اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فَقَدْ حَانَ شَهْرُ صَفَرَ، يَتَشَائَمُ بِهٖ بَعْضُ النَّاسِ وَيَتَطَيَّرُ كَمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ مَعَ هٰذَا الْإِعْتِقَادِ يَبْتَدِعُوْنَ فِيْهِ النَّسِيْءَ النُّکْرَ، فَأَبْطَلَهُ اللهُ تَعَالٰی بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّمَا النَّسِیْءُ زِيَادَةٌ فِی الْكُفْرِ﴾ (التوبہ: 37) وَكَذٰلِكَ نَفٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الشُّوْمَ وَالطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّبِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَأَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّغُمُوْمًا، فَقَالَ ’’لَا عَدْوٰى وَلا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَّلَا صَفَرَ‘‘۔ (بخاری، رقم الحدیث:5707) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: ’’یَتَشَاءَمُوْنَ بِدُخُوْلِ صَفَرَ‘‘۔ فَقَالَ النَبِیُّ ﷺ: ’’لَا صَفَرَ‘‘۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث:3915، بِاخْتِلَافِ الْأَلْفَاظِ) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’الطِّیَرَۃُ شِرْكُٗ [قَالَهٗ ثَلٰثاً]، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا مِنَّا إِلَّا وَلٰکِنَّ اللهَ یُذْھِبُهٗ بِالتَّوَکُّلِ‘‘۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث:3910) وَعُلِمَ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ وَسْوَسَةَ الطِّیَرَۃِ إِذَا لَمْ یَعْتَقِدْھَا بِالْقَلْبِ وَلَمْ یَعْمَلْ بِمُقْتَضَاھَا بِالْجَوَارِحِ وَلَمْ یَتَکَلَّمْ بِھَا بِاللِّسَانِ لَا یُؤَاخَذُ عَلَیْھَا، وَھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ بِالتَّوَکُّلِ۔ وَمَا رُوِیَ أَنَّهٗ ﷺ قَالَ: ’’الشُّؤْمُ فِي المَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالْفَرَسِ‘‘ (بخاری، رقم الحدیث:5093) فَھُوَ عَلٰی سَبِیْلِ الْفَرْضِ لِمَا: ’’وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِيْ شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ‘‘۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث:3921) أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ۔ ﴿قَالُوْا طَآئِرُكُمْ مَّعَكُمْ ۚ اَئِنْ ذُكِّرْتُـمْ ۚ بَلْ اَنْتُـمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ (یس: 19)
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! صفر کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں لوگوں میں کئی بدشگونیاں پائی جاتی ہیں۔ نیک شگون، یہ تو اسلام میں ہے، مثلاً آپ کا کوئی کام اچھا ہوجائے، آپ کہہ دیں فلاں کی برکت ہے، یہ ٹھیک ہے۔ لیکن برا شگون لینا یہ اسلام میں نہیں ہے۔ بدشگونی جرم ہے، جیسے کوئی کہہ دے فلاں کی نحوست ہے۔ اس مقابلے میں ہندوؤں میں بدشگونیاں بہت زیادہ ہیں، وہ ہر چیز میں یہ کہتے ہیں فلاں کی وجہ سے ہوگیا، فلاں کی وجہ سے ہوگیا۔ ہمارے لوگ چونکہ ہمارے جو بڑے تھے ہندوستان اور پاکستان کے لوگ، یہ ہندوؤں کے ساتھ مل جل کے چونکہ رہے ہیں، لہٰذا ان میں کچھ باتیں ان کی آگئی ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں بڑے احتیاط کے ساتھ اپنے جو customs ہیں، رسومات ہیں، ان کو دیکھنا پڑے گا، تاکہ ان رسومات سے بچ جائیں جو ہمارے عقائد کو اور ہمارے اعمال کو خراب کرنے والے ہیں۔
سب سے پہلے جو آیت کریمہ اس میں تلاوت ہوئی ہے، اس میں
اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک مہینوں کا ہٹانا کفر میں ترقی کا باعث ہے یعنی من جملہ اور کفریات کے۔۔۔۔ حرکت بھی کفر ہے، جو کفارِ قریش ماہِ محرم وغیرہ کے متعلق کیا کرتے تھے، مثلاً اپنی غرض سے محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لڑائی وغیرہ کو حلال کردیتے، وغیرہ ذالک۔
اب دیکھ لیں ایک طریقہ چلا آرہا ہے، یہ مبارک مہینے ہیں، ان کے اندر لڑائی نہیں کرنی ہے، اس میں اپنی مرضی سے تبدیلی کرنا، اس کو کفر میں زیادتی بتایا گیا ہے۔ یعنی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ دین چونکہ اللہ کی طرف سے آتا ہے، پیغمبروں کے ذریعے سے آتا ہے، لہٰذا پیغمبر ہوگا تو بتائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ چیز ہے، اور اگر پیغمبر نہیں ہوگا تو کون بتائے گا؟ کوئی اور بتا نہیں سکتا، کیونکہ اس کے مقابلے میں جو جو چیزیں ہیں، وہ ساری ظنی ہیں، مثلاً کوئی خواب دیکھے، ظنی ہے، کوئی کسی کو کشف ہو، ظنی ہے، اس کی بنیاد پر دین نہیں بنتا۔ دین میں پکی باتیں ہوتی ہیں، جو وحی سے ثابت ہوتی ہیں۔ اور وحی دو قسم کی ہے، ایک وحی متلو کہتے ہیں اور ایک کو وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ وحی متلو وہ ہے، جو کہ تلاوت کی جاتی ہے، جیسے قرآن۔ اور وحی غیر متلو وہ ہے، جو اگرچہ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی، لیکن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی۔ دوسری بات کہ قرآن میں الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور جو وحی غیر متلو ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر اتاری جاتی ہے، پھر آپ ﷺ اس کو بیان فرماتے ہیں۔ تو ہمیں یہاں قرآن بتائے یا سنتِ رسول سے معلوم ہو، اس کے ذریعے سے ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کسی چیز کا۔ قرآن تو کتاب ہے، اس میں تو جو جیسے ارشاد فرمایا گیا اسی طرح اس کو لینا ہوگا۔ ہاں! تفسیر کے لئے ہم علماء کے محتاج ہیں، لیکن تفسیر بھی کیسے ہوگی؟ تفسیر بھی سنتِ رسول کی روشنی میں ہوگی، کیونکہ سب سے پہلے مفسرِ قرآن جو تھے، وہ آپ ﷺ تھے۔ تو آپ ﷺ نے اگر قرآن کی کسی آیت کا جو مطلب بتا دیا، وہی final ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ ہاں! اگر ایسی بات نہ ہوئی ہو، تو پھر غور و خوض کرکے اس کے معنوں میں مطلب تفصیل بیان کی جاسکتی ہے۔ اسی وجہ سے علماء کرام اس میں بات کرتے ہیں، اس میں اختلاف بھی ہوتا ہے اجتہادی۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ جو سنتِ رسول ﷺ ہے، اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں صحابہ کرام کی زندگی دیکھنی ہوگی، صحابہ کرام نے اس پر عمل کیسے کیا۔ میں اگر قرآن کو دیکھ کر اور حدیث کو پڑھ کر اس سے کوئی مطلب لیتا ہوں تو مجھے correct کرنے والا آپ ﷺ ہمارے درمیان اس وقت نہیں ہے کہ وہ بتا دے کہ یہ بات ایسی نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث کی تین قسمیں ہیں: ایک فعلی حدیث ہوتی ہے، ایک قولی حدیث ہوتی ہے، اور ایک تقریری حدیث ہوتی ہے۔ فعلی حدیث وہ ہے جس میں آپ ﷺ نے کوئی کام خود کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اور قولی حدیث وہ ہے کہ آپ ﷺ نے کسی چیز کے بارے میں فرمایا ہو کہ کرو یا فرمایا کہ نہ کرو، یہ قولی حدیث ہوتی ہے۔ اور تقریری حدیث وہ ہے جس میں صحابہ کرام میں سے کسی نے کوئی عمل کیا اور اس کو آپ ﷺ نے کرنے دیا، یا اس کو کیا صحابہ کرام نے اور آپ ﷺ نے روک دیا کہ نہ کرو، یہ دونوں قسم۔۔۔۔ تقریری حدیثیں ہیں۔ تو جو فعلی حدیث ہے، اس کا روایت کرنے والا کون ہوگا؟ اس وقت کون موجود تھے؟ صحابہ کرام۔ اور جو قولی حدیث ہے، وہ کس کو کہا؟ کسی صحابی سے فرمایا یا کسی کو روکا، تو وہ بھی صحابی ہے یا صحابی اس کو روایت کرے گا، تو یہ بھی صحابہ پر منحصر۔ اور جو تقریری ہے وہ تو ہے ہی اس طرح، وہ تو عمل ہی صحابہ کا ہوتا ہے، لیکن آپ ﷺ اس کو روکتے ہیں یا کرنے دیتے ہیں۔ تو گویا کہ صحابہ کرام کی زندگی ہمارے لئے آپ ﷺ کی سنت کا نمونہ ہے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام کے بارے میں ہمیں بڑی محتاط زبان استعمال کرنی پڑے گی، چونکہ ہمارے دین کی بنیاد ہے۔ جیسے قرآن میں اگر کوئی بات کرتا ہے تو ہم نہیں مانتے، قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اور آپ ﷺ کے بارے میں کوئی کہتا ہے تو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ تو اس طرح صحابہ کرام کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ صحابہ کرام یعنی قرآن اور سنت کے احکامات کے مظاہر ہیں، یعنی اس کے ذریعے سے ظاہر ہورہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں تک فرمایا گیا کہ صحابہ کرام سے کچھ ایسے واقعات اگر ہوئے، جو قابلِ گرفت ہوتے ہیں، تو ان کو سمجھو کہ تکوینی طور پہ ان سے ایسا کروایا گیا کہ اس پر جو گرفت ہوئی ہے آپ ﷺ کے وقت میں، وہ نمونہ بن گیا، اگر وہ کام اس وقت نہ ہوچکا ہوتا تو یہ گرفت کیسے ہوتی، کیسے پتا چلتا کہ یہ کام نہیں کرنا چاہئے، یہ کام ٹھیک نہیں ہے۔ کیسے پتا چلتا؟ اس وقت جو ہے صحابہ کرام کے اعمال موجود ہوتے ہوئے لوگ اعتراض کرتے ہیں، تو پھر اگر یہ نہ ہوتا تو پھر پتا نہیں لوگ کیا کرتے۔ نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ وہ اقبال نے بھی اس پر طنز کیا تھا ناں: ”تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند“، مطلب اپنی مرضی سے اس کا معنی بیان کرلیتے ہیں۔
میں نے کتاب پڑھی۔ جرمنی میں ہمارے ایک دوست تھے، اس نے مجھے وہ کتاب پڑھنے کو دی۔ اس کا جو author تھا وہ تھا غلام احمد پرویز، جو منکرِ حدیث ہے مشہور۔ مجھے پتا تھا کہ یہ منکرِ حدیث ہے، لیکن میں نے کہا کہ چلو اس سے لے لوں، اس کے ساتھ تو ہونا اس کا خطرناک ہے، تو میں اس سے لے لیتا ہوں۔ ایک تو مجھے پتا چل جائے گا کہ کیا کہتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ کم از کم اس کے پاس نہیں رہے گی۔ تو میں نے پڑھنا شروع کیا تو پڑھنے میں پتا چلا کہ ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيْفَةً﴾1 (البقرۃ: 30) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں ملائکہ یہ اصل میں کائناتی قوتیں ہیں، مثلاً magnetism اور اس طرح یہ کششِ ثقل جو ہے ناں gravity اور یہ جو ہے ناں مطلب ہوا اور یہ فلاں، یہ ساری چیزیں جو ہیں، یہ کائناتی قوتیں ہیں، یہ ملائکہ ہیں۔ تو یہ اصل میں گویا کہ انسان کے ماتحت کردیے گئے، انسان اس کو جیسے استعمال کرنا چاہے تو کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے۔ آگے میں پڑھتا رہا، آدم علیہ السلام کا ذکر آیا، فرمایا آدم علیہ السلام کوئی شخص نہیں گزرا، ویسے لوگوں نے مشہور کردیا ہے کہ آدم علیہ السلام ہوا کرتا تھا، یہ کوئی بابا ہمارا نہیں ہے، بس صرف آدمی جو ہے ناں انسان اس کو آدم کہتے ہیں۔ تو یہ آدم علیہ السلام کے سامنے اس کو مسخر کردیا۔ کتاب تو میں نے بند کردی، بس میرے لیے اتنا کافی تھا۔ اگلے دن ملاقات ہوئی، میں نے کہا بھئی! یہ بتاؤ، آدم علیہ السلام کوئی تھا آپ کے خیال میں؟ یار ہمارے بابا ہیں، ہم سب اس کی اولاد ہیں۔ میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ پھر تو آپ مسلمان لگ رہے ہیں۔ ہاں جی! اب وہ حیران ہو رہے ہیں کہ میں اس کو کیا کہہ رہا ہوں۔ پھر میں نے کہا بھئی، فرشتے یہ کچھ آپ کو پتا ہے فرشتے کوئی ہیں؟ کہتے جی منکر نکیر فرشتے ہر ایک کے ساتھ ہیں، تو ہیں ناں فرشتے، میں نے کہا اس کا مطلب پھر تو آپ مسلمان لگتے ہیں۔ اب کہتے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا یہی تو کہہ رہا ہوں دیکھو! آپ نے جو مجھے کتاب دی ہے، اس میں تو یہی لکھا ہے فرشتے تو کائناتی قوتیں ہیں اور یہ آدم علیہ السلام تو کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ خود حیران ہوگیا، اس کا مطلب ہے اس نے خود تو نہیں پڑھا تھا۔ تو میں نے کہا کہ دیکھو! آپ نے ایک ایسی کتاب مجھے دی، جو بہت خطرناک کتاب ہے، اور آپ نے خود نہیں پڑھی، مجھے دے دی، مجھے خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اب اس کی ایک سزا ہے اور وہ سزا یہ ہے کہ یہ کتاب ضبط ہوگئی، اب یہ آپ کو نہیں ملے گی۔ ہاں جی! وہ کہتے یہ بہت مہنگی کتاب ہے اور یہ میں نے پاکستان سے منگوائی ہے اور یہ اور وہ۔ میں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہے، یہ کتاب آپ کو نہیں ملے گی۔ ہاں! البتہ اس کے بدلے میں آپ کو ایسی کتاب دوں گا، جو آپ کو فائدہ پہنچائے گی، آپ پڑھیں، آپ کی بیوی پڑھے، فائدہ پہنچے۔ کہتے کیسے؟ میں نے کہا وہ لفظ کا انگلش ترجمہ، میں نے کہا وہ میرے پاس ہے، تو وہ میں تمھیں gift کرتا ہوں، یہ آپ پڑھیں۔ یہ کیا طریقہ ہے، مطلب جو ہے ناں وہ آپ ایسی کتابوں کو پڑھتے ہیں جو فتنے ہیں۔ بہرحال میں نے اس سے وہ کتاب۔۔۔۔ وہ میرے پاس ہوگی، ”ابلیس و آدم“ اس کا نام ہے۔ ہاں جی! اب اندازہ کرلیں اگر مطلب حدیث سے کوئی کٹ جائے تو پھر یہ حال ہوگا، پھر یہ باتیں ہوں گی۔
جیسے جاوید غامدی ہے، وہ بھی اپنے دماغ سے اور اپنی عقل سے وہ باتیں کرتے ہیں اور حدیث شریف کی طرف نہیں جاتے، تو پھر وہ کیا کہتے ہیں؟ موسیقی بھی جائز ہے، فلاں چیز بھی جائز ہے۔ حتیٰ کہ مجھے بہت خطرناک بات معلوم ہوئی جس پہ سے میں ہل گیا، وہ حج کے موقع پر ایک صاحب تھے ماسکو میں تھے، پاکستانی ڈاکٹر تھے، لیکن ماسکو میں تھے، تو ان سے میری ملاقات ہوئی، اصل میں اس نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا، میں نے جواب دے دیا، اس سے ذرا تھوڑی سی ان کے ساتھ hello hello ہوگئی، پھر ملنا جلنا ہوگیا۔ پھر یہ تاتاری مسلمان تھے وہاں پر جو آئے ہوئے تھے ماسکو سے، تو ان کو بتا دیا، انہوں نے پھر ہماری یعنی ناشتے کی دعوت کی، پھر ان کے ساتھ بات چیت ہوگئی۔ تو وہ ایک دن مجھے کہتے ہیں کہ تیس سال سے میں بغیر شادی کے عورت کے ساتھ رہ رہا ہوں، تو آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ کہتے عیسائی ہے۔ میں نے کہا بات سنو، چھوڑو بات یہ جائز، عام لوگوں کے لئے ہم جائز نہیں بتاتے کہ جائز ہے، لیکن آپ کے لئے اس حرام کے درجے جو اس وقت ہے، اس سے زیادہ کم، اس سے کم حرام کہ آپ اس سے نکاح کرلیں۔ اب کم از کم آئندہ زندگی تو آپ کی ٹھیک ہوجائے، کم از کم یہ تو کرلو، بعد میں آپ جو ہے ناں اس پہ کوشش کرلیں، مسلمان بھی ہوجائے۔ مجھے کہتا ہے جاوید غامدی میرا دوست ہے، اس سے میں نے پوچھا تھا، اس نے کہا کوئی بات نہیں، کوئی فکر نہیں۔ اب بتاؤ! اگر یہ بھی اس کو فکر نہیں تو پھر کس چیز کی فکر ہے؟ اسلام کدھر ہے پھر؟ موسیقی جائز ہے، شراب جائز ہے، نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِكَ، زنا ہوگیا تو زنا جائز ہے۔ اب بتاؤ اسلام کدھر ہے؟ پھر یہی بے مہار بات چیت ہوگی، شتر بے مہار بنیں گے۔
تو اس وجہ سے حدیث کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ سنتِ رسول کو جانے بغیر ہم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے اور صحابہ کرام کی زندگی کے اور واقعات کے بغیر آثارِ صحابہ جن کو کہتے ہیں، اس کے بغیر ہم حدیث شریف کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہاں جی! کیونکہ راوی وہی ہیں۔ تو یہ بھی نہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ سارا زور صحابہ پر آگیا۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں، عرب ہیں، بڑا اچھا ماشاء اللہ ساتھی ہے۔ ایک جگہ ان کے ساتھ بات چیت ہوگئی، گھنٹہ سوا گھنٹہ، اس نے اتنی کتابیں تصوف کی پڑھی تھیں، میں دب گیا بالکل، میں نے کہا یار یہ تو اس نے کمال کیا ہے، اتنی کتابوں کے تو نام بھی ہم نے نہیں سنے تھے، کیونکہ عرب تھے اور عربی میں کتابیں تو موجود تھیں، تو وہ پڑھتا رہا، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں تھی۔ لیکن ایک معمولی سی بات پہ پھنسے ہوئے تھے۔ مجھے کہتے شیخ! میں اللہ اور اپنے درمیان کسی تیسرے شخص کو، تیسرے کو میں جو ہے ناں برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنے خیال میں وہ بڑی توحید کی بات کررہے تھے۔ میں نے کہا شیخ! کم از کم ایک کو ماننا پڑے گا، ایک کو ماننا پڑے گا۔ کہتے کون؟ میں نے کہا رسول اللہ ﷺ۔ وہ فوراً تنبیہ ہوگئی، کہتے ہاں ہاں بالکل بالکل، نعم نعم۔ میں نے کہا لیکن آپ ﷺ کی بات کو جاننے کے لئے، سمجھنے کے لئے ہمیں صحابہ کرام کو ماننا پڑے گا، کیونکہ ان کی بات ہم تک صحابہ کرام کے ذریعے سے پہنچتی ہے۔ کہتے نعم نعم، ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ صحابہ کرام کی بات کو پہنچنے کے لئے ہمیں تین بڑے گروہوں کو ماننا پڑے گا۔ کون؟ میں نے کہا محدثین، فقہاء اور صوفیاء کرام۔ محدثین جو ہیں، وہ آپ ﷺ کی وہ اخبار جو کہ صحابہ کرام نے بیان کی ہیں، وہ بیان کرتے ہیں۔ اس کے وہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور جو فقہاء کرام ہیں، وہ ان سے مسائل مستنبط کرتے ہیں، تو اس لئے وہ ان کو ماننا پڑے گا۔ اور صوفیاء کرام اس پہ عمل کرواتے ہیں، جو رکاوٹ نفس و شیطان کی ہے، اس سے دور کرواتے ہیں اور عمل کرواتے ہیں۔ سر ہلا دیا۔ ہاں جی! میں نے کہا کہ محدثین اور فقہاء کرام کی بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں علماء کرام کی محتاجی ہے، اور صوفیاء کرام کی بات تک پہنچنے کے لئے ہمیں اپنے شیخ کے ساتھ ہونا پڑتا ہے۔ اس پر خاموش ہوگئے، کچھ نہیں کہا۔ سفر کچھ کیا، لیکن درمیان میں کچھ اتنی جلدی تو نہیں ہوتا۔ خیر مجلس ہماری ختم ہوگئی، ہم آگئے۔ تین چار دن کے بعد وہ خانقاہ پہنچ گئے اور بیعت کرلی اور اس کے بعد مطلب کچھ کتابیں تو پڑھی تھیں ناں، تو اس نظر سے پھر پڑھ لی دوبارہ شاید واللہ اعلم۔ پھر بیعت بھی کرلی، ذکر بھی لے لیا اور ماشاء اللہ! اب ہمارے ساتھ۔۔۔۔ جب بھی آتے ہیں پاکستان تو، ہاں جی! آج کل دبئی میں ہیں۔
تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے، لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات ہوتے ہیں لیکن وہ اشکالات سطحی ہوتے ہیں، ذرا ان کو تھوڑا سا طریقے سے tackle کیا جائے تو ختم ہوسکتے ہیں۔ ہاں! طالب ہو، طالب ہونا ضروری ہے۔ ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا﴾ پہلے ہے، ﴿لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾2 بعد میں ہے۔ پہلے اپنی طلب کا اظہار کریں گے۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’بچہ روئے گا نہیں تو ماں دودھ بھی نہیں دیتی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے مانگنا پڑتا ہے، طالب بننا پڑتا ہے۔ اور یقین جانیے کہ اگر اللہ پاک سے کوئی مانگے تو اللہ دیتا ضرور ہے۔ ہدایت کی بات کررہا ہوں، باقی چیزوں کو تو اس پر منحصر کرتے ہیں ناں کہ اس کے لئے مفید ہے کہ نہیں، کیونکہ ہدایت سب کے لئے مفید ہے۔ تو اس وجہ سے ہدایت کی دعا جو بھی کرتا ہے، تو اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتے ہیں۔ اور یہ جو ہم سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں، سورۃ فاتحہ میں ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر سورۃ فاتحہ ہے۔ ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر سورۃ فاتحہ کم از کم ہے۔ قرآن کی تلاوت بعض میں ہے، بعض میں نہیں ہے، لیکن سورۃ فاتحہ کم از کم ہے۔ تو سورۃ فاتحہ میں ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ﴾3 یہ ہم پڑھتے ہیں۔ اب یہ بار بار جو دعا کررہے ہیں، کس لئے کروائی جارہی ہے؟ کیونکہ ایک ایسی چیز ہے، اگر یہ نہ ہو تو دنیا کی ساری چیزیں آپ کے پاس ہوں، کچھ بھی نہیں، تباہ و برباد ہیں آپ۔ اور اگر کچھ بھی نہ ہو اور یہی چیز ہو تو آپ بالکل ماشاء اللہ! سب کچھ آپ کے پاس ہے۔ تو ہدایت بہت بڑی چیز ہے، اس لئے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے، اور بے ہدایتی سے دور رہنا چاہئے، اس کو نہ مانگو، اس کو جو ہے ناں اس سے بچنا چاہئے۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ﴾4 ۔ یہ کیا چیز ہے؟ اے اللہ! ہمارے دل میں کجی نہ ڈال بعد اس کے کہ ہمیں تو نے ہدایت دے دی ہو، ہاں جی! اور اپنے آپ سے ہی ہمیں عطا فرما رحمت، بے شک تو بغیر استحقاق کے عطا فرمانے والا ہے۔ ﴿إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ تو یہ دعا ہمیں کرنی چاہئے ناں، بہت بڑی دعا ہے۔ کجی سے بچنا چاہئے، کجی ایسی خطرناک چیز ہے، جیسے جاوید غامدی کا میں نے پہلے ذکر کیا، توبہ، اَسْتَغْفِرُ الله، تباہی اور بربادی ہے۔
تو یہ میں عرض کررہا ہوں کہ ہمیں اللہ پاک سے مانگنا چاہئے۔ تو بات خیر کافی دور تک پہنچ گئی، لیکن مفید تھی۔ اصل میں صفر کے مہینے کی بات ہورہی تھی کہ صفر کے مہینے کے ساتھ لوگوں نے عجیب و غریب چیزیں وابستہ کی ہیں، بدشگونیاں۔ بدشگونیاں وابستہ۔۔۔۔ اس میں بلائیں اترتی ہیں، اور ان بلاؤں کے لئے پھر کچھ انہوں نے اپنے طور پہ ٹونے ٹوٹکے بھی بنائے ہیں، کچھ وظیفے بھی بنائے ہوئے ہیں۔ اچھا! یہ ہماری عوام کی ایک کمزوری ہے، اس سے یہ لوگ مطلب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کمزوری کیا ہے؟ کہ دنیا کے کسی نقصان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ تو اگر آپ کسی عمل سے ان کو کہہ دیں کہ اس سے آپ کو فلاں دنیا کا نقصان ہوجائے گا یا ہوسکتا ہے، تو بس پھر اس کی طرف چلنا موت ہے۔ ہاں جی! فلاں بھئی مہینے میں شادی نہ کرو، ورنہ یہ شادی تباہ ہوجائے گی، ختم ہوجائے گی، بس اب جو ہے ناں مطلب نہیں کرتے۔ وہ جی اتوار کے دن کپڑے نہیں بدلنا، کیونکہ یہ ہوجائے گا۔ اور جو ہے ناں اگر کوئی گھر سے کوئی چلا جائے تو پیچھے جھاڑو نہیں دینا چاہئے، ورنہ پھر یہ ہوجائے گا۔ اب لوگوں نے اپنے اپنے طور پہ مشہور کیے ہیں۔ بعض چیزوں کا ٹیسٹ بہت clear، مثال کے طور پر یہ شادی والی بات ہے، مجھے بتاؤ جن جن کی طلاق ہوئی ہیں وہ گن لو کہ وہ کون کون سے مہینے میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ اور ہاں جی! تو پتا چل جائے گا کہ کن کی کس وقت میں ہوئی تھی۔ بس یہ اپنی طرف سے چیزیں بنائی ہیں لوگوں نے۔ وہ ہمارے گھروں میں یہ بات ہوا کرتی تھی کہ وہ عورتیں، عورتیں ہی زیادہ تر توہم پرست ہوتی ہیں، زیادہ تر اور مرد جو توہم پرست ہوتے ہیں، وہ عورتوں سے باقاعدہ توہم سیکھ سیکھ کر توہم کرتے ہیں، کیونکہ اس کی specialist تو ہوتی ہیں۔ تو خیر بہرحال یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں یہ چیز مشہور تھی کہ کوا جب بولے گا تو مہمان آتے ہیں۔ میں نے کہا اس کا ٹیسٹ تو بہت آسان ہے۔ ایک کاپی لے لو، اس میں آپ ایک شخص جو ہے ناں وہ جب جب بھی مہمان آتا رہے تو نوٹ کرے، اس وقت فلاں تاریخ کو مہمان آیا۔ اور دوسری کاپی کسی دوسرے کو دے دو اور اس میں جب جب کوا بولے تو اس میں لکھا کرے کہ اب کوا فلاں ٹائم پہ بولا تھا۔ اور پھر پورے مہینے کے بعد record compare کرلو کہ بھئی کس وقت کوا بولا تھا اور کس وقت مہمان آئے تھے۔ result معلوم ہوجائے گا، پتا چل گیا کہ یہ صرف باتیں ہی ہیں، ختم ہوگئی بات۔ اس طرح مطلب یہ ہے کہ انسان وہ کرسکتا ہے، اپنی logic کو، اپنی عقل کو استعمال کرکے ان باتوں سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ تو یہ جو صفر کے معاملے میں بلکہ یہاں تک سنا ہے واللہ اعلم کہ اگر کوئی چیز ٹوٹ جائے تو پھر سات مرتبہ ٹوٹے گی، عجیب و غریب باتیں ہیں۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اس سے بچنا چاہئے۔ ہمارا دین بڑا پاک دین ہے، بہت ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ لہٰذا اپنے دین کی طرف آؤ، دیکھو کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام نے کیا فرمایا ہے؟ علماء کرام تو چونکہ اپنے وقت کے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ تو لوگ مقابلے کی صورت میں ہوتے ہیں، لیکن آپ ﷺ کی بات تو آپ ignore نہیں کرسکتے اور ساتھ جو ہے ناں مطلب صحابہ کرام کی بات۔
تو میں۔۔۔ ابھی جو تلاوت کی ہیں چیزیں، وہ ذرا میں آپ کو بتاتا ہوں، آپ کو ان شاء اللہ! اندازہ ہوجائے گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور یہاں پر کیا فرمایا جارہا ہے۔ تو ایک تو یہ آیت کریمہ میں نے آپ کو بتا دی کہ اس کے بارے میں نسی کے بارے میں ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں آپ ﷺ کہ نہ مرض کا تعدیہ ہے، بلکہ جس طرح حق تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں اس طرح دوسروں کو بھی مستقل تصرف سے مریض کردیتے ہیں، میل جول وغیرہ سے مرض کسی کو نہیں لگتا، یہ سب وہم ہے۔ اور نہ جانور کے اڑنے سے بدشگونی لینا کوئی چیز ہے، جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ دائیں جانب سے تیتر وغیرہ اڑے تو منحوس جانتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے، جیسے کہ عام طور پر لوگ اس کو منحوس خیال کرتے ہیں، یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور یہ حدیثِ شریف صریح کے خلاف ہے۔ اور ایک رسم اس ماہ میں آخری چار شنبہ کی مروج ہے، یہ بھی بالکل بے اصل ہے۔
سب سے پہلے میں تعدیہ کا ذکر کرتا ہوں۔ تعدیہ کیا چیز ہے؟ تعدیہ اصل میں متعدی بیماری کا لگنا ہے۔ اس کے بارے میں چونکہ دونوں قسم کی احادیث شریفہ موجود ہیں، اس وجہ سے ہم دونوں کا خیال رکھیں گے اور یقین اپنی اپنی جگہ پہ صحیح رکھیں گے۔ سبب پہ ہم بات کرسکتے ہیں، یہ مطلب جو ہے ناں عقیدہ ہم اپنا disturb نہیں کرسکتے۔ چونکہ بعض احادیث شریف میں یہ ہے کہ وہ جو جزامی ہے، ان سے ایسے بھاگو جیسے کہ شیر سے، اور یہاں پر یہ فرمایا گیا کہ کچھ نہیں ہے۔ تو اصل میں بنیادی بات یہ ہے کہ جزامی کو بھی اگر جزام لگتا ہے تو شیر... مطلب کسی سے بھی لگے گا تو اللہ کے حکم سے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں لگ سکتا۔ تو یہ عقیدہ تو پکا رکھنا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اس وجہ سے لگے گا، نہیں، اس وجہ سے نہیں، اللہ کے حکم سے لگے گا۔ بہرحال اگر کسی کی immunity کمزور ہوجائے، سبب کے لحاظ سے بات کررہا ہوں، immunity کمزور ہوجائے، تو بیماری کوئی بھی اس پہ بہت آسانی کے ساتھ حملہ کرسکتی ہے۔ اور کسی قسم کا وہم بھی ہو، یہ immunity کو مارتا ہے، immunity کو کم کرتا ہے۔ لہٰذا جس کا خیال یہ ہو کہ یہ بیماری لگتی ہے، اس کا وہم تو ہے، لہٰذا اس کو بچنا چاہئے، کیونکہ اس کی immunity گرنے کی وجہ سے اس کو لگے گا اور اس کا عقیدہ بنے گا کہ یہ تو اس وجہ سے لگا ہے۔ ہاں جی! یہ والی بات۔ تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ کام خراب ہوجاتا ہے۔ تو ہم لوگ کیونکہ ہمارے اندر اپنا پورا دفاعی نظام موجود ہے۔ دیکھو! ہر چیز، یہ تو آپ بیماری کی بات کررہے ہیں ناں، یہ گرد نہیں ہے گرد، یہ بھی ہمارے جسم کے اندر کچھ گڑبڑ کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ ہاں جی! یا بدبو جو آرہی ہے یہ بھی ہمارے جسم کے اندر وہ کرتی ہے مختلف قسم کی گیسیں۔ تو یہ، لیکن انسان کے اندر جو immunity ہوتی ہے، immunity کی وجہ سے وہ repel کرتے ہیں چیزوں کو باہر۔ یہ جو ہمیں چھینک آتی ہے یہ کیا چیز ہے؟ اگرچہ لوگ اس کو برا سمجھتے ہیں، لیکن اسی کے ذریعے سے تو مواد خارج ہوتا ہے، جو آپ کے جسم میں پہنچ چکے ہوتے ہیں، اس کو دوبارہ زور سے نکال لیتے ہیں، تاکہ آپ کے جسم کو نقصان نہ پہنچے۔ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے، اس وجہ سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اس پہ کہا جاتا ہے، ہاں جی! کہ آپ کے جسم کی حفاظت ہورہی ہے اور یہ صحت کی علامت ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ کی صحت میں اس کے لئے reaction موجود ہیں۔ تو یہ بات۔ تو اسی طریقے سے مطلب یہ ہے کہ ہمارا جو Immunity system ہے، وہ باقاعدہ بے شک باہر سے حملہ ہو بھی جائے، اگر immunity مضبوط ہو تو کم ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے ایک سلسلے کی ایک خاتون ہے، اس نے Corona کے دنوں میں مجھے whatsapp کیا کہ مجھے سر میں درد ہوگیا، پھر گلے میں تکلیف ہوگئی، پھر تھوڑا سا temperature ہوگیا اور پھر اس کے بعد وہ temperature ٹھیک ہوگیا۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی، ڈاکٹر صاحب نے مجھے تسلی دی کہ یہ These all are good signs کیونکہ Corona ہی تھا، سر پہ اثر کرلیا، سر سے آگیا گلے پہ اور اس سے تھوڑا سا temperature ہونے کو تھا کہ immunity نے اس کو پکڑ لیا اور ختم کردیا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی immunity full ہے، لہٰذا آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ کہتی احتیاطی طور پر اس نے کچھ دوائیاں دے دیں، فرمایا نہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا، بس ہوگیا، اس نے پکڑ لیا۔ تو اب دیکھیں! جانتا تھا اس کو تو وہی مطلب۔ تو اس طرح immunity اگر ہوتی ہے تو آبھی جائے پھر واپس، اور immunity نہ ہو تو دور سے بھی۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اب جو وہم بنیاد ہے، تو وہم نہ کرو۔ تو بہت سارے جو لوگ مرے ہیں Corona میں، دہشت سے مرے ہیں۔ یہ تو باقاعدہ proven چیز ہے کہ سانپ سارے مطلب وہ زہریلے نہیں ہوتے، یعنی بہت زیادہ زہریلے جس سے انسان مرتا ہے، تکلیف تو ہوتی ہے، لیکن بہت زیادہ زہریلے جس سے انسان مرتا ہے، وہ بہت کم ہیں، وہ سانپ۔ لیکن اگر کسی کو سانپ سے ڈر ہو ناں، اور جیسے سانپ کو دیکھے گا، اس نے اس کو ڈس لیا تو بس گیا، اس کی ساری immunity بیٹھ جاتی ہے۔ بلکہ ایک واقعہ میں نے پڑھا ہے، ’’ناقابلِ فراموش واقعات‘‘ میں کہ ایک نانبائی نے یہ بتایا تھا کہ میں دودھ بیچتا تھا تو کہتے ہیں کہ اخیر میں وہ دودھ زرد رنگ کا ہوگیا، یعنی پیچھے کچھ رہ گیا ناں تو میں نے کہا یہ زرد کیوں؟ تو آخر جب نیچے تک گیا تو اس میں ایک سانپ مرا ہوا پڑا تھا۔ میں نے کہا کہ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ یہ تو بہت مصیبت ہوگئی، پتا نہیں میرے گاہکوں کے ساتھ کیا ہوچکا ہوگا۔ بہت ڈر گیا تھا کہ مجھے بھاگنا ہوگا یا کیا کروں؟ ہاں جی! اسی سوچ میں تھا، صبح کے وقت میرا پہلا گاہک آگیا جو مستقل گاہک تھا، تو بشاشت کے ساتھ ملا، میں نے کہا بھائی! وہ دودھ کل والا پیا تھا؟ کہتے ہاں۔ کیا کیسا محسوس کیا؟ کہتے بڑے مزے کی نیند آئی تھی۔ ہاں جی! میں نے کہا چلو جی کام بن گیا، کچھ نہیں ہوا۔ تو اس کو میں نے بتایا کہ یہ تو اس قسم کی چیز، کہتے ہیں سننا ہی تھا کہ وہ گر پڑا اور مر گیا۔ اور بعد میں جب پتا چلا تو کہتے ہیں post-mortem وغیرہ کہ سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے مرا ہے۔ ہاں جی! اب دیکھ لیں، اس کی body نے اس کو ختم کردیا تھا، مطلب یعنی کہ وہ زہر کو یعنی وہ کرلیا تھا، ختم کردیا تھا کہ بس کچھ نہیں ہوگا، لیکن جیسے ہی وہ اس نے سن لیا تو بس وہ اس کی immunity بیٹھ گئی اور زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔ تو اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، یہ بڑی strong چیزیں ہیں ہمارے پاس، تو اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں جی! تو اس وجہ سے جو ہے مطلب ہے کہ ہم لوگ بلاوجہ وہم نہ کریں۔ تو ہمیں جو فرمایا گیا ہے، یہ اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہم نہ کریں۔ ورنہ یہ ہے کہ پھر خواہ مخواہ نقصان ہوگا۔
دوسری بات، یہ جو فلاں چیز منحوس ہے، فلاں چیز منحوس ہے، فلاں چیز منحوس ہے، یہ دیکھیں! میں نے عرض کیا کہ اسلام کے اندر نیک شگون ہے، برا شگون نہیں ہے۔ آپ کسی کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ماشاء اللہ! اس کا آنا مبارک، ہاں جی! یہ ٹھیک ہے، ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ تیرا آنا منحوس۔ نہیں، کسی کے لئے آپ منحوس کا لفظ نہیں استعمال کرسکتے۔ بھئی! منافق نہیں کہہ سکتے ہو کسی کو جب تک آپ کو یقینی طور پہ معلوم نہ ہوجائے۔ یقینی طور پر کیسے معلوم ہوگا؟ ہاں جی! یقینی طور پر تو معلوم نہیں ہوسکتا، تو منافق بھی نہیں کہہ سکتے، تو منحوس کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو یہ بات ہے کہ یہ اپنی طرف سے بدشگونی لینا اور بہت سارے عاملوں نے لڑائیاں لوگوں میں کروائی ہیں کہ وہ ان کے پاس جاتی ہیں عورتیں، کہتے ہیں جی آپ کے فلاں بہت قریبی، اس کا نام ’’ف‘‘ سے شروع ہوتا ہے، اور جو ہے ناں اس طرح بہت قریبی، بس چلو جی، اس کا نام جس کا ’’ف‘‘ سے شروع ہوتا ہو، ان کے ساتھ ان کی پکی لڑائی شروع ہوگئی۔ ہاں جی! مزید تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ بہت تباہیاں ہیں، مطلب جو ہے ناں وہ جو لوگ کرجاتے ہیں۔ اپنی حفاظت کرو، اس میں کوئی شک نہیں، میں نہیں کہتا حفاظت نہ کرو، حفاظت تو ایک general چیز ہوتی ہے ناں، لیکن آپ اپنے اندازوں سے تو کسی کو نہیں کہہ سکتے ہیں، بغیر کسی تحقیق کے، بغیر کسی دلیل کے، آپ کسی کو اپنا وہ تو نہیں کرسکتے۔ تو اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے۔ تو اس لئے کہتے ہیں کہ اچھے گمان کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور برے گمان کے لئے دلیل کی ضرورت ہے۔ تو حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے عجیب نقطہ نکالا ہے، فرمایا دوسروں کے اوپر بدگمانی بالکل نہ کرو، کیونکہ اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ دلیل ہو مثلاً مشاہدہ ہو یا کوئی اس قسم کا، پھر تو کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہ مطلب اندازے سے محض کہہ دو۔ لیکن اپنی برائیاں تو آپ کے پاس دلیل موجود ہے، پورا سامنے آپ کو، مثلاً آپ نے جھوٹ بولا، آپ کو پتا ہے کہ جھوٹ بولا ہے، آپ نے دھوکہ کیا تو پتا ہے کہ میں نے دھوکہ کیا ہے، ہاں جی! یا کوئی اور غلطی کی ہے، نماز نہیں پڑھی تو پتا ہے کہ نماز نہیں پڑھی، تو آپ کو اپنی غلطیوں کا پورا احساس ہے، پتا ہے، تو اس کے بارے میں فکر نہیں کرتے ہو، اور جن کے بارے میں محض گمان ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہو، تو یہ کیا بات ہے؟ تو حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت شیخ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، انہوں نے بڑا عجیب شعر فرمایا ہے، فرمایا: مجھے اپنے شیخ شہاب سے ایک بہت بڑی نصیحت پہنچی ہے اور وہ یہ ہے کہ: ”بر غیر بد بین مباش“ کہ دوسرے کے اوپر بدگمان نہ ہو، ”و بر خود خوش بین مباش“ اور اپنے اوپر نیک گمان نہ رکھو۔ ہاں جی! یہ دو نصیحتیں انہوں نے مجھے فرمائی ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو بدگمانی۔... عورتیں جو ہیں ناں ان کے اندر بدگمانی کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی ہے، الا ماشاء اللہ! کوئی بچ جائے تو بچ جائے۔ گھر اس پہ تباہ ہوئے بدگمانی سے۔ مطلب کوئی کام کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا اور وہ ایسی پکی طرح اپنے ذہن میں ٹھان لیتی ہیں کہ جیسے کہ بس سو فیصد یقین ہے اس کو۔ ہاں جی! حالانکہ اگر آپ باقاعدہ تحقیق پر آجائیں تو پتا کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، بس صرف اپنی سوچ ہوتی ہے۔ ہاں جی! مثلاً کوئی آدمی ہونٹ ایسے ہلائے، آپ نے یہ کہہ دیا؟ کیا پتا بھائی! میں نے کیا کہہ دیا؟ آپ کو کیا پتا؟ میں نے ہونٹ تو ہلائے، تو میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، ممکن ہے قرآن ہی پڑھ رہا ہوں، اور جو ہے ناں کوئی اور بات کررہا ہوں، اور وہ جو ہیں مطلب نہیں، آپ نے یہ کہہ دیا۔ تو اس طرح بدگمانی بالکل نہیں ہونی چاہئے، ہمیں اپنے آپ کو بچانا چاہئے ان چیزوں سے۔ اگر اللہ کے نزدیک ہم پسندیدہ لوگ ہونا چاہتے ہیں، تو ایسے کام نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اللہ پاک اس کو پسند نہیں کرتے۔ ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾5 قرآن شریف میں یہ ہے کہ مطلب جو ہے ناں بعض گمان جو ہوتے ہیں، وہ گناہ ہوتے ہیں۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘
آخری چار شنبہ، یہ لوگوں نے زبردست ایک رسم بنائی ہے۔ یہ رسم ہمارے علاقوں میں بھی ہے، شاید پتا نہیں ادھر ہے یا نہیں ہے، و اللہ اعلم۔ ایک ہمارے علاقوں میں تو باقاعدہ تواتر کے ساتھ وہ چلی آرہی ہے اور وہ کیا ہے کہ آخری بدھ جو صفر کا ہوتا ہے، اس میں وہ ایک خاص طریقے سے روٹی پکاتے ہیں، پھر اس سے چوری بناتے ہیں، ہاں جی! اس میں پھر گھی اور سونف اور میٹھا اور پتا نہیں میوے اور مختلف قسم کی چیزیں ڈال کے ناں، پھر اس کو تقسیم کرتے ہیں لوگوں میں۔ بھئی! چوری بڑی اچھی چیز ہے، میں اس کا منکر نہیں ہوں، مجھے بھی پسند ہے، لیکن اس دن کیوں کرتے ہو؟ اس کے ساتھ ایک رسم کو کیوں associate کرتے ہو؟ کسی اور دن بناؤ ناں، اگر پسند ہے تو بنا لو، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ بات نہ کرو کہ آپ یوں کہہ دو کہ یہ آپ ﷺ کے وقت میں ایسا ہوا تھا، بیمار ہوگئے پھر اس سے صحت یاب ہوگئے، تو بیبیوں نے... کیونکہ آپ ﷺ کی بیبیاں کون سی ہیں؟ اعلیٰ درجے کی صحابیات ہیں، ان پر جھوٹ بناتے ہو، یہ کوئی اچھی بات ہے؟ ہاں جی! جب تک واقعے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک بات نہیں کرنی چاہئے۔ یہ تو تاریخ سے بالکل، حدیث شریف سے بالکل غلط نکلتا ہے کہ آپ ﷺ کی بیماری کب ہوئی تھی اور پھر کیا ہوا تھا، یہ ساری چیزیں موجود ہیں اس میں۔ تو یہ ایک من گھڑت بات ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پہ نہ کرو، خود اگر پسند ہے تو کھاؤ، تم خود بھی کھاؤ، ہمیں بھی پہنچا دو، کوئی بات نہیں، ہم بھی کھا لیں گے، لیکن اس دن بھیجیں گے تو نہیں کھائیں گے، کیونکہ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو ایک رسم ہوگی اور ایک جھوٹ پر مبنی رسم ہے، لہٰذا اس کو کھایا نہیں جاسکتا، مطلب اس کو نہیں کھانا چاہئے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بدفالی شرک ہے، اس کو تین مرتبہ فرمایا، بدفالی شرک ہے۔ بدفالی سے مراد یہ ہے کہ آپ باہر جائیں اور بلی گزر جائے، اوہ ہو، یہ تو کام خراب ہوگیا، ہاں جی! پھر تو میں نہیں جاتا۔ یا کچھ اور اس قسم کی ان لوگوں نے مطلب... یہ نہیں ہوتا۔ یہ مطلب ظاہر ہے، وہ کیا پھڑکنے لگے؟۔۔۔۔ دائیں طرف پھڑکنے لگے، بائیں طرف پھڑکنے لگے، تو اس کے اپنے اپنے انہوں نے وہ بنائے ہوتے ہیں۔ اور پتا نہیں کہ جوتے آمنے سامنے آجائیں تو کیا ہوتا ہے، اور مختلف قسم کی چیزیں لوگوں نے بنائی ہوئی ہیں۔ تو اس میں بالکل بدفالیاں جو ہیں، وہ بالکل نہیں کرنی چاہئیں، اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہئے، صاف ستھرے دین پر رہنا چاہئے۔ ہاں جی! اس میں کچھ بھی مطلب وہ نہیں۔ اور بعض لوگوں نے یہ کیا ہے کہ فلاں مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہئے۔ ہاں جی! تو یہ بھی اپنی طرف سے ان لوگوں نے باتیں بنائی ہیں۔ محرم میں بھی بعض لوگ شادی نہیں کرتے ناں، تو میں نے کہا محرم جن کی وجہ سے آپ لوگوں نے مشہور کیا ہوا ہے، انہوں نے جو کی تھیں، انہوں نے تو انہی دنوں میں کی تھیں، تو کیسے آپ کہتے ہو کہ محرم میں شادی نہیں کرنی چاہئے؟ تو یہ بات ہے کہ لوگوں نے اپنی اپنی طرف سے یہ باتیں بنائی ہوتی ہیں۔ یہ نوحہ کی جو رسم ہے، اس کو تو باقاعدہ منع کیا گیا ہے، آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور باقاعدہ بیعت عورتوں سے لیتے تھے اس پر کہ نوحہ نہیں کرو گی۔ ہاں جی! تو خواہ مخواہ لوگوں نے اپنی طرف سے یہ باتیں بنائی ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کو خیال نہ آتا ہو، لیکن اس کو توکل کے ذریعے سے بھگا دیتا ہے۔ اب دیکھیں! خیال آنا کچھ بھی ہوسکتا ہے، مثلاً دیکھو! کہیں ایسا نہ ہو، کہیں ایسا نہ ہو، یہ خیال ہے۔ توکل یہ ہے جو اللہ کرے گا وہی ہوگا، کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اصل میں ہوتا کیوں ہے اس طرح؟ انسان جو ہے اپنی دنیا کے معاملے میں بڑا حریص ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے بھی فرمایا ناں: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾6 ہرگز نہیں! بلکہ تم جو فوری چیز ہے، اس کو لیتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے، اس کو چھوڑتے ہو۔ اب دنیا کے معاملے میں بڑا حریص ہوتا ہے، تو اس کو اگر کسی طریقے سے پتا چل جائے کہ دنیا کی چیز کس سے خراب ہوسکتی ہے، تو بہت alert ہوجاتا ہے۔ اور میں اکثر ایک بات کرتا ہوں، ٹیسٹ کرو، ایک مکان بن رہا ہو اور اس پہ معمار جو ہے ناں وہ دیوار کو چڑھا رہا ہو، آپ اس مکان کے قریب گزر کے اس طرح اشارہ کریں، یار یہ دیوار تو کچھ ٹیڑھی سی لگ رہی ہے۔ بس پھر دیکھیں! وہ مالک جو ہوگا وہ کہے گا دیوار ٹیڑھی ہے، معمار کہے گا بھئی! ساہول سے ناپ لو، بالکل دیکھ لو۔ اب وہ ساہول استعمال بھی نہیں کرسکے گا، لیکن نہیں یہ ایسا نہیں ہے، اس کے پاس آئے گا، نہیں تم اس کے دوست ہو، اس لئے کہتے ہو۔ ہاں جی! مطلب اس کو یقین نہیں آئے گا، صرف اس بات پہ کہ وہ بہت زیادہ اپنی چیز کے لئے وہ۔۔۔۔ ہے۔ ہاں جی! تو بعد میں آپ اس کو بتا دیں یہ تو میں ویسے کہہ رہا تھا۔ تو یہ مطلب ہے، یہ جو چیز ہوتی ہے، انسان کو معاشرے میں بہت زیادہ وہ پریشان کردیتی ہے۔ تو فرمایا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ خیال ہمیں بھی آتا ہے، لیکن ہم توکل کے زور سے اس کو بھگا دیتے ہیں، پروا نہیں کرتے۔ یاکریم، یاکریم، یاکریم۔
اب اخیر میں جو قرآن پاک کی آیت ہے، فرماتے ہیں، ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ جو رسول اصحابِ قریہ کی طرف بھیجے گئے تھے، انہوں نے کفار سے فرمایا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے۔ کیا نحوست اس کو سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاتی ہے؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ ہوتا یوں تھا کہ جب کوئی نبی آتے ناں تو کچھ لوگ مانتے اور کچھ لوگ نہیں مانتے تھے، اب گھر میں دو آدمیوں نے مان لیا اور چار آدمیوں نے نہیں مانا، اختلاف تو ہوگیا ناں، اب آپس میں ممکن ہے بول چال بند ہوجائے، تکلیفیں شروع ہوجائیں، کچھ اس طرح۔۔۔۔ تو وہ کہتے تم منحوس ہو، تم ہمارے درمیان آگئے تو دیکھو لڑائی جھگڑے ہمارے درمیان شروع کروا دیے۔ تو اس طرح کچھ باتیں تھیں تو قرآن پاک میں ان کی طرف ذکر ہے کہ انہوں نے کفار سے فرمایا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے، یعنی کفر۔ کیونکہ کفر ہی منحوس ہے ناں جو انسان کو تباہ کردیتا ہے بالکل، ہر چیز کو تباہ کردیتا ہے، وہ تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے۔ کیا نحوست اس کو سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاتی ہے؟ یعنی مسلمان ہونے کی نصیحت کی جاتی ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ، بلکہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ تو یہ بات ہے کہ اچھی بات کے لئے روڑے اٹکانا یہی نحوست ہے۔ یہی نحوست ہے۔ جب بھی کوئی خیر آئے اور خیر سے آپ روکنے والے بن جاؤ تو یہی نحوست ہے، ہاں جی! کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنے والے ہو، بجائے اس کے کہ تم اچھی بات کو منحوس کہو۔
تو بہرحال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنا یقین مضبوط کرنا چاہئے اور کبھی اس قسم کی بات نہیں کرنی چاہئے، جس میں ہم لوگ کسی وہم کی وجہ سے شریعتِ مطہرہ کے کسی قانون کو توڑنا شروع کرلیں، چونکہ شریعت جو ہے، یہ کیا چیز ہے؟ یقینی چیز ہے، اس میں وہ نہیں ہے، قرآن بھی یقینی ہے، سنتِ رسول بھی یقینی ہے، اور شریعت انہی پر چلنے کا نام ہے۔ تو لہٰذا شریعت تو یقینی ہے، لیکن وہم جو ہے یہ تو بالکل ظنی ہے، اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہوتا۔ تو اس کے لئے آپ یعنی یقینی چیز کو کیوں چھوڑتے ہو؟ تو ایک تو یہ بات ہے کہ ہم لوگ خود موٹا موٹا علم حاصل کرلیں، تاکہ ہم دوسرے لوگوں کی گمراہ کن جو information ہے، اس سے اپنے آپ کو گمراہ نہ ہونے دیں۔ آج کل یہ سوشل میڈیا ہے، اس میں بعض دفعہ ایسی چیز آجاتی ہے۔۔۔۔ ہم لوگ کم از کم جب بچے تھے، اس وقت بھی ہوا تھا، پھر بعد میں جوانی میں بھی ہوا، پھر بعد میں، مطلب میرے خیال میں کم از کم میری عمر میں تقریباً پانچ چھ دفعہ تو میں نے دیکھا ہے ہوا ہے، اور وہ کیا؟ ایک کاغذ، یعنی وہ لوگ مشہور کرلیتے ہیں، اس میں فلاں مدینہ منورہ میں فلاں کوئی شیخ احمد تھا، انہوں نے کہا کہ بہت سخت عذاب آنے والا ہے اور یہ ہوگا، وہ ہوگا، تو مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اتنی مرتبہ یہ پڑھے، تو اس سے بچ جائے گا اور جس نے اس کو مان لیا، اس کو فلاں دنیا کا فائدہ ہوگیا، جس نے نہیں مانا، اس کو فلاں نقصان ہوگیا، اور جو اس کی اتنی تعداد میں فوٹوکاپی کرکے جو ہے ناں مطلب۔۔۔۔ کرے گا، تو اس کو اتنا فائدہ ہوجائے گا۔ یہ اس قسم کے کاغذ، تو کیا ہوا، ہم دیکھتے تھے کہ بھئی! یہ اس طرح لوگ اس کو چھاپنا شروع کرلیتے۔ اب کیا ہے؟ دنیا کے فائدے کے لئے بغیر تحقیق کے ایک چیز کو پھیلا رہے ہیں۔ شیخ احمد کون ہے؟ کچھ بھی نہیں پتا۔ کس وقت ہوا ہے؟ یہ بھی نہیں پتا۔ کس قسم کا آدمی ہے؟ یہ بھی نہیں پتا۔ ہاں جی! تو اب یہ ہے کہ بغیر سند کے کوئی بات... اس لئے حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے، صاف صاف عرض کرتا ہوں، اگر کوئی بات سنو کسی سے، اس کو اس وقت تک کسی اور کو نہ بتانا جب تک آپ تحقیق نہ کرچکے ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے یا غلط ہے۔ اور تحقیق بھی Solid ground پر ہو، مثلاً کسی عالم سے، کسی صحیح جاننے والے سے آپ تحقیق کرلیں یا کتاب میں باقاعدہ دیکھ لیں، تو پھر تو reference دے کر آپ بات کرسکتے ہیں، لیکن فلاں سے سنا ہے، نہیں، یہ والی بات نہیں، یہ دلیل نہیں ہے۔ تو اس کے بارے میں فرمایا کہ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ جھوٹ ہے، ہاں جی! تو جھوٹ پھیلانے والا ہوگا اور آج کل تو بے تحاشا جھوٹ بولا جارہا ہے۔ باقاعدہ سوشل میڈیا کی فیکٹریاں بنی ہوئی ہیں، جو اپنے مقاصد کے لئے زبردست calculated جھوٹ پھیلاتے ہیں اور جو اس فیکٹری کے ساتھ associated لوگ ہوتے ہیں، وہ بغیر تحقیق کے دھڑا دھڑ اس کو پھیلاتے ہیں، ہاں جی! اور share کراتے ہیں، تو اس کا نقصان بہت زیادہ ہوجاتا ہے، ہاں جی! اس کی وجہ کیا ہے؟ کہ دیکھو! سوشل میڈیا پر جتنے لوگ ہیں، موجود ہیں، مثال کے طور پر ہزاروں ہیں، اور ہیں بھی ہزاروں، اب اگر پانچ سو دفعہ، پانچ سو جگہ سے آپ کو پتا چل گیا کہ یہ ہوگیا، تو چاہے بالکل جھوٹی بات ہو، آپ کا دماغ کہے گا یار یہ تو اتنی دفعہ ہوگیا، تو اس کا مطلب ہے کہ ہے کچھ۔ بھئی دیکھو! یہاں صدر میں شروع ہوجائے تو یہ بورڈ لگے ہوتے ہیں اور اس پر جو advertisement کی جو چیزیں لکھی ہوتی ہیں، بھئی اگر وہ ہزار بورڈ بھی ہوں تو جو لکھنے والا ہے اس پر depend کرتا ہے کہ اس نے کیا لکھا ہے۔ اب اگر جھوٹ ہو تو اگر دو پہ لکھے تو وہ جھوٹ ہوگا اور اگر ہزار پہ لکھو تو جھوٹ ہونا ختم ہوجائے گا؟ وہ تو وہی ہوا ناں جھوٹ، جھوٹ ہی ہوگا۔ تو یہ تو آپ کے اس پر ہے کہ آپ کتنی دفعہ اس کو پھیلاتے ہیں، بات تو ایک ہی ہوتی ہے۔ تو یہ بات ہے کہ criterion نہیں ہے کہ کتنے لوگوں سے آپ نے سنا ہے، یہ کوئی criterion نہیں ہے۔ ہاں! یہ دیکھو کتنی authentic ہے، مطلب یہ ہے کہ source جو ہے ناں اس کا کتنا authentic ہے۔ قرآن سے بات ہے، تو آپ کو آیت کا پتا ہوگا کہ فلاں آیت سے ہے۔ حدیث سے بات ہے تو فلاں کی کون سی کتاب کی، کون سی حدیث شریف ہے، وہ معلوم ہوگا۔ کسی فقیہ کی بات ہے تو فقیہ کا نام معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی طرف سے بس جو۔۔۔۔ اور پھر جو ہے ناں مطلب صرف زیادہ تعداد پر یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ہمارے اقبال صاحب نے کہا تھا ناں، جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔ تو یہاں پر بھی یہ بات ہے کہ اس کو نہیں دیکھتے کہ بات کون سی ہے، صحیح ہے یا غلط ہے، دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگوں سے ہے۔ اکثریت نہیں بھئی، اکثریت والی بات نہیں ہے۔ ہاں جی! مثال کے طور پر یہ سارا پاکستان اس پر متفق ہوجائے، نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِكَ، کبھی اللہ نہ کرے ایسا۔۔۔۔ مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ نمازیں تین ہیں، تو کیا نمازیں تین ہوجائیں گی؟ بے شک سارے لوگ متفق ہوجائیں اور ایک آدمی صرف کہہ دے کہ نہیں ہیں، اس ایک آدمی کی بات مانے گے ہم، کیونکہ اس کی ایک بات۔۔۔۔ ایک آدمی کی بات قرآن اور سنت کے مطابق ہے، باقی قرآن اور سنت کے خلاف ہیں، ہم نہیں مانیں گے اس کی بات۔ ہاں جی!
تو ہم لوگوں کو پکا دیندار ہونا چاہئے، یہ کچا دیندار جو ہوتا ہے ناں، یہ ہواؤں کی طرح اڑتا ہے، ہوا میں مختلف قسم کے فتنے آتے ہیں، اس میں اڑ جاتا ہے۔ اور اگر اپنے یہاں پر کچا ہونے کا گمان ہو ناں، تو کسی پکے کھمبے کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لو۔ یہ کسی وقت میں جو ہے ناں منیٰ میں طوفان آیا تھا، بہت شدید پانی کا سیلاب آیا تھا، تو ایک عورت بچ گئی تھی اس میں، تو بچی اس طرح تھی کہ وہ پانی کے ساتھ بہہ کے جو ہے مطلب ایک کھمبے کے ساتھ لگ گئی، تو اس نے اس کھمبے کو مضبوطی سے پکڑ لیا، اس کو چھوڑا نہیں، بس وہ ظاہر ہے مطلب کھمبا جب تک رہا تو وہ عورت بھی رہی، اور اس وجہ سے بچ گئی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ پھر اپنے آپ کو کسی مضبوط کھونٹے کے ساتھ باندھ لو، جو صحیح ہو۔ اور ہرگز مطلب جو ہے ناں اس قسم کی بات کوئی کسی اور کی بات کو جو ہے نہ سنے، جو ادھر ادھر والی باتیں کررہے ہیں۔ نہیں بھئی بس ٹھیک ہے جی، ہم تو ادھر ہیں۔ مطلب جو صحیح قرآن اور سنت والے لوگ ہوں، ان کے ساتھ اپنے آپ کو مضبوطی سے باندھ لو، اور ادھر ادھر کی باتیں نہ سنو۔ ورنہ پھر کیا ہے؟ اس وقت دورِ فتن ہے، دورِ فتن ہے۔ اس فتنے کے دور میں information کا سیلاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوگ کچھ سے کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ہمارے پشتو میں کہتے ہیں کہ: ”چې رښتیا راځي، نو دروغو کلي وران کړي وي“ (جب سچ آتا ہے تو جھوٹ نے گاؤں کے گاؤں تباہ کیے ہوتے ہیں) اور یہ بات بالکل سچ ہے۔ اور قرآن پاک میں بھی ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی خبر لے کے آئے تو تحقیق کرلو۔ کون سی آیت ہے! یاد ہے؟ مطلب جو ہے ناں وہ، مطلب یہ نہ کرو، مطلب جو ہے ناں وہ اس پہ عمل، پہلے تحقیق کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر تم پشیمان ہوجاؤ کہ یہ کیا ہم نے کرلیا۔ اور یہ واقعتاً ایسا ہوتا ہے، بڑی بڑی لڑائیاں اس وجہ سے ہوئی ہیں، بڑی بڑی لڑائیاں ہوئی ہیں کہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ فلاں نے فلاں پہ حملہ کردیا، اب انہوں نے جواب دے دیا، بس لڑائی چھڑ گئی۔ ہاں جی! اس طرح ہوا ہے۔ تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ اس میں بڑی پکی بات ہونی چاہئے۔ ہمارا یہ ہوتا ہے کہ فلاں ہمارا دشمن ہے، اب اس کی وجہ سے کوئی بات آجائے تو ہم بغیر آنکھیں بند، بغیر تحقیق کے آنکھیں بند کرکے مان لیتے ہیں، چونکہ دشمن کے لئے... نہیں بھائی دشمن بھی ہو، دوست بھی ہو، جو بھی ہو، اصل تو تحقیق ہونی چاہئے ناں کہ ہم یہ بات کیسی ہے۔ ہاں جی! اس کی بات کرو۔
تو بہرحال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہئے، یہ دورِ فتن ہے، اس دورِ فتن میں اپنے آپ کو بڑا ہوشیار رکھنا چاہئے، ورنہ پھر ہوشیاروں کا ساتھ ہونا چاہئے۔ ہاں جی! دو ہی باتیں ہیں ناں؟ قرآن پاک میں بھی ہے ناں: ﴿إِنَّ فِيْ ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ﴾7 مطلب یا تو تم خود مطلب جو ہے ناں وہ بینا ہو، اور یا پھر یہ والی بات ہے کہ بینا والوں کے ساتھ ہو، کم از کم اس کی بات تو اچھی طرح سنتے ہوں۔ ورنہ پھر کیا ہوتا ہے؟ خواہ مخواہ بس ہوا میں اڑتے رہو گے۔ کوئی اس طرف کرے، کوئی اس طرف کرے، کوئی اس طرف کرے گا۔ ہاں جی! تو ہم لوگوں کو بہت Standard grounds پر جو ہے ناں وہ اپنی زندگی کو base کرنا چاہئے۔ کبھی بھی کسی کمزور بات پر ہم لوگوں کو کوئی تحریک نہیں چلانی چاہئے، نہ کوئی کام کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ہمیں بڑے Solid ground چاہئیں، اور آج کل کے دور میں تو یہ بہت ضروری ہے۔ دجال کا دور بھی شاید قریب ہی ہو واللہ اعلم بالصواب، اور اگر وہ ہے تو پھر امام مہدی علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے۔ تو ایسے وقت میں دجال کے پاس disinformation کے زبردست ذرائع ہوں گے۔ disinformation، آج کل سب سے بڑا tool ہی یہی ہے ناں، disinformation، اس کے پاس زبردست ذرائع ہوں گے۔ تو لوگ ان کی باتوں پہ یقین کرنا شروع کرلیں گے اور ان کی طرف دوڑنے لگیں گے، حالانکہ اس کے ماتھے پہ کافر لکھا ہوگا، لیکن اس کے لئے لوگ تاویل کرلیں گے، تاویلیں کرلیں گے۔ ہاں جی! تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا شکار ہوجائیں گے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو اپنی بنیاد مضبوط بنانی چاہئے اور بار بار اور’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ یہ آج کل کثرت کرنی چاہئے، کیونکہ واقعی اللہ ہی بچا سکتا ہے، اللہ ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے، اللہ پاک کے یعنی کرم کے دامن میں پناہ لینا چاہئے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔
نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔ (العنکبوت: 69)
’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔(الفاتحہ: 5-7)
’’(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بےانتہا بخشش کی خوگر ہے‘‘۔ (آل عمران: 8)
’’یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔ (ق: 37)
(الحجرات: 12)
(القیامۃ: 20-21)