اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کے دن ہمارے ہاں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ہمعات، اس کی تعلیم ہوتی ہے۔ آج ان شاء اللہ نسبتِ توحید کے بارے میں ہوگی۔
نسبتِ توحید
ان نسبتوں میں سے ایک نسبت توحید ہے اور نسبت توحید کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے چند امور کا جاننا ضروری ہے۔ یہ تو ایک مسلمہ امر ہے کہ زید، عمرو اور بکر وغیرہ سب کے سب انسان ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ اور ان کے علاوہ باقی تمام افراد انسانی اس ایک بات میں کہ یہ سب کے سب انسان ہیں، ایک دوسرے سے مشترک ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان میں سے ہر ایک فرداً فرداً ایک دوسرے سے جدا جدا بھی ہیں۔ الغرض یہ سب باعتبار انسانیت کے تو آپس میں مشترک ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک اپنی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے ممتاز ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ زید، عمرو اور بکر وغیرہ میں فرداً فرداً جو خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ انفرادی خصوصیات عین انسان نہیں ہیں، کیونکہ اگر یہ خصوصیات عین انسان ہوتیں تو زید من حیث الکل مشابہ ہوتا عمرو کے اور عمرو مشابہ ہوتا بکر کے اور اسی طرح ہر انسان کلیۃً دوسرے انسان کی مثل ہوتا اور ان میں فرداً فرداً ایک دوسرے سے کوئی امتیاز نہ پایا جاتا۔ لیکن یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ زید بعینہٖ بکر نہیں! اور نہ بکر بعینہٖ عمرو ہے۔ علی ہذا القیاس ہر انسان وہ نہیں جو دوسرا ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم نوعِ انسانی کے ان افراد کی الگ الگ خصوصیات کو عین انسان قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک چیز بیک وقت دوسرے کی عین بھی ہے اور اس سے مختلف بھی۔
عین سے مراد”بالکل اسی طرح“، یعنی اس کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں بعینہٖ یعنی مطلب اُس کی طرح۔
اور ظاہر ہے یہ بات صریحاً و بداہۃً غلط ہے۔
لیکن افراد کی یہ انفرادی خصوصیات ہر حیثیت سے غیر انسان بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ جس ذات میں یہ خصوصیات جمع ہوتی ہیں ان پر انسان کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اور یہ انفرادی خصوصیات اس امر میں مانع بھی نہیں ہیں کہ ان پر انسان کا اسم صادق نہ آسکے۔ الغرض کل انسانیت میں بحیثیت مجموعی اور افراد کی ان جدا جدا خصوصیات میں ایک خاص نسبت پائی جاتی ہے جسے ظاہریت اور مظہریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کالا بھی انسان ہے اور یہ سفید رنگ کا بھی انسان ہے۔ پہلی صورت میں یہ ہوا کہ جوہر انسانیت کالی شکل سے مرکب ہو کر ایک خاص مظہر میں ظاہر ہوا اور دوسری صورت میں وہی جوہر سفید شکل سے مخلوط ہوکر دوسرے مظہر میں معرضِ ظہور میں آیا۔
انسانیت میں بحیثیت مجموعی اور افراد کی انفرادی خصوصیات میں جو نسبت ہے اس نسبت کو کبھی مادہ و صورت کی مثال دے کر بھی واضح کیا جاتا ہے، مثلاً ایک بھبکا ہے جو آگ پر رکھا ہوا ہے اور اس کے اندر پانی ہے۔ پانی حرارت سے بخارات یعنی ہوا بنا اور ہوا سے پھر عرق یعنی دوبارہ پانی بن گیا۔ اب واقعہ یہ ہے کہ ایک صورتِ جسمیہ ہے جو کہ تمام اجسام میں مشترک ہے۔ یہ صورتِ جسمیہ پہلے پانی تھی پھر یہ ہوا ہوئی اور اس کے بعد پھر پانی ہوگئی۔ اس حالت میں کوئی نہیں کہتا کہ پانی اور ہوا کوئی الگ چیز تھی، جو صورتِ جسمیہ سے ضم ہوگئی ہے۔ کیونکہ صورتِ جسمیہ تو خود اپنی جگہ متعین ہے اور اس تعین میں نہ وہ پانی کی محتاج ہے اور نہ ہوا کی۔ بے شک یہ صورت جسمیہ جب انواع کے مرتبہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کے لئے متشکل اور متکوّن ہونا ضروری ہوتا ہے اور ظاہر ہے اس صورتِ جسمیہ کا اس حالت میں پانی یا ہوا کے علاوہ کسی اور شکل میں متشکل ہونا ممکن نہیں۔ الغرض جب ہم صورتِ جسمیہ کو صورتِ جسمیہ کے مرتبہ میں دیکھیں گے تو بے شک وہ تمام اجسام میں مشترک نظر آئے گی۔ لیکن جب صورت جسمیہ کو ہم اس اعتبار سے دیکھیں گے کہ مرتبہ انواع میں وہ کیوں کر متشکل ہوئی تو اس حالت میں اس صورت جسمیہ کا خود پانی یا ہوا ہونا ضروری ہوگا، یہ نہیں کہ صورت جسمیہ ایک الگ چیز ہے اور پانی اور ہوا الگ۔ اور پانی و ہوا بعد میں اس سے ضم ہوگئے۔ اگرچہ اپنی جگہ ان کے ضم ہونے کی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔
الغرض صورت اور مادے کے درمیان جو خاص نسبت ہے اس کے لئے ایک نام کی ضرورت ہے۔ جس سے کہ اس نسبت کو تعبیر کیا جائے۔ ہم نے اس نسبت کو "ظہور" کا نام دیا ہے اور ظہور سے مراد یہ ہے کہ ایک چیز اپنی جگہ ایک موطن اور مرتبہ میں قائم اور متحقق ہے۔ اور پھر وہی چیز اس مرتبہ سے اتر کر دوسرے مرتبہ میں ایک اور وجود کا جامہ پہن لیتی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک چیز کی ایک نوعی صورت ہے۔ جو اس نوع کے ہر ہر فرد میں ظہور کرتی ہے یا پھر موم کی مثال لیجئے کہ اس سے مسدس اور مربع شکلیں اور انسان اور گھوڑے کے مجسمے بنائے جاسکتے ہیں۔ اور اس طرح ان تمام چیزوں میں موم اپنے مومی جسم کا اظہار کرتا ہے یا پھر اس کی مثال ملکۂ علم کا اس علمی صورت میں جو ابھی ہمارے ذہن میں نقش پذیر ہوئی، ظہور کرنا ہے۔ اس ضمن میں اس طرح کی اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور اگر "حقیقتِ ظہور" کی مزید توضیح درکار ہو اور اس کی اقسام کا مفصل بیان چاہئے تو اس کے لئے ہماری دوسری تصانیف دیکھئے۔
قصہ مختصر، انسان ہو یا گھوڑا، گائے ہو یا بکری، اونٹ ہو یا گدھا ان میں سے ہر ایک کی صورت اپنے اپنے مرتبہ نوع میں متعین ہے اور وہاں ہر ایک کے اپنے اپنے نوعی احکام و آثار بھی مقرر ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک پر فرداً فرداً جو احکام وارد ہوتے ہیں، ان کے لئے ہر نوع کو افراد کی صورتوں میں لامحالہ ظہور پذیر ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس طرح ایک نوعی صورت سے افراد کی الگ الگ صورتیں وجود میں آئیں اور ہر صورت میں اس نوع کے جو انفرادی آثار و خصائص تھے وہ مترتب ہوئے۔ یہ سب انواع اور افراد خواہ وہ از قبیلِ انسان ہوں یا گھوڑے، گائے، بکری، اونٹ اور گدھے وغیرہ کی قسم سے۔ الغرض یہ سب انواع و افراد مظاہر ہیں جنس حیوان کے اور اس کے بعد یہ سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ جوہر و عرض تک جا پہنچتا ہے۔
اصل میں یہاں پر حضرت بہت بنیادی بات کرنا چاہتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ یعنی ایک چیز کو ہم اگر جدا جدا طریقہ سے دیکھیں، تفصیلی طور پر، تو وہ مختلف ہے، اور وہ جس وقت ان کو ایک ہی صورت میں دیکھیں تو وہ ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ مثلاً جتنے یہاں پر بیٹھے ہیں سب انسان ہیں، ان میں سے کوئی بھی جانور نہیں ہے، لیکن ہر انسان دوسرے سے جدا ہے۔ مطلب کوئی کیا ہے، کوئی کیا ہے، کوئی کیا ہے، کوئی کیا ہے۔ پھر انسانوں میں آگے جا کر ملکوں میں تقسیم ہے، یہ پاکستانی ہے، یہ امریکی ہے، یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے، تو ظاہر ہے ان کی ایک تقسیم ہوگئی۔ پھر پاکستانیوں میں کوئی پٹھان ہے، کوئی بلوچ ہے، کوئی پنجابی ہے، کوئی وہ ہے۔ اب ظاہر ہے جو بھی پٹھان ہے، سارے پٹھان ہیں، مطلب اس میں، لیکن ہر پٹھان دوسرے پٹھان کی طرح تو نہیں ہے، مختلف، آپس میں مختلف۔ تو مختلف ہونا بھی ہوتا ہے اور ایک جیسا ہونا بھی ہوتا ہے۔ پٹھانیت میں ایک جیسے ہیں اور اپنی اپنی ذات میں الگ الگ بھی ہیں۔ تو یہ جو ایک جیسے والی چیز ہے، اس کو نوع کہتے ہیں، نوعیت جس کو ہم کہتے ہیں، نوع، قسم، نوع کا ترجمہ ہے قسم۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو نوع کہتے ہیں، اور اس میں جو ہر ایک کو جدا جدا طور پر جب دیکھا جائے، اس کو فرد کہتے ہیں، افراد کہتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
تو قوم نوع ہے، تو افراد جو ہے جداگانہ ہے۔
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تو ملت جو ہے، ملت یہاں پر قوم کے معنیٰ میں ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جو ہے وہ اپنی قوم کا نام روشن کرسکتا ہے، اپنی قوم کا نام روشن کرسکتا ہے۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ ہر فرد جو ہے وہ جدا جدا ہے، لیکن وہ سب اکٹھے ایک بھی کہلاتے ہیں۔ تو یہ گویا کہ اس میں تفصیل ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً زید ایک فرد ہے اس سے اوپر نوع انسان ہے اور اس نوع سے اوپر جنس کا مرتبہ ہے اور یہ جنس حیوان ہے۔
کیونکہ حیوان میں دو قسم کے ہیں، نوع حیوانِ ناطق بھی ہے، حیوانِ غیر ناطق بھی ہے۔ حیوانِ ناطق انسان ہے اور حیوانِ غیر ناطق اور جانور ہیں، تو حیوان کی جنس میں نوع انسان بھی داخل ہے اور جملہ حیوانات کی انواع بھی، جنس سے آگے جنس عالی کا مرتبہ ہے۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں اس سے ساری جنسیں جو originate ہوتی ہیں۔
اس میں حیوانات کے ساتھ ساتھ نباتات بھی شامل ہیں اور اس سے اوپر جسم یعنی عرض کا مرتبہ ہے۔
تو جسم میں پھر یہ ساری چیزیں شامل ہیں، جسم میں یہ بھی جسم ہے، یہ بھی جسم ہے، یہ بھی جسم ہے، دیوار بھی جسم ہے۔ تو جسم میں پھر یہ سارے چاہے جاندار ہیں چاہے غیر جاندار ہیں یہ بھی شامل ہیں۔
اور اس سے اوپر جسم یعنی عرض کا مرتبہ ہے اور عرض سے اوپر جوہر ہے۔
مطلب یہ ہے کہ عرض سے چیز کی پہچان ہوجاتی ہے، لیکن جوہر اس کی اصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے عرض قائم ہے، تو وہ ظاہر ہے اس کا اپنا۔۔۔۔
اس معاملہ میں حکماء کا یہ حال ہے کہ وہ مظاہرِ وجود اور اس کے تعینات کی اصل کا سراغ لگاتے لگاتے اس مقام پر پہنچے اور یہاں پہنچ کر نہ صرف یہ کہ وہ رک گئے۔ بلکہ انہوں نے قطعی طور پر یہ سمجھ لیا کہ جوہر و عرض کے درمیان کوئی ایسا علاقہ نہیں جو دونوں کو ایک جنس کے تحت جمع کردے۔ لیکن ان کے برعکس اہلِ حق نے معلوم کرلیا کہ جوہر و عرض دونوں کو ایک اور اعلیٰ تر حقیقت احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن حکماء اس حقیقت کو ادراک کرنے سے اس لئے عاجز رہے کہ اور حقائق کی طرح اس حقیقت کے احکام و آثار متعین نہیں کہ ان کی مدد سے یہ حکماء اس حقیقت کا سراغ لگا لیتے جو عرض و جوہر دونوں پر حاوی ہے۔ اس حقیقتِ جامع کا موزوں تریں نام حقیقتِ وحدانیت ہے۔ گو کبھی کبھی ہم اس حقیقت کو وجود بھی کہہ لیتے ہیں۔ یہ وحدانیت یا وجود ایک بسیط حقیقت ہے۔ چنانچہ وجود میں جو اس مرتبہ بسیط میں ہے اور بعد کے تعینات میں، جن میں یہ وجود ظہور پذیر ہوتا ہے وجود کے ان دونوں مراتب میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں پایا جاتا۔
مطلب یہ ہے کہ وجود میں سب شامل ہیں، عرض بھی شامل ہے اور جوہر بھی شامل ہے۔
اس مسئلہ کو ذہن نشین کرنے کے بعد ہم پھر کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس میں نوع بنوع کے قدرتی اور صنعتی مرکبات مثلاً درخت، حیوان، کانیں، تخت، کپڑے اور اس طرح کی دوسری چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان چیزوں میں ایک تو حقائق ہیں جو نفسِ اشیاء سے جن سے کہ آثار و احکام ظاہر ہوتے ہیں، متمیز اور الگ ہیں۔ ان حقائق کو ہم صور کا نام دیتے ہیں (یعنی صورتیں، صُور) لیکن ان حقائق یا صُور کو وقوع پذیر ہونے کے لئے جسمِ عنصری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جسمِ عنصری ان صورتوں کا مادہ ہے۔
موم جیسے مثال کے طور پر مادہ ہے، اس کو آپ کوئی shape دے دیتے ہیں، اس کی صورت بن جائے گی۔ تو مطلب یہ ہے کہ مادہ سے بہت ساری صورتیں بن سکتی ہیں۔
ان قدرتی اور صنعتی مرکبات سے اوپر عناصر اور افلاک کا مرتبہ ہے اور ان عناصر اور افلاک کی بھی ایک خاص صورت ہے۔ ان سب سے اوپر اور ان سب کو جمع کرنے والی اور جو ان سب کا موضوع ہے، صورتِ جسمیہ ہے۔ جسے اشراقین نے "مادہ اولیٰ" کہا ہے۔ یہ صورتِ جسمیہ جو اثر پذیر مادہ بھی ہے اور علتِ فاعلیہ بھی، یہ صورتِ جسمیہ جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں، وجود کے اصل مرکز کی طرف راجع ہے۔ الغرض انواع کے ایک ایک فرد سے لے کر وجود اقصیٰ تک نظام کائنات کا یہ سارا سلسلہ نہایت مرتب اور منظم ہے اور نیچے سے لے کر اوپر تک اس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے ملی ہوئی ہے۔
الغرض یہ وجود اقصیٰ اور بعد میں جن مظاہر اور تعینات میں اس وجود کا ظہور ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ لکھے ہوئے حروف کے مقابلے میں سیاہ لکیر ہو۔ یعنی ان حروف کی اصل تو سیاہ لکیر ہی ہے۔ (سیاہ لکیر سے ہی مختلف چیزیں بنتی ہیں ناں، ٹیڑھی میڑھی سیاہ لکیر)
گو بعد میں اس لکیر نے حروف کی شکل اختیار کرلی یا جیسے مختلف اعداد کی نسبت اکائی سے ہوئی ہے۔ یعنی اکائی ہی سے تمام اعداد نکلتے ہیں اور نیز ایک ہی وجود میں مظاہر اور تعینات کی اس قدر کثرت کا واقعہ ہونا، اس کی مثال دریا کی سمجھئے کہ اس میں لاتعداد اور بے حساب موجیں ہوتی ہیں۔
الغرض اوپر کی اس بحث سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ ان مظاہر اور تعینات میں دو چیزیں اصل ہیں۔ ایک وجود اور دوسرے ان چیزوں کی ماہیات۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس وجود اور ان ماہیات میں آپس میں کیا نسبت ہے؟ ارباب معقولات نے اس متعلق بڑی طول طویل بحثیں کی ہیں۔ لیکن اس مسئلہ میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ وجود وہ ہے جو خود اپنی ذات میں قائم ہے۔ اور مرتبۂ وجود میں جب کہ کوئی اور چیز اس کے ساتھ ملحق نہیں ہوتی اور وہ خالص وجود ہوتا ہے، تو وہ کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ وجود مختلف ماہیات میں ظہور کرتا ہے۔ چنانچہ یہ ماہیات اس وجود کے لئے قوالب بن جاتی ہیں۔ ان ماہیات میں سے ہر ماہیت کی اپنی ایک حیثیت اور اس کے اپنے احکام ہوتے ہیں۔
مطلب یہ نکلا کہ وجود ماہیات میں ظہور پذیر ہوتا ہے، لیکن ماہیات میں وجود کا یہ ظہور پذیر ہونا موقوف ہوتا ہے بہت سی چیزوں پر۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض ماہیات میں وجود کے ظہور کے لئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے وہ دوسری ماہیت میں ظہور پذیر ہوچکا ہو۔ یعنی وجود کا ایک ظہور مشروط اور مقدم ہوتا ہے اس کے دوسرے ظہور پر، چنانچہ یہ بے شمار ماہیات ظہورِ وجود کے اس طرح کے ایک باقاعدہ سلسلہ میں جکڑی ہوئی ہیں اور ہر ماہیت اس سلسلۂ ظہور کی ایک کڑی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اس سلسلہ میں ایک کڑی اس کی دوسری کڑی سے مقدم یا موخر ہوسکے۔ اب اصل وجود کو لیجئے، اصل وجود کے دو وصف کمال ہیں۔ ایک ظاہری دوسرا باطنی۔ ہم یہاں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایک حساب کرنے والا ہے، وہ حساب کرتے وقت اپنے ذہن میں حساب کے عددوں کو موجود اور حاضر کرتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ پہلے اعداد کی یہ صورتیں اس کے ذہن میں موجود نہ تھیں۔ اب جو وہ حساب کرنے لگا تو یہ عدد اس کے ذہن میں آن موجود ہوئے۔ محاسب یہ تو کرسکتا ہے کہ اعداد جو اس کے ذہن میں موجود نہ تھے، انہیں وجود میں لے آئے۔ لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں کہ دس کے عدد کو وہ طاق بنا دے اور گیارہ کو جفت کردے یا وہ شمار میں چھ کو پانچ سے مقدم کردے۔ الغرض گنتی کے جو اعداد ہیں ان کا ایک مستقل سلسلہ ہے اور اس سلسلہ میں ہر عدد کا ایک متعین مقام ہے اور اس مقام کے مطابق ہر عدد کے اپنے احکام ہیں جن میں حساب کرنے والا کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔
ماہیات کا یہ مترتب سلسلہ اور مظاہر وجود کا یہ باقاعدہ نظام، اس کو دیکھ کر عقل انسانی لامحالہ اس نتیجے پہ پہنچتی ہے کہ ماہیات کے سلسلہ کی یہ ترتیب بالضرور کسی نہ کسی موطن میں پہلے ہی سے مقرر اور متعین ہوچکی ہے اور پہلے سے اس مقرر شدہ ترتیب ہی کا نتیجہ ہے کہ ہر ماہیت کے ظہور کے اپنے احکام ہیں جن میں کوئی تغیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جس طرح محاسب کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہنی عمل سے اعداد پر تاثیر ڈالتا ہے۔ اور انہیں عدم سے وجود میں لاتا ہے، لیکن چونکہ اعداد کی ترتیب پہلے کسی موطن میں مقرر ہوچکی ہوتی ہے، اس لئے وہ اسی ترتیب سے اعداد کو اپنے ذہن میں مستحضر کرتا ہے اور اس ضمن میں اعداد کو عدم سے وجود میں لاتے وقت وہ ان میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس دنیا میں یہ ماہیات پہلے کی طے شدہ ترتیب کے مطابق ظاہر ہوتی ہیں۔
By scientific انداز میں کافی، مطلب جو ہے ناں، چیز بڑھ رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں، تو لوگوں کی مختلف سوچیں ہوتی ہیں۔ مجھے اس وقت ایک saying یاد آتی ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی، حضرت نے فرمایا کہ اللہ پاک نے مختلف کاموں کے لئے مختلف لوگ پیدا کیے ہوتے ہیں۔ تو کچھ لوگوں کی نظر وسعت میں چلتی ہے، تو ان کو وسیع معلومات ہوتی ہیں، یہ بھی جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں، ہر چیز، مطلب بہت ساری چیزوں کو جانتے ہیں، معلومات ہوتی ہیں، بہت زیادہ معلومات۔ کچھ لوگوں کی گہرائی پر نظر ہوتی ہے، وہ جانتے تھوڑی چیزوں کو ہیں، لیکن پھر بہت گہرائی کے ساتھ جانتے ہیں ہر چیز کو۔ تو بعض کی نظریں گہرائی میں چلتی ہیں، بعض کی نظریں وسعت پہ چلتی ہیں۔ تو جو وسعت میں چلتی ہیں، ان کے بھی اپنے ما شاء اللہ developments ہوتے ہیں۔ جیسے Physics جو ہے نا، یہ بہت زیادہ وسعت میں جانے والی چیز ہے، domain بہت زیادہ کثرت سے چیزوں کو جو ہے ناں وہ کرتا ہے۔ اور Chemistry depth میں جاتی ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی depth میں جاتی ہے، تو یہ ہر شخص کی اپنی اپنی capacity ہوتی ہے۔ مشائخ میں بھی اِس قسم کی قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض مشائخ کے ذہن وسیع، جیسے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، بڑی وسعت والی نظر ہے ان کی۔ بہت ساری معلومات، احیاء العلوم کو دیکھیں تو پورا ایک خزانہ ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی نظریں بہت depth میں جاتی ہیں، جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ دیکھیں نا، کس طرف مطلب جاتے ہیں، کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے وہ جاتے ہیں۔ یہ جرمنی میں میں نے ایک آلے کو دیکھا تھا، یہ pipes کے اندر جو چیزیں پھنس جاتی ہیں، تو ان کے پاس ایک tool ہوتا ہے، وہ اس کو pipe کے اندر داخل کرلیتے ہیں، پیچھے سے ان کی موٹر چل رہی ہوتا ہے، بالکل آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ آہستہ چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور راستہ بھی خود ہی بنا رہا ہوتا ہے، اِدھر سے، پھر اُدھر سے، پھر ادھر سے، combinations اس کی بنتی جاتی ہیں اور وہ چلتا رہتا ہے، وہ بند پائپوں کو کھول لیتے ہیں۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جو گاڑیاں ہوتی ہیں، یہ Low gear والی گاڑیاں، جو جب Low gear میں گاڑی ڈالی جاتی ہے، تو وہ آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ رینگ رینگ کرجاتی ہے، لیکن وہ steep ہوتا ہے اس کو cover کرلیتی ہے۔ مطلب وہ بہت بڑا step نہیں لیتی، چھوٹے چھوٹے step لیتی ہے، لیکن وہ یعنی گویا چھوٹے step کے لئے پوری energy استعمال کرلیتی ہے، پھر اس کے بعد مزید چھوٹے step کے لئے پوری energy استعمال کر لیتی ہے، پھر مزید چھوٹے step کے لئے پوری energy استعمال کرتی ہے، تو اس طریقہ سے وہ بڑے steep پر بھی مطلب چڑھ جاتی ہے۔ تو اسی طریقہ سے یہ جو حضرات ہیں، یہ ما شاء اللہ ایک استقامت کے ساتھ ایک direction میں move کررہے ہوتے ہیں۔ تو یہاں پر بھی ابھی تک جو بات آئی، تو انہوں نے کہا کہ۔ اب دیکھیں سوچ کی بات ہے نا، کتنی دفعہ آپ لوگوں نے اعداد کو استعمال کیا ہوگا، کبھی اس طرف سوچ گئی ہے؟ ہم اس کو صرف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے استعمال تو کیا ہی ہے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ بھئی یہ کیسے مربوط نظام کے تحت چل رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے پہلے سے اس کی کوئی چیز بن چکی ہے، اُدھر سے یہ طے شدہ ہے، تو اس کو ہم change نہیں کرسکتے۔ تو جیسے ایک سے پہلے کچھ نہیں ہے، پہلے سے طے شدہ چیز تھی، ایک سے پہلے کچھ نہیں ہے۔ تو یہ سارے جو ہے نا، وہ ایک مربوط نظام ہے، وہ discover ہورہا ہے، discover ہورہا ہے۔
وجود کے ایک مرتبے کی مثال تو محاسب کی یہ مثال ہوئی کہ اس نے اپنے ذہن میں اعداد کو غیر موجود سے موجود کرلیا، اور نابود سے بود بنا دیا۔ اس مرتبۂ وجود کو ہم ظاہر وجود کہتے ہیں۔ لیکن وجود آخر بذات خود بھی تو ایک چیز ہے اور یہی مبدا اور اصل ہے وجود کے ان دو کمالوں یعنی ظاہر اور باطن کا۔
اب یہ سوال باقی رہا کہ یہ جامع حقیقت جو عرض و جوہر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور جس کا موزوں ترین نام ہم ’’حقیقتِ واحدیت‘‘ بتا آئے ہیں۔ اور جسے ہم کبھی کبھی "وجود" بھی کہتے ہیں۔ یہ جامع حقیقت جس کے اندر کائنات کی یہ ساری کثرت داخل ہے اور یہ ساری کی ساری ماہیات اسی کی استعدادیں ہیں اور اسی حقیقت کے ظہور کو ہم ماہیات کی فعلیت کہتے ہیں اور کلمات "ہست" "خارج" اور "عین" سے اسی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
ہست کا مطلب "ہے"، خارج کا مطلب "ذہن سے باہر" اور عین کا مطلب "اسی طرح"۔
آخر یہ حقیقت ہے کیا؟ ایک قوم کا کہنا یہ ہے کہ یہ حقیقت عین ذات الہٰی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی حقیقت کو "لا بشرط شئ" ذات بحت سمجھا اور اسی کو ’’بشرط لاشی‘‘ احدیت کہتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک "بشرط شی" واحدیت ہے۔
حاشیہ: ذات الہٰی سے کائنات کے تنزل کی صورت یوں بیان کی جاتی ہے۔ ایک مقام تو خود ذات کا بحیثیت ذات کے ہے۔ اس مقام پر ہر شرط کی نفی کے ساتھ خود ذات کو اپنی ذات کا ادراک ہوتا ہے یہاں سے تنزلات کی ابتدا ہوتی ہے اس میں پہلا مرتبہ احدیت کا ہے اور احدیت کے بعد واحدیت کا مرتبہ ہے اور "واحدیت" کو "باطن الوجود" بھی کہتے ہیں "باطن الوجود سے وجود منسبط کا ظہور ہوا جس کا دوسرا نام ظاہر الوجود بھی ہے۔ (یہ وہی عبقات والی باتیں ہیں) اس مرتبہ "ظاہر الوجود" کو "نفسِ کلیہ" کا نام دیا گیا ہے "نفسِ کلیہ" سے ارواح امثال اور اجساد ظاہر ہوئیں۔ مترجم)
اور یہی ان کے نزدیک "بشرط شی" واحدیت ہے۔
بشرط لاشئ یعنی مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں کو ختم سمجھتے ہوئے، کچھ بھی نہیں، کوئی بھی نہیں ہے صرف وہ ذات موجود ہے۔ بشرط لاشئ احدیت کہتے ہیں۔
اور یہی ان کے نزدیک "بشرط شی" واحدیت ہے۔ ہمارے خیال میں ان لوگوں میں عقل و تدبر کی کمی تھی کہ انہوں نے اس غلط بات پر یقین کرلیا۔ ان کے برعکس فقیر نے اس امر کی تحقیق کی تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وجود کے جس مرتبے پر جاکر ان لوگوں کی نظر رکی، اور اسے ہی انہوں نے غلطی سے ذات بحت، احدیت اور واحدیت سمجھ لیا، وہ مرتبہ تو ظاہر الوجود کا تھا، جس کو ہم نفس کلیہ کہتے ہیں اور اسی کو بعض اہل کشف نے وجودِ منسبط کا بھی نام دیا ہے۔ حقیقت میں اس وجودِ منسبط کی حیثیت تو محض اصل وجود کی طبیعتوں میں سے ایک طبیعت کی ہے۔
تو یہاں پر حضرت نے فرمایا کہ اصل میں یہ ان لوگوں کی جس کو کہتے ہیں کم ظرفی تھی، کم ظرفی برے معنوں میں نہیں، مطلب یہ ان کی طاقت اتنی نہیں تھی، استعداد کم تھی۔ استعداد کم تھی تو وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں تک پہنچنا چاہئے تھا، تو انہوں نے اس کو اللہ سمجھا، حالانکہ یہ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ جل شانہٗ کا بنایا ہوا ایک نظام ہے اور وہ بنایا ہوا نظام نفس کلیہ ہے نفس کلیہ ہے۔ اچھا۔
ان کے برعکس فقیر نے اس امر کی تحقیق کی تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وجود کے جس مرتبے پر جاکر ان لوگوں کی نظر رکی، اور اسے ہی انہوں نے غلطی سے ذات بحت، احدیت اور واحدیت سمجھ لیا، وہ مرتبہ تو ظاہر الوجود کا تھا۔
کیونکہ ظاہر وجود میں ہی انسان دیکھ سکتا ہے نا، باقیوں کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ظاہر الوجود یعنی وجود کا جو ظاہر ہے جو چیز ظاہر ہے۔
جس کو ہم نفس کلیہ کہتے ہیں اور اسی کو بعض اہل کشف نے وجود منسبط کا بھی نام دیا ہے۔ (منبسط مطلب وسیع، بسیط ہے) حقیقت میں اس وجودِ منسبط کی حیثیت تو محض اصل وجود کی طبیعتوں میں سے ایک طبیعت کی ہے۔ بے شک وجود کی یہ طبیعت سب چیزوں سے زیادہ بسیط ہے اور یہی سب کا مبدا اور اصل بھی ہے۔ بہرحال یہ نفس کلیہ، یا وجود منسبط یا اسے آپ کوئی اور نام دے لیجئے، اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ ہر شے میں جاری و ساری اور ہر شے سے قریب ہے۔ اور اس کے باوجود یہ سب اشیاء سے پاک اور ان کی تمام آلائشوں سے منزہ ہے۔ نفسِ کلیہ کے مقابلے میں جو حیثیت ان اشیاء کی ہے وہی حیثیت ذات الہٰی کے مقابلے میں اس نفس کلیہ کی ہے۔
یعنی نفس کلیہ ان تمام چیزوں سے منزہ ہے، پاک ہے۔ لیکن چیزیں ساری وجود میں اس سے آئی ہیں اور نفس کلیہ جو ہے نا, مطلب یہ ہے کہ وہ پھر اللہ تعالیٰ کا وجود اس سے منزہ اور پاک ہے۔
بلکہ نفس کلیہ اشیاء سے باوجود قرب کے جس قدر دو رہے اس سے سو گنا زیادہ ذاتِ الہٰی نفس کلیہ سے دور ہے اور اسی طرح اس کے تمام تعینات اور تقیّدات کی حد بندیوں سے بھی مبرا ہے۔ ہاں! اس ضمن میں ایک بات کا ضرور خیال رہے۔ نفسِ کلیہ اور اس سے اوپر وجود کے جو مراتب ہیں، ان پر ذاتِ الہٰی از قبیلِ ابداع موثر ہوتی ہے، نہ کہ از قسمِ خلق۔
ابداع سے مراد یہ ہے کہ مادہ کے بغیر عدم سے وجود کا صدور ہو اور ایک چیز سے دوسری چیز کا پیدا ہونا خلق کہلاتا ہے۔
یہاں پر ایک باریک نکتے کی اشارہ کیا گیا ہے:
﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾
قرآن پاک میں آتا ہے: ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ تو بدیع کا لفظ جو ہوتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے جس کی کوئی base پہلے سے موجود نہ ہو، اس سے کوئی چیز وجود ہونا، یہ ابداع کہلاتا ہے، ابداع۔ تو جو ابداع کرنے والا ہے، اس کو بدیع کہتے ہیں۔ بدیع کے لئے کوئی design نہیں ہوتا، کوئی پہلے سے کوئی موجود نظم نہیں ہوتا، وہ From nothingness to اس چیز کو being وہ لاتے ہیں۔ تو کسی بھی چیز، جو چیز نہیں ہے، اس سے کوئی چیز لانا یہ ابداع کہلاتا ہے، تو یہ بدیع اس اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے۔ ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ اللہ پاک خالق بھی ہے۔ خالق یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے دو چیزیں ہیں، جیسے اس سے تیسری چیز بنا لیں، یا پہلے کو آپ تھوڑا سا deshape کرلیں، اس سے کوئی اور چیز، جیسے لوہار بناتے ہیں، لوہے سے چیزیں بناتے ہیں، ترکھان جو ہے لکڑی سے بناتے ہیں، تو یہ تخلیق کہلاتا ہے، تخلیق کہلاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز پہلے سے موجود ہے، اس سے آپ کوئی اور چیز وجود کرلیتے ہیں، تو یہ تخلیق کہلاتا ہے۔ تو
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾
تو وہ تخلیق کی بات ہے۔ ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ تو یہ وہ تخلیق کی طرف اشارہ ہے۔
الغرض نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی میں خلق کی نہیں بلکہ ابداع کی نسبت ہے۔ اور ابداع کی نسبت کی حالت یہ ہے کہ اُسے عقل انسانی ادراک کرنے سے کلیۃً قاصر ہے۔ اس لئے نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی میں فرقِ مراتب کرنا عقلاً ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر کوئی شخص تسامح سے یا آسانی کے خیال سے یہ کہہ دے کہ نفسِ کلیہ ذات الہٰی کا تنزل ہے، تو اس کا یہ کہنا اجمالاً ایک وجہ رکھتا ہے۔
نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی میں آپس میں کیا تعلق ہے؟ یہ تصوف کا سب سے اہم اور نازک ترین مسئلہ ہے۔ اور اس کو صحیح طور پر سمجھے بغیر تصوف کے دقیق مسائل کو حل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ یہاں ہم اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لئے مولانا عبید اللہ صاحب سندھی کی تصنیف ’’شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ‘‘ سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں۔ مترجم۔ (یہ مصنف دوسرا ہے جس نے اس کو کیا ہے۔)
الغرض کائنات کی کثرت پر غور کرنے کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک نفسِ کلیہ یا جنس الاجناس ہے، جہاں سے ہماری ساری موجودات کا سر چشمہ پھوٹتا ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ نفسَ کلیہ بطریق "ابداع" ذاتِ حق سے صادر ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ذاتِ حق اس عالم سے ماوراء ہے۔ یہ طریق "ابداع" کیا ہے؟ اس پر شاہ صاحب نے ’’بدور بازغہ‘‘، ’’تفہیمات‘‘ اور ’’الطاف القدس‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ مبدِع یعنی جس سے ابداع کا عمل صادر ہوا، مبدَع یعنی جو ابداع کے عمل کا نتیجہ ہے۔ غرض یہ کہ مبدِع اور مبدَع میں جو علاقہ اور نسبت ہے، وہ ایسی چیز نہیں کہ اس کو اس عالمِ مشہود میں سے کوئی مثال دے کر سمجھایا جاسکے۔ یہ نسبت مادی نہیں کہ مبدِع میں اس کی طرف اشارہ کیا جاسکے اور نہ ابداع کی یہ نسبت مبدِع اور مبدَع میں اس طرح کی وحدت پر دلالت کرتی ہے کہ یہ کہا جاسکے کہ یہ سابق ہے اور یہ لاحق اور زمانے کے اعتبار سے اس کو تقدم حاصل ہے اور یہ متاخر ہے۔ الحاصل اس معاملہ میں امر محقق یہ ہے کہ ابداع سے مراد ایک ایسی نسبت ہے جس کی حقیقت یعنی "انیت" (انیت مطلب یہ بھی حقیقت کو کہتے ہیں، مطلب جس سے یعنی پہلے کیسا تھا، حقیقت) تو معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں۔
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کے نفس یعنی نفسِ کلیہ اور ذات باری دوسرے لفظوں میں مبدِع اور مبدَع میں بے شک ایک طرح کی وحدت پائی جاتی ہے، مگر وہ وحدت حقیقی نہیں، انسانی عقل نفسِ کلیہ تک تو پہنچ جاتی ہے اور موجودات کی اس کثرت کو ایک نقطہ پر جمع بھی کرلیتی ہے، لیکن اس سے آگے اس کی پرواز نہیں۔ چنانچہ نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی کے درمیان جو علاقہ اور نسبت ہے اور جسے شاہ صاحب "ابداع" سے تعبیر کرتے ہیں، عقل اس کے احاطہ سے یکسر عاجز ہے اور وہ مبدِع اور مبدَع کے درمیان کسی امتیاز کو قائم کرنے پر قادر نہیں اس لئے بعض دفعہ مبدِع اور مبدَع یا ذاتِ الہٰی اور نفسِ کلیہ پر مجازاً وحدت یعنی باہم ایک ہونے کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
اب مسئلہ بالکل صاف ہوگیا۔ بے شک کائنات کی ہر چیز نفسِ کلیہ کی عین ہے۔ اس لئے صوفیاء اس حالت کو بحر اور موج کی مثال دے کر سمجھاتے ہیں۔ لیکن اس سے اوپر نفسِ کلیہ سے لے کر واجب الوجود تک جو منزل ہے اور جسے ابداع سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی کیفیت معلوم کرنا عقل کے بس کی بات نہیں۔ البتہ اس کی "انیت" یعنی حقیقت معلوم ہے۔ چنانچہ نفسِ کلیہ اور واجب الوجود میں جو نسبت ابداع ہے، وہ ’’معلوم الانیہ مجہول الکیفیہ‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ مقام (جیسے کہتے ہیں نا ’’اَلْأِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ، وَالْكَيْفُ مَجْهُوْلٌ‘‘ یہ اس طرف اشارہ ہے۔ ’’اَلْأِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انیت اس کی ہے موجود، یعنی وہ چیز ہے) چونکہ عقل کے احاطہ سے خارج ہے، اس لئے اس کی تعبیر میں ہر قسم کے مشبہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں فقیر کو بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں کثرت میں وحدت کی دید کا شوق فوارے کی طرح جوش زن ہوتا ہے تو ان کی نظریں جس وحدت تک پہنچتی ہیں وہ نفسِ کلیہ کی وحدت کے بجز کوئی دوسری وحدت نہیں ہوتی۔ لیکن جب چشمِ بصیرت ذاتِ الہٰی کو اپنا مطمح نظر بنائے تو یہ توحیدِ ذاتی کی کیفیت ہے۔ توحیدِ ذاتی کے معنیٰ یہ ہیں کہ ذاتِ حق کو ہر نسبت اور ہر چیز سے الگ کرکے صرف حق میں دیکھا جائے۔ باقی ذاتِ الہٰی اور نفسِ کلیہ میں جو نسبت ہے، اسے "ام النسبات" کا نام دیا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے باہمی علاقے کو کسی خاص نسبت سے متعین کرنا ایک طرح کی زیادتی ہے۔
ذاتِ الہٰی اور نفسِ کلیہ کے درمیان جو علاقہ ہے، اس کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے یہاں ایک مثال دی جاتی ہے۔ ذاتِ الہٰی اور نفسِ کلیہ میں وہی نسبت ہے، جو چار کے عدد اور جوڑے میں ہوتی ہے۔ چنانچہ جب ہم چار کے عدد کو اس کے اصلی مرتبے میں جہاں وہ بحیثیتِ چار کے بذات خود قائم ہے، دیکھتے ہیں تو سوائے چار کے وہاں اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ لیکن اس کے بعد جب اس کو خالص چار کے عددی مرتبہ سے نیچے دیکھا جاتا ہے اور گو اس مرتبہ میں باہر سے کوئی اور چیز اس میں ضم نہیں ہوتی، تو یہ چار ہمیں دو جوڑے نظر آتے ہیں۔ بہرحال اس طرح چار کے عدد کے دو مرتبے ہوئے۔ ایک خالص چار کا مرتبہ اور دوسرے دو اور دو چار کا مرتبہ۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "دو اور دو" نام ہے اس حقیقت کو جو چار ہے تو اس شخص کی یہ بات بے جا نہ ہوگی اور فرض کیا اگر وہ "دو اور دو" کو چار کا عنوان بتائے تو یہ چیز بھی ممکن ہے۔
اب اگر اس مرتبہ سے ایک درجہ نظر اور نیچے اترے اور وہ چار کو اس مرتبہ میں دیکھے جہاں چار کا خالص عدد چار کے نام سے مخلوط ہے تو بے شک اس نام کو جو کہ چار کے عدد پر دلالت کرتا ہے ہم چار کی صفت کہیں گے اور اگر نظر اس سے بھی ایک درجہ اور نیچے اترے اور وہ دیکھے کہ کس طرح "چار ہونا" یعنی چار کے عدد کی صفت اپنے وجود کے لئے موصوف یعنی چار کے عدد کی محتاج ہے اور نیز اس موصوف کا صفت سے مقدم ہونا اور پھر اس موصوف کا صرف اپنی صفت ہی کے ذریعے سے قیام پذیر ہونا نظر کے سامنے آجائے، اس وقت ہم چار کے عدد کو "مبدِع" یا "جاعل" یعنی ابداع کرنے والا، دوسرے لفظوں میں بنانے والا کہیں گے۔ اور "دو اور دو" یعنی جفت کو چار کے عدد کا "مبدَع" اور "مجعول" یعنی پیدا کردہ قرار دیں گے اور اگر ہم چار کے عدد کو عام اور مطلق اور جفت کو خاص اور مقید مانیں اور اس ضمن میں دونوں میں تناقص اور تصادم کا خیال بیچ میں نہ لائیں تو اس صورت میں "جفت" چار کے عدد کا ایک تعین اور مظہر ہوگا۔ الغرض نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی کے درمیان ایک ایسی نسبت ہے جو بسیط ہونے کی وجہ سے ان تمام القاب اور ناموں سے موسوم ہوسکتی ہے۔ آپ جس جہت سے اس نسبت کو دیکھیں گے، اسی اعتبار سے آپ اس کو نام دیں گے۔ چنانچہ ذاتِ الہٰی اور نفسِ کلیہ میں جو نسبت ہے اس کو مختلف ناموں اور القاب سے تعبیر کرنے کا باعث دراصل اس نسبت کو مختلف جہتوں سے دیکھنا ہے۔ اب جو لوگ وحدت وجود کے قائل ہیں اگر اس سے ان کی مراد نفسِ کلیہ کی وحدیت ہے تو ان کی یہ بات درست ہوگی اور جو تنزیہِ ذات کو مانتے ہیں اگر ان کے اس قول کو نفسِ کلیہ سے اوپر جو ذاتِ الہٰی کے مراتب ہیں ان پر اطلاق کیا جائے، تو یہ بڑی مناسب بات ہوگی۔ نفسِ کلیہ اور ذاتِ الہٰی میں جو نسبت ہے سالک کو چاہئے کہ اس نسبت کو اس نسبت کے ساتھ جو افراد اشیاء اور نفسِ کلیہ کے درمیان ہے خلط ملط نہ ہونے دے۔ ورنہ اس کی حالت اس شخص کی سی ہوجائے گی جس نے سبز یا سرخ شیشہ آنکھ پر لگا لیا اور وہ ہر چیز کو سبز اور سرخ دیکھنے لگا اور اس طرح شیشے کا رنگ اس چیز کے رنگ سے جس کو وہ شیشے میں سے دیکھ رہا ہے مخلوط ہوگیا اور وہ اس چیز کا صحیح رنگ نہ دیکھ سکا۔ سالک کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ صحیح معنوں میں "فنا فی الحال" نہیں ہوتا، بلکہ حال کے ساتھ اس کے دماغ کی سوچ بچار بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اگر سالک نفسِ کلیہ کا مشاہدۂ چشم حال سے کرتا ہے تو لامحالہ اسے مظاہر کائنات میں اتحاد و وحدت نظر آئے گی اور اگر وہ ذاتِ الہٰی کو چشمِ حال سے دیکھتا ہے تو کائنات کا وجود اس کی نظر سے یکسر غائب ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ "نظرِ شامل" رکھتا ہے اور نفسِ کلیہ اور ذاتِ باری دونوں کا مشاہدۂ چشم حال سے کرتا ہے تو یہ وجود کے ایک مظہر کو دوسرے مظہر کے حکم سے خلط ملط نہیں ہونے دیتا۔ الغرض نفسِ کلیہ اور ذاتِ باری ہر دو کو اپنے مشاہدہ میں جمع کرلینا، یہ مقام افرادِ کاملین کا ہے۔ باقی ہر شخص کی اپنی اپنی راہ ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
﴿وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ﴾ (البقرۃ: 148)
ہر شخص کا اپنا اپنا رخ ہے، جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے۔ باقی تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو۔
مطلب یہاں پر حضرت نے یہ فرمایا کہ نقطۂ نظر کی بات ہے، نقطۂ نظر۔ ہم کہتے ہیں نا فلاں کا نقطہ نظر یہ ہے۔ تو مطلب اس کی نظر کس چیز پر مرکوز ہے۔ نقطۂ نظر اس کو کہتے ہیں نا کہ اس کی نظر کس چیز پہ مرکوز ہے کہ اس نے کس۔۔۔۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، اس پہ آپ focus کیے ہوتے ہیں، اردگرد بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں، لیکن آپ کو نظر نہیں آرہی ہوتیں۔ تو کیا وہ چیزیں ہوتی نہیں ہیں؟ ہوتی تو ہیں، لیکن نظر نہیں آتیں۔ تو یہ جو ہے، یہ دو وجوہات سے ہوسکتے ہیں، ایک غلبہ محبت سے کہ انسان اتنا مغلوب الحال ہوجائے اپنی محبت میں کہ اس کو صرف اپنا محبوب نظر آئے، دوسرا کوئی اس کو نظر ہی نہ آئے۔ یہ بھی عین ممکن ہے، اور دوسرا یہ ہے کہ depth، وہ کتنی گہرائی کے ساتھ دیکھ رہا ہے کسی چیز کو۔ تو جب ایک چیز پر اس کی نظر بالکل focus ہوگیا، اور وہ جو ہے نا مطلب جو ہے کہ گہرائی کے ساتھ دیکھ رہا ہے، تو باقی چیزوں سے اس کی نظر ہٹے گی۔ یہی بات ہے۔ اناڑی ڈرائیور جو ہوتا ہے، وہ جب گاڑی چلاتا ہے، تو اس کی صرف راستے کی طرف نظر ہوتی ہے، وہ اردگرد چیزوں کو نہیں یاد رکھتا۔ کیوں؟ آپ لوگوں نے تو ڈرائیونگ سیکھی ہے نا، آپ اندازہ کرلیں کہ پہلے پہلے ڈرائیونگ کررہے تھے، تو آپ کو کوئی اور چیز نظر آتی تھی، بس صرف اپنے راستے پر۔ لیکن جب مشّاق ڈرائیور ہوگئے، تو آپ کو ساری ادھر ادھر ساری چیزیں بھی نظر آرہی ہیں، بلکہ آپ گپ شپ بھی لگا لیتے ہیں، اور ادھر ادھر کی چیزوں کے ساتھ بھی بات چیت کرلیتے ہیں، موبائل بھی سن لیتے ہیں، مطلب یہ ساری چیزیں۔ تو ڈرائیونگ میں جو کامل ہیں، وہ اپنے راستہ پر بھی نظر رکھا ہوا ہے، اور باقی اردگرد چیزوں کو بھی جانتا ہے، تو کامل ڈرائیور ہے۔ تو اسی طریقہ سے اگر کوئی شخص اس کی نظر یا تو محبت کی وجہ سے focused ہے، تو مغلوب الحال ہے، اس کو اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آتی، تو یہ تو سکر کی حالت میں ہے، سکر کی حالت میں ہے۔ اور دوسری یہ بات ہے کہ اس نے اتنا focus کیا ہوا ہے اس چیز کے اوپر کہ اس کو اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، تو اس وجہ سے وہ باقی چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب اس میں کمال حاصل کرلیتا ہے کہ وہ عین اس اپنے مقصود پر focused بھی ہے، لیکن وہ باقی چیزوں کے حقوق بھی ادا کرتا ہے، باقی چیزوں کو بھی جانتا ہے۔ تو اب یہی بس چیز ہے کہ وحدت الوجود جو ہے وہ ایک ہی پر نظر ہے، باقی نظر میں نہیں ہیں، reason چاہے کوئی بھی ہے، تو وہ باقی اس کو نظر نہیں آتے، لہٰذا ان کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتا، لیکن یہ معذور ہے۔ لیکن جس وقت یہ کامل ہوجاتا ہے، تو پھر ان کی اللہ پر بھی نظر ہوتی ہے، پھر اللہ کے لئے باقی پر بھی نظر ہوتی ہے، اللہ پر بھی نظر ہوتی ہے، اور اللہ کے لئے باقی پر بھی ہوتی ہے، تو پھر وہ تمام چیزوں کے حقوق پورے پورے ادا کرسکتے ہیں، تو یہ وحدت الشہود ہے۔ تو حضرت نے گویا کہ اس کو اپنی زبان میں بتایا، دیکھیں ابھی ان شاء اللہ آرہی ہیں یہ چیزیں۔
نسبتِ توحید کا درس جاری ہے --- ان شاءاللہ
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ