جمعہ آخری وقت کی دعا

فضائل درود شریف، چہل درود و سلام، مناجاتِ مقبول اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان نماز میں پڑھے جانے والے درود شریف (درودِ ابراہیمی) کی فضیلت اور حکمت پر مرکوز ہے، جسے سب سے صحیح اور افضل درود قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اس مشہور سوال کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر درود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ محبت کا تعلق ہے؛ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے "خلیل" (دوست) ہیں، اسی طرح ہمارے نبی ﷺ اللہ کے "حبیب" (محبوب) ہیں، اور حبیب کا درجہ خلیل سے بھی بلند ہے۔ ایک حدیث کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے کہ "حبیب اللہ" کا لقب تمام انبیاء کے مراتب کا جامع بلکہ ان سے بھی ارفع ہے۔ لہٰذا یہ تشبیہ دونوں انبیاء کے بلند مقام اور اللہ تعالیٰ سے ان کے محبت کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ بیان کا اختتام ایک جامع اور پُر اثر دعا پر ہوتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

جو درود شریف ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کے بارے میں بات چل رہی ہے۔

’’حصن حصین‘‘ کے حاشیہ پر ’’حرز ثمین‘‘ سے نقل کیا ہے کہ یہ درود شریف سب سے زیادہ صحیح ہے اور سب سے زیادہ افضل ہے۔ نماز میں اور بغیر نماز کے اسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

یہ اصل میں چھ کی چھ صحیح کتابیں جو ہیں، ان میں آیا ہے، صحاح ستہ سے ثابت ہے۔

یہاں ایک بات تنبیہ یہ ہے کہ ’’زاد السعید‘‘ کے بعض نسخوں میں کاتب کی غلطی سے ’’حرز ثمین‘‘ کی یہ عبارت بجائے اس درود شریف کے ایک دوسرے درود کے نمبر پر لکھ دی گئی ہے، اس کا لحاظ رہے۔

اس کے بعد اس حدیث شریف میں چند فوائد قابلِ ذکر ہیں:

اول یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ عرض کرنا کہ سلام ہم جان چکے ہیں، اس سے مراد التحیات کے اندر ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ ہے۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی مطلب زیادہ ظاہر ہے۔ ’’اوجز‘‘ میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے اور اس میں بھی متعدد علماء سے یہی مطلب نقل کیا گیا ہے۔

نمبر 2: ایک مشہور سوال کیا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے، مثلاً یوں کہا جائے کہ فلاں شخص حاتم طائی جیسا سخی ہے تو سخاوت میں حاتم کا زیادہ سخی ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس حدیث پاک میں حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درود کا افضل ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بھی ’’اوجز‘‘ میں کئی جواب دیئے گئے ہیں۔ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں دس جواب دیئے ہیں۔ کوئی عالم ہو تو خود دیکھ لے، غیر عالم ہو تو کسی عالم سے دل چاہے تو دریافت کرلے۔ سب سے آسان جواب یہ ہے کہ قاعدہ اکثریہ تو وہی ہے جو اوپر گزرا، لیکن بسا اوقات بعض مصالح سے اس کا الٹا ہوتا ہے، جیسے قرآن پاک کے درمیان میں اللہ جل شانہٗ کے نور کے متعلق ارشاد ہے: ﴿مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ (نور: 35) الایۃ ترجمہ: "اس نور کی مثال اس طاق کی سی ہے جس میں چراغ ہو" اخیر آیت تک۔ حالانکہ اللہ جل شانہٗ کے نور کو چراغوں کے نور کے ساتھ کیا مناسبت۔

نمبر 3: یہ بھی مشہور اشکال ہے کہ سارے انبیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابراہم علیہ السلام ہی کے درود کو کیوں ذکر کیا۔ اس کے بھی ’’اوجز‘‘ میں کئی جواب دیئے گئے ہیں۔

حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے بھی ’’زاد السعید‘‘ میں کئی جواب ارشاد فرمائے ہیں۔ بندے کے نزدیک تو زیادہ پسند یہ جواب ہے کہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ جل شانہٗ نے اپنا خلیل قرار دیا، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا (النساء: 125) لہٰذا جو درود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوگا وہ محبت کی لائن کا ہوگا اور محبت کی لائن کی ساری چیزیں سب سے اونچی ہوتی ہیں۔ لہٰذا جو درود محبت کی لائن کا ہوگا، وہ یقیناً سب سے زیادہ لذیذ اور اونچا ہوگا۔ چنانچہ ہمارے حضور اقدس ﷺ کو اللہ جل شانہٗ نے اپنا حبیب قرار دیا اور حبیب اللہ بنایا اور اسی لئے دونوں کا درود ایک دوسرے کے مشابہ ہوا۔


ایک بات اور بھی اللہ پاک کی طرف سے اس وقت ذہن میں آرہی ہے، کہ ابراہیم علیہ السلام چونکہ پہلے گزرے ہیں، تو جو پہلے گزرا ہے اس کا معلوم ہونا پہلے ہوتا ہے۔ لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کے درود پاک کے ساتھ مطلب جو ہے ناں، وہ دی گئی ہے، کہ جو ہے ناں، مطلب جیسے ابراہیم علیہ السلام، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کے اوپر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا فضل یہ فرمایا تھا کہ ان کو اپنا خلیل بنایا تھا، اور ساتھ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں انبیاء کرام مطلب جو ہے ناں وہ ہیں، اور ظاہر ہے مطلب ہے کہ جن کا پورا خاندان قبول ہوجائے تو یہ تو بہت بڑی بات ہے۔ تو یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس میں جو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مشابہت ہے، اس میں یہی بات ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پر بھی اللہ نے بڑا فضل فرمایا تھا، تو چونکہ پہلے گزرا ہے تو پہلے گزری ہوئی چیز کی مثال دی جاسکتی ہے۔ تو یہ درمیان میں آگیا۔

مشکوٰۃ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے قصہ نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت انبیاء کرام کا تذکرہ کررہی تھی کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور روح ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا صفی قرار دیا۔ اتنے میں حضور ﷺ تشریف لائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمھاری گفتگو سنی، بے شک ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ نجی اللہ ہیں (یعنی کلیم اللہ) اور ایسے ہی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور روح ہیں اور آدم علیہ السلام اللہ کے صفی ہیں، لیکن بات یوں ہے، غور سے سنو کہ میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس جھنڈے کے نیچے آدم علیہ السلام اور سارے انبیاء ہوں گے اور اس پر فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن سب سے پہلے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی وہ میں ہوں گا اور اس پر میں کوئی فخر نہیں کرتا۔ اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے جنت میں میں اور میری امت کے فقراء داخل ہوں گے اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہوں اولین اور آخرین میں اور کوئی فخر نہیں کرتا۔

اور بھی متعدد روایات سے حضور ﷺ کا حبیب اللہ ہونا معلوم ہوتا ہے، محبت اور خلت میں جو مناسبت ہے وہ ظاہر ہے، اسی لئے ایک کے درود کو دوسرے کے درود کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور چونکہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام حضور اقدس ﷺ کے آباء میں ہیں، اس لئے بھی ’’مَنْ اَشْبَہَ اَبَاہُ فَمَا ظَلَمَ‘‘ آباء و اجداد کے ساتھ مشابہت ممدوح ہے۔

مشکوٰۃ کے حاشیہ پر لمعات سے اس میں ایک نکتہ بھی لکھا ہے وہ یہ کہ حبیب اللہ کا لقب سب سے اونچا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:

"حبیب اللہ کا لفظ جامع ہے خلت کو بھی اور کلیم اللہ ہونے کو بھی اور صفی اللہ ہونے کو بھی بلکہ ان سے زائد چیزوں کو بھی جو دیگر انبیاء کے لئے ثابت نہیں۔ اور وہ اللہ کا محبوب ہونا ہے، ایک خاص محبت کے ساتھ جو حضور اقدس ﷺ ہی کے ساتھ مخصوص ہے"۔

اللہ جل شانہٗ ہمیں بھی آپ ﷺ کے ساتھ سچی محبت عطا فرما دے، اللہ تعالیٰ بھی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ہم بھی تَخَلُّقْ بِاَخْلَاقِ اللہ کے بمصداق آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرنے لگیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ

چہل حدیث شریف

مناجات مقبول

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔

اے اللہ! اپنے فضل و کرم سے ہماری تمام دعاؤں کو قبول فرما، یا اله العالمین! ہم سے جو کمزوریاں، اور سستیاں، اور غلطیاں کوتاہیاں ہوئی ہیں، یا اللہ! معاف فرما دے۔ یا الہ العالمین! ہمیں سچا پکا مسلمان بنا دے، اپنے حبیب پاک ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والا امتی بنا دے، اپنے حبیب پاک ﷺ کی سنت پر چلنے والا امتی بنا دے۔

یا الہ العالمین! ہمیں اپنی بندگی نصیب فرما دے۔ یا الہ العالمین! ہر چیز میں، یا اللہ! تیری رضا کو، یا الہ العالمین! دیکھنے والے بن جائیں، یا اللہ! اس کو چاہنے والے بن جائیں، اور اس کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ یا اللہ! ہمیں اپنی رضا نصیب فرما، ہمیں اپنے آپ سے راضی کردے، اپنے حبیب پاک ﷺ کی معیتِ پاک میں اپنا دیدارِ پاک عطا فرما دے۔ یا اللہ! جب تو فرمائے گا کہ "میں تم سے راضی ہوں، پھر کبھی ناراض نہیں ہوں گا"، اے اللہ! ان خوش نصیب لوگوں میں ہمیں بھی شامل فرما دے۔

اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں نصیب فرما دے، حسنِ خاتمہ کی عظیم دولت سے سرفراز فرما دے، موت کی سختی سے، عذابِ قبر سے، پل صراط کی مشکلات سے، جہنم کی آگ و دھوئیں سے، اور حشر کی رسوائی سے ہم سب کو نجات عطا فرما۔ اے اللہ! جتنے مسلمان فوت ہوچکے ہیں، سب کی مغفرت فرما، سب کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ اور جو ہمارے اکابر دنیا سے گئے ہیں، ان کے درجات بہت بلند فرما، ان کے فیوض و برکات سے مکمل و وافر حصہ عطا فرما۔

اور یا الہ العالمین! یا الہ العالمین! ہمیں آخرت کے لئے تیاری کرنے کی، خوب تیاری کرنے کا موقع عطا فرما، یا اللہ! توفیق عطا فرما دے۔ اور یا الہ العالمین! افراط تفریط سے ہمیں بچا دے، شیطان کے شر سے ہمیں محفوظ فرما دے، دجال اور دجالی فتنوں سے ہمیں محفوظ فرما دے۔ پاکستان کو رہتی دنیا تک اسلام کا قلعہ بنا دے، جس مقصد کے لئے پاکستان بنا تھا، اس مقصد کے لئے قبول فرما دے۔ اور جو بھی اس مقصد سے اس کو ہٹانا چاہتے ہیں یا توڑنا چاہتے ہیں، اول ان کو ہدایت عطا فرما، اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں تو ان کو عبرت کا نمونہ بنا دے۔

یا الہ العالمین! ہمارے لئے خیر کے فیصلے فرما دے۔ یا اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے حرمین شریفین کی زیارتیں، اور محبت کے ساتھ، ادب کے ساتھ، بار بار، یا اللہ! قبولیت والی نصیب فرما دے۔ اور یا الہ العالمین! تو اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے مقربین میں، محبوبین میں، محبین میں، صدیقین میں، صادقین میں، صالحین میں شامل فرما دے، ان لوگوں میں شامل فرما جن کو دیکھ کر تو خوش ہوتا ہے۔ اور یا اللہ! ان لوگوں میں شامل فرما جن کے بارے میں تو فرماتا ہے، "جو میرے ہیں، ان کو تو گمراہ نہیں کرسکتا"۔

یا الہ العالمین! تو اپنے فضل و کرم سے، یا الہ العالمین! یا الہ العالمین! ہمارے دلوں کے اندر جو جائز حاجات ہیں، ان کو پورا فرما، اور جو ناجائز حاجات ہیں، ان سے ہمارے دلوں کو فارغ فرما دے۔ ہمیں مستجاب الدعوات بنا دے۔ جنہوں نے دعاؤں کے لئے کہا ہے، سوچا ہے، توقع رکھتے ہیں، سب کی دعاؤں کو قبول فرما دے۔ یا الہ العالمین! یا اللہ! ہماری سیئات کو حسنات سے مبدل فرما، مشکلات کو آسانیوں سے مبدل فرما، یا الہ العالمین! لاعلمی کو علم سے مبدل فرما، اور یا الہ العالمین! کمزوری کو قوت سے مبدل فرما۔

یا الہ العالمین! تلاوتِ کلام پاک دائمی طور پر نصیب فرما دے، قرآن پاک کا حفظ نصیب فرما دے۔ اے اللہ! کوتاہیوں سے، یا الہ العالمین! بچا دے۔ اور یا الہ العالمین! تو اپنے فضل و کرم سے ہمارے ساتھ خیر کا معاملہ فرما دے۔ یا الہ العالمین! ہم اپنے نفس کے شر سے ڈرتے ہیں، یا اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے، یا اللہ! ہمارے نفسوں کی بہترین تربیت فرما دے۔ اور یا اللہ! ہمیں نفسِ مطمئنہ، قلبِ سلیم، عقلِ فہیم عطا فرما دے، اپنی رضا اور اپنا فضلِ عظیم عطا فرما۔

يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغيْثُ أَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهٗ وَلَا تَكِلْنَا إِلٰی أَنْفُسِنَا طَرْفَةَ عَيْنٍ۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ عَبْدُکَ وَنَبِيُّكَ وَحَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عَبْدُکَ وَنَبِيُّكَ وَحَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ۔ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

جمعہ آخری وقت کی دعا - جمعہ آخری وقت کی دعا