ادب کی اہمیت اور بے ادبی کا انجام

درس نمبر 8 دفتر اول حکایت نمبر 4

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مولانا روم کی مثنوی کی ایک حکایت کی روشنی میں "ادب" کی اہمیت اور "بے ادبی" کے روحانی و دنیاوی نقصانات پر مبنی ہے۔ اس میں بنی اسرائیل کے اس واقعے کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں انہوں نے من و سلویٰ جیسی عظیم نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے معمولی چیزوں کا مطالبہ کیا، جو ان کی بے ادبی تھی۔ اس بے ادبی اور ناشکری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ آسمانی نعمتیں چھین لیں، جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کفرانِ نعمت اور گستاخی سے اللہ کی برکات اٹھا لی جاتی ہیں۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ گناہ، خصوصاً بے حیائی اور ناانصافی، اجتماعی عذاب کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شکر کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جو صرف زبان سے نہیں بلکہ دل کی عاجزی اور اس احساس سے پیدا ہوتا ہے کہ انسان کسی نعمت کا خود کو اہل نہ سمجھے۔ بے ادبی کی سب سے بڑی مثال شیطان کی ہے، جس نے تکبر کی وجہ سے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا، جبکہ فرشتے اور تمام کائنات ادب کی پابند ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین کی اصل روح ادب ہے اور انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی اللہ اور اس کے احکام کے سامنے کامل ادب اور شکر گزاری میں ہی پوشیدہ ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی ’’مثنوی شریف‘‘ کا درس ہوا کرتا ہے اور فارسی والا حصہ تو اَلْحَمْدُ للہ! مکمل ہوگیا ہے۔ اب اس کا جو اردو منظوم ترجمہ ہے، اس سے درس ہورہا ہوتا ہے۔ تو دفتر اول کی حکایت نمبر 4 سے ابتدا ہورہی ہے۔

دفتر اول حکایت نمبر 4

در خواستنِ توفیقِ رعایتِ ادب و خامتِ بے ادبی

رعایتِ ادب کی توفیق کی خواہش اور بے ادبی کی مذمت

یہ ادب جو ہے، یہ بہت اہم چیز ہے، لیکن کچھ وجوہات سے لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ سب سے پہلے جو بے ادب تھا، وہ شیطان تھا، جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا اپنے نفس کے مقابلہ میں خیال نہیں کیا اور بے ادبی کرکے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ تو وہ اب بھی یہی کرتا ہے کہ لوگوں میں بے ادبی پیدا کرتا ہے۔ اس وجہ سے بے ادبی خطرناک چیز ہے۔ تو حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ چونکہ عالم بھی تھے بہت بڑے اور شیخ بھی تھے، عاشق بھی تھے، تو اس وجہ سے ان کے اوپر یہ ساری باتیں کھلی تھیں، تو انہوں نے اس کو سمجھانے کے لئے یہ حکایت بیان کی ہے۔

1

میں خدا سے مانگوں توفیقِ ادب فضل سے محروم ہے جو بے ادب

جیسا کہ شعر سے ظاہر ہے، کہ یہ دعائیہ کلمہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتا ہوں ادب کی، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کے فضل سے بے ادب محروم ہوجاتا ہے، جیسے مشہور ہے قول: بے ادب بے نصیب، با ادب با نصیب۔ تو اس وجہ سے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں با ادب بنا دے۔


بے ادب خود کو نہ صرف برباد کرے کل آفاق میں فتنہ و فساد کرے


جو بے ادب ہوتا ہے، وہ خود صرف اپنے آپ کو برباد نہیں کرتا، بلکہ اس کی وجہ سے پورے عالم کے اندر فتنہ و فساد برپا ہوجاتا ہے۔ یہ جو خوارج تھے، انتہائی بے ادب تھے، تو اس کی وجہ سے کتنا بڑا فتنہ برپا ہوگیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو باقاعدہ ان کے خلاف پوری جنگ لڑنی پڑی۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی، بلکہ صحابہ کرام سے فرمایا تھا (دیکھیں! ذرا اچھی طرح غور سے سن لیں) کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جن کی عبادات اور مجاہدات اتنے ہوں گے کہ تم اپنے (آپ کو) ان کے سامنے ہیچ سمجھو گے، لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ یعنی مقصود کو نہیں پائیں گے۔ یعنی وہ اتنے زیادہ سخت ہیں اس مسئلہ میں کہ جنگ سے بھاگتے نہیں تھے، وہ اپنے آپ کو زنجیروں سے جکڑ لیتے تھے، اور کپڑے کی یہ بات تھی کہ کپڑا ناپاک ہوتا تو کپڑے کو دھوتے نہیں تھے، کاٹ لیتے تھے یعنی اس حد تک وہ سختی اپنے اوپر بھی کرتے تھے، لیکن یہ سختی دوسروں پر بھی کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ وہ بے ادبی اور گستاخی کرتے تھے، وہ کسی کی نہیں سنتے تھے، اپنے آپ کو ہی عالمِ کُل سمجھتے تھے اور سمجھتے کہ قرآن تو ہمیں ہی صرف آتا ہے، کسی اور کو نہیں آتا، یہ ان کی غلطی تھی، جس کی وجہ سے وہ بڑے بڑے علماء اور فقہاء کے قاتل بنے اور انہوں نے بہت فتنہ و فساد کیا۔

یعنی ایک شخص کی بے ادبی سے دوسرے لوگوں کو بھی ضرر پہنچتا ہے۔ کیونکہ ایک تو جب لوگ کسی دنیوی مصلحت سے اس کی برائی دیکھ کر خاموش ہو رہیں گے تو باوجود قدرتِ منع کے ان کا سکوت کرنا گناہ ہو گا۔ حدیث میں وارد ہے "مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرَہٗ بِیَدِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ"۔ (صحيح مسلم) یعنی "جو شخص کوئی بُری بات دیکھے تو چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے بند کرے۔ اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے بُرا سمجھے۔ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے"۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بری بات کو دل سے برا نہ سمجھنے میں عدمِ ایمان کا اندیشہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جب بے ادب کی معصیت کا وبال پڑے گا تو دوسرے لوگ بلکہ وحوش و طیور تک اس میں مبتلا ہوں گے۔

مطلب یہ ہے کہ بہت ہی خطرناک قسم کی صورتحال ہے

پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے: "مَا مِنْ رَّجُلٍ يَّكُوْنُ فِیْ قَوْمٍ يَّعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِیْ يَقْدِرُوْنَ عَلٰی اَنْ يُغَيِّرُوْا عَلَيْهِ وَ لَا يُغَيِّرُوْنَ إلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ قَبْلَ أَنْ يَّمُوْتُوْا۔ (مشکوٰۃ) یعنی "جب کس قوم میں کوئی آدمی گناہ کرتا ہے اور وہ لوگ اس کو منع کر سکتے ہوں مگر منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ضرور ان لوگوں کو زندگی کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کرتا ہے"

اب دیکھیں! دبئی کے اندر مندر بن گیا، تو کتنا بڑا وبال آیا، اتنا بڑا سیلاب ان کی زندگی میں کبھی نہیں آیا، گاڑیوں کی قطار کی قطار پھنسی ہوئی ہے، بدبو کا عالم ہے، تین تین دن جہاز رکتے ہیں۔ تو یہ کیا بات ہے؟ کیونکہ وہاں لوگ خاموش تھے، انہوں نے کوئی انکار نہیں کیا یعنی اتنی بڑی بات ہورہی تھی، لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی، تو پھر وبال تو آنا تھا، بے حیائی تو ادھر پہلے سے بہت زیادہ تھی۔ یعنی بے حیائی (اللہ بچائے کہ) اس حد تک کہ ایک آدمی حیران ہوجاتا ہے، لیکن یہ جو کام کہ انہوں نے شرک کا اڈہ بنایا اور اتنا کھلم کھلا، تو پھر تو بات ایسی ہونی تھی۔ تو دیکھیں! ان لوگوں کو زندگی کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کرتا ہے، تو سامنے یہ بات آتی ہے اور لوگ پتا نہیں اس کو کس category میں لے جاتے ہیں، پہلے کیوں نہیں ہوا اس طرح؟ اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائے۔

بفحوائے "اَلدِّیْنُ کُلُّہٗ اَدَبٌ" بے ادب سے مراد ہر عاصی و گناہگار ہے جس میں نہ صرف تعظیمِ اکابر سے پہلو تہی کرنے والے بلکہ مرتکبِ فواحش اور تارکِ واجبات بھی داخل ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پروا نہ کرنے والا بے ادب ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پروا نہیں کرتا، جو کھلم کھلا کرتا ہے اور اس بات سے نہیں ڈرتا، فاسق اسی کو کہتے ہیں، تو بے ادب ہے ناں۔ تو یہ بات ہے کہ دین سارے کا سارا ادب ہے، کیونکہ ’’الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ‘‘ (مسند احمد: 9710) (حیا ایمان کا حصہ ہے) اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان اللہ پاک سے حیا کرتا ہے کہ میں کیسے اللہ پاک کے حکم کا انکار کروں، اللہ دیکھ رہے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اللہ پاک کا ادب یہی ہے کہ اللہ پاک سے حیا کی جائے اور انسان گناہوں میں مبتلا نہ ہو۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ دین سارے کا سارا ادب ہے۔

2

مائدہ آسمان سے مفت آتا رہا بے شراء و بیع ہر اک پاتا رہا

یہ موسیٰ علیہ السلام والا واقعہ ہے۔

یہ بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ ان کے لیے خدا کے فضل سے آسمان سے دو چیزیں بلا محنت و مشقت اترتی تھیں۔ ایک "منّ" تھی جو ترنجبین سے مشابہ تھی۔ دوسرے "سلوٰی" جو بٹیر کے سے پرندے تھے، ان دونوں نعمتوں کو مجازًا خوان کہہ دیا ہے، حقیقتًا خوان نہیں تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلا طلب و بلا مشقت عجیب و غریب طریقے سے یہ انعامِ خداوندی ملتا تھا۔

یعنی دیکھیں! صبح جاتے تھے تو زمین بالکل اس چیز سے بھری ہوتی تھی یعنی ایک میٹھی چیز شبنم کی طرح ماشاء اللہ! جمی ہوتی تھی، اس کو لوگ جمع کرلیتے تھے، پھر کھاتے تھے۔ اور بٹیروں جیسی چیزیں وہ خود بیٹھ بیٹھ کے دعوت دے رہی ہیں کہ ہمیں پکڑو، تو اس کو ذبح کرکے بھون کے کھا لیتے تھے، بڑے مزے تھے، protein بھی تھا اور carbohydrates بھی تھے اور یہ دونوں چیزیں انسان کی زندگی کے لئے چاہئے ہوتی ہیں۔ تو پانی تو تھا ہی، تو بس اس کا مطلب ہے کہ ان کا کام ہورہا تھا، بغیر کسی اور چیز کے، محنت کے ان کو یہ دونوں چیزیں مل رہی تھیں، لیکن کیا ہوا، بے ادب قوم۔

3

قومِ موسیٰ میں جو بولے چند کس بے ادب اس میں کہاں لہسن عدس

مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں چند لوگ تھے، جو بے ادب تھے اور وہ لہسن اور عدس مانگ رہے تھے۔

﴿فُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَاؕ﴾ (البقرۃ: 61)

ترجمہ: ’’اس کی گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز‘‘۔

یہ قرآن پاک میں ہے ان کے بارے میں۔ یعنی اللہ پاک نے تم پر احسان کیا، تمھیں ایسی چیزیں عطا فرمائیں، لیکن تم کیا تھے؟ ناشکری کرکے ایسی چیزیں مانگتے ہو، جو اس سے بہت کمتر ہیں۔ اللہ پاک نے جواب بھی یہی دیا ان کو کہ تم اچھے کو چھوڑ رہے ہو اور اس سے کم کو مانگ رہے ہو، یہ کیا بات ہے؟ جیسے کسی کو ایک لاکھ روپے تنخواہ مل رہی ہو، وہ کہتا ہے نہیں نہیں مجھے دس ہزار روپے چاہئے، تو اس کو کیا کہیں گے لوگ؟ تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی بے ادبی تھی کہ اللہ پاک کی نعمت کی ناقدری کی۔

قرآن شریف کی سورۂ بقرہ میں یہ قصہ بالتفصیل مذکور ہے۔ یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آسمانی نعمت پر شاکر ہونے کے بجائے بے ادبی کے ساتھ سیر و عدس کی خواہش کرنے لگے۔ جو ان کی پستیِ فطرت پر دال تھی۔

یعنی وہ لوگ اس نعمت کے اہل اپنے آپ کو ثابت نہیں کررہے تھے۔

4 خوان آسمان سے پھر آنا بند ہوا سب قصہ محنت کا پھر پابند ہوا

اللہ پاک نے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم یہی چاہتے ہو تو پھر یہی ہے۔ تو یہ بات ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہئے کبھی بھی۔ شکر اتنی بڑی نعمت ہے میں آپ کو کیا بتاؤں اور شکر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، بہت کم لوگوں کو، بہت کم لوگوں کو، حالانکہ بظاہر شکر زیادہ لوگوں کو نصیب ہونا چاہئے، کیونکہ شکر نعمت پر ہوتا ہے اور نعمت کسی کو مل جائے تو شکر کا مطلب کیا ہے؟ اس شکر سے کسی کی نعمت میں کمی تو نہیں ہوتی، زیادتی ہوتی ہے، تو پھر شکر آدمی کیوں نہ کرے۔ تو عقل بالکل فیل ہوجاتی ہے جو ناشکری کرتا ہے، اس کی عقل بالکل کام نہیں کرتی۔ مجھے بتائیں، کوئی شخص مجھے سمجھائے کہ شکر نہ کرنے والے کی عقل کدھر ہوتی ہے؟ کیونکہ دیکھو! صبر جو ہے، وہ تو مصیبت پر ہے، تکلیف پر ہے، مشقت پر ہے، تو وہ تو ممکن ہے کہ کوئی نہ کرسکے، بظاہر یہ لگتا ہے۔ لیکن نعمت سے کسی چیز کی تکلیف تو نہیں ہے، مشکل تو نہیں ہے، وہ تو آپ کو ایک چیز مل رہی ہے، تو اس پہ آپ نے صرف اس کو ماننا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ پاک کا شکر کرنا چاہئے اس پر، تو آپ شکر کررہے ہیں، بس اتنی سی بات ہے۔ اگر اس پر اللہ پاک نعمت اور بھی بڑھائیں تو اس میں آپ کو کیا تکلیف ہے، آپ کو کیا نقصان ہے کہ آپ شکر نہیں کرتے۔ بس اس میں ایک چھوٹی سی (جو اصل میں بہت بڑی) بات ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس سے زیادہ کا مستحق سمجھتا ہے، نتیجتاً ناشکری کرتا ہے۔ اچھا! زیادہ کا مستحق سمجھنے کا جو علاج ہے، وہ کیا ہے؟ وہ علاج بضد ہوتا ہے، تو اس کا جو علاج ہے، وہ یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے اور یہی تصوف ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے، میں تو کسی چیز کے قابل نہیں ہوں، مجھے تو جو مل رہا ہے، اللہ کے فضل سے مل رہا ہے، ورنہ میں کیا ہوں۔ یہی اس کا علاج ہے۔ آدم علیہ السلام نے کیا کہا:

﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الأعراف: 23)

ترجمہ: ’’دونوں بول اٹھے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔

تو اس کا مطلب ہے کہ انسان شکر تب کرسکتا ہے، جب اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے۔ اور یوں سمجھیں کہ شکر اصل میں فنائیت کے بعد حاصل ہوتا ہے، جس درجہ کی فنائیت ہوگی، اس درجہ کا شکر حاصل ہوگا، کیونکہ فنائیت کے بعد ہی انسان کو اپنا آپ کچھ نہ ہونا معلوم ہوتا ہے، اس لئے شکر ان تمام مقامات کے بعد ملتا ہے۔ یہ جو دس مقامات ہیں، ان سب کے بعد شکر ملتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہیں سمجھتا، مکمل فنائیت اس میں آجائے، تو جو بھی ہے، دیکھو! موسیٰ علیہ السلام پیغمبر ہیں، پیغمبر پیغمبر ہوتا ہے، تو کیا کہتا ہے؟ مسافر ہے اور کہتا ہے:

﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: 23)

ترجمہ: ’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔

یعنی جو کچھ بھی ہے، اے اللہ! تو میری طرف بھیج، میں اس کا محتاج ہوں۔ تو اللہ پاک نے وہیں پر ہی سارا کچھ دے دیا، اُدھر ہی سارا کچھ دے دیا۔ تو یہ چیز ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان عاجزی اختیار کرلے اور اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے اور ہر نعمت کا محتاج سمجھے۔ آپ ﷺ جب کھانا کھاتے، تو برتن کو رخصت کرتے وقت ایک دعا فرماتے (آپ ﷺ کی دعاؤں میں بڑی عجیب چیزیں ہیں، تو ایک دعا یہ ہوتی) اے اللہ ہم اس کے پھر بھی محتاج ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ کھانا ہم نے کھایا، تو یہ بس پورا نہیں ہوا، کیونکہ ہمیں پھر دوبارہ بھوک لگ جائے گی، تو ہم اس کے پھر بھی محتاج رہیں گے یعنی اس کو رخصت اس لئے نہیں کررہے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے، یہ عارضی رخصت کرنا ہے، ہمیں اس کی پھر بھی احتیاج ہے۔ یہ بات ہے۔ اب دیکھیں! آئینہ دیکھ کے جو دعا ہے، اے اللہ! تو نے میری صورت اچھی بنائی، تو میری سیرت کو بھی اچھا کردے۔ ہر چیز کے اندر عاجزی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شکر جو ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ اس پر ایک کلام بھی ہے، میرے خیال میں وہ سنا دیتا ہوں آپ کو۔

’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘

شکر کے موضوع پہ حضرت والا کا کلام ہے۔ کلام کا عنوان ہے نعمتیں جو بھی ملیں ان پہ ہو نصیب شکر۔ حضرت والا فرماتے ہیں:

نعمتیں جو بھی ملیں ان پہ ہو نصیب شکر

نعمتیں جو ہوں تو ان پر کریں قریب شکر


نعمتیں دنیا میں اور ان سے فائدہ ہو وہاں

تھوڑا سا دیکھ تو لیں کتنا ہے عجیب شکر

دیکھیں! یہاں ہمیں نعمت مل رہی ہے، نعمت مل گئی، اس نعمت پر میں شکر کرتا ہوں، تو یہ تو خیر زیادہ ہوجائے گا یہاں دنیا میں، وہاں بھی اس پر اجر مل رہا ہے، اللہ پاک شکر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں، شکر کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ تو دیکھو! وہاں پر بھی فائدہ اور یہاں پر بھی فائدہ، کتنی عجیب بات ہے۔ اب دیکھو! یہاں تو کچھ خرچ کرکے وہاں حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن شکر ایسی نعمت ہے کہ اس کے ذریعہ سے یہاں بھی فائدہ ہے، وہاں پر بھی فائدہ ہے۔


صبر سے شکر ہے مشکل پر اگر ہووے نصیب

خوش قسمتی ہے کہ یہ حق کا ہے نقیب شکر


یہ مشکل کیوں ہے؟ یہ عجیب بات ہے یعنی صبر سے مشکل بتایا ہے۔ کیوں مشکل ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے یہ نہیں کہا تھا کہ تو اس کو صبر کرنے والا نہیں پائے گا، اس نے کہا کہ تو ان کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا، میں ان کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، سیدھے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہچنے دوں گا اور تو ان میں بہت کم لوگوں کو شکرگزار پائے گا، ہاں! مگر جو تیرے چنے ہوئے ہوں گے، ان پر میرا بس نہیں چلے گا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ شکر اس کا خاص target ہے۔ خود بھی تو اسی وجہ سے مارا گیا تھا، اللہ نے جو اس کو مقام دیا تھا، اس کی ناشکری کی تھی، تو اس کا تجربہ کار تھا کہ میں جو رگڑا گیا ہوں، تو اسی وجہ سے رگڑا گیا ہوں، تو لہٰذا اسی کے ذریعہ سے سب کو رگڑ دوں، تو وہ شکر کو hit کرتا ہے، تو شکر نہیں کرنے دیتا۔ تو اس وجہ سے یہ مشکل ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ عقلاً یہ زیادہ قریب ہونا چاہئے، زیادہ آسان ہونا چاہئے، لیکن تمام عقل کی چیزوں کو یعنی bulldoze کرکے وہ انسان کو ناشکرا بناتے ہیں۔


شکر کرلو تو ہو حاضر نعمت مزید زیادہ

یہ سمجھنا ہے شیوہ قلب منیب شکر


دیکھیں! یہ اخیر میں بتا دیا کہ کس کا شیوہ ہے، قلب منیب کا یعنی جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا دل ہو، وہ یہ کرسکتا ہے، ورنہ انسان نہیں کرسکتا، اللہ کے فضل سے ہی یہ ہوتا ہے، جس پہ اللہ کا فضل ہو، جس کسی کے دل پہ اللہ پاک کی رحمت کی نظر ہو، وہی شکر کرسکتا ہے۔ تو اس کے لئے دعا کرنی چاہئے، مطلب ہم سب کو شکر نصیب فرما دے۔ آخری والے شعر میں حضرت والا فرماتے ہیں۔


زندگی اس سے بنے کیسے خوشگوار شبیرؔ

اس میں چل جائے کسی وقت گر ریح طیب شکر


یعنی ریح طیب، یعنی خوشبو کی ہوا، خوشبو دار ہوا یعنی زندگی کتنی خوشگوار ہوجائے گی، جب اس میں شکر کی خوشبو دار ہوا پھیلے گی یعنی ہر آدمی شکر کرنے لگے، تو یہ زندگی کتنی خوشگوار بن جائے گی، جتنی ہماری مصیبتیں ہیں، وہ ناشکری سے آرہی ہیں، اگر اللہ پاک دولت دے رہا ہے اور اس دولت کو آپ فضول جگہوں پہ استعمال کررہے ہیں، ضائع کررہے ہیں، تو یہ ناشکری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت عطا فرمائی ہے، طاقت عطا فرمائی ہے، اس کو غلط استعمال کررہے ہیں، تو ناشکری ہے۔ اگر اللہ پاک نے آپ کو ما شاء اللہ! اچھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، جیسے اولاد عطا فرمائی ہے، اور اچھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، اس کے اوپر آپ تکبر کرنے لگیں اور غرور کرنے لگیں، تو یہ ناشکری ہے۔ مولانا حاشر صاحب نے مجھے ایک واقعہ بتایا ہے اپنے علاقہ کا، وہ بتا رہے تھے کہ ایک قبضہ گروپ تھا، والد اور اس کے دو بیٹے تھے اور دو بیٹے وہ پہلوان type تھے، لڑنے بھڑنے والے تھے، تو لوگوں کی زمینوں پہ قبضے کرتے تھے، تو ایک نیک آدمی تھا اس گاؤں کا، لیکن اُدھر رہتا نہیں تھا، باہر رہتا تھا کہیں، تو اس کی زمین پر بھی انہوں نے قبضہ کیا، ان کو لوگوں نے اطلاع کردی کہ آپ کی زمین پر قبضہ ہوا ہے، تو اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، یہ ہمارا بھائی بندہ ہے، میں ان شاء اللہ! آجاؤں گا تو بات کرلوں گا، تو مان لے گا، کوئی ایسی بات نہیں۔ مطلب جانتے تھے ان کو، تو آگئے، آگئے سب بڑوں کو بلایا اور اس کو بھی بلایا، انہوں نے کہا دیکھو! یہ سارے بڑے بوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں، ان سب کو پتا ہے، ہماری زمین ہے، تو آپ اس کا قبضہ چھوڑ دیں، ان کا جو والد آیا تو ان سب کے سامنے ایک گال پہ تپھڑ ماری، دوسرے گال پہ بھی سب کے سامنے، لوگ ان کو بچانے کے لئے اٹھے، انہوں نے کہا بھائی! بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔ اور دو آنسو آگئے، مطلب ایک اِدھر جذب ہوگیا، ایک اُدھر جذب ہوگیا، بس صرف اتنی بات ہوگئی، کچھ نہیں کہا اس نے، صبر کیا، تو بعض دفعہ تو صبر سے اوپر چلا جاتا ہے معاملہ، خطرناک ہوجاتا ہے، تو کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد ایک بیٹا آیا، جس پہ بڑا ناز تھا، لڑنے بھڑنے والا تھا، وہ آیا اور اس نے اپنے باپ کے سامنے کچھ پہلوانی کے کرتب دکھائے، جیسے کوئی اکھاڑے میں کرتا ہے، وہ دکھا دیئے، دکھائے اور گر گیا اور مر گیا، مطلب وہ ان کی آخری بات ایسی تھی اور کچھ دنوں کے بعد اس کا دوسرا بیٹا بھی آیا اور اس نے بالکل یہی حرکت کی، پہلوانی کی کچھ حرکت دکھائی اور گر گیا، مر گیا، اس کے بعد ان دونوں کا جو والد تھا، وہ پاگل ہوگیا۔ یعنی یہ گویا کہ دنیا میں ان کو سزا مل گئی، جس طاقت پر ان کو ناز تھا، اس طاقت کو ہی ڈھیر کردیا۔ تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کی بات آجاتی ہے۔ تو یہ کیا بات تھی؟ ان کو اللہ نے طاقت دی تھی، صحت دی تھی، اس کا شکر کرتے، اس کو صحیح چیزوں کے لئے استعمال کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان کو یہاں بھی بہت کچھ دیتا اور وہاں پر بھی اللہ پاک ان کو اس کا بدلہ دیتے، لیکن انہوں نے صرف اور صرف اس کو ظلم کے لئے استعمال کیا، تو اس کا نتیجہ بہت غلط بھگتنا پڑا ان کو، تو یہی بات ہوتی ہے۔ تو اگر اس طرح ہم سب شکر کرنے والے بن جائیں، تو ایک تو بات یہ ہے کہ کسی کی نظر نہیں لگے گی دوسرے پر، یہ نظر جو لگتی ہے وہ شکر نہ کرنے والوں پہ لگتی ہے، جو دوسروں کے مال پہ نظر رکھتے ہیں، دوسروں کی چیزوں پہ نظر رکھتے ہیں، ان سے دوسروں کی کوئی ترقی برداشت نہیں ہوتی، تو جب ان کو دیکھتے ہیں، تو بس پھر ان کی نظر لگ جاتی ہے۔ یہ ما شاء اللہ! ہم کیوں کہتے ہیں؟ ما شاء اللہ! اس لئے کہتے ہیں کہ ہماری نظر اس چیز سے ہٹ کے اللہ پہ چلی جائے۔ ما شاء اللہ! یعنی اللہ نے کیا خوبصورت چیز بنائی ہے اور اچھی چیز بنائی ہے، تو نظر اللہ تعالیٰ کی طرف چلی گئی۔ تو اب اس کا مطلب ہے کہ پھر اس کے اوپر نظر نہیں لگے گی۔ جب تک نظر اللہ پہ نہیں ہے، چیز پر ہے، تو یہ بہت زہریلی نظر ہے، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْعَیْنُ حَقٌّ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 5740)

ترجمہ: ’’نظر لگنا حق ہے‘‘۔ فرمایا: یہ اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی ہے اور انسان کو قبر میں۔ مطلب ایسی نظر لگتی ہے۔ کیوں لگتی ہے؟ یہی بات ہے۔ تو جو شکر کرنے والا ہوگا، وہ تو ایسا نہیں ہوگا، وہ تو خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا، جو اس کو دیا گیا ہے، تو دوسرے پر کیوں نظر ڈالے گا؟ وہ جو اس کے پاس ہے، وہ بھی اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے، تو مجھ پر اللہ کی مدد، اللہ کا فضل ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ میں تو اس قابل نہیں ہوں۔ سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نعت شریف ہے، اس میں یہ ہے کہ میں تو اس قابل نہ تھا۔ تو یہی بات ہے، مطلب ہم تو اس قابل نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمت عطا فرمائی۔

زندگی اس سے بنے کیسے خوشگوار شبیرؔ

اس میں چل جائے کسی وقت گر رے طیب شکر


شکر ایسا ہو کہ منعم کو بھی تو پاجائے

سب کچھ اس کا ہی ہے، دل میں خیال آجائے

یعنی نعمت تو آپ کو مل ہی گئی ہے، اس سے منعم بھی آپ کو مل جائے۔


تو نہ اترائے اس پہ کہ ہے کمال یہ تیرا

کسی طرح تو اپنے آپ کو یہ سمجھا جائے


پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

خلاف اس کے جو ہے تو اسے دبا جائے


کیونکہ پڑھنے میں تھوڑا سا مسئلہ ہوا ہے، تو وہ دوبارہ پڑھنا چاہے گا۔ اصل میں یہی بات ہے کہ ایسا شکر تو کرلے کہ شکر کے ساتھ نعمت دینے والا بھی تیرا ہوجائے۔ مطلب یہ ہے کہ تو اللہ کا ہوجائے، اللہ تیرا ہوجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو سمجھا جائے کہ میں اس قابل نہیں ہوں یعنی اپنے آپ کو تو کسی طریقہ سے یہ سمجھا جائے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، یہ تو اللہ پاک نے مجھے دیا ہے، اپنے فضل سے دیا ہوا ہے۔ ہوش دیوانگی میں ہے۔ تو یہ مجھے بھیج سکتے ہیں، میں پڑھ لیتا ہوں۔

شکر ایسا ہو کہ منعم کو بھی تو پا جائے

سب کچھ اس کا ہی ہے دل میں خیال آجائے


تو نہ اترائے اس پہ یہ کہ ہے کمال تیرا

کسی طرح تو اپنے آپ کو یہ سمجھا جائے


پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

یعنی اللہ نے اس میں کیا حق رکھا ہے، مثلاً مال آپ کو ملا ہے، تو اس میں اللہ پاک نے کیا حق رکھا ہے، جیسے زکوٰۃ دینی ہوتی ہے، صدقات دینے ہوتے ہیں۔ اللہ نے صحت دی تو اس کا کیا حق ہے؟ کس طرح استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد دی ہے، تو اس میں کیا حق ہے اللہ تعالیٰ کا؟ مطلب یہ تمام نعمتیں ہیں۔

پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

خلاف اس کے جو ہے تو اسے دبا جائے


یعنی جو اللہ کا حق ہے، اس کے مقابلہ میں جو نفس کی خواہشات ہیں، اس کو تو دبا جائے۔


اور یہ کہ تو نہیں قابل کہ اس کا شکر کرے

ہاں! شکر کے بھی ہم قابل نہیں ہیں، کیا کرسکیں گے اگر اللہ توفیق نہ دے۔

اور یہ کہ تو نہیں قابل کہ اس کا شکر کرے

کرلو اپنی سی کوشش ہی اس کو بھا جائے


ہاں! اپنی سی کوشش کرلو، جتنا تو کرسکتا ہے۔ تو اگر اس کو پسند آجائے، تو بس شکر کی توفیق دے دے گا۔


اور اصلی شکر نعمتوں کا ہے شبیرؔ یہی

کہ اپنا دل جو ہے منعم پہ ہی وہ آجائے

اور اصل شکر یہ ہے کہ تو اللہ کی ذات کے ساتھ محبت کرنے والا بن جائے، اللہ کی ذات کے ساتھ محبت کرنے والا بن جائے۔

اب میں آتا ہوں دوبارہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی طرف تو فرمایا کہ:

نان و خوان مجازًا اسی منّ و سلوٰی کو کہا ہے۔ غرض ان لوگوں کے گستاخانہ سوال پر حکم ہوا۔ ﴿اِھْبِطُوْ مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ﴾ (البقرۃ: 61) ”کسی بستی میں چلے جاؤ جو مانگتے ہو مل رہے گا“ اور پھر ان کو بجائے مفت کی نعمتیں کھانے کے کھیتی باڑی کی تکالیف میں مبتلا ہونا پڑا۔ بے شک حرصِ مزید باعثِ تکالیف ہے۔

5

کی شفاعت حق سے پھر عیسیٰ نے جب بھیجا اللہ پاک نے نعمت یہ تب

عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اب بات چلی گئی، عیسیٰ علیہ السلام نے بھی دعا کی تھی۔

حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے معتقدین نے، جن کو حواری کہتے ہیں، درخواست کی کہ ہمارے لیے آسمان سے نعمتوں کا خوان اترے۔ (یہ بنی اسرائیل کا پہلا جرم تھا) حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے دعا کی ﴿رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً۔۔۔ الخ﴾ (یہ جو قرآن پاک کی آیت ہے) ”الٰہی ہم پر خوان نازل فرما“۔ آپ کی دعا قبول ہوئی اور ایک خوان اترنے لگا۔ اس میں روٹیاں، بھنا ہوا خشک گوشت، مچھلی، سرکہ، شہد اور پسا ہوا نمک مرچ تھا۔

یہ ہے ما شاء اللہ۔ یہ اللہ جل شانہٗ بعض حضرات کے اوپر فتوحات کو کھول لیتے ہیں۔ دو قسم کے ہوتے ہیں، کچھ حضرات پہ فتوحات اس طرح کھول لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈال لیتے ہیں اور آکر وہ خود ہی دینا شروع کرلیتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے ایک نظام بن جاتا ہے، وہ بھی باقاعدہ بہت سارے اللہ والوں کے ساتھ ایسا معاملہ چلتا ہے۔ اور ایک یہ طریقہ ہوتا ہے کہ باقاعدہ تیار چیزیں ملنے لگتی ہیں۔ ہمارے شاہ عبدالعزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ ایسے تھے، ہمارے دادا پیر ہیں، یہ سندھ میں تھے، ٹنڈو آدم میں، تبلیغی جماعت میں ما شاء اللہ! ان کی بڑی contribution ہے، یہ رائیونڈ ان کے ذریعہ سے قائم ہوا ہے، بہت بڑے اللہ والے تھے۔ تو ان کے مہمان جو آتے تھے، بس وہ اپنے کمرے میں جاتے، پلاؤ اور تیار چیزیں لا لا کر ان کو دیتے رہتے تھے، اب لوگوں کو کیا پتا کہ اندر سے کیا بات ہے، وہ اندر جاکے پھر وہ لے آتے تھے، مہمان نوازی ان کی بڑی شاندار تھی، بڑے عجائبات تھے ان کے پاس، عجائبات میں سے ان کے ایک خادم تھے، فقیر محمد ان کا نام تھا، میں نے زیارت کی ہے ان کی، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چونکہ پیر بھائی تھے، تو حضرت کے پاس تشریف لائے تھے، تو حضرت نے ان کے سامنے فرمایا یہ سوا لاکھ مرتبہ درود شریف روزانہ پڑھتا ہے، سوا لاکھ مرتبہ درود شریف روزانہ کیسے پڑھتے ہیں؟ ذرا سمجھا دو۔ مولانا صاحب فرما رہے ہیں ان کی طرف اشارہ کرکے، یہ سوا لاکھ مرتبہ روزانہ درود شریف پڑھتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ کے بڑے عجیب مسائل ہوتے ہیں۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ یہ عصر سے لے کر مغرب تک پورا قرآن ختم کرلیتے تھے، لوگوں نے تجربے کیے، عصر کے بعد انہوں نے تلاوت شروع کی اور جیسے سورج ڈوب رہا ہوتا تھا ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (الناس: 1) پڑھی جارہی ہے، اور سب حافظ بیٹھے ہوئے ہیں، مطلب حافظ سن رہے ہیں، کوئی درمیان میں مِس نہیں ہورہی، تو یہ کیا بات ہے؟ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا، (وہ تو علم کے سمندر تھے، قاسم العلوم و الخیرات ان کا لقب ہے تو ان سے کسی نے پوچھا) حضرت! یہ کیا ہوتا ہے، یہ کس طرح ہوتا ہے، مطلب یہ کہ کچھ لوگ تھوڑے وقت میں بہت کام کرلیتے ہیں، تو برکت تو ہے ہی، لیکن وہ کام کس طرح ہوتا ہے؟ Magnesium کیا ہے؟ حضرت نے simple جواب دیا، فرمایا کہ ہم لوگ جس وقت کو جانتے ہیں، وہ طول وقت ہے، اس طرح عرضِ وقت بھی ہوتا ہے، وہ عرض وقت میں کام کرلیتے ہیں، مطلب جو عرض وقت ہے، اس میں بھی کام کرلیتے ہیں۔ اب وہ کیسے کرتے ہیں؟ وہ تو اللہ کو پتا ہے۔ لیکن بہرحال حضرت نے فرمایا کہ ہم جس کو وقت کہتے ہیں وہ طول وقت ہے، لیکن اس طرح عرض وقت بھی ہوتا ہے، اس میں کام ہوجاتے ہیں ان کے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ آج کل Scientific language میں بھی استعمال کرتے ہیں، اس کو Parallel processing کرتے ہیں، Parallel processing مطلب یہ ہے کہ وہ کام آسانی سے ہونے لگتا ہے، جلدی جلدی ہونے لگتا ہے۔

6

کی دعا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَہ خوان نعمت کی یہاں آنے لگا

7

لیک گستاخوں نے چھوڑا پھر ادب جو بچا کچھا ہوتا رکھتے تھے سب

جمع کرنے لگے، اگر وہ جمع نہ کرتے، تو یہ چلتا رہتا۔ بھائی دیکھو! ایک بات، ایک ظاہری سبب کے ذریعہ سے آرہا ہے، تو تم ظاہری سبب اختیار کرسکتے ہو، بچا سکتے ہو، مطلب اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر ظاہری سبب سے آرہا ہے۔ اب یہ ظاہری سبب سے نہیں آرہا، مثلاً شاہ عبدالعزیز دعاجو رحمۃ اللہ علیہ اس کو کیوں بچاتے؟ بھائی! جو آیا تھا، وہ ظاہری سبب سے تو نہیں آرہا، وہ تو ایک اللہ پاک کا قدرتی نظام ہے کرامت والا، اس کے ذریعہ سے آرہا ہے، تو کرامت کی اس چیز کو آپ کیوں بچا کے رکھتے ہو؟ وہ تو جیسے اب آیا، پھر بھی آسکتا ہے، جیسے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو الہام ہوا کہ فلاں نوجوان کا کام ہے، جاؤ اس کا وہ کام کرو، تو حضرت کو پتا چلا کہ یہ تو ولی اللہ ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہورہا ہے ان کے بارے میں، تو وہ تو ولی اللہ ہے، تو بڑی محبت سے وہاں گئے، ان کا کام کیا، پھر ذرا محبت کی وجہ سے کہا (کیونکہ ظاہر ہے اللہ کا ولی تھا) کہ اگر آپ کو پھر ضرورت ہو تو میری رہائش فلاں جگہ پر ہے، آپ مجھے کہہ سکتے ہیں، تو ان کا جواب سنیں، فرمایا جس نے آپ کو ابھی بھیجا ہے، وہ پھر بھی بھیج سکتا ہے، مجھے آپ سے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں اس سے کہوں گا، میں تو اس سے کہوں گا، مجھے آپ سے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ تو یہ بات ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر کسی ظاہری اسباب کے آرہی ہے، تو تم پھر ظاہری اسباب کیوں اختیار کرتے ہو؟ بس کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔

جن لوگوں پر یہ خوان نازل ہوتا تھا ان کو حکم تھا کہ جو کھانا بچے اس کو ذخیرہ نہ رکھیں بلکہ مساکین میں تقسیم کر دیں۔

ضرورت سے زاید مال رضائے الٰہی میں خرچ کرنے کی فضیلت حدیث شریف میں بھی آئی ہے۔ "عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: يَا ابْنَ آدَمَ! إنَّكَ أنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَّكَ، وأَنْ تُمْسِكَهُ شَرٌّ لَّكَ، وَ لَا تُلَامُ عَلٰى كَفَافٍ، وَ ابْدَأْ بمَنْ تَعُوْلُ"۔ (مشکوٰۃ) یعنی فرمایا: "اے فرزندِ آدم! تیرا ضرورت سے زاید مال کو خرچ کرنا تیرے حق میں اچھا ہے، اور اس کو بند رکھنا تیرے لیے بُرا ہے، اور بقدرِ کفایت کو روک رکھنے میں تجھ کو ملامت نہ کی جائے گی، اور (خرچ کرنا) اپنے عیال سے شروع کرو۔

سبحان اللہ! کیا بات ہے۔ وہی میراث والا اصول ہے، ’’اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ‘‘ (جو زیادہ قریب ہے، اس کا زیادہ حق ہے) لوگوں میں یہ ہوتا ہے کہ آپس میں شکر رنجی ہوتی ہے، رشتہ داروں میں، تو غیروں پہ تو خرچ کرتے ہیں، اپنوں پہ خرچ نہیں کرتے، یہ ہوتا ہے، جیسے بھائیوں کے ساتھ، بہنوں کے ساتھ، چچاؤں کے ساتھ یعنی ان کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں، شکر رنجی ہوتی ہے، تو دور کے فقیروں پر تو ان کی نظر جاتی ہے، اپنے رشتہ داروں میں جو غریب غرباء ہوتے ہیں، ان پہ نظر نہیں جاتی، تو ان کو نہیں دیتے، حالانکہ یہاں پر کیا ہے؟ دیکھو! حدیث شریف میں صاف صاف ہے کہ خرچ کرنا اپنے عیال سے شروع کرو، جو جتنا قریب ہے۔ دیکھو! نہ صرف یہ کہ رشتہ داروں میں، بلکہ پڑوس میں بھی جو قریب ہے اس کا حق زیادہ ہے، پڑوس میں بھی جو قریب ہے مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس غریب موجود ہے، تو کسی اور شہر میں آپ کا مال نہیں جانا چاہئے صدقات وغیرہ، ہاں! extreme مسئلہ ہو، جیسے غزہ والا مسئلہ ہے یا کوئی اور بات ہے، وہ Special conditions ہیں، لیکن ایسے عام طور پر نہیں۔ اب میرے یہاں پنڈی میں غریب ہے، میں لاہور بھیجنا شروع کرلوں، بھائی! کیوں؟ لاہور والوں کا لاہور والوں پہ حق ہے، پنڈی والوں کا پنڈی والوں پہ حق ہے، جو لوگ جہاں پر ہیں، ان کے لوگوں کا ان کے اوپر حق ہے یعنی قریب ترین لوگوں کا، محلے میں بھی جو گھر آپ کے قریب ہے، وہاں پر اگر مستحق موجود ہے، پہلے ان کا حق ہے، پھر آپ ذرا آگے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دور کے لوگوں کے بارے میں آپ کو کیا پتا، کیا اندازہ، اپنے قریبی لوگوں کا تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ کس قسم کے ہیں، تو آپ زیادہ بہتر فیصلہ کرسکیں گے۔

8

نرمی سے عیسی ٰ نے پھر سمجھا دیا دائمی آئے گا خوان بتا دیا

حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے ان کو سمجھایا کہ بچا ہوا کھانا ذخیرہ نہ رکھو بلکہ خیرات کر دیا کرو۔ کیونکہ یہ خوان ہمیشہ آتا رہے گا۔ پھر ذخیرہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

اب بتاتا ہوں ایک بات، عیسیٰ علیہ السلام تو پیغمبر تھے، پیغبروں کی بات تو اور ہے، ان کو تو براہ راست وحی آتی ہے، میں آپ کو ایک ولی اللہ کی بات بتاتا ہوں، حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ان کی خانقاہ میں بالکل بچایا نہیں جاتا تھا کچھ بھی، بس اسی دن خرچ، اسی دن خرچ، اسی دن خرچ، جتنا آیا اسی دن خرچ، یہ ان کے ہاں ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت نے نماز کی نیت باندھی، سہو ہوگیا، پھر نیت باندھی، سہو ہوگیا، پھر نیت باندھی، پیچھے خزانچی کو، جو ناظم تھے، ان کو کہا بھائی! کیا کیا ہے تو نے؟ مجھے بار بار نماز میں سہو ہورہا ہے، یکسوئی نہیں ہورہی، کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا حضرت! کل میں جب اپنا حساب کررہا تھا، مطلب چیزیں لاتا رہا، اس میں سے (اٹھنی تو اس وقت نہیں تھی) کوئی اس قسم کی چیز گرگئی، تو مجھے بعد میں ملی، تو میں نے کہا چلو کل بھی تو لانا ہے، تو میں نے اس کو رکھ دیا کہ کل اس کو (استعمال میں) لائیں گے، تو حضرت نے غصہ سے فرمایا کیوں اللہ کی رزاقیت پہ یقین نہیں رہا؟ کیوں اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پہ یقین نہیں رہا؟ اب اس کا بھی معاملہ ایسا تھا، ان کو بھی تو اللہ پاک دے رہے تھے یعنی بغیر کسی سبب کے دے رہے تھے، بس وہ اللہ تعالیٰ کا نظام تھا، لارہے تھے، تو وہ اسی طرح خرچ بھی کررہے تھے، جس راستے سے آنا تھا اس راستے سے بھیج دیتے تھے۔ یہ تو ہوتا ہے کہ بعض حضرات کا اللہ نے نظام اس طرح بنایا ہوتا ہے۔ تو عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو سمجھا دیا کہ ذخیرہ نہ کرو، یہ خوان آتا رہے گا، آپ کو ملتا رہے گا، آپ اس میں جمع کرنے کی کوشش نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلٰی اللہِ رِزْقُھَا﴾ (ہود: 6) ”زمین پر ایسا کوئی جاندار نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو“۔

9

رب کی خوان پہ کرنا حرص آوری کفر ہے کہ یہ ہے خوانِ مہتری

کفر سے یا تو کفرانِ نعمت مراد ہے یا ضدِ ایمان۔ کیونکہ وعدۂ خداوندی پر اعتماد نہ کرنا کفر ہے جیسے کہ ان لوگوں سے نزولِ خوان کے دوام کا وعدہ کیا گیا۔ مگر وہ ذخیرہ رکھنے سے باز نہ آئے جو عملًا وعدۂ الٰہیہ پر بے اعتمادی کا اظہار تھا۔

بعض دفعہ ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ جل شانہٗ ایک کام کو امتحان کے لئے لازم کردیتے ہیں اور اپنی مدد کو اس امتحان کے نتیجہ پہ رکھ دیتے ہیں، جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو کہا تھا کہ تم اس شہر کے اندر داخل ہوجاؤ، تو تم ہی فتح یاب ہوگے۔ اب اگر وہ داخل ہوجاتے اور حیل و حجت نہ کرتے، تو داخل ہونا ہی بس کامیابی تھی، لیکن وہ ڈر گئے کہ یہ قوم جبارین ہیں، ان کے ساتھ تو ہم مقابلہ نہیں کرسکتے، تو اخیر میں کہہ دیا کہ تم اور تمھارا خدا جائے، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے، تو ان میں سے جو تھوڑے لوگ تھے، انہوں نے کہہ دیا کہ بارہا تھوڑے لوگوں کو اللہ نے فتح دی ہے زیادہ لوگوں پر، اور وہ جو تھوڑے لوگ تھے، وہ پھر داخل ہوگئے، اللہ پاک نے ان کو فتح دی، جن میں داؤد علیہ السلام ہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہوتی ہے کہ اللہ جل شانہٗ بعض دفعہ امتحان کے نتیجہ پر وہ کامیابی عطا فرماتے ہیں۔ تو اس طرح یہ بات بھی ہوتی ہے کہ کوئی (معاملہ) جیسے ہجرت فرض تھی ایک وقت میں، تو اس وقت ہجرت نہ کرنے والا (مسلمان) نہیں ہوتا تھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پاک کا وعدہ ہے، اس پہ پکا یقین ہونا چاہئے، اس میں پھر کوئی بات نہیں کرنی چاہئے۔

10

ان فقیر صورت حریصوں نے یہ کیا رحمت ِ حق کا جو در تھا بند ہوا

یہ جو فقیر صورت تھے، لیکن حریص تھے، انہوں نے یہ کام کیا کہ خوانِ نعمت کی قدر نہیں کی اور جمع کرنا شروع کیا، تو رحمتِ حق کا جو دروازہ کھلا تھا، وہ بند ہوگیا۔

11

من و سلویٰ ہاتھ سے جاتا رہا رہ گیا آسمان سے جو آتا رہا

چند اشخاص کے ترکِ ادب سے عامّۃ النّاس کا نقصان ہو گیا۔

12

خشک بادل ہوں منع ہو جب زکوٰۃ اور وبا ہو جب زنا کی ہو فسات

کیونکہ حدیث شریفہ میں اس کے بارے میں آیا ہوا ہے کہ اگر کوئی زکوٰۃ سے منع ہونے لگے، زکوٰۃ نہ دیا کرے، تو بادل خشک ہوجاتے ہیں، یعنی قحط آجاتا ہے، بارش نہیں ہوتی اور زنا جب کثرت سے ہونے لگے، تو پھر وبا آجاتی ہے۔

بعض لوگوں کی بد اعمالی سے عوام کو مبتلائے مصیبت ہونے کی دو نظیریں ذکر کی ہیں۔ مگر احادیث سے زنا کا موجبِ قحط ہونا ثابت ہے اور شعر میں اس کو وبا کی علت بیان کیا گیا ہے۔ "عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ: مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْھَرُ فِیْھِمُ الزِّنَا اِلَّا اُخِذُوْا بِالسَّنَةِ وَ مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْھَرُ فِیْھُم الرَّشَا اِلَّا اُخِذُوْا بِالرُّعْبِ" (احمد) یعنی "عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب کسی قوم میں زنا ہونے لگتا ہے تو وہ قحط میں مبتلا کئے جاتے ہیں اور جب کسی قوم میں رشوتیں عام ہو جاتی ہیں تو وہ خوف میں گرفتار کئے جاتے ہیں"۔ لہٰذا شعر کی یہ تاویل کی جائے گی کہ قحط و وبا سے مطلق مصائب و بلیّات مراد ہیں، اور منعِ زکات اور زنا سے عام معاصی مقصود ہیں۔ پھر یہ مطلب ہوگا کہ ارتکابِ معاصی سے بلائیں نازل ہوتی ہیں، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ زنا کا موجبِ وبا ہونا یہاں شرع سے منقول نہیں، بلکہ طبّی تجربہ پر مبنی ہے۔ چنانچہ طبِّ قدیم و جدید دونوں اس بات پر شاہد ہیں کہ مرضِ آتشک کا بڑا باعث زنا کاری ہوتی ہے۔ اور آتشک نہ صرف خود ایک بدترین مرض ہے بلکہ بطورِ نتیجہ اس سے دیگر صدہا امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مرض موت سے بھی بدتر ہے اور جب ایک شخص ارتکابِ فواحش کی پاداش میں اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی بیوی بچے بھی اس بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی یہ مرض موروثی بن کر اس کی آئندہ نسل اور نسل کے تمام کنبوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ غرض اس طرح ایک شخص کے ارتکابِ معصیت سے ”وبا اندر جہات“ واقع ہو جاتی ہے۔

یہ آج کل جو Aids کی بیماری ہے، یہ اسی سے چلی ہے، یہ پھیلتی اسی سے ہے۔ تو مطلب ظاہر ہے اس کے ساتھ تو یہ چیزیں ہیں۔

13

تجھ پہ غم کی چھائی تاریکی جو ہے ہے تیری بے باکی گستاخی جو ہے

یہ مضمون قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے ﴿وَ مَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ﴾ (الشوریٰ: 30) یعنی "جو مصیبت تم پر آتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے، اور اکثر تو معاف کر دیتا ہے"۔ اس پر بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا کرتا ہے کہ جب ہر مصیبت بُرے اعمال کی وجہ سے آتی ہے تو انبیاءِ معصومین پر مصائب کیوں آتے ہیں جو گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں مصیبت سے حقیقی درد و غم مراد ہے جو گنہگاروں کے ساتھ خاص ہے۔ کیونکہ یہ لوگ بندۂ طبیعت اور اسیرِ بشریت ہوتے ہیں، اس لیے ان کو دنیوی آفات و بلیّات کا احساس شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی مصائب انبیاء و اولیاء پر آتے ہیں تو وہ محض صورۃً مصیبت ہوتے ہیں حقیقت میں راحت و رحمت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں پر روحانی رنگ غالب ہوتا ہے۔ وہ مقتضائے طبع سے آزاد اور احساساتِ بشریہ سے برتر و بلند ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس قسم کے درد و تکالیف میں ایک لذّت و راحت محسوس کرتے ہیں۔

آپ ﷺ پہ آخر وقت میں انتہائی تکلیف تھی، اس کو دیکھ کر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت پریشان ہوئیں اور ان کی زبان سے نکلا ہائے میرے ابا جان کی تکلیف۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آج کے بعد تیرے ابا جان کو کبھی تکلیف نہیں ہوگی۔ آج کے بعد تیرے ابا جان کو کبھی تکلیف نہیں ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد میں دنیا سے چلا جاؤں گا اس کے بعد تو پھر مزے ہی مزے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ان کو بشارت دی، بلکہ ان کے ایک کان میں ایک بات کی تو وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ بات کی تو ہنسنے لگیں، تو انہوں نے یہ بات کسی کو بتائی نہیں تھی، پھر بعد میں کسی نے پوچھا تو پتا چلا کہ پہلے یہ بات کی تھی کہ میں جانے لگا ہوں یعنی یہ میرا آخری وقت ہے، تو رونے لگیں، پھر بعد میں کان میں فرمایا کہ تو سب سے پہلے مجھ سے آ ملے گی، تو پھر ہنسنے لگیں اور پھر ایسا ہی ہوا کہ سب سے پہلے چھ مہینے کے بعد غالباً فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دنیا سے تشریف لے گئیں۔ تو یہ بات ہے کہ یہ جو ان کو تکلیفیں ہیں، وہ تکلیفیں تو تکلیفیں نہیں ہوتیں، وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ما شاء اللہ! ایک خوشگوار چیز ہوتی ہے۔

نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت

سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

فرمایا کہ دشمن کو کہاں یہ نصیب ہو کہ تیرے تیغ سے ہلاک ہوجائے، اس کے لئے دوستوں کا سر سلامت رہے کہ تو اس پہ خنجر آزماتا رہے۔

14

دوست کے راہ جو بے باکی کرے مردوں کی رہزن یہ نامردی کرے

راہِ دوست سے مراد احکامِ الٰہی ہیں اور اس میں بے باکی کرنا ان کی مخالفت ہے۔ "رہزنِ مرداں" اس لحاظ سے ہے کہ ایسا بے باک آدمی دوسرے لوگوں کے لیے بھی باعثِ ضرر ہوتا ہے۔

یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ راہِ دوست سے مراد طریقِ سلوک ہو اور اس میں بے باکی یہ کہ بلا اہلیت شیخ بن کر لوگوں کو مرید بنانے لگے اور مردانِ خدا یعنی طالبانِ حق کی رہزنی کرنے لگے (کذا فی کلید مثنوی)

یہ زیادہ بہتر یعنی یہ زیادہ قریب ہے، کیونکہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ تو بہت پہلے گزرے ہیں، لیکن حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی تشریح فرمائی ہے اپنے لحاظ سے، مکتوب شریف میں ’’مکتوب نمبر 287‘‘ میں، جس میں حضرت نے فرمایا کہ جو لوگ صرف جذب حاصل کرلیں اور سلوک نہ طے کریں اور پھر ہوشیار ہوجائیں یعنی عقل وغیرہ ان میں آجائے، تو ایسی صورت میں پھر یہ کہ اپنے جذب کو اپنے نفس کے لئے استعمال کرنے لگیں گے، کیونکہ نفس کی اصلاح تو ہوئی نہیں، اپنے جذب کی جو قوت ہے، وہ نفس کے لئے استعمال کرنے لگیں گے اور ایسے لوگوں کو مجذوب متمکن کہتے ہیں۔ تو یہ مجذوب متمکن ہیں، یہ شیخ بھی بن جاتے ہیں، تو بس پھر آپ جانتے ہیں کہ پھر کیسے شیخ ہوں گے، مسائل تو پھر پیدا ہوں گے۔ تو یہ اس سے مراد ہوسکتا ہے۔

15

از ادب پرنور بن جائے فلک از ادب معصوم و پاک آئیں ملک


آسمان کے ادب پر قرآن مجید کی یہ آیت ناطق ہے: ﴿فَقَالَ لَـهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ﴾ (فصلت: 11) یعنی "اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو حکم دیا کہ خوشی سے مطیعِ قدرت بنو یا جبر سے تو دونوں نے عرض کیا ہم خوشی سے حاضر ہیں"۔ چنانچہ وہ طریقِ ادب پر اس قدر پابند ہیں کہ ان کی گردش اور ستاروں کی سیر میں سرِ مُُو فرق نہیں آتا۔ اور فرشتوں کا ادب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کے مقابلہ میں فرشتوں کا اسمائے اشیاء میں امتحان لیا تو انہوں نے اپنے عجز کا اقرار کرتے ہوئے کہا: ﴿سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِـيْمُ الْحَكِـيْمُ﴾ (البقرۃ: 32) یعنی "تو پاک ہے۔ ہم کو تو صرف اسی قدر علم ہے جو تو نے ہم کو سکھا دیا۔ بے شک تو بہت علم والا اور حکمت والا ہے"۔ غرض فرشتوں نے جنابِ باری میں ادب کا لحاظ رکھا اور معصوم و پاک رہے اور ابلیسِ سرکش نے آدم علیہ السّلام کے مقابلہ میں اپنی برتری کا دعویٰ کیا اور اس بے ادبی نے اس کو سراپائے معصیت اور مردودِ ابدی بنا دیا

اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ایسی مردودیت سے اور ناشکری اور بے ادبی سے، گستاخی سے محفوظ فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

ادب کی اہمیت اور بے ادبی کا انجام - درسِ اردو مثنوی شریف - پہلا دور