اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾1
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
زاد السعید میں مواہبِ لدنیہ سے نقل کیا ہے کہ قیامت میں کسی مؤمن کی نیکیاں کم ہوجائیں گی تو رسول اللہ ﷺ ایک پرچہ سرِ انگشت یعنی انگلی کے پور کے برابر نکال کر میزان میں رکھ دیں گے جس سے نیکیوں کا پلہ وزنی ہوجائے گا۔ وہ مؤمن کہے گا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں آپ کون ہیں، آپ کی صورت و سیرت کیسی اچھی ہے؟ آپ فرمائیں گے میں تیرا نبی ہوں اور یہ درود ہے جو تو نے مجھ پر پڑھا تھا، تیری حاجت کے وقت میں نے اس کو ادا کردیا۔
اس پر یہ اشکال نہ کیا جائے کہ ایک پرچہ سرِ انگشت کے برابر میزان کے پلڑے کو کیسے جھکا دے گا۔ اس لئے کہ اللہ جل شانہٗ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے اور جتنا بھی اخلاص زیادہ ہوگا اتنا ہی وزن زیادہ ہوگا۔ حدیث البطاقہ یعنی ایک ٹکڑا کاغذ کا جس پر کلمہ شہادت لکھا ہوا تھا وہ ننانوے دفتروں کے مقابلے میں اور ہر دفتر اتنا بڑا کہ منتہائے نظر ڈھیر لگا ہوا تھا غالب آگیا۔
یہ حدیث مفصل اس ناکارہ کے رسالہ فضائل ذکر باب دوم فصل سوم کے 14 نمبر پر گزر چکی ہے جس کا جی چاہے مفصل وہاں دیکھے۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔ اور بھی اس رسالہ میں متعدد روایات اسی مضمون کی گزری ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے یہاں وزن اخلاص کا ہے۔ فصل پنجم حکایات کے ذیل میں حکایت نمبر 20 پر بھی اس کے متعلق مختصر سا مضمون آ رہا ہے۔
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: ’’أَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهٗ صَدَقَةٌ، فَلْيَقُلْ فِيْ دُعَائِهٖ: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُوْلِكَ، وَصَلِّ عَلٰى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، فَإِنَّهَا زَكَاةٌ. وَقَالَ: لَا يَشْبَعُ الْمُؤْمِنُ خَيْرًا حَتّٰى يَكُوْنَ مُنْتَهَاهُ الْجَنَّةَ.‘‘2 .
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس کے پاس صدقہ کرنے کو کچھ نہ ہو وہ یوں دعا مانگا کرے (اَللّٰھُمَّ صل سے اخیر تک) اے اللہ درود بھیج محمد ﷺ پر جو تیرے بندے ہیں اور تیرے رسول ہیں اور رحمت بھیج مومن مرد اور مومن عورتوں پر اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں پر پس یہ دعا اس کیلئے زکوٰۃ یعنی صدقہ ہونے کے قائم مقام ہے اور مومن کا پیٹ کسی خیر سے کبھی نہیں بھرتا یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔
(ف) علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حافظ ابن حبان نے اس حدیث پر یہ فصل باندھی ہے "اس چیز کا بیان کہ حضور اقدس ﷺ پر درود پڑھنا صدقہ نہ ہونے کی صورت میں صدقہ کے قائم مقام ہوجاتا ہے"۔
علماء میں اس بات میں اختلاف ہے کہ صدقہ افضل ہے یا حضور اقدس ﷺ پر درود۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حضور ﷺ پر درود صدقہ سے بھی افضل ہے، اس لئے کہ صدقہ صرف ایک ایسا فریضہ ہے جو بندوں پر ہے اور درود شریف ایسا فریضہ ہے جو بندوں پر فرض ہونے کے علاوہ اللہ تعالیٰ شانہٗ اور اس کے فرشتے بھی اس عمل کو کرتے ہیں۔ اگرچہ علامہ سخاوی خود اس کے موافق نہیں ہیں۔
علامہ سخاوی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ مجھ پر درود بھیجا کرو اس لئے کہ مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے زکوٰۃ (صدقہ) کے حکم میں ہے۔ ایک اور حدیث سے نقل کیا ہے کہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کہ وہ تمہارے لئے زکوٰۃ (صدقہ) ہے۔
نیز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی روایت سے حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ مجھ پر تمہارا درود بھیجنا تمہاری دعاؤں کو محفوظ کرنے والا ہے، تمہارے رب کی رضا کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکوٰۃ ہے (یعنی ان کو بڑھانے والا اور پاک کرنے والا ہے)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی حدیث سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ مجھ پر درود بھیجا کرو اس لئے کہ مجھ پر درود تمہارے لئے (گناہوں کا) کفارہ ہے اور زکوٰۃ (یعنی صدقہ) ہے۔ اور حدیث پاک کا آخری ٹکڑا کہ مومن کا پیٹ نہیں بھرتا اس کو صاحب مشکوٰۃ نے فضائل علم میں نقل کیا ہے اور صاحب مرقات وغیرہ نے خیر سے علم مراد لیا ہے اگرچہ خیر کا لفظ عام ہے اور ہر خیر کی چیز اور ہر نیکی کو شامل ہے اور مطلب ظاہر ہے کہ مومن کامل کا پیٹ نیکیاں کمانے سے کبھی نہیں بھرتا وہ ہر وقت اس کوشش میں رہتا ہے کہ جو نیکی بھی جس طرح اس کو مل جائے وہ حاصل ہوجائے۔ اگر اس کے پاس مالی صدقہ نہیں تو درود شریف ہی سے صدقہ کی فضیلت حاصل کرے۔
اس ناکارہ کے نزدیک خیر کا لفظ علی العموم ہی زیادہ بہتر ہے کہ وہ علم اور دوسری چیزوں کو شامل ہے لیکن صاحب مظاہر حق نے بھی صاحب مرقات وغیرہ کے اتباع میں خیر سے علم ہی مراد لیا ہے، اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں:
"ہرگز نہیں سیر ہوتا مومن خیر سے یعنی علم سے یعنی اخیر عمر تک طلبِ علم میں رہتا ہے اور اس کی برکت سے بہشت میں جاتا ہے۔ اس حدیث میں خوشخبری ہے طالبِ علم کو کہ دنیا سے باایمان جاتا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس درجہ کو حاصل کرنے کے لئے بعض اہل اللہ اخیر عمر تک تحصیلِ علم میں مشغول رہے ہیں باوجود حاصل کرنے بہت سے علم کے اور دائرہ علم کا وسیع ہے جو کہ مشغول ہو ساتھ علم کے اگرچہ ساتھ تعلیم و تصنیف کے ہو حقیقت میں ثواب طالبِ علم اور تکمیل اس کی کا ہی ہے اس کو"۔
اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ان مبارک احادیث شریفہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے مطابق ہمارے عقیدے بنائے۔
’’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
آتا رہوں یہاں پہ اب مدام یا رسول
گو میں ہوں یا رسول گنہگار امتی
ہوں تیری شفاعت کا امیدوار امتی
حاضر ہوں ترے در پہ شرمسار امتی
بن جاؤں اب تو میں بھی تابعدار امتی
مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
ڈرتا ہوں آخرت میں اگر ہوگیا حساب
اعمالِ بد کے واسطے کوئی نہیں جواب
ہوجائے اب کرم کہ ہے حالت مری خراب
کچھ بھی نہیں صحیح نہ اعمال نہ آداب
ہوجاؤں نہ کہیں اس میں ناکام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
بس جائے مرے دل میں اک خدا کی محبت
سب انبیاء، صحابہ، اولیاء کی محبت
تکمیل ہے ایماں کی مجتبیٰ کی محبت
اور دل سے نکل جائے یہ دنیا کی محبت
مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
دورِ فتن ہے کتنے ہیں فتنے کھلے پڑے
لباسِ دوستی میں ہیں دشمن چھپے ہوئے
اور ہم ہیں جان کر بھی ہمنوا بنے ہوئے
مدت صلاح الدین کی گزری مرے ہوئے
ایسا ہو میسر ہمیں امام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
اب خواب جو غفلت کا ہے بیدار ہوں اس سے
منہ دیکھنا پڑا ہے یوں ناکامی کا جس سے
اپنا کیا دھرا ہے تو گلہ کریں کس سے
آباء کے اپنے رہ گئے ہوشیاری کے قصے
اب ہم بھی سمجھ جائیں اپنا کام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
کلمہ پڑھوں بن جائے تو کلمے کا اب گواہ
اب میں چلوں اس پر کہ جو خالص ہے تری راہ
سب اس کے مطابق ہوں گو سفید، گو سیاہ
مقصود نہ ہوں مال، نہ ہی باہ، نہ ہی جاہ
بن جائے یہی حال اب مقام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
دنیا کی چاہتوں کا گو بنا ہوں میں اسیر
اللہ کا فضل ہے بے مثال و بے نظیر
کرتا ہے عاجزی سے اب یوں عرض یہ شبیرؔ
دنیا میں رہوں اب تو ترے در کا اک سفیر
شامل ہو غلاموں میں مرا نام یا رسول
پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! اب وقت بہت اخیر کا آگیا ہے جمعہ شریف کا، اور اس وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ بالخصوص ہمارے اکابر کا طریقہ تھا کہ اس وقت خالص اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے، وہ اعمال کرتے تھے جس میں خالص اللہ پاک کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ دو قسم کے کام ہیں: ایک وہ جس میں اجر کے لحاظ سے اللہ پاک کی طرف توجہ حاصل ہوتی ہے، اور ایک وہ جس میں براہِ راست اللہ کی طرف توجہ، جیسے ذکر ہے، نماز ہے، تلاوت ہے، دعا ہے۔ اس میں۔۔۔۔ تو نماز تو اس وقت پڑھی نہیں جاسکتی، کیونکہ عصر کی نماز ہوچکی ہے، تو اس کے بعد تو پھر نفل نہیں ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ تلاوت کی جاسکتی ہے، دعا کی جاسکتی ہے، ذکر کیا جاسکتا ہے، درود شریف پڑھا جاسکتا ہے۔ تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ قرآن شریف کی تلاوت، دو ختمِ قرآن ہوچکے ہیں، اور درود شریف بھی پڑھا گیا ہے، اور ابھی چہل حدیث شریف پڑھی جائے گی، اور پھر اس کے بعد اِنْ شَآءَ اللہ اللہ پاک فضل فرمائیں تو پھر دعا ہوگی، اِنْ شَآءَ اللہ۔
چہل درود شریف
مناجاتِ مقبول
اے اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے ہماری ساری دعاؤں کو قبول فرما دے۔ یا اللہ! ہم کمزور لوگ ہیں، ہماری کمزوری پر رحم فرما دے۔ اور یا اللہ! ہمارے تمام یا اللہ! گناہوں کو معاف فرما کر، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! اپنے پسندیدہ اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ہماری کمزوریوں کو قوت سے بدل دے، ہماری بیماریوں کو شفا سے مبدل فرما، یا اللہ! ہماری سستی کو چستی سے مبدل فرما، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ہماری یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ!بے یقینی کو یقین سے مبدل فرما۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! آخرت پر ہمیں کامل یقین عطا فرما دے، وہاں کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! آخرت کی ہر چیز کے لئے ہمیں یا اللہ! تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ! ہمیں قبر کے عذاب سے، موت کے وقت کی سختی سے، اور یا اللہ! یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! حشر کی رسوائی سے، اے اللہ! ہماری حفاظت فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! اپنے حبیبِ پاک ﷺ کی مَعِیَّتِ پاک میں اپنا دیدارِ پاک عطا فرما۔ یا اللہ! جب تو فرمائے گا کہ میں تم سے راضی ہوا اور پھر کبھی ناراض نہیں ہوں گا، اے اللہ! ان خوش نصیب لوگوں میں ہمیں بھی شامل فرما دے۔ اعمال نامہ دائیں ہاتھ سے نصیب فرما دے، حُسنِ خاتمہ کی عظیم دولت سے سرفراز فرما دے۔ موت کی سختی سے، عذابِ قبر سے، پل صراط کی مشکلات سے، جہنم کی آگ اور دھوئیں سے، اور حشر کی رسوائی سے ہم سب کو نجات عطا فرما۔ یا اللہ! جتنے مسلمان فوت ہوچکے ہیں، سب کی مغفرت فرما۔ جو ہمارے اکابر دنیا سے گئے ہیں، ان کے درجات بہت بلند فرما، ان کے فیوض و برکات سے مکمل اور وافر حصہ عطا فرما۔ اور یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! تو اپنے فضل و کرم سے پاکستان کو رہتی دنیا تک اسلام کا قلعہ بنا دے، جس مقصد کے لئے پاکستان بنا تھا، اس مقصد کے لئے قبول فرما دے۔ اور یا اللہ! جو بھی اس مقصد سے اس کو ہٹانا چاہتا ہے یا توڑنا چاہتا ہے، اولاً ان کو ہدایت عطا فرما دے، اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں تو ان کو عبرت کا نمونہ بنا دے۔ یا اللہ! حرمین شریفین کی بالخصوص حفاظت فرما دے۔ وہاں جتنے بھی لوگ سازشیں کر رہے ہیں یا جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، اولاً ان کو ہدایت عطا فرما، اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں ہے تو پھر ان کو عبرت کا نمونہ بنا دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! تو اپنے فضل و کرم سے غزہ کے مسلمانوں کی بھرپور مدد فرما دے، اور یا اللہ! اسرائیلیوں کو تہ و بالا کردے، اسرائیلیوں کو زمین دوز کر لے، یا اللہ! اسرائیلیوں کو، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ایسے، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ایسے عذابوں سے، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ان کو تباہ کردے کہ دنیا کے اوپر ان کی یہ جو ہے نہ مطلب یہ چیز کھل جائے کہ انہوں نے کتنا ظلم کیا ہے۔ یا اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کی حفاظت فرما دے، مسلمانوں کو اپنے وسائل سے، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! کام لینے کی توفیق عطا فرما، غیروں کی کاسہ لیسی سے محفوظ فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! جو حق راستہ ہے، اس پر یا اللہ! ہم سب کو چلنے کی توفیق عطا فرما۔ اپنے مقربین میں، محبوبین میں، محبین میں، صدیقین میں، صادقین میں، ہمیں شامل فرما۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ان لوگوں میں شامل فرما جن کو دیکھ کر تو خوش ہوتا ہے، ان لوگوں میں شامل فرما جن کے بارے میں تو فرماتا ہے: ’’جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔‘‘ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ہمیں مستجاب الدعوات بنا دے۔ جنہوں نے، یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! جنہوں نے دعاؤں کے لئے کہا ہے، سوچا ہے، توقع رکھتے ہیں، سب کی دعاؤں کو قبول فرما دے۔ اور یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! تو ہم سے راضی ہوجا، ایسا کہ پھر ناراض نہ ہو۔ اپنے حبیبِ پاک ﷺ کی مَعِیَّتِ پاک میں اپنا دیدارِ پاک عطا فرما۔ یا اللہ! جب تو فرمائے کہ میں تم سے راضی ہوا، پھر کبھی ناراض نہیں ہوں گا، اے اللہ! ان خوش نصیب لوگوں میں ہمیں بھی شامل فرما۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ہر خیر کی توفیق عطا فرما، اور یا اللہ! ہر شر سے محفوظ فرما دے۔ ہمارے قلب کو یا اللہ! قلبِ سلیم بنا، نفس کو نفسِ مطمئنہ بنا، عقل کو عقلِ فہیم بنا دے، اور کیفیتِ احسان عطا فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! یا اللہ! اس دنیا کی بے ثباتی ہمارے اوپر کھول دے، اور یا اللہ! اس کے شر سے ہمیں محفوظ فرما دے، شیطان کے شر سے ہمیں محفوظ فرما دے۔ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! ہمیں خیر پر جمع فرما دے، اور یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ! جو لوگ شر والے ہیں، یا اللہ! ان شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرما دے۔ یا اللہ! ہماری کان، زبان، اور یا اللہ! آنکھیں، اور یا اللہ! جتنے بھی اعضاء ہیں، ان سب کے یا اللہ! ان سب کو یا اللہ! اپنے لئے ان صحیح کاموں کے لئے استعمال فرما جس پر تو خوش ہوتا ہے، اور یا اللہ! ان کاموں سے بچا دے جس سے تو ناراض ہوتا ہے۔ یا اللہ! تو ہم سے راضی ہوجا، ایسا راضی ہو کہ پھر ناراض نہ ہو۔ ہماری تمام دعاؤں کو اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے طفیل قبول فرما دے۔
اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ عَبْدُکَ وَنَبِيُّكَ وَحَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عَبْدُکَ وَنَبِيُّكَ وَحَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ۔ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
۔ (الأحزاب: 56)
۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيْحِهٖ، كَذَا فِي التَّرْغِيْبِ. وَبَسَطَ السَّخَاوِيُّ فِي تَخْرِيجِهٖ، وَعَزَاهُ السُّيُوطِيُّ فِي الدُّرِّ إِلَى الْأَدَبِ الْمُفْرَدِ لِلْبُخَارِيِّ