نماز (صلوٰۃ) کی عالمگیر تاریخ، اہمیت اور اس کی اصل حقیقت

جلد نمبر 5، باب: عبادات (نماز) قسط نمبر 3- (اصل درس) جمعرات،9 جولائی، 2020

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

گزشتہ درس سے پیوستہ

(قسط نمبر 3)

سورۃ مریم میں تمام انبیاء صادقین کے ذکر کے بعد خدا فرماتا ہے۔

﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ﴾ (مریم: 59)

’’ان کے بعد ان کے جانشین ایسے ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی‘‘۔

نماز کے ضائع اور برباد کرنے سے مقصود نماز کو صرف چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر اس کی حقیقت اور اس کی روح کو گم کردینا ہے۔ مسلمان جب اپنی نماز کے لئے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ‘‘ (نماز کے لئے آؤ) کا ترانہ بلند کرتے ہیں تو یہود و نصاریٰ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس پر قرآن نے ان کی نسبت یہ شہادت دی کہ ان کی خداپرستی کی روح اتنی مردہ ہوچکی ہے کہ جب دوسرے لوگ خدا پرستی کے جذبہ میں سرشار ہوتے ہیں تو وہ اس کو ہنسی کھیل بنا لیتے ہیں۔

﴿وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًاؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ﴾ (المائدۃ: 58)

’’اور جب تم نماز کے لئے آواز دیتے ہو تو وہ اس کو ہنسی کھیل بنا لیتے ہیں، یہ اس لئے کہ وہ عقل سے خالی ہوچکے ہیں‘‘۔

لیکن اب بھی جن کے اندر کچھ طلب باقی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں اتنے لتھڑے ہوئے نہیں ہیں کہ حق بالکل ہی ان کو نظر نہ آسکے، تو وہ انہی چیزوں سے متأثر ہوتے ہیں یعنی اذان سے متأثر ہوتے ہیں، باقاعدہ اذان کا اثر ہے۔ یعنی دوبئی میں ایک بڑی مسجد سے اذان ہورہی تھی تو کئی جو وہاں غیر ملکی آئے ہوئے تھے، تو وہ بہت زیادہ اس سے رو رہے تھے اس کے ساتھ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت مؤثر کن آواز ہے۔ یہ جو دعوت الی اللہ ہے، دعوت الی اللہ کی عظیم الشان صورت ہے اور اس کا ایک اثر یہ ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے۔ تو یہ جن کو بالکل یعنی صورتیں ان کی مسخ ہوچکی ہیں، تو پھر ان کی بات اور ہے۔

اہل عرب اور قریش جو اپنے آبائی مذہب پر تھے وہ گو نماز کی صورت سے کسی حد تک واقف تھے، مگر بھولے سے بھی اس فرض کو ادا نہیں کرتے تھے، بتوں کی پوجا، جنات کی دہائی، فرشتوں کی خوشامد، یہ ان کی عبادت کا خلاصہ تھا۔ حج و طواف یا دوسرے موقعوں پر وہ خدا سے دعائیں مانگتے تو ان میں بھی بتوں کے نام لے لیتے اور شرک کے فقرے ملا دیتے تھے۔ موحّدانہ خضوع و خشوع کا ان کی دعاؤں میں شائبہ تک نہ تھا۔ مسلمانوں کو جب کبھی نماز پڑھتے دیکھ لیتے تو ان کا منہ چڑھاتے تھے، دق کرتے تھے، دھکیل دیتے تھے، شور کرتے تھے، سیٹی اور تالی بجاتے تھے، چنانچہ ان کے متعلق قرآن نے کہا:

﴿وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصْدِیَةًؕ﴾ (الانفال: 35)

’’اور ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹی اور تالی بجانا ہے‘‘۔

اگلے مفسروں نے اس آیت پاک کے دو مطلب لئے ہیں، ایک یہ کہ واقعتاً وہ جو نماز پڑھتے تھے، اس میں سیٹی اور تالی بجایا کرتے تھے، دوسرے یہ کہ مسلمان جب نماز پڑھتے تھے، تو وہ سیٹی اور تالی بجا کر ان کی نماز خراب کرنی چاہتے تھے اور گویا یہی ان کی نماز تھی۔ پہلے معنی کی بنا پر تو ان کی نماز محض ایک قسم کا کھیل، کود اور لہو و لہب تھا اور دوسرے معنیٰ کی رو سے سرے سے ان کے ہاں نماز ہی نہ تھی، بلکہ دوسروں کو نماز سے روکنا یہی ان کی نماز تھی۔

ایک اور آیت میں ہے۔

﴿اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى ۝ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى﴾ (علق:9، 10)

’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو ایک بندہ کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے‘‘۔

ایک بندہ سے مراد خود آنحضرت ﷺ کی ذات ہے۔ آپ جب صحن حرم میں نماز پڑھتے تو قریش جو بے فکری کے ساتھ ادھر ادھر بیٹھے رہتے، کبھی آپ کی ہنسی اڑاتے اور کبھی دق کرتے، کبھی آپ کی گردن میں پھندا ڈال دیتے اور کبھی جب آپ سجدہ میں جاتے، پشت مبارک پر نجاست لاکر ڈال دیتے تھے۔ اور جب آنحضرت ﷺ کو اس بار نجاست سے اٹھنے میں تکلیف ہوتی تو ہنستے اور قہقہ لگاتے تھے، اسی لئے آنحضرت ﷺ اسلام کے آغاز میں تو اخفاء کے خیال سے اور اس کے بعد ان کے ان حرکات کی وجہ سے عموماً رات کو اور دن کو کسی غار یا درہ میں چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور مسلمان بھی عموماً ادھر ادھر چھپ کر ہی نماز پڑھتے تھے یا پھر رات کے سناٹے میں اس فرض کو ادا کرتے تھے۔ مشرکین اگر کبھی اس حالت میں ان کو دیکھ پاتے تو مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے تھے۔ ابن اسحٰق میں ہے کہ صحابہ جب نماز پڑھنا چاہتے تو گھاٹیوں میں چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت آگئی اس نے اس نماز کو بدعت (نیا کام) سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔

الغرض جب محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانوں کو خدا کے آگے سربسجود ہونے کی دعوت دی تو اس وقت تین قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ (یعنی یہود) جو نماز تو پڑھتے تھے، لیکن عموماً اس کی حقیقت سے بیگانہ تھے۔ ان کی نمازیں بالعموم اخلاص و اثر سکون و دلجمعی، خشوع و خضوع اور خوف و خشیت سے بالکل خالی تھیں۔ دوسرے وہ (یعنی عیسائی) جو خدا کی نماز کے ساتھ انسانوں کو بھی اپنے سجدہ کے قابل سمجھتے تھے اور ان کی عبادتیں کرتے تھے اور وہ چیز جو توحید کا آئینہ تھی، ان کے ہاں شرک کا مظہر بن گئی تھی۔ تیسرے وہ (یعنی عرب بت پرست) جنہوں نے نہ کبھی خدا کا نام لیا اور نہ کبھی خدا کے آگے سر جھکایا، وہ اس روحانی لذت سے آشنا ہی نہ تھے۔

مطلب یہ ہے کہ جو روحانیت ہے، وہ ایک چیز ایسی ہے، جو انسان کی ضرورت ہے، لیکن جب انسان اپنی نفسانیت کے اس میں چکر میں اتنا پھنس جائے کہ وہ بالکل روحانیت کا سوچ بھی نہ سکے، تو جو دوسرا سوچتا ہے، اس کو وہ برا نظر آتا ہے، وہ برا نظر آتا ہے اس کو۔ یہی اصل میں وہ ہے کہ آج کل بھی جو لوگ اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں لگے ہوتے ہیں اور وہ اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرنا چاہتے، تو جو لوگ للّٰہیت کے ساتھ کام کررہے ہوتے تھے، وہ ان کے مخالف ہوجاتے، ان کے پیچھے باتیں کرتے، ان سے لوگوں کو نفرت دلاتے ہیں۔ ابھی آپ دیکھیں! مسلمانوں کے خلاف جو پوری دنیا کے اندر جو غلغلہ ہے، وہ کس وجہ سے ہے؟ وہ یہی ہے کہ وہ اس چیز سے آشنا بھی نہیں ہیں اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان ان کو ورغلاتا ہے کہ یہ کیوں اس طرح کرتے ہیں؟ یہ کیوں اس طرح کرتے ہیں؟ تو ان کے خلاف وہ ذہن سازی کرتے ہیں، ان کے خلاف جو ہے ناں وہ پروپیگنڈے کرتے ہیں۔

توحید کے بعد اسلام کا پہلا حکم:

آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے تو توحید کے بعد سب سے پہلا حکم جو آپ کو ملا وہ نماز کا تھا۔ ﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ ۝ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ (المدثر: 1-3) ’’اے لحاف میں لپٹے ہوئے اٹھ، اور ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بول‘‘

رب کی بڑائی بولنا یہی نماز کی بنیاد ہے، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نماز تکمیل کے مدارج طے کرتے ہوئی اس لفظ پر پہنچ گئی جو روحانی معراج کی آخری سرحد ہے۔ آپ نے سونے والوں کو جگایا، بھولے ہوؤں کو بتایا، انجانوں کو سکھایا، اور خدا اور بندے کے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑا، گوشت پوست کے، سونے چاندی کے اور اینٹ اور پتھر کے ان بتوں کو جو خدا کی جگہ کھڑے تھے، دھکیل کر نیچے گرا دیا۔ صرف ایک خدا کی نماز دنیا میں باقی رکھی اور خدا کے سوا ہر ایک کے سجدہ کو حرام قرار دیا۔ اس طرح آپ کی تعلیم کے ذریعہ سے نماز کی اصل حقیقت دنیا میں ظاہر ہوئی۔ آپ نے اہل عرب اور دنیا کی بت پرست قوموں کو نماز کا طریقہ بتایا، اس کے ارکان و آداب سکھائے، مؤثر دعائیں تعلیم کیں، عیسائیوں کو مخلصانہ عبادت اور ایک خدا کی پرستش کا سبق دیا۔ یہودیوں کو نماز کے خضوع و خشوع، راز و نیاز اور اخلاص و اثر سے باخبر کیا اور انبیائے عالم کی نماز کو اپنے عمل کے ذریعہ سے شکل و صورت اور روح و حقیقت دونوں کے ساتھ ناقابل تحریف اور غیر متغیر وجود بخش دیا حکم ہوتا ہے کہ:

﴿حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ﴾ (بقرہ: 238)

’’نمازوں کی نگہداشت کرو‘‘۔

یہ نماز کی ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے نگہداشت کا حکم ہے اور مسلمان کی پہچان یہ مقرر ہوئی کہ

﴿وَهُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ﴾ (الانعام: 92)

’’اور وہ اپنی نماز کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘۔

﴿الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ﴾ (المعارج: 23)

’’جو اپنی نماز ہمیشہ ادا کرتے ہیں‘‘۔

﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ﴾ (المومنون: 9)

’’اور (کامیاب ہیں) وہ جو اپنی نمازوں کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘۔

خود آنحضرت ﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ خود بھی نماز پڑھو اور اپنے اہل عیال کو بھی اس کا حکم دو اور اس نماز پر جس کا مکہ کے قیام کے زمانہ میں ادا کرنا بہت مشکل ہے، پوری پابندی اور مضبوطی کے ساتھ جمے رہو، فرمایا

﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ﴾ (طہ: 132)

’’اور اپنے گھر والوں پر نماز کی تاکید رکھو اور خود بھی اس کے اوپر جمے (پابند) رہو‘‘۔

نماز کیسی ہونی چاہیے؟ فرمایا۔

﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرۃ: 238)

’’اور خدا کے سامنے ادب سے کھڑے رہو‘‘۔

یہ ادب جو ہے ناں، یہ بہت بہت بہت اہم بات ہے۔ جس طرح شرک سے بچنا بہت اہم بات ہے، کیونکہ اس میں للّٰہیت کی نفی ہے، اللہ جل شانہٗ سے روگردانی ہے، تو اسی طرح ادب یعنی ان چیزوں کا جو اللہ پاک نے مقام رکھا ہوا ہے ان چیزوں کا، اس سے روگردانی ہے، اب دیکھیں! قرآن پڑھا جارہا ہے، حکم ہوتا ہے خاموش ہوجاؤ، تاکہ تمھیں فائدہ ہو اس سے، اللہ تمھیں معاف کرے، رحم کرے تم پر۔ تو اس طریقہ سے ایک دینی مجلس ہے، وہاں پر اپنی دنیاوی چیزوں کا تذکرہ نہ ہو، مطلب ظاہر ہے دینی مجلس ہے، اگر آپ دنیاوی چیزوں کا تذکرہ ادھر بھی کریں گے، تو ظاہر ہے اس کی بے ادبی ہے یہ، مطلب اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔ ٹھیک ہے، وہ دنیا کے تقاضے ہمارے ساتھ ہیں، لیکن اس کا ادب کا تقاضا ہے کہ وہاں پر ہم لوگ باادب رہیں اور باقی چیزوں کو اس وقت کم از کم بھول جائیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ورنہ پھر یہ ہوگا کہ ٹھیک ہے صرف اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، جیسے نماز کی حالت ہے کہ نماز اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، اگر کوئی ادب نہیں کرے سجدے کا یا رکوع کا یا تمام چیزوں کا، تو اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا۔ اس طرح یہ چلنا پھرنا بھی اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، تو اس وجہ سے ادب کا بہت زیادہ زور ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ مجھے اللہ نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔ ’’فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ‘‘ یعنی یہ والی بات ہے کہ جب بھی اذان ہو، تو ادب ہو، خاموشی کے ساتھ اس کو سنیں، اس کا جواب دیں۔ آج کل نہیں ہے، اس قسم کی چیزوں کے آداب نہیں ہیں، تو پھر نتیجہ سامنے ہے کہ ہمیں ان چیزوں سے وہ فائدے حاصل نہیں ہوتے۔ تو یہ جیسے ہمیں شرک سے بچنے کی اہمیت بتائی گئی ہے، اس طرح ادب کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اب شیطان کا کام کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ شرک سے بچنا اگر کوئی چاہتا ہے، تو بالکل بچو، بالکل بچو، یہ سب سے اعلیٰ۔ لیکن اس کو اس میں بے ادب بنا لیتا ہے۔ اور ادب کی جو بات کرتا ہے، تو کہتا ہے، بالکل ادب کرو، ادب بہت اچھی چیز ہے اور وہ ادب میں شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو ہمارا طریقہ کیا ہے کہ نہ تو شرک ہو اور نہ بے ادبی ہو۔ اور اس کا بہترین مظاہرہ جو ہے، وہ قرآن پاک میں ایک جگہ پر ہے، دو آیتیں بالکل پاس پاس ہیں، ایک آیت ہے جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جس نے شرک کیا، وہ ایسا ہے جیسے وہ آسمان سے گرا یا پھر اسے کسی پرندے نے نوچ لیا یا کسی گہری کھائی کے اندر گر کے پاش پاش ہوگیا یعنی شرک کی بے انتہا خطرناک صورت بیان فرما دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بالکل فوراً جو آیت شروع ہے، ﴿ذٰلِكَ﴾ اور اسی طرح ﴿وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ ’’اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں، وہ ان کے دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے‘‘

تو اس پر کسی نے کمنٹ کیا ہے کہ شاید یہ اس وجہ سے ہو کہ بعض دفعہ شرک کی رد میں لوگ بے ادبی کے مرتکب ہوجاتے ہیں، تو ان کو بے ادبی سے بچانا مقصود ہوتا ہے۔ تو یہاں پر ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ کا کیا ترجمہ کیا ہے؟ ’’خدا کے سامنے ادب سے کھڑے رہو‘‘۔

تعریف کی گئی کہ

﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ (المومنون: 2)

’’کامیاب ہیں وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں‘‘۔

حکم ہوا کہ

﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً﴾ (الاعراف: 55)

’’تم اپنے پروردگار کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو‘‘۔

﴿وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا﴾ (الاعراف: 56)

’’اور اس (خدا) کو ڈر اور امید کے ساتھ پکارو‘‘۔

﴿فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَؕ﴾ (المومن: 65)

’’اور خدا کو پکارو اس حال میں کہ تم دین کو اسی کے لئے خالص کرنے والے ہو‘‘۔

اس اجمال کے بعد نماز کے تمام مباحث پر ایک تفصیلی نگاہ کی ضرورت ہے۔

تو یہ میرے خیال میں، اس کو پھر بعد میں کرلیں گے، لیکن یہ ہے کہ جیسے کہ حضرت نے بالکل بنیاد سے یہ باتیں کی ہیں، بنیاد سے کہ اول تو یہ بات ہمیں سکھائی ہے کہ عبادت کا مفہوم کیا ہے؟ بنیادی چیز کیا ہے؟ عبادت۔ پھر اس کے بعد عبادات کا سلسلہ شروع کیا ہے، نماز کا سلسلہ شروع کیا ہے، اور پھر اس کے بعد جو باقی امور ہیں، جو روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، حج ہے، ان تمام چیزوں کا تذکرہ۔ پھر اس کے بعد ان شاء اللہ! تو گویا کہ پورے دین کا احاطہ ان شاء اللہ العزیز! حضرت اس میں کرنا چاہتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ آپ ﷺ کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔

’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘


نماز (صلوٰۃ) کی عالمگیر تاریخ، اہمیت اور اس کی اصل حقیقت - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور