شکر بہت بڑی دولت ہے

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد الکوثر - ریلوے جنرل ہسپتال، راولپنڈی

اس جمعہ کے بیان کا مرکزی پیغام اللہ تعالیٰ کی دو عظیم تعلیمات پر مبنی ہے: شکر اور استغفار۔ ہمیں سب سے پہلے اللہ کی سب سے بڑی نعمت، یعنی ایمان کی قدر کرنی چاہیے جو دنیا کی ہر دولت سے بڑھ کر ہے، اور ساتھ ہی انسان اور امتِ محمدی ﷺ میں پیدا ہونے پر بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکر کرنے سے اللہ ہماری نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔ دوسری جانب، موجودہ دور کے فتنوں اور اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دو مضبوط قلعے ہیں: پہلا، نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود بھیجنا اور آپ کی سنت پر عمل کرنا، اور دوسرا کثرت سے استغفار کرنا۔ یہی وہ اعمال ہیں جو ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہیں اور ہمیں ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾1۔ ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾2۔

صَدَقَ اللّٰهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ وَصَدَقَ رَسُولُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيمُ

معزز خواتین و حضرات! میں نے چند آیات مبارکہ تلاوت کی ہیں، اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں: اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں کو مزید بڑھا دوں گا اور اگر انکار کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔

اور دوسری آیت کریمہ میں اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ پاک کو کیا ضرورت ہے کہ ان کو عذاب دے جبکہ آپ ان میں ہیں، وہ نہیں عذاب دینے والا ان کو، کیونکہ یہ استغفار کرنے والے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ جل شانہٗ ان لوگوں کو عذاب سے بچا دیتے ہیں جو استغفار کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا تعلق جو ہے یہ بھی عذاب سے بچانے کے لیے بہت اہم ہے۔ اب ہماری زندگی میں اگر ہم ذرا غور سے دیکھیں، تو اللہ جل شانہٗ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ لاتعداد نعمتیں، قدم قدم پر نعمتیں ہی نعمتیں ہیں بعض نعمتیں بالکل واضح ہیں یعنی ہر ایک آدمی کو نظر آتی ہیں اور اگر پھر بھی نظر نہیں آتیں تو تکبر کی وجہ سے نظر نہیں آتیں اور بعض نعمتیں ذرا سوچ کے سمجھ میں آتی ہیں تو یہ نعمتیں غافل لوگوں کو نظر نہیں آتیں، مثلاً اگر ہم دیکھیں تو اس وقت جو سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے سب سے بڑی نعمت، سب سے بڑی نعمت، وہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایمان نصیب فرمایا، اس نعمت کے مقابلے میں اور کوئی نعمت نہیں آ سکتی، کیونکہ ایمان وہ دولت ہے اگر یہ کسی کے پاس ہو اور باقی کچھ بھی نہیں تو وقتی تکلیف تو ہو سکتی ہے اور ہمیشہ کے فائدے ہیں اور اگر یہ نعمت نہیں ہے اور باقی سب کچھ ہے تو کچھ وقت کے لیے تو ان نعمتوں سے شاید فائدہ اٹھا سکے لیکن بعد میں مصائب ہی مصائب تکالیف ہی تکالیف، پریشانیاں ہی پریشانیاں، ذلت ہی ذلت، رسوائی ہی رسوائی ہے۔ اس وجہ سے اس نعمت کی بہت قدر کرنی چاہیے اس نعمت پر بہت شکر ادا کرنا چاہیے۔ اب ہم میں سے دیکھیں ہم اپنے آپ کو کہ ہم کتنا شکر کرتے ہیں اس کا، شاید یاد بھی ہو کہ اتنی نعمت اللہ تعالیٰ نے بڑی ہمیں عطا فرمائی ہیں، کیونکہ بعض لوگ ناسمجھی کی وجہ سے کہہ اٹھتے ہیں کہ ان مسلمانوں سے تو کافر اچھے ہیں۔ یہ وہ کلمہ ہے جو انتہائی جہالت پر منحصر ہے، اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی جو فیکٹری کا مالک ہو مثلاً، یہ بھی مثال میں بہت تھوڑی دے رہا ہوں لیکن سمجھنے کے لیے دے رہا ہوں کہ ایک شخص کے پاس فیکٹری ہے اور دوسرے کے پاس ماچس ہے تو کہتے ہیں ماچس والا فیکٹری والے سے زیادہ مالدار ہے، اب ایسے آدمی کو کیا کوئی عقلمند کہے گا؟ میری بات سے شاید آپ حیرت میں مبتلا ہوئے ہوں لیکن بہت جلدی حیرت دور ہو جائے گی، کافروں کو جو لوگ اچھا سمجھتے ہیں بعض چیزوں میں، وہ اعمال کی وجہ سے ہے، مثلاً دیانت دار ہوں گے dutiful ہوں گے، ذمہ دار ہوں گے، تو ٹھیک ہے اچھی صفات ہیں، اس سے انکار نہیں ہے۔ لیکن ہیں یہ اعمال ہیں، جبکہ ایمان جو ہے یہ ایسی چیز ہے کہ تمام اعمال ان پر منحصر ہیں۔ اگر یہ ہے تو اعمال کی قیمت ہے۔ اگر یہ نہیں تو اعمال کی قیمت ہی نہیں۔ مثلاً کسی چیز کو صفر سے ضرب دو چاہے کوئی کتنی بڑے سے بڑی چیز ہو اگر صفر سے ضرب دے تو کیا بچے گا؟ ظاہر ہے وہ چیز صفر ہو جائے گی۔ اس طرح کافروں کے جتنے اعمال ہیں چاہے کتنے ہی اچھے ہیں دنیاوی لحاظ سے، لیکن ایمان نہیں ہے تو آخرت میں اس کی value صفر ہے۔ دنیا میں ان کو فائدہ ملے گا، یقیناً ملے گا۔ کیونکہ اللہ پاک کے ہاں بے انصافی نہیں ہے۔ چونکہ انہوں نے دنیا کے لیے کیا ہے تو دنیا میں ان کو فائدہ ملے گا۔ مثلاً سچ بولے گا تو سچ کا جو فائدہ ہے وہ ان کو ملے گا۔ dutiful ہوں گے تو ڈیوٹی کا فائدہ ان کو ملے گا۔ دیانت دار ہوں گے تو دیانتداری کا فائدہ ان کو ملے گا۔ مثلاً ہندوؤں کی جو دکانیں ہوتی ہیں ان لوگوں نے جو اپنی پلاننگ کی ہوتی ہے تجارت کی تو وہ تجارت پہ چھا جاتے ہیں۔ کیوں؟ تھوڑا کماتے ہیں۔ تو زیادہ لوگ ان کے پاس آتے ہیں۔ نتیجتاً Overall ان کو فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ہر Item میں تھوڑا ہوتا ہے، یہ ان کا طریقہ کار ہے اس سے ان کو فائدہ ہوگا، ہم لوگوں کو یہ چیز شاید نہیں آتی، میں جرمنی میں تھا تو اکثر چیزیں چونکہ حلال ترکوں کے ساتھ ملا کرتی تھیں تو میں ان سے لیا کرتا تھا لیکن بعض چیزیں جن کا، مطلب اس سے تعلق نہ ہو، مثلاً وہ ہر جگہ حلال ہی ہوتی ہیں مثلاً کیلا میں کافر سے بھی لے لوں تو حلال ہی ہوگا ناں، وہ حرام تو نہیں ہو سکتا، تو ایسی چیزیں ہم دوسری دکانوں سے بھی لیا کرتے تھے تو ان کے ہاں یہ مسئلہ تھا کہ وہ ہم لوگ جو کیلا کھاتے ہیں وہ ذرا پکا کھاتے ہیں جب زرد ہو جاتا ہے اس کے اوپر وہ سیاہ دھبے آ جاتے ہیں میٹھا ہو جاتا ہے ہم اس وقت یہ کیلا کھاتے ہیں، جبکہ ان کے ہاں دستور تھا کہ وہ سبز حالت میں کھاتے ہیں، ہم اس کو کچا سمجھتے ہیں، لیکن ان کا شوق ہے بس وہ یہی کھاتے ہیں، اس وقت اس کی قیمت زیادہ ہوتی تھی لیکن جب وہ زرد ہو جاتا تھا تو ان کی قیمت کافی گرا دیتے تھے حتیٰ کہ وہ نہ ہونے کے برابر قیمت ہو جاتی تھی اس کی، تو ہم لوگ اس وقت چونکہ لیتے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے بڑی فائدے کی بات تھی، ہمارے ترک بھائی جو تھے وہ اس کو ایک مارک کلو سے نیچے نہیں لاتے تھے جبکہ جو جرمن تھے وہ چند پیسوں پہ اس وقت دے رہے تھے۔ تو میں نے ان ترکوں سے کہا میں نے کہا خدا کے بندو آپ کیا کر رہے ہو؟ دیکھو مارکیٹ پہ وہ چھا رہے ہیں۔ تو تم لوگ اس کو Dustbin میں تو پھینکتے ہو لیکن اس کو سستا نہیں دیتے ہو۔ اس وقت سستا کر لیا کرو تو لوگوں کو بھی فائدہ آپ کو بھی فائدہ۔ کم از کم خراب تو نہیں ہوں گے۔ تو ہم لوگوں کو یہ طریقہ نہیں آتا۔ لیکن ان کو آتا ہے۔ تو ان کو دنیا کا فائدہ ہے لیکن آخرت، سبحان اللہ! اس میں تو وہ اعمال کام آئیں گے جو ایمان کی حالت میں کئے ہوں گے، ایمان کی value بہت بڑی ہے، تو میں جب پہلے پہلے گیا تو وہاں پر ہمارے ایک ساتھی تھے پاکستانی ان کی صرف ترکوں کے ساتھ کوئی اَن بن رہی ہوگی تو میں نے ترکوں کی تعریف کی، کیونکہ ہم ترکوں کو اچھا سمجھتے ہیں، مجھے کہتے ہیں آپ ابھی ابھی آئے ہیں نا تو ٹھیک ہے آپ، سمجھ آ جائے گی آپ کو، پھر بعد میں پتا چل جائے گا یہ کیسے ہیں، تو میں نے کہا آپ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کریں گے ناں کہ گنہگار ہیں اس سے زیادہ تو نہیں کر سکتے، کافر تو نہیں ہیں ناں، کہتے ہیں ہاں، تو میں نے کہا یاد رکھو، ایک طرف ساری کافر جرمنی کو ایک پلڑے میں بٹھا دو اور دوسرے میں ایک گنہگار سے گنہگار ترک کو بٹھا دو تو اللہ کے ہاں اس گنہگار سے گنہگار ترک کی قیمت زیادہ ہے، ان پہ بھاری ہے، کیونکہ ایمان کی value یہ بہت بڑی ہے، اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، مثلاً دیکھو ناں Infinite زندگی جو ہماری آخرت کی Infinite زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی وہ سارے ایمان پر منحصر ہے۔ پس اگر خدانخواستہ کسی میں ایمان نہیں ہے تو اس کی Infinite زندگی عذاب والی زندگی ہے۔ اور اگر کوئی مسلمان ہے اس میں ایمان ہے تو اس کا کچھ حصہ وہ عذاب میں جا سکتا ہے برے اعمال کی وجہ سے، لیکن بالآخر جنت میں جائے گا اور جب جائے گا تو پھر واپس نہیں نکلے گا اس سے، پھر اسی میں رہے گا، پتا چلا کہ ایمان کی قیمت کیا ہے۔

تو سب سے پہلے میں نے عرض کیا کہ ہم اپنے ایمان کو ذرا دیکھیں کہ ایمان کی دولت اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمائی ہے، اس پر ہمیں بہت شکر کرنا چاہیے، بہت شکر کرنا چاہیے، بہت شکر کرنا چاہیے، اللہ پاک نے اتنی بڑی دولت سے جو ہمیں نوازا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کافروں میں بڑے ذہین ذہین لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہوشیار ہوشیار لوگ ہوتے ہیں، لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس میں ان کے دماغوں کو تالا لگ جاتا ہے، سمجھ نہیں آتی ان کو، تو ایک تو ہمیں اس پر اللہ پاک کا بہت شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا۔

دوسری بات، اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ۔ ہمیں بچھو بھی بنا سکتے تھے، ہمیں سانپ بھی بنا سکتے تھے، گدھا بھی بنا سکتے تھے، اونٹ بھی بنا سکتے تھے، ہر چیز جو بھی اللہ چاہتا وہ ہمیں بنا سکتا تھا، لیکن ہمیں اللہ پاک نے ہم پر فضل کر کے احسان کر کے ہمیں انسان بنایا: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾3 تو اس پر ہم بڑا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا، اللہ جل شانہٗ نے ہمیں انسانیت سے روشناس کرایا۔ ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَیَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾4 اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، یعنی اپنا زمین پر خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، فرشتے حیرت میں پڑ گئے، سمجھ ان کو نہیں تھی، ظاہر ہے جو علم میں اللہ کے تھا وہ فرشتوں کے علم میں نہیں تھا، وہ جنات کی زندگی کو دیکھ چکے تھے آپس میں لڑتے بھڑتے تھے خون خرابہ ان کا ہوتا تھا، تو سمجھتے تھے کہ انسان بھی ایسے ہوں گے، تو انہوں نے کہا کہ یا اللہ! وہ تو فساد ہی مچائیں گے، خون بہائیں گے اور ہم تیری تسبیح کرتے ہیں، تیری تقدیس کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا بے شک میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ یہ حاکمانہ جواب تھا یہ حاکمانہ جواب تھا: ’’بے شک میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘۔ فرشتے تو اسی وقت سرنڈر کر چکے تھے، بس مان گئے، ہاں! چونکہ اللہ جل شانہ حکیم بھی ہے اور ساتھ ساتھ یعنی قدیر بھی ہے، تو حکمت کی وجہ سے فرمایا کہ اچھا آدم علیہ السلام کو کچھ اسماء بتا دئیے اور فرشتوں کے سامنے، فرشتے بھی تھے ان کو بھی، پھر اس کے بارے میں پوچھنے لگے۔ اب جو صلاحیت اللہ پاک نے انسان میں رکھی تھی اس کی بنیاد پر آدم علیہ السلام نے جواب دیا، فرشتے جواب نہیں دے سکے، تو فوراً اللہ پاک نے فرمایا: میں نہیں کہتا تھا کہ میں جو جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے۔ تو فوراً انہوں نے کہا: ﴿قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ5 ’’تو کہا انہوں نے تو پاک ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جس کا علم تو نے ہمیں دیا ہے بے شک تو علیم بھی ہے، حکیم بھی ہے۔

تو انسان کی اللہ پاک نے اس وقت اس کی پیدائش سے پہلے تعریف کی ہے، بلکہ فرشتوں کو سمجھایا کہ تم یہ چیز نہیں سمجھتے۔ اب ہمیں اس سے کیا اندازہ لگانا چاہیے؟ یہ جو انسانیت کی ذمہ داری ہے اس کو ہمیں سمجھنا چاہیے یا نہیں سمجھنا چاہیے؟ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ سبحان اللہ سبحان اللہ۔ ایک اور موقع پر اللہ پاک نے فرمایا، یعنی یہ جو اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری تھی اس کی، وہ پہاڑوں پہ پیش کی، زمین و آسمان پہ پیش کی، نہیں اٹھا سکے، انسان نے اٹھا لی، اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿ظَلُوْمًا جَهُوْلًا6 مطلب یہ نادان ہیں یعنی عشق کی وجہ سے اس نے کر لیا جیسے ہوتا ہے ناں یہ بڑا نادان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کا معاملہ انسان کے ساتھ عشق و محبت کا ہے، عشق محبت کا ہے، لہٰذا انسان کو بھی اس کا جواب اسی طرح دینا چاہیے، انسان کو بھی اس کا جواب اسی طرح دینا چاہیے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے عشق سے سرشار اور محبت سے ہر چیز کو دیکھیں، علامہ اقبال نے بھی کہا ہے ناں کہ؎

ٹھیک ہے عقل آزما لیں، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔7


ہاں جی مطلب یہ کہ دل کا معاملہ جو ہے نا ٹھیک ہے عقل اس کی پاسبان رہے، لیکن کبھی کبھی اس کو تنہا بھی چھوڑنا، کچھ چیزیں ایسی ہیں جو عقل کی سمجھ میں نہیں آتیں، وہ محبت کی باتیں ہوتی ہیں تو یہاں پر معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ محبت کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی جواب میں ہم سے محبت چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سے بھی جواب میں محبت چاہتے ہیں، تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو دیکھو اللہ پاک نے ایمان کی دولت سے نوازا ہے سبحان اللہ! پھر اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا۔ پھر تمام انسانوں میں اور ایماندار لوگوں میں ہمیں اُس امت میں اٹھا دیا جو سب سے زیادہ افضل امت ہے، سب سے زیادہ افضل امت ہے۔ آپ ﷺ کی برکت سے یہ امت جو ہے سب سے افضل امت ہے۔ عمر اس کی کم ہے، فضیلت زیادہ ہے، تو یہ فضیلت کیسے ہے؟ ذرا اس کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اللہ اکبر۔ اب دیکھیں اللہ جل شانہٗ نے ہمیں کچھ ایسے اعمال عطا فرمائے ہیں کہ ان اعمال کو اگر ہم کر لیں تو ہم گزشتہ امتوں سے بہت آگے چلے جائیں۔ بہت آگے، ان کی ہزار سال کی زندگی، پندرہ سو سال کی زندگی، اس میں جو کچھ کر سکتے تھے اس سے زیادہ ہم کر لیں گے، اگر ہم لوگ تھوڑا سا ان چیزوں کو جان لیں، مثلاً اللہ پاک نے ہمیں ليلة القدر سے نوازا: ﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚ ۝ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ ۝ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ8 بے شک اس قرآن کو ہم نے نازل کیا قدر والی رات میں اور تمہیں کیا پتا ہے ليلة القدر کیا چیز ہے؟ ليلة القدر ہزار مہینوں سے افضل رات ہے، ہزار مہینوں سے۔ اب ایک رات ہزار مہینے سے اگر افضل ہو تو سالوں میں اگر convert کیا جائے یہ تقریباً 83 سال بنتے ہیں، ہزار مہینے 83 سال بنتے ہیں اور یہ ہر سال یہ آتا ہے، ہر سال آتا ہے۔ پس ہر شخص کو ہزار مہینوں یعنی گویا کہ 83 سال کی عبادت اس رات میں مل سکتی ہے، اگر 10 سال کسی کو مل جائیں ایسے تو 830 سال، اگر 20 سال کسی کو مل جائیں تو 1660 سال، اگر 30 سال کسی کو مل جائیں تو تقریباً ڈھائی ہزار سال، اب بتاؤ دیکھو! گذشتہ امتوں میں کسی کے ڈھائی ہزار سال ہوئی عمر؟ اور یہ ہر سال ملا کرتی ہے، ہر سال ملا کرتی ہے۔ اچھا اس کے بارے میں میں آپ کو ایک بات بتاؤں عموماً لوگ ایک کنفیوژن میں مبتلا ہیں عموماً، زیادہ تر، وہ کنفیوژن یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کوئی لمحہ ہے، کوئی لمحہ ہے اس لمحے میں اگر کوئی جاگ رہا تھا، کوئی مانگ رہا تھا تو اس کا کام بن جاتا ہے اس لمحے میں اگر کوئی غافل ہے بس کچھ بھی نہیں ملا۔ یہ بڑی کنفیوژن ہے، قرآن میں جس وقت اس کا ذکر ہے تو اس میں لَمْحَۃُ الْقَدْرِ نہیں فرمایا لَيْلَةُ الْقَدْرِ فرمایا یعنی پوری رات، ﴿هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾9 انتہا اس پر ہے، یعنی فجر تک یہ چلتی ہے، مطلب طلوع فجر ہو جاتا ہے تو پھر یہ ختم ہوتی ہے۔

تو رات کب سے شروع ہوتی ہے؟ مغرب سے، سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی رات شروع ہوتی ہے، ﴿اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ﴾10 اچھا اور اس سے شروع ہو کر مَطْلَعِ الْفَجْرِ تک رات چلتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ پوری رات سبحان اللہ ایسی ہے، اچھا اس پوری رات میں آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ ایک دفعہ سبحان اللہ کہہ دیں گے تو ایسا ہے جیسے کہ آپ نے ہزار مہینے ہر رات کے اندر ایک دفعہ سبحان اللہ کہا ہے۔ آپ اس میں دو رکعت نفل پڑھ سکتے ہیں، تو ایسے جیسے آپ نے ہزار مہینے ہر رات کے اندر دو رکعت نفل پڑھیں۔ آخر یہ رمضان شریف کا مہینہ ہوتا ہے نا تو مسلمان تو اس میں تراویح پڑھتے ہیں، تو 20 رکعت تو کم از کم فرض نماز کے علاوہ پڑھ ہی لیتے ہیں ناں اور مغرب اور عشاء کی دو نمازیں بھی ہیں، تو یہ فرض نمازیں ہوگئیں اور تراویح علیحدہ سنت مؤکدہ ہے، وہ نماز ہوگئی، یہ تو ہر ایک مسلمان جو کم از کم اتنا جانتا ہو کہ رمضان شریف کا مہینہ کیا ہے، تو وہ تو پڑھتے ہیں ناں۔ تو یہ تو ہر ایک کے حصے میں آ جاتا ہے اور اس کے بعد سبحان اللہ اور جتنا بھی پڑھ لیں، ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو ایک رات میں پورا قرآن پڑھ لیتے ہیں، ہم نے دیکھا ہے، مطلب یہ کوئی مبالغے والی بات نہیں ہم نے دیکھا ہے، دیکھنے والی بات کر رہا ہوں سننے والی بات نہیں کر رہا، اور تراویح میں۔ ایک آدمی نے تراویح میں دو رکعت میں پورا قرآن پڑھا ہے اور پورا مطلب ایسا پڑھا ہے جس کو سمجھ میں آتا تھا یعنی کوئی ایسا نہیں کہ مطلب دگڑ دگڑ والی بات نہیں تھی وہ ڈاکٹر تھے۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ ایسے ابھی بھی ایسے لوگ ہیں الحمد للہ۔ دعویٰ نہیں کرتا لیکن وہ آدمی زندہ ہے جو تین قرآن روزانہ پڑھتے ہیں، معمول ہے اس کا، انگلینڈ میں ہے، انگلینڈ میں ہے۔ ایسے لوگ۔۔۔۔ لیکن وہ معمولی شخص نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ وہ تو ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کرامتی چیز عطا ہوئی ہے جو عام لوگوں کو اکثر نہیں عطا ہوتی ہے، لیکن یہ دو رکعت میں ختم کرنے والا تو ہم نے خود دیکھا ہے، اس کی تو ہم بات کر سکتے ہیں۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ اللہ پاک نے جن کو نوازا ہوتا ہے ان کو نوازا ہوتا ہے، تو یہ رمضان شریف کا مہینہ میں آپ کو بتاتا ہوں رمضان شریف کا مہینہ ہر دفعہ آتا ہے، پھر یہ شب برات یہ ابھی 15 شعبان کو آرہی ہے یہ بھی ہر سال آتی ہے، اس میں بھی سبحان اللہ پتا نہیں لوگوں کی کہاں کہاں تک بات پہنچ جاتی ہے اللہ والوں کی۔ تو یہ اچھا! پھر اس کے بعد سحری کی دعائیں ہیں، افطاری کی دعائیں ہیں اور اس کے علاوہ خانہ کعبہ پہ جا کر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب حرم شریف میں، اور پھر اس کے علاوہ جو ہے ناں آپ ﷺ کے روضۂ اقدس پہ حاضری، مطلب کتنی چیزیں اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔

لیکن ان باتوں کو ہم جان تو لیں ناں کم از کم اس سے فائدہ تو اٹھائیں۔ بہت سارے لوگ ہیں جن کو پتا نہیں ہوتا بعد میں جب ان کو پتا چلتا ہے تو کسی کو 50 سال کی عمر میں پتا چلتا ہے، کسی کو 55 سال کی عمر میں پتا چلتا ہے، کسی کو 60 سال کی عمر میں پتا چلتا ہے، وہ کہتے ہیں اچھا! ایسا بھی ہے، ایسا بھی ہے؟ کہتے: پہلے سوئے ہوئے تھے کیا؟ ظاہر ہے جاگنا چاہیے ناں، انسان کو ان چیزوں کا علم ہونا چاہیے ناں، تو کیسے پتا چلے گا علم کیسے ہوگا؟ بھئی علم والوں کے پاس بیٹھو گے تو پتا چلے گا ناں، آپ جاہلوں کے ساتھ اپنا بیٹھنا گوارا کریں گے تو پھر جاہلیت ہی سمجھ میں آئے گی ناں، علم تو کہاں آئے گا آپ کے پاس، علم تو تب آئے گا جب علماء کے ساتھ آپ بیٹھیں گے اور اللہ والے تب بنو گے جب اللہ والوں کے ساتھ بیٹھیں گے، محبت دل میں تب آئے گی جب محبت والوں کے ساتھ بیٹھ جائیں گے، صحبت کے ساتھ ہی تو سب کچھ ملتا ہے، آپ ﷺ کے صحابہ کا مقام کیوں اتنا اونچا تھا؟ اس لیے اونچا تھا کہ وہ آپ ﷺ کے صحابہ تھے، آپ ﷺ کے صحابہ تھے۔ تو اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ان چیزوں کی قدر کرو، اللہ والوں کے ساتھ بیٹھا کرو علمائے کرام سے پوچھا کرو۔ ﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾11 جاننے والوں سے معلوم کرو اگر تم نہیں جانتے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنی زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے، تو سب سے پہلے جو بات میں نے عرض کی کہ ہمیں شکر کرنا چاہئے، ایمان پر شکر کرنا چاہیے، الحمد للہ ثم الحمد للہ، پھر اللہ پاک نے انسان بنایا ہے اس پر شکر کرنا چاہیے، پھر اللہ پاک نے آپ ﷺ کی امت میں اٹھایا ہے اس پر شکر کرنا چاہیے، پھر اللہ پاک نے ہم لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائی ہے، الحمد للہ! دیکھو یہاں پر جو بیٹھے ہیں ہدایت کی بات ہے ناں اگر ہدایت نہ ہوتی تو پتا نہیں اس وقت ہم کہاں ہوتے۔ یہ تو آپ کو رمضان شریف میں پتا چلے گا آخری عشرے میں لوگ عید کارڈ بیچ کر میوزک لگا کے شور کے ساتھ وہ اپنے مارکیٹ میں پھرتے ہیں اس وقت لوگ تراویح پڑھ رہے ہوتے ہیں، دیکھا ہے آپ لوگوں نے یا نہیں دیکھا؟ بھئی عید کارڈ سے وہ کتنے کما لیں گے؟ لیکن وہ کمانا ان کے کیا کام آئے گا؟ گنوایا انہوں نے کیا؟ ہاں جی عید کی رات، اتنی مبارک رات اس پہ لوگ لہو و لعب میں مبتلا ہوتے ہیں، شعبان کی مبارک رات میں لوگ جو ہے ناں آگ کے ساتھ کھیلتے ہیں، چراغانی میں لگے ہوتے ہیں جبکہ یہ عبادت کی رات ہے، لیکن لوگ اس میں لگے ہوتے ہیں اور اگر ان کو بتا دیا جائے تو بجائے ماننے کے لڑ پڑتے ہیں، یہ ہے جہالت کی بات۔ تو ہم لوگوں کو پہلے شکر کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں ایماندار بنایا ہے، الحمد للہ ثم الحمد للہ، پھر اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا ہے، پھر آپ ﷺ کی امت میں پیدا کیا، پھر ہمیں ہدایت دی ہے الحمد للہ۔ تو جتنا جتنا ہم اس پر شکر کریں گے تو اتنی اتنی نعمت بڑھے گی، ایمان کی نعمت کے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ یقین بڑھے گا، یقین بڑھے گا ہمارا، اور انسان ہونے پر شکر کرنے سے یہ ملے گا کہ انسانیت ہم میں آئے گی، ہمارے اندر انسانیت آئے گی اور آپ ﷺ کی امت میں ہونے پر شکر کرنے میں الحمد للہ آپ ﷺ کی اتباع نصیب ہوگی اور ہدایت پر شکر کرنے سے ہمیں الحمد للہ ہدایت کے راستے ہم پر کھلیں گے، ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا12 جو مجھ تک پہنچنے کے لیے کوشش و محنت کرتے ہیں اللہ پاک نے فرمایا ہم ان کو ضرور بضرور ہدایت کے راستے سجھائیں گے۔ تو شکر بہت بڑی دولت ہے۔ ایک بات۔

دوسری بات میں عرض کرتا ہوں، اس پہ ختم کرتا ہوں، الحمد للہ میں نے ایک آیت شریفہ اور بھی پڑھی ہے۔ وہ یہ ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ﴾13 ہاں! اللہ پاک ان کو عذاب کیوں دے گا حالانکہ آپ ان میں ہیں۔ اس کا مطلب ہے آپ ﷺ کے ساتھ جو ہمارا تعلق ہے ناں یہ بہت قیمتی ہے یہ ہمیں عذاب سے بچا سکتا ہے، اُس وقت کے قریش سے کہا گیا تھا تو جو مسلمان جو ان پر ایمان لائے ہیں ان کی بات کیا ہوگی۔ تو ایک تو آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط سے مضبوط سے مضبوط سے مضبوط ہونا چاہیے، کس طرح؟ دو طریقوں سے مضبوط ہوگا، ایک تو آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھا جائے اور دوسرا آپ ﷺ کا اتباع کیا جائے، آپ ﷺ کا اتباع کیا جائے۔ یہ دو چیزیں ہم اپنے اوپر لازم کر لیں۔ ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے ﴿وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾14 اور اللہ ان کو کیوں عذاب دینے والا ہے جب یہ استغفار کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے استغفار جو ہے یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا چلنا شروع ہوگیا ہے، اللہ بچائے چلنا شروع ہوگیا ہے، آپ کو معلوم ہے یا معلوم نہیں ہے وہ آپ کی اپنی بات ہے، یعنی چلنا شروع ہوگیا ہے آپ ارد گرد حالات کو دیکھ رہے ہیں، نہیں دیکھ رہے ہیں؟ کچھ پتا چل رہا ہے دنیا میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے یا نہیں آ رہی؟ ہماری زندگی کا رخ کچھ پریشانی کی طرف چل رہا ہے یا نہیں چل رہا؟ عذاب کس کو کہتے ہیں؟ تو بہرحال وہ عذاب کا کوڑا چلنا شروع ہوگیا ہے۔ بچنے کا طریقہ ایک ہی ہے، میں نے بتا دیا ابھی، کیا ہے؟ آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرو، اس کا مطلب ہے درود شریف کی کثرت کرو، استغفار کی کثرت کرو اور آپ ﷺ کے اتباع شروع کر لو۔ اس طریقے سے ہماری بچت ہو سکتی ہے، ورنہ معاملہ ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا ہے، معاملہ بہت خطرناک کی طرف جا رہا ہے، مطلب جس وقت دجال آئے گا اللہ بچائے ہمیں، اس وقت یہ حالات ایسے ہوں گے کہ فریب و دجل ایسا ہوگا کہ لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے، ہوشیار سے ہوشیار لوگ بھی اس میں پھنستے جائیں گے، آپ کھلے بندوں، کوئی دیکھ رہا ہوگا یہ کافر ہے پھر بھی اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوگا یہ، یہ عذاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک کے ماتھے کے اوپر کافر لگا ہوا ہے پھر بھی اس کی طرف جا رہا ہے، مجھے بتاؤ اس وقت امریکہ کی لوگ برائی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے؟ گالیاں بھی دے رہے ہیں لیکن امریکہ کا گرین کارڈ ملتا ہے تو کیا کرتے ہیں؟ لوگ خوشی سے دکھاتے ہیں مجھے امریکہ کا گرین کارڈ مل گیا۔ میں ایک دفعہ ایک میرے Colleague تھے مطلب آفس کے، کئی دن میری ملاقات نہیں ہوئی تھی، میں نے ان سے پوچھا میں نے کہا بھئی کیا حال ہے کہتا آپ کو پتا نہیں؟ ایسا دیکھا جیسے بہت بڑا انعام اس کو ملا ہے اور مجھے اس کا پتا نہیں تو حیرت کر رہے ہیں، میں نے کہا کیا ہے؟ کہتے ہیں: مجھے امریکہ کا گرین کارڈ مل گیا ہے۔ میں نے کہا إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔ بھئی آپ کہیں گے آپ نے کیسے إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھا؟ میں جانتا ہوں خدا کے بندو امریکہ میں جاؤ گے تو بے شک تمہیں دنیا مل جائے گی لیکن تمہاری دوسری جنریشن، تیسری جنریشن کافر ہو چکی ہوگی۔

یہ کیا جانتے نہیں ہو تم؟ یہ بات میں ایسے عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ اس وقت جو بورس جانسن تھا مطلب جو وزیراعظم تھا برطانیہ کا، چوتھی پشت میں اوپر مسلمان تھا وہ، ترکی کا تھا اس کا پردادا جو تھا وہ مسلمان تھا ترکی کا تھا اور اس کے بعد پھر سارے دوسری تیسری جنریشن میں سارے عیسائی اور بڑے ہی خبیث قسم کے عیسائی ہیں یہ، مسلمانوں کا سخت دشمن۔ تو یہ بات ہے، اپنی جنریشن کو اگر خراب کرنا ہے تو ادھر چلے جاؤ۔ یہ میں آپ سے سچ کہتا ہوں اس وقت لوگ دیوانے ہو رہے ہیں اگر ان کی طرف سے کوئی چیز مل جائے ناں تو کہتے ہیں واہ سبحان اللہ زندہ باد اور میرے ایک ٹیچر تھے اس کو وہاں سے پی ایچ ڈی کے لیے لیٹر آ گیا وہ سکالرشپ ہوتی ہے تو مجھے دکھا کے اس طرح پڑھ کے کہا ’’امریکہ زندہ باد‘‘۔ اس طرح چوم کے، پھر تھوڑی دیر کے بعد پھر نکالا ’’امریکہ زندہ باد‘‘ چوم کے پھر اس طرح سے۔ یہ بات ہے یہ بات ہے۔ میں آپ کو بتاؤں اللہ نے ہمیں آنکھیں دی ہیں، اس طرح شکر کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں کان دئیے اس کا شکر کیا ہے؟ اللہ پاک نے ہمیں دماغ دے دیا ہے کیا اس طرح شکر کیا ہے؟ اللہ پاک نے ہمیں دنیا جہاں کی چیزیں دی ہیں، کبھی اس طرح شکر کیا ہے؟ امریکہ نے کیا دیا ہے؟ تمہیں وہ پیسے ایسے تو نہیں دیتا، تمہیں گدھوں کی طرح استعمال کرتے ہیں، پھر پیسے دیتا ہے ناں، اللہ تعالیٰ نے تم سے کیا مانگا ہے؟ اللہ تو محتاج نہیں ہے ناں اللہ پاک تو تم سے جو مانگتا تیرے لیے مانگتا ہے، وہ اپنے لیے تو نہیں مانگتا، اپنے لیے تو اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، تو اللہ کا شکر کرو ﴿وَمَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ﴾15 مطلب جو بھی شکر کرتا ہے اپنے لیے شکر کرتا ہے، وہ کسی اور کے لیے نہیں کرتا اور اگر کوئی شکر کرتا ہے ’’وَاللهُ يُحِبُّ الشَّاكِرِيْنَ‘‘۔ اللہ پاک شکر کرنے والے کو پسند فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو شکر کی توفیق عطا فرمائے۔ استغفار کی کثرت کریں اور درود شریف کی کثرت کریں۔ اسی میں ہماری بچت ہے۔ سنت پہ چلنے کی کوشش کر لیں۔ اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کریں۔ علمائے کرام سے مسائل پوچھا کریں۔ اسی میں کامیابی ہے۔ اللہ مجھے بھی نصیب فرمائے، آپ کو بھی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔




  1. ۔ (ابراھیم: 7) ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘

  2. ۔ (الأنفال: 33) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔‘‘

  3. ۔ (التین: 4) ترجمہ: ’’کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔‘‘

  4. ۔ (البقرہ: 30) ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں اللہ نے کہا : میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘

  5. ۔ البقرہ: 32) ترجمہ: ’’وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں۔‘‘

  6. ۔ (القدر: 1-3) ترجمہ: ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔‘‘

  7. ۔ (القدر: 5) ترجمہ: ’’فجر کے طلوع ہونے تک۔‘‘

  8. ۔ (الانبیاء: 7) ترجمہ: ’’اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔‘‘

  9. ۔ (العنکبوت: 69) ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔‘‘

  10. ۔ (لقمان: 12) ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے۔‘‘

  11. ۔ (الأحزاب: 72) ترجمہ: ’’بڑا ظالم، بڑا نادان ہے۔‘‘

  12. ۔ (الإسراء: 78) ترجمہ: ’’رات کے اندھیرے تک۔‘‘

  13. ۔ (الأنفال: 33) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔‘‘

  14. ۔ (الأنفال: 33) ترجمہ: ’’اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔‘‘

  15. اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے


شکر بہت بڑی دولت ہے - جمعہ بیان