عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی حقیقت

درس نمبر 9 دفتر اول حکایت نمبر 5، 6

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مولانا رومی کی مثنوی میں مذکور بادشاہ اور طبیبِ الٰہی کی حکایت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کنیز کا مرض جسمانی نہیں بلکہ باطنی تھا، یعنی وہ "مرضِ عشق" میں مبتلا تھی۔ اسی مناسبت سے بیان میں عشق کی حقیقت، بالخصوص عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کے فرق پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ عشقِ مجازی، عارفین کے لیے عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن عوام کے لیے یہ خطرناک ہے۔ اس نکتے کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک شخص کے ارتداد اور پھر ایک ولی اللہ کی صحبت سے ایمان کی طرف واپسی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بیان کا مرکزی خیال یہ ہے کہ عشق ایک وجدانی کیفیت ہے جسے عقل اور منطق سے سمجھنا ناممکن ہے اور اس کی اصل حقیقت خود عشق ہی آشکار کرتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف کا جو اردو منظوم ترجمہ ہے، مطلب اس کی تعلیم ہوتی ہے اور اس میں بڑے مفید مضامین ما شاء اللہ سامنے آتے ہیں، اصل میں وہ مضامین ہی مقصود ہوتے ہیں، باقی جو حکایات ہیں، وہ تو صرف اس کے لئے ایک ذریعہ ہے۔

دفتر اول حکایت نمبر 5

بادشاہ کی ملاقات اس طبیبِ الٰہی سے جس کو خواب میں دیکھا تھا اور جس کی آمد کی بشارت اس کو دی گئی تھی


1

بادشاہ مہمان کے پاس جو گیا تھا وہ بادشاہ لیک درویش ہو گیا


بادشاہ جب اپنے مہمان کے پاس گیا، (اگرچہ) وہ بادشاہ تھا، مگر (اس کے سامنے عجز و انکسار سے) بالکل (ایک) درویش (بن کر) گیا، یعنی مہمان تھا تو مسافر، مگر وہ ایک مردِ خدا تھا، جس کے آگے سلطان کی سلطانی جھک گئی۔

2

بار بار اس سے وہ ہم کنار ہوا

جان و دل سے شاہ اس کا یار ہوا


ہاتھ پھیلا کر اس سے بار بار ہمکنار ہوا۔ عشق کی طرح اس کو (اپنے) دل و جان میں جگہ دی۔

3

ہاتھ و ماتھا بار بار چومنے لگے

حال اس کا بار بار پوچھنے لگے


یعنی لذّتِ ہمکلامی کے لیے مہمان سے مقام و راہ کے سوال کئے، ورنہ بادشاہ کو خواب کے ذریعہ سے اس کا آنا معلوم تھا۔

4

پوچھتے پوچھتے اس کو لے جانے لگے

صبر کا پھل اس طرح پانے لگے


یعنی پوچھتا پوچھتا اس کو صدر (کی جگہ) تک لے جا رہا تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو خزانہ مل گیا مگر صبر کے ساتھ۔

5

صبر یوں ہوتا ہے بے حد ناگوار

پھل مگر اس کا بہت ہی مزے دار


یعنی صبر (یوں تو) ناگوار ہوتا ہے، لیکن آخر کار نہایت میٹھا اور مفید پھل دیتا ہے۔

6

بولے وہ اے نورِ حق، دفعِ حرج

معنی اَلصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَج


یعنی بادشاہ مہمان سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنی مصیبت پر صبر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اجر میں آپ کو میری طرف بھیج دیا، جن کی بدولت میری کشودِ کار ہوگی، اور آپ اس حدیث کے مضمون کے مصداق ہیں: ’’اَلصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَجِ‘‘۔

یعنی صبر جو ہے، یہ آسانی کی کنجی ہے۔

7

تیرا دیکھنا ہے جوابِ ہر سوال

حلِ مشکل، پھر کیوں ہو قیل و قال


یعنی آپ کے دیدار میں ایک ایسی غیبی روشنی ہے کہ آپ کو دیکھتے ہی دل کے تمام شکوک و اشکال کی تاریکی دور ہوجاتی ہے اور سوال کرنے کی نوبت نہیں آتی۔

تشریح:

سوال تو اس وقت آتا ہے، جب سمجھ نہ ہو۔ اور جب سمجھ آجائے، تو سوال کی پھر ضرورت کیا ہے۔ اس پر ایک واقعہ ہے۔ ایک صاحب تھے، جو بہت ذہین تھے۔ یہ ذہانت بھی بعض دفعہ جال بن جاتی ہے۔ تو بہت ذہین تھے، روزہ سے تھے، رمضان شریف کا مہینہ تھا، کتاب پڑھ رہے تھے، اس میں جزیہ کے موضوع کی کسی بات پر اس کو اشکال ہوگیا اور اشکال اتنا دور بڑھ گیا کہ اخیر میں ایمان سے جاتا رہا۔ اور جب وہ ایمان سے جاتا رہا، تو اس نے کہا کہ پھر میں روزہ کیوں رکھوں۔ تو روزہ بھی توڑ دیا۔ اب اس دن افطار کے وقت جو ساتھی تھے ان کے، وہ افطار کررہے تھے، تو یہ دور بیٹھا تھا۔ کہا: بھائی! آپ بھی آجائیں، آپ بھی روزہ افطار کریں۔ انہوں نے کہا: بھائی! میرا تو ایسا حال ہے کہ اگر آپ کو پتا چلے، تو آپ مجھے اپنے ساتھ بھی نہ بٹھائیں۔ انہوں نے کہا: زیادہ سے زیادہ آپ کافر ہوچکے ہوں گے۔ ویسے انہوں نے کہہ دیا۔ تو اگر کافر بھی ہیں، تو آپ اپنے لئے ہیں، ہمارے تو دوست ہیں، آپ ہمارے ساتھ ویسے کھانا کھا سکتے ہیں۔ یعنی انہوں نے فوراً بھانپ لیا کہ کوئی مسئلہ ہے۔ اور انہوں نے جوابی طور پر کچھ نہ کچھ سوچنا شروع کرلیا۔ تو اس کو ویسے بٹھایا اپنے ساتھ۔ پھر بعد میں بات کھل گئی، ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی اس پر۔ یہ اپنے اس پہ قائم تھے، وہ اپنے اس پہ قائم تھے۔ ایک دن انہوں نے پروگرام بنایا حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جانے کا۔ تو ان سے کہا: آپ بھی آجائیں۔ انہوں نے کہا: بھائی! مجھے کیا ضرورت ہے ان کے پاس جانے کی، میں تو ان چیزوں کو مانتا ہی نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا: بھائی! ہم آپ کو مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی کے پاس نہیں لے جانا چاہتے، ہم جارہے ہیں، راستے میں سیر بھی ہوتی رہے گی، تو آپ سیر کے لئے چلے جائیں۔ مطلب ظاہر ہے ہماری کمپنی ہے ساتھ۔ اس نے کہا: ہاں، یہ بات تو ٹھیک ہے۔ تو ان کے ساتھ چل پڑے، لیکن دل دل میں سوچ رہے تھے کہ میرے لئے منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ذہین تو تھے۔ ہاں جی! تو راستہ بھر سوچتے رہے کہ وہ مجھ سے یہ سوال کریں (گے)، میں یہ کہوں گا۔ وہ یہ سوال کریں (گے)، میں یہ کروں گا۔ وہ مجھ سے یہ سوال کریں (گے)، میں یہ کہوں گا، مطلب ایک پورا گورکھ دھندا بنا دیا۔ وہاں جب پہنچ گئے تو مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ملاقات ہوگئی، تو ان کی بھی ملاقات ہوگئی۔ تو حضرت کی زبان میں تیزی کی وجہ سے لکنت ہوتی تھی، مطلب بہت تیز تیز بولتے تھے۔ تو بار بار ان سے پوچھتے رہے کہ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کس لئے آئے ہو؟ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کس لئے آئے ہو؟ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کس لئے آئے ہو؟ مسلسل فرما رہے (تھے)، فرماتے جارہے (تھے) اور یہ چپ۔ کافی دیر چپ رہے، تو پھر اس نے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے بیعت کردیا۔ تو بیعت میں تو کلمہ پڑھاتے ہی ہیں، تو گویا کہ مسلمان تو ہوگئے۔ اب ان کے دوست حیران ہوگئے کہ یہ تو تیس مار خان بنتا تھا اور یہ حضرت کے سامنے بالکل ہی موم ہوگیا، کیا ماجرا ہے۔ تو راستہ میں ان سے کہا کہ بھائی! آپ تو ایسے ہوگئے، کیا مسئلہ ہے؟ کہتے ہیں: میرے ساتھ جو ہوگیا، آپ کو کیا پتا۔ کہتے ہیں: کیا آپ کے ساتھ ہوگیا؟ کہتے ہیں کہ میں جب حضرت کے سامنے گیا، تو میرا ذہن بالکل blank ہوگیا، عقل ختم ہوگئی، میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ ہاں جی! تو اس وقت بات کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ کہتے ہیں: پھر اس کے بعد میرے دماغ کے اوپر ایک پردہ سا آگیا، جیسے سکرین ہوتی ہے۔ یہ سکرین ہے۔ سکرین آگئی۔ تو ادھر سے میرا سوال آتا تھا، اُدھر سے جواب آتا تھا، ادھر سے سوال آتا تھا، ادھر سے جواب آتا تھا، ادھر سے سوال، ادھر سے جواب۔ اب میں حیران ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ کیا ہورہا ہے! میرے تمام سوالوں کے جواب آرہے ہیں۔ تو میں تو حضرت کی باتوں سے نہیں (مطمئن) ہوا۔ مجھے تو سوال و جواب جو ہورہے تھے، اسی میں لگا ہوا تھا۔ تو پھر میں نے کہا کہ بھائی! اس کا مطلب ہے کہ میرے سوال سارے عبث ہیں، تو مسلمان ہوگیا۔ میں نے کہا: ان کی برکت سے مسلمان ہوا، تو ان سے بیعت بھی ہونا چاہئے۔ تو میں ان سے بیعت بھی ہوگیا۔ پھر اس کے بعد ما شاء اللہ! اس نے پوری ایک کتاب لکھی ہے کفر توڑ۔ ہاں جی! ما شاء اللہ، کیونکہ تجربہ تو اس کو ہوگیا۔ ہاں جی! تو یہ اس کی بات ہے۔

7

تیرا دیکھنا ہے جوابِ ہر سوال

حل مشکل، پھر کیوں ہو قیل و قال

تشریح:

ہاں جی! مطلب اس قسم کی بات ہو، تو پھر قیل و قال کیوں ہو۔ اور پھر جو ہے ناں، مطلب کیا پریشانی ہو۔

8

ترجمان اس کا جو میرے دل میں ہے

دستگیر اس کا جو پھنسا گِل میں ہے


یعنی (تو) ہمارے دل کی ہر بات کو بیان کر دینے والا ہے۔ جو شخص (درماندگی کے) کیچڑ میں (پھنسا ہوا) ہو، (تو) اس کا دستگیر ہے۔

تشریح:

یعنی جو پریشانی میں ہو، تو پریشانی سے تو نکالنے والا ہے۔ جو confusion میں ہو، تو confusion سے تو نکالنے والا ہے۔

9

مَرْحَبَا یَا مُجْتَبٰی یَا مُرْتَضٰی

اِنْ تَغِبْ جَاۤءَ الْقَضَا ضَاقَ الْفَضَا


یعنی آئیے آئیے! اے برگزیدہ و پسندیدہ (بزرگ)، اگر آپ چل دیے تو (ہم مشتاقوں کی) موت آ جائے گی اور (زندگی کا) میدان تنگ ہوجائے گا۔اس سے بیانِ شوق اور غمِ جدائی کا اظہار ہو رہا ہے۔

10

اَنْتَ مَوْلَی الْقَوْمِ مَنْ لَّا یَشْتَھِیْ

قَدْ رَدٰٰی کَلَّا لَئِن لَّمْ یَنْتَہٖ


ترجمہ: تو آقائے قوم ہے، جو شخص تجھے نہیں چاہتا، وہ یقینًا ہلاک ہوگیا (بقولِ خداوند تعالیٰ) ’’حقًا، اگر وہ باز نہیں آئے گا، تو الخ‘‘۔

اس شعر میں اقتباس ہے۔ اس آیت سے کہ

﴿كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَاً بِالنَّاصِيَةِ﴾1

اللہ تعالیٰ ابوجہل کے بارے میں فرماتا ہے کہ اگر وہ (رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے) باز نہیں آئے گا، تو ہم اس کے بال پکڑ کر (جہنم کی طرف) گھسیٹیں گے۔

ولی سے محبت نہ رکھنا اگر محض بے رغبتی سے ہے، تو ہلاکت کے یہ معنٰی ہیں کہ وہ شخص اس کے فیوض و برکات سے محروم رہے گا، کیونکہ بزرگوں کے فیوض لوگوں کے لیے بمنزلۂ حیات ہیں۔ اگر عدمِ محبت بوجہ بغض و عداوت ہو، تو ہلاکت سے مراد کوئی نہ کوئی وبال ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

’’مَنْ عَادٰٰی لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص میرے کسی دوست سے عداوت رکھے، میں اس کو جنگ کا چیلنج دیتا ہوں‘‘۔

تشریح:

یہ بہت خطرناک بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو دیکھا ہے یہ، یعنی کم از کم کچھ لوگوں کو دیکھا ہے اس مصیبت میں پھنستے ہوئے۔ ہاں جی۔ بہت عجیب بات ہے، اللہ پاک معاف فرمائے، اللہ پاک بچائے ہمیں ایسی چیزوں سے۔ میں خود بھی اللہ سے گریہ و زاری سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! مجھے کسی ولی اللہ سے کسی دنیاوی مسئلہ میں اختلاف نہ کرنے دے۔ دینی معاملہ میں اختلاف کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ تو بڑے بڑے اولیاء میں آپس میں ہوتا ہے۔ ہاں جی۔ جیسے امام ابوحنیفہؒ میں اور امام شافعیؒ کے اندر اختلاف ہے، اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیوں اللہ کے لئے ہوتا ہے ناں، لیکن دنیا کے لئے اگر اختلاف ہو، تو اس میں مصیبت ہے۔ دنیا کے لئے اختلاف میں مصیبت ہے۔ کیونکہ ایک طرف دنیا اور ایک طرف اللہ تعالیٰ کی بات ہے، تو کہاں مطلب جو ہے ناں، (مقابلہ ہوسکتا ہے)۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، ان سے کچھ اہلِ حدیث حضرات بیعت ہوئے، تو انہوں نے وفورِ محبت سے کہا کہ حضرت! اب ہم آپ سے بیعت ہوگئے ہیں، تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنا مسلک چھوڑ دیں یعنی حنفی ہوجائیں؟ فرمایا: بھئی! میں حدیث شریف کی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔ تم اگر حدیث شریف پر عمل کرتے ہو، تو اگر آپ کی اپنی تحقیق اس کو چھوڑنے کی ہوئی، تو وہ تو آپ کی اپنی بات ہے، اس میں تو ہوتا رہتا ہے، لیکن میری وجہ سے اس کو چھوڑنا نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث شریف ہے ناں ایک طرف، ایک حدیث شریف پر عمل کرتا ہے، تو دوسرا بھی دوسری حدیث شریف پر عمل کرتا ہے، تو اس میں تو بات حدیث شریف کی ہے، تو حدیث شریف کو تو نہیں چھڑوانا۔ ہاں! اگر علمی دلیل کی بات ہو اور دلیل سے مطمئن ہوجائے، تو پھر ٹھیک ہے، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پھر تو ہوتا رہتا ہے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ آج کل یہ لوگ جو آپس میں جھگڑتے ہیں ناں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس چیز کو نہیں جانتے کہ جو بھی کسی دینی بات پر عمل کررہا ہے اور اس کے پاس دلیل ہے، تو وہ تو قرآن و حدیث کی وجہ سے ہے، تو لہٰذا اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ وہ اگر مخالفت کرتا ہے اس قسم کی چیز کی، تو پھر اس مخالفت کی مخالفت کی جاسکتی ہے۔ جیسے اہل حدیث ہوتے ہیں ناں آج کل، جو حنفیوں کے مخالف ہو کے جو ہے ناں وہ فضول باتیں کرتے ہیں، تو اس کی مخالفت تو کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ وہ تو اس کے لئے کررہے ہیں یعنی وہ تو بغض و عداوت کی وجہ سے کررہے ہیں ناں، باقی ان کی تحقیق تو نہیں ہوتی۔ کیونکہ تحقیق اگر ہو، تو وہ دوسرے لوگوں کی بھی قدر کریں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اختلاف کرتے تھے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، لیکن قدر کرتے تھے۔ اتنی قدر کرتے تھے فرماتے ہیں: ’’اَلْخَلْقُ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْفِقْہِ‘‘2 مخلوق جو ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں اولاد ہے۔ دیکھیں۔ یعنی اتنے اختلاف کے باوجود کیا فرما رہے ہیں ان کے بارے میں۔ تو یہ اختلاف ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ان کے خلاف باتیں کررہے ہوں، ان کے ساتھ بغض و عداوت ہو، پھر تو مسئلہ خطرناک ہے، پھر تو مسئلہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ معاملہ بہت دور تک جاتا ہے۔ یا اللہ، یا کریم۔

11

اور ضیافت کا جب اختتام ہوا

شاہ حرم سرا میں ان کو لے گیا


ترجمہ: جب وہ مجلس برخاست ہوئی اور (ضیافت کا) خوانِ کرم اٹھایا گیا، تو (بادشاہ نے) اس (مہمان) کا ہاتھ پکڑا اور حرم سرا میں لے گیا۔ (یعنی جہاں پر زنانہ تھے۔)


دفتر اول حکایت نمبر 6

بادشاہ کا طبیبِ غیبی کو بیمار کے پاس لے جانا

1

وہ کہ جو بیمار کی بیماری جو تھی

نیز بتایا وہ پریشانی جو تھی

واسطے تشخیص کے طبیب کو پاس

لے گیا بیمار کے شاہ جس کی تھی آس


2

رنگ روپ قارورہ نبض کو دیکھا پھر

اور علامات مرض کی بھی پوچھ کر

تشریح:

یعنی اصل میں بات یہ ہے کہ یہ تو بات آسان ہے، سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ طبیب ان کے پاس لے گیا بیمار کے پاس، وہ جو اس کی بیماری تھی، اس کے بارے میں بتایا، اس کے بارے میں جو پریشانی تھی، اس پریشانی کا اظہار کیا اور پھر تشخیص کے لئے طبیب کو بیمار کے پاس لے گئے اور انہوں نے رنگ و روپ دیکھا، قارورہ دیکھا، نبض کو دیکھا اور پھر مرض کی علامات وغیرہ مزید جو پوچھ لیں، اس طرح مطلب یہ ہے کہ اس نے کچھ علامات سے اندازہ لگایا۔


(طبیب نے) چہرہ کا رنگ اور نبض اور قارورہ دیکھا۔ اس (مرض) کی علامتیں اور اسباب بھی سنے۔

3

بولے جو دارو ہوئے درست تھے نہیں

کیونکہ جو تھا مرض وہ سمجھے نہیں

تشریح:

اب اس نے جو دارو وغیرہ بتایا ناں کہ یہ علاج مطلب آپ کرواتے رہیں۔

3

بولے جو دارو ہوئے درست تھے نہیں

کیونکہ جو تھا مرض وہ سمجھے نہیں

تشریح:

یعنی جو طبیب تھے، ان کا مرض ہی نہیں سمجھے، علاج ہی غلط ہوتا رہا۔ ہاں جی۔ جو مطلب علاج تھا، وہ علاج ہی غلط ہوتا رہا۔ اور یہ ویسے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ڈاکٹروں کو بھی پتا نہیں چلتا، بیماری کوئی ہوتی ہے اور اس کا علاج کسی اور چیز کا ہورہا ہوتا ہے۔ میرے ایک کزن تھے، ان کو کینسر ہوگیا تھا اور ڈاکٹر بہت بڑے specialist تھے، وہ دھوکہ کھا گئے اور اس کو ٹی بی سمجھا۔ اب ٹی بی کا علاج ہوتا رہا اور تھا کینسر۔ تو کچھ ٹائم جب اس میں لگ گیا، تو پھیل گیا، پھر بعد میں پتا چل گیا، لیکن پھر بعد میں کیا ہوسکتا، پھر تو پھیل گیا تھا۔ تو مقدرات ہوتے ہیں، ظاہر ہے اس میں کوئی آدمی کچھ کہہ تو نہیں سکتا۔ یہ چیزیں بعض دفعہ علامات آپس میں مل جاتی ہیں، تو ہوتا کچھ ہے اور انسان جو ہے ناں سمجھتا کچھ ہے۔ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی جو طبیب گزشتہ تھے، ان لوگوں نے اندازے غلط لگائے تھے اور ایسا مرض نہیں تھا، جس کا وہ علاج کررہے تھے، مرض کچھ اور تھا۔ مرض کیا تھا؟ وہ آگے آرہا ہے۔

4

تھا نہیں معلوم انہیں حال درون

تشریح: ان کو اندر کے حال کا پتا نہیں تھا۔

اَسْتَعِیْذُ اللّٰہَ مِمَّا یَفْتَرُوْنَ

وہ لوگ اندر کے حال سے بے خبر تھے۔ میں ان کی غلط بیانی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ یعنی وہ اطباء مرض کی تہہ کو نہیں پہنچے۔

5

اس پہ ظاہر ہوگئی تھی بات تھی جو

(یعنی اس طبیب پر)

اس پہ ظاہر ہوگئی تھی بات تھی جو

جو حقیقت تھی چھپایا شاہ سے وہ


تشریح:

یہ تو بتایا کہ انہوں نے غلط سمجھا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اصل کیا ہے، کیونکہ بعض دفعہ مریض کو بیماری سے آگاہ نہیں کیا جاتا، علاج کیا جاتا ہے، کیونکہ آگاہ کرنے سے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں بعض دفعہ۔ جیسے کینسر ہوتا ہے تو نہیں بتاتے لوگ، لیکن علاج کینسر کا کرتے ہیں۔ ہمارے پشاور کے ایک ڈاکٹر تھے وہاں پر، corona وغیرہ جو گزر گیا، تو corona کی تو بڑی دہشت تھی، تو لہٰذا جس کو بھی بتایا جاتا کہ corona ہے، تو depress ہوجاتا، مزید اس کا morale down ہوجاتا، نتیجتاً وہ ان کی جو ہوتی تھی immunity، وہ گرجاتی، ان کا نقصان ہوجاتا۔ تو ایک ڈاکٹر تھے، بڑے ہوشیار تھے، وہ corona کے بیمار کی تشخیص کر کے ان کو نہیں بتایا کرتے تھے کہ تمھیں corona ہے، وہ کوئی اور بیماری کا قریب کا نام لیتے۔ مثلاً: کہتے ہیں typhoid ہے، اچھا یہ دوائی۔ دوائی تو corona کی دیتے اور کہتے typhoid ہے یا فلاں ہے فلاں ہے، مطلب اس طرح۔ تو مریض کو tension نہیں ہوتی تھی۔ اور اس کا طریقۂ علاج بڑا ٹھیک ٹھاک تھا، کیونکہ ظاہر ہے وہ مقصد تو حل کررہا تھا ناں، لیکن بتاتے نہیں تھے کہ corona ہے، ہاں جی۔ تو یہ بھی ہوتا ہے بعض دفعہ کہ حقیقتِ حال نہیں بتائی جاتی، لیکن علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی یہی بات تھی۔

اس نے بیماری ملاحظہ کی اور راز کی بات اس پر ظاہر ہوگئی لیکن اس نے (اس کو) چھپایا اور بادشاہ سے ذکر نہ کیا۔ طبیبِ الٰہی نے عوارضِ ظاہری سے اس کا مرضِ باطنی معلوم کر لیا۔

بادشاہ سے اس حال کو مخفی رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت طبیبِ الٰہی نے اس کے مرض کا جو پتا لگایا وہ محض سرسری معائنہ کا نتیجہ تھا ابھی اس نے قطعی طور پر مرض تشخیص نہیں کیا، جو آگے چل کر کرے گا۔ اور ظنی و تخمینی بات کا اظہار خلافِ احتیاط ہے۔ یا یہ وجہ ہوگی کہ طبیبِ الٰہی کو جو معلوم ہوا کہ کنیزک بادشاہ کے سوا کسی اور مرد کے عشق میں مبتلا ہے تو بادشاہ پر اس کا اظہار کرنا اس کو رقابت کی آتشِ رشک میں جلانا تھا جس کو طبیبِ الٰہی کی مروّت نے گوارا نہ کیا۔

تشریح:

مطلب دیکھیں ناں! دونوں وجوہات تھیں، یہ دوسری وجہ اصل تھی، وہ جو دوسری بتائی ہے ناں، یہ اصل وجہ تھی۔

اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر جب تدبیرِ کار کے لیے بادشاہ پر اصل راز ظاہر آنا لازم ہوجائے گا تو بھی طبیبِ الٰہی اس پر مجمل سا اظہار کرے گا جیسا کہ آگے آتا ہے۔

6

غلبہ سودا و صفرا تھا نہیں

تشریح:

جیسے ان لوگوں نے اندازہ لگایا کہ سودا کا غلبہ تھا یا صفرا کا غلبہ تھا، وہ ایسے نہیں تھا۔

غلبہ سودا و صفرا تھا نہیں

پہلے جو تھا اس کو سمجھا تھا نہیں


طبیبِ غیبی نے علامات سے معلوم کرلیا کہ اس کو کیا مرض ہے

7

گریہ زاری لاغری سے بھانپ کر

جانا کہ یہ مرض دل کا ہے اثر

تشریح:

اس نے جب ساری چیزیں نوٹ کرلیں، تو پتا چلا کہ یہ تو مرضِ دل ہے، دل کا مرض ہے۔ اب آگے مضمون اس کی طرف جارہا ہے، حضرت کو حکایت سے غرض نہیں ہوتی، حضرت کو مضامین سے غرض ہوتی ہے، ہاں جی۔ تو اب مضامین آرہے ہیں۔

8

عاشقی دل میں کسی کی ہو اگر

اس طرح بیماری اس کا ہو اثر

تشریح:

یعنی اس طرح کی بیماری جو ہوتی ہے، وہ ان کو ہوتی ہے جس کے دل میں عاشقی ہو۔

کنیزک کے دل کی دگرگوں حالت بتا رہی ہے کہ اس کو مرضِ عشق ہے جو دل کا مرض ہے اور دل کا مرض بدن کے مرض سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

9

عاشقی کے مرض کا ہو کیسے جواب

ہے خدا کے بھیدوں کا یہ اصطرلاب

یہاں سے ضمنًا عشق کے حالات بیان فرماتے ہیں۔ یعنی جس طرح اصطرلاب سے احوالِ فلکیہ کی واقفیت حاصل ہوتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک ایسا روحانی آلہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسرارِ الٰہیہ منکشف ہوتے ہیں۔

تشریح:

ہاں جی، یہ جو ہے ناں، ہمارا بھی ایک کلام ہے ’’میں مریضِ حبِ رسول ہوں، یہ مرض صحت سے بھی بالا ہے‘‘ ہاں جی۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ بات جو ہے کہ عاشقی؛ یہ تو عجیب چیز ہے۔

10

عاشقی ہو یہ یا وہ انجام کار

تشریح:

یعنی یہ جو ہم کہتے ہیں مجازی عشق ہو یا حقیقی عشق ہو۔

عاشقی ہو یہ یا وہ انجام کار

شاہ خوباں اس کا ہو مطلوب یار

تشریح:

تو وہ اس کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مجازی عشق کیسے اللہ کی محبت کی طرف جاسکتا ہے؟ یہ بہت عجیب topic ہے اور یہ ہمارے حضراتِ چشتیہ رحمۃ اللہ علیہم کی بہت زبردست research ہے اس میں، مطلب ان حضرات نے ما شاء اللہ! اس میں بڑا کمال پایا۔ ہاں جی۔

یہ کہ عشقِ مجازی ہو یا حقیقی بہر کیف وہ محبوبِ حقیقی یعنی ذاتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ عشقِ حقیقی کا مُوصِل الٰی الحق ہونا تو ظاہر ہے لیکن عشقِ مجازی جس کا تعلق جمالِ مخلوقات سے ہوتا ہے اس کو اگرچہ نردبانِ حقیقت کہتے ہیں۔

لیکن وہ ہر شخص کے لیے اور ہمیشہ مفید نہیں اور نہ ہر شخص کو اس کی اجازت ہے۔ اسی لیے مولانا روم نے دوسرے مصرعہ میں ”ما را بداں شہ رہبرست“ فرمایا ہے۔ یعنی عشقِ مجازی صرف ہم عارف لوگوں کی رہبری کرسکتا ہے، جس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ وہ عوام کے لیے خطرناک ہے۔

مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الُوہیّت و محبوبیّت خاص خداوند تعالیٰ کی صفات ہیں جن میں غیر کی شرکت محال ہے۔ مگر عشقِ مجازی کا تعلق جو بظاہر ماسوٰی سے ہے تو اس کی اصلیت یہ ہے کہ اس جمیلِ مطلق جلّ شانہٗ کا پرتوِ جمال مختلف مظہروں میں جلوہ گر ہوتا ہے اور ہر مظہر کے الگ الگ عاشق پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا مجازی معشوق تو وہی خاص خاص مظہر ہے لیکن معشوقِ حقیقی سب کا ایک ہی ہے کیونکہ ایک ہی شمع ہے جس کی شعائیں متعدد چیزوں پر پڑ کر ان کو روشن کر رہی ہیں اور یہ نکتہ عارف ہی سمجھ سکتا ہے جو ترقی کرتا کرتا عشقِ مظہر کے ذریعے سے اس پر جا پہنچتا ہے، جدھر سے یہ پرتو اس مظہر پر پڑا ہے۔ وَ ہُوَ الْمُرَادُ۔ پس عشقِ مجازی عارف کے لیے ہادی ہے اور جاہل کے لیے وبالِ عظیم ہے، جو مظہر کے عشق پر ہی مر مٹتا ہے اور اسی کو معشوق و معبود جانتا ہے۔ انتہٰی۔

میں کہتا ہوں کہ اہلِ معرفت کے نزدیک عشقِ مجازی کا نردبانِ حقیقت ہونا بے شک حق اور صواب ہے، لیکن اس کی عمومی اجازت میں یہ خرابی ہے کہ بد سرشت لوگ اس اصل کی آڑ میں کھلم کھلا بد نظری اور بد مشربی کا ارتکاب کرتے ہیں، جس سے عوام بھی دھوکا کھاتے ہیں۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اپنی پاک نظری و معرفت آموزی کے دعوے میں حسین لڑکوں کو ساتھ لے بیٹھتے ہیں، مجھ تجربہ کار سے پوچھو تو وہ اپنی کمزوری یا کسی مصلحت سے بدکاری تو کر نہیں سکتے، لیکن لذّتِ نظر اور لطفِ مصافحہ اور ذوقِ ہم آغوشی حاصل کرنے میں ان کی مثال اس روزہ دار کی سی ہے جو دستر خوان کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھے، یا اس بکری کی سی جو کھجوروں کو ایک تھیلے میں بند پا کر صرف ان کی گھٹلیاں چبانے پر قناعت کرے۔

شیخ نے ایک عجیب حکایت لکھی ہے کہ ایک عابد کسی حسین لڑکے پر عاشق ہوگیا۔ حکیم بقراط نے اس کی پریشانی و سرگردانی کی حالت کو اشتباہ کی نظر سے دیکھا تو لوگ بولے یہ شخص بڑا متّقی و متورّع اور عبادت گزار ہے اور کہتا ہے کہ میں اس نقش پر فریفتہ نہیں ہوں، بلکہ اس نقش کے نقّاش پر عاشق ہوں۔

حکیم نے کہا تمہارا عابد تو بات نکتہ کی کہتا ہے مگر ہر شخص کی اس سے تسلّی نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ صرف نقّاش کا عاشق ہے تو کسی ایک دن کے بچے کو دیکھ کر اس کا عشق جوش میں کیوں نہیں آتا وہ بھی اس کی صنعت کا ایک نمونہ ہے بلکہ ایک سچے عاشقِ حق کو جو بات کسی ماہرو میں نظر آتی ہے وہی ایک اونٹ میں بھی دکھائی دینی چاہیے۔

غرض عشقِ مجازی جس کی عارفوں کے لیے اجازت ہے اس کی جائز اور حلال صورت کج دار و مریز کا معاملہ ہے، جو ہر کس و نا کس کے بس کا نہیں۔ اکثر اس کا نتیجہ معصیت اور ارتکابِ حرام ہوتا ہے۔ اَعَاذَنَا اللہُ مِنْہُ۔ اس لیے اس سے پرہیز لازم ہے۔ شارحِ کلیدِ مثنوی بھی دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں عشقِ مجازی میں خطرہ ہے، مگر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ اس میں یہ خاصیت ضرور ہے کہ دل میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے اور باقی تعلّقات قلب سے دفع ہو کر یکسوئی حاصل ہوجاتی ہے اس لیے اس کے اِزالہ کے بجائے اِمالہ بہتر ہے یعنی اس کو عشقِ حقیقی میں بدل دینا چاہیے۔ پھر ساتھ ہی اِمالہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ عاشق پارسائی پر قائم رہے۔ محبوب کی طرف نظر نہ کرے اور یہ سوچے کہ مصنوع میں یہ جمال ہے تو صانع میں کس قدر ہوگا۔ اس سے اس کا عشق مخلوق سے خالق کی طرف مائل ہو جائے گا۔ مگر میرے نزدیک اِمالہ مشکل ہے اور اِمالے کا مذکورہ طریقہ بھی غیر مفید ہے۔ فریفتگی کے بعد ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قلب و دماغ کو قابو میں رکھنا اور قوٰی و جوارح کو پابندِ اعتدال بنا سکنا ایک امرِ متعذّر ہے۔ پھر نہ آنکھ میں یہ تاب رہتی ہے کہ محبوب کی طرف سے بند ہوسکے، نہ دل میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کی اصلاحی تعلیمات کی طرف توجہ کر سکے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ عشقِ مجازی سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ یہ عشق اگر ہادی الٰی الحق ہے تو اس کے لیے بڑی قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ اگر صلاحیت نہ ہو تو پھر یہ بلائے عظیم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس سے بچنا اچھا ہے۔

تشریح:

ما شاء اللہ یہ علماء کرام کی آپس کی discussion کی بات ہے، ایسے ہی ہوتا ہے علماء کرام میں، اس سے لطف لینا چاہئے، ہاں جی، علماء کرام کی تحقیقات سے۔ بہرحال! جو اس میں اصل بات ہے، وہ عرض کرلیتا ہوں۔ پتا نہیں انہوں نے وہ چیز کیوں نہیں لکھی۔ اصل بات یہ ہے کہ دیکھیں! ایک طریقہ یہ ہے کہ اس طرف کافی تنکے پڑے ہوئے ہیں، ہاں جی، آپ ایک ایک تنکا اٹھا کر باہر پھینکیں، ایک تنکا اٹھا کر باہر پھینکیں، پھر آئیں، پھر دوسرا تنکا اٹھا کے باہر پھینکیں، پھر تیسرا تنکا، کتنا وقت لگے گا؟ ہاں جی، بلکہ لوگ پاگل سمجھیں گے کہ یہ کیا پاگل ہے، بلکہ پاگل کرتے بھی اس طرح ہیں، ہاں جی۔ دوسری طریقہ یہ ہے کہ جھاڑو لے لو اور سب کچھ ایک جگہ جمع کردو، وہ اٹھا کر dust bin میں ڈال دو، ہاں جی، یا اس کو آگ لگا دو۔ بس بات ختم۔ یہی طریقہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔ اب عشقِ مجازی بڑی تیز چیز ہے اور جس کو عشقِ مجازی واقعی ہوجاتا ہے، ایک تو ہوس ہے ناں، ہوس کے بارے میں بات نہیں کررہا ہوں، ہوس کے بارے میں وہی بات ہے جو انہوں نے ابھی فرمائی ہے، اس کے لئے پناہ ہی بہتر ہے، اس سے پناہ ہی بہتر ہے۔ لیکن عشق کی بات کرتا ہوں عشق مجازی، اس کا یہ ایک نتیجہ ہوتا ہے کہ باقی تمام چیزوں سے دل سرد ہوجاتا ہے، صرف ایک ہی پہ آجاتا ہے، اس کے لئے وہ پیسہ کو بھی نہیں دیکھتا، عزت کو بھی نہیں دیکھتا، لذت کو بھی نہیں دیکھتا، یہ تین چیزیں ہیں ناں: حبِ جاہ، حبِ باہ، حبِ مال ہے۔ یہ تین چیزیں ہیں ناں، جو کہ انسان کو تباہ کرتی ہیں، یہ ساری کی ساری اس میں ایک میں جمع ہوجاتی ہیں، وہ جو ہے ناں اسی سے لذت پاتا ہے، اسی پہ مال خرچ کرتا ہے اور اسی کے لئے عزت قربان کرتا ہے۔ جب یہ یکسوئی ہوجاتی ہے تو اب اگر اُس وقت کوئی بہت ماہر ہو جو کہ اُس وقت اُس کا رخ اس سے پھیر کے اللہ کی طرف کردے، تو باقی چیزوں سے تو سرد ہو ہی گیا ہے، تو بس کام ہوجائے گا۔ جو کام بڑی مشکل سے ہوتا ہے، وہ بہت آسانی سے ہوجائے گا۔ یہ اصل میں عشق مجازی کا عشقِ حقیقی کی طرف turning point ہے اور یہ ہوتا ہے۔ میرے پاس بھی ایسے cases آئے ہیں، تو اس سے الحمد للہ فائدہ ہوا ہے، لیکن اس کے لئے واقعی پھر steering ہاتھ میں بڑی مہارت کے ساتھ چلانا پڑتا ہے، ہاں جی۔ تو یہ جو ہے ناں، مطلب اس کا ہے، کہ کم از کم میں اس کا قائل ہوں۔ کرنا نہیں چاہئے، لیکن ہوجائے تو پھر یہ طریقہ ہے۔ کرنا اس لئے نہیں چاہئے کہ کیا پتا نہ کرسکے، ہاں جی۔ تو کرنا نہیں چاہئے، لیکن ہوجائے ایسا تو۔ کسی کو ہو بھی جاتا ہے ناں، تو اس وقت آپ اگر کہیں بھی کہ نہ کرو، نہ کرو، تو وہ تمھاری بات مانے گا؟ تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اس کا امالہ ہی بہتر ہے ناں۔ جنہوں نے فرمایا ناں کہ امالہ اس کا نہیں بہتر، تو بھائی! وہ تو اس صورت میں جب عشق کوئی اپنی مرضی سے کرے۔ تو اپنی مرضی سے کون کرتا ہے۔ جو اپنی مرضی سے کرتا ہے، وہ تو ہوس ہے۔ عشق تو ہوجاتا ہے، ہاں جی ہوجاتا ہے۔ مثلاً: کسی بھی حسین چیز کو دیکھ کر اس کے ساتھ عشق ہوجائے، تو وہ ٹھیک ہے، پھر ہوجاتا ہے، تو ہوجاتا ہے۔ تو جب ہوجاتا ہے تو اس کا امالہ ہی کرنا پڑے گا اور امالہ سے پھر یہ چیز ہوجاتی ہے، مطلب فائدہ ہوجاتا ہے۔ تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ اس کے فائدہ کے ہم قائل ہیں، لیکن کرنا نہیں کسی نے قصداً۔ اگر ہوجائے تو پھر اس کا علاج موجود ہے اور وہ علاج مطلب اس طرح ہے۔ یعنی واقعتاً اب دیکھیں! اگر لڑکا ہو کوئی اور کسی لڑکی پہ دل آجائے، تو پھر ظاہر ہے اگر اس کا کوئی شیخ ہو مربی ہو اور اس کو یہ جو ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے، اس طریقہ سے دے کہ ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ سے اس کی محبت دل سے نکل رہی ہے، اب دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا؛ دنیا تو مختلف صورتوں میں ہے، تو سب کو دل میں لانا بڑا مشکل ہے، لیکن جس وقت عشق مجازی میں ہو، تو صرف اس کو دل سے نکالنا مشکل نہیں، کیونکہ اس کا تو پتا ہے ناں، تو ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ وہ نکالو، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ اللہ کی محبت کو لاؤ۔ میرے سامنے بھی ایسا آدمی آیا، تو میں نے اس کو ایک ہزار مرتبہ روزانہ کا اس طرح بتایا، چار مہینے میں وہ نکلا تھا اس سے، چار مہینے لگے تھے، ہاں جی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں ممکن ہیں، لیکن یہ بات ہے کہ احتیاط لازمی ہے اور وہ احتیاط یہ ہے کہ کرنا نہیں ہے۔ اس میں پھر یہ بات ہے کہ جس سے محبت ہے اور غیر محرم ہے، اس کو دیکھنا نہیں، اس سے ملنا نہیں، اس کی بات نہیں کرنی۔ پابندی ہوتی ہے، اس کو دیکھنا نہیں، اس سے ملنا نہیں، اس کی بات کسی اور سے نہیں کرنی۔ اور یہی ذکر جو ہے ناں مطلب وہ کرنا ہے۔ اس سے وہ جو ہے ناں، وہ جو اس کی تمام چیزیں ہیں، وہ جذبہ ہے، وہ transfer ہوتا ہے دوسری طرف، کیونکہ ملنا نہیں ہے، کس وجہ سے نہیں ملنا؟ کیونکہ اللہ سے ملنا ہے۔ بات نہیں کرنی اس سے، کیونکہ اللہ کے ساتھ بات ہوگی۔ اور کسی اور سے بات اس لئے نہیں کرنی کہ اس سے وہ خواہ مخواہ یاد آئے گا۔ تو کسی اور سے اس کی بات نہیں کرنی۔ اور ویسے بھی اس کی عزت کا بھی خیال ہے ناں، تو خواہ مخواہ اس کو کیوں بدنام کیا جائے، ہاں جی۔ تو کسی اور سے اس کی بات بھی نہیں کرنی۔ تو اس طریقہ سے مطلب جو ہے ناں، جب یہ ہو، تو پھر ما شاء اللہ یہ (ہوجاتا ہے) کیونکہ واقعتاً اللہ بھی بہت غیرتی ہے، اگر اللہ کے لئے کوئی قربانی کرتا ہے ناں، تو پھر اللہ پاک جو دیتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، ہاں جی۔ کہ اگر کوئی اللہ کے لئے ایک چیز سے رکتا ہے، تو اللہ کو پتا ہے میرا بندہ کتنا کمزور ہے، اگر وہ اس کے باوجود بھی اللہ پاک کے لئے ایک محبوب چیز کو چھوڑ سکتا ہے، تو پھر کیا بات ہے! ہاں جی، پھر تو بہت بڑی بات ہے ناں۔ تو جب اللہ کے لئے آپ کسی چیز کو چھوڑیں گے، تو اللہ تعالیٰ پھر بہت بہترین چیز عطا فرمائیں گے۔ تو پھر اپنی محبت عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔ اس لئے میں نے کہا کہ یہ جو کورس ہے، یہ چشتی حضرات کے ہاں بہت زیادہ معمول بہ ہے۔

اگرچہ آثارِ صوفیہ میں ایسے احوال و اقوال نظر سے گزرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشقِ مجازی کو خاص قیود و شرائط کی حد میں جائز بلکہ مستحسن مانا گیا ہے مگر ان روایات کے مقابلہ میں اسوۂ خلیل اللہ علٰی نبیّنا و علیہ صلوٰت اللہ کو دیکھنا چاہیے کہ اس سے کیا سبق ملتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر تلاشِ حق میں بتوں پر پڑی اور وہ ان میں کوئی خدائی شان نہ پا کر ان کا ابطال کر چکے تو پھر مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (عالمِ افلاک و زمین) کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک ستارہ نظر آیا۔ اس میں خدائی شان کا جلوہ دیکھا تو بولے ﴿ھٰذَا رَبِّیْ﴾3

تشریح:

میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اس طرح بات نہیں ہے، وہ تو لوگوں کو باور کرا رہے تھے کہ تم کہتے ہو یہ ’’رَبِّیْ‘‘ ہے، خود نہیں مانتے تھے کہ میرا رب ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں؟ کیونکہ نبی پہلے سے موحد ہوتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ نبی تو پہلے سے مؤحد ہوتا ہے، وہ تو بچپن سے مؤحد ہوتا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کتنی عمر کے تھے جب ابراہیم علیہ السلام نے ان کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، تو آپ کا کیا خیال ہے؟ تو جواب کیا دیتے ہیں؟ کہتے ہیں: آپ وہ کر گزریں جس کا آپ کو حکم ہے، مجھے آپ صابرین میں پائیں گے۔ اب بتاؤ! یہ کوئی عام آدمی جواب دے سکتا ہے؟ تو یہ ابھی ہم نے پڑھا نہیں ہے سیرت النبی ﷺ میں؟ جو انبیاء کی صفات ہم نے پڑھی تھیں، اس میں تو بات ہوئی تھی کہ پہلے سے ما شاء اللہ! ان کا یہ (حال) ہوتا ہے، تو ابراہیم علیہ السلام بھی (پہلے سے موحد تھے)۔ یہ طریقہ تبلیغ ہے، اس کو الزامی دلیل کہتے ہیں۔ کیوں، الزامی دلیل کہتے ہیں ناں؟ یعنی آپ پہلے سے مخاطب کی زبان سے جو بات نکل رہی ہے، وہی اس کے اوپر الٹا دیں۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو یہ وہ چیز ہے کہ وہ چوں کہ اس کو اپنا رب سمجھتے تھے، تو انہوں نے کہا: ﴿ھٰذَا رَبِّیْ میرا رب ہے۔ پھر consequences نظر آئے کہ وہ ڈوب گیا، جب ڈوب گیا، تو کہا نہیں ہے۔ ﴿لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ﴾ میں تو ڈوبنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ پھر چاند کو دیکھا اچھا، ہاں! یہ بڑا ہے، یہ میرا رب ہے۔ تو جب چاند بھی ڈوب گیا، تو کہتے ہیں: نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ پھر سورج کو دیکھا، ہاں یہ بہت روشن ہے، یہ رب ہے۔ تو پھر جب وہ بھی ڈوب گیا، تو کہتے ہیں: نہیں نہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ اصل میں وہ تو ایک طریقۂ تبلیغ تھا۔ ہمارے ایک دیوانہ۔ دیوانہ تو میں نہیں کہتا، مجذوب ساتھی تھے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے، لیکن مجذوب تھے۔ مجذوب ہوتا ہے جو بھی ہو، لیکن ایسے مجذوب نہیں تھے کہ پاگل تھے، یعنی جذب ان پہ طاری تھا زیادہ، تو کبھی کبھی مجذوبانہ بات کرتے تھے۔ تو وہ کہتے ہیں: میں نے خواب دیکھا، خواب میں دیکھتا ہوں کہ مجھے بتایا گیا کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پہ تبلیغ کریں۔ تو کہتے ہیں کہ مولانا سعید خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے پوچھا کہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقۂ تبلیغ کون سا ہے؟ فرمایا: یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ تو وہ یہ طریقہ تھا، یعنی الزامی دلیل کے طور پر کہ آپ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ جو مخاطب کی دلیل ہے، اسی کو لے کے اس کو بودا ثابت کریں۔ یہ mathematics کا طریقہ بھی ہے، ریاضی میں بھی یہ طریقہ مروج ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک چیز assume کرلیتے ہیں کہ یہ چیز ایسی ہے بالکل الٹا، الٹا assume کر کے جب وہ غلط ثابت ہوجائے، تو کہتے ہیں: چونکہ یہ غلط ثابت ہے، لہٰذا یہ assume کرنا بھی غلط تھا، لہٰذا یہ چیز؛ اس کا opposite ٹھیک ہے۔ یہ مطلب باقاعدہ ہے۔ کیوں، اس طرح ہے یا نہیں ہے؟ آپ کو کبھی نظر آیا اس قسم کا mathematics میں؟ یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ الٹا assume کرلیتے ہیں۔ ریاضی والوں کو پتا ہے، انجینئر ہے ناں۔ انجینئر انجینئر ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ریاضی والوں کو پتا ہے کہ اس طرح وہ کرلیتے ہیں کہ وہ ایک چیز assume کرلیتے ہیں اور پھر جب وہ غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے اس کے مسئلے ہوتے ہیں geometry کے مسئلے، اس میں پھر یہ استعمال ہوتا ہے، ہاں جی۔ تو بہرحال یہ ہے کہ یہ طریقہ جو ہے ناں، اس میں جو یہ دلیل پکڑی، میرے تو خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔

اس میں خدائی شان کا جلوہ دیکھا تو بولے ﴿ھٰذَا رَبِّیْ﴾4 ”یہ میرا پروردگار ہے“۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پیغمبری فطرت ستارہ پرستی پر مائل کب ہوتی تھی۔ خصوصًا وہ پیغمبر جس نے بدوِّ شعور سے شرک کو حقارت سے دیکھا ہو لا محالہ "ھٰذا رَبِّیْ" کے اسمِ اشارہ میں ان کا مشارٌ الیہ پروردگارِ حق تھا جس کی شان ان کو ایک مظہر میں ظاہر ہوتی نظر آئی اور وہ مظہر ایک ستارہ تھا مگر کمالِ محویت کے باعث مظہر سے قطع نظر کر کے۔

تشریح:

بڑی مشکل justification ہے۔ وہ جو آسان والی بات ہے، وہ تو یہی ہے جو میں نے عرض کی کہ طریقہ تبلیغ ہے کہ مخالف کی بات کو لے کے اس کو رد ثابت کرنا اور پھر اس کے بعد اس سے اپنی بات نکالنا۔

کر کے ظاہر کو مشارٌ الیہ بنایا۔ "فَلَمَّاۤ اَفَلَ" جب وہ ستارہ غروب ہو گیا تو آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ مظہر جس میں وہ محبوبِ حقیقی کے جمال کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ایک مجبور و فانی چیز ہے۔

﴿قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ﴾5

تو کہا غروب ہو جانے والی چیزوں کو میں پسند نہیں کرتا۔

یعنی جلوۂ حق کے مشاہدہ کے لیے ایسی فانی چیزیں مجھے پسند نہیں۔ غرض پھر چاند اور اس کے بعد سورج کو دیکھا۔ یہی نقص ان بڑے بڑے مظاہر میں پایا تو کہا:

﴿اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾6

تشریح:

بلکہ میں کہتا ہوں ایک بات اور ہے۔ اگر یہ بات ہے، اگر یہ بات ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے، تو پھر اخیر میں جو آتا ہے کہ وہ جو خود بتوں کو مارا توڑا اور جب ان سے پوچھا کہ تو نے توڑے ہیں؟ کہتے ہیں: یہ بڑے سے پوچھو، یہ بڑے بت سے پوچھو۔ کیا اس میں بھی کوئی حکمت تھی اس کی؟ سمجھ میں آگئی بات؟ قرآن میں نہیں آیا؟ ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا﴾ تو کیا اس میں بھی کوئی اس قسم کی بات تھی؟ وہی تبلیغ والی بات تھی ناں، ان کو سمجھانا تھا کہ یہ تو بات بھی نہیں کرسکتا، تو کیسے مطلب تم یہ کہہ سکتے ہو۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ بتوں کی بے بسی اور کچھ بھی نہ کرسکنا؛ یہ ثابت کرنا تھا۔ تو خود توڑا اور کلہاڑی اس کی گردن میں لٹکا دی، تو فرمایا: وہ دیکھو ناں، یہ تو اس نے کیا ہے، اگر یہ کچھ کرسکتے تو۔ کہتے ہیں: یہ تو کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: پھر تم کیسے (ان کو معبود سمجھتے ہو) تو وہ دلیل بڑی کارگر ثابت ہوئی کہ تھوڑی دیر کے لئے وہ جھینپے کہ ہم ہی غلطی پر ہیں، پھر دوبارہ وہی اس پہ دوبارہ آگئے کہ اپنے خداؤں کی help کرنا چاہوں، تو مطلب اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔ تو یہ جو چیز ہے، مطلب یہ جو آخری بات ہے اس کی، میرے خیال میں گزشتہ تمام تینوں باتوں کی direction طے کررہی ہے، کیونکہ یہ اس process سے گزرنے والی بات تو نہیں تھی ناں، جیسے انہوں نے فرمایا کہ اس کے اندر اصل میں ستارہ بھی مظہر تھا اور اس طرح یہ جو چیزیں تھیں۔ بھائی! کلہاڑی کون سا مظہر تھا؟ ہاں جی۔ تو یہ چیز جو ہے ناں، یہ اس میں ایک ہی بات چلی آرہی ہے۔ اور وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ طریقہ تبلیغ ہے۔ اور وہ طریقہ تبلیغ کیا تھا؟ وہ یہی تھا کہ مخالف کی اس کو دیکھو کہ وہ کیا سمجھتا ہے، تو اس کو لے کے اس کو غلط ثابت کرلو اور اس سے اپنی بات صحیح ثابت کرلو۔ یہ طریقہ کار تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ یہ علمی باتیں ہیں، اس میں یہ والی بات نہیں کہ ہم مخالف ہیں ایسے لوگوں کے، ان کے اپنے دلائل ہیں۔ تو دلائل تو دلائل ہی ہوتے ہیں، اگر ایک دلیل ہوتی ہے، تو دوسری بھی دلیل ہوتی ہے، وہ ہماری دلیل کو بھی رد کرسکتے ہیں، لیکن ہم اپنی دلیل ان کے لئے چھوڑیں گے تو نہیں، جب تک ہم مطمئن نہیں ہیں، اپنا شرحِ صدر نہیں، تو دلیل تو ہم دیں گے، تو وہ اپنی دلیل دیں گے۔

بہرحال! اصل بات تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ محققین حضرات اخیر میں لکھتے ہیں ناں: ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘ مطلب اللہ پاک ہی کو اصل بات کا پتا ہے کہ اصل حقیقت حال کیا ہے۔ ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘۔

یعنی "میں نے تو ایک ہی کا ہو کر اپنا رخ اسی کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں"۔

غرض جب ایک پیغمبر مخلوقِ فانی میں خالقِ باقی کا جلوہ دیکھنا شرک کا مترادف سمجھتا ہے تو اب بتاؤ عوام کے لیے، جن کے قلوب ہر وقت ہَوا و ہَوس کے حملوں سے خطرے میں ہیں، اس کو کیا سمجھا جائے۔

تشریح:

یہ دیکھیں ناں! اس سے نتیجہ کم از کم میرے نزدیک بہت غلط نکلتا ہے، پیغمبر کے بارے میں ایسا گمان کرنا کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتا۔

غرض جب ایک پیغمبر مخلوقِ فانی میں خالقِ باقی کا جلوہ دیکھنا شرک کا مترادف سمجھتا ہے۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ واقعی اس طرح سمجھتے تھے، ہم لوگ کہیں گے صرف دلیل کے طور پر وہ لیتے تھے، دلیل کے طور پہ لیتے تھے، ان میں کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ یہ اصل میں اس وقت جس صاحب نے اس کی تشریح کی تھی جس بنیاد پر، اس وقت مجھے یہی لگتا تھا، لیکن الحمد للہ! یہاں سے اس کا ثبوت مل گیا۔ تو وہ میں پھر کہتا ہوں کہ یہاں پر وہ جو ہے۔

﴿فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ۝ فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ۝ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ۝ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾7 ترجمہ8: ’’چنانچہ جب ان پر رات چھائی، تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے کہ یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا، تو انہوں نے کہا کہ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، تو کہا کہ یہ میرا رب ہے، لیکن جب وہ ڈوب گیا، تو کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے، تو میں یقیناً گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا، تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ زیادہ بڑا ہے۔ جب وہ غروب ہوا، تو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، ان سب سے میں بیزار ہوں۔ میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے، جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ اور پھر یہ ہوا کہ ان کی قوم نے حجت شروع کر دی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے جس علاقے نینوا میں پیدا ہوئے تھے وہاں کے لوگ بتوں اور ستاروں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، ان کا باپ آزر بھی نہ صرف اسی عقیدے کا تھا بلکہ خود بت تراشا کرتا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام شروع ہی سے توحید پر ایمان رکھتے تھے اور شرک سے بیزار تھے، لیکن انہوں نے اپنی قوم کو غور وفکر کی دعوت دینے کے لئے یہ لطیف طریقہ اختیار فرمایا کہ چاند ستاروں اور سورج کو دیکھ کر پہلے اپنی قوم کی زبان میں بات کی، مقصد یہ تھا کہ یہ ستارہ تمہارے خیال میں پروردگار ہے، آؤ دیکھتے ہیں کہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ چنانچہ جب ستارہ بھی ڈوبا اور چاند بھی اور آخر میں سورج بھی تو ہر موقع پر انہوں نے اپنی قوم کو یاد دلایا کہ یہ تو ناپائیدار اور تغیر پذیر چیزیں ہیں، جو چیز خود ناپائدار ہو اور اس پر تغیرات طاری ہوتے رہتے ہوں، اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ پوری کائنات کی پرورش کررہی ہے، کیسی غیر معقول بات ہے، لہذا انہوں نے چاند ستاروں یا سورج کو جو یہ کہا تھا کہ یہ میرا رب ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق نہیں بلکہ اپنی قوم کے عقیدے کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا تھا۔

یعنی وہی والی بات جسے میں عرض کرچکا ہوں کہ الزامی دلیل کے طور پر۔ ہاں جی۔ جیسے ہم کہتے ہیں ناں بفرضِ محال، اس میں بھی یہی بات ہوتی ہے کہ اب بات تو اس طرح نہیں ہے، لیکن جیسے تم کہتے ہو اگر اس کو مان بھی لیا جائے تو پھر یہ نتیجہ ہے۔ ہاں جی۔ تو یہ اس وجہ سے اس قسم کی بات تھی۔ وہاں جو ہے ناں مطلب وہ صاحب اس کو لے جارہے تھے کہ مظہر ہر چیز کا ہوتا ہے، تو جو مظہر ہوتا ہے، اس میں وہ حقیقت نظر آتی ہے، وہ ذرا کافی complicated والی بات تھی۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام کا اس کے بارے میں یہ عقیدہ چاہے جس وجہ سے بھی ہو، ایک پیغمبر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ پیغمبر جو ہوتا ہے، پہلے سے مؤحد ہوتا ہے۔ وہ جو ہے ناں، کبھی بھی (شرک نہیں کرتا) مطلب ابتدا ہی سے وہ نہیں (مشرک ہوتا) یعنی آپ دیکھیں ناں! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے، انہوں نے کبھی وہ نہیں کیا تھا شرک نہیں کیا تھا۔ جس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، مطلب آپ ﷺ مبعوث نہیں ہوئے تھے، اس وقت بھی انہوں نے نہیں کی تھی بتوں وغیرہ کی (عبادت)۔ ہاں جی۔ تو مطلب ایسے حضرات جو عام غیر نبیوں میں بھی ہوتے ہیں، تو نبی کی شان تو بہت بلند ہے، وہ تو کبھی بھی اس قسم کی بات نہیں سوچ سکتے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہر ایک کا طریقہ اپنا اپنا ہوتا ہے سمجھانے کا، تو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ سمجھانے کا یہ تھا کہ الزامی دلیل کے طور پر (سمجھاتے تھے)۔ اور الزامی دلیل بہت ہی intelligent لوگ کرتے ہیں، مطلب جن کو اپنے اوپر پورا (اعتماد) ہوتا ہے، تو وہ اس قسم کی بات کرتے ہیں کہ جو مخاطب ہوتا ہے، اس کو اسی کی terminology میں گھیر لیتے ہیں۔ اور یہ ہمارے بڑے بڑے جو ما شاء اللہ! محققین ہوتے ہیں، وہ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ان حضرات کے فیوض و برکات نصیب فرما دے۔

11

عشق کی کردوں اگر شرح و بیاں

عشق خود سے اس پہ شرمندہ ہوں ہاں

تشریح:

یعنی میں عشق کی اگر شرح کردوں بیان تو پھر عشق خود ہی اس پر شرمندہ ہوجائے۔

"فرماتے ہیں کہ عشق ایک ذوقی و وجدانی امر ہے اور ایسے امور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے پوری طرح منکشف نہیں کیے جا سکتے اس لیے میں عشق کی جس قدر تشریح کرتا ہوں جب عشق کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے یا اس کو اصلی روپ میں دیکھتا ہوں تو مجھے (اس تقریر پر، تحریر پر) ندامت ہوتی ہے۔ کہ میں نے کیا کہا، کیونکہ عشق کا جواب بذاتِ خود عشق ہے۔

12

کر دے روشن خوب مطلوب گو بیان

لیکن روشن خوب عشق ہے بے زباں

ہر چند کہ زبان ہر قسم کے حالات کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے، لیکن عشق ایسی چیز ہے کہ اس کی کیفیت خود بخود عاشق پر زبان کو تکلیف حرکت اور کانوں کو تصدیقِ سماعت دیے بغیر ہی بخوبی منکشف ہوجاتی ہے۔

تشریح:

یعنی عشق خود ہی اپنا (پتہ بتاتا ہے)۔ پتا نہیں کون سی بات ہے، ’’محبت خود تجھے آداب اپنے سیکھائے گی‘‘ کچھ اس طرح ہے ناں؟ ہاں جی۔ مطلب یہ ہے کہ کسی نے پوچھا ناں کہ محبت میں کیا کروں؟ اس کے آداب کیا ہیں؟ فرمایا: جب محبت ہوجائے گی، پھر خود ہی آپ کو اپنے آداب سکھا دے گی۔ ہاں جی۔ اس کے لئے پھر آپ کو کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں جی۔ بلکہ ہمارا بھی ایک شعر ہے اس میں آتا ہے کہ ’’اسی کو ہے کیا نصابِ محبت‘‘۔ ہاں جی۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جس کو عشق کا پتا نہیں ہے، تو اس کو کیا اس کے نصاب کا پتا ہے، کیا اس کو معلوم ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ ابھی تو عاشق ہوا نہیں، جب عاشق ہوا نہیں، تو عشق کو جان ہی نہیں سکتے۔ جب عاشق ہوجاؤ گے، پھر خود ہی سب کچھ پتا چل جائے گا۔ اس پر حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مثال دی ہے، مثال بڑی عجیب دی ہے۔ فرمایا کہ ایک بچی کی شادی ہوئی تھی، تو اس کی پہلی اولاد ہونے والی تھی، اس کو تجربہ تو تھا نہیں، تو اس نے کہا کہ جب اولاد ہونے کا وقت آجائے، تو مجھے جگا دینا۔ تو اس کی نانی نے کہا کہ بیٹی! جب وہ وقت آئے گا، تو تو سب کو جگاتی پھرے گی، تجھے کوئی نہیں جگائے گا، تو سب کو جگاتی پھرے گی۔ ہاں جی۔ تو مطلب یہ ہے کہ اگر عشق کسی کو ہوجائے، تو پھر وہ خود ہی بتا دے گا کہ یہ کیا چیز ہے، ورنہ یہ بات ہے کہ آپ لاکھ دلیلوں کے ذریعہ سے، سو دلیلوں سے آپ سمجھائیں، یہ دلیلوں سے نہیں سمجھ میں آتا۔ ہاں جی۔ ورنہ اتنی بڑی بڑی قربانیاں لوگ نہ دے سکتے۔ ہاں جی۔ لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ مجھے بتاؤ! غزہ والے جو قربانیاں دے رہے ہیں، کس لئے دے رہے ہیں؟ کیسے کوئی اندازہ ہے؟ ہاں جی۔ معمولی بات تو نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کسر نہیں اٹھائی۔ بچوں کے اوپر بم، عورتوں کے اوپر بم، بوڑھوں کے اوپر بم، (اور) قصداً، یعنی لوگ فوجیوں کو مارتے ہیں ناں، یہ فوجیوں کی بجائے عوام کو مارتے ہیں، تاکہ ان کے حوصلے پست ہوجائیں۔ اور تکلیف تو ان کو ہوتی ہے، لیکن کیا انہوں نے احتجاج کیا ہے اس پر ان سے؟ دشمن دشمن ہے، دشمن سے کیا احتجاج؟ ہاں جی۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ اب عشق ہی ہے، اور اس وجہ سے پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ (عشق) تھی۔ اس طرح ملا عمر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے، جب یہاں پاکستان کے لوگ ان کے پاس گئے کہ آپ ان کو وہ نہ دیں یعنی پناہ نہ دیں اور اس طرح مطلب یہ ہے، ورنہ پھر یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ دیکھو! آپ نے ابھی تک کون سی جنگ جیتی ہے جو مجھے آپ مشورہ دے رہے ہیں؟ آپ نے کون سی جنگ ابھی تک جیتی ہے؟ اور ہم نے ابھی تک کون سی جنگ ہاری ہے، جو آپ ہمیں مشورہ دے رہے ہیں؟ ہاں جی۔ میں جہاد کا نام نہ لوں، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ تو اب یہ مطلب دیکھیں! میں شریعت کا پابند ہوں، یہ علماء کرام سارے بیٹھ جائیں اور یہ پھر مجھے بتائیں کہ ٹھیک ہے، تو پھر میں مان لوں گا، میں ان کی بات کیوں مانوں۔ اب ظاہر ہے۔ تو پھر کیا ہوا؟ امریکہ ذلیل ہوکر نکلا ہے یا نہیں نکلا؟ تو یہ بات ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اس کو calculation میں لانا چاہے تو نہیں لا سکتا۔ calculation کی باتیں نہیں ہیں، یہ دل کی باتیں ہیں۔ ہاں جی۔

13

گو قلم مصروف تھا لکھنے میں مگر

عشق جب آیا قلم تھا پھر کدھر

تشریح:

قلم لکھنے میں مصروف تھا، عقل کی باتیں لکھ رہا تھا ناں، لیکن جب عشق آگیا، تو پھر کدھر گیا قلم، قلم کا کہیں پر نام و نشان ہی نہیں رہا۔

عشق چونکہ ایک امرِ ذوقی ہے اس لیے جس طرح اس کی اصلیت کو زبان ادا نہیں کر سکتی اسی طرح قلم بھی اس کے حالات کو حیطۂ تحریر میں لانے سے عاجز ہے۔ ہر چند وہ دیگر مضامین کو کھول کھول کر لکھنے کی اعلیٰ قابلیت رکھتا ہے مگر جب عشق کے حالات لکھنے کا وقت آتا ہے تو عاجز آ جاتا ہے۔

14

بات جب اظہار عشق پہ آگئی

مردنی کاغذ قلم پر چھا گئی

شعرِ سابق کے مضمون کی تاکید ہے کہ حالاتِ عشق کے لکھنے کی نوبت آتی ہے تو نہ قلم میں تابِ تحریر رہتی ہے، نہ کاغذ میں قوّتِ برداشت۔

15

شرح عشق میں عقل کی حالت خراب

ہوگئی کہ عشق جو ہے لاجواب

تشریح:

یعنی شرح عشق میں عقل کی حالت خراب ہوگئی کیونکہ عشق ایک لا جواب چیز ہے۔

زبان و قلم کے بعد اب عقل کو لو۔ جو بڑی بڑی معنوی شکلوں کو حل کرنے والی ہے لیکن عشق کی شرح کرنے سے یہ بھی عاجز و درماندہ ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

آخر جب عشق و عاشقی کی شرح کسی چیز سے نہ ہوسکی تو یہ کام خود عشق ہی نے انجام دیا اور یہ اس طرح کہ جب کسی پر حالات عشق طاری ہوتے ہیں تو وجدانی طور پر خود اپنے ہی عشق سے اس پر اس کی کیفیت منکشف ہو جاتی ہے۔

عشق اور عاشقی جو شعر میں مذکور ہے ایک ہی چیز ہے۔ صرف اعتباری فرق ہے یعنی عشق خالص وصفی معنی میں ہے بلا اعتبار اس کے کوئی اس سے موصوف ہو یا نہ ہو، اور عاشقی وہی وصفی معنٰی اس اعتبار کے ساتھ کہ کسی میں حاصل ہو۔

تشریح:

یعنی عشق جو ہے، بذاتِ خود ایک چیز ہے، جیسے خوبی ایک چیز ہے، چاہے کسی میں ہو یا نہ ہو، لیکن خوبی تو موجود ہے، خوبی تو ہے ناں، لیکن وہ خوبی جب کسی میں ہو، تو ہم کہیں گے: خوب ہے۔ ہاں جی۔ تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ جب عشق ہے، تو عشق کا تو مطلب ظاہر ہے کہ بذاتِ خود ایک وجود ہے، لیکن عاشق وہ ہے، جس میں عشق ہو۔ اور عاشقی اس کا کام ہے۔ ہاں جی۔ تو اس کے لئے موصوف کا ہونا ضروری ہے، عاشقی کے لئے، لیکن عشق کے لئے موصوف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟ اب ٹھیک نہیں ہے؟ عشق بذاتِ خود ایک صفت ہے، تو موصوف نہ بھی ہو، تو صفت تو موجود ہے ناں۔ مثلاً: دنیا میں کوئی آدمی اچھا نہ ہو، تو اچھائی تو موجود ہے ناں، بے شک اس کا نمائندہ کوئی نہ ہو۔ ہاں جی۔ تو اسی طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ عشق تو موجود ہے، ممکن ہے کوئی عاشق موجود نہ ہو۔ لیکن عاشق جب موجود ہو، تو عاشقی موجود ہے پھر۔ عاشقی بغیر عاشق کے موجود نہیں ہوسکتی، لیکن عشق بغیر عاشق کے بھی موجود ہوسکتا ہے۔ یہ والی بات ہے۔

16

آفتاب آفتاب کا ہے جب دلیل

مان لو اس کو نہ کر پھر قال و قیل

اوپر ذکر تھا کہ عشق کے بیان سے زبان و قلم اور عقل تینوں عاجز ہیں، مگر جو شخص مبتلائے عشق ہو جاتا ہے خود عشق کے ذریعہ سے اس پر اس کی کیفیت اس وضاحت کے ساتھ منکشف ہو جاتی ہے کہ کسی دیگر واسطہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس جس شخص کو اس کے حالات سے واقف ہونے کی آرزو ہو، وہ مقامِ عشق میں داخل ہو کر یہ آرزو پوری کرسکتا ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس کی تمثیل سورج سے دیتے ہیں کہ جس شخص کو اس کی حالت و کیفیت معلوم کرنی ہو اس کو کسی شرح و بیان کی ضرورت نہیں، خود آفتاب ہی آفتاب کے حالات کی دلیل ہے۔ اس کو چاہیے کہ آفتاب کو دیکھ لے۔ اس شعر میں اس حدیث کی طرف بھی اشارہ ہے کہ "عَرَفْتُ رَبِّیْ بِرَبِّیْ" یعنی "میں نے اپنے پروردگار کو پروردگار ہی کے ذریعہ سے پہچانا"۔

17

آفتاب کی سایہ سے پہچان ہے

شمس وہ ہر وقت نور جان ہے

عشق کے خود بخود مُدرَک ہونے میں آفتاب کا تمثیلًا ذکر کیا تھا تو یہاں شرکتِ اسمی کے تقاضے سے مولانا کی توجّہ آفتابِ حق کی طرف منعطف ہو گئی، اور فرماتے ہیں کہ ہر چند آفتابِ ظاہری کا ادراک بلا واسطہ ہوتا ہے، مگر اس کا ظہور پھر بھی بمقابلہ آفتابِ حقیقی کے ناقص ہے اور آفتابِ حقیقی کا ظہور کامل ہے۔ کیونکہ بقول "اَلْاَشْیَاۤءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَا" "ہر چیز اپنی ضد کے ذریعہ سے پہچانی جاتی ہے"۔ آفتاب اور اس کی دھوپ کی شناخت بھی اس کی ضد یعنی سایہ سے ہوتی ہے۔ تو اس آفتاب کی شناخت میں ایک چیز واسطہ ہوئی جو سایہ ہے اور اس لیے وہ بلا واسطہ مُدرَک ہونے کی صفت میں ناقص ہوا۔ بخلاف آفتابِ حقیقی کے جو اس صفت میں کامل ہے، کیونکہ وہ ہر وقت نورِ جان عطا فرماتا ہے اور کسی وقت بھی غائب نہیں ہوتا۔ نہ اس کے ادراک میں کسی چیز کو دخل ہے اور یہی غایتِ ظہور اس کے عوام کی نظروں سے مخفی ہونے کا سبب ہوگیا۔

تشریح:

یعنی مطلب یہ ہے کہ ضد نہیں ہے ناں، تو پہچان نہیں ہے۔

وجہ اس اخفاء کی یہ کہ عام لوگوں کی نظریں اشیاء کو ان کی اضداد کے ذریعہ معلوم کرنے کی عادی ہیں اور شمسِ حقیقی کی کوئی ضد نہیں۔ ہاں عارف لوگ جن کی روحانی نظر روشن ہوتی ہے اس کے ادراک کی دولت سے بہرہ وَر ہوتے ہیں، اور یہی نورِ جاں سے مراد ہے۔

18

یہ تو چھپ کر تاریکی لاتا ہے پھر

تشریح:

یعنی موجودہ آفتاب جو ہمارا آفتاب ہے۔

یہ تو چھپ کر تاریکی لاتا ہے پھر

وہ جو نکلے ماند پڑ جائے قمر

یہاں بھی آفتابِ ظاہری کے نقص اور آفتابِ حق کے کمال کا بیان مقصود ہے یعنی آفتابِ ظاہری تو غروب ہونے کے بعد ایک عالمگیر تاریکی چھوڑ جاتا ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ نیند آنے لگتی ہے جس طرح کہانیاں قصے سنتے سنتے نیند آیا کرتی ہے، مگر آفتابِ حق کبھی غروب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت نور افشاں رہتا ہے اور اس کے چکا چوند سے ممکنات ماند ہیں۔

دونوں آفتابوں کی مذکور حالتوں کا مقابلہ اس لحاظ سے کہ ایک کا غروب ہونا باعثِ غفلت ہے اور دوسرے کا ہر وقت درخشاں و تاباں رہنا عارفوں کے قلوب کی دائمی تنویر کا موجب ہے۔ جیسے کہ گذشتہ شعر میں گزر چکا ہے۔ اس شعر میں جو "چوں بر آید" کا کلمہ آیا ہے تو اس سے شمسِ حق کا غروب کے بعد طلوع کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب عارفین کے قلوب متوجّہ ہوتے ہیں تو ان پر اس کی عالم افروز تنویر منکشف ہوتی ہے۔ اور یہ اس کے منافی نہیں کہ اس کا نور ہر وقت درخشاں ہو، مگر بعض اوقات نظروں کی اس طرح توجہ نہ ہو۔ ممکنات کو قمر کے ساتھ تشبیہ دینے میں یہ لطیف مناسبت ہے کہ جس طرح قمر کا نور شمس سے مستفاد ہوتا ہے، اسی طرح ممکن کا وجود بھی شمسِ حق کا عطا کردہ ہے، بلکہ تمام موجودات اسی کے اسماء و صفات کے ظلال ہیں۔

تشریح:

یہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق بات کی، کیونکہ حضرت فرماتے ہیں کہ عدم سے وجود میں چیز تب آتی ہے، جب اس پہ تجلی وجودی پڑتی ہے، ہاں جی۔ پھر اس سے مطلب جو ہے ناں چیز وجود میں آتی ہے۔ تو اس طرح مطلب ہے کہ گویا سورج کی وجہ سے چاند چونکہ منور ہوتا ہے تو اس وجہ سے یہاں پر بھی بتایا گیا کہ یہ جو ممکنات ہیں یہ قمر کی طرح منور ہوجاتے ہیں۔

19

شمس یہ جو ہے ہمیشہ اجنبی

شمس وہ باقی نہ ہو فانی کبھی

ظاہری آفتاب تو ہمیشہ سیرِ گردش میں ہے جو (معلوماتِ قدیمہ کے موافق) دن بھر چلتا رہتا ہے اور رات کو غائب ہو جاتا ہے لیکن وہ جانوں کو منور کرنے والا سورج یعنی حق جَلَّ وَ عَلَا کبھی غائب نہیں ہوتا، بلکہ اپنی ایک ہی شان میں "اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ" جلوہ گر ہے۔ اس کے لیے آج یا کل کی صفات نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ صفات غروب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔

20

شمس خارج میں ہے گر چہ ایک ہی

ذہن میں اس کے سے سمجھیں اور بھی

ظاہری آفتاب ہر چند کہ ایک ہی ہے، لیکن اس جیسے اور کئی آفتابوں کا تصور کر لینا کوئی امر محال نہیں۔ پس اگر خارجًا ایک ہی سورج ہے تو ذہنًا ایک سے زیادہ سورج ہو سکتے ہیں اور ذہنی تعدّد ہی اس کی فردیت کو ناقص کر رہا ہے۔ لیکن آفتاب حق میں یہ بات نہیں۔ جس کا ذکر اگلے شعر میں آتا ہے۔

21

لیک اس افتاب کا کوئی مثال

ذہن میں خارج میں بالکل ہے محال

تشریح:

ہاں جی۔ یعنی ذہن میں بھی نہیں اور خارج میں بھی نہیں۔ بالکل محال ہے۔

22

کیسے آئے سوچ میں اس کا مثال

کیونکہ گنجائش جو اس کا ہے محال

اوپر کہا تھا کہ اس کی نظیر ذہن میں نہیں آ سکتی۔ اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی نظیر ذہن میں تب آ سکتی ہے جب خود اس کی ذات بھی متصور ہوسکے، لیکن ذاتِ خداوندی کا تصوّر شرعًا اور عقلًا محال ہے۔

جب اس کی ذات کا تصور ممکن نہیں، تو اس کی نظیر بھی تصور میں نہیں آسکتی۔

اب دیکھیں! اپنے شیخ کی طرف آجاتا ہے:

23

شمس تبریزی نور مطلق جو ہے

آفتاب ایک وہ ز نور حق جو ہے

لفظی و اسمی اشتراک سے اب مولانا کا خیال اپنے ہادی کی مدح کی طرف انتقال کرتا ہے۔ اور وہ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو شمسِ ظاہری اور شمسِ حق کی طرح اسمًا شمس ہیں۔ مگر شمسِ ظاہری تو اپنی نور افشانی کے لیے مقیّد بطلوع بعد غروب ہے اور یہ شمس ایسی قیود سے مطلق ہے اور اس کی نسبت کامل ہے۔ ہاں شمسِ حق کی نسبت سے کم ہے، بلکہ وہ اسی کے انوار سے ایک نور ہے۔

24

بات ہوئی شروع شمس الدین کی جب

شرم سے سورج نے چھپایا منہ کو تب

یہ کہ ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے۔ جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا۔ سورج ماند پڑگیا۔ سورج کو فلکِ چہارم سے منسوب کرنا بناءً علی العرف ہے۔ ورنہ آیاتِ قرآنی میں یہی پایا جاتا ہے کہ سورج اور ستارے فلکِ اوّل پر ہیں۔

تشریح:

تو میرے خیال میں آج کے لئے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے بھرپور حصہ نصیب فرمائے۔ کیونکہ حضرت ہمارے جو مفاہیم ہیں، ان کو درست کررہے ہیں اور جذب کے محرک ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یعنی حضرت کا طریق طریقِ جذب ہے، جس کے ذریعہ سے انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور دنیا کی طرف سے دل سرد ہوجاتا ہے۔ تو یہی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی سے ہم لوگ حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)

  2. (الانعام: 79)

  3. (العلق: 15)

  4. (الأنعام: 76)

  5. (الأنعام:76)

  6. (الانعام: 76)

  7. (الانعام: 76-79)


  8. ۔ (شرح الشفاء لملا الهروي القاري، ج2، ص: 25)

عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی حقیقت - درسِ اردو مثنوی شریف - پہلا دور