کہ ذرا لے آؤ نا کوئی اس، تم سمجھتے ہو کہ، پھر کوئی سورت بنا کے مثل لے آؤ۔ تو نہیں، نہیں لا سکے، ابھی تک یہ چیلنج باقی ہے، کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جو ہے اللہ کی کتاب ہے۔
اور جو بھی ماشاء اللہ، یعنی جو لوگ قرآن کے اس اعجاز کو سمجھ گئے کسی بھی لمحے جو غیر مسلم ہے، اللہ پاک نے ان کو ایمان کی دولت عطا فرما دی، مسلمان ہو گئے، ان کو پتہ چل گیا کہ واقعی قرآن قرآن ہے، اس کے اندر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ تو قرآن عظیم الشان کتاب جس میں کوئی شک نہیں۔
هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ اس میں ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے، ڈرنے والوں کے لیے۔
پھر اللہ پاک نے خود ڈرنے والوں کی تعریف فرمائی کہ متقین کون ہیں؟ تو اس کے لیے فرمایا:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
وہ لوگ تقویٰ والے ہیں، اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ان کے لیے قرآن ہدایت ہے، دوسرے معنوں میں، یہ قرآن ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑا نکتہ ہے کیونکہ مشاہدے پر ایمان تو سب رکھتے ہیں، مشاہدہ، مطلب جو چیز سامنے ہوتا ہے اس کو مانتا ہے آدمی۔ لیکن یہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ماننے کا پورا ٹیسٹ ہے کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو صحیح مانتا ہے یا نہیں مانتا؟ جو کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے، اس کو صحیح مانتا ہے یا نہیں مانتا؟ اس میں جو خبریں دی گئی ہیں، ان خبروں کو صحیح مانتا ہے یا نہیں مانتا؟ یہ ایک پورا ٹیسٹ ہے اس کا۔ تو یہی جو ہے نا
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں
غیب پر ایمان جو ہے جس کا جتنا مضبوط ہو گا اس کے اعمال اتنے اچھے ہوں گے، کنفرم بات ہے۔ جس کے اعمال میں کمزوری ہے، اس کے ایمان میں کمزوری ہے۔ مطلب خود بخود پتہ چلتا ہے کہ وہ ان خبروں کو جو کہ قرآن میں بتائی گئی ہیں، جو احادیث شریفہ میں آئی ہیں، اس کے بارے میں ابھی اس کو کنفرم والی بات نہیں ہے، اتنا یعنی یقین نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہیے، تو اس وجہ سے وہ اعمال میں کمزوری دکھاتا ہے۔ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ۔ (سُوْرَةُ الْبَقَرَة: 3) پھر صرف ایمان کی بات نہیں، اعمال بھی ہے۔
وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
یعنی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ بھی کرتے ہیں اللہ کے راستے میں۔
یہ جانی عبادتیں اور مالی عبادتیں، ان سب کے بارے میں گویا کہ اجمالی طور پر بیان ہو گیا کہ جانی عبادتیں بھی کریں گے، مالی عبادتیں بھی کریں گے، اور دو قسم، اس لیے أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ، یہ بار بار آتا ہے قرآن پاک میں کیونکہ نماز جانی عبادتوں کا سردار ہے اور زکوٰۃ مالی عبادتوں کا سردار ہے۔ لہٰذا بادشاہ اگر آپ نے لے لیا اپنے ہاتھ میں تو پھر باقی رعایا تو اس کے ساتھ آ ہی جائے گی۔ تو اس وجہ سے یہ نماز اور زکوٰۃ کا بار بار ذکر ہے اور یہاں پر بھی: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ۔ (سُوْرَةُ الْبَقَرَة: 3) پھر اس کے بعد:
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ
جو ایمان رکھتا ہے جو تجھ پر وحی نازل ہوئی اس پر
وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ
اور جو تجھ سے پہلے نازل ہوا ہے، اس پر بھی۔
وحی کی حیثیت سے ہمارا اس کے اوپر ایمان ہے۔ بعد میں جو تحریف ہوئی ہے تو وہ وحی تو نہیں رہی نا، وہ تو اور چیز بن گئی۔ لہٰذا ہم عمل اس پر نہیں کرتے۔ البتہ وحی کے طور پر اس پر ایمان ہے کہ ہاں وہ کتابیں اتاری گئی تھیں اور اس میں حق بیان ہوا تھا، وہ ساری چیزیں بالکل صحیح تھیں اس وقت جو پیغمبر پہ نازل ہوئی تھیں، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اس سے ہم انحراف نہیں کرتے۔
وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
یہ وہ نکتہ آخر میں آ گیا، اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اب یہاں پر ایمان اور یقین، یہ دو باتیں آ گئیں۔ ایمان جو ہے یہ دل کا فعل ہے۔ ایمان جو ہے کیا ہے؟ یہ دل کا فعل ہے۔ دل میں ایمان کی روشنی آتی ہے تو انسان مومن بنتا ہے۔ مطلب اس میں کیا ہے؟
اقرار باللسان وتصديق بالقلب
یعنی مطلب زبان کے اوپر انسان اس کا اظہار کرتا ہے اور دل سے اس کا تصدیق کرتا ہے۔ تو ایمان جو ہے وہ کس چیز میں ہے؟ دل میں ہے، اور یقین کیا چیز ہے؟ یہ عقل کے ساتھ ہے۔ یہ عقل کے ساتھ ہے۔ مطلب عقل جو ہے اگر اس کو مان لے تو جس درجے کا ماننا ہے اس درجے کا عمل ہے۔ جس درجے کا ماننا ہے اس درجے کا عمل ہے۔ یعنی پہلے ماننا کیا ہوتا ہے؟ علم الیقین۔ آپ کو علم ہے ایک چیز کا، آپ کو اس پر یقین ہے کہ یہ واقعی صحیح علم ہے، صحیح بات ہے، یہ علم الیقین ہے۔
پھر آپ اس کے اندر جو رکاوٹ ہے، اس کو اچھی طرح سن لیں، بہت اہم بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو علم الیقین ہے سب کو ہے۔ علم الیقین سب کو ہے، قرآن میں جو چیز لکھا ہوا ہے اس کا علم ہے تو لہٰذا مجھے معلوم ہے۔ مجھے اس پر ایمان ہے کہ ہاں ٹھیک ہے یہ اللہ کی طرف سے ہے، یہ علم الیقین ہے۔ لیکن ہمارا نفس جو ہے نا ہمارا نفس یہ رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ مسلسل اس کے negative thinking جو ہے نا وہ ہمیں feed کرتا رہتا ہے مسلسل۔ جس کی وجہ سے مطلب مثال کے طور پر ایک فورس اس طرف ہے اور دوسرا فورس اس طرف ہے، تو اس فورس کے ایکشن میں کمی آئے گی نا؟ کمی آئے گی، تو ہمارا نفس کا جو فورس ہے وہ اس کے against ہے۔ نتیجتاً وہ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ تو یہ جو رکاوٹ ہے نا اس رکاوٹ کو دور کرنے کا نام یہی اصل میں یہ جس کو ہم کہتے ہیں تقویٰ کا حصول ہے۔ جب تک ہم لوگ اس رکاوٹ کو دور نہیں کریں گے عمل نہیں کر سکیں گے۔ تو اس نفس کی رکاوٹ کو دور کرنا یہ ضروری ہوا۔ جتنا زیادہ آپ نے اس میں کامیابی حاصل کر لی، اتنا زیادہ اپنے یقین کو بڑھا دیا۔ تو حتیٰ کہ ایک وقت میں آ جائے کہ عین الیقین بن جاتا ہے۔ یعنی ایک چیز ایسی ہو جیسے آپ نے دیکھ لیا۔ اب میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ مثلاً آپ نے کسی اخبار میں پڑھا، میڈیکل لٹریچر میں پڑھا، کسی ڈاکٹر سے سنا ملیریا ایسا ہوتا ہے، یہ علم الیقین ہے۔ یہ علم الیقین ہے۔ لیکن ملیریا کے مریض کو آپ نے خود دیکھ لیا، یہ ملیریا کے مریض کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اب جو کچھ آپ نے پڑھا تھا آپ نے اس کو سامنے ہوتے دیکھ لیا ان کے ساتھ، shivering بھی ہو رہی ہے، ٹمپریچر بھی بڑھ گیا ہے، بے آرامی بھی ہے، سارا کچھ ہے، یہ کیا ہے؟ یہ عین الیقین ہے۔ اور خود آپ کو ملیریا ہو گیا، یہ حق الیقین ہو گیا۔ اب ملیریا سے آپ انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ملیریا آپ کو خود ہو گیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی طریقے سے جو شخص علم الیقین رکھتا ہے، وہ سب رکھتے ہیں، اس کے بعد وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک وقت آ جاتا ہے کہ اس کو یہ ساری چیزیں بالکل سامنے ہو جاتی ہیں کہ ہاں اس طرح ہوتا ہے۔ اس کو خود experience ہو جاتا ہے کہ ہاں اس طرح ہوتا ہے۔ تو یہ عین الیقین بن گیا۔ اور پھر اس کے بعد مزید اس کا superlative degree جب بن جاتا ہے کہ آدمی جو ہے بالکل یعنی اس کے اندر خود process سے گزر جاتا ہے۔ تو اس وقت پھر جو ہے نا حق الیقین ہو جاتا ہے۔ اب حق الیقین معرفت ہے پوری۔ پوری معرفت ہے، انسان عارف ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے بھیجا ہے وہ بالکل ایسا ہی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: جنت اور دوزخ اگر ہمارے سامنے کیا جائے پھر بھی ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جنت دوزخ اگر ہمارے سامنے کیا جائے پھر بھی ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں آئے گا کیونکہ ان کے لیے چیز بالکل ویسی تھی۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، کوئی مشکل نہیں تھا۔ تو مشکل تو ہمارے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے نا۔ تو اگر ہمارا نفس کا تزکیہ ہو جائے پھر کوئی مشکل نہیں رہے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے پھر عمل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور ان کا جو نفس ہے وہ اس چیز کو مان لیتا ہے۔ اس کا دماغ اس کو جان لیتا ہے اور اس کا نفس اس کو مان لیتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں جو کچھ اس کو کہا جاتا ہے اس پر بالکل دل سے عمل کر لیتا ہے۔
ایک دفعہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں تھے۔ اس کو نیزہ لگا، نیزہ لگا اور بس شہید ہونے والے تھے کہ اس کی زبان سے نکلا:
فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ
کامیاب ہو گیا ربِ کعبہ کی قسم
اب جس کافر نے برچھی ماری تھی، وہ حیران ہو گیا کہ کمال ہے، مارا میں نے ہے اور کہتا ہے میں کامیاب ہو گیا، یہ کون سی کامیابی ہے؟ بعد میں حالتِ امن میں اس نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی۔ انہوں نے کہا تم لوگ جتنا شراب کے پیالے کے ساتھ محبت کرتے ہو نا اس سے زیادہ ہم موت سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم موت سے محبت کرتے ہیں، موت سے محبت کرنے کا کیا مطلب ہے؟ موت سے محبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین ہے۔ اللہ کے وعدوں پر یقین ہے۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (سُوْرَةُ الْبَقَرَة: 154)
ان لوگوں کو مردہ نہ کہو جو اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ ہاں تم اس کو نہیں جانتے ہو
اس کی کیفیت کو نہیں جانتے ہو، وہ تمہاری سمجھ سے باہر ہے۔ اور ایک جگہ پر فرمایا:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا (سُوْرَةُ آلِ عِمْرَان: 169)
تمہیں ان کو گمان بھی نہیں کرنا چاہیے جو اللہ کے راستے میں شہید ہو جائے کہ وہ مردے ہیں۔ ان کو مردہ گمان بھی نہیں کرنا چاہیے۔
اب جب یہ سمجھ میں بات آ گئی اور جس کو اس کے اوپر پکا یقین ہے، مجھے بتاؤ اس کو موت محبوب ہو گا یا نہیں ہو گا؟ وہ تو، وہ تو اپنی زندگی کو اس کے راستے میں حائل سمجھیں گے۔ ہاں، چونکہ یہاں پر جو بھی آیا ہے اللہ کے حکم سے آیا ہے اور اپنی مرضی سے یہاں سے کوئی نہیں جا سکتا۔ اپنی مرضی سے کوئی جائے گا تو مردار موت۔ لہٰذا اپنی مرضی سے چونکہ جا نہیں سکتا، تو طلب ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے کہ یا اللہ مجھے شہادت کی موت دے دے۔ اگر وہ اس کو مانتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا کرتے:
اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ
اے اللہ مجھے شہادت دے، شہادت کی موت دے اور آپ ﷺ کے شہر میں میری قبر بنا دے۔
یہ دعا کرتے تھے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا، حضرت آپ کون سی دعا کر رہے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں لڑائی ہو جائے اور آپ شہید ہو جائیں؟ انہوں نے کہا میں جو دعا کرتا ہوں وہ اللہ کو پتہ ہے، مجھے یہ کہنا ہے، باقی اللہ کیسے کرتا ہے مجھے نہیں معلوم۔ اللہ کیسے کرتا ہے، مجھے نہیں معلوم، میں نے مانگنا ہے بس، مجھے یہ اللہ تعالیٰ دے دے۔ تو پھر کیا ہوا؟ دعا کیسے قبول ہو گئی؟ دعا ایسے قبول ہو گئی کہ نماز کی حالت میں اس پر حملہ ہوا۔ نماز کی حالت میں اور کہاں پر نماز؟ مسجد نبوی میں نماز پڑھا رہے ہیں۔ اس پر حملہ ہوا، اس سے شہید ہوئے، اور کہاں پر دفن ہوئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پاس۔ یہ ہے قبولیتِ دعا۔ ٹھیک ہے نا؟ تو مطلب یہ ہے کہ ظاہر ہے ہر شخص کی یہ مراد ہوتی ہے کہ میں شہادت کی موت مجھے مل جائے اور ساتھ یہ بھی دعا ہوتی ہے کہ جنت البقیع میں جگہ مل جائے تو ہم مسلمان کی شاید میرے خیال میں تمنا ہو گی، لیکن بہرحال قسمت قسمت کی بات ہے جس کے لیے اللہ پاک فیصلہ فرما دیتا ہے اس کو پھر نصیب ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال میں عرض کرتا ہوں، یہ ہے موت کے ساتھ محبت۔
تو جو موت کے ساتھ محبت کرتے ہیں اللہ جل شانہ اس کو بہترین زندگی عطا فرما دیتا ہے۔ جو موت کے ساتھ محبت کرتے ہیں اللہ کے لیے، اپنے لیے نہیں، اپنے نفس کے لیے نہیں۔ جو موت کے ساتھ محبت کرتے ہیں اللہ کے لیے، تو اللہ اس کو بہترین زندگی عطا فرما دیتا ہے۔ میرا ایک ساتھی ہے، بہت بڑا افسر تھا جنیوا میں، نام نہیں لیتا شاید آپ میں سے بعض لوگ جانتے ہوں۔ تو مجھے ایک دن کہنے لگے شبیر صاحب یہ آپ کون سی باتیں کر رہے ہیں؟ دنیا کہاں پہنچ گئی اور آپ کون سی باتیں کر رہے ہیں؟ خوامخواہ، کلاس فیلو تھے، کلاس فیلو سے تو ہر ایک بات کر سکتا ہے انسان کے ساتھ۔ میں نے کہا بات سنو، آپ مجھے صرف ایک سوال کا جواب دیں۔ صحابہ کرام دنیا دار تھے یا ہم دنیا دار ہیں؟ اس نے کہا صحابہ کرام تو دنیا دار تھے ہی نہیں۔ وہ تو دیندار تھے۔ اگر وہ دیندار نہیں تھے تو کون دیندار ہے؟ میں نے کہا اچھا بتاؤ آخرت میں تو وہ کامیاب ہیں ہی، وہ تو ہم سب مانتے ہیں۔ دنیا میں کیا ہم زیادہ کامیاب ہیں یا وہ زیادہ کامیاب تھے؟ اس پر پھر سوچنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہتے، وہ زیادہ کامیاب تھے۔ بھئی کیوں نہیں کامیاب تھے؟ ان کا مقام کیا تھا؟ سب لوگوں ان سے ڈرتے تھے نا؟ اور ہماری کیا حالت ہے؟ ہم سے ڈرتے ہیں؟ بلکہ ہم سب سے ڈرتے ہیں، یہی بات ہے نا؟ تو فرق ہے نا؟ ہمیں دنیا کے ساتھ محبت ہے، نتیجتاً کیا ہے؟ دنیا ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ تو اب یہ جو بات میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے جب اس سے یہ کہا تو اس کو فوراً خیال آ گیا۔ میں نے کہا حضرت پھر آپ کی theory تو fail ہو گئی۔ دیکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں یہ بات نہیں کر سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي
کامیابی کا مدار کیا ہے؟
جس پر میں چلا ہوں جس پر میرے صحابہ چلے ہیں
اس طریقے پر جاؤ گے تو کامیاب ہو گے۔ تو جو طریقہ صحابہ کرام نے اختیار کیا تھا تم بھی وہی اختیار کرو۔ پھر تم بھی کامیاب ہو گے۔
وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (سُوْرَةُ آلِ عِمْرَان: 139)
قرآن پاک میں،
تم ہی کامیاب ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن بن جاؤ۔
اور یہ ابھی تک یہ بات ہے، مطلب یہ نہیں کہ یہ بات ختم ہو گئی، قرآن تو قیامت تک کے لیے ہے نا؟ تو اس میں یہ ساتھ صاف صاف فرمایا گیا:
وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (سُوْرَةُ آلِ عِمْرَان: 139)
تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو
تو یہ ایمان کا کونسا درجہ ہو گا؟ ہاں، وہی اعلیٰ درجہ جو حق الیقین والی بات ہے۔ جب اس تک بات پہنچے گی تو پھر ہمارے ساتھ بالکل ایسی ہی قسم مدد آئے گی جیسے مدد ان کے ساتھ آئی تھی۔ دیکھو اصحاب کہف ہیں نا اصحاب کہف، یہ انہوں نے کوئی جہاد نہیں کیا تھا۔ لیکن کفار کے کفر سے بچنے کے لیے پناہ لی تھی غار میں، اتنا کیا تھا۔ کفار کے کفر سے بچنے کے لیے پناہ لی تھی۔ اور ان کے ساتھ ایک کتا بھی چلا گیا۔ اب خدا کی شان، اللہ پاک نے ان کے بارے میں جو فیصلہ فرمایا وہ قرآن میں آ گیا اور پورے عالمین کے لیے اللہ پاک نے ایک نمونہ بنا دیا۔ تین سو سال ان پر نیند طاری کر دی گئی۔ اور پھر جب اٹھے تو سوچنے لگے کہ، پوچھنے لگے یہ کتنا وقت ہم سوئے ہوں گے؟ انہوں نے کہا شاید دن، آدھا دن یا کچھ ایسے، لگ بھگ جو اس طرح کا، انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے پھر آپ ذرا کھانے کی کوئی چیز لے آؤ، اور سکہ دے دیا، اب وہ سکے تین سو سال پہلے کے تھے۔ اب وہ بازار میں چلے گئے، بازار والے حیران ہو گئے، یہ کون سے سکے ہیں؟ وہ تو تین سو سال گزر گئے تھے، وہ ساری چیزیں تبدیل ہو گئی تھیں۔ لیکن یہ واقعہ پہلے سے موجود تھا ریکارڈ پہ کہ ایسے کچھ ایک جماعت غائب ہو گئی تھی۔ ان کو پتہ تھا، اس وقت مسلمان تھے غالب، مطلب مسلمان غالب آ گئے تھے وہاں پر۔ تو انہوں نے، ان کو جب پتہ چلا تو وہ مطلب ان کی تلاش میں گئے۔ لیکن اس وقت پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سچ مچ موت عطا فرما دی۔ سچ مچ موت عطا فرمائی۔ وہ جو ہے پھر اس کے بعد اختلاف ہونے لگا کہ ہم یہاں کیا کریں؟ یہاں کیا کریں؟ تو جو غالب آ گئے انہوں نے کہا ہم یہاں پر مسجد بناتے ہیں۔ پھر وہاں مسجد بنا دی۔ اچھا ان کے ساتھ جو کتا تھا نا، سبحان اللہ۔ وہ بھی ریکارڈ میں آ گیا۔ اس کو کہتے ہیں صحبتِ صالحین، سبحان اللہ۔ سمجھ میں آ گئی بات؟ صحبتِ صالحین۔ یہ نیک لوگوں کی صحبت آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گی۔ اب کتا ایک غیر مکلف مخلوق ہے لیکن جس وقت اصحابِ کہف کے ساتھ بیٹھنے لگا، اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی جنتی بنا دیا۔ اور ماشاء اللہ اس کا بھی قرآن پاک میں ذکر آ گیا اور ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک اعلیٰ مقام دے دیا۔ تو اس وجہ سے کہتے ہیں:
كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (سُوْرَةُ التَّوْبَة: 119)
صادقین کے ساتھ ہو جاؤ
اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو کس کے ساتھ؟ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ کیونکہ، وجہ کیا ہے؟ صادقین کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ہر دل کو دوسرے دل کے ساتھ قلبی رابطہ ہوتا ہے، اثر ہوتا ہے۔ یہ بلکہ نفسیاتی ماہرین بھی کہتے ہیں کہ ہر شخص دوسرے سے انجانے میں چوری کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گویا کہ ان کے اخلاق کو حاصل کرتے ہیں۔ ایک شخص اچھا ہے، دوسرا برا ہے، تو برا کچھ اچھا ہو جائے گا اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اور وہ اچھا اس کے ساتھ بیٹھنے سے تھوڑا سا برا ہو جائے گا۔ اس کے اوپر اس کا اثر آ جائے گا۔ تو اب جو اچھا ہے اس کو اپنی اچھائی کو برقرار رکھنے کے لیے جس چیز سے وہ اچھا بنا ہے اس کی طرف پھر جانا پڑے گا۔ تاکہ وہ اچھائی اس کی ختم نہ ہو جائے۔ یہی بات مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
میں جب جاتا ہوں گشت کے لیے، میوات جاتا ہوں، تو صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں۔ پھر بھی لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے میرے دل پر اثر ہو جاتا ہے۔ اس اثر کو دور کرنے کے لیے یا میں رائے پور شریف جاتا ہوں، جہاں اللہ والے تھے، یا پھر سہارنپور شریف جاتا ہوں، وہاں بھی اللہ والے تھے، یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔
اب جس کو یہ چیز معلوم نہیں ہو گی وہ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے اس ملفوظ کا مطلب اس کو سمجھ نہیں آ سکتا کہ وہ کیوں اس طرح کر رہے ہیں، حالانکہ خود بہت بڑے بزرگ تھے لیکن ان کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل fact والی بات ہے۔ ایک دوسرے، اب یہ ہمارا heat exchanger ہوتا ہے وہ کیا ہوتا ہے؟ heat exchanger میں گرم پانی ایک پائپ میں اور دوسرے پائپ میں ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔ جب اس سے پانی نکلتا ہے تو کیسے نکلتا ہے؟ ٹھنڈا پانی تھوڑا سا گرم ہو چکا ہوتا ہے اور گرم پانی تھوڑا سا ٹھنڈا ہو چکا ہوتا ہے، یہی تو heat exchange ہوئی نا؟ تو اسی طریقے سے یہ جو اچھے لوگ ہیں ان کا اثر کمزور لوگوں پر اچھا ہو جاتا ہے اور اور جو دوسرے لوگ ہوتے ہیں ان کا اثر ان کے اوپر برا ہو جاتا ہے۔ پھر ان کو صفائی کرنی پڑتی ہے اپنی، صفائی کرنی پڑتی ہے۔ تو بہرحال میں عرض کر رہا ہوں کہ صالحین کی صحبت کو لازم پکڑنا چاہیے۔ یہی ہمارے لیے سب سے بڑا ذریعہ ہے اپنے حالت کو اچھا کرنے کے لیے۔ دیکھو یہ نہیں کہ میں صرف صالحین کی صحبت ہی کافی ہے، صالحین جو کر رہے ہیں وہ بھی ہمیں کرنا پڑے گا، لیکن رستہ وہ دیں گے۔ ان کے ساتھ ہونے سے ہمیں ان کے اعمال نظر آئیں گے۔ اور آہستہ آہستہ ہماری زبانوں پر بھی وہ چیز چڑھ جائے گی۔ ہمارے دل میں بھی وہ روشنی آنی شروع ہو جائے گی۔ ہم بھی اسی طریقے سے زندگی کو لینے لگیں گے جس طریقے سے انہوں نے لیا ہے، نتیجتاً کچھ روز لگیں گے لیکن بہرحال آہستہ آہستہ ہمارا کام بھی بن جائے گا۔
تو بہرحال ہم لوگوں کو اس کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا اور میں آپ کو بتاؤں قرآن سچا ہے، اللہ کا کلام سچا ہے۔ ہم لوگ کمزور ہیں۔ ہم لوگ آج بھی اگر قرآن پر عمل کرنا شروع کر لیں اور قرآن کے مطابق زندگی گزارنا شروع کر لیں تو سب کچھ موجود ہے۔ سب کچھ موجود ہے۔ صرف یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ تو آخر میں نے جو کہا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔ (سُوْرَةُ الْأَعْرَاف: 23)
یہ دعا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ تو خطاکار لوگ ہیں، تو ہماری برائیاں اللہ پاک معاف کر دے، اور اللہ پاک ہمیں اچھے اخلاق عطا فرما دے۔ تو اس کے لیے ہمیں دعا بھی کرنی ہے،
اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ
دعا جو ہے نا عبادت کا مغز ہے۔
الدُّعاءُ هو العبادةُ
دعا اصل عبادت ہے ۔
لہٰذا دعا بھی کرنا چاہیے، اعمال بھی کرنے چاہیے۔ جو اعمال کے بغیر دعا کرتا ہے اس کی دعا میں جان نہیں ہوتی۔ اور جو عمل کرتا ہے، دعا نہیں کرتا، ان کے اعمال میں برکت نہیں ہوتی۔ تو دونوں کرنے ہیں نا؟ دونوں کرنا ہے، مطلب اعمال بھی کرنے ہیں اور دعا بھی کرنی ہے۔ پھر ماشاء اللہ اللہ پاک کی مدد ہمارے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین و دنیا میں صحیح معنوں میں کامیابی عطا فرمائے اور آخرت میں اللہ پاک ہمیں ان لوگوں کے ساتھ اٹھا دے جو اس کے پیارے لوگ ہیں۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ۔ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ