اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا رومی جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے اور چونکہ پہلے یہ گزشتہ پندرہ سال میں اَلْحَمْدُ للہ اس کا جو فارسی حصہ ہوچکا ہے تو آج کل اس کا جو منظوم ترجمہ ہے اس سے ماشاء اللہ تعلیم ہورہی ہے، تو اس میں ایک step گویا کہ کم ہوگیا کہ بجائے فارسی کے ترجمہ کے پھر اس کے بعد تشریح کی بات ہو تو اب اَلْحَمْدُ للہ براہ راست وہ اردو سے ہم اس کی تشریح کرسکتے ہیں۔ گزشتہ واقعہ چل رہا ہے۔
حضرت کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حکایت کے ذریعہ سے بہت مفید مضامین بیان فرماتے ہیں، بہت مفید مضامین تو ایک حکایت چل رہی ہے کہ ایک بادشاہ اس کی ایک کنیز تھی اس کو بہت پسند تھی لیکن وہ بیمار ہوگئی بہت زیادہ اور کوئی بھی شخص اس کا علاج نہیں کر پا رہا تھا نہیں ہوسکتا تھا ان سے تو پھر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگیا تو پھر اللہ پاک سے دعا کرتے رہے، تو اللہ پاک نے ان کے دل پہ ایک بات طاری کردی کہ ایک آئے گا مطلب جو ہے ناں وہ حکیم وہ ماشاء اللہ مردانہ اس کا علاج کرے گا تو ان کے بارے میں پتا کیا تو پھر ان کو بلایا تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ ان کا استقبال کیا بہت زیادہ ان کا اکرام کیا اور پھر بعد میں اس نے تشخیص کے لئے نبض دیکھی تو پتا چلا کہ گزشتہ جتنے لوگوں نے بھی اس کا علاج کیا ہے ٹھیک نہیں کیا، تو انہوں نے کہا کہ علاج تو ہوا ہی نہیں اس کا تو تشخیص ہی صحیح نہیں ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پھر؟َ انہوں نے کہا کہ پھر مجھے تشخیص کرنا چاہئے لیکن تشخیص کے لئے مجھے ذرا اس مریض کو دیکھنا پڑے گا نبض دیکھنا پڑے گا تو انہوں نے تخلیہ کا بھی انہوں نے کہا۔ تو پھر اس کے بعد انہوں نے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ وہ نبض شناس تھے تو نبض پہ ہاتھ رکھا تھا اور ان سے پوچھتے جاتے تھے کہ کہاں کہاں تو رہی ہے اور کیا کیا ہوا ہے اور اس سے جو ہے ناں مطلب نبض پہ مسلسل ہاتھ رکھ رہے تھے تو یہ سلسلہ چل رہا تھا،
40
سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان
غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں
اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایت کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے،
براہ راست الفاظ سیدھے سیدھے میں ٹھیک نہیں کیونکہ بعض لوگوں کو پیغام پہنچانا ہے، بعض لوگوں کو نہیں پہنچانا یہ تصوف کا بھی بنیادی وہ ہے کہ بعض لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے، تو ان کو اگر ان مضامین کا پتا چل جائے تو اس کو misuse کرتے ہیں، غلط استعمال کرتے ہیں، نتیجاً ایک فساد آجاتا ہے تو اس وجہ سے جو اس کے اہل ہوں ان تک تو بات پہنچانی ہے اور جو اہل نہیں ہیں ان سے بات چھپانی ہے یہ بات ہے
تشریح:
اس شعر میں مثنوی شریف کے اس اندازِ خاص کی طرف اشارہ ہے جو اس میں اول سے آخر تک چلا گیا ہے، یعنی اسرارِ سلوک کو مستقل اور واضح عنوانات کے نیچے رکھ کر اس پر خاص بحث و تمحیص نہیں کی۔ جیسا کہ دیگر کتبِ فن کا طریقہ ہے۔ بلکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ طوطی و زاغ اور شیر و خرگوش وغیرہ اشیاء کی کہانیوں کے ضمن میں بلا تخصیصِ مواقع وہ، وہ اسرار و رموز بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ جنہوں نے اس کتاب کو فتوحاتِ مکیہ اور مکتوباتِ امام ربانی سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا، اور ذوقی و حالی چاشنی میں ان سے بڑھا دیا ہے۔
دیکھیں! اس پر ایک بات بتاؤں بہت اہم بات ہے medical point of view سے ہر دوائی کا ایک critical organ ہوتا ہے جیسے iodine کے لئے thyroid ہے iodine انسان جس چیز میں بھی ہوگا کھائے گا تو سیدھا پہلے thyroid میں جائے گا تو thyroid کا علاج پھر iodine کے ذریعہ سے ہوتا ہے تاکہ وہ چیز تو جو critical organ ہوتا ہے اس تک وہ دوائی آسانی سے پہنچتی ہے، تو دل کی جو دوائی ہے وہ دل کو مطلوب چیزوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے تو دل کو مطلوب چیزیں وہ کیا ہیں وہ خوش آوازی ہے اور تناسب ہے اور اس طرح مطلب گویا کہ شعری انداز میں، کیونکہ نثر جو ہوتا ہے وہ جو ہے ناں دماغ پہ زیادہ اثر کرتا ہے اور شعر جو ہے دل پہ زیادہ اثر کرتا ہے، ہاں جی تو ظاہر ہے مطلب اشعار میں اگر یہ چیز بیان کی جائے جو حقیقتیں ہیں حکایت کے تو ظاہر ہے دل کو زیادہ appeal کرتی ہیں اس پر عجیب ایک اور واقعہ بیان کروں ڈاکٹر حمید اللہ فرانس کے مشہور سکالر ہیں، وہ ایک عجیب بات کہہ رہے ہیں میں ابھی ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے ان کی quotation آئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں خود عقلیت پسند لوگوں میں سے عقلیت پسند لوگوں میں سے ہوں، یعنی میں چونکہ scholar تھے scholar تو عقلیت پسند لوگ ہوتے ہیں تو لیکن میں نے مطالعہ کیا کہ یورپ میں اسلام جو پھیلا ہے کیا یہ عقل کے ذریعہ سے پھیلا ہے یا دل کے ذریعہ سے پھیلا ہے، ہاں جی کہتے ہیں میرا نتیجہ بالکل الٹ نکلا کہ جو بھی مسلمان ہوا وہ دل کے ذریعہ سے مسلمان ہوا کوئی دل کی بات ان کے سامنے آئی ہوئی ہے جس سے انہوں نے وہ inspire ہوگئے تو پھر انہوں نے سوچنا شروع کیا اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ بات مجھے خود الفریڈ صاحب جو جرمنی کے ہمارے دوست تھے نومسلم بھائی انہوں نے یہ بات بالکل exactly یہ بات کی، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے مسلمان ہوئے؟ کہتے ہیں یہ سوال تو مجھ سے اکثر لوگ کرتے ہیں لیکن میں کسی scholar کے article پڑھ کر مسلمان نہیں ہوا ہوں کسی اور کے فلسفہ یا کوئی اس قسم کی بات سن کے مسلمان نہیں ہوا بلکہ چند واقعات تھے جس کی وجہ سے اسلام کو میں نے دیکھ لیا، پہلا واقعہ اس نے یہ بتایا کہ انڈیا میں میں کام کررہا تھا یہ architect تھے مکانوں کے جو نقشے بنانے والے ہوتے ہیں انجینئر تھے تو کہتے ہیں وہاں میں کام کرتا تو میں گاڑی کے ذریعہ سے آرہا تھا جرمنی، تو عراق سے اس وقت گزر رہا تھا روڈ تھا روڈ پہ تھا تو ایک آدمی اس طرح والہانہ ہاتھ اس طرح اس طرح کررہا ہے کہ جیسے رک جاؤ رک جاؤ تو میں نے کہا کہ پتا نہیں کوئی پریشانی میں ہوگا تو اس کے لئے میں نے گاڑی کھڑی کی تو اس نے کہا کہ ڈگی کھولو میں نے کہا کہ کیوں؟َ تو اس کے ساتھ بہت سا اناج تھا تو کہتے ہیں یہ میں آپ کو دینا چاہتا ہوں، ڈگی کھولتے ہی وہ ڈالتا گیا اور میرا شکریہ بھی ادا کرتا کہ اچھا ہوا کہ آپ آگئے ورنہ میں یہ کس کو دیتا یہ خیرات نکالنا چاہتا تھا، تو راستہ پہ چلنے والے سے بہترین مصرف کیا ہوسکتا ہےَ؟ اور کہتے کہ رو بھی رہا تھا میں نے کہا کہ عجیب آدمی ہے دے بھی رہا ہے اور رو بھی رہا ہے یہ کون سا طریقہ ہےَ؟ کہتے ہیں یہ پہلی بات تھی جس نے مجھے click کیا۔ ہاں جی دوسری بات ایسی ہوئی تھی کہ ایک ترک عالم تھے تو اس کو کسی نے خوشبو offer کی تو اس نے کہا کہ ہاں ہاں میں تو ضرور لوں گا کیونکہ آپ ﷺ اس کو خوشبو کے ہدیہ کو واپس نہیں فرماتے تھے اور آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہوگئے، میں نے کہا کہ یہ کون سا شخص ہے جس کا نام سن کر آدمی رو پڑتا ہے یہ کیا بات ہے ہاں جی تو کہتے ہیں کہ یہ دوسری بات تھی۔ اور تیسری بات یہ پھر اس کے بعد مجھے کسی نے قرآن دے دیا ہاں جی German زبان میں translated اس کو میں نے پڑھا تو بس میرے اوپر بات کھل گئی اور میں پھر مسلمان ہوگیا، بیوی کو مسلمان کیا اب دیکھو اس نے کہا کہ میں کسی کے lecture وغیرہ سے نہیں ہوا تو یہی بات ڈاکٹر حمید اللہ فرانس کے جو scholar تھے وہ بھی کہہ رہے تھے کہ زیادہ تر لوگ جو مسلمان ہوئے ہیں وہ لیکچروں سے مسلمان نہیں ہوئے ہیں، وہ کسی کے ماشاء اللہ بات کو دیکھ کر جذباتی طور پر inspire ہوئے ہیں اور اس کے ذریعہ سے مسلمان ہوئے ہیں کہتے ہیں دل کا element اس میں بہت زیادہ ہے تو اگر یہ بات ہے تو پھر مثنوی شریف میں دل کا element زیادہ ہے، اس میں دماغ کی باتیں کم ہیں اس میں دل کو appeal کرنے والی باتیں زیادہ ہیں اس وجہ سے باتیں وہی آپ حضرات دیکھتے ہیں کہ کیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں اس میں سے نکل آتی ہیں اور مطلب جو ہے ناں وہ یہ اس طرح شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں نکل آتی ہیں اور بھی مختلف، لیکن اپنے انداز میں جو چیزیں حضرت مجدد صاحب مکتوب میں بیان کررہے ہیں وہ یہاں پر حضرت کسی حکایت کے ذریعہ سے بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جس نے کہا کہ ناں کہ جنہوں نے اس کتاب کو فتوحات مکیہ اور مکتوبات ربانی سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا کیونکہ چیزیں اس میں آگئی اور ذوقی اور حالی چاشنی بھی ان سے بڑھا دیا ہے ہاں جی تو یہ بات ہے
41
بولی بول اب اور مجھ کو نہ ستا
کر بیان بے کم کاست بلا اخفا
42
خوب بیان کردینا رمز مرسلین
صاف صاف کردو بیاں اب رازِ دین
اب یہاں پر ایک عجیب بات ہے یہ دیکھیں ناں! بات حکایت سے نہیں آرہی اب حضرت نے حکایت سے جو conclude کیا وہ بیان کیے جارہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اب بتاؤ ناں مجھے کیوں ستا رہے ہو چپ کیوں ہو ہاں جی جو آپ کو سمجھ آرہا ہے وہ سب مجھے سمجھا دو یہ روح کی بات چل رہی ہے ناں ظاہر ہے وہ کہ رہی ہے اور مجھے رمز مرسلین بتا دو، ہاں اب جو اس میں راز دین کے راز ہیں وہ مجھے سمجھا دو تو۔۔۔
اسرارِ مرسلین سے مراد وحدۃ الوجود کا راز ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کی تعلیم دی ہے اور اس کے معنی ہیں "لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ" اور دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہے کہ جو ذات جمیعِ کمالات میں متفرّد ہو اس کا معبود ہونا لازم ہو سکتا ہے اور لازم کی نفی کے لیے ملزوم کی نفی لازم ہے، تو غیر اللہ کے استحقاقِ عبادت کی نفی سے، جو "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلول ہے، یعنی اس سے ثابت ہوتا ہے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا انفراد فی الکمالات منفی ہو اور یہ مدلول ہے وحدۃ الوجود کا، اس لحاظ سے وحدۃ الوجود "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلولِ التزامی ٹھہرا اور ملزوم کی تعلیم میں اشارۃً لازم کی تعلیم بھی ہو گئی، کیونکہ "اَلشَّیْءُ اِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِہٖ" مسلّمہ اصول ہے۔ یہ منطقی باتیں ہیں ہاں جی اس اعتبار سے اس کو اسرارِ مرسلین فرمایا ہے اور چونکہ یہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلول مطابقی نہیں، اس لیے رمز و اسرار کہا (کلیدِ مثنوی)
تشریح:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اب دیکھو ناں! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہ اصل میں تو کیونکہ الہ معبود کو کہتے ہیں ہاں جی لیکن معبود یہ فرمایا کہ معبود وہ ہوسکتا ہے جس کا کمالات میں کوئی اور شریک نہ ہو مطلب یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہ ہو تبھی وہ معبود ہوسکتا ہے، کیونکہ اب تمام لوگوں سے تمام چیزوں سے اپنا رخ ہٹا کر صرف ایک کے جب بن جائیں تو وہ معبود ہوسکتا ہے کہ آپ اس کو سجدہ کررہے ہیں یعنی اپنی نفی کررہے ہیں، کیونکہ اپنی نفی تو سب سے اخیر میں ہوتی ہے ناں، باقی چیزوں کی نفی تو پہلے ہوتی ہے تو آپ نے اپنی نفی کرلی کہ اس کے سامنے گر گئے، تو یہ کوئی بات تو نہیں آسان تو مطلب یہ ہے کہ یعنی یہاں پر کہتے ہیں اَلشَّیْءُ اِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِہٖ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ یہ ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ جل شانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے حقیقت میں حقیقت میں، کیونکہ باقی چیزیں بالکل کالعدم ہیں ان کی کوئی حیثیت تو یہ وحدت الوجود ہے ناں تو مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہے کہ فی الحقیقت جیسے دیکھو ناں ہمیں جو بتاتے ہیں بزرگ وہ کیا فرماتے ہیں؟ مبتدی کے لئے لَا معبود اِلَّا اللّٰہ، متوسط کے لئے لَا مقصود اِلَّا اللّٰہ، منتہی کے لئے لَا موجود اِلَّا اللّٰہ، تو پھر وہی بات ہوگئی ناں جو منتہی ہے وہ جانتا ہے کہ اور کوئی نہیں ہے ہاں البتہ یہ بات ہے کہ جو ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے دوسروں کا وجود اس کے موجود ہونے سے ہے، دوسروں کا وجود اس کے موجود ہونے سے ہے کسی کا وجود بذاتہٖ نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات کیوں اب کوئی فرق رہ گیا کسی کا وجود بذاتہٖ نہیں ہے ہاں جی جیسے ہم کہتے ہیں بھئی سایہ اگر ہے تو سورج کی وجہ سے ہے، سورج نہ ہو تو سایہ کیسے ہوگا؟ تو سایہ کی کیا حیثیت ہے ٹھیک ہے ناں تو مطلب یہ ہے کہ یہاں پر جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے وہ اس لئے اس کو فرمایا کہ اس کو یعنی اسرار مرسلین کہا، کہ سارے انبیاء کرام یہی بات بتا رہے ہیں یہی بات، کیونکہ جو چیزیں تمام انبیاء میں common ہیں ان میں توحید ہے رسالت ہے اور آخرت ہے مطلب وہ سب جو ہے ناں اسی کی دعوت دیتے آرہے ہیں ٹھیک ہے ناں تو یہاں پر یہ والی بات ہوگئی۔
43
پردہ اس اسرار سے اٹھا ذرا
اس کو تمثیلات سے نکلوا ذرا
سبحان اللہ
: پردہ (خفا) اٹھا دے اور صاف صاف (پوست کندہ) بیان کرجو صحیح بات ہے، کیونکہ (میں اسرارِ دلبر کو تمثیلات و حکایت کے پردے میں سننا پسند نہیں کرتی روح کہہ رہی ہے گویا شوقِ تواصل کے سبب) میں معشوق کے ساتھ پیرہن سمیت اپنی گنجائش نہیں پاتی (اس میں اور مجھ میں قمیص تک کی بھی آڑ نہ ہونی چاہیے) مطلب: وہی اسرارِ وحدت کے بیان کا تقاضا ہو رہا ہے۔
تشریح:
یعنی اب درمیان میں مجھے مثالیں کیوں دیں؟ مثالوں کی کیا حیثیت ہے اب مجھے مثالوں سے پاک چیز چاہئے براہ راست چیز چاہئے مطلب جو مجھے اس کے ساتھ واصل کردے
اور اس کو اس قدر صاف و صریح پیرائے میں سننے کا شوق ہے کہ تمثیلات و حکایت بھی گویا بمنزلۂ پیراہن ہیں، جس کی آڑ لطفِ وصل میں مخلّ ہے۔
44
بولا میں اس کو کیا عریاں تو
تو تیرا کچھ بھی پھر سالم نہ ہو
اگر میں نے اس کو عریاں یعنی تمام چیزوں سے وہ کرلیا تو پھر تو بھی سالم نہیں رہے گا مطلب میں نے اس کو کہا یہ ممکن نہیں ہے میں جو اس طرح بیان کرلوں
اس رازِ مکنون کے اظہار سے تیری حالت زیر و زبر ہو جائے گی،
نہ تو رہے گا نہ تیری بات رہے گی ہاں جی اس وجہ سے میں مجبور ہوں کہ میں اس کو یعنی ایسے ہی رہنے دوں جیسے کہ ہے
45
مانگ خوب لیکن ہویہ اندازے سے
گھاس کا پتہ پہاڑ اٹھا سکے؟
46
جیسے سورج کچھ اگر آگے بڑھے
تو زمین پر سارا کچھ اس سے جلے
تشریح:
بھئی تو سورج کی تپش کو نہیں سہہ سکتا، روشنی کو برداشت نہیں کرسکتا، تو مجھے بتاؤ اس تجلی کو جو کہ تجلی عام ہے اس کو کیا برداشت کرو گے؟ لہٰذا چپ رہو مطلب آگے نہ بڑھو ایسی چیز نہ مانگو جو برداشت نہیں کرسکتا۔ ہاں جی یہ باتیں ہے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ایک دوست تھے پیر بھائی تھے اللہ تعالیٰ وہ جو ہے ناں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے چند دن پہلے پتا چلا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں مجھے پہلے پتا نہیں تھا، ہمارے حضرت انجینئر عبدالقدوس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے شیخ کے بڑے مطلب جس کو کہتے ہیں خلیفہ بھی تھے اور لیکن ایک قسم کے بہت لاڈلے تھے اپنی سادگی کی وجہ سے سادگی بہت تھی انجینئر تھے، وزیرستان کے علاقہ کے تو حضرت ان کو پیار سے لشکی خان کہتے تھے لشکی پشتو میں وہ جو وزیرستان والی زبان لشکی تو کہتے تھے تو حضرت اس کو لشکی خان کہتے تھے تو ایک دفعہ حضرت سے کہا عجیب شخصیت تھے تو حضرت بیمار تھے اور بیماریاں بہت زیادہ تھیں تو ویسے تو حضرت محفل میں برداشت کیے جاتے تھے لیکن جس وقت محفل ختم ہوجاتی پھر فریادیں بھی ہوتیں اور تکلیف بھی ہوتی تو حضرت سے کہہ رہے ہیں کہ کمال ہے سب لوگوں کو آپ دم کرتے ہیں وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں اپنے آپ کو کیوں نہیں دم کرتے؟ آپ خود کیوں ٹھیک نہیں ہوتے ہاں جی تو ڈاکٹر شیر حسن صاحب موجود تھے ان کو کہا حضرت نے آپ کو پتا ہے ناں یہ کون ہے؟ یہ لشکی خان ہے یعنی اس کو اس قسم کی بات کہنے کی اجازت ہے یہ کرسکتا ہے پھر فرمایا بیٹا یہ میں نہیں کرتا یہ تو اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ جب کوئی کام کرنا چاہیں تو اس کے لئے ذریعہ بنا دیتا ہے اور جب نہیں کرنا چاہے تو کوئی ذریعہ بھی کامیاب نہیں ہوتا، ہاں جی تو ان کو یہ بتایا تو اس کے ایک حضرت کے ساتھ محبت بہت زیادہ تھی تو وہ بات اس نے سوچی جو ہم نہیں سوچ سکتے تھے۔ ہاں جی تو ایک ہمارے حضرت کے خلیفہ تھے مولوی محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ بھی فوت ہوگئے ہیں وہ یہ ان میں بہت آگے تھے عملیات کی لائن میں حضرت نے ان کو ذرا اس معاملہ میں رکھا تھا توعملیات کی لائن میں بہت آگے تھے ان سے کہا کوئی ایسا تعویز مولانا صاحب پر میں کرسکتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ محبت کرے یعنی محبت کی تعویز اس پہ کرسکتا ہوں تو مولوی یوسف صاحب نے ان سے کہا ہاں کرسکتے ہو ہوسکتا ہے لیکن برداشت نہیں کرسکو گے، پھر برداشت نہیں کرسکو گے تو مطلب یہ ہے کہ واقعتاً یہ والی بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہوسکتی ہیں لیکن برداشت نہیں ہوسکتیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا کہا تھا پھر دیکھو اس پہاڑ کو ہاں جی کہ اس کو کیا ہوتا ہے پھر بتانا، تو پھر جب پہاڑ کے اوپر تجلی ڈال دی تو پھر کیا ہوا پہاڑ کے ساتھ؟ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور ساتھ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو فوراً کہا کہ میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں ہاں جی توبہ کرتا ہوں تو مطلب یہ ہے کہ۔۔۔۔
46
جیسے سورج کچھ اگر آگے بڑھے
تو زمین پر سارا کچھ اس سے جلے
اگر حدِ ادب سے بڑھ جائیں تو وصال وبال بن جاتا ہے۔ مثلًا سورج کہ دور سے اس کا نُور فرحت بخش ہے، اگر وہ قریب آ جائے وہ عذابِ نار بن جائے
تشریح:
اس کی ایک اور مثال دیتا ہوں چاند سائنسدان اس کو بتاتے ہیں کہ اس کے اوپر گڑھے ہیں بڑے بڑے گڑھے ہیں، ہاں جی اگر یہ گڑھے نہ ہوتے تو چاند ایک مصیبت ہوتی کیسے ہاں جی اگر یہ گڑھے چاند پر نہ ہوتے تو اس کے اوپر جو روشنی منعکس ہوتی سورج کی وہ آئینہ کی طرح منعکس ہوتی لہٰذا کچھ جگہوں پہ اتنی روشنی ہوتی جیسے آئینہ کی روشنی کاغذ پر پڑتی ہے تو کیسے ہوتی ہے اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ناں؟ اس میں تو بالکل سورج نظر آتا ہے تو جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، نہ اس میں سو سکتا ہے آدمی اور باقی جگہ بالکل اندھیرا ہوتا ہے، ہاں جی آپ بیٹری جب لاتے ہیں تو بیٹری میں صرف وہی جگہ روشن ہوتا ہے ناں مطلب اور جگہ تو روشن نہیں ہوتا تو اس طرح مطلب ہے کہ چاند ایک مصیبت بن جاتا، کچھ لوگ اس سے بے آرام ہوجاتے اور کچھ لوگوں کا فائدہ نہ ہوتا وہاں اندھیرا ہوتا تو اب یہ جو جس کو ہم کہتے ہیں ایک ہوتا ہے regular reflection ایک ہوتا ہے irregular reflection یعنی مطلب یہ ہے کہ باقاعدہ reflection نہیں ہے کوئی rays اس طرف جارہا ہے کوئی اس طرف کوئی اس طرف کوئی اس طرف مطلب مختلف directions میں rays جارہی ہیں نتیجاً وہ جو روشنی diffuse ہوگیا. diffuse ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مختلف جگہوں پہ تقسیم ہوگیا ایک جگہ نہیں آیا، بلکہ مختلف جگہوں تو بہت ساری جگہوں کو روشنی مل گئی اور تکلیف کسی کو بھی نہیں ہوئی تکلیف کسی کو بھی نہیں ہوئی، تو یہ مطلب گویا کہ اس irregular روشنی کا ایک فائدہ ہمیں ہوا چاند کی صورت میں تو اس طریقہ سے مطلب اللہ پاک نے جو نظام رکھا ہے تو اس پہ انسان اکتفا کرلے، اس کو اگر اپنے خیال میں ٹھیک کرنا چاہے تو وہ ٹھیک کرنا ہمارے لئے وبال بن جاتا ہے یہی ہماری سائنس کے ساتھ ہورہا ہے آج کل بالکل صرف وہ موبائل جس نے بھی ایجاد کیا تو پتا نہیں کس نیت سے ایجاد کیا لیکن اب وبال جان ہے یا نہیں ہے کتنا وقت لوگوں کا ضائع کررہا ہے، ہاں جی اس طرح یہ جو ہے ناں مطلب یعنی جتنے بھی ہمارے scientific چیزیں ہیں جیسے AC ہے یا دوسری چیزیں مطلب وہ اس کے ساتھ اس کی مصیبتیں لگی ہوئی ہیں، مطلب اس کے ساتھ بے شک راحت بھی ہو لیکن اس راحت کے ساتھ مصیبت بھی لگی ہوتی ہے اس کے ساتھ مسائل بھی ہوتے ہیں، تو یہ ہوتا ہے اب یہ گاڑیاں ہیں ناں گاڑیوں میں لوگ چلتے ہیں تو بعد میں ان کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب دوڑو اب بھاگو اب جو ہے ناں مطلب exercise کرو کیونکہ ظاہر ہے وہ قدرتی exercise تو ہے نہیں چلنے پھرنے والی، نتیجاً اب جو ہے ناں وہ مطلب وہی ہے جو زبردستی والی exercise ہے وہ لوگوں کو کرنا پڑتی ہے ہاں جی پہلے تو بازار سے سودا سلف لاتے تو اور اسی میں ہی exercise ہوجاتا، ہاں جی سارا کام خود کرتے اب عورتوں کو بیماریاں کس لئے ہوتی ہیںَ؟ واشنگ مشین موجود ہے، ہاں جی اس طرح مطلب جو ہے ناں وہ گیس موجود ہے فلاں چیز موجود ہے فلاں چیز موجود ہے اب وہ سارے کام ان کے بغیر تکلیف کے ہورہے ہیں تو بس ٹھیک ہے بیماریاں ان میں store ہورہی ہیں بیماریوں کے store بن رہے ہیں ہاں جی تو پھر وہ کیا کریں دیکھو! مطلب یہ ہے کہ جو ہماری آسانیاں ہیں وہی ہمارے لئے مصیبت بن رہی ہیں، جو قدرتی زندگی ہے اس قدرتی زندگی میں بہت ساری چیزوں کا خود علاج ہوجاتا ہے۔ ایک اور بات بتاتا ہوں یہ ہمارے ڈاکٹر حضرات جو ہیں ناں یہ دوائیاں بناتے ہیں ناں تو جس کو کہتے ہیں یہ اس کا اصل چیز ہے جس کی وجہ سے اس کا فائدہ ہورہا ہے اس کو اس چیز سے نکال کے آپ کو گولیوں میں پہنچا دیتا ہے، ٹھیک ہے وہ چیز آپ کو فائدہ تو دیتی ہے لیکن اس کا جو نقصان ہے اس کو دور کرنے کے لئے دوسری چیزیں تھیں وہ آپ نے نہیں لیں تو پھر کیا ہوگیا؟ آپ نے فائدہ لے لیا لیکن اس کے ساتھ اس کا نقصان بھی لے لیا ٹھیک ہے مطلب جیسے ہماری گندم ہے گندم سے آپ وہ نکال لو چھلکا نکال لو تو پھر وہ آٹا کیسا ہوتا ہے معدہ، نقصان ہوتا ہے ناں مطلب ظاہر ہے اس سے قبض ہوتا ہے اور مختلف قسم کی تو یہ کیا چیز ہے قدرتی چیز جو ہوتی ہے اس کو اگر آپ نے غیر قدرتی بنا دیا تو اس کے ساتھ پھر مسائل ہوتے ہیں۔
47
سی لے لب اور آنکھیں بھی بندکرے
خون عالم کا نہ اس سے ہو چلے
اگر یہ راز ظاہر ہو جائے تو عالم نابود ہو جائے۔ دریا اپنی ہستی میں نمودار ہو تو موج و حباب کہاں رہیں؟
ترجمہ: اس سے زیادہ (اس قسم کے) آشوب و خونریزی کے درپے نہ ہو۔ اس سے آگے شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ چھیڑ۔
48
اس قسم کی خونریزی چھوڑ دے
شمس کے اب ذکر سے رخ موڑ دے
جب شمسِ ظاہری کے انوار کی تاب نہیں، جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے، تو شمس معنوی یعنی شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے انوار یا رازِ وحدت الوجود کی تاب کب ہوگی۔ پس اس کے بیان کے لیے اصرار نہ کر، کہ اس میں فتنۂ آشوب ہے۔
یہ سب باتیں حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہورہی تھیں
49
اس کا آخر کب ہو اس کو چھوڑ دے
اب قلم باقی کے جانب موڑ دے
تشریح:
یعنی اپنی یہ بات ختم کرلو اور آگے چلو تو یہاں پر یہ حکایت ختم ہوگئی اب دوسری حکایت ان شاء اللہ شروع ہورہی ہے
دفتر اول حکایت نمبر 7
طبیب کا کنیزک کی بیماری کی تشخیص کے لیے بادشاہ سے خلوت کی درخواست کرنا
اب حکایت کی طرف دوبارہ آگیا
1
اصلی بات سے وہ حکیم آگاہ ہوا
کشف سے آشکار رازِ شاہ ہوا
تشریح:
وہ حکیم صاحب کشف بھی تھے، کشف بھی ایسی چیز ہے انسان حیران ہوجاتا ہے یہ تو حکیم ہے ناں حکیموں کے کشف تو پھر بھی کوئی بات ہے ہاں جی چلو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن میں آپ کو ایک ایسے صاحب کا واقعہ بتاتا ہوں جو پشتو کا پروفیسر تھا پشتو کا اور ٹیلی ویژن درست کرتا تھا کشف کے ذریعہ سے، کیونکہ اس کو کشف ہوتا تھا تو کشف ہوتا پتا چلتا تھا کہ کیا اس میں مسئلہ ہے تو اس کو اصول اصول کچھ پتا نہیں ہوتے تھے کیونکہ ظاہر ہے پشتو کے پروفیسر کو سائنس کا کیا پتا؟ ہاں جی وہ کشف کے ذریعہ سے جو ہے ناں مطلب ٹیلی ویژن ٹھیک کرتا تھا، اب اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا کہ کشف کوئی ضروری نہیں کہ اچھی چیز ہو اب کشف سے ٹیلی ویژن کو ٹھیک کرنا اچھا کام ہے برا کام ہے؟ تو یہ مطلب یہ والی بات نہیں کہ جو صاحبِ کشف ہو تو وہ ٹھیک ہی ہو ہندوؤں کو بھی کشف ہوجاتا ہے، ہاں جی پنڈت وغیرہ نہیں ہوتے جو جوگی ان کو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ان کو بھی کشف ہوجاتا ہے، تو اس طرح اور لوگوں کو بھی کشف ہوجاتا ہے یہ کشف کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ بس بزرگی کی بات ہو یہ ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا جس نے کتاب لکھی تھی کفر توڑ یہ پہلے مسلمان تھا پھر بعد میں کافر ہوگیا تھا، پھر مطلب یہ ہے کہ پھر دوبارہ اَلْحَمْدُ للہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق عطا فرمائی مسلمان ہوگیا تو اس نے جو کفر میں جو تجربات کیے تھے اس کے اوپر کتاب لکھی کفر توڑ، اس کو کشف ہوتا تھا کفر کے زمانہ میں بھی حضرت نے اس سے یہ بات ثابت کی ہے اس کو کفر کے زمانہ میں زبردست کشف ہوتا تھا، انگلینڈ گیا تھا تو وہاں پر یہ بات تھی کہ ان کا یہ بات مشہور ہوگئی تھی کسی کی جیب میں کوئی بھی تحریر لکھی ہو وہ اس کو پڑھ لیتا تھا اور پھر بتاتے تو اس کو check کرنے کے لئے کافی لوگ مطلب آتے تھے طریقہ اس کا یہ ہوتا تھا کہ وہ اس کو خود پتا نہیں ہوتا کہ اس کے اوپر کیا لکھا ہے وہ لکھنا شروع کرلیتا اور اس کا قلم وہی لکھتا جو اس پہ لکھا ہوتا تھا تو اس کو پہلے سے پتا نہیں ہوتا تھا بس اس وقت قلم لکھنے سے مطلب اس کو پھر تو جس وقت وہ لکھ لیتا پھر اس کے بعد خود پہلے پڑھتا پھر اس کو بتاتا کہ اس پر یہ لکھا ہوا ہے ادھر یہ لکھا ہوا ہے، تو ایسا ہوا کہ میم آئی اس نے کہا کہ آپ کا یہ بڑا مشہور ہے تو میری جیب میں ایک letter لکھا ہوا ہے اس پہ کیا لکھا ہوا ہے؟ تو اس نے سر جھکا لیا اور لکھنا شروع کیا کون بتانے والا ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہاں جی لکھنا شروع کردیا جب لکھ کر پورا document لکھا تو پھر پڑھا کہتے ہیں میں سنا دوں یا آپ خود پڑھنا چاہیں گی؟ اس سے اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اس عورت کے چہرے کا رنگ اڑ گیا جس طرح وہ اس نے کہہ دیا میں سنا دوں یا آپ خود پڑھیں گی، انہوں نے کہا نہیں مجھے دے دو تو اس نے دیکھ کر پڑھا تو وہ کہتی ہیں یہ راز میرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا جو میں نے اس پر لکھا تھا یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ مطلب آپ guess کرلیں کہ میں نے یہ لکھا ہوگا یعنی میرے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا تو کہتی ہیں کہ میں مانتی ہوں، ہاں جی تو وہ شخص یعنی کفر کے زمانہ کا یہ کشف تھے تو اس کا مطلب ہے کہ کشف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو آپ بزرگی سمجھیں ہاں فن ہے کمال ہے اس سے انکار نہیں ہے اگر ایک کافر کو کوئی مثال کے طور پر جو ہے ناں بہت زیادہ وزن اٹھا سکے تو میں اس کے کمال سے انکار کروں گا میں کہوں گا کمال ہے لیکن مسلمان نہیں ہے، کمال ہونے میں کوئی انکار نہیں ہے مطلب ظاہر ہے کسی چیز کے پاس کوئی کمال ہو تو اس سے کون انکار کرے گا اور کرنا بھی نہیں چاہئے ہاں جی تو یہ بات مطلب اس طرح ہے کہ وہ کشف سے اس حکیم نے معلوم کردیا کہ مسئلہ کیا ہے
2
بولے اے شاہ خالی کر دیں خانہ اب
کیجئے باہر خویش و بیگانہ اب
تشریح:
یعنی جو بھی ہے چاہے اس کے رشتہ دار ہے چاہے وہ دوسرے ہیں سب کو نکال دو یہ مطلب اس سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
3
پوچھنا کچھ کنیز سے خلوت میں ہے
سب سے اخفا اس کی مصلحت میں ہے
تشریح:
میں نے اس سے کچھ خاص باتیں پوچھنی ہیں جس میں اسی کی مصلحت ہے، اگر یہ تخلیہ نہیں ہوگا راز کسی پہ ظاہر ہوجائے تو مصیبت بن جائے گی، ہاں جی اس وجہ سے میں اس کو تخلیہ میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں یعنی یہ جو چونکہ اس کو تشخیص مطلب پتا چل گیا تھا کشف سے کہ عشق کا مسئلہ ہے تو اور اس کو کسی اور کے سامنے ظاہر تو کر نہیں سکتے تھے تو اس وجہ سے جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ۔۔۔۔ یہ ہمارے دوست تھے ڈاکٹر سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ پیر صاحب تھے، یہ نہیں ہوتے جو صاحبزادگان صاحب ہوتے ہیں ان میں عجیب عجیب صاحبان ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس تو سب لوگ آتے ہیں بیمار ہوتے تھے بیمار تو کوئی بھی ہوسکتا ہے پھر آتے تھے، تو ہمارے ساتھ کہتے ہیں کہ پیر صاحب آئے تو میں نے اس کا check-up کیا تو میں نے اس سے کہا کہ ڈاکٹر سے تو کوئی بات تو نہیں چھپائی جاتی ناں کہتے ہیں ہاں ڈاکٹر سے کوئی بات نہیں چھپائی جاسکتی کیونکہ پھر علاج ہی نہیں ہوتا، کہتے ہیں کہ آپ چرس پیتے ہیں؟ کہتے ہیں ہاں پیتا ہوں ہاں جی تو مطلب یہ ہے کہ اب اس میں بات ہوتی ہے کہ ڈاکٹر جو ہوتا ہے وہ بیمار سے کچھ بھی پوچھ سکتا ہے کیوں وجہ کیا ہے وہ اس کا علاج کررہا ہے اس طرح شیخ کو بھی سب کچھ بتانا ہوتا ہے ورنہ پھر اس کا علاج ہی نہیں ہوسکتا، ظاہر ہے جب آپ کوئی چیز چھپائیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی ذمہ داری ہی نہیں ہے پھر تو آپ کی ذمہ داری ہے آپ نے نہیں بتایا تو وہ کیا کرے گا؟ تو وہ اس وجہ سے جو ہے ناں اس کو یعنی ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا تاکہ خلوت میں باتیں ہوں۔
4
خانہ تب اس شاہ نے خالی کردیا
ساتھ واں سے خود بھی پھر نکل گیا
اس نے گھر سے بھی سب کو نکال دیا اور خود بھی نکل گیا
غرض طبیب و مریضہ کے لیے تخلیہ ہو گیا۔ شاید کوئی شبہ کرے کہ غیر مرد کی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کیوں کر درست ہے؟ جواب یہ کہ اوّل تو یہ قصہ اممِ سابقہ کا ہے ممکن ہے اس عہد کی شریعت میں یہ درست ہو، دوسرا یہ پیر مرد بالکل ضعیف و نحیف تھے اور”غَیْرُ اُولِی الْاِرْبَۃِ“بعض احکام میں شرعًا مثل محرم کے ہوتا ہے۔ تیسرا ضرورتِ معالجہ میں بعض محظوراتِ شرعیہ کی اجازت ہے مثلًا کشفِ عورت وغیرہ۔
تشریح:
اب اس پر ایک واقعہ سن لیں! میں گیا تھا شانگلہ، شانگلہ وہاں پر یہ شاہپور ایک جگہ ہے جو ہمارے اشاعت توحید و السنۃ والے لوگوں کا گڑھ ہے مطلب وہاں پر شاہپور اور ایک مدرسہ بھی ہے تو جو مجھے لے گئے تھے یعنی قاری نور اللہ صاحب تو ان کے ماموں تھے جو پہلے سعودیہ میں رہتے تھے اور ان دنوں آئے ہوئے تھے، تو مجھے کہتے ہیں کہ وہ آپ کو بہت تنگ کرے گا کیونکہ وہ پیروں کو نہیں مانتا تو ظاہر ہے وہ آپ کو بہت تنگ کرے گا میں نے کہا اللہ مالک ہے دیکھیں گے ان شاء اللہ خیر اچھا وہاں گئے تو خدا کی شان وہ ایسے معتقد ہوگئے کہ بالکل میرے ساتھ ساتھ رہتے تھے مطلب یہ جو بلکہ انہی کے گھر میں میں ٹھہرا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ رہتے تھے، تو یہ ہے کہ اس گھر کی بات ہے کہ ایک بوڑھا آدمی آگیا اس نے مجھے کہا کہ میری بیٹی ہے اس کو مستقل سر میں درد ہے تو کیا آپ اس کو دم کرلیں گے یہاں تو میں بالکل دم نہیں کرتا ظاہر ہے شہرت ہوجاتی ہے پھر تو بڑا مسئلہ ہوجاتا ہے، وہ چونکہ میں مسافر تھا مسافر میں تو پھر مسئلہ نہیں ہوتا تو میں نے کہا ہاں دم کرلوں گا لیکن اس کو اس طرح کرنا ہے کہ وہ ساتھ والے کمرہ میں اس کو بٹھانا ہے اور درمیان میں دروازہ میں اتنی جگہ چھوڑنی ہے کہ میری آواز اس تک آئے اور اس کی آواز مجھ تک آئے، چونکہ میرا دم جو ہے وہ remote control ہے یعنی اس کے لئے سامنے ہونا ضروری نہیں لیکن آواز کا پہنچنا ضروری ہے تاکہ اس سے معلوم کروں کہ کیا ہے تو مجھے وہ کہتے ہیں وہ صاحب قاری صاحب کے خالو تھے، تو وہ جو ہے ناں وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ تو ڈاکٹر کی طرح ہیں ڈاکٹر کے سامنے تو یہ نہیں ہوتا مطلب وہ تو بیمار اس کے سامنے آسکتا ہے چونکہ وہ عالم تھے تو اس نے علمی بات کی جیسے یہاں پر ہے ناں میں نے کہا کہ ہاں اگر ضرورت ہو تو پھر جب ضرورت ہی نہ ہو تو پھر کیوں مفتی صاحب! پھر اجازت ہے؟ پھر تو نہیں ہے ناں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے ہمارا جو دم ہے وہ بغیر اس کے بھی پہنچ جاتا ہے، تو لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو میں نے کہا کہ اس صورت میں ہوگا جب اس کے بغیر ہو نہ سکتا ہو پھر اس کو بات سمجھ آگئی تو پھر وہاں اس کو بٹھا دیا پھر ماشاء اللہ بات ہوگئی تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ اس کی بات کی اجازت ہوتی ہے اگر ضرورت ہو کیوں یہ آپریشن لوگ جو کرتے ہیں تو بعض نازک جگہوں کے آپریشن ہوتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے پھر تو کرنا پڑتا ہے شریعت میں ایسی اجازت ہے اتنی کی جتنی کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پر باقاعدہ لکھا ہے اس میں حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ مثال کے طور پر پھوڑا ہے اور وہ ذرا ایسی جگہ پر ہے جو کہ ستر عورت مطلب جو ہے وہ ستر عورت میں سے مقام، تو وہ یہ ہے کہ اتنا کپڑے کو پھاڑ دے باقی جو کپڑا رہے تاکہ صرف وہی پھوڑا نظر آئے اور اس کا علاج ہوجائے، باقی اضافی وہ ٹھیک نہیں ہے مطلب وہ کرے گا تو ستر عورت بن جائے گا ایک یہ آج کل ڈاکٹر لوگ اس کا خیال نہیں کرتے وہ تو کہتے ہیں کہ سب اجازت ہے، اللہ معاف فرما دے یہ ہمارے ہاں یہ چکر ہے کہ اجازت اگر ہو ناں تو اجازت اگر اتنی کی ہے تو لوگ اتنا کردیتے ہیں اسکو خود بخود وہ پھر اس کو روکتے نہیں ہیں۔
6
اے کنیزک شہر کونسا ہے ترا
ہر شہر کا مرض علاج جب ہے جدا
اب سوال پوچھ رہے ہیں
مطلب مجھے پہلے اپنے شہر کا بتا دو یعنی (طبیب نے) نرم نرم (لفظوں میں) کہا (بتا) تیرا شہر کہاں ہے؟ کیونکہ ہر شہر والے کا علاج (حسبِ اختلافِ مزاج) جدا ہوتا ہے۔ اس کا وطن اس لیے پوچھا کہ سببِ مرض کا سراغ لگانا تھا اور "ہر شہر کا مرض علاج جب ہے جدا “ کہنے سے یہ مقصود تھا کہ وہ بدگمانی میں نہ پڑ جائے کہ میرا وطن کیوں پوچھا جاتا ہے؟ اور بیانِ واقعات میں اخفاء نہ کرے اور اگرچہ طبیبِ الٰہی کے اس قول سے جو بات ظاہرًا مفہوم ہوتی ہے وہ اصل مقصود نہ تھی بلکہ مقصود یہ تھا کہ کنیزک بدگمانی میں نہ پڑے تاہم یہ قول محض کذب پر محمول نہیں ہو سکتا، کیونکہ طبّی تحقیقات سے فی الواقع ملک ملک کے لوگوں کے مزاج جداگانہ اور مقتضیاتِ صحت الگ الگ ہوتے ہیں، لہذا ان کے لیے معالجاتِ امراض بھی اصولًا مختلف ہونے چاہییں۔
7
ہر شہر میں کون ہیں تیرے اقرباء
ہے تعلق ساتھ کس کس کے ترا
آہستہ آہستہ پہنچ رہے ہیں ہاں جی
8
نبض پہ ہاتھ رکھ کے وہ پوچھتا رہا
شہر شہر کا نام وہ بولتا رہا
ہاں جی ہر شہر کا نام بولتا رہا اور نبض پہ بھی ہاتھ رکھا ہوا تھا
9
جب کسی کا پیر میں کانٹا چھبے
اپنے زانو پر وہ اپنا پیر رکھے
وہ اس طرح کرتے ہیں ناں پیر دیکھتا ہے اس طرح ہاں جی
10
سر اس کانٹے کا سوئی کے نوک سے
دیکھے جب نہ ہو اسے پھر تر کرے
تشریح:
مطلب سوئی کا نوک جو ہے یہ واقعتاً کمال ہے حضرت نے کیسی عجیب مشاہدہ کہ اگر مطلب یہ ہے کہ اگر اس میں پیر میں کانٹا چھبے تو مثلاً انگوٹھے میں چبھے ناں تو انگوٹھا ادھر رکھ دے اور پھر سوئی رکھ کے ناں اس کو اس طرح وہ کرتے رہتے پتا چل جائے کہ کہاں پر ہے کیونکہ گوشت میں تو نہیں اس میں جو سخت جگہ ہوتی ہے تو وہیں رکھیں گے ناں تو پتا چل جاتا کہ یہ ہے، تو پھر اس کو کوئی جو نہیں ہوتی مطلب اس کو اس طرح نکال لیتے ہیں تو بعض لوگوں کے پاس جب وہ نہیں ہوتا تو دانتوں سے نکال لیتے تھے، ہاں جی تو یہ طریقہ مطلب حکیم لوگ کرتے ہیں۔ تو فرمایا کہ
10
سر اس کانٹے کا سوئی کی نوک سے
دیکھے جب نہ ہو اسے پھر تر کرے
11
پیر کا کانٹا ملے مشکل سے جب
دل کے کانٹے کا کیا ہو سوچ لو تب
اگر پیر کا کانٹا جو ہے ناں نکالنا اتنا مشکل ہے اس کے لئے آپ کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے، تو جو دل کا کانٹا اس کو کیسے معلوم کیا جائے کیسے اس کے لئے ترتیب بتائی جائے؟
12
ہر کوئی دیکھ سکتا دل کا کانٹا گر
غم سے پھر مجبور ہوتا کیوں کر
مطلب ہر کوئی اگر ایسا کام کرے پھر
تیرِ غمزہ کا زخم نظروں سے نہاں ہوتا ہے اگر وہ ہر کس و ناکس معالج کو نظر آتا تو غمِ عشق سے ہر شخص شفایاب ہوتا رہتا۔ اس شعر میں یہ ہے کہ اگر ہر ناقص معالجِ امراضِ نفسانیہ ہونے کی قابلیت رکھتا تو کسی کو بھی روحانی تکالیف پیش نہ آتیں۔ حالانکہ دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں مرید باوجود اپنے پیروں، مرشدوں کے ساتھ نسبت رکھنے کے شفائے روحانی سے محروم ہیں۔ لہذا تہذیبِ نفس و تزکیۂ روح کے لیے کامل کی طرف رجوع کرنا چاہیے نہ کہ ناقص کی طرف۔
تشریح:
اب ذرا ایک بات سنو! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجددیت کوئی معمولی بات نہیں ہے، حضرت نے ایک بات فرمائی ہے اور وہ بات وہی کرسکتے تھے ہم کرتے تو ہمیں لوگ جوتیاں ماریں ہاں جی حضرت نے یہ بات فرمائی کہ شیخ کے لئے ماہر فن ہونا ضروری ہے یہ لوازمات میں سے ہے اور اس کا متقی ہونا برکات میں سے ہے یعنی وہ برکت ہوجاتا ہے اس کا متقی ہونا لیکن اس کا ماہر فن ہونا یہ لوازمات میں سے ہے، بغیر اس کے وہ کر ہی نہیں سکتا کام، یہ بات ہے یعنی جس کو مطلب تشخیص کا طریقہ ہی نہیں آتا پہلے معلوم کرے بھئی وجہ کیا ہے؟ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں بہت زبردست مثال ہے ڈاکٹر عمر صاحب چونکہ انگلینڈ سے پڑھے ہوئے ہیں ان کے جو پروفیسر تھے اس نے اس کو ایک طریقہ سکھایا جو جہاں پاکستان میں شاید کسی کو نہیں آتا، میرا اپنا خیال ہے ہوسکتا ہے آتا ہو، لیکن بہرحال میری معلومات میں نہیں ہاں جی وہ طریقہ ان کو یہ سکھایا کہ مثلاً کسی کی بارہ علامات ہیں بیماریوں کی مختلف، مثلاً اس کو نیند نہیں آتی اچھا وہ جو ہے ناں وہ چڑچڑا ہوگیا ہے کھانے کو جی نہیں چاہتا بات کرنے کو مطلب مختلف عوارض ہیں اس کو وہ لکھیں پورا، پھر ان کو آپس میں جوڑیں کہ یہ تین چار پانچ جو علامات ہیں اس سے تو یہ مطلب نکلتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو یہ ہوگیا اور پھر یہ چار پانچ مطلب یہ نکل گیا اور پھر اس سے یہ نکل گیا تو بیس علامات سے آپ کو چار چیزوں کا پتا چلا، پھر وہ چار کا آپس میں دیکھو کہ وہ کس کس کی جوڑی برابر ہورہی ہے تو اخیر میں یا دو نکلیں گے یا ایک نکلے گا تو بس اس کا علاج کرلو ٹھیک ہوجائے گا یہ فن ہے، یہ فن ہے اب اگر یہ فن کسی کو نہیں آتا تو کیا وہ علاج کرسکے گا؟ تو یہ مطلب تو اس طرح یہ شیخ جو ہوتا ہے ہو بھی فن دان ہوتا ہے ناں مطلب وہ فن کے ذریعہ سے معلوم کرتا ہے کہ بھئی بنیادی چیز تو یہی ہے، جیسے حضرت نے واقعہ فرمایا واقعہ کہ ایک صاحب تھے پیر صاحب ان کی ایک مرید بیعت ہوئے خانقاہ میں رہنے لگے، اب حضرت ان کو جو بتائیں اس سے اس کو فائدہ نہ ہو جو بتائیں اس کو فائدہ نہ ہو جو بتائیں، حضرت بڑے پریشان ہوگئے کہ یہ کیا بات ہے مسئلہ کیا ہے؟ کسی طرف راستہ نہیں نکل رہا اخیر میں اس کو بلایا اس کو کہا بھئی صاحب آپ جب آئے ہیں ادھر تو آپ کی کیا نیت تھی؟ خانقاہ میں آنے کی آپ کی نیت کیا تھی کس وجہ سے آپ آئے ہیں یہاں ادھر مقصود کیا ہے آپ کا اس نے کہا کہ حضرت آپ کا فیض بہت زیادہ ماشاء اللہ چاروں طرف پھیل رہا ہے، لوگوں کو آپ سے فائدہ ہورہا ہے تو میں بھی کہتا ہوں اگر ایسا فیض مجھے مل جائے تو میں بھی پوری دنیا میں یہ فیض پھیلا دوں اور لوگوں کو فائدہ ہونے لگے، کہا اف ہو تو تو ابھی سے پیر بنا ہوا ہے نکالو اس کتے کو ہاں جی اس کو خوب ڈانٹا صرف اپنی اصلاح کی نیت کرو اور کچھ نہیں اگر آپ لاکھوں لوگوں کی اصلاح کرلیں اور خود بے اصلاح ہوں تو آپ کا کیا فائدہ؟ آپ جہنم میں جائیں گے باقی لوگ جنت میں چلے جائیں تو تمھیں کیا فائدہ سبحان اللہ بات تو یہی ہے یہ عمر بن عبدالعزیز سے کوئی بدو نے کہا تھا اے عمر یاد رکھو کہ تیری وجہ سے اگر لاکھوں لوگ جنت میں چلے اور تو خود دوزخ میں چلا جائے پھر کیا ہوگا؟ ہاں جی یہ بات تو یہ چیز اگر ہم دیکھیں تو صحیح بات ہے ہمیں بالکل پتا چلے بھئی ہمیں کرنا کیا ہے ہمیں کیا ہے احمد رحمۃ اللہ علیہ چشتی جن کے اشعار سنتے سنتے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے تھے ناں شہید ہوئے تھے وہ احمد جام رحمۃ اللہ علیہ خود کیا کہتے ہیں
احمد تو عاشقیست بمشیخت ترا چہ کار؟
اے احمد تو تو عاشق ہے تجھے مشیخت سے کیا مطلب
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
دیوانہ بن جا سلسلہ ہو یا نہ ہو تجھے کیا
تو تو عاشق ہے عاشق کے لئے کیا مطلب ہے اب یہ جو بات حضرت نے فرمائی ناں کہ اس کو بس اس سے توبہ کرایا اور پھر فرمایا بہت تھوڑی محنت سے اَلْحَمْدُ للہ وہ چل پڑا، نقطہ وار پھنسا ہوا تھا ناں یہ فن کی بات تھی ماشاء اللہ ان کو نکال لیا اس چیز سے نکال لیا اس طرح ایک اور صاحب تھے پیر صاحب وہ بھی ماہر فن تھے بہت اللہ والے تھے ان کے بھی ایک مرید کو فائدہ نہیں ہورہا تھا تو حضرت گھبرائے اور اللہ پاک سے دعا کی کہ یا اللہ اس کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ تو سب کچھ کر رہا ہے لیکن اس کو فائدہ نہیں ہورہا یہ کیا وجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو الہام ہوا کہ اس کا رزق حرام ہے اس وجہ سے اس کو فائدہ نہیں ہورہا، شیطان نے اس کو اس لائن پہ لگا دیا ہے عبادات کی لائن پر تو اپنے آپ کو بزرگ سمجھ رہا ہے اور حالانکہ رزق اس کا حرام ہے اس کا کوئی چیز قبول نہیں ہورہا تو بس پھنسا ہوا ہے، اب دیکھو کتنی باریک بات۔۔۔۔ اس کو بلایا بیٹا بتا دو آپ کا رزق کا ذریعہ کیا ہے؟ کمانے کا معاش کا طریقہ کیا ہے انہوں نے جو طریقہ بتایا واقعی ناجائز تھا حرام تھا، اف ہو آپ کی تو ساری محنتیں رائیگاں جارہی ہیں آپ لکڑیاں کاٹ کاٹ کے لاکے اس کو بیچ دیا کریں اور بس باقی جو ہے ناں اور کچھ نہ کریں، یہی آپ کے لئے کافی ہے کہتے ہیں کہ پھر اس کے لئے فرض نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا بڑی محنت سے پڑھتا تھا تو اب اگر کسی کو نوافل کی بھی توفیق ہورہی ہو قرآن کی اور ذکر کی اور رزق اس کا حرام ہو، اب بتاؤ مفتی صاحب کدھر جائے گا وہ؟ خطرناک بات ہے ناں آپ حیران ہوں گے کہ اس دور کے اندر یہ جو بینک والے نہیں ہوتے جن میں ذرا تھوڑے سے دیندار type لوگ ہوتے ہیں تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ بڑی لمبی لمبی تسبیح لیے ہوتے ہیں اور خیرات صدقات بھی بہت کرتے ہیں، ہاں جی ان کو بھی اسی طرح لائن پہ لگایا ہوتا ہے کہ چونکہ قبول تو ہو نہیں رہی تو بس وہ جو کررہے ہوتے ہیں تو بس اس سے ان کی شہرت بھی ہورہی ہوتی ہے اور فائدہ تو ان کو نہیں ہورہا تو شیطان کبھی کبھی ایسا چال بھی چل لیتا ہے، تو میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ واقعی اگر کوئی باکمال پیر ہو تو اس کا فن آتا ہو اس کو تو وہ اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں مطلب لوگوں کو بچا لیتے ہیں تو یہاں پر بھی بات ہے۔
13
دم کے نیچے گدھے کا کانٹا رکھے
گدھا جانے کیا اس بس کود لے
تشریح:
مطلب گدھے کے نہیں یہ شریر لڑکے نہیں ہوتے وہ رکھ لیتے ہیں ناں کوئی کانٹا تو وہ پھر اچھلتا ہے ظاہر ہے اور کیا کرسکتا ہے اس کے ساتھ تو کچھ نہیں کرسکتا تو بس اچھلتا ہے، کیونکہ اچھلنے سے تو اور مزید وہ زخمی ہوتا ہے ہاں جی تو
کوئی (شریر آدمی) گدھے کی دم کے نیچے کانٹا رکھ دیتا ہے۔ گدھا اس کو نکالنا نہیں جانتا (اور) کود پڑتا ہے۔
14
دور جلنے کو کودے وہ بار بار
زخموں سے کردے جسم وہ تار تار
گدھا کانٹے کو دور کرنے کے لیے جلن اور درد سے (تنگ آ کر) دولتیاں چلاتا ہے (جس سے) سینکڑوں جگہ زخم کھاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ وہ
15
کب اچھلنے سے رفو درد ہو مگر
کانٹا ہے جس جا توجہ ہو ادھر
(مگر) وہ دولتیاں جھاڑنا اس کے کانٹے کو کب دور کر سکتا ہے۔ کوئی دانا چاہیے جو خاص (کانٹے) کی جگہ پر توجہ کرے۔
16
جہد سے وہ کانٹے کو تر کرے
ہے عقلمند جو اسے باہر کرے
(وہ حاذق احتیاط سے) اچھے اور اس مضبوط گڑے ہوئے کانٹے کو کریدے (واقع میں) عقلمند چاہیے جو کانٹا نکالے۔
17
وہ حکیم بھی اس طرح استاد تھا
جابجا ٹٹولنا اس کو یاد تھا
یعنی وہ بھی اس ترتیب سے چل رہے تھے
اوپر کے اشعار میں خارِ دل یعنی مرضِ عشق کی مشکلاتِ تشخیص اور دشوار یابی کا ذکر کیا تھا اور گدھے کی مثال سے اشارہ کیا تھا کہ نفس و شیطان کس طرح روحانی امراض کے کانٹے دل میں بو دیتا ہے اور مریضِ نادان اپنی بد تدبیری سے بجائے فائدہ کے نقصان و ضرر کو ترقی دے لیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کانٹوں کو نکالنے اور ان امراض کو دفع کرنے کے لیے کوئی حاذق، ماہرِ معالجہ اور صاحبِ تجربہ حکیم ہونا چاہیے۔ اب اس شعر میں کہتے ہیں کہ وہ طبیبِ غیبی انہی اوصاف کا حکیم تھا۔
تشریح:
یہ آج کل اس طرح ہے آج کل بھی اس طرح ہے کہ جو لوگوں کو مسائل ہیں، میں ایک مثال دیتا ہوں یہ ہمارے جو نفسیاتی ماہرین ہیں یہاں کے نفسیاتی ڈاکٹر جو ہوتے ہیں یہ پڑھے ہوئے ہیں یورپ سے یا یورپ کی کتابیں پڑھے ہوئے ہیں، اب یورپ کی کتابیں جو پڑھتا ہے تو وہ ظاہر ہے انہی کی case studies study کرکے مطلب ڈاکٹر بنے ہیں ناں تو پھر انہوں نے جو طریقے اختیار کیے ہوتے ہیں وہ اپنے لحاظ سے وہ ان کو معلوم ہوتے ہیں وہ اپنے طریقہ پہ ادھر کے جو ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہوتے تو کیا کرتے ہیں؟ depression کے مریض کو کیا کہتے ہیں آپ ٹیلی ویژن دیکھیں آپ سینما دیکھیں یہ باتیں تو میں کرسکتا ہوں بعض ایسی باتیں بھی کہتے ہیں جو میں یہاں پر میں زبان پر نہیں لاسکتا کم از کم میں یہاں زبان پہ نہیں لاسکتا، ایسی باتیں بھی ان کو بتاتے ہیں ہاں جی یعنی مجھے مریضوں نے خود بتائے ہیں ہاں جی تو وہ کیا ہے وہ مطلب اس چیز کو اب بات یہ ہے کہ یہ بجائے اس طریقہ سے وہ جو ہے ناں وہ کرلیتے ہیں لیکن بیماری تو ان کی نہیں جاتی نقصان ان کا بڑھتا ہے، نقصان ان کا بڑھتا ہے لیکن جو صحیح لوگ ہوتے ہیں مثال کے طور پر کسی شخص کو depression اس وجہ سے کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہوا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کو گناہ کا نشہ تو کہتے ہیں، نہیں نہیں کچھ بھی نہیں اس سے کچھ بھی نہیں ہوتا اس سے کچھ نہیں ہوتا آپ بھول جاؤ اس کو یہ ان کو کہتا ہے حالانکہ وہ علاج نہیں ہے بھئی اس کے دماغ سے دل سے ایمان تو نہیں نکال سکتے، آپ جو صحیح حازق ڈاکٹر ہوگا مسلمان ہوگا اس کو کہے توبہ کرلو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والے ہیں بس سب کچھ ختم ہوجائے گا، آن کی آن میں ختم ہوجائے گا بس تو اب یہ جو مطلب ہمارے لحاظ سے جو ہمارے culture اور ہمارے مذہب کے لحاظ سے جو بات ہے وہ جو جانتا ہوگا تو وہی علاج کرے گا ناں ورنہ پھر گدھے والی بات ہوگی ہاں جی بس دولتیاں جھاڑے گا اور نقصان مزید بڑھے گا۔
18
اس کنیز سے سادگی سے سوال کو
پوچھتا معلوم کرنے حال کو
19
راز کی باتیں بیاں کرنے لگی
حال اپنوں کے وہ بتانے لگی
20
قصہ اس کی خوب وہ سننے لگے
نبض پر وہ ہاتھ سے کچھ جاننے لگے
21
یہ کہ کس کے نام پر اچھلے نبض
حال عشق اس کی بیان کرلے نبض
کس کے نام پر نبض اچھلا ہے یہ reflex action ہے ناں مطلب اس کو تو انسان control نہیں کرسکتا، پہلے شہروں کا پتا کرتے تھے، پھر اس کے بعد محلوں کا پتا کرتے ہیں پھر لوگوں کا پتا کرتے رہے، پھر اخیر میں جب صحیح تو بس نبض اچھل پڑا تو بس اس کے بعد پتا چل گیا اس کو کہ کہاں پر مسئلہ ہے ٹھیک ہے ناں نکال لیا اس کو۔
21
یہ کہ کس کے نام پر اچھلے نبض
حال عشق اس کی بیان کرلے نبض
نبض نے اس کا حال بیان کردیا۔
عشقِ مجازی چونکہ ایک دماغی کیفیت ہے اور دماغ اعصاب کا مرکز ہے اس لیے حالاتِ عشق میں یہ عام بات ہے کہ معشوق کے سامنے آنے سے یا اس کا ذکر سننے سے یا اس کے تخیّل سے عاشق کے جسم میں ایک خاص اعصابی تحریک کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلًا تغیّرِ رنگ، سُرعتِ نبض، بستگیِ زبان وغیرہ۔ وہ طبیبِ الٰہی اس قسم کی علامات کے ذریعہ کنیزک کے معشوق کا سراغ لگانا چاہتا تھا۔
22
اپنے دوستوں کو کنیز پھر گن گئی
بعد ازاں دوسرے شہر کو چھڑ گئی
23
پوچھا اس سے جب شہر سے نکلی تو
کس شہر میں بعد ازاں جا بسی تو
24
شہر ایک کا نام وہ لینے لگی
نبض و رنگ میں پر تغیر نہ ہوئی
25
مالکوں اور شہروں کے نام لے چکی
اپنے احوال کی اور مقامات کی
26
شہر شہر و خانہ خانہ کا بیان
کرلیا پر نہ تھی تبدیلی عیاں
مطلب اس سے وہ نکل نہیں رہا تھا تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ اگر دیکھیں تو اس طریقہ سے وہ چل رہا تھا، آہستہ آہستہ چل رہا تھا، آہستہ آہستہ چل رہا تھا، بالآخر صحیح جگہ پہنچ گیا۔ تو میرے خیال میں اس کے اگلے دن اس کا انتظار بہتر ہوگا کیوں اس کے بعد پھر کیا ہوا۔ ٹھیک ہے ناں؟ اللہ جل شانہ ہم سب کو اصل بات تک پہنچا دے اور وہ کیا ہے کہ ساری چیزیں جو ہیں ناں یہ ختم ہونے والی ہیں اور وہاں کی زندگی اصل ہے، اگر وہ زندگی ہماری اچھی ہوگئی تو پھر ہم کامیاب ہیں ورنہ یہ زندگی چاہے ہماری کیسی ہی کتنی اچھی کیوں نہ ہو، لیکن ہے تو عارضی۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، اکثر یہ سفر میں جب ہم جاتے ہیں تو ریل کے ذریعہ سے جاتے ہیں یا جہاز کے ذریعہ سے جاتے ہیں تو جہاز میں Lounge ہوتا ہے اس میں بیٹھتے ہیں VIP Lounge بھی ہوتا ہے جس میں بڑے لوگ جاتے ہیں عام Lounge بھی ہوتا ہے اور اس طریقہ سے ریلوے اسٹیشن پر بھی جگہیں ہوتی ہیں۔ اب وہ جگہیں بے شک کتنی اچھی کیوں نہ ہوں اس کو لوگ مستقل نہیں سمجھتے کہ یہ میری جگہ ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں اس کو پروا نہیں ہوتی کہ نہ بھی ہو تو گزارا کرلیتے ہیں، کہ ٹھیک ہے جی بس جارہے ہیں کیا مطلب، لیکن اپنے گھر کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں کہ وہاں پر وہ چیز ہے یا نہیں ہے وہاں پر فلاں چیز نہیں فلاں چیز نہیں، اس کے لئے بندوبست کرتے ہیں، تو اسی طریقہ سے یہاں جو ہماری زندگی عارضی ہے یہ تو بس جتنے بھی ہیں لیکن سانس ہیں وہ پورے ہوجائیں اس کے بعد پھر جانا ہے تو وہاں کا حساب اصل ہے اللہ جل شانہٗ ہم سب کو وہاں کی اصل زندگی جو ہے وہ ہماری اچھی کردے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
عنوان ہے:
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا
کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب
نفس کی آلائشوں کو دور کر
چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب
آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں
دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب
کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں
اور نہ سنوائے غلط نفس خراب
خود سے تو گم ہو صرف وہ یاد ہو
پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب
تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں
اور سب کچھ اس کا ہی ہے لاجواب
اپنے خود کو عشق میں معدوم کر
تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب
جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ ترا
ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب
تو کرے وہ جو اسے منظور ہو
وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب
خود کو پہچانو شبیر کہ کیا ہو تم
ختم شد واللہ اعلم بالصواب
کیا نتیجہ نکالا آپ نے اس کلام سے؟ کہ کیا کہا یہ، اس میں یا صرف سر ہی دھنا ہے آپ لوگوں نے ہاں بالکل اپنی رضا کو مٹا کے اللہ کی رضا میں مشغول رہو، فقط جو اللہ چاہے وہی کرو پھر جو تو چاہے گا اللہ وہی کرے گا مطلب یہ بات ہے۔ اور یہ بالکل حدیث شریف موجود ہے جس میں فرماتے ہیں کہ اصل قرب تو فرائض کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن نوافل کے ذریعہ سے انسان اتنی ترقی کرتا ہے کرتا ہے کرتا ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس وہ پکڑتا ہے میں اس کے پاؤں جس سے وہ چلتا ہے میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ تو کیا بات ہے یہ مطلب نوافل میں انسان اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے کہ اپنی خواہشات ختم کرکے اس کی خواہش کے مطابق اب ہم ذکر کرتے ہیں۔