حکایتِ بادشاہ و کنیزک اور اخفائے راز

درس نمبر 12 دفتر اول حکایت نمبر 7

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

پہلے مرحلے میں چھوں دفتر مکمل ہوئے اور اب فارسی-اردو فاصلہ مٹانے کو منظوم اردو ترجمہ کے ساتھ تشریح جاری ہے۔ مولانا رومؒ کی اصل تربیت شمس تبریزیؒ کے زیرِ اثر “حال” کے طریق پر ہوئی، اسی لئے مثنوی کا مقصود “قال کو حال میں منتقل” کر کے دل کی اصلاح کرنا ہے اور حکایات صرف معنی تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔ جاری حکایتِ “بادشاہ و کنیزک” سے اخفائے راز کا اصول ملتا ہے—“استعینوا عَلَى إِنجاحِ الحوائج بالكتمان”—کہ باطنی احوال عام پر ظاہر نہ کیے جائیں، ضرورت ہو تو فقط مرشد سے ہوں، ورنہ ریا اور “بزرگی کی بیماری” ترقی روکتی ہے (بالخصوص خواتین کی نعمتِ یکسوئی ضائع ہو جاتی ہے)۔ آخر میں معیار یہ بتایا گیا کہ شیخِ کامل اللہ کی رضا کے لیے مرید کے نفع کا راستہ دکھاتا ہے جب کہ کاروباری مدعی جھوٹے وعدے اور دنیاوی لالچ سے بہکاتا ہے؛ اس لیے “دع ما یریبک إلى ما لا یریبک” ہی سلامتی کا راستہ ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب "مثنوی مولانا روم" کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اس کا second phase چل رہا ہے۔ جو پہلا phase تھا، وہ فارسی میں جو حضرت کے اشعار تھے، فارسی میں جو اشعار تھے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے، ان کا ترجمہ بیان کرکے، پھر اس کے بعد اس کی تشریح ہوتی تھی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ، تقریباً پندرہ سال تک ما شاء اللہ چلتا رہا، ہر ہفتے پندرہ سال تک چلتا رہا۔ تو اس کے بعد پھر اَلْحَمْدُ للہ، اللہ پاک نے پورا فرما دیا، چھ کے چھ جو دفتر ہیں، پورے ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے دل میں ڈال دیا کہ کیوں ناں اس کا ترجمہ منظوم کیا جائے، اور پھر اسی کی تشریح ہوتی رہے، تاکہ وہ ایک درمیان میں فارسی اور اردو کا جو gap ہے، وہ ختم ہوجائے۔ تو اَلْحَمْدُ للہ، یہ سلسلہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے، مطلب یہ ہے کہ جتنا جتنا وقت آتا ہے، تو مطلب اس کے حساب سے ترجمہ ہوتا رہتا ہے، اور پھر جو ہے ناں ما شاء اللہ، یعنی یہ ساتھ چل رہا ہے۔

اَلْحَمْدُ للہ، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے جتنے بھی یعنی اس کے دروس ہیں، وہ اللہ کے کرم سے محفوظ ہیں، شکر ہے اللہ کا، محفوظ ہیں۔ لہٰذا وہ ہمارے ویب سائٹ کے اوپر موجود ہیں، اور اس میں جو ہے ناں مطلب یعنی کم از کم جو قریبی ہیں، وہ تو ہیں ہی، اور جو اس سے ذرا آگے ہیں، تو مطلب وہ download ہوسکتے ہیں۔ بہرحال یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ، اللہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ چل رہا ہے، اور اس میں ایک خاص بات ہے، مثنوی شریف کا کیوں اس کا درس دیتے ہیں؟ مطلب اس کی آخر کوئی وجہ تو ہوگی ناں۔ اصل میں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مفتی تھے اپنے وقت کے، اور بہت بڑے اہل علم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک نام تھا اپنے علاقے میں۔ تو بعض حضرات کی تشکیل ہوجاتی ہے من جانب اللہ، ان کی تشکیل ہوگئی، تو اس وقت جو شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ تھے، وہ اس وقت ولایت کے بہت اونچے درجہ پہ تھے۔ تو بس ان کی طرف اشارہ ہوا کہ اس شخص پہ کام کیا جائے، اور حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، ان کو اس دور میں پرندہ کہا جاتا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ ایک جگہ پہ نہیں ہوتا تھا، اگر آج ادھر نظر آیا تو کل لاہور میں نظر آرہا ہے، تو اگلے دن پشاور میں نظر آئے گا، اگلے دن جو ہے ناں کسی اور جگہ نظر آئے گا۔ تو اس وجہ سے ان کی کوئی خاص جگہ قیام کی نہیں تھی، اور سیاح تھے، اور چلتے رہتے تھے۔ تو ان کی جب تشکیل ہوگئی، تو پھر ظاہر ہے وہ آگئے۔ اب یہ تربیت جو حضرت کی ہوئی، بالکل مختلف رنگ میں ہوئی ہے۔ یعنی عام طریقۂ تربیت یہ نہیں ہے، جو بزرگوں کے ہاں ہوتی ہے ناں خانقاہوں میں، وہ عام طریقۂ تربیت یہ نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے، مطلب اس کے لئے ایک خاص جذب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حد تک انسان اس جذب سے یعنی مطلب جو ہے ناں وہ ہوجائے، اپنے حالات سے مستغنی ہوجائے، کہ وہ نفس کی جو مشقتیں ہیں، وہ آسانی کے ساتھ برداشت کرسکے، اور اپنی تربیت کروا سکے۔ تو حضرت کا جو یہ طریقہ تھا، وہ بالکل غیر اختیاری انداز میں ہوتا رہا۔ کیسے؟ وہ پہلا جو ان کا مرحلہ تھا، وہ تو یعنی مطلب یہ تھا کہ حضرت مطالعہ میں مصروف تھے، ظاہر ہے لکھ رہے تھے، اور ظاہر ہے بہت بڑے اہل علم میں سے تھے۔ تو حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ادھر تشریف لے گئے، اور ان کو ذرا مطلب جو ہے ناں وہ یعنی گھور کے دیکھا کہ مولوی کیا کررہے ہو؟ تو انہوں نے وہی جواب دیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو تو نہیں جانتا، یہ قال ہے، اس کو تو نہیں جانتا۔ مطلب واقعتاً یہ علمی باتیں اور پھر شمس تبریزی کا جو حلیہ مبارک تھا، وہ تو اس طرح عالمانہ تو نہیں تھا، تو لہٰذا انہوں نے اس طرح ہی بات کی، تو انہوں نے، حضرت نے ان کی کتابوں کو گھور کے دیکھا، تو ان میں آگ لگ گئی! اب حضرت بھاگ کے پیچھے ہٹ گئے، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ، تو مطلب انہوں نے ساری کتابیں اٹھا کے وہ ساری، پانی تھا، ندی تھی، یا جو بھی تھا، اس میں پھینک دیں۔ حضرت رونے لگے، یہ کیا کردیا تو نے؟ میری ساری عمر کی جو ہے ناں محنت تباہ کردی۔ انہوں نے کہا اچھا! تیرا علم صرف اتنا ہی ہے؟ چلو کچھ ٹھیک کرلیتے ہیں۔ نیچے اترے، اور وہ ندی نالے سے اتار کے، اور اٹھا اٹھا کے گرد جھاڑ جھاڑ کردے رہے ہیں۔ اب پانی سے اٹھا کے گرد تو نہیں ہوتی ناں اس میں۔ تو یہ بڑی عجیب بات ہوئی، تو انہوں نے کہا یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا یہ حال ہے، جیسے تو نہیں جانتا۔ قال کا جواب حال سے دے دیا، یہ جو ابتدا والی بات ہوئی تھی، یہ حضرت کی بالکل تربیت میں سب میں یہ چیز شامل رہی بعد میں بھی، اور یہی چیز مثنوی میں ہے، یعنی قال سے حال کو منتقل کیا جاتا ہے، یہ والی بات ہے۔ تو یہ ابتدائی طور پر تو بات یہ ہوگئی۔ اب دوبارہ dose۔ حضرت کہیں تشریف لے جارہے ہیں، لوگ رخصت کررہے ہیں، ظاہر ہے ایک مقام تھا حضرت کا۔ اتنے میں شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ آئے، کہیں سے نکل آئے، اور گھوڑے کی باگ تھام کے کہا، مولوی جانے سے پہلے ایک جواب دو۔ کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا ایک شخص کہتا ہے: ’’سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ‘‘۔ یہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اور دوسرا صاحب کہتا ہے کہ میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا، کون بڑے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ دوسرا بڑا ہے، کیوں؟ انہوں نے کہا کہ ان کا جو برتن ہے، وہ کافی بڑا ہے، لہٰذا چھلکا نہیں، اور دوسرے کا چھوٹا ہے، لہٰذا تھوڑے سے چھلک گیا، بس اتنا جواب سننا تھا کہ حضرت لوگوں میں گم ہوگئے۔ مولانا روم صاحب تڑپ گئے کہ بھئی یہ کون آدمی ہے، اس نے تو بہت بڑا message دیا، message کیا دیا؟ تم اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہو، تو اس کا مطلب ہے تیرا ظرف تھوڑا ہے، جن کا ظرف بڑا ہوتا ہے، تو وہ تو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، یہ message مطلب دے دیا۔ اب اس پر جو ہے ناں وہ حضرت بڑے مطلب ہوگئے کہ اب ان کو ڈھونڈنا چاہئے، یہ تو کوئی شخص ہے جو مطلب صاحبِ حال ہے۔ اب ڈھونڈتے، تو ظاہر ہے حلیہ تو یاد تھا، لیکن جگہ ان کی تھی نہیں، خیر شاگردوں کو دوسرے لوگوں کو وہ نشانیاں بتا بتا کے، لوگ بتاتے بھئی فلاں جگہ ہیں، اُدھر پھر نہیں ہوتے تھے۔ ایک جگہ پر مل گئے، جاتے ہی حضرت کے قدموں میں گر پڑے، انہوں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: حضرت مجھے اپنا فرزند بنا لیں، یعنی مجھے اپنی تربیت میں لے لیں۔ فرمایا: جا مولوی تو ہے مفتی ہے، اور میں ہوں رند، کہاں دونوں کا ہوسکتا ہے؟ جا اپنا کام کر اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہو؟ کہا نہیں! حضرت مجھے بے شک مجھے آپ آزما لیں، میں آپ کے ساتھ رہوں گا، یہ ہے وہ ہے، انہوں نے کہا اچھا آزما لوں؟ کہتے ہیں ہاں، جاؤ میرے لئے شراب لے آؤ! اب عجیب بات ہے، مفتی ہے اور شراب لے آئے، کیسے لے آئے، کیا کرے؟ خیر وعدہ چونکہ کیا تھا، اور تجسس بھی تھا کہ آخر ان کی باتیں ایسی تو نہیں ہوتیں، آخر کوئی پیچھے کوئی بات ہوتی ہے، تو کہا چلو میں لے آؤں گا، پھر دیکھیں گے کہ کیا۔ دور کسی علاقہ میں گئے، اور چادر اوڑھی ہوئی ہے، اور بوتل بغل میں، اور لارہے ہیں، تو یہ تو من جانب اللہ تھا ناں سارا معاملہ، ویسے تو نہیں تھا، ٹھوکر لگ گئی! ٹھوکر لگی، بوتل گر گئی نیچے، اور بازار، اب حلیہ ظاہر ہے صوفیانہ، عالمانہ، اور شراب کی بوتل گر گئی، تو پھر تو لوگوں نے پیچھے ہونا تھا، اوہ! مولوی شراب پیتا ہے! مولوی شراب پیتا ہے! اس وقت حضرت مطلب اتنا زیادہ وہ بوڑھے نہیں تھے، جوان تھے، تو بس وہ بہرحال یہ ہے کہ وہاں سے لوگ پیچھے، وہ آگے، لوگ پیچھے، وہ آگے، اخیر میں جنگل پہنچ گئے۔ وہاں کچھ آگے پیچھے ہو کر کہ بھئی میرے پیچھے لوگ نہیں پہنچ سکتے ہیں، تو دیکھا کہ سامنے حضرت تشریف لارہے ہیں۔ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ، آؤ بیٹا! اسی لئے سارا ڈرامہ تھا۔ بس اب تو کہیں نہیں جاسکتا، اب تو میرے ساتھ ہی ہوگا، اب تو کہیں نہیں جاسکتا۔ اس پر ما شاء اللہ حضرت نے ان کو دو سال ساتھ رکھا، بس وہی دو سال میں کام ان کا ہوگیا، اَلْحَمْدُ للہ۔ تو بہرحال یہ ہے کہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے جو فیض عطا فرمایا تھا، وہ حال کے ذریعہ سے عطا فرمایا تھا، قال تو پہلے سے تھا حضرت کے ساتھ۔ حال کے ذریعہ سے۔ تو ان کے پورے اشعار میں حال ہی حال ہے۔ لہٰذا جو چیز حال کے ذریعے سے سمجھ میں آسکتی ہے قال والی چیز، تو ما شاء اللہ اس میں جلدی ہوتی ہے، مطلب بہت جلدی فائدہ ہوتا ہے، یہ بات ہے۔ اس لئے ہمارے اکابر جو ہیں ناں اس کو، اس کی تعلیم کرتے تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں باقاعدہ اس کی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا، اور ما شاء اللہ حضرت تشریف لاتے تھے ہندوستان، تو بڑے بڑے لوگ حضرت کے درس میں شامل ہوتے تھے، بڑے بڑے اللہ والے اور علماء کرام۔ ایک پروفیسر صاحب تھے، وہ بھی مثنوی کا درس دیا کرتے تھے۔ تو جب حضرت حاجی صاحب آگئے، تو ان کے درس میں لوگ کم ہونے لگے، تو پروفیسر صاحب بڑے حیران ہوئے کہ آخر کیا وجہ ہے؟ مطلب آخر حاجی صاحب کیا پڑھاتے ہیں؟ یہی مثنوی وہ بھی پڑھاتے ہیں، میں بھی پڑھاتا ہوں، تو یہاں لوگ کم کیوں آئے ہیں؟ تو ایک دن انہوں نے کہا کہ چلو میں بھی جاکر حضرت کے درس میں بیٹھ جاتا ہوں، پتا چل جائے کہ آخر حضرت درس کیسے دیتے ہیں؟ کہ جو وہاں گئے، تو پھر وہیں کے ہوکے رہ گئے، بس پھر اپنا درس بند کردیا، اور حضرت ہی کا درس سننے لگے، پھر اپنے ساتھیوں نے ان سے پوچھا آخر کیا بات ہے بھئی؟ آپ نے اپنا درس چھوڑ دیا، اور حاجی صاحب کے درس میں چلے گئے، کیا مسئلہ؟ کہا بتا دوں؟ کہتے ہیں ہاں بتا دیں۔ کہتے ہیں میرے درس کی مثال ایسی تھی، جیسے کسی گھر کے باہر میں کسی کو کھڑا کردوں، اور مجھے گھر کی ساری چیزوں کا پتا ہو، اس کو بتاؤں اس کے اندر اتنے کمرے ہیں، اتنے فانوس ہیں، اتنے یہ ہیں، اتنے یہ ہیں، ساری چیزیں، لیکن اس کو دکھا نہ سکوں۔ حاجی صاحب اندر لے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ چیز دیکھو ناں یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے۔ تو بس اب بتاؤ پھر میرے درس میں کیا وہ بات ہوسکتی ہے جو کہ ان کے درس میں ہوگی؟ یہ گویا کہ حضرت حاجی صاحب بھی حال کے ذریعے سے پڑھا رہے تھے، بس یہی بات ہے۔ تو اس مثنوی شریف کے درس میں یہی بات بنیادی چیز ہے۔ یہ مطلب علمی باتیں دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ نہیں کہ جو اس میں موجود ہے، دوسری جگہ میں موجود نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ میں موجود ہے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں موجود ہے، اس طرح بڑے بڑے جو ہے ناں وہ علماء کرام جو گزرے ہیں، مشائخ گزرے ہیں، ان کی کتابوں میں ساری چیزیں موجود ہیں جو یہ حضرات فرماتے ہیں، لیکن وہ قال کے انداز میں ہے، یعنی ان کو یعنی گویا کہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایسا ہے اور یہ ایسا ہے، اور اس طریقے سے بتایا جاتا ہے۔ یہ حال کے طریقہ سے ہے، بس اس میں فرق یہی ہے۔ تو اس میں پھر حضرت عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو شعر کہا ہے مثنوی کے بارے میں، وہ ذرا سننے کے قابل ہے، حضرت نے فرمایا کہ

مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی

یہ فرمایا۔ میں اس پہ بڑا غور کرتا رہا، میں نے کہا حضرت نے ایسا کیوں کہا؟ یعنی قرآن کے ساتھ اس کو کیوں جوڑ رہا ہے؟ مطلب آخر کیا وجہ ہے؟ تو ایک دن اَلْحَمْدُ للہ بات کھل گئی کہ قرآن جو ہے، وہ شانِ نزول کے مطابق اترا ہے، شانِ نزول، واقعہ ہوگیا، اب اللہ جل شانۂ تو قادر ہے ہر چیز پر، قرآن لوح محفوظ میں پہلے سے موجود ہے، لیکن واقعات بعد میں ہورہے ہیں، لیکن وہ عین اسی کے مطابق آیتیں اتر رہی ہیں، تو وہ تو اللہ ہی ہے ناں، تو اللہ ہی کرسکتے ہیں وہ، اور تو کوئی نہیں کرسکتا۔ تو قرآن شان نزول کے مطابق اترا ہے، اس وجہ سے اس کی تشریح کا سب سے اہم کام شان نزول کا جاننا ہوتا ہے کہ کن حالات میں اترا ہے، تو یہ قرآن پاک کی تفسیر کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مثنوی شریف میں بھی اس کام کو ایک اور طریقہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت حکایات بیان کرتے ہیں، اور حکایات جو ہوتی ہیں، وہ ضروری نہیں کہ اصلی ہوں، بلکہ بعض دفعہ بالکل ہی اپنی طرف سے، جیسے طوطے کی کہانی اور کتے کی کہانی اور پتا نہیں کس چیز کی کہانی، یہ مطلب جو ہے ناں وہ جیسے بچوں کے قصے ہوتے ہیں، اس طرح کہانیاں بیان کرکے، پھر اس میں سے اتنے زبردست مضامین نکالتے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ اسی سے وہ ساری چیزیں explain کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا یہ جو مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے، اسی بنیاد پر فرمایا ہے کہ اس کے اندر طریقۂ کار اس طرح رکھا گیا ہے کہ لوگ پہلے سے اس حکایت کو دیکھیں، اچھا پھر حضرت نے خود اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر میری مثنوی میں حکایات کو اصل سمجھا جائے تو اس نے پھر مثنوی کو نہیں سمجھا۔ حکایات تو صرف ایک carrier ہے، ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے سے مطلب جو ہے ناں ان مفید مضامین کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ حکایات مقصود نہیں ہیں۔ اب یہاں پر بھی ایک حکایت چل رہی ہے، وہ حکایت یہی ہے کہ ایک بادشاہ ہیں، اور اس کی ایک کنیز ہے، اور وہ کنیز بہت خوبصورت ہے، اور بادشاہ اس کا عاشق ہے، لیکن وہ کنیز بیمار ہوگئی ہے، اس کی بیماری کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ حکیموں کو بلایا، حکیم diagnose نہیں کر پائے کہ کیا چیز ہے، اللہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ یا اللہ اس کی کچھ مدد فرما دے، تو ان کو الہام ہوا کہ ایک اللہ والے حکیم ہیں جو آئیں گے جو اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ تو اس کے انتظار میں رہے، جس وقت مطلب وہ حضرت تشریف لائے، تو حضرت نے ان کو پہچان لیا، بہت آؤ بھگت کی، ان کو لے آئے، ان کو مسئلہ بتایا، انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے، پھر مجھے موقع دیں کہ میں مریض کو دیکھوں۔ تو مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے، تو وہاں انہوں نے مطلب جو ہے ناں وہ جو طریقہ اختیار کیا، وہ بالکل ایک غیر معمولی طریقہ تھا۔ اس نے پہلے ادھر بتایا کہ اس کا جو علاج ہوا ہے، غلط ہوا ہے، وہ جو حکیم پہلے آئے ہیں، ان کو تو پتا ہی نہیں چلا کہ مرض کیا ہے۔ تو مجھے تنہائی چاہئے تاکہ میں یہ معلوم کروں، بادشاہ نے اجازت دے دی۔ اب اس نے طریقہ یہ اختیار کیا کہ مطلب اس کو چہرے سے تو اندازہ ہوگیا کہ یہ عشق کا مرض ہے اس کو، لیکن کس کے ساتھ ہے، وہ ذرا معلوم کرنا چاہتے تھے، تو اس کے لئے سارا طریقہ بنا دیا۔ اب ہوا یہ کہ ان کے نبض پہ ہاتھ رکھا، اور پوچھتے تھے کہ آپ کہاں تھیں پہلے؟ تو وہ بتاتی میں فلاں جگہ پر، اچھا اس کے شہروں کے، اس کے لوگوں کے، تمام چیزوں کے معلوم کرتے تھے، اور نبض پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا، کیونکہ ایک reflex action ہوتا ہے ناں کسی میں کہ جس شخص کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا تو جیسے اس کا نام آئے گا، اس کے شہر کا نام آئے گا، تو نبض تیز ہوگی، اس پہ کسی کا control تو نہیں ہوتا، بات تو صحیح ہے، تو اس طریقے سے انہوں نے وہاں تک وہ پہنچ گئے، تو اب جو ہے ناں ما شاء اللہ یہ سلسلہ ابھی شروع کرنا ہے۔

دفتر اول حکایت نمبر 7

27

نبض بے نقصان ہی چلتا رہا

نام شہروں کا حکیم لیتا رہا

ہاں ثمر قند کا جو نام اس نے لیا

تو نبض کو اس کے اک جھٹکا ملا

مطلب ثمرقند کا کوئی شخص ہے۔

مطلب: یعنی کنیزک کے نزدیک وہ شہر قند کا سا شیریں تھا کیونکہ وہ اس کے محبوب کا مسکن تھا اور عاشق کو دیارِ محبوب تمام روئے زمین سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔

28

ذکر سے اس کے اک آہ سرد لی

آنسوؤں کی آنکھوں سے ندی بہی


29

خرید بولی واں سے لایا سوداگر مجھے

لے لیا اس سے پھر ایک زرگر مجھے


30

چھ مہینے اس نے ساتھ رکھا مجھے

جل اٹھی غم سے کہا بیچا مجھے


طبیبِ نبّاض نے جو کھود کھود کر پوچھنا شروع کیا تو مجبورًا کنیزک کو حقیقتِ حال زبان پر لانی ہی پڑی جس سے اضطرارًا اس کی حالت متغیّر ہوگئی اور طبیب پر اس کا راز آشکارا ہوگیا۔ (کہ مسئلہ کیا ہے)

31

نبض پھڑکی سرخ چہرہ زرد ہوا

اس جدائی کے سبب جو تھی بلا

کنیزک قصۂ عشق کو چھپا رہی تھی۔ مگر طبیب نے حکمتِ عملی سے باتوں باتوں سے سراغ نکال لیا اور طبیب نے سمجھ لیا کہ محبوب کے شہر سے جدا ہونا ہی اس کے اس مرض کی شدّت کا باعث ہے۔

32

جب کیا دریافت اس نے راز کو

سمجھا وہ اس درد کے آغاز کو


33

کونسا اس کا کوچہ کس راہ سے گزر

بولی سرپل رستہ کوچہ غاتفر

یعنی وہ address بتا دیا۔

34

بول اٹھے وہ حکیم باصواب

اے کنیز تیرا ختم ہے اب عذاب

مطلب اب میں پہنچ گیا ہوں۔

35

اب مجھے معلوم ہے تیرا مرض

اب علاج تیرا ہوا مجھ پر فرض


36

میں اب باران رحمت کی طرح

واسطے تیرے خوش رہ اب اچھی طرح


37

تیرا ہوں غم خوار اب تو غم نہ کر

تیرا ہوں ہم درد میں از صد پدر


38

ہاں مگر یہ راز بیان کرنا نہیں

شاہ بھی پوچھے تو کچھ کہنا نہیں


39

راز ظاہر حتی الامکان کرنا نہیں

اور کسی پہ در اس کا کھولنا نہیں


40

جب مراد تیری رہے دل میں تری

تو بر آنے میں ہو اس کی بہتری

طبیب و کنیزک کی گفتگو کے ذکر میں بمناسبتِ مقام مولانا اخفائے راز کی تاکید کرتے ہیں کہ اخفائے اسرار سے حصولِ مرادات کی امید ہے، کیونکہ افشائے راز سے کوئی نہ کوئی مخالف چلتی گاڑی میں روڑا اٹکانے والا پیدا ہوجاتا ہے۔

یعنی ایک بات تو اس میں یہ بات نکل گئی کہ اپنے راز کو راز رکھنا ضروری ہے۔ ﴿وَفِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ﴾1 مطلب یہ تو پہلے سے ہمیں بتایا گیا ناں کہ مطلب تم میں ان کے لیے سننے والے موجود ہیں۔ لہٰذا عموماً نقصان جو ہوتا ہے، یعنی جو تحریکوں کو، ان میں بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔ ریشمی رومال تحریک جو ناکام ہوئی تھی، وہ اسی بنیاد پر ناکام ہوئی تھی، ورنہ کتنی زبردست منظم تحریک تھی، لیکن وہ ناکام ہوگئی اس کی وجہ سے۔ تو اکثر لوگ جو ہیں ناں مطلب جو دشمن ہوتے ہیں، وہ اس راز کو پانے میں پورا ایک نظام بناتے ہیں تاکہ وہ معلوم کرلیں کہ دشمن کا راز کیا ہے۔ وہ کیا step اٹھانے والے ہیں تاکہ اس کے لیے پیش بندی کرلیں، اور ان کی ساری scheme فیل ہوجائے۔ تو یہاں پر بھی یہ بات بتائی حضرت نے۔

41

از حدیث جو راز اپنا چھپائے ہے

جلدی مراد اپنی پھر وہ پائے ہے


شرح بحر العلوم میں لکھا ہے یہ شعر اس حدیث کا مضمون ہے۔ "مَنْ کَتَمَ سِرَّہٗ حَصَلَ مُرَادَہٗ"۔ وَہٰکَذَا فِیْ مُکَاشَفَاتِ رِضْوِیْ۔ یعنی جس نے اپنا بھید مخفی رکھا اس کی مراد بر آئی۔ مگر موضوعاتِ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث مرفوعًا ثابت نہیں۔ صاحبِ کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں (جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے) یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ "اِسْتَعِیْنُوْا عَلٰی اِنْجَاحِ الْحَوَآئِجِ بِالْکِتْمَانِ"2 (مطلب یہ حدیث شریف تو ثابت ہے، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا) "اپنی مرادات کے پورا کرنے میں ان کے مخفی رکھنے سے مدد لو"۔ (واللہ اعلم بالصّواب)

42

دانہ جب زمین میں دب جاتا ہے

بعد ازاں سرسبزی وہ پھر لاتا ہے


43

سونا چاندی ہوتے نہ پوشیدہ گر

پرورش پاتے وہ کان میں کیوں کر

ان دو مثالوں کے ذریعہ سے یہ بتایا ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا سا بیج زمین میں چھپ کر اجزائے ارضیہ سے غذا پا کر پھوٹ نکلتا ہے اور ایک خوبصورت پودے کی شکل میں زینتِ باغ بن جاتا ہے۔ اور ان کے اندرونی اجزائے ارضیہ اور بخارات باہم امتزاج پا کر سونے چاندی کی قیمتی دھاتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بخلاف اس کے اگر دانہ زمین سے باہر رہتا تو کبھی پودے کی شکل نہ پاتا اور اگر وہ اجزائے ارضیہ و بخارات کان سے باہر نکالے جاتے تو ہرگز سونا چاندی نہ بن سکتے۔ اسی طرح اگر اسرار کے بیجوں کو دل کے گلزار میں مخفی رکھیں اور رازوں کے عناصر کو قلب کی کان میں دبائے رکھیں تو ان کے نتائج خوب صورت پھولوں اور آبدار جوہروں کی صورت میں پیدا ہوں گے۔

نکتہ: اس بیان میں یہ اشارہ ہے کہ سالک کو چاہیے کہ اپنے اسرارِ قلب و کیفیاتِ باطن اور مکشوفات و مشاہدات کو کسی پر ظاہر نہ کرے۔ ہاں ضرورت ہو تو حلِ مشکلات اور حصولِ ہدایات کے لیے صرف مرشد سے ایسے امور بیان کرنے چاہئیں۔

یہ اہم اصول یعنی پیری مریدی کا بتایا۔ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو اس میں بہت متشدد تھے، بہت زیادہ متشدد تھے۔ وہ ان کا قانون یہ تھا کہ کسی مرید کو دوسرے مرید پر یعنی حضرت کے دوسرے مرید پر حال ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ اور ایک دفعہ ایک صاحب نے ظاہر کیا تو ان کو اتنا سختی سے ڈانٹا، فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو دوسرے کے بغل میں دیکھ کر کیسے مطلب رہتے ہو؟ مطلب یہ تو تمہارا راز تھا، تو تمہارا اللہ کے ساتھ معاملہ تھا، تو نے اس کو دوسرے پہ کیوں؟ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے، فرماتے ہیں جو دوست کے راز رکھنے کے قابل نہیں ہے، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے، جو دوست کے راز کو راز رکھنے کے قابل نہیں ہے، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ یہ بہت مطلب جو ہے ناں وہ حضرت نے اہم بات کی۔ اکثر لوگوں سے غلطی ہوجاتی ہے، اصل میں یہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ بزرگی کی بیماری کا ہے، بزرگی کی بیماری بہت خطرناک بیماری ہے۔ کسی کو محسوس ہوجائے کہ میں بزرگ ہوں ناں، بس اس سے پھر اس قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں، تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ دیکھو یہ کشف ہوگیا یا خواب کوئی آگیا یا کوئی ایسا حال جس کو یہ پسند کرتا ہے، وہ آگیا، تو پھر وہ لوگوں کو بتاتا پھرتا ہے۔ یہ خواتین نہیں ہوتیں، خواتین، یہ جب تلاوت کرتی ہیں ناں، تو جب کوئی مطلب ان کے ساتھ سہیلی وغیرہ ملتی، کہتی ہیں بہن بس میں تو صبح بیٹھ جاتی ہوں، تین چار سپارے پڑھ لیتی ہوں۔ خدا کی بندی تو پڑھ لیتی ہے تو کیا مطلب دوسرے کو بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو مطلب یہ ان کی یہ کمزوری ہوتی ہے، اور ان کے لیے رکاوٹ ہی سب سے زیادہ یہی ہے، جی بالکل خواتین کے لیے بنیادی طور پر رکاوٹ ان کی تربیت میں یہی ہوتی ہے، ورنہ ان کو ایک خصوصی نعمت ملی ہے جو مردوں کو نہیں ملی۔ وہ کیا ہے؟ وہ یکسوئی ہے، یکسوئی اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔‘‘ اتنی زبردست چیز ہے۔ اب یکسوئی کیا ہے عورتوں میں؟ اب دیکھو عورتیں جو ہمارے ہاں آتی ہیں، وہ basement میں بیٹھی ہوتی ہیں نیچے، اور ہماری آواز صرف ان کو جاتی ہے یعنی mic پر، لیکن وہ پوری سن لیتے ہیں، مطلب ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مرد ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مرد اگر سامنے دیکھ نہیں رہے ہوں کسی speaker کو، اس وقت ان کی توجہ نہیں بنتی، جب کہ عورتوں کی توجہ بن جاتی ہے، وہ اگر سامنے بھی بیٹھی ہوں تو اس طرح نیچے دیکھ کر سن رہی ہوتی ہیں۔ یہ ان کی یکسوئی کی علامت ہے، تو ان کو یہ دولت بہت زبردست ملی ہوتی ہے یکسوئی کی، لیکن افسوس کہ ان کے اندر یہ جو مرض ہے، وہ اس کو تباہ کردیتا ہے، مطلب وہ جو چیز لیتی ہیں، وہ سب ضائع ہوجاتا ہے، اگر وہ تھوڑا سا اس کو سنبھال سکیں تو بہت جلدی جلدی ان کو روحانی ترقی ہوجائے، اور ہم نے دیکھا ہے اَلْحَمْدُ للہ کہ جن خواتین نے اس پر عمل کرلیا، بہت جلدی جلدی ما شاء اللہ وہ ترقی کرگئیں۔ ہماری خانقاہ میں اَلْحَمْدُ للہ خواتین کا جو کام ہے، وہ کافی ما شاء اللہ اہم سمجھا گیا ہے، اور ما شاء اللہ یعنی مجھے ابھی تک پتا نہیں ہے کہ مجھ سے خواتین زیادہ بیعت ہیں یا مرد زیادہ بیعت ہیں، یعنی بہت اَلْحَمْدُ للہ پورے پورے مدرسے کے لوگ بیعت ہوجاتے ہیں، تو ان میں پھر شمار تو نہیں ہوتا کہ کون کتنے ہیں، لیکن ان کا جن کا رابطہ ہوتا ہے، اور جو اس چیز کو ما شاء اللہ سمجھ لیتی ہیں، تو بہت جلدی جلدی ان کی ترقی ہوتی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہو، بس پھر اس کے بعد چھلنی بنتی ہے ناں، بس ڈالتے رہو چھلنی میں گرتا جاتا ہے، فائدہ نہیں ہوتا۔

44

خوف سے باہر کیا بیمار کو

اس حکیم کی مہربانی نے سنو


45

وعدے سچے ہوں ہمیشہ دل پسند

اور جھوٹے کرلیں دل میں اور گند

حکیمِ الٰہی کے سچے وعدہ اور جھوٹے وعدہ کا فرق بیان فرماتے ہیں اور اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مشکوٰۃ شریف میں بروایت ترمذی درج ہے کہ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے یہ کلمات سن کر یاد کر لیے۔ "دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ، فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِیْنَۃٌ وَاِنَّ الْکِذْبَ رِیْبَۃٌ"3۔ یعنی "شکی بات کو چھوڑ کر غیر شکی بات اختیار کرو۔ کیونکہ سچائی دل کا اطمینان ہے اور جھوٹ شبہ کی بات ہے"۔


46

وعدۂ اہلِ کرم گنجِ رَواں

وَعدۂ نا اہل ہو رنجِ رواں

اہلِ کرم کا وعدہ (وہ) خزانہ ہے (جس کا فیض سدا جاری رہنے والا ہے) نالائق کا وعدہ رنجِ جان (ثابت) ہوا ہے۔

نکتہ: شیخِ کامل اور شیخِ مُزوّر کے وعدوں میں جو فرق ہے ان دونوں شعروں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیخ کامل کے وعدے خواہ تعلیم و تربیت سے متعلق ہوں یا بطور بشارات ہوں، سب صادق اور طمانیتِ قلب کا باعث ہوتے ہیں۔ مگر شیخِ مکّار کے وعدے کذب اور پورے نہ ہونے کے باعث پریشان کرنے والے ہوتے ہیں۔

اصل میں آپ کو بتاؤں آخر یعنی جو شیخ کامل اور جھوٹے شیخ میں فرق کیا ہے؟ بنیادی چیز کیا ہے؟ شیخ کامل کو آپ کا فائدہ عزیز ہے اللہ تعالیٰ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اس کی ڈیوٹی دی گئی ہے کہ مخلوق کو میرے ساتھ ملا دو، یعنی اللہ کے ساتھ ملانا، لہٰذا وہ آپ کے فائدے کو دیکھتا ہے، اگر ڈانٹتا بھی ہے تو اس لیے ڈانٹتا ہے، اگر نوازتا بھی ہے تو اس لیے نوازتا ہے، ان کا کام یہ ہوتا ہے، جب کہ جو دوسرا شیخ ہے، وہ کاروباری ہے، وہ کاروبار کرتا ہے، اس کو جس کاروبار میں فائدہ ہوگا تو وہ وہی کرے گا۔ مثال کے طور پر وہ جو ہے ناں وہ ایسے وعدے کرے، وہ کہہ دے جی بس، وہ نہیں ہوتا لکھا ہوتا دیواروں پہ لکھا ہوتا ہے: ’’محبوب تمہارے قدموں پر‘‘، اور اس طرح یہ آپ کو مل جائے اور یہ آپ کو مل جائے، وہ سب جھوٹے فریب، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، اور لوگ آتے ہیں، اچھا لوگوں میں بھی گڑبڑ ہوتی ہے، یہ نہیں کہ مطلب سب وہ خراب ہوتے ہیں، لوگوں میں بھی گڑبڑ ہوتی ہے، وہ دنیاوی چیزوں کے لیے جاتے ہیں پیروں کے پاس، وہ آخرت کے لیے نہیں جاتے، جو آخرت کے لیے جاتا ہے فوراً پہچان لیتے ہیں کہ یہ دنیادار ہے یا مطلب یہ اللہ والا ہے، لیکن جو دنیا کے لیے جاتے ہیں تو ان کو تو ایسے ہی لوگ چاہئیں، تو ظاہر ہے مطلب وہ دنیادار لوگ جو ہے ناں دنیاوی ایسے جو لوگ بنے ہوتے ہیں، بہروپ بھرا ہوتا ہے، ان کے پاس جاتے ہیں، اور اپنا سارا کچھ ضائع کردیتے ہیں، آخرت تو ضائع کر ہی لیتے ہیں، دنیا بھی بعض دفعہ ضائع کرلیتے ہیں، وہ مفت میں بس وہ دیتے رہتے ہیں ناں، مطلب ظاہر ہے وہ طریقوں سے بٹور رہا ہوتا ہے، اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ لوگ جو ہیں ناں وہ کررہے ہوتے ہیں۔ مجھے خوب یاد ہے ہمارے ایک دوست تھے، اس کے کزن نے ایک لڑکی بھگائی تھی۔ کتنا بڑا جرم ہے! اچھا اب وہ کیا کررہا تھا؟ وہ کہتا ہے اس طرح، مالدار آدمی تھا، Norway میں کام کررہا تھا ناں، تو کہتے ہیں اس طرح Jeep کی چابی اس طرح گھما رہا تھا، کہتا ہے اگر مجھے کوئی جائز کر دکھائے گا تو میں یہ Jeep ان کو دے دوں گا۔ خدا کے بندے! اگر کوئی آدمی تمہیں کہہ بھی لے کہ جائز ہے، اور وہ ناجائز ہو، تو کیا اس کے جائز کہنے سے جائز ہوجائے گا؟ اس کے جائز کہنے سے تو جائز نہیں ہوگا، وہ تو صرف آپ کو بس دل خوش کرے گا کہ ٹھیک ہے، یہ چیز جائز ہے۔ وہ میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں، ہمارے دفتر میں ایک ساتھی تھے، وہ مجھے کہنے لگے کہ جی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا loan ہے، میں لے لوں؟ میں نے کہا کہ اس میں تو سود ہے، تو سودی چیز تو نہیں لینی چاہیے۔ اچھا اس پر جو ہے ناں وہ بات ختم ہوگئی، بس اتنی بات۔ تقریباً بارہ سال کے بعد وہ مجھے کہتا ہے: میں بڑا پریشان ہوں۔ میں نے کہا کس چیز میں پریشان ہیں؟ کہتے ہیں وہ loan جو لیا تھا ناں، تو اس سے بڑے مسئلے ہوئے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا کہ loan نہیں لینا، یہ loan نہیں لینا؟ کہتا ہے ہمارے پیر صاحب ہیں ناں، تو پیر صاحب سے ہم نے کہا، تو انہوں نے کہا مجبوراً لے رہے ہو ناں؟ تو میں نے کہا ہاں، کہتے ہیں پھر کوئی حرج نہیں۔ تو میں نے کہا جا کر دعا بھی ان سے کروا لو، اب اسی پیر صاحب سے دعا کروا لو ناں جو آپ کو کہہ رہا کہ آپ مجبوراً لے رہے ہیں۔ تو یہی بات ہوتی ہے کہ لوگ چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہمیں مطلب وہ بتایا جائے جو کہ ہم چاہتے ہیں، حالانکہ ایسا تو نہیں ہوتا، جو اللہ والا ہوتا ہے، وہ کبھی بھی ایسی بات آپ سے نہیں کرے گا، جس میں۔۔۔۔ خود ہمارے جو شیخ تھے ایک دفعہ میں نے کچھ اپنے احوال سنائے۔ احوال میں کچھ ایسی چیزیں تھیں، فرمایا دور کرو، دور کرو، راستہ کے کھیل تماشے ہیں۔ اب ان کا اُس وقت کا یہ کہنا میرے لیے اتنا زبردست سبق ہوگیا کہ ان چیزوں سے جی بھر گیا کہ بھئی یہ چیزیں نہیں ہیں مقصود، مقصود یہ چیزیں نہیں ہیں۔ تو اَلْحَمْدُ للہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے مطلب اس کا جو ہے ناں وہ دل جو ہے ناں وہ کرلیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اصل شیخ ہوتا ہے، وہ آپ کو صحیح چیز بتائے گا، وہ آخرت کے لحاظ سے بتائے گا، اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لحاظ سے بتائے گا، تو پھر تو فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔


47

وعدے جو کرتے ہو پورے بھی کرو

گر نہ ہوں پورے تو خام و سرد ہو

وعدہ خلاف آدمی کو سرد دل یا سرد مہر اس لیے کہا کہ اس میں اپنی صداقت کو قائم رکھنے کی سرگرمی نہیں ہوتی۔ خام کار اس لیے کہ وہ اپنے وعدوں کی بنا پر جو کام کرتا، کراتا ہے اس میں دوام اور پختگی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کا اعتبار جاتا رہتا ہے اور کام بنتے بنتے بگڑ جاتے ہیں۔ ایفائے وعدہ شیوۂ پیغمبر ہے اور پیغمبروں کے حالات میں وعدہ وفائی کے بہت سے سبق آموز نظائر ملتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ "لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَ لَا تُمَازِحْہُ وَ لَا تَعِدْہُ مَوْعِدَۃً فَتُخْلِفَہٗ"4 یعنی "تو اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر اور نہ اس سے (اس درجہ) مزاح کر (جس سے اسے تکلیف ہو) اور نہ اس سے کوئی وعدہ کر کے اس کے خلاف کر"

مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ مروت میں وعدہ کرلیتے ہیں مطلب کر نہیں سکتے، پورا نہیں کرسکتے، لیکن وہ مروت میں کرلیتے ہیں کہ اس کا دل دکھے گا، بھئی بعد میں جب پورا نہیں کرے گا تو پھر دل نہیں دکھے گا؟ پھر بھی تو دل دکھے گا بلکہ زیادہ دکھے گا، کیونکہ عین ممکن ہے آپ انکار کرلیں تو اپنے لئے کوئی بندوبست کرلیتا، کوئی راستہ اور ڈھونڈتا۔ اب آپ نے وعدہ کرلیا تو آپ نے خود بھی نہیں کیا اور اس کو دوسرے راستہ سے بھی روک دیا، تو نقصان ہوگیا ناں اس کے ساتھ

48

دل و جاں سے وعدہ پورا کرنا تو

در قیامت فیض اس کا دیکھ لو

وعدہ کو دل و جان سے پورا کرنا واجب ہے تاکہ تم قیامت میں اس (ایفائے وعدہ) کا فیض دیکھو۔

اب میں ذرہ پرانے، اس سے ایک بیان فارسی والا وہ کرتا ہوں، کیونکہ ظاہر ہے آپ حضرات تشریف لائے ہیں تو ہمارا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا لیکن جو پرانے بیانات ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا۔



دل کے کانوں سے سننا

(درسِ مثنوی شریف 11 اپریل 2023 کا اقتباس)


دفتر ششم حکایت نمبر 113

13

گوش دار آوازت آید دمبدم چُوں رسد بادہ نیاید جام کم

ترجمہ: کان کو متوجہ رکھ تجھ کو دم بدم آواز آئے گی۔ جب شراب مل گئی تو جام کی کوئی کمی نہیں (یعنی متوجہ بحق ہوجاؤ تو واردات کا القاء ہونے لگے گا۔ جب حسنِ حقیقی کی معرفت حاصل ہوگئی تو اس کے مظاہر کی کمی نہیں، جن میں اس کا مشاہدہ کیا کرو گے۔)

اب دیکھو میں آپ کو ایک طریقہ کی معرفت کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ لطیفہ قلب ہوتا ہے، نقشبندی حضرات اس کا بہت ذکر کرتے ہیں، اور حضرات بھی کرتے ہیں، لطیفہ قلب، دل کا ذکر۔ اب جب کہتے ہیں کہ آپ تصور کر لیں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، اس وقت جو آپ کو کہا گیا، اس وقت آپ اس کی معرفت نہیں رکھتے۔ کیا کہا؟ جو پہلے پہلے آیا اس کی معرفت رکھتا؟ نہیں رکھتا، لیکن جو کہہ رہا ہے، وہ اس کی معرفت رکھ رہا ہے، اس کو اس کا experience ہے، اس کی معرفت رکھ رہا ہے۔ تو اب اپنے کان کو اس معرفت کی طرف متوجہ کرو، اپنے دل کے کانوں سے اس کی بات کو سن لو کہ ہو سکتا ہے، آپ چونکہ اس کے عارف نہیں ہیں تو آپ کے اندر سے آواز اٹھے گی کیسے ہوگا؟ لیکن اگر آپ اس پر اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ بتا رہا ہے تو ہوگا، اب یہاں سے گویا کہ کام شروع ہوگیا، جتنا آپ نے اس کے آواز پر کان لگایا اتنا اتنا اس کی معرفت کا کچھ حصہ آپ کی طرف منتقل ہونا شروع ہوجائے گا، ٹھیک ہے ناں؟ پھر آپ اس کی معرفت کے مطابق آپ کام شروع کرتے ہیں، یعنی جس طرح وہ کہتا ہے، اس کو نہ دیکھو کہ کیسے؟ یہ دیکھو کہ بتایا کیا ہے، بتایا کیا ہے؟ تو اس کو اس کے مطابق بیٹھ کر سوچنے لگو، سوچنے کی کیا بات ہے؟ بس اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ میرے دل میں ہو رہا ہے، سمجھ نہیں آ رہی، سمجھ نہیں آ رہی، لیکن بس مان رہا ہے، مان رہا ہے، اور یہی ماننا ہی کام بناتا ہے، تو اس نے ماننا شروع کیا، اور اس طرح کرنا شروع کر لیا، نتیجتاً کچھ عرصہ کے بعد تھوڑا تھوڑا جاننے لگ جاتا ہے کہ واقعی اس طرح ہو تو رہا ہے۔ ابھی تک پورا واضح نہیں ہے، لیکن بہرحال تھوڑا تھوڑا جاننے لگا، کچھ نہ کچھ ہو تو رہا ہے۔ اب اگر اس کچھ نہ کچھ معرفت سے اس کی اس معرفت کی طرف جس نے کہا ہے انتقال ہوگیا کہ اگر یہ اتنا ہو رہا ہے تو باقی بھی ٹھیک ہے، باقی بھی ہوگا، باقی بھی ہوگا، اور وہ اپنی کوشش میں مزید آگے بڑھے، یکسوئی کے ساتھ اَلْحَمْدُ للہ مطلب وہ جو ہے ناں متوجہ ہوجائے کہ اللہ اللہ میرا دل کررہا ہے، تو مزید یہ بات آگے بڑھے گی، نتیجتاً ایک وقت آئے گا کہ خوب وہ دیکھ رہا ہوگا کہ اللہ اللہ ہورہا ہے۔ اللہ اللہ ہورہا ہے۔ یعنی قلب کے اوپر کسی کی طاقت نہیں چلتی، آپ اپنے دل سے نہیں کروا سکتے، یہ تو تمہارے بس میں نہیں ہے، لیکن اس کام کے ذریعے سے جو معاملہ چلتا ہے، آہستہ آہستہ آپ کا نظام اس طرف چلنا شروع ہوجاتا ہے، اور آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاتے ہیں کہ سبحان اللہ یہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ اب جب یہ ہوگیا، آپ کو مزید یقین ہوگیا، اب دوسرا لطیفہ، تیسرا لطیفہ، پھر چوتھا لطیفہ، پھر پانچواں لطیفہ، اور اَلْحَمْدُ للہ ایک پورا نظام برپا ہوگیا، اتنا تو sense کے ساتھ ہوگیا، یہ صرف ہمارا sense ہے کہ ہو رہا ہے، اتنا کام تو ہوگیا کہ sense ہوگیا کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اب وہاں سے آنا شروع نہیں ہوا کیونکہ رکاوٹیں ہیں، کیا بات ہے؟ رکاوٹیں ہیں۔ رکاوٹیں کس چیز کی ہیں؟ نفس کی ہیں، رکاوٹیں ہیں ابھی۔ ہم نے اِدھر سے لائن ملانا شروع کر لی، اب اُدھر سے جو آ رہا ہے اس کے لیے رکاوٹ ہے، وہ کیا ہے؟ وہ نفس ہے۔ تو جب یہ صورتحال ہوجائے تو فرماتے ہیں اب شوق جب پیدا ہوگیا، یہ جذب کہلاتا ہے، اس جذب کے شوق کو استعمال کر کے اپنے نفس کے ان موانع کو دور کرنا شروع کر لو، پتا چل گیا کہ اس چیز کے پیچھے پانی ہے لیکن پانی کے سامنے چٹان ہے، اس چٹان کو توڑنا پڑے گا، اس چٹان کے توڑنے پہ آپ لگ گئے، ہوتے ہوتے ہوتے، تھوڑا توڑا، زیادہ توڑا، زیادہ توڑا، حتیٰ کہ رستہ کھل گیا، اور پانی سبحان اللہ آنا شروع ہوگیا، بس یہی بات ہے۔ پھر لطیفہ قلب سے بھی آئے، لطیفہ روح سے بھی آئے گا، لطیفہ سر سے بھی آئے گا، لطیفہ خفی سے بھی آئے گا، لطیفہ اخفیٰ سے بھی آئے گا، اور ایک نظام ہے چل رہا ہے، پھر سبحان اللہ آپ حیران ہوں گے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن اس وقت تک یہ جو کام ہے تو کرنا پڑے گا ناں۔ اصل میں دیکھو یہ نظام مخفی جو ہے، یہ بھی اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے، اور وہ نظام جو وحی کا ہے، وہ بھی اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے۔ وحی کا نظام تو قطعی ہے، یہ نظام کیا ہے؟ ظنی ہے، وحی کا نظام کیا ہے؟ قطعی ہے، یہ نظام ظنی ہے، اگر آپ کا ظن صحیح مقام پہ پہنچ گیا تو جو وحی کہہ رہی ہے، وہی یہ بھی کہنے لگے گا، وہی یہ بھی کہنے لگے گا، لہٰذا آپ کو پتا چل جائے گا، واہ جی واہ! اس کو حضرت فرماتے ہیں شہود، ٹھیک ہے ناں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں؟ شہود، بس یہی چیز ہے۔ مطلب دیکھیں ناں یقین، علم الیقین، علم الیقین علم الیقین آپ کو ملا ہے، قرآن سے ملا، حدیث سے ملا، یہ آپ کو پورا یقین ہے کہ یہ قرآن ہے، یہ حدیث ہے، اور یہ سچ ہے، یہ غلط نہیں ہے، یہ علم الیقین کے طور پہ آپ نے مان لی، لیکن آپ نے ساتھ یہ محنت بھی جاری رکھی، اس محنت کے ذریعے سے جب آپ کو شہود ہونے لگا تو یہ علم الیقین عین الیقین سے ہوتے ہوئے حق الیقین تک پہنچنے کا راستہ بنا دے گا، علم الیقین آپ کے علم میں اضافہ کا ذریعہ ہے، لیکن چونکہ نفس کے عوامل موجود ہیں، لہٰذا عمل اس پہ ہونا آسان نہیں ہے، مشقت طلب ہے، مشقت طلب ہے، لیکن جس وقت یہ علم الیقین حق الیقین تک پہنچے گا، اس صورت میں جس وقت یہ نفس کے جو عوامل ہیں، وہ ختم ہو چکے ہوں گے، اس وقت آپ کو جو نظر آ رہا ہو اس کے مطابق آپ کر رہے ہوں گے، آپ کام کر رہے ہوں گے، جیسے صحابہ نے فرمایا تھا ’’اٰمَنّا وَصَدّقْنَا، اٰمَنّا وَصَدّقْنَا‘‘، ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کر لی، ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘، ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا۔ اب تو بہت سارے لوگ سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اور جب سن لیتے ہیں تو ان سنی کردیتے ہیں، تو نقصان کی بات ہے۔ ہمارا نفس درمیان میں حائل ہے، اب اس نفس کی جو ہے، جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے جو سلوک طے کرایا جاتا ہے، اس سلوک کے بارے میں بات ہوگی ان شاء اللہ، اس کے بارے میں بات ہوگی۔



"اپنی ذات کو پہچاننے کا مطلب کیا ہے؟" — فلسفہ نہیں، ایک عملی راستہ

(درسِ مثنوی شریف 26 جنوری 2021 کا اقتباس)


-19-

ای خنک آن را که ذات خود شناخت

اندر امنِ سرمدی قصری بساخت

ترجمہ: مبارک ہے وہ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا۔ (اور ابدی) امن کے اندر (اپنے لیے) ایک محل (تعمیر) کر لیا۔

یعنی ذات کو پہچاننے کا مطلب کیا ہے؟ وہ ذرا عرض کرتا ہوں۔ انسانِ کامل جس کو اللہ تعالیٰ اپنا خلیفہ بنانا چاہتا تھا، اس کی جو صفات ہو سکتی ہیں، اس کی صلاحیت ہر انسان کے اندر موجود ہے، بے شک کوئی ضائع کیوں نہ کرے، لیکن ہے صلاحیت ہر انسان کے اندر حتیٰ کہ کافر میں بھی موجود ہے وہ صلاحیت موجود ہے۔ آخر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے جب مسلمان نہیں تھے، تو کیا کر رہے تھے؟ اور جس وقت مسلمان ہوگئے تو پھر کیا؟ تو کیا مطلب ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ تو پہلے تو مطلب موجود تھا ناں تب ہی تو بعد میں اس طرح اس کا ظہور ہوا، تو کافر میں بھی وہ صلاحیت موجود ہوتی ہے، ہاں! اس کے لیے گویا کہ وہ environment چاہیے ہوتی ہے، وہ مطلب طریقہ کار چاہیے ہوتا ہے جس سے وہ نمو پا لے اور مطلب وہ چیز ظاہر ہوجائے۔ یعنی ہمارے تصوف کے اندر دو چیزیں ہیں، (اس کو اچھی طرح سمجھ لیں، یہ بہت بڑا نکتہ ہے) تصوف کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ کیونکہ تصوف بذات خود ذریعہ ہے، یہ کوئی مقصود نہیں ہے، مطلب ذریعہ ہے، اور اس ذریعے کے لیے دو ذریعے ہیں، یعنی گویا کہ اس ذریعے کے دو ذریعے ہیں، دو طریقے سے گویا کہ یہ کام کرتا ہے، کیسے؟ ایک وہ جو ہمارے اندر ہیں لیکن ہم نے ان کو دبایا ہوا ہے، لیکن دبانا نہیں ہے، ان کو ظاہر کرنا چاہیے، اور ایک وہ جو ہمارے اندر ہیں جن کو دبانا چاہیے کیونکہ ان کو ایسا نہیں ہونا چاہیے، یعنی رذائل اور فضائل، رذائل اور فضائل۔ یعنی فضائل سے مراد وہ صلاحیتیں ہیں جو انسان کے اندر ہیں لیکن وہ ہمارے رذائل کی وجہ سے دبی ہوئی ہیں۔ ہر رذیلے کے پیچھے ایک فضیلت ہے، ریا کے پیچھے کیا ہے؟ اخلاص ہے، آپ ریا کو دبا دیں تو اخلاص آگے آ جائے گا، یعنی ریا کا نہ ہونا اخلاص ہے اور اخلاص کا نہ ہونا ریا ہے۔ تو اسی طریقے سے ہر رذیلے کے پیچھے ایک فضیلت ہے۔ اب کیا کرنا ہوتا ہے؟ اس فضیلت کو باہر نکالنا ہوتا ہے اور اس رذیلے کو دبانا ہوتا ہے۔ رذیلے کو دبانے کے لیے مجاہدہ ہے اور فضیلت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ فاعلہ ہے۔ بس فاعلات اور مجاہدات یہ دو چیزیں ہیں جو تصوف کی بنیاد ہیں۔ فاعلات اور مجاہدات، بغیر اس کے کام نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ صرف فاعلات لیتے ہیں اور مجاہدات نہیں کرتے پھر بھی کام نہیں ہوگا، صرف مجاہدات کرتے ہیں فاعلات نہیں کرتے پھر بھی کام نہیں ہوگا، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دونوں کرنے ہیں۔ تو اس وجہ سے مطلب ظاہر ہے آپ کو یہ استعمال کرنے ہوتے ہیں، اور شیخ چونکہ اس طریقے کو جانتا ہے کہ کسی رذیلے کو کیسے دبایا جا سکتا ہے اور کسی فضیلت کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ اس کام کو چونکہ جانتا ہے، اس کے اوپر گزرا ہوتا ہے، لہٰذا آپ جب اس کے ساتھ اپنے آپ کو attach کرتے ہیں، اس مقصد کے لیے attach کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کو مطلب اس راستے پر لے جا سکے، بس یہی کام ہوتا ہے، ورنہ چیزیں آپ کے اندر خود موجود ہیں۔ میں نے کوئی بڑی جرأت والی بات تو نہیں کی ناں؟ کیوں بتا رہا ہوں؟ بعض لوگوں کو شاید یہ بُری لگے، اُن کا خیال ہوتا ہے شیخ ان میں ڈالتا ہے، کہتے ہیں یا نہیں کہتے؟ شیخ نہیں ڈالتا، اللہ پاک نے پہلے سے رکھا ہوا ہے، میری نظر اللہ پر کیوں نہ جائے، جاننی چاہیے ناں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے رکھا ہوا ہے: ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾5 دونوں چیزیں ہیں یا نہیں ہیں؟ دونوں چیزیں پہلے سے الہام ہیں، البتہ صرف یہ بات ہے شیخ کیا کرتا ہے؟ وہ procedure بتاتا ہے کہ کیا کرو تاکہ فضائل آگے آ جائیں اور رذائل دب جائیں، وہ اس پورے procedure کو جانتا ہے، اس طریقے کو جانتا ہے، کیونکہ یہ بڑی complicated چیز ہے۔ آپ تھوڑا سا غور کر لیں، معاشرت کے مسائل کو settle کرنا کتنا مشکل ہے، ہمارے پشتو میں کہتے ہیں: ’’دَ چیندخو تلل دی‘‘ یعنی کہ مینڈکوں کا تولنا ہوتا ہے، مینڈکوں کا تولنا یہ ہوتا ہے کہ آپ اتنے مینڈک لائے پھر سے jump لگا دیا، پھر آپ اور ڈالے پھر سے jump لگا دیا، تو یہ مطلب ہے کہ ایک رذیلے کو دباؤ دوسرا آیا، دوسرے رذیلہ کو دباؤ تیسرا آیا، مطلب یہ گویا کہ ایک عجیب قسم کا environment ہوتا ہے۔ اب شیخ کا کام کیا ہوتا ہے؟ وہی، ایک تو controlled dose دینا، ایک دم سارا نہ دینا، یہ مطلب شیخ کا کرنا ہوتا ہے، ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ راستے پہ باقاعدہ طریقے سے چلانا تاکہ وہ اس راستے کو طے کر سکے، تو یہ جو بات ہے مطلب ظاہر ہے وہ وہی کر سکتا ہے جو کہ پہلے اس راستے پہ گزرا ہو، جو پہلے راستے پہ، جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر کسی نے سلوک نہیں طے کیا تو نہ وہ خود پہنچا ہے اور نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے، نہ وہ خود پہنچا ہے نہ وہ دوسروں کو پہنچا سکتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جو خود نہیں اس راستے پہ گیا تو دوسروں کو کیسے لے جا سکتا ہے، اس کو معلوم ہی نہیں ہے۔ تو یہاں پر بھی یہ والی بات ہے جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا، یعنی اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا، اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا کہ مجھے اللہ نے کیا دیا ہوا ہے، اور اس کو میں استعمال کروں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! علامہ اقبال کی پوری شاعری صرف اسی چیز پر ہے، اگر میں کہہ سکتا ہوں تو، پوری شاعری صرف اسی نکتے پہ ہے، اسی کو elaborate کر رہا ہے، صرف اسی کو آگے بڑھا اسی کو explain کر رہا ہے، اسی کو سمجھا رہا ہے مختلف الفاظ میں سمجھا رہا ہے۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

یہی چیز سمجھا رہا ہے، تو تو شاہین ہے، توُ تو مومن ہے، توُ تو اللہ پاک کا خاص مطلب خلیفہ ہے، تو ان چیزوں میں کیوں پڑ گیا دنیا کی چیزوں میں۔

مجھے زیادہ اشعار تو یاد نہیں ہوتے تو اس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تیرا سفینہ تو ہے بحر بیکراں کے لیے، تو فرات میں پھنس گیا ہے، تیرا سفینہ تو ہے بحر بیکراں کے لیے، تو ان چیزوں میں پڑ گیا۔

کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

وہ یہی بار بار یہی کہہ رہا ہے، ہمارا کام کیا تھا ہم کس چیز کے لیے بنائے گئے تھے اور ہم کس چیز میں پڑ گئے ہیں، اور کون سے کام کر رہے ہیں، خودی کا مطلب صرف یہی ہے علامہ اقبال کا، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، یعنی اپنے نفس کو پہچاننا، اپنی صلاحیتوں کو جاننا، وہ مقام جاننا جو اللہ تعالیٰ تجھے دینا چاہتا ہے۔ ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾6 وہ والی بات سمجھ میں آ جانا، یہ جو ہے ناں مطلب اصل بات تھی اور علامہ اقبال اس بات کو سمجھانا چاہتے تھے، آج پتا نہیں:

’’من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید‘‘

کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرا طنبورہ کیا کہہ رہا ہے۔

تو علامہ اقبال کے جو شاہین ہیں، وہ پتا نہیں وہ کون سی باتیں کر رہے ہیں، اصل بات جو ہے ناں وہ یہ تھی کہ وہ قوم کو جگانا چاہتے تھے، اُن کی خفیہ جو مطلب صلاحیتیں ہیں صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بننے کی اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بننے کی، اس طرح اور، تو یہ جو ہے ناں مطلب وہ کہتے ہیں تم وہ بن جاؤ، تم اس طرف آ جاؤ، یہ تم کن چیزوں میں پڑ گئے ہو؟

شکايت ہے مجھے يا رب! خداوندانِ مکتب سے سبق شاہيں بچوں کو دے رہے ہيں خاکبازی کا

یہی تو مطلب وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے یہ جو اسکولوں کے استاذ ہیں، ان سے یہ شکایت ہے کہ وہ جو ہے ناں شاہین بچوں کو جو آسمانوں میں اُڑتے تھے اور شکار کرتے تھے، اُن کو جو ہے ناں وہ زمین پر لَوٹنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔ تو یہ اصل میں بات ہے کہ مبارک ہے جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اور ابدی امن کے اندر اپنے لیے ایک محل تیار کر لیا۔



علمِ وہبی کا نظام: آدابِ طلب اور فیضانِ صحبت

(درسِ مثنوی شریف 13 ستمبر 2022 کا اقتباس)


21

 نوحؑ نہ صد سال در راهِ سوی  بود ہر روزیش تذکیرِ نوی

ترجمہ: حضرت نوح علیہ السلام نو سال تک صراطِ مستقیم (کی دعوت) میں (اس حالت پر رہے کہ) ہر روز ان کا نیا وعظ ہوتا تھا (تو عمر کے حساب سے انہوں نے لاکھوں تازه وعظ کہے۔ یہ شان علومِ وہبی کی ہے نہ کہ کسبِی کی)۔

22

لعْلِ او تازه زِ ياقوتُ القُلوب نے رسالہ خوانده نے قوتُُ القُُلوب

ترجمہ: ان کا (لبِ) لعل (ان کے دل بمنزلہ) یاقوت القلوب سے تازہ تھا۔ انہوں نے نہ رسالہ (قشیریہ) پڑھا تھا نہ قوت القلوب۔ (یعنی ان کا علم کسبِی نہ تھا، بلکہ وہبی تھا۔)

23 

وعظ را ناموختہ ہیچ از شروح بلکہ ینبوع كشوف و شرحِ روح

ترجمہ: انہوں نے وعظ کو کچھ (کتابوں کی) شرحوں سے (بھی) نہیں سیکھا تھا۔ بلکہ (یہ ان کے) مکاشفات کا چشمہ اور روح کی کشائش (تھی)۔

یہ اصل میں حضرت باتوں باتوں میں بہت ساری باتیں کہہ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے دوستی والی باتیں کیں کہ ان کی دوستی تھی تو دوستی کی وجہ سے، محبت کی وجہ سے ان کے دل ایک دوسرے کے لیے کھل جاتے تھے اور برسوں کی باتیں ان کو یاد آ جاتیں اور وہ باتیں آپس میں کرتے۔ پھر جو ہے ناں اس سے انہوں نے انتقال کیا کہ جو شیخ ہوتا ہے وہ مریدوں کا یار ہوتا ہے۔ تو مرید جب ان کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کے سامنے اللہ پاک ان کی زبان کو کھول لیتے ہیں اور وہبی علوم ان کو عطا کرتے ہیں اور وہبی علوم شیخ پھر ان کو مریدوں کو دیتے ہیں۔ اس میں کچھ آداب وغیرہ بتا دیئے کہ خود ان کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کریں کیونکہ بحث و مباحثہ تو علمی باتوں میں ہوتا ہے عام جو کسبی علوم ہوتے ہیں، یہ تو وہبی علوم ہیں تو یہ تو وہبی علوم جو ہوتے ہیں وہ ادب کے ساتھ ملتے ہیں، کسبی علوم جو ہوتے ہیں وہ مطالعہ سے اور محنت سے ملتے ہیں جبکہ وہبی علوم میں یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا پیالہ جتنا وا کر لیا اس کے لیے، اتنا آئے گا، جیسے کہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے شیخ کو قطب سمجھا تو ان کو قطب کا فیض اس سے ملے گا۔ وہ وہی والی بات ہے کہ اس نے اپنی جھولی اتنی پھیلائی کہ اس کے حساب سے وہ آگیا۔ تو یہ بات ہے کہ یہ ادب والی بات ہے کہ جتنا ادب کرو گے اور جتنا طلب کرو گے یعنی طلب با ادب کرو گے تو اتنا اللہ تعالیٰ نوازے گا اور اگر قیل و قال، حجت کرو گے تو بس وہ بند ہوجائے گا، وہ سلسلہ بند ہوجائے گا، وہ پھر جہاں سے آ رہا ہوگا وہاں سے بند ہوجائے گا کیونکہ اس کی گویا کہ ناقدری کی گئی، تو جب ناقدری ہوجاتی ہے، ویسے بھی حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "حال جو ہوتا ہے یہ بڑا نازک مہمان ہوتا ہے، لہٰذا تھوڑی سے بے توجہی سے بھی حال واپس ہوجاتا ہے، روٹھ جاتا ہے۔" تو اب ظاہر ہے کہ شیخ کے جو علوم ہیں وہ بھی ان کے حال کے درجے میں ہیں، یعنی کسبی نہیں ہیں وہبی ہیں۔ لہٰذا اگر ان کی ناقدری کی گئی تو رک جائیں گے اور وہ چیز نہیں ملے گی۔ تو اس وجہ سے اپنے آپ کو طالب بنانا چاہیے اور طالب کی انہوں نے مثال دی کہ اپنی آنکھوں کو اپنے شیخ کے چہرہ پہ قرین رکھو یعنی ان کے چہرے پہ آنکھ رکھو اور طلب کی نگاہ سے ان کو دیکھو، اسی حساب سے اس کی زبان آپ کے لیے کھلے گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس میں مسائل آ سکتے ہیں۔ تو یہاں پر وہ بات چلی تھی۔

پھر انہوں نے انبیاء کرام کی مثالیں دیں کہ آدم علیہ السلام کی جو مثال دی کہ وہ

﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾7

تو اللہ جل شانہٗ نے ان کو اسماء سکھا دیئے، تو اسماء کا سکھانے کا مطلب یہ کہ صرف سنا دیئے نہیں بلکہ اس کے دل پر القا کردیئے جب اس کے دل پہ القا کردیئے تو زبان تو صرف بیان کر رہی تھی، القا تو دل پہ ہو رہا تھا، یہ اصل میں بنیادی بات تھی کہ القا جو ہے دل پہ ہو رہا تھا اور زبان اس کو بیان کر رہی تھی تو اللہ پاک نے جتنے بھی نام آدم علیہ السلام کو القا فرمائے تھے وہ بڑی تفصیل کے ساتھ وہ بیان فرماتے تھے، اس کے لیے کچھ رکاوٹ نہیں تھی۔

پھر فرمایا کہ نوح علیہ السلام کی مثال دی کہ نوح علیہ السلام جو ہیں نو سو سال تک دعوت دیتے رہے اور ہر روز نیا وعظ کرتے تھے، اب نو سو سال میں 365 دن کو ضرب نو سو سے دے دو تو ہر روز اس کا نیا وعظ کتنا ہوجائے گا؟ تو وہ ظاہر ہے یہ کتاب والا علم تو نہیں ہے، یہ کتاب والا علم تو نہیں ہے، یہ ظاہر ہے وہبی علم ہے، اس سے حضرت آئے ہیں کہ ان انبیاء نے یہ جو وعظ تھے کچھ کتابوں سے نہیں لیے تھے، کتابوں کی شرحوں سے بھی نہیں لیے تھے بلکہ ان کے اوپر اتارے گئے تھے۔

24

ازاں مَے کاں مَے چو نوشیده شود آبِ نطق از گنگ جوشیده شود

ترجمہ: (وہ وعظ) اس شراب (الٰہی کی مستی) سے (ادا ہوتا تھا) کہ وہ شراب جب پی لی جائے تو گونگے (کی زبان) سے (بھی) گویائی کا دریا جوش زن ہوجائے۔

25

طفلِ نوزادہ شود حبر و فصیح حکمتِ بالغ بخواند چُوں مسیح

کیا عجیب بات ہے۔

ترجمہ: (اور اس کی بدولت ایک) نیا پیدا ہونے والا بچہ (بھی) عالم اور خوش گو بن جائے۔ (اور) حضرت مسیح عليہ السلام کی طرح حکمتِ بالغہ پڑھنے (اور سنانے) لگے۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شیر خوارگی میں لوگوں سے کہا۔ ﴿اِنِّي عَبْدُ اللّٰهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ﴾8

مطلب انہوں نے کہا تھا، تو گویا کہ اللہ پاک نے جب ان کے۔ اب یہ دیکھو کسی سے سیکھا تو نہیں تھا، بچہ کیا اس طرح سیکھ سکتا ہے؟ تو اللہ پاک نے ان کی زبان پہ جاری فرما دیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ نے کتاب دی ہے۔

اصل میں اس میں حضرت نے جو چیز بتائی کہ ایک مشائخ کا جو نظام ہے اور ایک انبیاء کرام کا ہے۔ مرشد جو ہوتا ہے وہ انبیاء کے نقش قدم پہ ہوتے ہیں، یعنی انبیاء کا کام ان سے لیا جاتا ہے، جب کہ جو تکوینی بزرگ ہوتے ہیں وہ فرشتوں کے نقش قدم پہ ہوتے ہیں، ان سے وہ کام لیا جو فرشتے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے جو مرشدین ہیں ان کو بھی اللہ جل شانہٗ الہامی علوم دیتے ہیں، جیسے وحی کی جاتی تھی انبیاء کرام کو، اس طرح مرشدین کو الہامی علوم عطا فرماتے ہیں، اور الہامی علوم وہ عطا کیے جاتے ہیں جس کی ضرورت ہو، ضرورت کا مطلب ہے کہ جو سامنے بیٹھے ہوں جن کی جو ضرورت ہو وہی عطا کیے جائیں گے۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ یعنی میں آپ کو خود واقعہ بتاتا ہوں ایک صاحب تھے ہمارے یعنی دوست تھے ابھی بھی اَلْحَمْدُ للہ ہیں کراچی میں ہیں اور بہت ذہین فطین آدمی تھے عبدالعلام اس کا نام تھا، تو ایک دن کسی بزرگ کے بارے میں گستاخانہ فقرہ کہا، مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے کہا یہ کیا ہوا، بھئی یہ کیا بات کررہا ہے؟ تو میں نے کہا یہ آپ نے کیا کہا؟ کہتے ہیں کیوں آپ کو تکلیف ہوئی؟ میں نے کہا مجھے خوشی ہونی چاہیے؟ یہ تو آپ نے واقعی غلط بات کی، کہتے ہیں میرے دل میں جو کچھ ہے وہ تو اگر آپ کو پتا چل جائے تو آپ کو پاگل ہوجائیں۔ میں نے کہا خدا خیر کرے بھئی اس کے دل میں کیا ہے؟ خیر کھوج لگایا اور پتا چلا کہ حزب اللہ نامی ایک گروپ کراچی میں ہے جو بہت گستاخی کرتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مشرک کہتے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مشرک کہتے ہیں۔ تو اس قسم کے لوگ ہیں وہ، تو ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کا ہوگیا تھا، میں نے کہا افوہ یہ تو بہت خطرناک ہوگیا، اب میں جتنا سمجھا سکتا تھا وہ نہیں سمجھا سکا، پھر میں نے کہا ان کو بزرگوں کے پاس لے جانا چاہیے، تو اس سے میں نے کہا بھئی آپ تو محقق آدمی ہیں ناں؟ کہتے ہیں ہاں، تو میں نے کہا محقق تو تحقیق کے لیے سفر بھی کرتے ہیں؟ کہتے ہیں ہاں، میں نے کہا آپ ایک چھوٹا سا سفر کرسکتے ہیں؟ کہتے ہیں کہاں کا؟ میں نے کہا پشاور کا، کہتے ہیں کرلوں گا لیکن یہ شرط ہے کہ مغرب کے بعد ٹھہرنا نہیں ہوگا، فوراً واپس۔ میں نے کہا ٹھیک ہے مانا، اچھا ہم چل پڑے، حضرت کا عصر کے بعد بیان ہوتا، مجلس ہوتی تھی، گاڑی ہمارے بس میں نہیں تھی پبلک ٹرانسپورٹ میں جارہے تھے، لیٹ ہوگئے، تو جب پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی گئی تو حضرت نے بات شروع کی تھی، ہم نے نماز اپنی پڑھ لی اور حضرت کی مجلس میں بیٹھ گئے۔ اب بیان کے دوران تو میں کوئی بات نہیں کرسکتا تھا اس کے بارے میں، میرا تو خیال تھا کہ میں حضرت سے اس کا تعارف کراؤں گا۔ تو ممکن نہیں تھا، میرا دل تھا کہ اگر حضرت کا بیان جلدی ختم ہوجائے تو پھر بات کرلوں گا۔ حضرت کا بیان مغرب تک پہنچ گیا، اب تو میں نے کہا کہ شاید اس کی قسمت میں نہیں ہے، بہت تکلیف مجھے ہوئی، نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد پھر ہم روانہ ہونے لگے تو ابھی جوتیوں کی جگہ پہ تھے، مجھے کہنے لگے آپ نے تو حضرت کے بارے میں کچھ مجھے بتایا ہی نہیں۔ یہ تو بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے کہا شاید مجھے چھیڑ رہے ہیں، میں نے کہا اس میں چھیڑنا نہیں ہوتا، کہتا ہے نہیں چھیڑ نہیں رہا بالکل صحیح بات کررہا ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر ہمارے لیے تو معمول کی مجلس تھی آپ نے کیا دیکھا؟ کہتے ہیں معمول کی مجلس نہیں تھی۔ میں نے کہا چلو بتاؤ پھر، کہتے ہیں حضرت کے بیان کو سن کر میرے دل میں ایک اشکال آگیا، اشکالی تو تھے، اشکال آگیا، حضرت نے اس کا جواب دیا۔ میں نے کہا یہ چانس ہے، ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں اس جواب پر مجھے اشکال ہوگیا، حضرت نے اس کا بھی جواب دیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے، اس پر بھی اشکال ہوگیا، حضرت نے اس کا بھی جواب دیا، میں نے کہا یہ تو ممکن نہیں، میں نے کہا یہ کیا ہورہا ہے، ادھر میں اشکال کررہا ہوں ادھر حضرت جواب دے رہے ہیں یہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا چلو لوہا گرم ہے اب چوٹ لگانی چاہیے، میں نے کہا اچھا میں تو آپ کو بڑا ذہین آدمی سمجھتا تھا، آپ تو بہت بودے نکلے، کہتے ہیں کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ مطلب یہ کہ دیکھو کیا آپ کو اس پر یقین نہیں ہے کہ جو تیرے دماغ میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے؟ کہتے ہیں بالکل ہے۔ میں نے کہا کہ کیا تجھے اس پر یقین نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کی زبان پر جو جاری کرنا چاہیے کرسکتا ہے؟ کہتے ہیں مجھے کیا مسئلہ، یہ تو بالکل ٹھیک ہے، تو میں نے کہا خدا کے بندے تیرے دماغ میں سوال آیا، مولانا صاحب کی زبان پر اللہ پاک نے جواب ڈال دیا، کیا مسئلہ ہے اس میں؟ کہتے ہیں ایسا تو ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا بس یہی بات تھی تم لوگوں کے اندر گڑبڑ یہ تھی کہ تم سمجھتے ہو کہ جو کرامت ہے اولیاء کی، یہ ولی کا فعل ہے، ہم اس کو ولی کا فعل نہیں سمجھتے، ہم اس کو اللہ کا فعل سمجھتے ہیں۔ ہاں! ولی کی زبان پر یا ہاتھ پر اس کا اظہار ہوتا ہے، تو تم لوگ جب اس کو ولی کا فعل کہتے ہو تو کنفیوژ ہوجاتے ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ ہم چونکہ اللہ کا فعل سمجھتے ہیں تو ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾9 لہٰذا ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ہمیں تو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ بس اَلْحَمْدُ للہ اللہ پاک نے اس پہ، ما شاء اللہ ہوگیا، حل ہوگیا، تو اس کا مطلب دیکھیں ناں اب یہ جو چیز تھی یہ کیسے ہوا؟ یہ وہ نظام ہے جو اللہ پاک چلاتا ہے کہ جس کو۔۔۔۔ اچھا میں جب حضرت سے بیعت ہوا تھا پہلے دن جب گیا تو اب جو میرے دل کی بات ہے، حضرت اسی پہ بات کررہے ہیں، میں نے کہا کہ میں تو بڑا خوش قسمت ہوں آج سب باتیں اسی پہ ہورہی ہیں جو میرے دل میں ہیں، بڑا خوش قسمت ہوں۔ دوسرے دن گیا دوسرے دن بھی یہ حال، تیسرے دن گیا تیسرے دن بھی یہ حال، آخر میں حیران ہوگیا، میں نے اپنے جو سینئر پیر بھائی تھے ابھی بھی موجود ہیں ڈاکٹر شیر حسن صاحب دامت برکاتھم میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا شیر حسن صاحب یہ تو عجیب بات ہے میں تیسرے دن سے دیکھ رہا ہوں کہ جو میرے دل کی بات ہے حضرت وہی اسی پہ بات کررہے ہیں۔ کہتے ہیں صرف تیرے ساتھ نہیں ہورہا سب کے ساتھ ہورہا ہے، صرف تیرے ساتھ نہیں ہورہا۔ اب یہ جو چیز ہے یہ کون کرسکتا ہے؟ یہ من جانب اللہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اللہ پاک کو سارے دلوں کا پتا ہے اور اچھا پھر یہ combination کہ ہر آدمی کو اپنا اپنا مل رہا ہے، لوگ مختلف ہیں لیکن ہر ایک آدمی کو اپنا اپنا مل رہا ہے یہ combination کون کرسکتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ اب دیکھو میں صاف عرض کرتا ہوں دوسروں کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دوسروں کا تو اپنا اپنا experience ہے، خود اپنی بات بتاتا ہوں، ابھی بات چل رہی ہے ناں، آن لائن چل رہی ہے، انگلینڈ سے فون آیا کہ آج ہمارے ایک سوال تھا اس کا آپ نے جواب دے دیا۔ بھئی انگلینڈ والوں کو۔ چلو میرے سامنے جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ تو face reading سے بھی ہوسکتا ہے، چلو آپ کہہ دیں کہ face reading کی وجہ سے ہوا، لیکن وہ جو ادھر بیٹھے ہیں اس کی face reading کون کررہا ہے؟ وہ تو کوئی نہیں کرسکتا۔ تو اس کا مطلب ہے یہ من جانب اللہ چل رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے جو نظام چلایا ہے اسی کے تحت یہ سارا کچھ ہورہا ہے۔ تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بہت واضح فرمایا ہے، حضرت نے فرمایا کہ تین systems ہیں جو ہمارے حوالے ہیں، ایک نظامِ قلب ہے، ایک نظامِ نفس ہے، ایک نظامِ عقل ہے، ان تینوں کو balance پہ لانا یہ ہمارے ذمے ضروری ہے، یہ ہمیں کرنا ہوگا، اس کی یعنی اصلاح کے لیے۔ اور یہ شیخ کا کام ہوتا ہے کہ اس کو کیسے balance کرتے ہیں، لیکن اسی کو سلوک بھی کہتے ہیں اسی کو سارا کچھ کہتے ہیں۔ جب یہ balance ہوجائے اس کے بعد پھر دو لطائف، دو نظام خود اللہ پاک دیتے ہیں تحفے کے طور پر، ایک ہے نظامِ روح ایک ہے نظامِ سِر۔ جو نظامِ روح ہے وہ قلب کو ملاء اعلیٰ کے ساتھ connect کرلیتا ہے، اور جو نظامِ سِر ہے وہ عقل کو ملاء اعلیٰ کے ساتھ connect کرلیتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ آدمی جو سوچے گا یہ اپنی عقل سے نہیں سوچ رہا بلکہ وہ جو gifted ہے ملاء اعلیٰ کے ساتھ اس کے ذریعے سے سوچ رہا ہے، اس لیے ’’اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ المُؤْمِنِ فَإِنَّهٗ يَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰهِ‘‘10 ہے۔ یہ وہ نورِ اللہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ اور دوسرا جو قلب ہے وہ اس کے ساتھ attach ہے، تو جو چیز مناسب ہو اللہ تعالیٰ اسی وقت اس پہ ڈال لیتے ہیں الہام کے ذریعہ سے، القاء کے ذریعہ سے۔ تو یہ دو نظام اللہ پاک پھر establish کرلیتے ہیں، اور پھر یہ ما شاء اللہ ایسا ہوتا ہے کہ یقین جانیئے ایک continuous نظام ہوتا ہے، یعنی اس میں discontinuity نہیں ہوتی، continuous نظام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور بندوں کی طرف سے اعمال ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے احوال طاری ہوتے ہیں، اور سلسلہ چل رہا ہوتا ہے، اب اگر کوئی اس کو سمجھ لے تو کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ تو میرے خیال میں میں نے آپ کو تو سنایا تھا وہ جو مثنوی شریف کا جو سوال تھا ناں، آپ کو تو سنایا تھا ناں؟ میں ذرا ان کو بھی سنا دیتا ہوں وہ مناسب ہے کیونکہ اس میں یہی چیز سمجھائی گئی ہے۔ یہ مجھ سے ایک بہت سادہ آدمی نے سوال کیا تھا کہ آپ مثنوی شریف کا درس دیتے ہیں تو مجھے اس شعر کا مطلب سمجھائیں، تبلیغی جماعت کے تھے انتہائی سادہ آدمی، میں نے کہا یار اس آدمی شعر کون سا چنا ہے؟ وہ ہے:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

ختم شد واللہ اعلم بالصواب

میں حیران تھا میں نے کہا اس نے کمال کر دیا۔ اس کو تو میں نے جواب دیا پھر اس کے بعد یہ کلام ہوا۔ تو وہ یہ ہے۔

عنوان ہے: جہد کن در بیخودی خود را بیاب


مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب

نفس کی آلائشوں کو دور کر

چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب


مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

 

آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب

 

کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں

اور نہ سنوائے غلط نفسِ خراب

 

 مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب


خود سے تُو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

 

تو سمجھ جائے کہ تُو کچھ بھی نہیں

اور سب کچھ اُس کا ہی ہے لاجواب


 مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

 

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

 

جس میں تو اُس کا ہی ہے اور وہ ترا

ہر وقت سنتا ہو تو اُس کا خطاب


 مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

 

تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب


خود کو پہچانو شبیرؔ کہ کیا ہو تم

ختم شد واللہ اعلم بالصواب


 مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب


اب دیکھیں ناں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی، یعنی ان کی جو ہے ناں حسبِ حال والی بات ہے ناں۔ اب ذکر کرتے ہیں۔



  1. ۔ (الشمس:8) ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔‘‘

  2. ۔ (البقرۃ: 31) ترجمہ: ’’اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھادیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔‘‘

  3. ۔ (التوبہ: 47) ترجمہ: ’’اور خود تمہارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے مطلب کی باتیں خوب سنتے ہیں۔‘‘

  4. ۔ (بیھقی)

  5. ۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 1518)

  6. ۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 1995)

  7. ۔ (البقرة: 30) ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘

  8. ۔ (مریم: 30)

  9. ۔ (البقرہ: 106)

  10. ۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 2127) ترجمہ: مومن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘

حکایتِ بادشاہ و کنیزک اور اخفائے راز - درسِ اردو مثنوی شریف - پہلا دور