اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات آج الحمد للہ مدینہ منورہ سے یہ بیان نشر ہو رہا ہے اور یہ ہمارا آخری ایام میں سے ہے، کیونکہ کل ان شاء اللہ یہاں سے روانگی ہے۔ اس وجہ سے ایک کیفیت تو یقیناً ہے اس میں جدائی کی۔ کیونکہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ ایسی جگہیں ہیں کہ جن کو جتنا پتا ہے، اتنا attach ہیں، تو یہاں سے جانے کو یقیناً کسی کا جی نہیں چاہتا، لیکن شریعتِ مطہرہ کے مطابق جو جو کام جس کے حوالے ہوتے ہیں، ان کو کرنا ہوتا ہے، تو جانا بھی پڑتا ہے۔ البتہ تعلق قلبی اس کے ساتھ بدستور رکھنا ضروری ہے۔ تو الحمد للہ! اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے یہاں تھوڑا سا وقت عطا فرما دیا اور اللہ جل شانہٗ نے یہاں مقامات کی زیارت سے ہمیں سیراب فرما دیا۔ اللہ کرے کہ قبول ہو جائے اور بار بار اللہ پاک یہاں پر لائیں۔ ایک اور بات جو کہ ابھی زیرِ نظر ہے، وہ یہ ہے کہ محرم کا مہینہ ہے، لہٰذا محرم کے مہینے میں کچھ واقعات بھی ہوئے ہیں، ان کا تذکرہ بھی مفید ہوتا ہے اور کچھ اس کے فضائل ہیں، وہ بھی بتانے چاہئیں۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہے، تو اس میں محرم کے مہینے میں روزے رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے، یعنی رمضان کے بعد ان کے روزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ بالخصوص! عاشورہ کے روزے کی جس میں دو رزوے لوگ رکھتے ہیں ثواب کی نیت سے۔ ایک تو عاشورہ کا اور ایک یہود کی مشابہت سے نکلنے کے لئے۔ کیونکہ عاشورہ کی جو فضیلت ہے وہ مختلف حالات سے ہے، بہت سارے واقعات ہیں جو کہ ہوئے ہیں۔ فرعون سے نجات جو ہوئی تھی موسیٰ علیہ السلام کی اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی، یہ بھی عاشورہ کے دن ہوئی تھی۔ لہٰذا یہود بھی یہ روزہ رکھتے تھے اور مسلمانوں کے ہاں بھی تھا۔ تو جب آپ ﷺ نے ان کو دیکھا، تو ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کس لئے یہ روزہ رکھتے ہیں؟ انہوں نے یہی کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو نجات ملی تھی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں تو ہم بھی یہ روزہ رکھتے ہیں۔ تو صحابہ کرام کے ذہن میں یہ اشکال تھا کہ چونکہ یہود روزہ رکھتے ہیں، تو کہیں مشابہت والی بات نہ ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اگلے سال زندہ رہا، تو ہم دو روزے رکھیں گے، یا تو نو اور دس کا یا دس اور گیارہ کا۔ تاکہ مشابہت سے نکل جائیں اور عاشورہ کے روزے سے بھی محروم نہ ہوں۔ اس سے پتا چلا کہ عاشورہ کا روزہ کتنا محترم ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مشابہت سے بچنا کتنا ضروری ہے۔ یعنی یہ چیز ہمیں گویا کہ عملاً سامنے ملتی ہے اس میں۔ تو مشابہت سے بچنے کے لئے دو روزے رکھنے چاہئیں، چاہے نو اور دس چاہے دس اور گیارہ کے۔ اب چونکہ یہ دن گزر گئے ہیں، تو اس کے بارے میں تو بات کرنا صرف حسرت بڑھانا ہی ہوگا۔ البتہ اگلے سال، اس کے بارے میں لوگ سن لیں اور سمجھ لیں۔ تو ایک تو اس میں عاشورہ کا روزہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات بھی اسی میں ہوئی ہے یکم محرم کو۔ لہٰذا اس کے بارے میں بھی جاننا چاہئے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور کتنا اہم دور تھا مسلمانوں کا۔ یہاں تک کہ بعض غیر مسلموں نے کہا کہ اگر عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کچھ سال اور جیتے، تو کفار میں کوئی نہ رہتا۔ یعنی اتنا انصاف اور اتنی ما شاء اللہ دور اندیشی تھی اور ایسا عقل کا صحیح استعمال کہ انسان عش عش کر اٹھے۔ یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور تھا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگالیں کہ کھانا کھلا رہے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، تو ایک صحابی بائیں ہاتھ سے کھا رہے تھے، ان سے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ پھر کچھ دیر بعد نظر آئے کہ پھر بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ میں نے کہا نہیں تھا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس طرح جب دو تین دفعہ ہوگیا، تو انہوں نے کہا کہ حضرت میرا دایاں ہاتھ نہیں ہے، شہید ہوگیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے کہ میں نے آپ کو تکلیف دی، اور آپ کا ناڑا کون باندھے گا، آپ کا یہ کام کون کرے گا اور یہ کام کون کرے گا؟ گویا رقیق القلب اتنے تھے۔ لیکن administratively strong اتنے تھے کہ سب لوگ ان سے ڈرتے تھے۔ ان کے بارے میں مختصر تعارف جو ایک صحابی رسول ﷺ نے قیصر کے دربار میں پیش کیا تھا، پوچھا گیا کہ عمر کیسے ہیں؟ فرمایا: ’’لَا یَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ص 17) کہ نہ دھوکہ دیتا ہے، نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ تو قیصر نے کہا کہ ’’لَا یَخْدَعُ‘‘ تو اس کے دیانتدار اور ایماندار ہونے کی علامت ہے اور ’’لَا یُخْدَعُ‘‘ اس کے عقلمند ہونے کی علامت ہے کہ اس کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ تو بات بالکل ایسے ہی ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ان کی اتباع نصیب فرمائے۔ دوسری بات جو اس میں جو تلخ واقعہ ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے واقعات سے بچائے۔ وہ واقعۂ کربلا ہے۔ تاریخ میں اس کو مختلف رنگ سے پیش کیا گیا ہے، لیکن ہمیں تاریخی نقطۂ نظر سے اس کو نہیں دیکھنا، بلکہ آثارِ صحابہ کی روشنی میں (دیکھنا ہے کہ) جو اسماء الرجال کی چھلنی سے گزر کر آتے ہیں، پھر پتا چلتا ہے کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ البدایہ والنہایہ اور دوسری کتابوں میں سند کے ساتھ جو واقعات ہیں، ان میں ایک تو ایسا بھی نہیں ہے کہ جیسے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں، یہ تو ویسے ہی لوگوں نے گھڑ لیا ہے۔ یہ واقعہ ہوا ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکْ صحابہ نے اہلِ بیت پہ ظلم کیا ہو، یا کسی اور نے۔ نہیں ایسی بات بھی نہیں ہے۔ صحابہ تو اہلِ بیت کے عاشق تھے، تو ایسی بھی بات نہیں ہے۔ تو اس میں افراط تفریط بہت پائی جاتی ہے، تو اس وجہ سے اس افراط تفریط کی وجہ سے دو بڑے گروہ پیدا ہو گئے۔ ایک ناصبی جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہلِ بیت کے مخالف تھے اور ایک اہلِ تشیع جو عام صحابہ کے خلاف ہیں۔ یہ دونوں حق سے ہٹ گئے ہیں۔ کیونکہ حق یہ ہے کہ عام صحابہ اور اہل بیت اور امہات المومنین؛ یہ سب ہمارے لئے ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے جو فضائل ہیں وہ آپ ﷺ کی زبانِ اطہر سے ما شاء اللہ ہم تک پہنچے ہیں۔ اس وجہ سے اہل بیت کے بارے میں جاننا ہو، تو آپ ﷺ کی وہ احادیث شریفہ پڑھیں، جو اہلِ بیت کے بارے میں ہیں۔ اگر عام صحابہ کے بارے میں جاننا ہو، تو ان کے بارے میں وہ احادیث شریفہ سنیں جو ان کے بارے میں ہیں۔ اور اگر امہات المؤمنین کے بارے میں جاننا ہو تو پھر ان کے بارے میں آپ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا ہے، اس کو سننا ہے، بجائے اس کے کہ ہم کوئی جذباتی طور پر ایک غلط فیصلے کا شکار ہو جائیں۔ مثلاً: مجھے اہلِ بیت کے ساتھ محبت ہے، تو اس کی وجہ سے صحابہ سے بدگمان نہ ہو جاؤں۔ اور صحابہ سے محبت ہے، تو اہلِ بیت سے بدگمان نہ ہو جاؤں۔ تو بات یہ ہے کہ ہمیں حق ڈھونڈنا پڑے گا، حق کو لینا پڑے گا۔ تو اس کے بارے میں لوگ مختلف جو آراء پیش کرتے ہیں تو جو آراء نواصب کی ہیں یا اہلِ تشیع کی ہیں، وہ تو biased ہیں، مطلب وہ حق پر مبنی نہیں ہیں۔ لیکن جو آراء اہلِ سنت والجماعت کے اکابرین کی ہیں، (آج کل کے دور کی بات میں نہیں کررہا ہوں) اہلِ سنت والجماعت کے اسلاف اور اکابرین، انہوں نے جو باتیں اس کے بارے میں فرمائی ہیں، وہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ہمیں ان سے ان چیزوں کو جاننا پڑے گا۔ ان میں جو قریب ترین ہیں، وہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، مکتوباتِ شریفہ میں وہ اہل بیت کا جیسے ذکر اور صحابہ کرام کا جیسے ذکر کرتے ہیں، خلفاء راشدین کا جیسے ذکر کرتے ہیں، اس سے ما شاء اللہ! اہلِ سنت کا موقف بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ اس لئے مجبوراً مجھے یہ کتاب لکھنی پڑی، چھوٹی سی کتاب ہے، لکھنے کی بڑی عجیب وجہ ہے سبحان اللہ، میری بیٹی ایک مدرسہ میں پڑھ رہی تھی۔ ان کے جو قاری صاحب تھے وہ شاید ناصبی نظریات سے متاثر ہو گئے تھے۔ تو عاشورہ کے دنوں کے آس پاس کسی وقت اس نے بیان کیا اپنی طالبات میں اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغی اور یزید کو حق پر قرار دیا۔ یہ ان کی استانیوں کے لئے بھی ایک عجیب بات تھی اور طالبات کے لئے بھی تھی۔ میری بیٹی بڑی حیرت سے آئی اور مجھے کہا کہ ابو! کیا یہ ٹھیک ہے؟ کیونکہ عام طور پہ تو یہ باتیں سنائی نہیں جاتیں۔ میں نے کہا کہ بیٹی! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت میرے پاس ایک رسالہ موجود تھا، بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث مولانا عبد الرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا ’’شہیدِ کربلا پر تبرا‘‘۔ انتہائی مستند شیخ الحدیث تھے۔ انہوں نے انتہائی مستند انداز میں یہ چیزیں بیان کیں۔ اس میں references تھے، وہ references میرے کام کے ہو گئے۔ کیونکہ لکھ تو کوئی بھی سکتا ہے۔ ان دنوں میرے پاس سی ڈی آئی تھی ہزار کتابوں کی، تو میں نے وہ سی ڈی کمپیوٹر پہ لگائی اور میں نے کہا کہ بیٹی! اس رسالے کا فلاں متن پڑھو، مطلب جو حوالے دیئے ہوئے تھے۔ وہ جو پڑھتی تو میں اس پہ لکھ لیتا۔ اور وہ ما شاء اللہ پوری تفصیل تھی کہ فلاں کتاب ہے، فلاں کتاب ہے اور فلاں کتاب ہے۔ اس میں اکابرین کی کتابوں کی لسٹ آ گئی، اس میں متن آ گئے، ساری تفصیلات آ گئیں۔ میں نے کہا کہ بیٹی! یہ میں اس لئے کر رہا ہوں کہ تجھے پتا چل جائے کہ یہ میں اپنے آپ سے نہیں کہہ رہا اور یہ کتاب بھی صحیح کہہ رہی ہے۔ کئی جگہ سے میں نے (یہ سارا کچھ لیا) تو وہ نوٹس لیتی رہی۔ اگلے دن وہ گئی، اچھا! قاری صاحب نے بھڑک ماری تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ تو انہوں کہا کہ آپ خود تحقیق کریں، یہ تو کتابیں ہیں میرے پاس، آپ خود دیکھ لیں۔ میری بیٹی نے کہا کہ قاری صاحب! میں نے اس پر تحقیق کی ہے، تو میں کچھ سناؤں؟ اس نے کہا کہ بچی نے کیا تحقیق کی ہو گی۔ اس لئے اس نے کہا کہ سناؤ۔ جب وہ references دینے لگی کہ یہ یوں ہے اور یہ یوں ہے۔ بس چند ہی reference دیئے تھے کہ اس نے کہا کہ یزید کون سا ہمارا ماما چاچا ہے، چھوڑو۔ یہ ہوتا ہے سارے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں جب حق آجاتا ہے: ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الإسراء: 81)
ترجمہ: ’’حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے، جو مٹنے والی ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ صرف جہالت سے اس قسم کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تو حق اور ہے۔ اور اہلِ سنت والجماعت کے نظریات اس کے بارے میں کیا ہیں، اس پر میں نے مختصر ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے؛ ’’اہلِ سنت کی نظر میں اہلِ بیت کا مقام‘‘۔ الحمد للہ اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ یہ کتاب چونکہ ہماری ویب سائٹ پہ بھی موجود ہے، تو کسی نے اس کے اقتباس کی تلخیص کی ہے۔ وہ میں یہاں سنا دیتا ہوں۔ کیونکہ کتاب تو پہلے سے موجود ہے، اس پر تلخیص بھی آ گئی ہے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں اس کے بارے میں ایک اچھی بات ہوگی کہ لوگ سن لیں گے۔
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النساء: 80)
یعنی جس نے نبی کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ لہٰذا اب اس کو ماننا لازم ہے۔ اب کوئی نماز پڑھے گا اور حضور ﷺ کے طریقہ پر نہیں ہے، تو وہ نماز رد ہے، وہ نماز ہوگی ہی نہیں۔ تو اس کے لئے ہمیں حدیث شریف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ حدیث شریف کے بغیر قرآن سمجھا نہیں جا سکتا، تو یہ بھی سمجھ میں آنا چاہئے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کے بغیر سنت کی تشریح نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ صحابہ ہی مخاطب تھے اور صحابہ ہی دیکھ رہے تھے۔ تو صحابہ کے بغیر سنت کا کیسے پتا چلے گا؟ دیکھیں کچھ چیزیں آپ ﷺ کے لئے خاص تھیں، آپ ﷺ نے چار سے زیادہ شادیاں کی تھیں۔ آپ ﷺ کا نیند میں وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں صرف آپ ﷺ کے ساتھ خاص تھیں۔ اب ہم دیکھیں کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کی کون سی سنت کو اپنے اوپر لازم کر لیا اور کون سی کو نہیں کیا۔ یہ ہمارے لئے رہنمائی ہے، اس کو بھی ہم لے سکتے ہیں۔ اور چونکہ صحابہ کرام کی حیثیت یہ تھی کہ وہ معیارِ حق تھے۔ اور آپ کو پتا ہے کہ جب بھی کوئی کام ہوتا ہے، تو اس میں بنیاد کی حفاظت کی جاتی ہے کہ کہیں بنیاد متزلزل نہ ہو جائے۔ بنیاد متزلزل ہو جائے گی تو سارا کام متزلزل ہو جائے گا۔ تو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہ کے بارے میں فرمایا: ’’اَللهَ اَللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3862) یعنی اے میرے امتیو! تمہیں میرے صحابہ کے بارے میں خدا کا واسطہ۔ (تو اس انداز سے کہنا کوئی معمولی بات ہے؟) ان کو میرے بعد ملامت کا نشانہ نہ بنانا۔ جو ان کے ساتھ محبت کرتا ہے، وہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ میرے ساتھ محبت کرتا ہے۔ جو ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے، وہ اس لئے دشمنی رکھتا ہے کہ وہ میرے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔ تو آپ ﷺِ نے صحابہ کرام کا سب کچھ اپنے اوپر لے لیا۔ تو جو صحابہ کرامؓ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضور ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ جو حضور ﷺ سے محبت رکھتا ہے، وہ اللہ کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ جو صحابہ کا منکر ہے، جو صحابہ کے ساتھ بغض رکھتا ہے، وہ حضور ﷺِ کے ساتھ بغص رکھتا ہے۔ اور جو حضورﷺِ کے ساتھ بغض رکھتا ہے، وہ اللہ کے ساتھ بغض رکھتا ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی، تو اب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ہمارے لئے معیارِ حق ٹھہرے۔ اب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا دفاع ہم پر لازم ہو گیا۔ اب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے بارے میں اچھی بات کرنا لازم ہو گیا۔ اور صحابہ پر جو نکیر ہے، وہ موقوف ہو گئی۔ صحابیؓ صحابیؓ پر تنقید کر سکتے تھے، لیکن ہم صحابہ پر تنقید نہیں کر سکتے۔ حضرت علی کرَّم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درمیان جو اختلاف تھا، وہ اصولی اختلاف تھا۔ جب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے شاگرد تھے، ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: الحمد اللہ، اللہ پاک نے ہماری تلواروں کو اس مقدس خون سے بچایا ہوا ہے، ہم اپنی زبانوں کو کیوں آلودہ کریں، ہم زبانی بات کرکے اپنے آپ کو کیوں پھنسائیں۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَللهَ اَللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3862)
اب ایک بات سمجھ میں آنی چاہئے کہ جس وقت صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی بات آ جائے، تو اس سے مراد کیا ہے؟ (یہ بات بہت اہم ہے، اس کو نوٹ کرنا چاہئے۔) کیا اِس سے مراد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور باقی صحابہ ہیں؟ کیا اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہیں ہیں؟ کیا ایسی کوئی بات ہے؟ کیا ان کو ہم صحابیت سے نکال دیں گے؟ کیا ہماری اتنی جرأت ہے کہ ہم ان کو صحابیت سے نکال دیں؟ نہیں۔ جب عام طور پر صحابہ کی بات آ جائے، تو ان میں کون کون شامل ہوں گے؟ جواب ملتا ہے کہ ان میں تمام صحابیات بھی شامل ہوں گی، ازواجِ مطہرات بھی شامل ہوں گی۔ اہلِ بیت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ، یہ سارے کے سارے اس میں شامل ہوں گے۔ اور ساتھ باقی سارے کے سارے صحابہ بھی شامل ہوں گے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اس طرح جتنے بھی صحابہ کرام گزرے ہیں، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی، جن کو آپ ﷺِ نے حکمتاً ارشاد فرمایا کہ میرے سامنے نہ بیٹھو، کیونکہ مجھے اپنے چچا حمزہ یاد آجاتے ہیں۔ اس کی تشریح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نَعُوْذُ بِاللہ وحشی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حضور ﷺ کو نفرت تھی، نہیں، یہ بات نہیں تھی۔ نفرت ہوتی، تو دعوت کیوں دیتے۔ آپ کو پتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت وحشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دعوت دی تھی ایمان لانے کی۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عذر کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ میں کیسے مسلمان ہو سکتا ہوں، میں نے تو اتنا بڑا جرم کیا ہے، میں نے آپ کے پیارے چچا کو شہید کیا ہے، میں کیسے مسلمان ہو سکتا ہوں؟ تو ان کے لئے قرآن پاک میں یہ پیاری آیت اتری: ﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر: 35)
ترجمہ: "کہہ دو کہ: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے"۔
یعنی اسلام لانے سے سارے کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں تو حضرت وحشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ آپ ﷺ کو بغض نہیں تھا، تو پھر وجہ کیا تھی کہ ان کو سامنے آنے سے روک دیا تھا؟ وجہ یہ تھی کہ ان کو دیکھ کر آپ ﷺ کو اپنے چچا یاد آجاتے تھے، نتیجتاً آپ ﷺِکے دل کو تکلیف ہوتی تھی اور جس کی وجہ سے نبی کو تکلیف ہو جائے، اس کو طبعاً نقصان ہوتا ہے۔ اور آپ ﷺ ان کو نقصان سے بچانا چاہتے تھے کہ جب مجھے اپنا چچا یاد آئیں گے تو ان کو نقصان ہو گا۔ اب چونکہ یہ مسلمان ہے، اس کو نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ لہٰذا ان کو سامنے آنے سے روک دیا۔ تو یہ شفقت فرمائی۔ تو جس شخص نے اپنی آنکھوں سے اس نورانی چہرے کی زیارت کی ہے۔ یا اپنے کانوں سے وہ محبوب آواز سنی ہے، تو اب وہ صحابی ہے، اس سے صحابیت کوئی نہیں چھین سکتا۔ جب تک وہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکْ مرتد نہ ہو جائے۔ اگر وہ مرتد ہونے سے بچے ہوئے ہیں، تو اب ان سے صحابیت کوئی نہیں چھین سکتا۔ چاہے وہ ازواج مطہرات ہیں، چاہے وہ عام صحابیات ہیں، چاہے وہ اہلِ بیت ہیں، چاہے وہ عام صحابہ کرام ہیں۔ سب کے سب ما شاء اللہ محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے لئے ﴿رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْ عَنْہُ﴾ کی سند موجود ہے۔ لہٰذا جب اللہ پاک نے ان کو معاف کر دیا، آپ ﷺ نے ان کو معاف کر دیا، تو اس کے بعد اور کون ہے، جو ان کے ساتھ حساب کرے۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، مثلاً: میرے کسی کے ذمہ دو کروڑ روپے ہیں اور میں کسی دن موڈ میں آ کر اس کو کہتا ہوں کہ چلو جی، میں نے وہ دو کروڑ روپے معاف کر دیئے۔ اور ساتھ میں اس کو دو لاکھ روپے اور بھی دے دیتا ہوں۔ اب اس کا کوئی دشمن میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ نے اس کے دو کروڑ روپے کیوں معاف کر دیئے، اور آپ نے مزید بھی دے دیئے۔ کیوں؟ تو کیا وہ مجھ سے ایسی بات کر سکتا ہے؟ میں اس سے کہوں گا کہ تمہیں کیا ہے؟ بھائی! پیسے میرے ہیں اور درد تمہارے پیٹ میں ہے، تم کہاں سے آ گئے ہو۔ کسی نے کہا ہے کہ میاں بیوی راضی، تو کیا کرے گا قاضی۔ جب اللہ جل شانہٗ راضی ہیں، جب اللہ جل شانہٗ معاف کرنے والے ہیں، جب اللہ جل شانہٗ دینے والے ہیں، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے۔ بہر حال! ہم لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سارے صحابی ہیں، ان کی محبت دل میں ہونی چاہئے، اور ان میں عام صحابہ بھی ہیں، اہل بیت بھی ہیں اور امہات المؤمنین بھی ہیں۔ اب دیکھیں! درجے کے لحاظ سے سب سے افضل ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں، پھر باقی صحابہ حسبِ درجہ ہیں۔ اب اگر ہم کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو صرف یہ تین افضل ہیں، باقی سب سے وہ افضل ہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک میری سوچ ہے افضلیت اور غیر افضلیت کی، اور ایک صحابہ کرام کی۔ تو صحابہ کرام کا جس پر اجماع ہو چکا ہے یعنی ان چاروں پر۔ تو اس کے بعد کیا بات رہ گئی۔ اور اگر اختلاف ہو گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کے لئے تھا دونوں طرف سے۔ اس کے لئے بھی ما شاء اللہ نظریں موجود ہیں۔
بہر حال! ہم اہلِ سنت والجماعت کے مطابق یہ چار اسی ترتیب سے ہیں یعنی ان کی فضلیت۔ پھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو کون سا مقام دیا تھا۔ (آپ ﷺ) جب تشریف لے جاتے، تو سب سے اخیر میں ان سے ملتے۔ جب واپس آتے، تو سب سے پہلے ان سے ملتے۔ جب وہ تشریف لاتیں، تو آپ ﷺ اٹھتے اور ان کے لئے چادر بچھاتے، ان کو اس پر بٹھاتے۔ اور اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آپ ﷺ تشریف لے جاتے، تو وہ اٹھتیں اور آپ ﷺ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ تو یہ سلسلہ تھا ان کی محبت کا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ہماری ماں ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو مقام فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وقت میں تھا، جس وقت وہ فوت ہو گئیں، تو ان کا وہ مقام نہیں رہا۔ تو اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام نہیں گرتا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اس لئے نہیں گرتا کہ وہ چوتھے نمبر تو ہیں ہی، وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہاں البتہ اس سے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مقام کا پتا لگتا ہے کہ صحابہ کرام کو ان سے بڑا تعلق تھا۔ لوگوں نے خواہ مخواہ کی باتیں بنائی ہیں۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فدک کا واقعہ کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھین لی تھی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظلم کیا تھا۔ کیسے عجیب بیوقوف لوگ ہیں، بھئی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی امہات المؤمنین میں سے تھیں، کیا ان کا میراث میں حق نہیں تھا۔ تو انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی بیٹی کو نہیں دیا۔ پھر جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا، تو انہوں نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیا یعنی ان کے ورثا کو نہیں دیا۔ تو اصل بات کیا ہے؟ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کی ایک بات بنائی ہوئی ہے لوگوں نے۔ اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ آپ ﷺ بھی نبی آخر الزمان تھے اور تمام انبیاء کی یہ بات ہے کہ انبیاء کی میراث مال و دولت نہیں ہوتی، وہ امت پہ صدقہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی باتیں نہیں تھیں۔
خیر میں یہ عرض کروں گا کہ ایک تو لوگوں نے خواہ مخواہ کی باتیں بنائی ہیں صحابہ کرام کی مخالفت میں۔ دوسری طرف اہلِ بیت کی محبت میں لوگوں نے جھوٹی باتیں بنائی ہیں یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں۔ اور کچھ لوگوں نے صحابہ کی محبت میں اہلِ بیت کی مخالفت میں باتیں کی ہیں۔ یہ سب غلط باتیں ہے۔ ہم ان حضرات کو جمع کرتے ہیں، وہ ان میں تفرقہ ڈالتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید جیسے ہم ہیں، اس طرح صحابہ بھی آپس میں ایسے ہی تھے، اس وجہ سے اختلاف کرتے تھے، ان کو کچھ پیسوں سے اور مال و دولت سے غرض تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ بہرحال! میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ افراط تفریط کی باتیں ہیں۔ اہلِ سنت والجماعت کی تحقیق کے مطابق کربلا کا واقعہ ہوا ہے اور یہ انتہائی عبرت ناک، حسرت ناک اور ظالمانہ واقعہ ہے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ یزید کو فاسق صرف اس وجہ سے نہیں کہا گیا کہ یہ کام اس سے ہوا ہے یعنی کربلا کا واقعہ۔ بلکہ دو اور بڑے واقعات ہوئے ہیں، ایک تو اس نے مدینہ منورہ کو مباح کر دیا تھا فوج کے لئے، جس کی وجہ سے (اللہ تعالیٰ بچائے، نام زبان پر بھی نہیں آتا) کئی صحابہ کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی اور مسجد میں گھوڑے باندھے گئے۔ اس طرح اور بہت سارے واقعات ہوئے ہیں۔ جیسے واقعۂ حرّہ ہے، جو اس کے شہداء تھے، اس میں کئی لوگ شہید ہوئے تھے۔ یہ بھی یزید کی وجہ سے ہوا۔ اور خانہ کعبہ پہ سنگ باری کی، یہ بھی یزید کی وجہ سے ہوا۔ جب وہ سنگ باری کر رہے تھے تو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغام بھیجا کہ فلاں لشکر کے لوگو! جاؤ، تمہارا امیر مرگیا ہے۔ اسی وقت یزید مر گیا تھا ڈھائی سال کی حکومت کر کے، ڈھائی سال میں کیا کمایا؟ لیکن اپنے لئے اتنی مصیبت۔ لیکن یزید کی حرکات کی وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہم تنقید نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ صحابی ہیں۔ یہی بات ہے کہ ہم لوگوں کو اس میں درمیان اعتدال والا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ کربلا کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں ایک مقدر تھا، امت کا امتحان تھا۔ کیونکہ اس میں صحابہ کرام نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روکا تھا کہ آپ نہ جائیں اور اگر جاتے بھی ہیں تو اپنی عورتوں کو ساتھ نہ لے جائیں۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے، وہ نہ میں نے کسی کو بتایا ہے، نہ کسی کو بتاؤں گا۔ بس ایک مقدر ہوتا ہے، ایک چیز کو ہونا ہوتا ہے، لوگوں کے سامنے ایک مثال آنی ہوتی ہے۔ تو اس طریقے سے مثال آ گئی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ؛ یہ دونوں ما شاء اللہ وہ حضرات ہیں کہ ان کے بارے میں آپ ﷺ نے بڑی بڑی باتیں فرمائی ہیں۔ ’’میں حسین سے ہوں، حسین مجھ سے ہیں‘‘۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ما شاء اللہ (فضیلتوں کے مالک ہیں) اس پر میں نے کچھ کلام بھی کہا ہے، وہ میں سنا دیتا ہوں۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے کچھ حقائق آپ کے سامنے آئیں گے۔
کلام حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم۔
اہل بیت کا مقام
مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
جو سمجھے کوئی دل میں شانِ رسول
ہو محبوب خاندانِ رسول
ذرہ پڑھ تو لینا فرمانِ رسول
ہے قرآن کے ساتھ عترتی اس میں
جو لائق اتباع کے سارے ہیں یہ
خواتینِ جنت کی ہیں سیدہ
جگر گوشہ آقا کی ہیں فاطمہ
مثالی رہی ہے یوں ان کی حیا
مثالی رہے ہیں یہ سب اہلِ بیت
نہیں غیر کے ہیں ہمارے ہیں یہ
مقام اہلِ بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
شجاعت علی کی رہی ہے مثالی
جو ہے بابِ علم مقام ان کا عالی
سلاسل کے باب مقدس کے مالی
یہ گلشن نبی کے ہیں پھول اس کے جو
حق پہ سب ان کے پیارے ہیں یہ
مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
وہ سردار امت نام ان کا حسن
فہیم امت تھے بچایا چمن
تھے امت کے جوڑ کی امید کی کرن
یہ آقا کی گود میں پلے اور بڑھے ہیں
اور آقا کے سچ مچ دلارے ہیں یہ
مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
وہ شیر متقی وہ حسین ہو نڈر
کہ حق کے لئے پیش کیا جسم و سر
جب آوازِ حق اس پہ تھی منحصر
رقم اپنے خون سے کی داستانِ حق
عجب فکرِ حق کے نظارے ہیں یہ
مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
نبوت ولایت یہاں دیکھ لو
یہ دل کا کچھ اور ہی جہاں دیکھ لو
شبیرؔ ان کی قربانیاں دیکھ لو
تبھی ساتھ ہونے کا فرمایا ہے
کہ دین پر عمل کے سہارے ہیں یہ
مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں
محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ
آگے حضرت فرماتے ہیں: صحابہ کا لفظ اگر اکیلا آئے، تو اس میں امہات المؤمنین، اہل بیت اور باقی سارے صحابہ شامل ہوتے ہیں۔ اب اہلِ سنت والجماعت صحابہ کس کو کہتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں:
ابو بکر صحابی ہے، تو علی بھی صحابی
اور عائشہ صحابیہ تو فاطمہ ہے بھی
اور مائیں اپنی صحابیات ہی تو ہیں
حسنین صحابہ ہیں، یہ ان سے جدا نہیں
رضوان اللہ علیھم اجمعین
سلام اللہ علیہم
یہ تو ما شاء اللہ اہل بیت کے بارے میں ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ اگر اکیلا صحابہ کا لفظ بولا جائے، تو اس میں عام صحابہ بھی شامل ہیں، اہلِ بیت بھی شامل ہیں اور امہات المؤمنین بھی شامل ہیں۔ اس وجہ سے اس چیز کو cover کرنے کے لیے عام صحابہ کی بھی بات ہو چکی ہے یعنی عام صحابہ کے بارے میں کیا ہمارا نظریہ ہونا چاہئے۔ آگے صحابہ کی شان کے بارے میں ہے:
کلام فکر آگہی از: حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکا خیل صاحب دامت برکاتھم
صحابہ کی شان
صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہو چکا ہے
صحابہؓ کا رستہ ہدایت کا معیار
طریقِ نبی ﷺ یعنی سنت کا معیار
حب ان کا نبی ﷺ کی محبت کا معیار
ستارے ہدایت کے ہیں یہ صحابہؓ، مقام ان کا سب پر عیاں ہو چکا ہے
صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہو چکا ہے
یہ حبِ صحابہؓ نہ ہو جن کو حاصل
نہ ہو سکتا ہے وہ کبھی حق کا واصل
یہ حق اور باطل کا ہے ایک فاصل
جو بغضِ صحابہؓ کا داعی بنے تو، جو شر ہے وہ اس میں جواں ہو چکا ہے
صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہو چکا ہے
عقیدہ صحابہؓ کا اصلی عقیدہ
جو ہے مختلف اس سے، ہے سر بریدہ
کہ باقی شنیدہ ہیں اور وہ ہیں دیدہ
جو غیر انبیاء سے ہیں افضل یہ سارے، کہ رب ان پہ یوں مہرباں ہو چکا ہے
صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہو چکا ہے
کبھی بھی صحابہؓ پہ تنقید نہ کرنا
کہ بارے میں ان کے خدا سے ہے ڈرنا
جو ان سے کٹے، ان کا کیسے سنورنا
تباہی کے رستے کھلے وہاں پہ شبیرؔ، ظلم خود پہ ایسا جہاں ہو چکا ہے
صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہو چکا ہے
رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ
جیسے میں نے عرض کیا ہے کہ صحابہ کرام کے لفظ میں تینوں گروہ شامل ہیں: عام صحابہ، اہلِ بیت اور امہات المؤمنین۔ امہات المؤمنین کے بارے میں کیا جذبات ہونے چاہئیں۔ ان کے بغیر ہمارا دین نامکمل ہے۔
حضرت والا کا کلام ہے: امھات المؤمنین کا مقام
میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو، جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے
خدیجہؓ کا جب لب پہ آتا ہے نام
تصور میں میں پیش کر دوں سلام
وہ ایثار و قربانی و احترام
نبی (ﷺ) کے لئے جو ہمیش کرتی تھیں، ذرا سوچے کوئی کہ وہ کس قدر ہے
میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو، جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے
حمیرا لقب عائشہؓ ماں ہماری
اشاعت میں دیں کا حصہ ان کا بھاری
اٹھائی ہے کس شان سے ذمّہ داری
ہے قرآن میں ان کی براءت کا اعلان، جو ظاہر کہ سب پر "کالشمس والقمر"ہے
میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو، جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے
ہمیں ماؤں سے دین کا حصّہ ملا وہ
ہے باقی صحابہؓ سے بالکل چھپا وہ
جو دیں کے لئے تھا ضروری کیا وہ
بغیر اس کے تکمیلِ دین کیا تھا ممکن، یوں احسان ان کا بہت امت پر ہے
میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو، جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے
تو بھیجیں ہم ان پہ شبیرؔ اب سلام
رہے دل میں ان کے لئے احترام
ایصالِ ثواب کا بھی ہو اہتمام
کہ ماؤں کا حق ہے مسلم وہ سمجھے، شرافت کی جس کی کوئی کچھ نظر ہے۔
میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو، جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے۔
جیسا کہ آپ نے یہ سنا عام صحابہ کرام کا، اہلِ بیت کا اور امہات المؤمنین کا، ان کو آپس میں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ اصل میں آپ ﷺ اللہ پاک کی صفتِ ہادی کے مظہر تھے اور آپ ﷺ کے ذریعے سے امت تک ہدایت پہنچی ہے اور یہ پہنچنے کے یہ تین ذرائع تھے۔ عام صحابہ کرام، مثلاً: غار ثور میں آپ ﷺ کے پاس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ ﷺ کا وہ حال صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کر سکتے تھے۔ اسی طرح مختلف مواقع پہ جو عام صحابہ کرام ساتھ تھے، انہوں نے آپ ﷺ کے طریقے کو بیان فرمایا۔ اور اہلِ بیت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا؛ انہوں نے جو آپ ﷺ کو کرتے دیکھا، وہ آگے بیان فرمایا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ہماری ماں تھیں، اور جو ہماری مائیں تھیں، انہوں نے جو دیکھا، وہ انہوں نے بیان کیا۔ چنانچہ ہر ایک نے اپنا اپنا حصہ اس میں ادا کیا۔ پس جنہوں نے تینوں سے لیا، انہوں نے پورا دین لیا۔ جنہوں نے ان میں سے کسی سے لیا اور کسی سے نہیں لیا، تو انہوں نے ناقص دین لیا۔ اور جنہوں نے ان میں سے کسی کی مخالفت کی، تو انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، انہوں نے آپ ﷺ کی نافرمانی کی۔ اس وجہ سے ہمارے اہلِ سنت والجماعت اس سے بہت زیادہ بچتے ہیں، ان میں سے کسی بھی صحابی یا صحابیہ پر تنقید ہم نہ کریں۔ کیونکہ یہ اپنی آخرت کو خراب کرنے والی بات ہے۔
تو ابھی جیسے بات ہوئی ہے کہ ایصالِ ثواب کرنا چاہئے، اس لئے ہم ان تینوں کے لئے ایصالِ ثواب کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھ لیں اور تین دفعہ سورۃ اخلاص، اور پھر اس کے لئے ایصالِ ثواب کر لیتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ