سیرِ اسمِ ظاہر اور سیرِ اسمِ باطن: ولایتِ کبریٰ و علیا کے اسرار

دفتر اول مکتوب نمبر 260 - یہ بیان مکتوبات کے درس بتاریخ 18 اکتوبر 2017 سے لیا گیا ہے - جس کا یہ دوسرا حصہ ہے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

گزشتہ سے پیوستہ


اور بلند فطرتی بلکہ محض فضلِ خداوندی جل شانہ، سے ان سب کو ترتیب اور تفصیل کے ساتھ طے کر کے ان کے اخیر نقطے تک پہنچتا ہے تو اس وقت وہ دائرہ امکان کو سیر الی اللہ کے ساتھ تمام کر لیتا ہے

دائرہ امکان جو ہے مطلب وہ جو وہاں تک ان کی پہنچ ہوجاتی ہے

اور فنا کے اسم کا اطلاق اپنے اوپر حاصل کر کے ولایتِ صغریٰ میں جو کہ ولایتِ اولیا ہے سیر شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ و تقدس کے اسمائے وجوبی،

اسمائے وجوبی کیونکہ یہاں تک تو یعنی جو اسماء جو ہیں ناں وہ امکانی والی بات تھی اسمائے وجوبی کے ظلال میں کیونکہ امکان والا تو ختم ہوگیا تو

اسمائے وجوبی کے ظلال میں جو حقیقت میں عالم کبیر کے ان پنجگانہ لطائف کے اصول ہیں اور جن میں عدم کی کچھ آمیزش نہیں ہے وہ مطلب وجوبی ہے ناں اب آمیزش نہیں ہے سیر واقع ہو جائے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کے فضل سے سیر فی اللہ کے طریق سے طے کر کے ان کی نہایت تک پہنچ جائے یعنی سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ تو وہ اسمائے وجوبی کے ظلال کے دائرے کو بھی پورا کر لیتا ہے۔

اسمائے وجوبی کے ظلال۔ ابھی اسمائے وجوبی نہیں، اصول نہیں اس کے۔ اس کے ظلال۔ ظل کا آپ کو پہلے میں بہت عرصہ پہلے، بہت کئی جگہوں پہ عرض کر چکا ہوں کہ ظل جو ہوتا ہے وہ اصل میں اصل کا سایہ یا اصل کے عکس کو کہتے ہیں۔ مثلاً یوں کہہ سکتے ہیں جو چیز کسی اور چیز کے ساتھ قائم ہے۔ خود بخود قائم نہیں ہے۔ جیسے سایہ جو ہوتا ہے وہ اپنے اصل کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اور عکس بھی اپنے اصل کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ بذاتِ خود اس کا کوئی مطلب، اس لیے واجب الوجود جس کو کہتے ہیں وہ تو اصل ہوتا ہے۔ اور جو باقی جو ممکن ہوتا ہے وہ تو اس کے وجہ سے ہوتا ہے۔ تو یہاں پر بھی ظل جو ہوتا ہے یہ بھی اصل میں اس اصل کا ظل ہوتا ہے سایہ ہوتا ہے یا عکس ہوتا ہے۔

تو وہ اسمائے و جوبی کے ظلال کے دائرے کو بھی پورا کرلیتا ہے اور اللہ جل سلطانہ کے اسماء و صفات واجبی کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ولایتِ صغریٰ کے عروج کی نہایت یہیں تک ہے۔ اس مقام میں حقیقتِ فنا کا آغازِ متحقق ہوتا ہے

حقیقتِ فنا، حقیقتِ فنا۔ فنا ایسی چیز ہے نا جو انسان کو گویا کہ جو آمیزشیں ہیں ساری، جو اللہ سے دور کرنے والی وہ ساری ختم ہو جائیں تو اس کو فنا کہتے ہیں۔ یعنی سب سے بڑی چیز جو اللہ سے دور کرنے والی ہے تو وہ تو نفس ہے نا۔ جب بھی کوئی سرکشی کرتا ہے تو اپنے نفس کی وجہ سے کرتا ہے۔ اور اپنے دل کی محبت اگر غلط ہو تو اس کی وجہ سے کرتا ہے۔ یہ مطلب اس کا۔ تو فنا میں انسان اپنے اِن تمام چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ مطلب اس کی طرف ان کی نظر نہیں ہوتی۔ تو یہاں پر بھی فرمایا کہ

حقیقتِ فنا کا آغاز متحقق ہو جاتا ہے اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا میں جو کہ ولایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تسلیمات ہے، قدم رکھا جاتا ہے۔

یہ بعد میں حضرت فرمائیں گے کہ یہ ولایت تو انبیاء کا ہے لیکن انبیاء کے نقشِ قدم پہ چلنے والوں کو کچھ تھوڑا سا حصہ اس کا مل جاتا ہے مطلب یہ والے۔

جاننا چاہئے کہ وہ دائرہِ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ تمام مخلوفات کے مبادی تعینات کو شامل ہے

یعنی جو تعین جیسے عین ہوتا ہے نا، کسی مخلوق کا عین ، اُس کا مبادی کیا ہے اور وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ مطلب کس چیز سے آگے نکلا ہے۔

اور ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے۔ مطلب جو بھی اسمِ الہی ہے، اس کا جو ظل ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شخص کا مبدا تعین ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت صدیقؓ جو انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے بعد افضل البشر ہیں ان کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔

اور یہ جو (بعض مشائخ نے) کہا ہے کہ جب سالک اس اسم تک جو اس کا مبداء تعین ہے پہنچ جاتا ہے تو اس وقت سیر الی اللہ کو تمام کر لیتا ہے اس اسم سے مراد اسمِ الٰہی جل شانہ، کا ظل جاننا چاہئے ۔ یعنی اسم نہیں ہوتا، ظل، کیونکہ ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ اس میں بعد میں تفصیلات ہیں۔ اور وہ اس اسم کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے نہ کہ اس اسم کی اصل۔ جیسے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا نام ہے صفاتی ، مثلا رحیم ہے کریم ہے ، وہاب ہے۔ جو بھی ، تو اس اسم کا اصل نہیں ہے بلکہ اس کا ظل ہوتا ہے۔ اور وہ دائرہ ظل حقیقت میں اسماء و صفات کے مرتبہ کی تفصیل ہے۔

ایک ہوتا ہے نقطہ اور ایک ہوتا ہے اس کے گرد دائرہ۔ تو دائرہ جو ہوتا ہے مطلب وہ تفصیل بتاتے ہیں۔ محیط جو ہوتا ہے وہ تفصیل بتاتا ہے۔

مثلاً علم ایک حقیقی صفت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں اور ان جزئیات کی تفصیل اس صفت کے ظلال ہیں جو اجمال کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور اس صفت کی ہر ایک جزئی انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ باقی اشخاص میں سے کسی نہ کسی شخص کی حقیقت ہے، اور انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ان ظلال کے اصول یعنی مفصلہ جزئیات کی کلیات ہیں۔

یعنی ایک مطلب دیکھو، باقی لوگوں کے تو ظلال ہیں ناں اور پھر انبیاء کرام جو ہوتے ہیں ان ظلال کے جو اصول ہیں ان کے مبادی تعینات ہیں۔

مثلاً صفت العلم اور صفت القدرۃ اور صفت الارادہ وغیرہ اور بہت سے اشخاص ایک صفت میں جو کہ ان کا مبداء تعین ہے ۔مختلف اعتبارات کے لحاظ سے باہم شرکت رکھتے ہیں۔

یعنی مطلب دیکھیں جیسے انسان ہے۔ لیکن انسان بوڑھا بھی ہوتا ہے، انسان جوان بھی ہوتا ہے، انسان بچہ بھی ہوتا ہے۔ تو یہ مختلف اعتبار ہیں نا۔ تو اب انسان تو سب ہیں لیکن اعتبار اس میں ہر ایک کا اپنا اپنا ہے مطلب جوان الگ ہوتا ہے۔ تو میں کہتا ہوں بھئی اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تو بوڑھا کتنا فائدہ اٹھائے گا، جوان کتنا فائدہ اٹھائے گا، بچہ کتنا فائدہ اٹھائے گا، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا اعتبار ہے۔

مثلاً حضرت خاتم الرسلﷺ کا مبداء تعین شان العلم ہے نیز یہی صفت العلم ایک (خاص) اعتبار سے حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیمات کا مبداء تعین ہے، اور نیز یہی صفت ایک (اور خاص) اعتبار سے حضرت نوح علی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیمات کا مبداء تعین ہے۔ اور ان اعتبارات کے تعین کا ذکر خواجہ محمد اشرف کے مکتوب (251) میں ہو چکا ہے۔ اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے ، حقیقت محمدی کا بھی تفصیلی بیان گزر چکا ہے مکتوب نمبر 209 میں۔جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔ یعنی تعین اول سے مراد یہی ہے ناں کہ سب سے پہلے اللہ پاک نے کیا کیا؟ مطلب اس سے پھر بعد میں یہ ساری چیزیں۔

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے،نقشِ روئے محمد ﷺ بنایا گیا

ان کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرہ ظل کا مرکز یہی ہے۔ یعنی یہاں سے ظلال سارے منتشر ہو چکے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم (اور اللہ سبحانہ ہی جانتا ہے)۔ اس دائرہ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جو اس دائرہ کا محیط ہے واحدیت گمان کیا ہے، اور دائراۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرہ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے ۔ یہ اصل میں حضرت کا opinion اس سے مختلف ہے۔ لیکن وہ دوسروں کا opinion بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے اس کو عین، مطلب جو اس سے اوپر والا دائرہ ہے اس کو عین ذات کا کہا ہے۔اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حضرت کے نزدیک جو صفات ہیں وہ زائد ہیں ذات کے اوپر، مطلب وہ علیحدہ ہیں۔ یعنی یوں سمجھ لیں وہ صفت ایک وجود رکھتا ہے علیحدہ۔ ایک وجود علیحدہ رکھتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرہ ظل کا مرکز، دائرہ فوق کے مرکز کا ظل ہے یعنی دیکھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو دائرہ ظل ہے، اس کا جو مرکز ہے، دائرہ فوق کے مرکز کا، جو کہ دائرہ ظل کی اصل ہے اور اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائرہ سے موسوم ہے۔ یعنی صفات اس سے لیے گئے ہیں۔ صفات شئونات سے لیے گئے ہیں۔ حضرت کی تحقیق کے مطابق جو صفات ہیں وہ شئونات سے لیے گئے ہیں۔ لہذا ان کا جو ہے ناں وہ اس اصل ہے چونکہ ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور یہ ظلال ہیں۔ حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے کیونکہ حضرت نے شان علم کو اللہ جل شانہ کی ذات کے ساتھ وہ کیا ہوا ہے۔ یعنی، جو ہے ناں وہ اس پر بڑی تفصیل حضرت نے بیان فرمایا۔ اور اس دائرہ میں ان اسماء و صفا ت کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے اور ظلالِ اسماء کے مرتبہ میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے، یعنی ظل جو ہے اس کو اصل قرار دیا گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔

کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیر الی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔۔۔ اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرہ میں جو کہ اس دائرہ ظل کا اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہوجائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی انبیاء کرام ۔ اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلاواسطہ اصلی طورپر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ والتسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرہ کے نیچے کا نصف حصہ ، نیچے کا نصف حصہ، اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے زائدہ، یہاں پر زائدہ لے لیا۔ یعنی وہ زائد ہے ذات پر اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔

عالمِ امر کے پنجگانہ (لطائف و مراتب) کے عروج کی انتہا اسماء و شیونات کے دائرہ کی نہایت تک ہے۔ اس کے بعد اگر محض فضل ایزدی جل شانہ سے مقام صفات و شیونات پر ترقی واقع ہوجائے تو ان کے اصول کے دائرہ میں سیر واقع ہوگی، اور دائرہ اصول سے گزرنے کے بعد ان اصول کے اصول کا دائرہ ہے اس دائرہ کے طے کرنے کے بعد دائرہ فوق سے ایک قوس (نصف دائرہ کے مانند) ظاہر ہوگی اس کو بھی قطع کرنا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اس دائرہ فوق سے قوس کے علاوہ اور کچھ ظاہر نہیں ہوا اس لئے اسی قوس پر بس کیا گیا۔ شاید اس جگہ کوئی راز ہوگا جس پر (عالم غیب سے) اطلاع نہیں بخشی گئی۔ اور اسماء و صفات کے یہ اصول سہ گانہ جو مذکور ہوئے حضرت تعالیٰ و تقدس میں محض اعتبارات ہیں جو کہ صفات وشیونات کے مبادی ہوگئے ہیں۔ ان اصول سہ گانہ کے کمالات کا حاصل ہونا نفسِ مطمئنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اسی مقام میں شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔

اصل میں یہاں پر ایک بات درمیان میں آ سکتی ہے کہ کسی کو ذہن میں یہ آسکتا ہے کہ یہ تو یہاں پر کیسے نفس مطمئنہ حاصل ہو گیا نفس کی تو تربیت تو ہوئی نہیں؟ تو جو فنا حاصل ہوتا ہے وہ نفس کو فانی کرنے کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے تو وہ تو گزر چکا ہے۔ وہ فنا کے ذریعے سے وہ چیز حاصل ہوتا ہے۔ تو فنا کا مرتبہ تو گزر گیا ہے۔ اب فنا کے مرتبے میں یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے حجابات ہیں تو مختلف حجابات قطع ہوتے ہیں۔ تو ایک ہے ظلماتی حجابات اور ایک ہوتے ہیں نورانی حجابات۔ تو ظلماتی حجابات بھی قطع کرنے پڑتے ہیں، پھر نورانی حجابات بھی قطع کرنے پڑتے ہیں، اس سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس سے پھر جو ہے نا یہ چیز جب آجاتی ہے نا تو پھر یہ نفس مطمئنہ یعنی حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت یعنی اللہ جل شانہٗ کے عظمت کا مشاہدہ بلا حجاب ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات کا نہیں۔ اللہ کی عظمت کا جو مشاہدہ ہے وہ بلا حجاب ہوتا ہے۔ تو جب یہ بلا حجاب ہوگا تو ایسی صورت میں پھر انسان اپنے بارے میں کیا؟ تو نفس تو گیا۔ تو ایسی صورت میں نفس مطمئنہ کی حالت حاصل ہو جاتی ہے پھر۔ یعنی وہ پھر اللہ پاک کی عظمت کے سامنے وہ پھر surrender کر لیتا ہے۔ اور کچھ نہیں، اللہ پاک جو بھی اللہ پاک کا حکم ہوتا ہے اس پہ تیار ہوتا ہے۔

اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے نفسِ مطمئنہ اور اسی مقام میں شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔ یعنی دل۔ یعنی دل اور نفس دونوں یہاں پر۔ دل کو شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے۔ اور نفس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ اور عقل کو سمجھ آ جاتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں، اور سالک اسلامِ حقیقی سے مشرف ہوجاتا ہے۔ اسلام حقیقی، نہ کہ تقلیدی سے، وہ جا کے مطلب اسلام حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ صدارت کے تخت پر جلوس فرماتا ہے اور مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ راضی برضا ۔یہ مقام ولایتِ کبریٰ کی انتہا کا مقام ہے جو ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰواة والتسلیمات کا مقام ہے۔ یہاں پیغمبروں کو تو یہ مقام اصلاً حاصل ہوتا ہے اور ان کے امتیوں کو تبعاً حاصل ہوتا ہے۔ تبعاً حاصل ہوتا ہے۔

جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ’’ یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے، اور اسمِ باطن کی سیر ابھی باقی ہے۔

آج کل کے نقشبندیوں کو اگر دیکھیں۔ کیا خیال ہے؟ ہاں جی یہ باتیں آتی ہیں؟ بس یہی مسئلہ ہے۔ اصل میں سبحان اللہ کا لفظ اور ہے اور سبحان اللہ کی حقیقت اور ہے۔ دونوں بہت فرق رکھتے ہیں ۔ اللہ اکبر کے الفاظ اور ہیں اور اللہ اکبر کی حقیقت اور ہے۔

جو کہ عالمِ قدس کی طرف پرواز کرنے کے لئے دوسرا بازو ہے، اور جب تو اس کو بھی مفصل طور پر انجام دیدے گا تو اس وقت تجھے پرواز کے لئے دو بازو عطا ہوں گے‘‘۔ اور جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے اسمِ باطن کی سیر بھی انجام پاچکی تو دو بازو میسر ہو گئے۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ، لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌ (اعراف7آیت) (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت بخشی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ بخشتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے ہیں)۔

اے فرزند! اسمِ باطن کی سیر کی نسبت کیا لکھا جائے۔ اس سیر کا حال استتار وتبطن (درپردہ رہنے) ہی کے مناسب ہے۔ یعنی پردہ ہی رہے اِس پر۔البتہ اس مقام کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ اسمِ ظاہر کی سیر صفات میں ہے بغیر اس بات کے کہ اس کے ضمن میں ذات تعالیٰ و تقدس ملحوظ ہو، صفات ہی میں جاتا ہے۔ صفات ہی کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ اور اسمِ باطن کی سیر بھی اگرچہ اسماء میں سے ہے لیکن اس ضمن میں ذات تعالیٰ ملحوظ ہے اور یہ اسماء ڈھالوں (سپر) کے مانند ہیں جو حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حجابات ہیں۔

کیا میں بتاؤں؟ یہ ذرا بہت باریک بات ہے۔ یہ اللہ پاک کا اسم، مثلاً کریم لے لیں۔ اب اللہ تعالی جب کرم فرماتا ہے تو لوگ خوش ہوتے ہیں۔ بہت اچھا۔ لیکن اللہ پاک اگر اپنی حکمت بالغہ سے کچھ اور فرمائے، مثلاً کچھ تربیتاً حالات بھیجے، ایسی صورت میں جو صرف صفت کریم میں فانی ہوگا، وہ تو وہ نہیں رہے گا۔ اللہ کے ساتھ وہ تعلق تو نہیں رہے گا۔ تو یہ حجاب ہو گیا یا نہیں ہو گیا؟ یہ حجاب بن جاتا ہے۔ تو یہ، یہ جو ہے مطلب ان حجابات سے نکلنا یہ بہت، یعنی اسماء سے ذات کی طرف کا سفر جو ہے یہ کافی مطلب وہ ہوتا ہے۔ تو فرمایا کیسی عجیب بات فرمائی،

اور یہ اسماء ڈھالوں کے مانند ہیں جو ذات تعالی و تقدس کے حجابات ہیں۔ مثلاً صفتِ علم میں ذات تعالیٰ ہرگز ملحوظ نہیں ہے لیکن اُس کے ’’ اسمِ علیم‘‘میں ذات تعالیٰ صفت کے پردہ میں ملحوظ ہے، کیونکہ علیم ایک ذات ہے جس کی صفت ’’علم‘‘ ہے پس’’علم ‘‘ کی سیر’’اسمِ ظاہر‘‘ کی سیر ہے اور ’’علیم کی سیر ’’اسِم باطن‘‘ کی سیر ہے۔

باقی تمام صفات و اسماء کا حال بھی اسی پر قیاس کریں۔

یہ اسماء جو اسمِ باطن سے تعلق رکھتے ہیں ملائکہ ملاء اعلیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلواة والتحیات کے تعینات کے مبادی ہیں، اور ان اسماء میں سیر کا آغاز کرنا ولایتِ علیا میں قدم رکھنا ہے جو کہ ملاء اعلیٰ کی ولایت ہے۔ اور اسمِ ظاہر و اسمِ باطن کے بیان میں جو علم اور علیم کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے، تم اس فرق کو تھوڑا نہ سمجھو اور نہ یہ کہ کہو کہ ’’علم‘‘ سے ’’علیم‘‘ تک بہت کم راستہ ہے، بلکہ وہ فرق ایسا ہے جیسا کہ مرکزِ زمین سے محدّب (سطحِ) عرش کے درمیان ہے ،نیز اس فرق کی نسبت ایسی ہے جیسے قطرہ کو دریائے محیط کی نسبت کا فرق ہے، کہنے کو تو یہ نزدیک ہے لیکن حاصل ہونے پر بہت دُور ہے اور ان مقامات کا ذکر جو مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے مثلاً کہا گیا ہے کہ پنجگانہ (لطائف و مراتب) عالمِ امر کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے تاکہ دائرہ امکان تمام ہو جائے۔

یہ واقعتاً ہمارے جو الفاظ ہوتے ہیں، مراقبات کے، مختصر ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ مقام اتنا مختصر ہے؟ اس پہ تو بہت وقت لگتا ہے۔

صوفی نشود صافی، تا در نکشد جامے

بسیار سفر باید، تا پختہ شود خامے

اس مختصر سی عبارت میں ’’سیرالی اللہ‘‘ کا پوری طرح ذکر آگیا ہے، لیکن اس سیر کے حاصل ہونے میں پچاس ہزار سالہ راہ کی مدت کا اندازہ کیا گیا ہے۔ تَعۡرُجُ الۡمَلٰٕٓكَةُ وَ الرُّوۡحُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗ خَمۡسِيۡنَ اَلۡفَ سَنَةٍ‌ (معارج70آیت4) (فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے)۔ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کی عنایت کے جذب و کشش سے کوئی بعید نہیں کی اس مدتِ دراز کے کام کو طرفتہ العین (آنکھ جھپکنے) میں میسر کر دے۔

باکریماں کارہا دشوار نیست

(کریموں پر نہیں ہیں کام دشوار)

اورا سی طرح سے یہ جو کہا گیا ہے کہ دائرۂ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے، تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کا طے کرنا کہنے میں تو آسان ہے لیکن طے کرنے میں بہت مشکل ہے۔ اور مشائخ نے اس سیر کو طے کرنے کی دشواری کے متعلق فرمایا ہے کہ مَنازِلُ الوَصُولِ لَا تَنْقَطِعُ اَبَدُ الَابَدَینِ (وصول کی منزلیں ابدالآباد تک کبھی ختم نہیں ہوتیں)۔ اور مشائخ نے ان مراتب کی سیر کے پورا ہونے کو ناممکن سمجھا ہے ؂

نہ حسنش غایتے دراد نہ سعدی راسخن پایاں

بمیرد تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی

(نہ اُس کے حُسن کی حد ہے نہ سعدی کا سخن آخر

مرے پیاسا ہی مستسقی مگر دریا رہے جاری)



یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ وصول (الی اللہ) کے مراتب کا انقطاع تجلیات ذاتیہ کے اعتبار سے کہا گیا ہے نہ کہ تجلیاتِ صفاتیہ کے اعتبار سے، اور (مشائخ نے) حُسن سے مراد حُسنِ ذاتی قرار دیا ہے نہ کہ حُسنِ صفاتی۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ تجلیاتِ ذاتیہ شیون و اعتبار کے ملاحظہ کے بغیر نہیں ہیں اور وہ حُسن ذاتی صفاتِ جمالیہ کے روپوش (حجاب) کے بغیر نہیں ہے کیونکہ اس مقام میں ان روپوشوں کے بغیر گفتگو کی مجال نہیں ہے:مَنْ عَرفَ اللّٰہ کَلَّ لِسَانُہُ (جس نے اللہ تعالیٰ کہ پہچان لیا اس کی زبان گنگ ہوگئی)۔

اصل میں بات یہ ہے کہ جتنا جتنا انسان کے اوپر اللہ پاک اس چیز کا فیضان کھولتا ہے، اور اس کی معرفت بڑھتی ہے، تو اس معرفت کے ساتھ ہی یہ معرفت بھی ہوتی ہے کہ کتنی بات کرنی ہے۔ کتنی بات کرنی ہے۔ یعنی یہ والی بھی ساتھ ساتھ مطلب یعنی ادب۔ وجہ یہ ہے کہ بیان کرنا ہوتا ہے الفاظ کے ساتھ۔ اور چیز ہے کیفیت کا۔ تو کیفیت کو الفاظ میں بیان کیا نہیں جا سکتا۔ تو جس وقت کیفیت کو کوئی الفاظ میں بیان کرتا ہے، تو فتنہ بنتا ہے۔ فتنہ بنتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس فتنے سے بچنے کے لیے خاموشی ضروری ہے۔ تو اس خاموشی کا جو مطلب ہے، مطلب جس پر جتنا کھولا جاتا ہے، تو اس کے مطابق وہ اتنا ہی خاموش ہوتا ہے۔

اور تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے ۔

دیکھیں سبحان اللہ، یہ بہت بڑی بات ہے۔ تجلی۔ کیوں؟ اللہ جل شانہ کی ذات وراءالوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ اور تجلی جب کسی کے اوپر وارد ہوتی ہے تو گویا کہ اللہ جل شانہ اپنی شان کو اس کی سمجھ کے مطابق اس پہ جلوہ فگن کرتا ہے۔ تو اب ظاہر ہے، وہ شخص تو ادھر نہیں جا سکتا نا، تو پھر اللہ پاک کی وہ جو ہے نا، وہ ظل کے طور پر، جس کو تجلی کو جو ہے نا وہ کہتے ہیں ظلیت۔ وہ ظل کے طور پر آتی ہے۔ تو ایسی صورت میں جو کہتا ہے کہ یہی خدا ہے، وہ ظاہر ہے وہ بیچارہ مارا گیا۔ لیکن وہ جب اس کو پتہ چل جائے کہ یہ تجلی ہے، تو تجلی کے بارے میں اس کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ ظل ہے۔ لہذا وہ اس لیے تجلی صوری کا جو لفظ ہے، وہ بھی اسی طرح ہے۔ کیونکہ انسان تصور صورت کا کر سکتا ہے۔ تصور صورت کا کر سکتا ہے۔ تو وہ جو بے صورت تصور ہے، وہ ابتدا میں نہیں ہو سکتی۔ تو اس پر تجلی جب ہوتی ہے، تو اگر اس کا شیخ کامل نہ ہو، تو وہ گمراہ ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ جو شیخ کامل ہوتا ہے، وہ اس کو سمجھاتا ہے کہ یہ نہیں ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے، دیکھو اصول ہے آپ حضرات نے پڑھا ہوگا۔ کہ اس میں فرمایا کہ جس چیز کے بارے میں تمہیں یہ خیال ہے کہ یہ اللہ ہے، تو سمجھو کہ اللہ نہیں ہے۔ یعنی یہ چیز آپ کے ذہن میں بالکل ایسا واضح و راسخ ہونا چاہیے کہ درمیان میں اور کوئی بات نہ ہو۔ یعنی جیسے ہی آپ کو اللہ کے بارے میں کوئی خیال آ گیا کہ اللہ ایسے ہے، تو سمجھو کہ اللہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ وجہ کیا ہے؟ ہمارا ذہن اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ ہمارا قلب اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ جب ادراک نہیں کر سکتے، تو اللہ پاک ایسا نہیں۔ ہاں، اللہ پاک نے اپنے موجودگی کا احساس جو دلایا ہے، یہ اس کا فضل ہے۔ کیفیتِ حضوری جو دیا ہے، یہ اس کا فضل ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تجھے اپنے قریب کر رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تُو نے اللہ کو دیکھ لیا ہے۔ اللہ کو دیکھنا تو ممکن نہیں، لیکن یہ ممکن ہوگا کہ آپ کو وہ کیفیت حاصل ہو جیسے دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کیفیت کا تقاضا ہے۔ دیکھنے کا تقاضا نہیں۔ دیکھنے کے بارے میں تو صاف فرمایا”:لن ترانی“۔ اس میں تو دوسری بات ہے نہیں۔ البتہ یہ کیفیت کا تقاضا ہے:

ان تعبداللہ کانک تراہ

تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔

تو جیسے والی جو بات ہے، وہ تو ہو سکتی ہے۔ مطلب آپ یوں کہہ سکتے ہیں اپنی جو قلب و عقل کی جو آنکھ ہے، جو معرفت، قلب و عقل سے مراد معرفت۔ یعنی آپ کو محبت اور معرفت سے جو آنکھ ملی ہے، محبت اور معرفت سے جو آنکھ ملی ہے، اس آنکھ کو آپ اتنا قوی کر دیں کہ وہ اس کیفیت کو حاصل کر لے، جس کیفیت کو آپ واقعی آنکھ سے دیکھنے سے حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جنت اور دوزخ اگر ہمارے سامنے بھی کیے جائیں تو ہمارے ایمان میں ذرا برابر فرق نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ چیز پہلے سے کیفیتاً حاصل کی تھی۔ جو کوئی چیز کیفیتاً پہلے سے حاصل ہو، تو اس کو دیکھنے سے... یا حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو فرمایا تھا، وہ اور زیادہ اور زیادہ واضح بات ہے۔ کہ انہوں نے فرمایا کہ اب مجھے دیکھنے کی خواہش نہیں ہے کہ مجھے آپ کی زبان پر زیادہ یقین ہے، بمقابلہ اپنی آنکھ کے۔

تو یہ، یہ جو ہے نا ظلیت۔ فرمایا ہے کہ

اور تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے لہٰذا اس مقام میں شیون کے ملاحظہ کے بغیر چارہ نہیں پس وہ منازلِ وصول اور مراتبِ حُسن اسی اسماء و شیونات کے دائرہ میں داخل ہیں جس کا انقطاع (طے کرنا ان (مشائخ) کے نزدیک دشوار ہے۔ لیکن وہ امر جو اس درویش پر ظاہر کیا گیا وہ تجلیات و ظہورات سے ماوراء (بالاتر) ہے، خواہ وہ تجلیات ذاتی ہوں یا صفاتی اور حسن و جمال سے وراء ہیں خواہ وہ حُسن ذاتی ہو یا صفاتی؟ مختصر یہ کہ مطالبِ بلند اور مقاصدِ ارجمند کے موتیوں کو مختصر طور پر عبارات کی لڑی میں پرودیا ہے اور دریائے بیکراں کو چند کوزوں میں بھر دیا ہے۔ فَلَاتَکُنْ مِنَ القَاصِرِینَ (پس کم ہمت نہ ہو)۔


اسمِ ظاہر اور اسمِ باطن کی تجلیات

اللہ کی معرفت پر ایک کلام


تحریر: حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتہم

کتاب: کراماتِ قلب


اسمِ ظاہر سے ہے ظہور اس کا، اسمِ باطن سے برآمد حیرت

اس کی جب ذات ہے وراء الورا، اس کو دیکھنے کی ہو کیسی قدرت


قدرتوں کا کہ جس سے اظہار ہو، اسمِ ظاہر میں نمایاں ہے یہ

خیال اور عقل سے باہر باہر، ذات اس کی ،اس کی شان و شوکت


وہ ہی ہر چیز میں نمایاں محسوس، بند آنکھوں سے بھی نظر آئے

آنکھیں پھاڑ پھاڑ اس کو دیکھ نہ سکیں،بے ثمر ہوگی ان کی یہ محنت


جنت میں اس کی نعمتوں کا اظہار ، کردے مبہوط ہر جنتی کو جب

نصیب اس کا جب دیدار ہوگا ، ماند پڑجائے گی ہر اک نعمت


جنت میں اس کی نعمتوں کا اظہار ، کردے مبہوط ہر جنتی کو جب

نصیب اس کا جب دیدار ہوگا ، ماند پڑجائے گی ہر اک نعمت


شکر ایماں پہ ہو نصیب شبیر کو، لازمی شرط ہے اس کی دید کی جو یہ

کلمہ طیبہ نصیب ہو اس کو، باور اس کا ساتھ بوقتِ رحلت




یہ درس اگلے بیان میں جاری رہے گا، ان شاءاللہ


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



سیرِ اسمِ ظاہر اور سیرِ اسمِ باطن: ولایتِ کبریٰ و علیا کے اسرار - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور