مثنوی مولانا روم: عشقِ حقیقی اور مجازی کا فرق

درس نمبر 22 دفتر اول حکایت نمبر 18

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مولانا روم کی مثنوی شریف کے ایک حصے کی تشریح ہے، جس میں ایک بادشاہ اور ایک طبیبِ الٰہی کی ملاقات کا ذکر ہے۔ بادشاہ اپنی پریشان حال کنیز کے علاج کے لیے طبیب کو بلاتا ہے، جو ظاہری علامات سے مرضِ عشق کو پہچان لیتا ہے۔ بیان میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے تعلق اور ان کے اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ عشق کی حقیقت کو زبان و قلم یا عقل سے پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نیز، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تبلیغی انداز کو الزامی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ شرک کی لغویت کو ثابت کیا جا سکے، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پیغمبر توحید پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا عمل لوگوں کو سمجھانے کا ایک طریقہ تھا۔ آخر میں، عشق کے ذاتی تجربے پر مبنی ہونے اور اس کے دلوں کو اللہ کی طرف مائل کرنے کی طاقت پر بات کی گئی ہے۔