اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اصل میں اس کا دوسرا دور ہے، جس میں جو فارسی کی جو مثنوی شریف ہے، اس کا منظوم اردو ترجمہ یہ اس سے تعلیم ہورہی ہے۔ اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے، اس میں پہلے ہی ترجمہ ہے۔ لہٰذا بات کافی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ ابھی حضرت نے چونکہ حکایت نمبر 6 میں شمس کی بات آگئی ہے، تو اس سے اپنے پیر، اپنے شیخ کی طرف ان کا ذہنی انتقال ہوگیا، تو بات اس کی شروع ہے۔
24
بات ہوئی شروع شمس الدین کی جب
شرم سے سورج نے چھپایا منہ کو تب
یعنی ایک ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے۔ (یعنی شمش الدین شمش تبریز رحمۃ اللہ علیہ) جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا، سورج ماند پڑ گیا۔ سورج کو فلکِ چہارم سے منسوب کرنا بِنَاءً عَلَی الْعُرْفِ ہے، ورنہ آیاتِ قرآنی میں یہی پایا جاتا ہے کہ سورج اور ستارے فلکِ اوّل پر ہیں۔
یہ فارسی کے حصہ میں آیا تھا کہ جو سورج فلک چہارم پہ ہے، تو یہ اس ہیت کو تبدیل کرنا چاہئے۔ وہ یہ کہ بس اتنا ہی ہے کہ ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے، جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا، سورج ماند پڑ گیا۔ بس یہ کافی ہے۔
25
اب لیا میں نے جو ان کا نام ہے
ان کے احسانات بتانا کام ہے
ہاں! مطلب یہ کہ اب جو ان کا نام آگیا، تو اب ان کے احسانات بتانا بھی ضروری ہے۔
26
ذکر چاہے ان کا اب یہ دل مرا
بوئے پیراہنِ یوسف کی طرح
یعنی حضرت یعقوب کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب یوسف نے قافلہ والوں کو اپنی قمیص دے کر کہا کہ اس کو میرے والد کی آنکھوں سے لگا دیں، تو ان کی نورِ بصارت جو گریۂ فراق سے زائل ہو چکی تھی، پھر عود کر آئے گی۔ اس قافلہ کا قمیص کو لے کر مصر سے روانہ ہونا تھا کہ ادھر صدہا میل سے حضرت یعقوب کو اس کی خوشبو آنے لگی۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿قَالَ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾1
’’یعقوب علیہ السلام نے کہا اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا نہ سمجھو، تو مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے‘‘
یعقوب علیہ السلام کو اپنے عالی و موالی کے اعتراض کا اندیشہ تھا کہ کہیں گے ان کو ہر وقت یوسف کے ذکر کے سوا اور کوئی خیال ہی نہیں، اس لئے بطورِ عذر کہا ﴿لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾
مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یہ خیال ہوا کہ سامعین کہیں یہ اعتراض نہ کریں کہ کہاں کنیزک کا قصہ اور کہاں اپنے مرشد کی مدح چھیڑ۔۔۔۔ اس لئے بطورِ عذر کہتے ہیں کہ میں بھی یعقوب کی طرح اب ریحِ محبوب سے بے خود ہورہا ہوں اور دل اس کے ذکر پر مجبور کررہا ہے۔ سامعین معاف فرمائیں۔
یہ تقریباً سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خود فرما رہے تھے کہ ایک دفعہ ایک وکیل صاحب تھے، جو میرے مخالف تھے، ان دنوں چونکہ فارسی ہر ایک کو آتی تھی تقریباً، تو وہ بعد میں قائل ہوگیا اور مداح ہوگیا۔ تو ایک دن میں بیان کررہا تھا، تو یہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور بڑے مزے سے یہ شعر کہہ رہے تھے
تو مکمل از کمال کیستی
تو منور از جمال کیستی
(تو کس کے کمال سے مکمل ہے، تو کس کے جمال سے منور ہے) یہ بار بار کہتے جارہے تھے، تو کہتے کہ میں بھی جوان تھا، تو مجھے بھی جوش آگیا، تو میں نے کھڑے ہوکر کہا:
من مکمل از کمال حاجیم
من منور از جمال حاجیم
(میں اپنے حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں، میں اپنے حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں)
ہاں جی! تو یہ تقریباً سب کے ساتھ یہ معاملہ چلتا آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نور باطنی کا جو حصول ہے، وہ تو بہت بڑی نعمت ہے ناں، تو جن کے ذریعہ سے نور باطنی حاصل ہو، تو اس کا احسان آدمی نہ مانے، تو کیا کرے؟ ویسے بھی قرآن پاک میں،
﴿هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾2
کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کچھ ہوسکتا ہے؟ تو جو بھی مطلب صحیح معنوں میں طالب ہے، تو ان کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ اور یہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ تو جذب کے بادشاہ تھے، تو حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے ذریعہ سے جو جذب ہوا، وہ یعنی گویا کہ تھوڑے عرصہ میں بہت آگے پہنچا۔ ہاں جی! تو اس وجہ سے حضرت ان کو شمس یعنی سورج کے نام سے وہ کررہے۔ شمس تو تھے ہی، نام بھی ان کا شمس تھا، لیکن یہ مطلب روحانی، باطنی نور کا جو منبع ہے، اس کو اس کا ذریعہ سمجھا۔ ہاں جی! وہ کہتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تاغلام شمس تبریزی نہ شد
(مولوی اس وقت مولانا روم نہیں بنے، جب تک کہ جب تک کہ شمس تبریز کے غلام نہیں بنا) ہاں جی! مطلب یہ بہت ساری جگہوں پہ وہ جب کبھی ذکر آتا ہے، مطلب کسی ایسی چیز کا، جس سے شیخ کی طرف نسبت ہو، تو بالکل بے خود ہوکر بات کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہاں جی! تو یہاں پر بھی اس طرح فرمایا:
27
چاہے دل کہ حقِ صحبت کے لئے
کچھ بیاں کردوں جو فائدے لئے
یعنی میری روح اس لئے مجھے مستعد کررہی ہے کہ سالہا سال کے حقِ صحبت کے لئے ان کے مبارک حالات میں سے کچھ نہ کچھ بیان کروں۔
28
کہ زمین و آسمان ہنسنے لگیں
عقل و روح دید فخر کرنے لگیں
یعنی رازِ توحید جو مرشد نے تعلیم کیا تھا، اس کو بیان کروں، تو عالم میں نشاط و انبساط کی لہر دوڑ جائے اور عقل و روح منور ہوجائیں۔
عقل اور روح۔ عقل جو ہے، وہ تعلق رکھتی ہے اپنے جسمانی علم کے ساتھ یعنی انسان جو علم اپنی آنکھ کے ذریعہ سے، کان کے ذریعہ سے، دماغ کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے، وہ عقل مطلب ادھر جاتا ہے اور عقل کا حصہ ہوجاتا ہے یعنی عقل ان کو استعمال کرتی ہے۔ جبکہ روح جو ہے، اس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے، ملاء اعلیٰ کے ساتھ، تو اس لئے فرمایا عقل و روح اور دید یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ان پہ فخر ہونا، تو یہاں پر یہ بات کی کہ رازِ توحید جو مرشد نے تعلیم کیا تھا، اس کو بیان کروں۔ یہ وہ توحید ہے، جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ ہاں جی! وحدت الوجود یعنی میں اس کی تعلیم جو ہے ناں، اس کو بیان کردوں اور اگر میں نے بیان کیا تو یہ عقل اور روح منور ہوجائیں گے۔
29
روح جو اپنے حبیب سے دور ہو
جیسے وہ اپنے طبیب سے دور ہو
روح اگر اپنے حبیب سے دور ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ سے، تو پھر وہ ایسی ہے، جیسے اپنے طبیب سے کوئی دور ہوجائے۔یعنی کوئی وجہ ہے۔
میں نے (جوابًا) کہا اے (روح) جو پیارے (مرشد) سے دُور پڑی ہے، جیسے وہ بیمار جو طبیب سے دُور ہوجائے۔
30
لَا تُکَلِّفْنِیْ فَاِنِّیْ فِی الْفَنَا
کَلَّتْ اَفْھامِیْ فَلَا اُحْصِیْ ثَنَا
روح جو مدحِ شیخ پر مجبور کررہی تھی، مولانا اس سے عذر کرتے ہیں کہ میں سوزِ فراق سے بے خود ہورہا ہوں، ہوش و حواس ٹھکانے نہیں، تو میں کیا مدح کرسکتا ہوں؟
مطلب یہ ہے کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے کہ میں اس وقت معذور ہوں۔ ہاں جی! یہ ہوتا ہے، یہ بھی ایک حال ہے۔ اکثر جب ہم اپنے شیخ کے پاس جاتے، حضرت کے پاس تو میرے ساتھ اگر کوئی نئے ساتھی جاتے، تو میں ان سے کہتا کہ بھئی! بات یہ ہے کہ جو کچھ پوچھنا ہو، ادھر پوچھ لو، وہاں نہ پوچھنا۔ ہاں جی! کیونکہ وہاں پوچھو گے، تو عین ممکن ہے کہ میں حضرت کی طرف متوجہ ہوں اور میں آپ کو کچھ سے کچھ کہہ دوں، وہ حقیقت نہ ہو، تو پھر آپ مسئلہ کریں گے، اس وجہ سے اب جو کچھ پوچھنا ہے، مجھے یہاں سے پوچھو۔ تو مطلب یہ ہے کہ۔۔۔۔
31
کُلُّ شَیْءٍ قَالَہٗ غَیْرُ الْمُفِیْقِ
اِنْ تَکَلَّفَ اَوْ تَصَلَّفَ لَا یَلِیْقُ
یعنی غیر ذی ہوش جو بات کہے گا اگر (اس میں) تکلّف کرے گا یا خلاف (حقیقت) کہے گا، تو یہ لائق نہیں۔
میں جب مدہوش ہوچکا ہوں اس وقت، (حضرت کہہ رہا ہے) میں جو کہوں گا، تو صحیح بات نہیں ہوگی، یا میں تکلف کروں گا یا خلاف حقیقت بات کروں گا، تو دونوں ٹھیک نہیں ہیں۔ مطلب میں تکلفاً کچھ عرض کروں گا، کیونکہ اپنے حال میں تو ہوں گا نہیں۔ تو یہ بات ہے، مطلب یا پھر خلاف حقیقت ہوجائے گا، کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہوگی۔ تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
32
جو تکلف سے ہو وہ بولنا ہے کیا
وہ بناوٹ ہے اسے کھولنا ہے کیا
ہاں جی! جو تکلف سے بولا جائے، وہ کیا بولنا ہے؟ ایک عجیب چیز ہے، اصل چیز تو نہیں ہے اور جس میں بناوٹ ہو، تو اس کو کھول کے کیا دیکھو گے؟ ہاں جی! اس میں اندر تو کچھ ہے ہی نہیں، سارا باہر ہی باہر ہے۔ ہاں جی!
33
ایک رگ بھی میری جو ہوشیار نہیں
اس لئے بولنے کو میں تیار نہیں
میری کوئی بھی رگ اس وقت ہوشیار نہیں ہے، میں سب پورا مدہوش ہوچکا ہوں، اس لئے میں بولنے کو تیار نہیں ہوں۔ آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے کسی نے شراب پی ہو، تو جس نے شراب پی ہو، تو وہ بولنا چاہے تو کیسے بولے گا؟ ظاہر ہے اول تو اس کے بولنے کا طرز ایسا ہوگا، لوگ ہنس رہے ہوں گے اور بات بھی پتا نہیں کچھ سے کچھ کہہ دے، آگے پیچھے کرلے، تو حضرت عذر فرما رہے ہیں۔
34
سِرِّ وحدت کا بیان اس حال میں
کیسے کردوں ایسے قیل و قال میں
یعنی وحدت الوجود کا جو راز ہے، وہ میں کیسے اپنے قیل و قال میں بیان کروں؟ یہ قیل و قال کی بات تو ہے نہیں، یہ تو حال ہے اور حال جس پر طاری نہ ہو، اس کو سمجھ نہیں آسکتا، حال کی بات حال سے ہی معلوم ہو اور قال کی بات قال سے ہی معلوم ہو۔ تو حال کو اگر قال میں لاؤ گے، تو اس میں گڑبڑ کرو گے، اس میں مسئلہ ہوگا۔
تو اوپر عذر کرتے آئے ہیں کہ میں ہوش میں نہیں، تو مرشد کی مدح اور اس کے انعام کی تفصیل کیا کروں؟ چونکہ انعام سے مراد وحدت الوجود کا مسئلہ ہے، جس میں کمالِ الٰہی کا بیان ہوتا ہے، اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ ایسی غیر ہوشمندی کی حالت میں انعامِ مرشد کو یعنی رازِ وحدت الوجود کو یا دوسرے لفظوں میں شرحِ صفتِ الٰہیہ کو کیا بیان کروں۔
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دیکھیں! اللہ جل شانہٗ کی ذات جو ہے، وہ وراءالوراء ہے، وہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اور اس کی جو صفات ہیں، اس میں غور کرنے کا حکم ہے، لیکن اس کے لئے ہمارا جسم اور ہمارا نفس مانع ہے، محجوب ہے اس کی وجہ سے۔ تو جیسے جیسے یہ حجاب کم ہوتا جائے گا، اتنی اتنی صفات الہٰیہ ہم پر کھلیں گی۔ ہاں جی! جیسے جیسے حجاب کم ہوتا جائے گا، ایسے ایسے یہ صفات ہم پر اللہ تعالیٰ کی کھلیں گی۔ تو یہ حجاب کے کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نفس کا جو اثر ہے، وہ معدوم ہونے لگے، تو نفس کا اثر جو معدوم ہوگا، تو فنائیت ہے۔ اور جو فنائیت ہے، اس میں ادراک کہاں؟ ہاں جی! تو یہ مقام ہے۔ کیونکہ فنائیت میں ادراک ہو نہیں سکتا اور بغیر فنائیت کے اللہ کی صفات سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ تو اس وجہ سے یہ دو اجتماع ضدین ہوگیا ناں، تو یہ مطلب یہ مقام حیرت مطلب ہوجاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں یہ ایک ایسا حال ہے، جس پہ گزر رہا ہو، تو وہ جو سمجھ رہا ہے، وہ سمجھ رہا ہے اور دوسرا اس کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں جی! دوسرے جو جن کے اوپر وہ حال نہیں ہے، وہ اس کو سمجھ نہیں سکتے، کیونکہ اس کے لئے قیل و قال کی ضرورت ہے اور قیل و قال سے یہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔ ہاں جی! تو یہ ایک مشکل مسئلہ ہے اس وجہ سے، ہاں کہ اس کو یعنی گویا کہ یوں کہہ سکتے ہیں ہم کہ یہ علم جو ہے، یہ حالی علم ہے اور جب تک انسان خود اس تجربہ سے نہ گزرا ہو، اس کو اس چیز کا اندازہ نہیں ہوسکتا، کوئی بھی کتاب کے ذریعہ سے اس کو بیان نہیں کرسکتا، مطلب کتابوں میں یہ چیز نہیں آسکتی، تو اس کے لئے انسان کو خود سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جی! وہ سفر جو روحانی سفر ہے، ہاں جی! وہ کرنا پڑتا ہے یعنی اپنی جسمانیت اور نفسانیت سے ہجرت الی روحانیت یہ سیر، مطلب یہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک کوئی یہ سیر نہ کرے، اس وقت تک اس کو نہ خود سمجھ آئے، نہ دوسروں کو سمجھ آسکے۔ ہاں جی! اور جب سیر کرلیں، تو پھر اس کو مطلب ظاہر ہے، جتنا حال حاصل ہے، اس حال کے مطابق ہی وہ بات کرسکتا ہے۔ تو یہاں پر حضرت نے یہ فرمایا کہ ایسی غیر ہوشمندی کی حالت میں ناں مرشد کے راز وحدت کو میں کیا بیان کروں؟ ہاں جی! فنائیت کے انداز میں۔
35
مدح سے حقِ مدح ہو کیا ادا
اپنی ہستی کی دلیل تو ہے خطا
یعنی یہ جو مدح ہے، ایسی غیر ہوشمندی میں اس سے کیا حقِ مدح ادا ہوا۔ ہاں جی! کیونکہ اس کے لئے ہوشمندی کی ضرورت ہے اور ہوشمندی کے لئے ہستی کی ضرورت ہے اور ہستی کا اس معاملہ میں خطا کی بات ہے۔ اب بتاؤ! کیونکہ ہستی جو ہے یہ کیا ہے؟ یہ نفس کی موجودگی کی بات ہے، تو ایسی صورت میں جو بات کرے، وہ دلیل تو خطائی دلیل ہوگی، تو یہاں پر مطلب جو ہے ناں، خود گویا کہ آپس میں بات کررہے ہیں۔
36
شرح اس ہجران کی ہو خونِ جگر
ملتوی کردو تا وقتِ دیگر
اس ہجر (و فراق پر مشتمل) اور خونِ جگر (پلانے والی چیز یعنی عشق) کی شرح کو (جو دوسرے لحاظ سے وحدت الوجود کا مسئلہ کہلاتی ہے) اب دوسرے وقت تک ملتوی رکھو۔
اصل میں یہ عشق ہی کا نتیجہ ہوتا ہے وحدت الوجود، کہ عشق کے ذریعہ سے نفسانیت دور ہوتی ہے، وقتی طور پر، یہ نہیں کہ مستقل طور پر، وقتی طور پر وہ دور ہوتی ہے۔ تو اس وجہ سے جو ہے ناں، وہ اس کو یعنی ہجر کہتے ہیں اور یہ جو ظاہر ہے یہ جو چیز ہے، یہ نفس کو جلاتی ہے اور نفس کا جو مرکز ہے، وہ کیا ہے؟ جگر ہے۔ ہاں جی! تو اس کا مطلب ہے کہ تو جگر کو جلانے والی چیز ہے، تو اس وجہ سے اب اس کی بات کو فی الحال ملتوی کردو۔
یعنی مسئلہ وحدت الوجود اہل اللہ کا مایۂ عشق ہے۔ اس کو ہجر اس لئے فرمایا کہ سیر فی اللہ کی کوئی انتہا نہیں۔ سالک ترقی کے جس مقام پر پہنچتا ہے اور جس تجلی سے بہرہ ور ہوتا ہے، اس پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ طلبِ زیادت میں اپنے آپ کو مبتلائے فراق سمجھتا ہے۔
میں آپ کو کیا بتاؤں؟ یہ لامحدود چیز کو کیسے آپ محدود کرسکتے ہیں؟ ہاں جی! تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی جو ہے، مطلب معرفت، وہ صفات کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور صفات اللہ پاک کی لامحدود ہیں، لہٰذا جتنا جتنا آگے بڑھتا ہے، اس پہ بات کھلتی ہے، بات کھلتی ہے، تو اس کو مزید ہجر کا احساس ہوتا ہے یعنی گویا کہ مزید اس کو شوق ہوتا ہے، محبت ہوتی ہے، عشق ہوتا ہے اور وہ مزید قریب ہونا چاہتا ہے، لہٰذا اس کا ہجر بڑھتا جاتا ہے یعنی یہاں پر یہ والی بات، وہ میرے خیال میں یہ موقع آگیا ہے، جو ہمارے کلام کا جس کے بارے میں میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شاید یہ فوری طور پہ جو سمجھ میں آسکتا ہے یا مولانا تقی عثمانی صاحب کی سمجھ میں آسکتا ہے آج کل کے موجودہ دور میں اور یا پھر حکیم الاختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سمجھ میں فوری طور پہ آسکتا تھا یعنی اس کا۔۔۔ یہ ہے کہ تشریح کوئی کردے، پھر تو سب کی سمجھ میں آسکتا ہے، لیکن بغیر تشریح کے کوئی خود اس کو سمجھ لے، تو یہ شاید میرے خیال میں۔۔۔۔ اور اس میں یہی چیز ہے۔ اور جیسے میں نے کہا تھا، ایسے ہی ہوا، اس کے پہلے شعر کے بارے میں میں بتاتا ہوں کہ اس کے بارے میں پھر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی دین ہے، کیا بات ہے۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ اس کو سن کے ہمارے جلال صاحب کے والد صاحب ہیں، جو پشتو کے پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں، شاعر بھی ہیں، مجھے کہتا کہ آپ کی اردو شاعری پشتو سے بہت آگے ہے، ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے تھے، میں اور جلال، کہتے ہیں نہیں پشتو زیادہ تیز ہے، کہتے نہیں نہیں، پھر مثال اس کی دی ہے، کہتے ہیں اس کے مقابلہ کا مجھے پشتو اشعار بتاؤ
در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا
یہ جو شعر ہے ناں، اس کے بارے میں ایک صاحب کو حکیم الاختر صاحب کی زیارت ہوئی، میں نے کہا ناں کہ حضرت اس کو سمجھتے یا مولانا تقی عثمانی صاحب۔ حضرت نے فرمایا یہ جو پہلا شعر اس کا فرمایا کہ یہاں آکر بھی یہی حال ہے ہمارا، یہاں آکر بھی ہمارا یہی حال ہے، تشنگی وہی باقی ہے، اور تشنگی ختم نہیں ہوتی، مطلب یہ فرمایا:
عمق کیا جانیں بحرِ عشق کی سادہ ہیں ہم کتنے
نتیجہ اس کی پیمائش کا بھی سوء ادب نکلا
یعنی جو عشق کے سمندر کا جو عمق ہے، گہرائی ہے، ہاں جی! یہ اس کا کیسے پتا چل سکتا ہے؟ ہاں! جو اس کی پیمائش کرتا ہے، وہ بھی بے ادبی ہے، کیونکہ بے ادبی اس لئے ہے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو عاشق کہہ سکتا ہے کہ میں اتنا عاشق ہوں، کیونکہ عشق تو فنائیت چاہتا ہے، تو جس کی اپنے اوپر نظر پڑ گئی، تو وہ کیسے عاشق ہے؟ ہاں جی! یہ بھی بات ہے۔
یہاں چپ باش کچھ پوچھو نہیں یہ بحرِ حیرت ہے
یہاں پر سر جھکانا ہی تو ملنے کا سبب نکلا
مطلب یہاں پر قیل و قال کی ضرورت نہیں ہے؟ قیل و قال سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، یہاں تو بس اس میں گم ہوجانے والی بات ہے۔ ہاں جی! تو جو خاموش ہے، ہاں جی! سر جس نے جھکا لیا، عبدیت کا اظہار کرلیا، وہی ملنے کا سبب ہے۔
ذرا چشمِ تصور سے جمال اس کا تو دیکھو ناں
کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دم نکلا تو اب نکلا
مرے تارِ نفس کو نفس کے تاروں نے الجھایا
مرے دستِ طلب کو اس نے جب پکڑا تو تب نکلا
یہ انتہائی حقیقت پسندی کا شعر ہے اور وہ یہ ہے کہ میری روح (یعنی تار نفس کا مطلب روح ہے) کو نفس کی خواہشات نے گھیر لیا ہے۔ یہ وہی نقشبندی سلسلہ کا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی statement ہے کہ روح عاشق تھی، لیکن اس کو نفس نے جو ہے ناں مطلب وہ پکڑ لیا ہے۔ تو اب اس حالت میں انسان کوشش کرتا ہے اللہ کے بننے کا، ہاں جی! تو کوشش تو کرنی چاہئے، لیکن کامیابی تب ہوگی، جب ادھر سے امداد ہوگی۔ ہاں جی! بغیر اس کے امداد کے یہ بہت مشکل راستہ ہے، اس کو کوئی اپنی کوشش سے ختم نہیں کرسکتا، مطلب یہ والی بات ہے۔ ’’میرے دستِ طلب کو اس نے جب پکڑا تو تب نکلا‘‘ مطلب یہ جو ہے ناں مطلب کوشش تو لازمی ہے، کوشش تو لازمی ہے، اس کا حکم ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾3 کوشش تو لازم ہے، لیکن اس کو نتیجہ تب ملتا ہے، جب انسان تب اس سے آزاد ہوتا ہے، جب وہاں سے مدد ہوتی ہے، ہاں جی! جب ادھر سے ہاتھ پکڑا جاتا ہے، تو پھر جو ہے مطلب گویا کہ انسان اس سے نکل سکتا ہے، ورنہ یہ میں بتاؤ واقعتاً یہ جو
﴿كَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ﴾4 ہے، یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا، بڑے سے بڑا ولی بھی گمراہ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سے، ہاں جی! اور ہوئے ہیں، ہوئے ہیں، ’’بلعم بن باعوراء‘‘ ہوگیا تھا، ہاں جی! اس طرح اور بھی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جو یہ اس چیز سے نکلنا بہت ہی زیادہ مشکل ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم خود اس سے تو نہیں نکل سکتے، لیکن جس وقت اللہ پاک دیکھ لیتا ہے کہ کوشش پوری کررہا ہے، جتنا اس کے بس میں ہے، وہ کررہا ہے، تو پھر اپنی بھی مدد ساتھ کرلیتا ہے، تو نکال لیتا ہے۔ اس کی مثال، اس کی جو ہے ناں حضرت کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی ماشاء اللہ! بڑی زبردست تشریح فرمائی۔ ان سے پوچھا گیا کہ حضرت! آپ کا جو کام ہے، یہ چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہے یعنی تبلیغی جماعت کا کام اور برائی جو ہے ناں جہاز کی رفتار سے پھیل رہی ہے، تو چیونٹی جہاز کو کیسے پکڑے گی؟ سوال بڑا مشکل تھا ناں، مطلب یعنی آسان سوال تو نہیں، حضرت نے پھر جواب دیا اور بالکل فنائیت والا جواب ہے، فرمایا: ہم نے کب کہا ہے کہ ہم پکڑیں گے؟ چیونٹی نہیں پکڑے گی، پکڑوائے گا اللہ تعالیٰ ہی، جب اللہ پاک فیصلہ کرلیں گے، تو چیونٹی کو ادھر پہنچا دیں گے۔ ہاں جی! تو یہ بات بالکل یہی بات ہے یعنی یہ جو انسان اس نفس کے چکر سے نہیں نکل سکتا، بہت ہی ظالم ہے، بہت ہی tight گرفت ہے اس کی، ہمہ وقت ہے، ہاں جی! ہمہ وقت ہے، ہر وقت ہے، تو ایسی صورت میں اس سے نکلنا کوشش کی بنیاد پر ممکن نہیں، لیکن کوشش لازمی ہے۔ یہ ہماری ریاضی کے قانون کے مطابق تو بالکل ٹھیک ہے، ہماری ریاضی کے قانون میں یہ بات ہوتی ہے کہ necessary condition اور sufficient condition تو بعض چیزوں کے بارے میں ریاضی میں آتا ہے کہ یہ necessary تو ہے، لیکن sufficient نہیں ہے یعنی لازمی تو ہے، لیکن مکمل نہیں ہے، اس کے لئے کچھ اور بھی چاہئے ہوتا ہے، تو یہاں پر بھی یہ بات ہے کہ necessary تو ہے، کوشش کرنا، لیکن یہ sufficient نہیں ہے اس کے لئے۔ اب ذرا غور فرما لیں ماشاء اللہ! تصوف کے جو تین stages ہیں، جذب، پھر سلوک، پھر جذب، تو پہلا جذب تو سلوک کے لئے ہے کہ سلوک اس کے ذریعہ سے طے ہوجائے، لیکن جب سلوک طے ہوجائے، تو کامیابی پھر جذب سے ہوتی ہے، وہ جذب وہبی سے ہوتی ہے، ہاں جی! اس لئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہمارے ہاں وصال بذریعہ جذب ہوتا ہے یا تکمیلِ سلوک بذریعہ جذب ہوتا ہے، تو کیونکہ جذب وہبی جو ہے، جب تک حاصل نہ ہو، اس وقت تک جو ہے ناں مطلب وہ نہیں انسان ٹھہر سکتا ادھر، بار بار نفس کھینچے گا اس کو واپس، بار بار اس کو واپس نفس کھینچے گا۔ ہاں جی! تو اس کے لئے وہی آہ و زاری لازمی ہے، مطلب یہ ہے ناں یہ کوشش بھی لازمی ہے، لیکن اس کے ساتھ اللہ کے حضور آہ و زاری بھی لازمی ہے، آہ و زاری مسلسل کرتے رہیں، ہم مانگتے رہیں، روتے رہیں، گڑگڑاتے رہیں، تاکہ اللہ پاک کرم فرمائے اور ہمارے ہاتھ کو پکڑے۔
قبول درخواست آنے کی، کی پردہ نشین نے تب
شبیر بے آبرو نامحرم اس کا دل سے جب نکلا
یہ پہلے تو نفس کی بات تھی ناں، میرے تارِ نفس کو، نفس کی تاروں نے الجھایا، یہ تو نفس کے بارے میں بات تھی، یہ اب دل کے بارے میں بات ہے کہ دل میں جب تک دنیا کی محبت ہے، تو اللہ کی محبت نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ کی محبت۔۔۔۔ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی، ہاں جی! تو پہلے دنیا کی محبت دل سے نکالی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ کی محبت آئے گی، پھر جو ہے ناں مطلب اس پہ stability آئے گی، ورنہ جھلکیاں تو آئیں گی، لیکن ٹھہرے گا نہیں۔ اس وجہ سے وہ جو ہے ناں، وہ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہوتا ہے۔ ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘5 دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ تو اس کو نکالنا پڑتا ہے، جب تک یہ نہیں نکلتی، اس وقت تک یعنی وہ جو ہے ناں وہ نہیں ہوسکتا۔
در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا
مسئلہ وحدت الوجود اہل اللہ کا مایۂ عشق ہے۔ اس کو ہجر اس لئے فرمایا کہ سیر فی اللہ کی کوئی انتہا نہیں۔ سالک ترقی کے جس مقام پر پہنچتا ہے اور جس تجلی سے بہرہ ور ہوتا ہے، اس پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ طلبِ زیادت میں اپنے آپ کو مبتلائے فراق سمجھتا ہے۔
37
قَالَ اَطْعِمْنِیْ فَاِنِّیْ جَاۤئِعٌفَاعْتَجِلْ فَالْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ
کہا کہ مجھے کھلاؤ، کیونکہ میں بھوکا ہوں، پس جلدی کرو، کیونکہ وقت تو تلوار کی طرح کاٹتا ہے۔ ہاں جی! یعنی وقت بہت جلدی گزرتا ہے۔ یہ اصل میں
(روح) بولی مجھے (سرِّ وحدت الوجود کی) غذا دے دو، کیونکہ میں (استماعِ اسرار کی) بھوکی ہوں، تو اب جلدی کر، کیونکہ وقت کاٹنے والی (تیز) تلوار (کی طرح گزرا جارہا) ہے۔
مولانا بوجہ بے خودی بیانِ اسرار سے عذر کرتے تھے، مگر روح پھر تقاضا اور اصرار کرتی ہے کہ ضرور کچھ نہ کچھ سنانا ہوگا۔ کیونکہ وقت جو ہے ناں وہ بہت جلدی ختم ہونے والا ہے ’’اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ‘‘ اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ جو وقت آتا ہے، پہلے وقت کو منقطع اور معدوم کردیتا ہے، یا یہ کہ تمام موجودہ حالات کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ گزر جانا وقت کا ذاتی کام ہے، مگر عالم کے تمام واقعات و حوادث بھی اس کے ساتھ کٹتے چلے جاتے ہیں۔
ہاں جی! مطلب یہ جو ہے ناں ساری چیزوں سے گزر رہا ہوتا ہے، جیسے مثال کے طور پر ایک تلوار ہے اور مطلب یہ لکڑی ہے یا کوئی اور چیز ہے، اس کے ساتھ مسلسل گزر رہی ہو وہ تلوار، تو کاٹتا جاتا ہے ناں، اس کے سامنے کوئی چیز بھی آجائے، تو ٹھہر نہیں سکتی، سب کو کاٹتا جاتا ہے۔ ہاں جی!
38
صوفی ابن الوقت ہوتا ہے رفیق
کاہے ٹالنا کام کا ہے شرطِ طریق
یعنی یہ صوفی جو ہوتا ہے، وہ تو وقت کا یعنی غلام ہے، مطلب وہ وقت کا خیال رکھتا ہے، تو اس وجہ سے کام کا ٹالنا یہ مناسب نہیں ہے، یہ کوئی وہ نہیں ہے، اس وجہ سے آپ ٹالیں نہیں، آپ وہ جو میں کہتا ہوں۔۔۔
39
صوفی ابن الحال بطورِ مثال
دونوں پیر مبرا ہیں از ماہ و سال
یعنی مطلب جو ہے ناں اوپر جو صوفی کو ”ابن الوقت“ کہا تھا، اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید وقت کے لغوی معنی مراد ہوں، اس شبہ کا ازالہ فرماتے ہیں کہ صوفی کو ابن الوقت یا ابن الحال کہنا بطورِ مجاز ہے، ورنہ جس طرح صوفی ہنگام و زمانہ کا پابند نہیں، اسی طرح وقت کے معنٰی یہاں زمانہ کے نہیں ہیں، بلکہ اصطلاحی معنٰی یعنی وارداتِ قلب مراد ہیں، جن کو زمانہ سے تعلق نہیں ہے۔
مطلب یہ جو، مطلب جو حال ہے، وہ زمانہ کے اوپر منحصر نہیں ہے واردات قلب، بلکہ وہ تو اوپر سے آرہے ہیں اور صوفی جو ہے ناں مطلب وقت کے بارے میں وہ نہیں ہے۔
40
ٹال رہا ہے شاید تو صوفی نہیں
نقد رکھنا ادھار پہ نیکی نہیں
یعنی اوپر کہا تھا کہ صوفی ابن الوقت ہوتا ہے اور ابن الوقت دو معنٰی میں آتا ہے، ایک خاص معنٰی جو بمقابلہ ”ابو الوقت“ کے ہوتا ہے یعنی مغلوب الحال۔ دوسرا عام معنٰی جو دونوں کو شامل ہے یعنی مقتضائے وقت پر عمل کرنے والا۔
مطلب ہے کہ وقت کی جو demand ہے، اس کے مطابق کام کرنے والا یعنی وقت کا جو تقاضا ہے، وہ ہم کہتے ہیں ناں وقت کا تقاضا یہ ہے۔ ہاں! تو وقت کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق عمل کرنا۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ مغلوب الحال والے معاملہ میں تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مطلب واردات ہوتے ہیں، اس کے سامنے تو مغلوب ہے، ہاں جی! لیکن حکم چونکہ اسباب کو اختیار کرنے کا ہے اور وقت کے تقاضوں کو پہچاننے، مثال کے طور پر جب ظہر کی نماز فرض ہوجائے گی، تو ظہر کی نماز تو پڑھنی ہے، وہ تو فرض ہوگئی وقت کے لحاظ سے۔ عصر جب فرض ہوگئی، تو عصر۔ رمضان شریف آئے گا تو روزہ رکھے گا، مطلب جو وقت کا تقاضا ہے، اس کے حساب سے پھر وہ عمل کرتا ہے۔ معاملات آجائیں گے، تو اس کو صاف طریقے سے استعمال کرنے پڑیں گے، معاشرت کے جو حقوق ہیں، وہ ان کو اپنی اپنی جگہ پہ کریں گے یعنی یہ اس وجہ سے اس کو فرمایا یعنی جو ہے ناں، وہ ابن الوقت۔
اس شعر سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ وہاں ابن الوقت بمعنیٔ عام مراد تھا، ورنہ یہاں صوفی ہونے کی نفی نہ کی جاتی، کیونکہ جو کوئی ابن الوقت بمعنی خاص یعنی مغلوب الحال نہ ہو، تو ممکن ہے کہ ابو الوقت ہو، پھر تو وہ بطریقِ اولیٰ صوفی یعنی صاحبِ مقام ہوگا، جو مغلوب الحال سے افضل ہوتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی تقاضا ہے کہ آج کا کام کل پر نہ رکھو۔ یعنی اس میں جو ہے ناں، جو تقاضا ہے اس کے تقاضے کے مطابق کام کرو
41
بولا میں رازِ یار کا پوشیدہ خیر
سن حکایت یہ اگر تو چاہے سیر
یعنی کھلے کھلے الفاظ میں اظہارِ سِرّ مناسب نہیں ہے۔ ہاں! میں نے کہا یعنی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ کھلے انداز میں تو یہ بات کرنا یعنی وحدت الوجود کا کہنا یہ مناسب نہیں ہے، ہاں! تو اگر نہیں سمجھ رہا اور سمجھنا چاہتا ہے، تو پھر حکایت جو آنے والی حکایت ہے، اس کو سمجھ لو۔ ہاں جی! تو گویا کہ دوسری حکایت کی طرف جارہا ہے۔
42
سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان
غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں
یعنی جو دلبر، جو مطلب جس نے دل چرایا ہے، ہاں جی! وہ جو ہے ناں مطلب وہ اشارے میں بیان ہو اور ایسے اشارے میں بیان ہو کہ جو غیر ہے، وہ اس کو پا نہ سکے۔ یہ ہوتا تھا، مطلب باقاعدہ یہ جو ہے ناں، مطلب ہمارے صوفیاء کرام جو تھے وہ کبھی بیان وغیرہ جو کرتے تھے، وہ اس طرح کرتے تھے کہ جو اس کے اہل ہوتے، وہ سمجھ جاتے اور جو اہل نہیں ہوتے، ان کے لئے بس ویسے ہی۔ ہاں جی! یہ حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا خلیفہ ہے، وہ غالباً وہ جو ہے ناں صابر کلیر رحمۃ اللہ علیہ کا جو تھا خلیفہ تھا، وہ ان کی تشکیل ہوئی، یہ جو ہے ناں مطلب جہاں پر بوعلی شاہ قلندر پانی پت وہاں پر، تو وہاں پر تو گئے، تو شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک پورا جام پانی کا لبالب بھر کے مطلب اس کو بھیج دیا ان کے پاس، اب سب لوگوں کے سامنے حضرت بیٹھے ہیں، انہوں نے پھول توڑ کے اس کے اوپر اس طرح رکھا کہ پانی کو ذرا بھی حرکت نہیں ہوئی، کہتے یہ لے جاؤ، کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہورہا ہے، بعد میں پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ اس نے مجھے پیغام بھیجا کہ میرا جو علاقہ ہے، یہ تو میری ولایت سے بھرا ہوا ہے، تو کہاں سے آگیا یعنی تو کسی اور جگہ چلا جا، کام کرنا ہے تو کسی اور جگہ کرو، یہ تو میرا علاقہ ہے، یہاں تو تو کیا کرے گا؟ اپنا وقت ہی ضائع کرے گا۔ تو کہتے کہ میں نے ان سے یہ جواب دیا کہ جیسے یہ پھول پانی کو disturb نہیں کررہا، اس طرح آپ کی ولایت کو disturb نہیں کیا جائے گا، میں اپنا کام کروں گا، تو اپنا کام کرے گا۔ ہاں جی! تو اس طرح مطلب جو ہے ناں، وہ communication ان کی ہوتی تھی اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی اور کو اس کا پتا نہیں چلتا تھا۔ کتابوں تک میں اس قسم کے مطلب ہیں کہ جو حضرات بس اس کے اہل ہوتے تھے، ان کو ہی پتا ہوتا تھا، باقی لوگ جو ہیں ناں اس کے مطلب نہیں نکال سکے۔ code words جس کو ہم کہہ سکتے ہیں، ہاں جی! code words میں باتیں ہوتی تھیں۔ تو یہاں پر یہ ہے کہ
42
سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان
غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں
اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایت کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
اس شعر میں ’’مثنوی شریف‘‘ کے اس اندازِ خاص کی طرف اشارہ ہے، جو اس میں اول سے آخر تک چلا آیا ہے، یعنی اسرارِ سلوک کو مستقل اور واضح عنوانات کے نیچے رکھ کر اس پر خاص بحث و تمحیص نہیں کی، جیسا کہ دیگر کتبِ فن کا طریقہ ہے، بلکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ طوطی و زاغ اور شیر و خرگوش وغیرہ اشیاء کی کہانیوں کے ضمن میں بلا تخصیصِ مواقع، وہ اسرار و رموز بیان کرتے چلے گئے، جنہوں نے اس کتاب کو ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ اور ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا، اور ذوقی و حالی چاشنی میں ان سے بڑھا دیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ’’فتوحات مکیہ‘‘ یہ حضرت کی ہے، حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی، جو وحدت الوجود کے داعی تھے۔ اور ’’مکتوبات ربانی‘‘ وحدت الشہود اس میں ہے، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی۔ تو فرمایا کہ ان دونوں نے جیسے اپنا اپنا نظریہ پیش کیا ہے، تو ’’مثنوی‘‘ ماشاء اللہ! انہوں نے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے میں ان سے کوئی پیچھے نہیں ہے، بلکہ ذوقی اور حالی چاشنی میں فرمایا کہ آگے ہیں یعنی ذوقی اور حالی چاشنی میں یہ ہے کہ چونکہ شعر میں ہے ناں، تو شعر میں یعنی گویا کہ اگر حال کسی طریقہ سے transfer ہوسکتا ہے، کسی بھی domain میں، تو وہ شعر ہی ہوسکتا ہے، نثر میں یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ نثر میں علم منتقل ہوتا ہے، حال منتقل نہیں ہوسکتا، جبکہ شعر میں حال بھی منتقل ہوسکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ جس حال میں کہا گیا ہوگا، جو دوسرا صاحب حال ہوگا، اس کو وہی حال transfer ہوجائے گا۔ receiver ہونا چاہئے، receiver ہونا چاہئے، اگر کسی کے پاس receiver ہے، تو مطلب یہ ہے کہ وہ شعر مطلب جب سنے گا، تو اس کے اوپر بھی وہی حال طاری ہوجائے گا اور یہ چیز ہم نے دیکھی ہے۔ ہاں جی! میں آپ کو ابھی سناتا ہوں، وہ حال کس طرح transfer ہوتا ہے۔ ہم نے تو اَلْحَمْدُ للہ! دیکھا ہے۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
پری پیکر نگارے سرو قدے لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
رقیباں گوش بر آواز او در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
یہ صاحب ابھی فوت ہوگئے، ڈیرہ اسماعیل خان کے تھے، کبھی کبھی تشریف لاتے تھے۔ تو یہ واقعی اچھا پڑھتے تھے، مطلب فارسی کا جو کلام تھا۔ اور یہ کلام تھا حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کا، ہاں جی! مطلب یہ کلام تھا۔ تو ظاہر ہے یہ کلام اتنا تیز ہو اور حضرت کا reception، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، تو بہت مطلب جو ہے ناں یہ جو بھی شاعری ہوتی ہے، اس میں یہ بات ہے کہ اس میں حال منتقل ہوسکتا ہے۔ اہل حال کا حال وہ منتقل ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ والی بات ہے، اگر receiver اس کے پاس ہو۔ ہاں جی! جیسے قبور سے فیض منتقل ہوتا ہے، لیکن اہل نسبت کو، ہر ایک کو نہیں، کیونکہ ان کے پاس receiver ہوتا ہے اور جن کے پاس receiver نہیں ہوتا، تو وہ ٹھیک ہے، بس وہ ایصال ثواب کرکے آجائیں، اپنے لئے دعا کرے اللہ تعالیٰ سے اور پھر آجائیں، لیکن جو صاحب نسبت ہوتے ہیں، ان کو تو بہت کچھ ملتا ہے، ان کو تو اللہ تعالیٰ بہت نوازتے ہیں، مطلب جو اہل قبور ہوتے ہیں۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے زندگی میں جن کو جس مقصد کے لئے استعمال کیا ہوتا ہے، تو ان کے جو مطلب یعنی دنیا سے جانے کے بعد بھی بعض کو اللہ پاک اس کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ وہ جو ہے ناں مطلب یعنی وہ کرلیتے ہیں۔ جیسے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مطلب ظاہر ہے، وہ صاحب فیض تھے، تو اب اگر کوئی ادھر جائے اور receiver ہو اس کا، مطلب opertional ہو، تو ان کو وہاں سے فیض مل سکتا ہے۔ ہاں جی! اس طرح حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ادھر نہیں گئے تھے؟ پورا چلہ کاٹا تھا، تو بھئی! چلا کوئی کاٹنا کوئی بزرگوں کا ویسے ہی ہوتا ہے، مطلب آخر کوئی مل رہا تھا، تبھی تو چلہ کاٹا تھا ناں ادھر۔ ہاں جی! تو انہوں نے چلہ ادھر کاٹا تھا اور ان کا مشہور تاریخی شعر کہا ہے۔ کہ وہ کیا کہا تھا، یاد ہے آپ لوگوں کو؟ کہ اس میں انہوں نے کہا کہ (ذہن سے نکل گیا) ہاں!
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
یعنی خزانہ بخشنے والا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
ناقصوں کے لئے پیر کامل اور کاملوں کے لئے وہ راہ نما ہے۔ تو یہ ظاہر ہے، مطلب آخر ویسے تو نہیں کہا تھا ناں، کچھ ملا تو پھر ظاہر ہے کہا ہے ناں۔ یہ ہمارے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جو بیٹے تھے، مولانا عبدالحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ عالم تھے اور ہندوستان میں تھے، تو حضرت کے ساتھ ان کو وقت لگانے کا موقع بہت کم ملا تھا یعنی وہ تھے ہی باہر تھے، جب حضرت فوت ہوئے، پھر آئے تو پھر قبر سے استفادہ کیا سارا۔ باقی مطلب ادھر سارا کام، اس کے بعد قبر سے استفادہ کیا۔ تو اب ظاہر ہے، یہ تو ایک میدان ہے، یہ حضرت عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ مشہور سلسلہ ہے، مطلب جو ہے ناں وہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا، ان کے شیخ تھے شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ دو تھے ناں، ایک شیخ سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، ایک رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ، دونوں ان کا نام عبدالرحیم تھا، تو شیخ شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ جو تھے ناں، وہ انہوں نے بھی قبر سے استفادہ کیا ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں، مطلب جس کو کہتے ہیں نسبت منتقل ہوتی ہے، اگر receiver پاس ہو۔ receiver پاس ہونے کا مطلب پہلے سے صاحب نسبت ہو، پہلے سے صاحب نسبت ہو، تو پھر جو ہے ناں مطلب وہ بات پہنچ سکتی ہے، ورنہ، ورنہ پھر ظاہر ہے، مطلب مجھے حضرت حلیمی صاحب نے یہ بات سمجھائی تھی، مجھے فرمایا: تجھے اس لئے سمجھا رہا ہوں کہ تو سمجھ جائے گا، ہاں جی! تو فرمایا کہ یہ یہاں پر دیکھو! وائس آف امریکہ کے waves ہیں؟ میں نے کہا جی ہیں، کیا پاکستان ریڈیو کے waves ہیں؟ میں نے کہا جی بالکل ہیں، آل انڈیا کے؟ میں نے کہا بالکل ہیں، ریڈیو ایران، زائدان کے؟ میں نے کہا ہیں، کیوں نہیں سنتے ہو؟ میں نے کہا اس لئے کہ میرے پاس ریڈیو نہیں ہے، اچھا! اگر ریڈیو ہو، لیکن اس میں بجلی نہ ہو، میں نے کہا پھر بھی نہیں سن سکتا، بجلی یا بیٹری، اگر بیٹری بھی ہو، لیکن اس کا circuit صحیح نہیں ہو، تو میں نے کہا کہ پھر بھی نہیں سکتا ہوں، انہوں نے کہا اچھا circuit بھی ٹھیک ہو، لیکن اس کی سوئی اپنی جگہ پہ نہ ہو، میں نے کہا پھر بھی نہیں سن سکتا، کہا بس یہ سارے steps ہیں کہ پہلے ریڈیو receiver ہونا چاہئے پاس یعنی دل بناؤ، نسبت حاصل ہو، دوسری بات کہ اس میں محبت کی بجلی ہو یعنی کسی کے ساتھ مناسبت ہو یا محبت ہو اور تیسری بات اس کے ساتھ مناسبت ہو کہ سوئی اپنی جگہ پہ ہو اور شریعت پر چلنے والا ہو، یہ circuit ہے۔ ہاں جی! تو اگر یہ ساری چیزیں پوری ہوں، تو ادھر سے transfer آنا شروع ہوجائے گا، چاہے نقشبندی سلسلہ ہے، چاہے چشتیہ ہے، چاہے سہروردیہ ہے، یہ سب فیوض ادھر ہی موجود ہیں، کہیں دور نہیں جانا پڑے گا، یہ ادھر ہی موجود ہیں، بس صرف یہ بات ہے کہ آپ کے ساتھ یہ چیز ہونی چاہئے، اگر آپ کے پاس ہے تو آپ کو یہ مل سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، بات بالکل صحیح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نسبت کو مطلب وہ کرلے، نسبت حاصل کرلے، اس کے بعد پھر اس کے اوپر اللہ پاک ایسی چیزیں کھولے گا، جو وہ کبھی بھی explain نہیں کرسکتا، لیکن وہ دیکھ لے گا، دیکھے گا، ہاں جی! اور سمجھے گا جتنا اللہ پاک اس کو سمجھانا چاہیں گے۔ ظاہر ہے وہ کام تو وہی لیتا ہے ناں، جتنا اللہ تعالیٰ اس کو سمجھانا چاہے گا، اتنا سمجھا دے گا اور جتنا اس کو دکھانا چاہے گا، وہ دیکھ لے گا اور جتنا اس سے کام لینا چاہے گا، وہ لے لے گا۔ ہاں جی! مطلب یہ والی بات ہے اور یہ ساری باتیں جو ہیں ناں ممکن ہیں، لیکن چونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں، جو کہ علمی نہیں ہیں، یہ حسی ہیں، جو جس کو اللہ تعالیٰ نے وہ احساس دیا ہو، تو وہ وہی محسوس کرسکتا ہے، باقی تو نہیں ہے۔ مطلب جس کے ساتھ کان نہ ہوں تو وہ کیا سنے گا؟ تو ایک کان تو یہ ہے باہر کا، ایک کان اندر کا کان ہے ناں، ہاں جی! جو دل کا کان ہوتا ہے، تو اگر وہ نہیں کسی کے پاس تو کیا سنے گا؟ وہ نہیں سن سکتا۔ تو اسی طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے اندر والی آنکھ نہیں ہے، تو باہر والی آنکھ سے تو باہر والی چیزیں دیکھے گا، وہ اندر کی چیزیں تو اندر کی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ حضرت مولانا تھانوی صاحب نے واقعہ بیان فرمایا، یہ ساری باتیں حضرت کی بیان شدہ ہیں، مطلب ہم تو کچھ بھی نہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ (دیوبند کے سرپرستوں میں تھے) وہ تشریف لے جارہے تھے، وہ بہت صاحب نسبت تھے اور صاحب کشف تھے، تو کہتے ہیں کہ ایک مزار پہ مراقب ہوئے، تو ان کے ساتھ دو طالب علم تھے، خادم ہوں گے، تو انہوں نے بھی آنکھیں بند کرلیں، کہتے میں نے پیچھے سے دو ماریں کہ وہ آگے کی آنکھ تو تمھاری بند ہے، یہ آنکھیں کیوں بند کرلیں؟ ویسے بزرگ بنتے جارہے ہو، مطلب ظاہر ہے تمھیں کیا نظر آئے گا؟ آنکھیں بند کرو، تو یہ چیزیں بھی نظر نہیں آئیں گی، وہاں وہ تو آپ کو نظر ہی نہیں آئے گا۔ تو بات تو صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ یعنی یہ ہمارے۔۔۔۔ ایک دفعہ میں حلیمی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، میری پھوپھی تھی ساتھ، چائے ہم پی رہے تھے، بڑی سادگی طریقہ سے کچن میں مطلب وہ پیڑیاں رکھی ہوئی تھیں، حضرت بھی بیٹھے ہوئے، میں بھی ادھر، پھوپھی بھی، تو پھوپھی نے کہا کہ میں نے وہ شب برات والی رات کا بتایا، کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ خانہ کعبہ ہے اور جو ہے ناں مطلب ہے کہ مسجد نبوی ہے اور یہ آسمانوں میں اس طرح پھر رہے ہیں، حلیمی صاحب چائے پی رہے تھے، کہتے ہاں! ٹھیک ہے، کچھ لوگ اس رات ادھر چلے جاتے ہیں، کچھ لوگ اس رات ادھر چلے جاتے ہیں یعنی ایسے انداز میں کہہ دیا، بعد میں پتا چلا کہ وہ اپنا ہی کہہ رہے تھے۔ اب ظاہر ہے، مطلب یعنی ان کا ہمیں بہت لیٹ پتا چلا، وفات ہونے کے بعد پتا چلا کہ وہ ابدال تھے۔ تو اب ظاہر ہے مطلب ابدالوں کو تو جمع کیا جاتا ہے، چالیس حضرات جو ہوتے ہیں، وہ تو وہاں جمع ہوتے ہیں، لیکن یہ بات انہوں نے ویسے ہی جیسے عام انداز میں کہہ دی، کوئی خاص انداز میں نہیں کی کہ ہمیں یقین آجاتا یا کوئی بات ہم ان سے پوچھتے مزید، نہیں بس وہ اس طرح عام کہہ دیا، ہاں! کچھ لوگ جو ہیں ناں اس رات میں ادھر پہنچ جاتے ہیں، بس ٹھیک ہے۔ تو یہ مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے، یہ میرا ذیشان نہیں ہے، ذیشان کے والد صاحب، یہ میرے کزن ہیں ذیشان کے والد صاحب، تو رشتہ داروں میں ان بن تو ہوتی ہے ناں، تو ظاہر ہے ان کے ساتھ کچھ اختلاف ہوگا، تو باتیں کررہے، میں نے کہا نہیں ان کے خلاف باتیں نہ کرو، وہ بزرگ ہیں، تو وہ نہیں مان رہا تھا، تو خیر کچھ دنوں کے بعد مجھے کہا کہ میں نے خواب دیکھا، خواب میں دیکھتا ہوں کہ مجھے پولیس والوں نے پکڑ لیا، تو لے جارہے تھے، تو لے جارہے تھے تو (گل دادا ان کو ہم کہتے تھے) گل دادا کے گھر کے سامنے لے جارہے تھے، کہتے ہیں کہ گل دادا نے دروازہ اس طرح تھوڑا سا کھول کے سر باہر نکالا، ان سے کہا اس کو چھوڑ دو، کہتے انہوں نے چھوڑ دیا، میں نے کہا کمال ہے، آپ لوگوں نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟ کہتے وہ ایس پی ہے ناں، وہ ایس پی ہے ناں، تو تبھی اس نے کہہ دیا، تو ہم نے چھوڑ دیا۔ تو وہ پھر مانا، میں نے کہا دیکھو ناں پتا چل گیا ناں، پھر اس نے مان لیا۔ اب ایس پی کا مطلب کیا ہے؟ تکوینی امور کا مطلب وہ جو administration والے ہوتے ہیں ناں، پکڑ دھکڑ والے، جو کہ مطلب جو ہے ناں ان کی ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، تو وہ کرتے ہیں۔ تو ظاہر ہے وہ ان کا اپنا ایک عہدہ تھا، خود مجھے بتایا کہ یہ بنوری ٹاؤن میں ان کے تھے ناں وہ یہاں جو Dean تھے مولانا عبداللہ کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ، وہ وہاں پر تھے بنوری ٹاؤن میں شیخ الادب تھے اس وقت، تو حج پہ جارہے تھے، ان دنوں حج جو ہے ناں، وہ ships کے ذریعہ سے ہوتا تھا، تو یہ کراچی جانا تھا، تو وہاں چونکہ جارہے تھے، تو مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے ان کے ساتھ، تو کہتے کہ میں نے اس کو ایک دفعہ ویسے بنوری ٹاؤن کے باہر ہم walk کررہے تھے، تو وہ تو بازار ہی ہے مطلب سارا باہر، کہتے کہ ایک ملنگ آرہا تھا، تو میں نے اس سے کہا کہ یہ عہدہ دار ہے، اس کی ڈیوٹی ہے، تو اس نے کہا وہ عالم تھے، وہ نہیں مان رہا تھا، تو کہتے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوا، تو اَٹھنّی میرے پاس تھی، میں نے اس طرح اچھالی اس کی طرف، تو اس نے پکڑ لی اور اَٹھنّی پکڑ کے کہتے یہ کیا کررہے ہو؟ جاؤ حج کے لئے جارہے ہو، خیریت سے جاؤ، خیریت سے آؤ، میں نے کہا بتاؤ! اس کو کس نے بتایا ہے؟ ہاں جی! مطلب اس نے بس فوراً کہہ دیا جاؤ، یہ کیا، مطلب جاؤ، حج کے لئے جارہے ہو ناں، خیریت سے جاؤ، خیریت سے آؤ۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو دنیا ہے، یہ اور ہے، اس میں ہم جاتے نہیں، اس کی وجہ ہمارا کوئی کیا کام ہے اس کے ساتھ۔ بزرگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک تکوینی بزرگ ہوتے ہیں، ایک تشریعی بزرگ ہوتے ہیں۔ جو تشریعی بزرگ ہوتے ہیں، ان کو مرشدین کہتے ہیں، ہمارا کام مرشدین کے ساتھ ہے، ہم نے مرشد کی ماننی ہے، ہم نے تکوینی بزرگوں کے پیچھے۔۔۔۔ یہ اتنا مجھے علم ہوا بغیر کسی پوچھنے کے ہوا ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ میں نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، کبھی بھی میں نے اس کی کوشش نہیں کی، میں ان باتوں کی کھوج لگاؤں یعنی معلومات کرلوں کہ یہ کیا ہے؟ بلکہ کسی اور نے بات شروع کی تو میں درمیان میں اس طرح چھوڑ دیتا تھا، حلیمی صاحب کے ساتھ بھی بہت ساری بات میں اس طرح چھوڑ دیتا، وہ کہتے، ہماری ان کے ساتھ لڑائیاں اس قسم کی ہوتی تھیں، تو پروا ہی نہیں کرتا، میں جو ہے ناں وہ کرتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے ہمارا کام ان کے ساتھ ہے ہی نہیں، وہ تو ڈیوٹی پر مامور ہیں ناں، تو جو ڈیوٹی کرے گا، تو آپ سے پوچھ کے کریں گا یا آپ کے لئے کرے گا یا آپ اس پہ اثر انداز ہوسکتے ہیں یا آپ اس سے کچھ لے سکتے ہیں؟ نہیں کچھ بھی نہیں لے سکتے، ہاں جی! جس کو تو جو حکم ہے، اس حکم پہ عمل کرے گا، وہ آپ کو نہیں دیکھے گا کہ آپ کی خواہش کیا ہے، وہ اس کو دیکھے گا کہ اللہ کا حکم کیا ہے، وہ اس حساب سے کرے گا، تو خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں! ان کی بے ادبی بھی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ بے ادبی۔۔۔۔ کیونکہ ولی جس قسم کا بھی ہو، تو اس کو ایذا اگر دو گے، تو نقصان تو ہوگا، لہٰذا ولی اللہ تو ہوتا ہے، لہٰذا اس وجہ سے ان کے پاس ہونے میں خطرہ ہی ہوتا ہے، کیونکہ آپ اس سے فائدہ تو حاصل نہیں کرسکتے، نقصان ہوسکتا ہے، تو جس چیز میں نقصان ہوسکتا ہو، فائدہ نہ ہوسکتا ہو، مجھے بتاؤ پھر کیا کرنا چاہئے ایسی حالت میں؟ ایسی حالت میں علیحدہ رہنا چاہئے، ان کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے۔ ہاں! اگر ان کو حکم ہوگیا، وہ خود تمھارے سامنے لائے جائیں گے، وہ پھر۔۔۔ خود مجھے حلیمی صاحب نے بتایا، یہ ان کے ابتدائی دور کی بات ہے جب وہ۔۔۔۔ یہ ساری باتیں مجھے بتائی، لیکن مجھے اس کا conclusion بعد میں پتا چلا ہے، کیونکہ جب ساری چیزیں conclude ہونے لگی ناں، تو پھر مجھے پتا چلا اچھا! فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، وہ پھر وہ کڑیاں ملتی گئیں۔ تو ایک دفعہ فرمایا کہ وہ ایک صاحب تھے، وہ میرے پاس آئے دفتر میں، افسر تھے، تو فرمایا کہ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کے اوپر ظاہر کروں اپنے آپ کو، میں نے کہا چلو ظاہر ہوگئے ہو، اس وقت تو اس لائن میں تھے نہیں، ہاں جی! تو کہتے میرے ساتھ میں نے اس کے لئے چائے منگوائی تو چائے اس نے پی لی، پھر کہتے ہیں کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس طرح کرلیا، میں نے کہا کیا کردیا، کہتے دو بسیں موڑ میں بالکل آمنے سامنے آرہی تھیں، تو میں نے ذرا ان کو علیحدہ کردیا، ورنہ بہت سخت accident تھا، میں نے ہنس کے میں نے کہا کہ تو، تیرا منہ دیکھو اپنا، علیحدہ کردیا، کیا بات ہے، ہاں جی! کہتے ہیں اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، لیکن کچھ کہا نہیں، پھر چلے گئے، ابھی تھوڑی دیر گزری تھی، کہتے میرا ایک دوست آگیا، اس کا رنگ فق تھا، میں نے کہا کیا ہوا؟ کہتے بس موت سے بچ گئے، میں نے کہا کیا کہتے ہو؟ کہتے بسوں میں ایک بس میں میں بیٹھا ہوا تھا، دوسری بس سامنے آئی، بس accident ہونے والا تھا، بس ایک inch کے فاصلے سے بچے ہیں، میں نے کہا اف ہو، یہ تو وہ صحیح کہہ رہا تھا، یہ تو وہ صحیح کہہ رہا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ تو نہیں تھا۔ کہتے ہیں اس پر مجھے بڑی زبردست punishment ہوئی، اچھا! میں نے جس کو بھیجا ہے، اس کے ساتھ یہ کرتا ہے۔ ہاں جی! کہتے ہیں خوب اس پہ punishment ہوئی، لیکن مطلب یہ ہے کہ یہ اب دیکھیں ناں اللہ پاک نے اس کو اس کے لئے چن لیا تھا، حالانکہ وہ اس چیز کو مان بھی نہیں رہا تھا، خود کہہ رہا تھا کہ میں نہیں مان رہا تھا، مان بھی نہیں رہا تھا، لیکن اللہ پاک نے جب چن لیا، تو چن لیا، اس کے بعد پھر وہ سارے راستے ملتے گئے اور پھر اللہ پاک نے اس کو اپنے نظام میں بنا لیا اس کو۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں، آپ نے کیا سوچنا ہے اس پر، میں مثال کے طور پہ اگر کہوں کہ مرشد ہوجاؤں، تب بھی غلطی ہے، میں اگر کہوں کہ میں تکوینی بزرگ بن جاؤں، تب بھی غلطی ہے، مجھے صرف ایک ہی راستہ دیا گیا ہے اور وہ کیا ہے؟ میں اللہ کا بندہ بن جاؤں، ہاں جی! بس یہی ہے۔ اب بندگی سے اونچا مقام ہے ہی نہیں، بندگی سے اونچا مقام ہے ہی نہیں۔ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ رسولوں سے پہلے بندگی ہے، عبدیت والی بات ہے۔ عبدہ پہلے آتا ہے، رسولہ بعد میں آتا ہے، تو بندگی سے اونچا مقام نہیں ہے۔ آپ نے اگر آپ ﷺ کی اتباع کرنی ہے، تو عبدیت میں کرو، رسالت سے آپ کو عبدیت ملی ہے، تو وہ عبدیت ان سے لے لو، مطلب ان سے جیسے مطلب آپ ﷺ نے عمل کیا، اس طرح تم بھی کرو، اللہ کی بندگی اگر سیکھنی ہو تو آپ ﷺ سے سیکھو، ہاں جی! بس یہی ہمارا کام ہے، اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور کام ہی نہیں ہے، تو ہم نے صرف اللہ کا بندہ بننا ہے، جو بندہ ہوتا ہے ناں، وہ پھر حکم کے مطابق چلتا ہے، مطلب پھر وہ کیا ہے، اگر حکم ہوجائے کہ تخت پر بیٹھ جاؤ، تو تخت پر بیٹھنا پڑے گا، بے شک دل نہ چاہے اور اگر حکم ہوجائے کہ تختہ پہ چڑھ جاؤ، تو پھر تختہ پہ چڑھنا پڑے گا، پھر اس میں بھی وہ نہیں کرے گا۔ ہاں جی! ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ تختہ پہ چڑھا ناں، حکم تھا، ہاں جی! اپنے تختہ دار کو خود چوما تھا، تو کیا بات تھی وہ، تو ظاہر ہے، مطلب ہے کہ وہ اس کا اس وقت یہی حکم تھا شریعت کا، تو تختہ پہ چڑھ گیا اور بعض بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے تخت پہ بٹھا دیا، جیسے اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اور اس طرح اور حضرات وہ اللہ پاک نے ان کو تخت پہ بٹھا دیا، سلیمان علیہ السلام، ہاں جی! تو یہ بات ہے کہ مطلب بندگی میں پھر یہ بات نہیں ہوتی کہ انسان اپنی رائے رکھتا ہو، حکم اللہ کا چلتا ہے اور یہ لبیک کہتا ہے، بس جیسے اللہ کا حکم ہے، اس طرح کرتا ہے، یہی ساری کامیابی ہے۔ اب یہ دیکھیں ناں! میں آپ سے عرض کروں کہ یہ ساری باتوں سے میں انکار نہیں کررہا، جو میں آپ کو بتا رہا ہوں، کرتا تھا پہلے انکار یعنی یہ بھی بات صحیح ہے کہ میں پہلے کرتا تھا انکار، لیکن اب انکار نہیں کرتا، کیونکہ اللہ پاک نے میرے سامنے اس کو کھول دیا ہے، لیکن ان میں سے کسی چیز کا بھی میں طالب نہیں ہوں، مطلب طالب میں کس چیز کا ہوں؟ بندگی کا۔ اب کیسے؟ وہ سن لیجئے گا۔ یہ ساری باتیں مطلب جو ہیں ناں اصل ہیں، یہ ہمارے سلسلہ کا خصوصی فیض ہے، جو میں ابھی بتانے والا ہوں۔
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں
اسی کا میں بندہ اسی سے میں مانگوں
اسی سے مدد ہر جگہ چاہتا ہوں
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں
اسی نے عطا کی ہے ایماں کی دولت
اسی سے ہی اس کی بقاء چاہتا ہوں
ہدایت کا طالب میں اسکے حضور ہوں
جو سیدھی ہو بالکل وہ راہ چاہتا ہوں
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں
اگرچہ میں عصیاں کی گرد سے اٹا ہوں
میں اس سے کرم کی نگاہ چاہتا ہوں
نہ کھینچیں مجھے دوسری بھول بھلیاں
طریقِ محمد ﷺ صفا چاہتا ہوں
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں
نہ جبہ نہ قبا نہ دستار بندی
جو مقبول ہو وہ ادا چاہتا ہوں
ایک دفعہ حلیمی صاحب کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے پگڑی باندھی ہوئی تھی، اپنے سر سے ٹوپی اتاری، کہتے یہ تم لے لو اور پگڑی مجھے دے دو۔ پگڑی میرے پہننے کا کام ہے، تمھارا ابھی نہیں ہے، تو اپنی پگڑی سے اپنے آپ کو بزرگ ظاہر کرے گا، ابھی تم بزرگ نہیں ہوئے ہو، پگڑی میں باندھوں گا، تم نہیں باندھ سکتے، اب میری ٹوپی پہن لو۔ وہ ٹوپی میرے ساتھ ابھی تک ہے، وہ حضرت کی ٹوپی ہے، ماشاء اللہ! تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ بات ہے، بلکہ انہوں نے مجھے پورا اس کا فلسفہ سمجھا دیا۔ کہتے دیکھو ناں! تم انجینئر ہو، انجینئر کو بدنام کرسکتے ہو، مولویوں کو کیوں بدنام کرتے ہو، تم غلطی کرو گے، مولوی بدنام ہوں گے۔ بھئی! انجینئروں کو بدنام کرو، تمھاری field ہے، مولویوں کو بدنام نہ کرو۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ واقعتاً آدمی جو ہے ناں، وہ لباس ایسے حضرات کا پہن لیتے ہیں، جس سے لوگ گمان ان کا کرتے ہیں کہ وہ شاید وہ ہیں، حالانکہ وہ تو نہیں ہوتے۔ تو پھر کیا ہوتا ہے؟ مسائل تو پھر ہوتے ہیں ناں یعنی یہ چیز آہستہ آہستہ اس حد تک گئی ہے کہ دین پر عمل صرف لباس تک رہ گیا ہے۔ ہاں جی! باقی اندر کی چیزیں کوئی بھی نہیں ہیں، باقی سارا کچھ مطلب جو ہے ناں الگ ہے، وہ نفس کی پیروی ہے، لیکن لباس ایسا پہنا ہوا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی اس طرح ہیں۔ یہ صرف مستحبات کی بات کررہا ہوں، فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ کی بات میں نہیں کررہا ہوں، کیونکہ اس میں ہمارا اختیار نہیں ہے۔ مستحبات میں اختیار ہوتا ہے، مستحبات میں اختیار ہوتا ہے، لہٰذا کیونکہ اس میں ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ فرائض، واجبات، سنن مؤکدہ میں ہمارا اختیار نہیں ہے، وہ تو جیسے ہے، وہ تو کرنے پڑیں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
میرے خیال میں آج کے لئے کافی ہے۔
(یوسف: 94)
(الرحمٰن: 60)
’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی‘‘۔(العنکبوت: 69)
نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرت ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو‘‘۔
(القیامہ: 20 21)
(مشکوۃ، حدیث نمبر: 5213)