سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 619

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

سیدی وسندی ومولائی حضرت شاہ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ پاک سے دعا ہے اور امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔

حضرت جی! کبھی مراقبہ کرتے ہوئے دل کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے کہ دل اپنی دھڑکن سے اللہ اللہ کررہا ہے۔ پرسوں دورانِ سر میں مراقبہ یاد نہیں رہا، کل مزید طبیعت خراب تھی اور بہت زیادہ گھبراہٹ تھی، یاد آنے پہ مراقبہ کی قضا کی، تو بوجھ ہلکا ہوا۔ پھر کل کا مراقبہ کیا۔ کیا اس طرح مراقبہ کی قضا ہوسکتی ہے؟

جواب:

جی ہاں، اس طرح قضا ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر یاد نہیں رہا، تو سات آٹھ گھنٹے کے بعد بھی اگر ہوگیا، تو اگرچہ بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ اپنے وقت پہ کیا جائے، لیکن بالکل قضا کرنے سے تو یہ بہتر ہوتا ہے۔ البتہ یہ نہ ہو کہ آپ دونوں مراقبے ایک ہی وقت میں کرلیں ، یہ ٹھیک نہیں ہوگا، یعنی ان کو مختلف اوقات میں کرنا ہوگا، البتہ اس کو بالکل قضا نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ جلّ شانہٗ صحت عطا فرمائے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ جزاک اللہُ خیراً، حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو۔

حضرت! ایک سوال جس کا جواب باوجود کثرتِ مطالعہ کے نہیں مل رہا، کہ جس طرح حدیث کی سند ثابت ہے، اسی طرح تصوف میں ایک سلسلہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اور ایک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک چلاتے ہیں، اس کی کیا اصل ہے؟ نیز کیا ان حضرات سے صرف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسبِ فیض کیا یا دوسرے حضرات نے بھی کسبِ فیض کیا؟ اگر دوسرے حضرات نے کیا، تو ان کے نام کیوں نہیں آتے؟

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ یہ صحبت کے سلسلے ہیں اور صحبت کے سلسلے صحبت کے ثبوت سے جاری ہوتے ہیں۔ جن حضرات کی صحبت کا ثبوت ہے، ان کو بیان کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا کہ جس طرح روایت کے سلسلے ہوتے ہیں، اسی طرح صحبت کے سلسلے ہوتے ہیں۔ باقی یہ ہے کہ چار فقہ ہیں، چار فقہ کے ائمہ سے ان کے شاگردوں کے ذریعے سے ان کی فقہ پھیلی، تو وہ ما شاء اللہ ہم تک پہنچ گئی۔ اب کیا صرف اتنے ہی امام تھے؟ ظاہر ہے کہ اتنے امام تو نہیں تھے، امام تو بہت زیادہ تھے، لیکن باقی ائمہ کے علوم ان شاگردوں کے ذریعہ سے آگے پہنچ نہیں سکے، یعنی منقطع ہوگئے اور آگے چل نہیں سکے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ یا دو تین مزید شاگردوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اور اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کے علاوہ باقی اماموں کے سلسلے ہم تک نہیں پہنچے یا ان اماموں کے جو باقی شاگرد تھے، ان کے طریقوں سے نہیں پہنچ سکے۔ پس یہ وقت کی بات ہے، تو جو منقطع ہوجاتے ہیں، ان کو تو record نہیں بھی کیا جاتا، کیوں کہ وہ ہم تک نہیں پہنچے، لہٰذا ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ہیں۔ ہاں! جن کے ذریعہ سے پہنچ گئے، وہ ہمیں معلوم ہیں۔ ہمارے جو سلاسل ہیں، میں شجرہ میں سے آپ کو نام بتاتا ہوں، آپ نوٹ فرما لیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ اور ان سے آگے سلسلہ چلا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عبد الرحمٰن صاحبِ حق کے ذریعے سے سلسلہ چلا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے چلا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کافی حضرات ہیں، صرف ایک نہیں ہے۔ جیسے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، کُمیل بن زیاد نخعی رحمۃ اللہ علیہ، عبد القاسم رحمۃ اللہ علیہ، عبد العذل رحمۃ اللہ علیہ، قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ اتنے تو مختصر نہیں ہیں، جتنا آپ نے کہا ہے، صرف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو کیوں یاد آگئے، ان کے علاوہ اور بھی حضرات ہیں۔ تو بد گمانی نہیں کرنی چاہئے۔ دیکھیں! میں اگر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پہ عمل نہیں کروں، تو پھر کس کے قول پہ عمل کروں؟ اگر وہ ثقہ نہیں ہیں، تو پھر کون ثقہ ہے؟ کیا میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے قول پہ عمل نہ کروں؟ یا کوئی اور بڑے امام جیسے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی بات پہ عمل نہ کروں؟ یہ صرف دوسروں سے متاثر ہونے والی بات ہے۔ ما شاء اللہ! یہ سلاسل موجود ہیں اور سلاسل کے تمام تعارف موجود ہیں، آپ نے شاید ہمارا شجرہ دیکھا نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی!

حبِ باہ: کسی خاتون سے رابطہ نہیں ہوا۔

حبِ مال: اس ماہ باقی ادائیگیوں میں سے کچھ ادائیگی کرنے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ

حبِ جاہ: یہ ابھی pending ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، آگے بڑھتے رہیں، اللہ جلّ شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے۔ جیسے کہا گیا ہے، اس پر عمل کرتے جائیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ نے کیفیت کے بارے میں پوچھا ہے، کیفیت پہلے مراقبہ میں جو چالیس دن کا تھا، بہت ہی اچھی رہی تھی اور بہت positive تھی، آگے دین کی طرف بڑھنے کی دل میں جستجو تھی، لیکن اس بار وہ کیفیت نہیں ہے، جیسے تھوڑا سا انسان پیچھے آجاتا ہے۔ معمولات چھوڑے نہیں ہیں، الحمد للہ! معمولات جاری ہیں، لیکن فضولیات و خرافات سے اپنے آپ کو بالکل زبردستی روکنا پڑتا ہے اور بد نظری کا بھی تقاضا ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! آپ کو ابتدا میں جو کیفیات محسوس ہوئیں، وہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اور اللہ کا فضل کبھی بھی حاصل ہوسکتا ہے، لیکن اگر کیفیات حاصل نہ ہوں، تو کیا آدمی کام کرنا چھوڑ دے گا؟ یعنی یہ تو ایک support ہیں، لیکن support چھوڑ بھی دی جاتی ہے، تاکہ آپ خود ترقی کریں۔ کیوں کہ مثال کے طور پر اگر کوئی ڈرائیونگ سیکھتا ہے، تو اگر اس کا steering استاد پکڑتا ہے، تو اس وقت تو سکھانے کے لئے استاد پکڑ لیتا ہے، لیکن کیا ہمیشہ کے لئے استاد ہی پکڑے گا اور اس کو چھوڑے گا نہیں؟ ظاہر ہے کہ سکھانے کے لئے چھوڑ بھی دیتا ہے، تاکہ آپ خود چلانا سیکھیں۔ ابھی ما شاء اللہ! آپ کو احساس ہوگیا ہے، اب جو آپ کے سامنے حالات ہیں، ان حالات کے اندر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے۔ اگر ما شاء اللہ! straightforward آپ جا رہے ہیں اور صحیح جا رہے ہیں، تو اس پر شکر کر لیا کریں اور اگر ایسا نہیں ہے اور مشکلات ہیں، تو پھر ہمت کر کے اپنے طریقہ پہ قائم رہنے کی کوشش کرلیں اور کسی طریقہ سے بھی غلط چیزوں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ یہی طریقہ ہے۔ اور یہی اصل چیز ہے کہ راستہ جاننا بھی آسان ہو اور راستہ پہ چلنا بھی آسان ہو۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I pray that you are fine and may Allah سبحانہ وتعالیٰ preserve you. Last night I had a dream in which I was in a room with my children. I said I have to protect them and I put them on a mattress and then a black snake tried to attack me. I held it and I was bitten by it. It was terrifying then I woke up.

جواب:

ٹھیک ہے، ما شاء اللہ!

Yes, you are right you should be doing so. You should protect yourself, your wife and your children from evil. So these are the evils which can attack you and your family. So protect them from شیطان and from نفس.

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں UK سے فلاں ہوں۔ میں کام پر ایک نئی پوسٹ میں منتقل ہوا ہوں، جو کہ برابر wage پر ہے، لیکن اس میں team کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لہٰذا یہ آسان ہوگا۔ میرے دل میں ہے کہ میں اپنے ساتھ غیر مسلمان کام کرنے والوں کو مہنگا قسم کا ہدیہ دوں، لیکن جن مسلمانوں کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، ان کے ساتھ اس طرح کی چاہت نہیں ہے، کیا یہ صحیح ہے کہ میں اس پر عمل کروں؟ مسلمانوں کے لئے یہ چاہت غائب کیوں ہے؟

جواب:

دیکھیں! دو قسم کی بات ہے، اگر یہ ہدیہ آپ ان کی تالیفِ قلب کے لئے دے رہے ہیں، تاکہ ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ مسلمان ہوجائیں، تو پھر تو ٹھیک ہے اور اگر ویسے طبعی محبت ہے، تو طبعی محبت مسلمان کے ساتھ زیادہ ہونی چاہئے، اگر نہیں ہے، تو پیدا کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے کہ حضرت والا خیر و عافیت سے ہوں گے۔ حضرت والا کے بیانات اور دعائیں ہم لوگوں کے لئے سستی کے وقت میں کام میں لگنے کا جذبہ اور امنگ پیدا کرتی ہیں۔ حضرت والا کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے۔

ترجمہ کا کام پوری ہمت سے کرنے کی کوشش کررہا ہوں، لیکن رفتار تسلی بخش نہیں ہے، اس کے دو سبب ہیں: ایک یہ کہ جب تک اچھی طرح ترجمہ نہ ہو، مجھے تسلی نہیں ہوتی، عربی پڑھی تو بہت سی ہے، سنی بھی ہے اور ماحول بھی ہے، لیکن لکھنے کی نوبت کبھی نہیں آئی، کبھی ایک پیراگراف کے ترجمہ میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں، اس لئے اس کام میں جو وقت لگ رہا ہے، اس کی وجہ سے حضرت والا ناراض نہ ہوں، ان شاء اللہ جب مکمل ہوگا، تو آپ کو inform ہوجائے گی اور ان شاء اللہ بچے بھی سہولت سے سمجھ لیں گے۔ خود ترجمہ مکمل کرنے کے بعد کم از کم دو ماہرینِ زبان سے غلطیوں کی اصلاح کے بعد final کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ حضرت والا کی کما حقہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ حج سے پہلے تصوف کا خلاصہ مکمل ہونے کے بعد جذب و سلوک کا کام شروع کر دوں گا۔ اور دوسرا سبب جس کا اعتراف ہے، وہ میری کمزوری اور ضعف ہے، دیگر کام محدود کر دیئے ہیں، لیکن پوری توجہ سے محض ایک گھنٹہ میں کام کر پاتا ہوں، پھر break لینی پڑتی ہے اور کبھی صبح میں صرف دو گھنٹے سے کم میں کام ہوتا ہے۔ بہرحال ان شاء اللہ اپنی پوری بساط کے موافق پوری توجہ سے یہ کام مکمل کر کے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ آج صبح کے کام کا نمونہ عرض ہے۔ (ٹھیک ہے) حضرت والا سے دعا اور توجہات کی درخواست ہے۔

حضرت! ذکرِ علاجی کا اہتمام جاری ہے، تروایح میں قرآن سنا رہا ہوں، تہجد میں متکفین کے ساتھ بھی ایک ختم پورا ہوجائے گا، مسجد کے امام ساتھ معتکف ہیں، میرا اعتکاف نفلی ہے، اس لئے کہ بچوں کو قرآن میں شرکت کے لئے کلاس میں پہچانا ضروری تھا۔ پہلے سات دن مسجد میں گزرے، ذہن کی تشویش بہتر ہے، صحت بہتر ہے، لیکن مکمل افاقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ظاہری گناہوں کے ساتھ باطنی گناہوں کے مکمل چھوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھی بات ہے۔ یہ تو آپ کا اپنا کام ہے، میرا کام نہیں ہے، آپ اس کو سہولت کے ساتھ کرتے رہیں اور بہتر سے بہتر طریقہ جو بھی آپ کو مناسب لگے، اس طریقہ سے آپ کریں۔ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے لئے بھی صدقہ جاریہ بنا دے اور ہمارے لئے بھی اور پوری امت کے لئے اس کو خیر کا ذریعہ بنا دے۔ بہرحال! جتنا بھی یہ کام آپ سے ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ اللہ پاک ہی فضل فرماتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے یہ کام شروع کر لیا۔ رمضان شریف کی برکات اللہ تعالیٰ آپ کو پورے سال نصیب فرماتے رہیں، اس پر میری جو بات چیت ہوتی رہی ہے، وہ بھی میرے خیال میں آپ کے نوٹس میں آچکی ہوگی۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت شیخ! مجھے دیئے ہوئے معمولات کے علاوہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ درود شریف، اسم ’’اَللہُ ‘‘ کی کثرت سے ذکر کرنے کی اجازت دیں گے؟

جواب:

اصل میں فی الحال آپ یہی جاری رکھیں، ان شاء اللہ ساری چیزیں اپنے وقت پر ہوجائیں گی۔ البتہ درود شریف کی کثرت بے شک آپ جتنی چاہیں، کرلیں ، البتہ ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ ثوابی اذکار کی ترتیب یہ ہے کہ جو کرنا چاہتے ہیں یا جن کے پاس ٹائم ہو، وہ صبح سے لے کے دوپہر تک ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ پڑھیں، جتنا وہ پڑھ سکتے ہیں بلا تعداد، اور دوپہر کے بعد درود شریف جتنا پڑھ سکیں بلا تعداد اور شام کے بعد پھر استغفار جتنا پڑھ سکیں بلا تعداد۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عِیْدُکُمْ وَسَعِیْدُکُمْ تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ۔

جواب:

ما شاء اللہ! آپ سب کو بھی بہت بہت مبارکباد۔

سوال نمبر 10:

حضرت! خیالات بہت آتے ہیں۔

جواب:

خیالات جتنے بھی آتے ہیں، ان سے کوئی مسئلہ نہیں، بس چلنا انتظام سے ہے۔

سوال نمبر 11:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

داسې کار وکړه چې اول درې سوه ځله ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَکْبَرُ‘‘ اؤ دوه سوه ځله ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پهٔ يو جلسه کښې روزانه شورو کړه څلويښت ورځې ئ وکړه خو ناغه به پکښې نهٔ کوے۔ کهٔ ناغه درنه وشوه نو بيا به ئ شورو کوے۔ څلويښت ورځې پس به راته اطلاع راکړے نو بيا به درته بله وظيفه درکړم ان شاء الله۔ اؤ دَ هر مونځ نه پس درې ديرش ځله سبحان الله، درې ديرش ځله الحمد لله اؤ څلور ديرش ځله الله اکبر،درې ځله کلمه طيبه، درې ځله درود ابراهيمي، درې ځله استغفار اؤ يو ځل آيت کرسي دا به ټول عمر کوے الله تعاليٰ دې تاسو ته ددې اجرونه اؤ برکات نصيب کړي

سوال نمبر 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

Question: I am the most arrogant person in this world. The whole world’s pride is in me.

ابھی میرے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی،

What should I do about it?

میں کیا کروں؟

Will Allah سبحانہ و تعالیٰ punish me if I made or have psychological problem? Will رسول اللہ ﷺ hate me?

جواب:

آپ دیکھیں! آپ کے ساتھ جو مسئلہ ہے، آپ چوں کہ بہت sensitive ہیں اور sensitive لوگوں کو اس قسم کی چیزیں پیش آسکتی ہیں، لیکن sensitive لوگوں کا علاج یہ ہے کہ وہ جن سے علاج کروا رہے ہوں، ان پہ سو فیصد اعتماد رکھتے ہوں۔ پس اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے، تو میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپ پکی مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ بڑا اچھا معاملہ ہوگا۔ آپ صرف یہ کریں کہ میں آپ کو جو بتاتا جاؤں، آپ اس پہ عمل کرتی جائیں، جو وظائف میں آپ کو دوں، ان کو آپ کریں اور فرائض و واجبات میں کوئی کمی نہ کریں، ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بہت زیادہ خیر کا معاملہ فرمائیں گے، آپ کے ساتھ بھی اور آپ کی family کے ساتھ بھی یعنی جو مسلمان بچے ہیں، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ دو سو، چار سو، چھ سو، ایک ہزار والا ذکر مکمل ہوگیا ہے، اگلا ذکر ارشاد فرما دیں۔

جواب:

ما شاء اللہ! اب صرف ایک ہزار والے کو پندرہ سو کرلیں ، باقی اسی طرح رہنے دیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! احقر فلاں، عرض یہ ہے کہ مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ روزانہ پندرہ منٹ کررہا ہوں، نماز میں اللہ کی طرف دھیان بڑھ گیا ہے اور دل نماز کے انتظار میں رہتا ہے۔ مراقبہ کے دوران کچھ ادراک نہیں ہوتا، رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ بہت اچھا ہے، اس کو ابھی ایک مہینہ مزید جاری رکھیں، اللہ پاک مدد فرمائے اور اس کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور مجھے ہمیشہ آپ کے قدموں میں رکھے (آمین) میرے ذکر کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

بارہ تسبیح، اس کے بعد پانچ سو مرتبہ زبان سے خفی طور پر اللہ اللہ، دس منٹ پانچوں لطائف پر اللہ اللہ محسوس کرنا، پندرہ منٹ لطیفہ اخفیٰ پر شان جامع کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی! الحمد للہ لطائف اچھے ہو رہے ہیں، لطیفۂ روح میرا کمزور ہے، مراقبہ شانِ جامع بھی ٹھیک ہو رہا ہے اور محسوس بھی ہوتا ہے۔

حضرت! نماز کے درمیان دل والی side پر بہت حرکت محسوس ہوتی ہے جیسے دل پھڑک رہا ہو، خاص کر تراویح میں بہت محسوس ہوتی تھی۔ الحمد للہ! تہجد، اشراق اور اوابین کے نفل بھی پڑھ رہا ہوں۔ حضرت میرے پاس دو شجرے لکھے ہوئے آرہے ہیں یعنی شجرہ منظومہ اقبالیہ شبیریہ اور شجرہ منظومہ اشرفیہ، ذکر سے پہلے کون سا پڑھا کروں؟

حضرت جی! اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی برکت سے فتنوں سے بچایا ہوا ہے، لوگوں سے ایسے ایسے فتنے سننے کو مل رہے ہیں اور ہمارے بھی قریب ہیں، لیکن ہمیں پتا بھی نہیں ہے، یہ سب آپ کی برکت سے ہے۔ حضرت! آپ نے فرمایا تھا کہ رمضان کے بعد ذکر تبدیل ہوگا۔

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، آپ نے پندرہ منٹ مراقبہ شان جامع کا بتایا۔ اب آپ مراقبہ معیت شروع کرلیں کہ یہ تصور کرلیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہیں، جیسا کہ وہ ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے ہیں، لیکن اللہ پاک اپنی شان کے مطابق ہر وقت آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کا تصور آپ پندرہ منٹ کر لیا کریں اور باقی یہی جاری رکھیں، یہ مراقبہ شانِ جامع کی جگہ پر ہوگا۔

شجرہ آپ ان میں سے جو بھی پڑھنا چاہیں، ٹھیک ہے۔ باقی جو چیزیں غیر اختیاری ہیں، ان کی طرف آپ توجہ نہ کریں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ رمضان سے پہلے مجھے پندرہ منٹ مراقبہ ملا تھا، جس میں مجھے تصور کرنا تھا کہ اللہ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا دل اللہ اللہ کررہا ہے۔ اس دوران مجھ سے چار ناغے ہوئے، کیونکہ میری طبیعت خراب ہوگئی تھی اور جب میں کرنے کے لئے بیٹھ جاتی، تو آنکھ لگ جاتی، چار ناغے ایسے ہی ہوئے ہیں کہ جن میں آنکھ لگ جاتی، پھر میں نے اوقات بدل لیے اور صبح کو کرنے لگی، لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ باقی نمازیں پوری پڑھیں، اصلاحی ذکر بھی باقاعدگی سے کرتی رہی اور قرآن پاک کی تلاوت روزانہ آدھا پارہ یا کبھی ایک پارہ پڑھ لیتی ہوں۔

جواب:

اللہ جلّ شانہٗ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ آپ یہی مراقبہ ایک مہینہ مزید جاری رکھیں، پھر اس کے بعد ان شاء اللہ دیکھیں گے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو۔ یہ مکمل ہوگیا ہے، مزید عنایت فرما دیں۔

جواب:

اب ’’اَللہ‘‘ ہزار مرتبہ کرلیں، باقی یہی رکھیں۔

سوال نمبر 18:

میں نے قرآن کریم حفظ کرنے کا ارادہ کیا ہے، مشورہ بھی دیں اور دعا بھی کریں۔

جواب:

سب سے پہلے آپ ’’عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ‘‘ پارہ کو حفظ کرلیں، اس کی جو Progress report ہے، وہ مجھے بتا دیں، پھر اس کے بعد میں آپ سے عرض کروں گا، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ محترم مرشدی! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! سارے اذکار پورے ہوگئے ہیں، اس مہینے کے لئے دو، چار، چھ اور چار ہزار۔

جواب:

ابھی دو، چار، چھ اور ساڑھے چار ہزار کرلیں۔

سوال نمبر 20:

تمام لطائف پر دس دس منٹ، مراقبہ معیت پندرہ منٹ، تقریباً آٹھ ماہ سے کررہا ہوں، رمضان شریف میں ہر دن دس پندرہ بیس پارے یا پورے قرآن کی تلاوت کرتا تھا۔ آپ کی دعاؤں سے الحمد للہ اس مراقبہ سے مجھے اللہ سے ملنے کا اور دوستی کا بہت اشتیاق ہے اور گناہ کرنا بہت کم ہوگیا ہے۔

جواب:

الحمد للہ! اللہ پاک مزید بڑھائے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے، ان کا ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ اذکار درج ذیل ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ ساڑھے نو ہزار۔ اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کہ دل اللہ اللہ کررہا ہے، لیکن ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اب آپ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ دس ہزار کرلیں اور باقی سب یہی رکھیں، یعنی جیسے پہلے بتایا ہے، اسی طرح کریں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا ذکر نو ہزار صرف زبانی طور پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرنا ہے۔

جواب:

اب ساڑھے نو ہزار کریں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم۔ حضرت جی دامت برکاتہم! گزشتہ اڑھائی ماہ کے احوال پیش خدمت ہیں۔ رمضان سے قبل کچھ ماہ ذکر و احوال میں نگرانی رہی تھی، حضرت والا نے ذکر میں کمی کا ارشاد فرمایا۔ موجودہ ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور اسم ذات پندرہ سو ہے۔ الحمد للہ! رمضان مبارک کی برکت سے کافی افاقہ ہوا اور کافی بسط معلوم ہوا، ذکر میں لگاؤ میں اضافہ ہوا اور عید کے تین دنوں میں گزشتہ کی بنسبت از حد احتیاط کی کوشش کی۔ حضرت جی سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی پندرہ سو کی جگہ دو ہزار کرلیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! معمولات الحمد للہ! معمول کے مطابق ہو رہے ہیں، میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے یہ تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور چودہ ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ حضرت جی! کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی، نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

اب ’’اَللہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ کریں، باقی چیزیں وہی ہوں گی۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم۔ آپ کے سوال وجواب کی مجلس سن کر میرا دل چاہتا تھا کہ آپ مجھے جواب دیتے وقت متاثر ہوں اور تعجب میں ہوں، جیسے میں کوئی special آدمی ہو، اس کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

بس اس بات کو نہیں ماننا چاہئے۔

سوال نمبر 26:

السلام علیکم۔ حضرت! میں نے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں پڑھا تھا، کراچی سے ان کے رسائل سات آٹھ جلدوں میں چھپے ہیں، ان میں تھا کہ نیکی اور بدی کی ایک مثالی شکل بنتی ہے، جو ایک کاغذ میں لکھی جاتی ہے، پھر اس کے فیوض چاہے وہ نیکی کے ہیں یا بدی کے، اس کی اولاد پہ، اہل وعیال پہ اور گھر پہ پڑتے ہیں، اس کی زندگی میں بھی اس کے اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ یہ سمجھا دیں۔

جواب:

اصل میں جیسے اعمالِ خیر اور اعمالِ بد کا اثر کائنات پر پڑتا ہے، جیسے اللہ پاک نے فرمایا:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)

ترجمہ1: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔

پس اگر کائنات کے اوپر پڑسکتے ہیں، تو اپنے اہل و عیال کے اوپر کیوں نہیں پڑسکتے؟ چیز تو بالکل وہی ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ صالح اولاد اپنے اعمال کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود اپنے آپ کو بچا لیتی ہے، بلکہ اپنے والدین کو بھی اگر ان کو کچھ مسائل ہوچکے ہوں، فائدہ پہنچاتی ہے، یعنی Two way problem ہے، One way نہیں ہے، اگر ادھر سے آتے ہیں، تو ادھر سے نہیں جاتے، ایسا نہیں ہے، ادھر سے بھی جاتا ہے اور جو مشکلات ہوں، ان کو دور کر کے مزید ان کو خیر پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے ان کے اعمال نے اثر دکھایا، اسی طرح ان کے اعمال بھی تو اثر دکھائیں گے۔ حضرت نے صرف اس کو سمجھانے کے لئے ایک طریقہ اختیار کیا ہے، اصل تو وہی ہے یعنی ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)

سوال نمبر 27:

دوسری بات حضرت نے یہ لکھی تھی کہ مشائخ جب دنیا سے چلے جاتے ہیں، تو بعض دفعہ اپنے کسی خاص مرید کی امداد کے لئے دنیا میں تشریف لے آتے ہیں، تو کیا یہ حقیقت ہے؟

جواب:

جی، روحانی طور پر تصرف ثابت ہے اور وہ تشریف لانا مثالی صورت میں ہوتا ہے، یعنی مثالی صورت میں وہ تشریف لا سکتے ہیں، لیکن اس کا صرف اہل کشف کو پتا چلتا ہے، کسی اور کو پتا نہیں چلتا۔ مجالس میں تشریف لاتے ہیں، آپ ﷺ کی تشریف آوری بھی ہوسکتی ہے، یہ نہیں کہ ہم ان کو بلا سکتے ہیں، خود اپنے طور پہ آپ ﷺ تشریف لا سکتے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا معاملہ اپنے طور پر ہے۔ صحابہ میں سے حضرات تشریف لا سکتے ہیں، لیکن اہل کشف کو پتا چلتا ہے، ہم لوگوں کو پتا نہیں چل سکتا۔ جن کو کشف نہیں ہوتا، ان کو پتا نہیں چلتا۔ ہمارے مولانا عزیز الرحمٰن صاحب کی جب مجالس ادھر ادھر ہوتے تھے، ان میں بعض حضرات صاحبِ کشف تھے، تو ان کو مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری کا مشاہدہ ہوجاتا تھا، اسی طرح اور بعض حضرات کو بھی ہوجاتا تھا۔ ہمارے یہاں جو اعتکاف میں ختمِ قرآن تھا، اس میں شاہ عبدالعزیز دعاجو رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری ہوجاتی تھی۔

سوال نمبر 28:

حضرت! رمضان اور اعتکاف کے بعد دل میں ایک قسم کی جو کیفیت حاصل ہوتی ہے، اس کو رمضان کے بعد کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے؟

جواب:

اس پہ تو میرے مسلسل بیان ہورہے ہیں، ان کا نمبر لے لیا جائے اور ان کو وہ send کر دیئے جائیں۔

سوال نمبر 29:

دوسری بات یہ ہے کہ اگر انسان خود کو گناہ سے بچاتا بھی ہے، یعنی بدنظری سے اور باقی چیزوں سے، لیکن پھر بھی ماحول اور دوسری چیزوں کا اثر ہوتا ہے، تو اس کو کم سے کم کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

یہ ساری چیزیں میں آج کل بتا رہا ہوں، میں تو مجبوراً بتا رہا ہوں اور آپ نے خود سوال کر لیا ہے۔ آج ہی ہمارا جو پشتو بیان ہوا ہے، وہ اسی پہ ہوا ہے، اور آج کل اس کی بڑی ضرورت بھی ہے، کیونکہ جیسے میں نے مثال دی ہے کہ اگر کوئی باہر سے بہت سارا مال اور پیسے کما کر لاتا ہے، ponds اور ڈالر وغیرہ، اور ایئرپورٹ سے کوئی ڈاکو ان کو اٹھا کر وہ سارا کچھ لے جائے، تو اس کے پاس کیا رہ جائے گا؟ اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا، وہ خالی ہاتھ گھر چلا جائے گا، ممکن ہے کہ چار پانچ تھپڑ بھی کھا چکا ہو۔ اسی طریقے سے شیطان ظالم انسان کی ساری چیزوں کو اڑا دیتا ہے، بالآخر انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، لہٰذا ایسے مواقع سے اختیاری طور پر بچنا ضروری ہے، جہاں پر اس قسم کی چیزیں زیادہ ہوں۔ کسی نے شعر بھی کہا ہے:

جس کو ہو جان و دل عزیز

وہ اس کی گلی میں جائے کیوں

یعنی جس کو اپنے آپ کو بچانا ہو، تو اسے ایسے لوگوں کے ہاں نہیں جانا چاہئے، جہاں اس قسم کے مسائل ہوتے ہوں۔

عید سعید پر ہمارا کلام بھی ہے، جو پڑھا بھی گیا ہے۔ ما شاء اللہ! بڑا اچھا ہے۔ اس میں یہ بات تھی کہ اصلاحی اعتکاف اور رمضان شریف کی برکات کو محفوظ رکھنے کے لئے عید کو بہت احتیاط سے گزارنا ہوتا ہے، کیونکہ یہی درمیان میں ایک jump ہوتا ہے، جو سب کچھ ختم کرسکتا ہے۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ روحانی خوشی اور جسمانی خوشی میں لوگ فرق نہیں کرسکتے، وہ جسمانی خوشی کو روحانی خوشی سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا کہ عید خوشی کا موقع ہے، لہٰذا یہاں ہر چیز جائز ہے۔ بھائی! ہر چیز جائز نہیں ہے، روحانی خوشی کو حاصل کرو، جسمانی خوشی جو جائز ہے، اس کو حاصل کرسکتے ہو، ناجائز کو نہیں حاصل کرسکتے۔ ناجائز میں سارا کچھ لٹ جاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 30:

تصوف میں جلدی آگے جانے کے لئے اور اللہ سے تعلق جلدی حاصل کرنے کے لئے شیخ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا زیادہ ضروری ہے یا گناہوں سے بچنا زیادہ ضروری ہے؟

جواب:

اچھا سوال کیا ہے۔ پانی زیادہ پینا چاہئے یا کھانا کھانا چاہئے؟ ان میں سے کس کے بارے میں آپ کی رائے ہے؟ دونوں ضروری ہیں۔ پس اسی طرح شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہی اس لئے ہے کہ گناہوں سے بچا جائے۔ اس کا مقصد ہی اور کیا ہے؟ شیخ سے تعلق اصلاح کا ہوتا ہے اور اصلاح میں گناہوں سے بچنا نمبر ایک point ہے۔ جو گناہ انسان سے ہوتے ہیں، شیخ کے ساتھ تعلق میں کم از کم اتنا ہوتا ہے کہ احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، ابتدا میں توبہ کی توفیق ہوتی رہتی ہے اور انتہاء میں پھر بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے۔ ورنہ شیطان ظالم اس چیز کو جانتا ہے، وہ آپ کو بعض دفعہ اعمال سے نہیں روکے گا، آپ کو ان اعمال کی حفاظت کرنے والے سے روکے گا، کیونکہ اعمال کو وہ بہت جلدی سے اڑا سکتا ہے۔ جیسے میں نے ابھی ڈاکو کی مثال دی ہے۔ لہٰذا وہ آپ کا سب کچھ لے کر جا سکتا ہے، اس کے لئے وہ آسان ہے۔ مثلاً آپ میں عجب پیدا کر لے گا، آپ نے حج کر لیا، تو آپ میں عجب پیدا کیا کہ ما شاء اللہ! یہ تو آپ نے بڑا کام کر لیا۔ بس پھر سب کچھ اڑ جائے گا۔ تو اس کو یہ طریقے آتے ہیں، لہٰذا وہ آپ کو ان چیزوں سے توڑے گا، تاکہ راستہ بند ہوجائے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگ ایک خشک عالم سمجھتے ہیں، یعنی ان کی قدر اس طرح نہیں کرتے، جس طرح صوفیاء کو سمجھتے ہیں، لیکن حضرت نے اس مسئلہ میں بہت زیادہ روز دیا ہے، جیسے احادیث شریفہ کے معاملے میں حضرت نے بالکل آگے پیچھے نہیں کیا، اسی طرح اس میں بھی بالکل واضح کلام کیا ہے۔ آپ خود سن لیں۔ یہ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی دلائل السلوک ہے۔

توحیدِ مطلب میں پیر سے نفع: صرف وہ شیخ ہی پیر بنانے کے لائق ہے، جو اس مذہب پر ہو، جو اجماعِ امت، کتاب و سنت کے موافق عقیدہ رکھے، اس کے ساتھ طریقت اور حقیقت کا ماہر ہو، مبتدی بات سن کر اس کے مریدوں کے احوال سن کر اور دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے جو کہ ربانی علماءِ وقت اس کا انکار نہ کرتے ہوں، بلکہ کچھ لائق، عقلمند اور صالح نوجوان اور بوڑھے اس سے فیض حاصل کرتے ہوں اور دین اور طریقت کے اندر اس کو مانا ہوا خیال کرتے ہوں۔ جان لیں کہ وہ واقعی ماہرِ حق ہے، بس جب اس سے بیعت کر لے، تو اس کی فرمانبرداری کرے اور توحیدِ مطلب کے ساتھ اس کی اطاعت کا حلقہ اپنے کان میں ڈال دے۔ توحیدِ مطلب سے مراد یہ ہے کہ جان لے کہ اس خاص پیر کے سوا جو مذکورہ بالا صفات سے موصوف ہے، دنیا میں کوئی میرا مطلب پورا نہیں کرسکتا، اگرچہ وہ پیر بھی جو اس کے ہم عصر ہوں، ان ہی صفات سے موصوف ہوں۔ طریقت کا یہ بڑا اہم رکن ہے۔ اگر توحیدِ مطلب نصیب نہیں، تو پھر پراگندہ اور ہرجائی رہے گا اور ہمیشہ تشویش میں رہے گا اور خدا بھی اس کی پروا نہیں کرے گا کہ کس صحرا میں ہلاک ہو، بلکہ جس طرح حق تعالیٰ ایک ہے اور قبلہ ایک ہے اس طرح اپنا رہبر پیر کو بھی ایک ہی جانے۔ بہت سے لوگ اس پر پراگندی میں ہلاک ہوچکے ہیں، پس اگر یہ خطرہ بھی دل میں گزرے کہ شیخ کے علاوہ کوئی اور بھی میرا مطلب پورا کرسکتا ہے، تو شیطان اس میں تصرف کررہا ہے اور عمدہ جگہ سے نکال رہا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شیطان کسی اور پیر کی صورت میں آکر اس کو خراب کرتا ہے اور ایسی چیزیں اس کو دکھاتا ہے کہ جن سے اس کا عقیدہ باطل پر جم جائے، معاذ اللہ۔ توحید مطلب کی وجہ سے شیطان کو راستہ نہیں ملتا اور اس کے پیر کی شکل میں شیطان نہیں آسکتا، اس لئے کہ آپ ﷺ نے شیخ کو اپنے مریدوں میں بمثل نبی کے اپنی قوم میں فرمایا ہے اور اپنی امت کے علماء کو مثل انبیاء اسرائیل بتایا ہے، لہٰذا جس طرح شیطان مردود آپ ﷺ کی شکل میں نہیں آسکتا، جیسے کہ آپ ﷺ خود فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے مجھے واقعی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت میں ہرگز نہیں آسکتا، اسی طرح وہ متبعِ شریعت شیخ کی صورت بھی اختیار نہیں کرسکتا، اس لئے مرید محفوظ رہتا ہے۔

چنانچہ حضرت نے تو بہت زیادہ شیخ سے تعلق پر روز دیا ہے۔ میں نے جب اس کو پڑھا، تو میں نے سوچا کہ پتا نہیں لوگ حضرت کو صوفی کیوں نہیں مانتے، حضرت کی اس بات کو کوئی کیا کہے گا۔ تو فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ؛ یہ مختصر ترین راستہ ہے، شطاریہ کا راستہ ہے۔ فنا فی الشیخ یعنی شیخ میں فنا ہوجائے اور اس میں پھر کوئی اور بات نہ ہو۔ شیخ نے کہا ہے، تو بس ٹھیک ہے۔ پھر فنا فی الشیخ سے انسان فنا فی الرسول پہ آجاتا ہے، یعنی اس کو سنت کے علاوہ کوئی طریقہ justify نہیں لگتا اور وہ بس اسی پہ چلا جاتا ہے، اس کے درمیان میں اور کوئی بات نہیں ہوتی، پھر اس کے بعد فنا فی اللہ پر آجاتا ہے، یعنی ہر ایک چیز اللہ کے لئے ہے، بس اپنے آپ کو بھی بھول جائے۔ بس اللہ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے سب کام کرنا ہے۔

سوال نمبر 31:

حضرت! سنا ہے کہ جو عمل ختم ہوجائے، اس کو اگر کوئی زندہ کرے گا، تو اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا، تو کیا یہ شخص شہید سے برتر ہوجائے گا؟

جواب:

سورۃ اخلاص تین دفعہ پڑھنے سے ایک قرآن کا ثواب ملتا ہے، تو کیا پھر قرآن نہیں پڑھنا چاہئے؟ سورۃ اخلاص بار بار پڑھتے رہنا چاہئے؟

سوال نمبر 32:

حضرت! آپ ﷺ فجر کی سنتوں میں اور مغرب کی سنتوں میں سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص کی کثرت کرتے تھے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:

(مجلس میں بیٹھے ہوئے عالم صاحب سے فرمایا) مولانا صاحب! ایسی کوئی روایت ہے؟ (انہوں نے جواب دیا کہ جی، روایت میں اس طرح آتا ہے۔ تو حضرت دامت برکاتہم نے فرمایا:) روایت میں جب آتا ہے، تو پس ٹھیک ہے، جب روایت میں آگیا تو ہمارے پاس اور کون سا ذریعہ ہے۔ یہی ذریعہ ہے کہ بس ہمیں حدیث شریف سے معلوم ہونا چاہئے، پھر اس میں ہماری رائے تو نہیں چلے گی۔ اگر ثابت ہوجائے تحقیقاً کہ یہ واقعی روایت ہے، تو بس ٹھیک ہے۔ جتنے بھی فقہاء کرام ہیں، وہ سارے قرآن اور حدیث سے لیتے ہیں، صرف یہ ہے کہ تحقیق کرتے ہیں اور ہر ایک کی اپنی اپنی تحقیق ہوتی ہے۔ کسی کے نزدیک ایک حدیث کا مقام اونچا ہے، دوسرا اس پر عمل کرنے میں مطمئن نہیں ہوتا، وہ کہتا ہے کہ نہیں، اس پر عمل نہیں ہونا چاہئے، اس کے نزدیک دوسری حدیث زیادہ قابلِ عمل ہوتی ہے۔ جیسے مرسل حدیث شریف پہ شوافع عمل نہیں کرتے، ان کے نزدیک وہ حجت نہیں ہے، ہمارے لئے ہے، ہم اس پہ عمل کرتے ہیں۔ پس اس طرح اختلافی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔

سوال نمبر 33:

حضرت! آپ نے اعتکاف میں فرمایا تھا کہ ایک بزرگ نے فرمایا ہے کہ سالک کے لئے اصطلاحات پہلی سیڑھی ہیں اور منتہی کے لئے عیب ہیں۔ حضرت! اصطلاحات تو آج کل کے دور کے حساب سے سمجھنے میں کافی مشکل ہوتی ہیں، جس طرح آپ فرماتے ہیں کہ ہر دور کے حساب سے ذرائع تبدیل کیے جا سکتے ہیں، مثلاً: جس طرح قبض اور بسط ہے، تو اس کو سمجھنا مشکل ہے، تو کیا اس کے لئے کوئی alternative الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن سے آسانی ہو؟

جواب:

alternative الفاظ جو بھی الفاظ ہوں گے پھر وہی اصطلاح بن جائے گی، اس کو بھی تو آپ اصطلاح ہی کہیں گے۔ لہٰذا جو ان کو آسان کرسکتے ہیں، ان کو کرنا چاہئے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت ساری اصطلاحات کو عام فہم انداز میں کیا ہے، لیکن وہ بھی آج کل کے لوگوں کے لئے مشکل ہیں۔ لہٰذا پھر آج کل کے دور کے کچھ لوگ ان کو مزید عام فہم کر دیتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ایک تو یہ بات ہوتی ہے کہ لوگوں میں علم کی کمی ہو جائے اور دوسرا یہ کہ زبان بدل جائے۔ مثال کے طور پر عربی الفاظ بہت زیادہ ہوں اور لوگ عربی نہ سمجھتے ہوں، تو پھر مشکل ہوجائے گی۔ جیسے غریب عربی میں اجنبی کو کہتے ہیں اور اردو میں بطور مفلس مستعمل ہے۔ تو اس سے پھر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، لہٰذا ایسی صورت میں اس وقت کے حکماء اور علماء ان کو اس وقت کے مطابق عام فہم بنا لیتے ہیں۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے آسان ترجمہ کیوں لکھا ہے؟ یہ آج کل کے دور کی زبان میں لکھا ہے، ورنہ کیا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ کافی نہیں تھا؟ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ کافی نہیں تھا؟ لیکن چونکہ آج کل وہ زبان زیادہ مستعمل نہیں رہی، اس وجہ سے مولانا تقی عثمانی صاحب نے آج کل کے لحاظ سے ترجمہ کر دیا ہے۔ ویسے ہندوستان کی اردو میں اور پاکستان کی اردو میں کچھ تھوڑا بہت فرق بھی ہے، بلکہ لکھنو اور دہلی کی زبان میں فرق ہے۔ ہندوستان کی اردو میں ہندی کے الفاظ بہت زیادہ مستعمل ہیں اور پاکستان کی اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ زیادہ مستعمل ہیں۔ جرمنی میں ایک ہندو تھا، اس نے مجھے کہا کہ براجماں ہوجائیے۔ میں نے کہا کہ یہ کیا کہا؟ کیوں کہ براجماں کو تو ہم برے معنی میں لیتے ہیں کہ براجماں ہوگیا ہے، یعنی قابض ہوگیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تشریف رکھئے۔ میں نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے۔ تو اصطلاحات کے بغیر کام نہیں ہوتا، مبتدی ان کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ایک مفتی صاحب کو میں نے اپنی کتاب ’’فہمُ التصوف‘‘ دی تھی، انہوں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تصوف کی کتاب نہیں ہے، یہ تو علمی کتاب ہے، تصوف میں تو کیفیات ہوتی ہیں۔ میں نے کہا کہ چلو صحیح ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد کچھ واقعات مزید ہوئے، جن میں ہمیں تسلی دی گئی کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، ان کو بات سمجھ نہیں آئی۔

سوال نمبر 34:

حضرت! اپنی اصلاح کرنا فرض عین ہے اور یہ کہ دنیا کی اور مال کی محبت ختم ہوجائے، اللہ کی محبت آجائے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کی تبلیغ کیوں نہیں ہے؟ میری عمر ہوگئی ہے، لیکن میں نے کبھی بھی کسی جمعہ کے خطبہ میں کسی مولوی صاحب اور کسی عالم کو اس topic پہ بات کرتے نہیں سنا کہ آپ جتنے حضرات آئے ہیں، آپ اعمال کرتے ہیں، لیکن آپ اپنی اصلاح بھی کریں۔ میں نے کبھی بھی نہیں سنا، بلکہ مفتیان کرام اور علماء کے پاس ہم بیٹھے ہیں، انہوں نے بھی کبھی نہیں کہا کہ آپ اپنی اصلاح کریں، ایسے آپ کے مسائل بڑھتے ہیں، آپ کے لئے گناہوں سے بچنا تب تک ناممکن ہے، جب تک آپ نفس کی اصلاح نہیں کریں گے۔ انٹرنیٹ پہ بھی کوئی مواد ایسا نہیں ملتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ یہ تو انتہائی ضروری ہے۔ مجھے تو ابھی پتا لگا کہ یہ انتہائی ضروری ہے، لیکن میری family میں کسی کو میں نے کبھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بڑے بڑے لوگ اعمال کرتے تھے، لیکن کبھی بھی اس طرف کسی کو جاتے نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ یہ اتنی ضروری چیز ہے۔ لوگوں کو اس کا پتا ہی نہیں ہوتا، میں نے دیکھا کہ لوگ تہجد بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں، نیک اعمال کررہے ہوتے ہیں، لیکن اس طرف ان کی سوچ ہی نہیں جاتی یا اس طرف ان کو بتایا ہی نہیں جاتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ اور دوسرا یہ ہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے کہ جس بندہ کو وہ خود چن لیتے ہیں یا اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے دل میں ڈالتے ہیں، تو وہ پھر جاتا ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ! جہانگیرہ میں ہمارے ایک ساتھی ہیں، بڑا ذہین بچہ ہے، وہ مجھ سے بیعت ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ تصوف کی حمایت میں بھی لوگ ہیں اور مخالفت میں بھی ہیں۔ تو مخالفت والے ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ آپ نے کیا کیا اور کیوں کیا۔ وہ پریشان ہوگئے کہ بھائی! یہ کون سی بات ہے! ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ اچھا کام ہے، لیکن یہ تو اس طرح کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی مسجد کے امام سے پوچھا، جو ہمیں جانتا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ حضرت! میں شاہ صاحب سے بیعت ہوا ہوں، میں نے اچھا کیا ہے یا برا کیا ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ بالکل اچھا کیا ہے، ہمارے علماء کرام اور مشائخ کرام بھی بیعت ہوتے تھے اور بیعت کرتے بھی تھے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ چوں کہ ذہین بچہ تھا، تو اس نے کہا کہ حضرت! پھر میں آپ سے یہ سوال کروں گا کہ آپ نے ابھی تک ممبر پر بیٹھ کر یہ بات ہمیں کیوں نہیں بتائی؟ اگر آپ ہمیں پہلے سے بتا چکے ہوتے، تو مجھے شک ہی نہ ہوتا، کوئی کہہ بھی دیتا، تو میں کہتا کہ بھائی! یہ تو ضروری ہے۔ آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟ یہ تو آپ نے ہمیں محروم رکھا ہے۔ یہ گلہ واقعی قوم کا اس وقت کے علماء سے ہے کہ وہ یہ چیزیں کیوں نہیں بتاتے۔ میں آپ کو صاف بات بتا دوں، مجھے کسی مبالغہ کی ضرورت نہیں ہے، آج کل مسجد میں لوگ خطبہ سے پہلے کیوں نہیں آتے، جس وقت خطبہ شروع ہوتا ہے، اس وقت وہ پہنچ جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ irrelevant باتیں ہو رہی ہوتی ہیں، جن کا لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا یعنی قصے کہانیاں، لوگوں کہتے ہیں کہ کہانیاں تو ہم اخبار میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور ہم انٹرنیٹ پر بھی معلوم کر سکتے ہیں، لہٰذا اس کی کیا ضرورت ہے، اس وجہ سے لوگ نہیں آتے۔ لیکن جب آپ ان کے مطلب کی بات بتائیں گے، جو ان کو تبدیل کرنے والی ہو، ان کا پیچھے جو sense ہے، وہ محسوس کر لیتا ہے کہ یہ ہمارے کام کی بات ہے۔ جب ایسی باتیں کوئی کررہا ہوتا ہے، تو اس کی مسجد پہلے سے بھری ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا ہوا تھا کہ نوازشریف نے جب جمعہ کی چھٹی ختم کی، تو ہمارے دفتر کے پاس ایک ویران مسجد تھی، پہلے وہاں محلہ تھا، لیکن بعد میں سرکاری طور پر محلہ اٹھا دیا گیا، اب وہاں پر کوئی نہیں تھا، وہ مسجد خالی ہوگئی تھی۔ ہم نے سوچا کہ اس مسجد کو آباد کر لیتے ہیں اور جمعہ اس میں ادا کرتے ہیں۔ تو ہم نے اس میں جمعہ شروع کیا۔ الحمد للہ! جیسے یہاں میں آپ حضرات کے ساتھ باتیں کرتا ہوں، اس طرح ہی وہاں باتیں ہوتی تھیں، تو وہ مسجد بھری رہتی تھی۔ میں دفتر سے آتا، تو دفتر سے آنا تو ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تھا، ٹائم ہوتا، تو میں آتا۔ کبھی لیٹ بھی آتا، لیکن لوگ پہلے سے موجود ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک افسر نے مجھے کہا کہ ہم اس لئے آتے ہیں کہ ہمارے فائدے کی باتیں ہو رہی ہیں، یعنی اس نے بالکل صاف صاف کہا کہ ہم اس لئے آتے ہیں کہ ہمارے فائدے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی لوگوں میں شعور ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ان کو پہنچایا نہیں جاتا، وہ material جو ان کو چاہئے، وہ ان کو نہیں ملتا، نتیجتاً وہ پھر غافل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ گلہ سب کو ہے کہ اس topic پر بات نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ہماری طرح بات کرلیں، کیونکہ میرے پاس خانقاہ میں جو لوگ آتے ہیں، وہ تو اسی لئے آتے ہیں، لہٰذا ہم تو ہر طرح کی بات کھلے طریقہ سے کرتے ہیں، اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، آپ اس کو اپنی انداز سے جس طرح مناسب ہو، جس سے لوگ سمجھ سکتے ہوں، اس انداز میں کرلیں، لیکن کریں تو سہی، اس طرح چپ بیٹھنا بہتر نہیں ہے۔ آپ چوں کہ یہ بات کررہے ہیں، تو ما شاء اللہ! آپ کی برکت سے کتنے سارے ساتھی آگئے ہیں اور لوگوں کو پتا چل رہا ہے۔ دار العلوم کراچی کے طلباء میں یہ بات چلتی ہے، لہٰذا وہاں کے اکثر علماء کسی نہ کسی سے بیعت ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہاں اخیر میں باقاعدہ ان کو اس پہ lecture دیئے جاتے ہیں اور حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب اور یہ حضرات باقاعدہ اس پر lecture دیتے ہیں، ان کو صاف بتاتے ہیں کہ علم تو آپ نے ہمارے ہاں سیکھ لیا، لیکن آپ کی اصلاح مشائخ کے ہاں ہوگی۔ آپ جب ان کے ہاں جائیں گے اور اس طرح سارے اچھے کام کریں گے، پھر آپ کی اصلاح ہوگی، اس وجہ سے اپنے لئے آپ کوئی جگہ ڈھونڈ لو۔ وہ ان کو بتاتے ہیں، اس لئے وہاں کے فارغ التحصیل اکثر کسی نہ کسی جگہ سے بیعت ہوتے ہیں، کم از کم وہ ان چیزوں کو سمجھتے ہیں، ان کے اوپر بات بھی کر لیتے ہیں، جبکہ باقی مدارس جیسے بنوری ٹاؤن بہت بڑا مدرسہ ہے، لیکن وہاں یہ باتیں نہیں ہوتیں، لہٰذا وہاں کے لوگ اس چیز کی طرف نہیں آتے۔ اگر آتے ہیں، تو اپنی مرضی سے آتے ہیں، یعنی وہ آتے ہیں، جن کو اپنا شوق ہو۔ اسی طرح فاروقیہ ہے، وہاں پر بھی بات نہیں ہوتی، حالانکہ حضرت خود شیخ تھے، لیکن وہاں پر بھی اتنی زیادہ کھل کے بات نہیں ہوتی تھی، اس وجہ سے وہاں کے لوگ بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ لیکن جہاں پر بات ہو رہی ہے، وہاں سے لوگ آتے ہیں اور ان کو سمجھ بھی آجاتی ہے، اس میں ان کو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔ پس یہ مسئلہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنا تھوڑا سا لائحہ عمل تبدیل کرنا پڑے گا اور لوگوں کو سمجھانا پڑے گا۔ میں ایک اور بات بھی عرض کرتا ہوں اور میرے خیال میں اگر یہ کوئی یہ بات سب علماء کو پہنچا سکتا ہے، تو پہنچا دے کہ اگر آپ کی برکت سے کوئی آدمی اپنی اصلاح کے لئے تیار ہوگیا اور اس نے جا کر کسی بھی جگہ اپنی اصلاح کر لی، تو وہ عمر بھر کے لئے آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے اور آپ کو اللہ تعالیٰ ذریعہ بنا رہا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کچھ اور نہیں کرسکتا، تو اس طرح ممبر پر بیٹھ کر ہی بات کرنے سے کام زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔ اب اگر وہ کہہ دے اور کسی کو تیار کر لے، تو کام اور محنت تو وہ کرے گا، جس کے پاس وہ گیا ہے، لیکن آپ کو بھی برابر کا اجر ساتھ مل رہا ہوگا۔ پس اتنی بڑی investment کا موقع آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا، تو آپ کیوں نہیں کرتے؟ یہ بہت بڑی اہم بات میں عرض کررہا ہوں، میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جیتی جاگتی مثال ہے۔ ایک بچہ تھا، وہ کسی مدرسہ میں چلا گیا اور وہاں پر داخلہ لیا۔ وہ علاقہ ایسا تھا، جہاں پر ختم والے لوگ تھے یعنی وہ لگ تھے جو ختموں کے پیچھے جاتے ہیں۔ پس وہ بچوں کو ختم کے لئے لے گئے، کوئی چوہدری صاحب تھے، جنہوں نے ان کو بلایا تھا۔ بہرحال یہ ہے کہ وہ سب کو کھانا بھی دے رہے تھے، کھانا کھلایا بھی رہے تھے اور لوگ گھر کے لئے برتن بھی لے گئے تھے۔ تو اس بچے سے پوچھا کہ آپ کا برتن؟ اس نے کہا کہ برتن کس لئے؟ اس کو پتا ہی نہیں تھا، کیوں کہ نیا بچہ تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا، آپ ابھی آئے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ بس ٹھیک ہے، آپ ادھر بیٹھ جائیں۔ اس کو بٹھا دیا باقی سب کو رخصت کر دیا، اس کے بعد اس نے کہا کہ بیٹا! بات سنو، یہ مدرسہ جس میں آپ آئے ہیں، اس میں تو یہ ہوتا رہے گا، جو آپ نے دیکھ لیا۔ یہاں تو آپ کو بس برتن لے جانا ہے اور کھانا کھانا ہے اور لے جانا ہے، یہاں اور کچھ نہیں ہوگا۔ اگر آپ نے پڑھنا ہے، تو دیوبند چلے جاؤ، وہاں پر آپ کو صحیح پڑھائی مل سکتی ہے۔ میں آپ کو پیسے اور زادِ راہ دیتا ہوں کہ آپ وہاں تک پہنچ جاؤ گے، آگے جا کر وہ ٹیسٹ لے لیں گے، اگر آپ کامیاب ہوگئے اور آپ کی قسمت ہوگی، تو آپ اس میں پڑھ لیں گے۔ پھر آگے آپ کے ساتھ جو بھی ہونا ہوگا، ہوجائے گا۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ بہرحال! اس نے پیسے دے دیئے اور اس کو رخصت کر دیا۔ وہ چلا گیا اور دیوبند پہنچ گیا، ٹیسٹ دے دیا، کامیاب ہوگیا اور عالم فاضل ہوگیا، پھر ما شاء اللہ اپنے علاقہ میں انقلاب لے آیا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت دیوبند کا فاضل کوئی معمولی شخص تو نہیں ہوتا تھا۔ تو وہ پورا انقلاب لے آیا۔ اب اس چوہدری صاحب کو پتا نہیں، وہ پتا نہیں کس وقت فوت ہوچکا ہو، لیکن اس کے لئے کتنا بڑا صدقہ جاریہ ہوگیا اور اس پورے علاقہ کو اٹھانے کے لئے وہ استعمال ہوگیا۔ محنت تو اس بچے نے کی، لیکن یہ اس کے لئے ذریعہ بن گیا۔ اس وجہ سے ان چیزوں میں اگر صدقہ جاریہ کے لحاظ سے سوچا جائے، تو بہت بڑا اجر ہے، اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 35:

حضرت! اس دفعہ اس رمضان میں بہت problem رہا ہے ہمارے ساتھ calendar کے حوالہ سے، ہم نے آپ والا کلینڈر panaflex میں بڑا کر لگایا تھا، اب اس سے دو منٹ پہلے روزہ کھل رہا ہے، اعلان ہو رہے ہیں، پھر یہاں سے ہوٹر بج رہے ہیں، نمازی روزانہ کہتے تھے کہ آپ کا calendar سب سے آخر میں کھل رہا ہے۔ آپ نے اس کی ترغیب بھی دی ہے، تین منٹ پہلے روزے بند ہو رہے ہیں اور آپ کا calendar بعد میں بند کروا رہا ہے، کبھی آپ کا calendar پہلے کھولتا ہے، یعنی گھروں میں اور آلہ آباد میں بھی یہ مسئلے ہونے لگے۔ پھر میں نے ایک دفعہ جمعہ پڑھایا، میرے جمعہ کا ٹائم آدھا گھنٹہ ہے، بیس منٹ تو میرے جمعہ کے آپ کے تعارف پہ لگ گئے، میں نے بتایا کہ جنہوں نے یہ بنایا ہے، وہ کون ہیں اور کیا ہیں، سارا کچھ ان کو بتایا اور ان کو میں نے اس وقت آپ کا سارا تعارف کروایا، لیکن اٹھائیس رمضان تک بھی لوگوں کو یہ مسئلہ رہا، کافی لوگوں کو ہم نے روک دیا، یعنی ان میں سے جو لوگ ماننے والے تھے، وہ رک گئے۔

جواب:

اصل میں میں آپ کو بتاؤں کہ اس میں گر کی بات کیا ہے۔ اصل میں سرخ گھڑیاں مسئلہ ہیں، بنیادی مسئلہ ان کا ہے۔ میں آپ کو ابھی کل کی بات سناتا ہوں، چونکہ آج کل روزے ہو رہے ہیں، لوگ روزے رکھ رہے ہیں، تو کل اذان وقت سے پہلے ہوئی تھی، اچھا ہوا کہ میرے پاس مولانا ممتاز صاحب نمبر تھا، میں نے ان کو message کیا کہ کل کسی صاحب نے مغرب کی آذان مسجد کی سرخ گھڑی کے مطابق دی تھی، جس میں مغرب کا وقت دکھایا جا رہا ہے، جس میں احتیاط شامل نہیں ہے، آج کل لوگ چونکہ روزے رکھ رہے ہیں، ایسے میں لوگوں کے روزے خراب ہوسکتے ہیں، اگر ان کو سمجھا دیا جائے کہ یا تو باہر جو نقشہ لگا ہوا ہے، اس کے مطابق اذان دے دیا کریں یا پھر اس گھڑی میں تین منٹ احتیاط کے طور پہ جمع کئے جائیں، جس کا اس گھڑی میں انتظام موجود ہے۔ یہ میں نے ان کو message کیا، الحمد للہ! میں جس وقت ظہر کی نماز میں گیا، تو تبدیلی ہوچکی تھی، یعنی چھیالیس کی جگہ اونچاس لکھا ہوا تھا۔ مولانا صاحب نے مجھے کہا کہ میں نے تبدیلی کر دی ہے۔ میں نے بیٹوں سے کہا، تو انہوں نے کہا کہ اس میں انتظام موجود ہے۔ تو مسئلہ حل ہوگیا۔ میں تو اعتکاف میں تھا، مجھے تو پہلے پتا نہیں تھا، پتا نہیں کیا صورتحال ہوتی۔ لہٰذا یہ سرخ گھڑیوں کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا اس پر باقاعدہ ایک mission کے طور پہ کام کرنا ہوگا، اس کو بطور mission لینا ہوگا، یعنی سب کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اس میں جو وقت دیا گیا ہے، یہ حسابی وقت ہے اور اس کے اندر احتیاطی وقت شامل کرنا چاہئے۔ مثلاً: موٹی سی بات ہے کہ اس میں منٹ دیئے جا رہے ہیں، seconds تو نہیں دیئے جا رہے، تو آدھے منت کا فرق تو اس میں اس کی وجہ سے آگیا۔ پھر اس میں پورے اسلام آباد یا راولپنڈی کا عرض بلد اور طول بلد لیا گیا ہے، تو باقی جگہوں پر جو یہ استعمال ہوگا، تو ظاہر ہے کہ اس میں کچھ فرق تو پڑے گا، اسی طرح کی چار پانچ وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اس میں فرق آتا ہے۔ ہم نے ایک شہر کے لئے تقریباً تین منٹ کا اندازہ لگایا ہے، چھوٹے شہروں میں دو منٹ اور بڑے شہروں میں تین منٹ کے لگ بھگ اندازہ ہوجاتا ہے۔ اب اگر آپ احتیاط نہیں کرتے، تو شک میں پڑ جاؤ گے اور رمضان شریف میں یا کسی بھی روزے کے لئے شک کا دور کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے غروبِ آفتاب خود دیکھ لیا یعنی سورج غروب ہوتے ہوئے اس کا مشاہدہ کر لیا، تو اس کو کسی نقشہ کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کو شک ہی نہیں ہے، وہ تو یقین کی بات ہے، لیکن حسابی وقت میں شک والی بات ہے، جب تک آپ کو یقین نہ ہوجائے۔ لہٰذا یقین تب ہوگا، جب اس میں امکانِ شک جتنا ہوگا، اس کو ختم کرلیں۔ جب تک آپ وہ احتیاط نہیں کریں گے، اس وقت تک وہ شک ختم نہیں ہوگا۔ آپ سحری تو بے شک اس کے ساتھ کرسکتے ہیں مشکوک وقت کے ساتھ، لیکن افطاری تو مشکوک وقت کے ساتھ نہیں کرسکتے، کیونکہ اس وقت دن یقینی ہے اور رات میں شک ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ﴾ (الاسراء: 78)

ترجمہ: ’’رات کے اندھیرے تک‘‘۔

یعنی جب تک رات نہیں ہوتی، اس وقت تک آپ افطار نہیں کرسکتے، یعنی رات کا یقین ہونا ضروری ہے، اس وجہ سے یہ کام کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں یہ علماء کا کام ہے، اکیلے میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ میں کروں گا، تو پھر سوال اٹھیں گے کہ فلاں یہ کہہ رہا ہے، فلاں یہ کہہ رہا ہے۔ علماء جب یہ بات کریں گے، تو کم از کم وہ اپنی اپنی جگہ اپنی ذمہ داری پوری کرلیں گے، اس سے پھر یہ مسئلہ حل ہوگا۔ اس میں اگر آپ حضرات جو علماء کرام ہیں، علاقہ کے جو اپنے حضرات ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات تو ہوتے ہی ہیں، ان سب کو ایک تحریر بنا کے دے دی جائے اور اگر وہ چاہیں کہ اس کی تشریح ان کو کی جائے، تو پھر مجھے بلایا جاسکتا ہے، میں اس کے لئے حاضر ہوجاؤں گا، مجھے کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن پہلے سے ذہن بنا ہو بات سننے کے لئے، اگر میں خود چلا جاؤں گا، تو ان کو قدر نہیں ہوگی، وہ سمجھتے ہوں گے کہ پتا نہیں کیوں آیا ہے، اس کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن جب خود ان کو ضرورت محسوس ہوگی، تو پھر میں جاؤں گا، تو میری بات بھی سنیں گے اور اس سے فائدہ بھی ہوگا۔ جیسے آپ نے کہا کہ آپ کو بیس منٹ لگے تعارف کرنے میں، تو یہ مسئلہ تو پھر بھی ہوگا۔ پس یہی میرا خیال ہے، اس طریقہ سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے، ورنہ یہ معاملہ پھر بھی ہوگا۔ اور ان سرخ گھڑیوں نے بہت مسئلہ بنایا ہوا ہے، کیونکہ لوگوں کو اس کا educate کرتے نہیں ہیں اور گھڑی لگا لیتے ہیں۔ اب وہ جو مؤذن ہوتے ہیں، ان کے پاس علم تو نہیں ہوتا، بس وہ کہتے ہیں کہ بس وقت داخل ہوگیا ہے میں آذان دیتا ہوں، حالانکہ مؤذن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس چیز کا علم حاصل کرے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس کے گلے میں لوگوں کی نمازیں اور روزے لٹکے ہوئے ہیں، اس کو جواب دینا پڑے گا کہ میں نے صحیح وقت پہ اذان دی ہے یا صحیح وقت پہ نہیں دی۔ جب تک اس کے پاس علم نہیں ہوگا، تو وہ جواب نہیں دے سکے گا۔

سوال نمبر 36:

ایک علاقے کا نقشہ لوگ دوسے علاقے کے لئے استعمال کرتے ہیں، مثلاً بنوں کا میران شاہ میں استعمال کرتے ہیں۔ تو اس میں بہت فرق آجاتا ہے۔

جواب:

صحیح ہے۔ اصل میں پہلے تو یہ چیز بہت زیادہ تھی، کیونکہ نقشے نہیں تھے، اب تو الحمد للہ! آج کل نقشے ہیں، لیکن ان تک رسائی ہو۔ ہماری ویب سائٹ پہ ہر جگہ کے نقشے بنے ہوئے ہیں، لیکن ان تک رسائی ہو، ان کے بارے میں معلومات ہوں، ان کا لوگوں کو پتا ہو، تو وہ download کر کے استعمال کرنا شروع کرلیں گے، لیکن اگر یہ انتظام نہ ہوچکا ہو، جس کا میں عرض کررہا ہوں، تو ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ہم نے آپ کو نقشہ دیا ہوا تھا لیکن آپ کو مسائل ہوگئے۔ پھر جب وہاں کمپیوٹر سے download کریں گے، تو اس میں مسائل تو اور بھی زیادہ ہوں گے، کیونکہ تعارف کرانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا، وہ سوچیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، لہٰذا اس سے پھر فائدہ نہیں ہوگا، پھر confusion ہی ہوگی، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 37:

بعض اوقات گھڑیوں میں بھی فرق ہوتا ہے، کسی کا ٹائم دو تین منٹ آگے اور کسی کا پیچھے ہوتا ہے؟

جواب:

ہم نے تو اپنے نقشوں کے اوپر لکھا ہوا ہے کہ گھڑی کا ریڈیو ٹائم کے مطابق درست ہونا ضروری ہے۔ ریڈیو کا ٹائم چھوڑیں، آج کل تو انٹرنیٹ سے بالکل direct موبائل کے اوپر بھی صحیح ٹائم آجاتا ہے، لہٰذا موبائل سے ہی دیکھ لیا کریں اور اس کے ساتھ ملا دیا کریں۔ جیسے میرے موبائل پہ جو ٹائم آرہا ہے، یہ بالکل صحیح ٹائم ہے یعنی 08:32 منٹ اور وہ غلط ٹائم ہے یعنی 08:33 منٹ۔ آج کل تو آسانیاں ہیں، آپ دنیا کی کسی بھی جگہ کا وقت انٹرنیٹ پہ دیکھو کہ وہاں پر کتنے بجے ہیں، تو وہ آپ کو فوراً دے دے گا۔ آسانیاں تو ہیں، لیکن لوگوں کو طریقہ بھی آنا چاہئے اور معلومات بھی ہونی چاہئیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب