اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾1 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍۣ﴾2 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾3 صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ، وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! زندگی بہت تیزی کے ساتھ گزر رہی ہے اور ایک دن یہ ختم ہوجائے گی۔ اور اس کے ختم ہونے پہ، روکنے پہ کوئی قادر نہیں ہے، جو وقت اس کے ختم ہونے کا لکھا ہے، اس پہ سب کو جانا پڑتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی ضروری کام اس کا رہتا ہو، چاہے اس کے کتنے ہی ارمان باقی ہوں، چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کررہا ہو، چاہے کتنے ہی برے کام کررہا ہو، لیکن جب وقت آئے گا، تو جانا پڑے گا۔ اور وہاں کی جو زندگی ہے، وہاں سے پھر واپس آنا ممکن نہیں ہے۔ اور ہمارا یہاں پر ایک ایک لمحہ جو ہے، اس میں جو کچھ ہم کرتے ہیں، وہ باقاعدہ نوٹ کیا جاتا ہے۔ اس میں سے کوئی چیز بھی یعنی چھوڑی نہیں جاتی، چاہے اچھا کام ہے، چاہے برا کام ہے۔ حساب کتاب کا اصول بھی بہت سادہ ہے، سب کو سمجھ آسکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نیکیاں بھی تولی جائیں گی اور برائیاں بھی تولی جائیں گی۔ اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری رہ گیا، بھاری ہوگیا، تو جنت ہے اور اگر دوسری صورت ہے، تو خطرناک حالات ہیں۔ اس وجہ سے ہم سب کو ایک بات کا خیال رکھنا چاہئے، جس کا ذکر ابھی جو قرآن پاک کی تلاوت میں نے کی ہے، اس میں سے ایک آیت کی، اس کا مفہوم یہی ہے۔ سب سے پہلے اللہ پاک نے ایمان والوں کو ڈرایا ہے۔ ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو‘‘۔ یعنی اس اللہ سے جو سریع الحساب ہے، ﴿عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾4 ہے۔ اور اس کے سامنے کوئی بھی اس کی مرضی کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔ یہ ساری باتیں ہمیں اللہ جل شانہٗ نے قرآن میں بہت واضح طور پر بتائی ہیں اور احادیث شریفہ میں آپ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ میرے خیال میں آیت الکرسی تو سب کو آتی ہوگی، اس میں جو فرمایا گیا، وہ یہی فرمایا:
﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ﴾ کون ہے؟ جو اس کے آگے کسی کی شفارش کرسکے، مگر اس کی اجازت کے ساتھ ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْۚ﴾5 ’’جو ان کے پاس ہے، وہ سب کچھ اللہ پاک کو معلوم ہے‘‘۔ تو اس کا مطلب یہ کہ کوئی چیز چھپائی نہیں گئی، چھپی نہیں ہے، سامنے ہے، لکھا گیا ہوگا، اعمال نامہ ہاتھ میں بھی دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تو خود ہی اس کو دیکھ لو، تم اس کے لئے کافی ہو۔ اور لوگوں کو اعمال ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، جیسے ہورہے تھے ناں، جیسے ویڈیو ہوتی ہے، تو ہوتے ہوئے نظر آئیں گے اور چیخ اٹھیں گے کہ اس میں سے تو کوئی چھوٹی بات بھی نہیں رہ گئی ہے اور بڑی بات بھی نہیں رہ گئی ہے۔ تو ایسی صورت میں اللہ جل شانہٗ نے جو ہمیں ارشاد فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو‘‘ ﴿وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ﴾ ’’چاہئے کہ ہر شخص دیکھے، بھالے، سوچے، فکر کرے، کل کے لئے وہ کیا بھیج رہے ہیں؟ ﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرو‘‘ ﴿اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ سب سے آگاہ ہے‘‘ ایک ایک چیز سے آگاہ ہے۔ اس وجہ سے اس دنیا کے اندر جب تک ہم رہیں، تو ہمارا سب سے بڑا کام یہ ہوگا کہ ہم اپنا حساب کرلیں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی فرمایا: کہ اپنے ساتھ حساب کرو، اس سے پہلے کہ تمھارے ساتھ حساب ہوجائے۔ ’’حَاسِبُوْا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا‘‘ ’’اپنے ساتھ حساب کرو، اس سے پہلے کہ تمھارے ساتھ حساب کیا جائے‘‘۔ ’’مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ ’’مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ‘‘ یعنی اپنے اوپر مرنے کے حالات تصور میں طاری کرلو کہ گویا کہ تم مر گئے ہو اور حساب کتاب لیا جارہا ہے، اور تمھارے پاس کیا ہے؟ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے؟ اس بات کا پہلے سے غور کرو۔ اس وجہ سے ہوشیار آدمی وہ ہوگا، جو آخرت کا سوچے گا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہے کہ ایک صحابی ہیں بنو سلمہ کے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کی کچھ تیز بات چل پڑی، تو انہوں نے مطلب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کوئی سخت بات کہہ دی، وہ جیسے ان کو احساس ہوگیا کہ میں نے ان سے سخت بات کی ہے، تو فوراً رک کر کہا کہ مجھے معاف کردو اور یہ جو ہے ناں، مطلب جو بات میں نے کہی ہے، تم بھی اس طرح مجھے کہو، وہ فوراً بھانپ گئے کہ یہ تو معاملہ میرے court میں آگیا، حضرت! میں تو نہیں کہہ سکتا، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا پھر تیری شکایت میں کردوں گا آپ ﷺ سے، پھر بھی انہوں نے نہیں کہا۔ بنو سلمہ کے لوگ آگئے، انہوں نے کہا عجیب بات ہے، زیادتی بھی کی اور پھر کہتے ہیں کہ میں شکایت بھی کردوں گا آپ ﷺ سے، عجیب بات ہے۔ تو وہ صحابی ان سے کہتے ہیں، اپنے قبیلے والوں سے کہ تم کیا سمجھتے ہو، یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر ہے، جو آپ ﷺ کے دوست قریبی ہیں، اگر یہ مجھ سے ناراض ہوگیا، تو آپ ﷺ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے اور آپ ﷺ ناراض ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے، تو یہ آپ کیا سمجھ رہے ہیں، کوئی معمولی بات ہے؟ پھر خود چلے گئے آپ ﷺ کے پاس اور آپ ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ! اس طرح بات ہوئی ہے، انہوں نے مجھ سے کہا تھا، مجھ سے یہ بات کرلو، لیکن میں نے نہیں کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آپ نے اچھا کیا کہ نہیں کی، بس آپ صرف یہ کہہ دیتے کہ آپ یہ کہہ دیتے، اے بھائی میرے! اللہ تجھے معاف کرے، یہ آپ کہہ دیتے بس۔
تو بس یہ بات ہے کہ دیکھو! ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کتنی فکر ہوگئی، یہی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، فاقے کی وجہ سے بے قرار ہوکر اپنے غلام سے کہا کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا میرے پاس کچھ پیسے۔۔۔۔ میں ابھی لے آتا ہوں، وہ لے آئے کوئی چیز، وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھا لی، لیکن جیسے کھا لی تو آنکھیں کھل گئی، یہ میں نے کیا کرلیا، پوچھا بھئی! یہ پیسے کیسے تھے؟ انہوں نے کہا جی حضرت! میں جاہلیت کے دور میں کچھ جنتر، منتر کرتا تھا، اس کے پیسے آج ملے ہیں، تو میں نے اس پر آپ کو کچھ کھلایا ہے۔ اوہ ہو! یہ تو بڑا غلط ہوا۔ اب اس کو قے کرنے کی کوشش کرنے لگے، اب قے کیسے ہو؟ اتنے فاقے سے اگر کوئی چیز کھا لے، تو پھر وہ واپس آتی ہے؟ لوگوں نے بھی تسلی دی، آپ کو پتا نہیں تھا، آپ کا قصور نہیں تھا، یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا۔ فرمایا بھئی! مجھے تسلی نہ دو، یہ ایسی چیز ہے کہ اگر یہ جسم میں رہ گئی اور خون بن گیا اور خون سے پھر گوشت بن گیا، تو اس کے لئے سزا جہنم کی آگ ہے، حرام کمائی۔ لہٰذا مجھے تسلیاں نہ دو۔ یہ ہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کیسے سبحان اللہ! عدل کا زمانہ تھا، ہر چیز میں عدل، لیکن ڈر اتنا زیادہ کہ موت کے وقت (حالانکہ شہید ہورہے تھے۔ موت کے وقت) کہا کہ میرا سر مٹی پہ رکھ دو، تو سر مبارک مٹی پر رکھ دیا گیا اور رونا شروع کیا، یعنی کہ یا اللہ! اگر تو نے عمر کو معاف نہیں کیا، تو عمر تو تباہ ہوجائے گا، روتے روتے روتے روتے روتے شہید ہوگئے۔ یہ ہے بات۔ ہمارے بڑے جو تھے، وہ اس طرح تھے۔ تو ہماری جو زندگیاں ہیں، ان کے، اس کے اندر ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو گزشتہ گناہ کیے ہیں، اس سے ہم فارغ ہوجائیں، توبہ کرلیں۔ اور توبہ بہت بڑی دولت ہے، کیونکہ توبہ سے سارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ﴾ ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ﴾ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں‘‘ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ﴾6 ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتے ہیں‘‘ تو توبہ جو ہے، یہ تو بہت بڑی دولت ہے۔ اس وجہ سے توبہ میں جو ہوشیار آدمی ہوتا ہے، وہ جلدی کرتا ہے۔ اول تو غلطی کرتا نہیں ہے، خدانخواستہ کوئی غلطی ہوگئی، تو اس کو اس وقت تک چین نہیں آتا، جب تک رو دھو کے اللہ تعالیٰ سے معافی نہ مانگ لے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن اگر کوئی گناہ کرتا ہے، کوئی غلطی کرتا ہے، تو گویا کہ اس کے اوپر ایک قیامت ٹوٹ جاتی ہے، ایک پہاڑ آگرتا ہے، جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے رو دھو کے معاف نہیں کرواتا، اس کو چین نہیں آتا۔ اور جو منافق ہوتا ہے، اس سے اگر کوئی گناہ ہوجاتا ہے، تو وہ ایسا اس کو اڑا دیتے ہیں، جیسے کسی مچھر کو اڑا دیا ہو، اس کا کوئی اثر نہیں لیتا۔ اس وجہ سے گناہوں سے ڈرنا چاہئے، اس وجہ سے گناہ نہیں کرنا چاہئے اور اگر گناہ ہوجائے کسی سے، خدانخواستہ، تو پھر عافیت اسی میں ہے کہ فوراً توبہ کی جائے، اس میں پھر دیر نہیں کی جائے۔ یہ بھی ایک راستہ ہے، جس میں انسان اپنی آخرت کو درست کرسکتا ہے کہ ہمت اور کوشش کرکے گناہ کرے نہ، اور خدانخواستہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرے، لیکن چونکہ رِسک نہیں لیا جاسکتا، پتا نہیں موت کس وقت آتی ہے، لہٰذا اپنی اصلاح کرنا یہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری کی بات ہے۔ اصلاح سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو کنٹرول کرلے، اپنے نفس کو برائی کی طرف نہ جانے دے۔ ہر انسان کا جو نفس ہے، وہ برائی کی طرف بھاگتا ہے۔ خود ہی قرآن پاک میں ہے۔ ﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ﴾7 تو برائی کی طرف تو یہ بھاگتا ہے، لپکتا ہے۔ لیکن جیسے ہم بیسویں چھت پر ہوں اور چھت کے اوپر بنیرا نہ ہو اور ہمارے ساتھ کوئی پانچ چھ سال کا بچہ ہو، تو کیا خیال ہے، اس پانچ چھ سال کے بچے کو ہم کھلا چھوڑتے ہیں؟۔۔۔۔ کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ بھاگا، تو قابو ہمیں آنے سے پہلے پہلے کہیں چھت سے گر نہ جائے، لہٰذا بہت ڈر ڈر کے ان کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارا نفس ہے۔ ہمارا جو نفس ہے، یہ عجیب و غریب چیز ہے، یعنی یہ اپنا فائدہ نقصان نہیں جانتا یا اس کی طرف التفات نہیں کرتا، اس کو اپنی خواہش پوری کرنے سے غرض ہے، چاہے اس کی اس پہ جان چلی جائے، چاہے بے عزتی ہوجائے، چاہے اس پہ اس کو کتنا ہی بعد میں نقصان ہو، لیکن اس وقت اس خواہش کو پورا کرنے میں یہ پورا منہمک ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں، جو لوگ اپنے نفس کی خواہشات پر چلتے ہیں، تو بعض دفعہ اپنے آپ کو بہت بڑی مصیبت میں پھنسا دیتے ہیں، پھر عمر بھر روتے ہیں، لیکن وہ اتنی بڑی غلطی ہوتی ہے کہ اس سے بچنا اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا، تو لہٰذا اپنے نفس کی جو اصلاح ہے، یہ بہت ضروری ہے۔ نفس کا کیا حال ہے، وہ میں ذرا تھوڑا سا تمھیں سنا دیتا ہوں۔ اصل میں بعض باتیں شاعری میں سمجھ زیادہ آجاتی ہیں۔ تو یہ ہمارا جو نفس ہے، یہ کیا کرتا ہے، یہ ذرا تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش کریں۔
سیدی و مولائی سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتهم العالیه عنوان ہے، ’’نفس کی کارگزاری‘‘ حضرت والا فرماتے ہیں:
’’نفس کی کارگزاری‘‘
میرا نفس اس سے مجھ کو تو کبھی ملنے نہیں دیتا
جو شیطاں ہے مجھے اللہ کا بننے نہیں دیتا
اگر میں بات اس کی مان لوں تو اور وہ مانگے
کسی اک بات پہ مجھ کو کبھی ٹکنے نہیں دیتا
اب یہ نفس کی جو بات ہے ناں، اصل میں ایسا ہے کہ یہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ آپ اس کی ایک بات مانیں، تو یہ اگلا بتا دیں گے، یہ بھی چاہئے، وہ پورا کرلیں، تو پھر اگلا، پھر وہ پورا کرلیں، تو وہ اگلا۔ ہمارے اکثر حضرات وہ کہتے ہیں ناں، بس ویسے محاورہ کے طور پر کہ کبھی انیس بیس نہیں ہوتا، بس انیس کے چکر میں ہوتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے، حدیث شریف میں کہ انسان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، اگر اس کو ایک وادی سونے کی مل جائے، تو یہ دوسری سونے کی وادی کے اس میں رہتا ہے۔ ہم لوگ دیکھتے ہیں، سرمایہ دار لوگ جو ہوتے ہیں، جن کی فیکٹریاں ہوتی ہیں، جن کے بڑے بڑے کاروبار ہوتے ہیں، تو وہ عام لوگوں سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں، کیونکہ عام لوگوں کے پاس تو کوئی ٹائم ہوتا ہے spare، جس کو وہ free کرسکتے ہیں، ان بیچاروں کے ساتھ یہ نہیں ہوتا، کیونکہ یہ جب ایک فیکٹری ہوتی ہے، تو دوسری کی تلاش ہوتی ہے، جب دو ہوجاتی ہیں، پھر تیسری کی ہوجاتی ہے، جب تین ہوجاتی ہیں، تو۔۔۔۔ اب جتنی فیکٹریاں زیادہ ہوں گی، اتنی tension بڑھے گی، کیونکہ اگر وہ کسی اور پر چھوڑتے ہیں، تو دیانتداری نہیں ہے، سارا کام خراب ہوتا ہے اور اگر خود سب کچھ کرتے ہیں، تو کتنی tension لیں گے؟ مطلب ایک فیکٹری کی جگہ دو ہوجائیں، تو double tension ہوگئی، دو کی جگہ تین ہوگئی، تو مزید بڑھ گئی، تین کی چار ہوگئی، تو مزید بڑھ گئی، یہ بیچارے پھر نیند بھی گولیوں کے ذریعہ سے لاتے ہیں۔ یہ بیچارے سو بھی نہیں سکتے صحیح طور پہ، اپنے خاندان والوں سے مل بھی نہیں سکتے۔ ہاں جی! ان کی ایسی زندگی ہوتی ہے بالکل ایک بیچارے قیدی کی طرح، مطلب یہ ہے کہ اپنے حالات میں قید ہوتے ہیں، وہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں، کہتے ہیں یار! یہ کیا بات ہے، بس اس طرح اور اس طرح اور اس طرح، مطلب رونا رونا شروع کرلیتے ہیں۔ ہاں جی! تو کیا چیز ہے، خود ہی تو سب کچھ کیا ہوتا ہے۔
مگر خوبی جو اس میں ہے کہ مانے جبر سے بھی یہ
ہلاؤ اس کو ہل جائے گو یوں ہلنے نہیں دیتا
یہ اصل میں اس کی یہ اچھی خاصیت ہے نفس کی کہ اگر آپ جبر اس پہ کرلیں، تو جبر سے بھی مان لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ کوئی چیز چاہتا ہے، کہتا ہے نہیں دیتا، ٹھیک ہے، مطلب پھر کیا کرے گا؟ تو زور و شور بہت کرتا ہے، لیکن اگر آپ اس کا گلا پکڑ لیں کہ بھئی! نہیں دیتا، بس جو ہے، بس اسی پہ صبر کرو، تو مجبوراً کرے گا۔ اور اگر یہ آپ نے اس پہ ایک چیز پہ صبر کروا دیا، تو دوسری چیز پہ صبر کرنا اس کے لئے مزید آسان ہوجائے گا، دو پہ کروا لیا، تو تیسری کے لئے صبر کرنا اور آسان ہوجائے گا۔ یہی مجاہدہ ہوتا ہے، اسی مجاہدہ سے یہ سیدھا ہوتا رہتا ہے، یعنی آپ اس کی مرضی کے خلاف کام کریں، تو یہ سیدھا ہوتا رہتا ہے اور اگر آپ اس کی مرضی کے مطابق کام کریں۔۔۔ مرضی کے خلاف کام کریں، تو سیدھا ہوتا رہتا ہے اور اگر مرضی کے مطابق کام کریں، تو یہ مزید بگڑتا ہے۔، ہاں جی! یہ سلسلہ ان کا ختم نہیں ہوتا۔
طریقہ اس کی اصلاح کا ہے کہ مانو نہیں اس کا
یعنی اس کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی نہ مانو، جو یہ چاہے، تو اس کو یہ نہ دو۔ یہ جو جوگی ہوتے ہیں ناں جوگی، وہ اس چیز میں بڑے مشاق ہوتے ہیں، وہ اس طرح کرتے ہیں اور وہ اپنی جو کو اس طرح پکاتے ہیں، وہ نہیں مانتے، اپنی خواہش نفس کو پورا نہیں ہونے دیتے، لیکن ان کا مقصد اور ہوتا ہے، ان کا مقصد دنیا ہوتا ہے، ان کا مقصد آخرت نہیں ہوتا، اللہ کے لئے نہیں ہوتا، لہٰذا procedure ان کا یہی ہے، لیکن، لیکن ان کو کچھ ملتا نہیں۔ وہ ہماری پشتو میں اس کے لئے ایک شاعری سی ہے، ’’تشې شملې ښوربې، خبر نه شوې- د مطلبه کافره مذبذبه‘‘ یعنی صرف چاچ کو مطلب بلو رہے ہوں اور مطلب سے تجھے آگاہی نہیں ہوئی، اے کافر تو مذبذب ہی ہے، مطلب متردد ہی ہے۔ تو یہ بات تو بالکل صحیح ہے، وہ جوگی جو ہے ناں، اپنے اوپر بڑی سختیاں کرتے ہیں، اپنے ایک ہاتھ کو کھڑا کردیں گے اور وہ کھڑا ہوتے ہوتے خشک ہوجائے گا۔ ہاں جی! کئی کئی دن کھانا نہیں کھائیں گے، قبر میں اس طرح لیٹے رہیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ اپنی زندگی میں اپنے اوپر وہ ظلم کرتے رہتے ہیں، جیسے راہب ہوتے تھے ناں عیسائی، اس طرح جوگی جو ہیں ناں، یہ بھی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں، اسی میں ان کو مزہ آتا ہے، تو وہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ لیکن جو اللہ کے لئے اپنے نفس کو control کرتا ہے، تو پھر اس کے لئے کیا ہے؟
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾8 ’’یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص، جس نے اپنے نفس کے رذائل کو دبا دیا اور اس کو پاک کرلیا‘‘ ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ ’’اور یقیناً تباہ و برباد ہوگیا، جس نے اپنے نفس کو خاک (مٹی) میں ملایا‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس کی خواہشات مان کر اس کو خراب کردیا۔ ہاں جی! یہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ہمارے ایک ساتھی ہیں، اس کا ایک بیٹا وہ پڑھا نہیں، تو جس وقت وہ نہیں پڑھتا، تو اس کے چچا mechanic ہیں، اچھا mechanic ہے، تو وہ اس سے کہتا تھا کہ دیکھو! مجھ سے عبرت سیکھو، اگر میں نے پڑھا ہوتا، تو تیرے والد کی طرح میں بھی افسر ہوتا، چونکہ میں نہیں پڑھا، تو دیکھو! میں گاڑیوں کے نیچے لیٹا ہوتا ہوں، mobil oil بھی مجھ پہ آتا ہے، تیل بھی پہ مجھ پہ آتا ہے، میرے ہاتھ کالے ہوتے ہیں، ہاں جی! میری پوری زندگی اسی مشقت میں گزر رہی ہے، ہاں جی! اگر میں نے پڑھا ہوتا، کاش کوئی مجھے مار مار کر پڑھا دیتا۔ وہ کہتا اپنے بھتیجے کو کہہ رہا ہے، کاش مجھے کوئی مار مار کے پڑھا دیتا۔ تو اس وقت جب عقل آجاتی ہے، ٹائم گزر چکا ہوتا ہے۔ ہاں جی! اور جس وقت ٹائم ہوتا ہے، تو اس وقت آدمی ہوش میں نہیں رہتا اور اپنا جو ہے ناں، وہ کام خراب کرتا ہے۔ تو آخرت، یہ موت سے پہلے پہلے آخرت کی تیاری ہے، موت کے وقت تو سب کو پتا چل جاتا ہے، اس وقت ہم نے جن کو مرتے دیکھا ہے، اس وقت بڑا افسوس کرتے ہیں، بہت افسوس کرتے ہیں، لیکن پھر اس کے بعد کچھ ہو نہیں سکتا، وقت گزر چکا ہوتا ہے، جو ہونا ہوچکا ہوتا ہے، وہ ہوچکا ہوتا ہے، اس وقت آدمی سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرسکتا، لہٰذا اس وقت ہمیں خیال رکھنا چاہئے اپنی۔۔۔۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سکھائے۔
طریقہ اس کی اصلاح کا ہے کہ مانو نہیں اس کا
بغیر اس کے کسی بھی طرح سنبھلنے نہیں دیتا
کوئی ہو رہنما اپنا جو گر اصلاح کا جانتا ہو
کرائے اس سے جو ہم کو کبھی کرنے نہیں دیتا
یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ ایسی عجیب بات ہے کہ سمجھانا بھی اس کا اچھا خاصا مشکل کام ہے، لیکن بہت بڑی حقیقت ہے، وہ کیا ہے؟ دیکھیں! قرآن موجود ہے، ہاں جی! قرآن سمجھانے کے لئے علماء کرام موجود ہیں، احادیث شریفہ موجود ہیں، فقہ موجود ہے، اکثر چیزوں کا لوگوں کو پتا ہوتا ہے، مثلاً جھوٹ بولنا نہیں چاہئے، کس مسلمان کو نہیں پتا؟ دھوکہ نہیں کرنا چاہئے، کس مسلمان کو پتا نہیں ہے؟ ہاں جی! غیبت نہیں کرنی چاہئے، کس کو پتا نہیں ہے؟ ہاں! اس طرح زنا نہیں کرنا چاہئے، بدنظری نہیں کرنی چاہئے، لوگوں کا مال غصب نہیں کرنا چاہئے، یہ ساری باتیں لوگوں کو معلوم ہیں، گناہگار سے گناہگار آدمی کو بھی ان چیزوں کا پتا ہے، علم کی وسعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ اور اگر نہیں معلوم، تو علماء کرام موجود ہیں، ان سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ کوئی مشکل بات نہیں، لیکن نفس ہمیں کرنے نہیں دیتا، قرآن کی نہیں ماننے دیتا، حدیث کی نہیں ماننے دیتا، فقہ کی نہیں ماننے دیتا، علماء کی نہیں سننے دیتا، ایک نظام ہے، اس طرح چل رہا ہوتا ہے۔ اچھا! اب اصلاح کب شروع ہوتی ہے؟ وہ ذرا بتاتا ہوں، یہ جتنے بھی لوگ ہیں، جن کی اصلاح ہوچکی ہے، ذرا تھوڑا سا غور کرلو، کیسے ہوئی ہے؟ تو اس کا route جو ہوتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے کہ کسی اللہ والے کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں۔ ہاں جی! اچھا! اب وہ جب اس کو کہتے ہیں، وہ اس کو مان لیتا ہے۔ اب اللہ نے تو پہلے سے کہا تھا ناں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو، پہلے سے ہی موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے تو پہلے سے بتایا ہے، لیکن وہ اللہ پاک کی نہیں سن رہا، اللہ تعالیٰ کی نہیں سن رہا، آپ ﷺ کی احادیث شریف موجود ہیں، وہ اس کا خیال نہیں رکھ رہا، لیکن جس پیر سے (صحیح ماشاء اللہ! پیر ہو، اس) سے بیعت ہوجائے، اس کی سن لیتا ہے اور مان لیتا ہے۔ یہی بات ہے ناں؟ اچھا! اب یہ جو مان لیتا ہے، اس سے اس کے لئے نفس کی اصلاح کا دروازہ کھلنا شروع ہوجاتا ہے، کیونکہ صاف بات ہے، حدیث شریف میں موجود ہے کہ جو کوئی نیکی کرتا ہے، اس کے لئے دوسری نیکی کرنا آسان ہوجاتا ہے اور جو کوئی برائی کرتا ہے، اس کے لئے دوسری برائی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پس جب یہ پیر کی بات مانتا ہے اور وہ نیکی کا کام کرتا ہے اور برائی سے اپنے آپ کو روکتا ہے، تو اس کے لئے برائی کے دروازے بند ہونے شروع ہوجاتے ہیں، نیکی کے دروازے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں، اس پہ چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً دن بدن ماشاء اللہ! اس کو ترقی ہورہی ہوتی ہے، وہ جو کام پہلے ناممکن نظر آتا تھا، وہ ممکن نہیں، بلکہ عملاً ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟ اب ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ بھی بتاتا ہوں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مقصد جو ہے وہ تو اللہ کی ماننا ہے، مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے، حضور کے طریقہ پہ چلنا ہے، یہ مقصد ہے۔ لیکن شروع ہم کہاں سے کرتے ہیں؟ پیر کی ماننے سے کرتے ہیں، شیخ کی ماننے سے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کہ شیخ موجود ہے آپ کے سامنے، جب آپ کے سامنے موجود ہو، تو اس کا اثر آپ کے اوپر فوری ہے۔ اللہ جل شانہٗ کو آپ دیکھ نہیں رہے، وراء الوراء ذات ہے، لہٰذا اس کے بارے میں آپ باقاعدہ آپ کو پتا ہوتا ہے کہ اللہ پاک یہ کہتا ہے، لیکن اس بات پہ عمل کرنے کی توفیق نہیں ہورہی ہوتی، کیونکہ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہے، لیکن وہ بھی سامنے تو نہیں ہے، شیخ سامنے ہے، تو یہ متفقہ قانون ہے کہ چھوٹا مقناطیس بڑے مقناطیس سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے، اگر وہ قریب ہو۔ کیوں!! قانونِ تجاذب کیا ہے؟
F=Gm1m2
( R)2
جو درمیان کا فاصلہ ہے، وہ کیا ہے؟ وہ اگر زیادہ ہو، اثر کم ہوجائے گا۔ اگر کم ہو فاصلہ، اثر زیادہ ہوجائے گا۔ ٹھیک ہے ناں، چاند کا ہم پر زیادہ اثر ہے، سمندر کے اوپر زیادہ اثر ہے بمقابلہ سورج کے، حالانکہ سورج چاند سے کتنا گنا بڑا ہے، لیکن چونکہ فاصلہ زیادہ ہے۔ تو اس وجہ سے اللہ جل شانہٗ کی ذات چونکہ وراء الوراء ہے، لہٰذا اس کی بات براہ راست ماننا اچھا خاصا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ نفس بالکل ساتھ ہے ناں۔ نفس کیا ہے؟ ہمارے اندر ہے، وہ ہمارے ساتھ ہے، لہٰذا وہ زیادہ مؤثر ہے۔ تو نفس کا مقابلہ آپ اسی طرح مؤثر سے کرو اور وہ کیا ہے؟ وہ شیخ ہے، فوری مطلب جو اثر ہے۔ اب یہی اصل میں بنیادی بات ہے، یہی بات ہے۔ تو پیر آپ کو پہلے آپ ﷺ کی طرف لے جائے گا، سنتوں پہ چلائے گا، ہاں جی! اس کی طرف اعمال۔۔۔۔ یہ ایسے اعمال کرائے گا، نتیجتاً آپ فنا ہوجائیں گے آپ ﷺ میں، پھر وہ جو آپ ﷺ کا طریقہ ہے، وہ آپ کے لئے سب سے بہترین طریقہ ہوگا، آپ اس پہ چلنا شروع ہوجائیں گے اور آپ ﷺ آپ کو اللہ تعالیٰ سے ملا دے گا یعنی یہی سنتیں آپ کے لئے ذریعہ بن جائیں گی اللہ تعالیٰ سے ملنے کا، اللہ پاک کے ہونے کا۔ تو اس طریقہ سے اصلاح ہوجاتی ہے۔ تو بات یہ ہے کہ واقعی کوئی شیخ پکڑنا ہوتا ہے، یہ مجبوری ہے، بغیر اس کے نہیں ہوتا۔
کرائے اس سے جو ہم کو کبھی کرنے نہیں دیتا
یہ جو نفس ہمیں کبھی نہیں کرنے دیتا، شیخ وہ کرا دیتا ہے، شیخ وہ کرا دیتا ہے۔ ہاں جی! اس طریقہ سے مطلب جو ہے ناں، بات ہوجاتی ہے۔
دل اپنا بھی منور ہو کہ راستہ جان لے اپنا
کہ ہر گز حق کو گندہ دل کبھی پڑھنے نہیں دیتا
یعنی اس کے لئے ذکر کرنا ہوتا ہے، تاکہ ہمارا دل منور ہوجائے اور ہمیں صحیح اور غلط کا پتا چل جائے۔ وہ اکثر لوگ کہتے ہیں ناں ٹیلی ویژن دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں اس وقت تو تم ٹھیک کہتے ہو، اس وقت تک، اس وقت تو تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن کبھی آجاؤ خانقاہ میں، ایک ہفتہ ہمارے کہنے کے مطابق خانقاہ میں وقت گزارو، ہمارے کہنے کے مطابق، جو ہم آپ کو بتائیں، اس طرح گزارو، اس کے بعد پھر جاکر اپنے گھر میں پانچ منٹ ٹی وی دیکھو، تو معلوم ہوجائے گا ٹی وی سے کیا ہوتا ہے۔ مثلاً بھئی! کالی قمیض کے اوپر کالا دھبہ کیسے نظر آئے گا؟ پہلے اس کو دھو لو، صاف کرلو، جب صاف ہوجائے گا، پھر دیکھو کہ یہ کیا ہوتا ہے اس کے اوپر، کالا دھبہ کیسے نظر آتا ہے۔ تو ٹیلی ویژن سے کچھ نہیں ہوتا، یہ بات اس وقت صحیح ہے ان کی، لیکن ذرا تھوڑا سا وہ اپنے دل کو صاف کرلیں، پھر دیکھیں ٹیلی ویژن ایک چوٹ کی طرح لگتا ہے دل کے اوپر یا نہیں لگتا، پھر پتا چلتا ہے، ظلمت کا احساس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہی بات ہے، جس کو ظلمت کا احساس نہ ہو، اس کا مطلب ہے دل کالا ہے، معلوم نہیں ہورہا، ورنہ یہ ہے کہ جس کو ظلمت کا احساس ہونا شروع ہوجاتا ہے، وہ صحیح بات ہے کہ وہ اس پہ رہ نہیں سکتا، پریشان ہوجاتا ہے، پریشان ہوجاتا ہے۔ ہاں جی! وہ ہمارے شیخ اَلْحَمْدُ للہ! حضرت سے جب بیعت کی، تو فوراً دو چیزیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھیں بغیر کسی محنت کے حضرت کی برکت سے۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ موسیقی سے شدید نفرت ہوگئی، موسیقی سے شدید نفرت ہوگئی، حالانکہ حضرت چشتی تھے۔ اب دیکھو! چشتی کے پیچھے لوگوں نے خواہ مخواہ ڈرامے بنائے ہوئے ہیں، حالانکہ چشتی تھے حضرت، چشتی بزرگ سے بیعت کرتے ہوئے مجھے کیا ہوا؟ موسیقی سے شدید نفرت ہوگئی، اتنی نفرت ہوگئی کہ اس وقت تو میرے پاس گاڑی نہیں تھی ناں، یہ پبلک ٹرانسپورٹ میں آتا جاتا تھا، ظاہر ہے اپنی یونیورسٹی آنا جانا تو ہوتا تھا، تو اس وقت یہ حالت ہوتی تھی کہ سر میں درد ہوجاتا تھا، اگر مطلب یہ ہے کہ اس میں گانے لگے ہوتے تھے ناں، تو سر میں درد ہوجاتا تھا۔ تو حضرت سے میں نے کہا کہ حضرت! یہ کیا کروں؟ یہ ایسا ہورہا ہے، حضرت نے پھر مجھے ایک وظیفہ بتا دیا، یہ وظیفہ کرلیا کرو آپ، جب کبھی اس قسم کے حالات ہوں ’’یَاھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ یہ جو ہے ناں، مطلب یہ پڑھ لیا کرو۔ تو اللہ پاک کے فضل و کرم سے ماشاء اللہ! حفاظت ہوگئی اس سے۔ اب دیکھ لو، یہ کیا چیز تھی؟ ہاں جی! تو چونکہ پہلے مجھے اس کا نہیں تھا پتا، تو لہٰذا مجھے احساس بھی نہیں ہوتا تھا، لیکن سبحان اللہ! حضرت کی برکت سے اللہ پاک نے یہ دکھا دیا، دکھا دیا کہ یہ دیکھو ناں ایسا بھی ہوتا ہے یعنی دل کے اندر روحانیت چلی جائے، روحانیت کا ادراک ہوجائے، پھر اس کے مقابلہ کی چیز آتی ہے، تو پھر پتا چلتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے، ظلمت کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ تو خیر یہیں پر مطلب جو ہے ناں وہ بات ہے۔
دل اپنا بھی منور ہو کہ راستہ جان لے اپنا
کہ ہر گز حق کو گندہ دل کبھی پڑھنے نہیں دیتا
یہ بالکل ہمارے ساتھ ہوا ہے یہ واقعہ، یعنی مطلب اس میں درمیان میں کوئی اور راوی نہیں ہے، خود ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ گشت میں ہم جاتے تھے، ہاسٹل میں جو ہمارا گشت ہوتا تھا تبلیغی جماعت کے ساتھ، ایک لڑکا تھا میڈیکل سٹودنٹ تھا، وہ بہت گندے گانے سنتا تھا اور کافی loud voice کے ساتھ، ہوتا ہے بس، loud voice کے ساتھ جو ہے ناں وہ مطلب گندے گانے سنتا تھا، سب لوگ اس سے تنگ تھے، وہ کسی کی نہیں مانتا، لڑاکو قسم کا آدمی تھا، ہر وقت لڑنے کے لئے تیار ہوتا تھا، تو ہر ایک آدمی پھر بچتا تھا کہ خواہ مخواہ ایسے آدمی کے ساتھ تو ٹکر لینا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ تو خیر، ایسا ہوا کہ ڈاکٹر فدا صاحب کی جماعت آئی تھی اور ہم ان کے ساتھ گشت کررہے تھے، میں متکلم تھا، اس کے دروازہ بھی knock کرلیا، ہاں جی! وہ آیا باہر، کہا جی یہ تبلیغی جماعت کے ساتھی ہیں، فوراً مجھے کہا، کیونکہ میں سامنے تھا، متکلم تو میں تھا، مجھے کہتے my heart doesn't want to go to mosque آپ چلے جائیں، کہتے میرا دل بس مسجد جانے کو نہیں چاہتا، تم چلے جاؤ، اس طرح بالکل کہہ دیا۔ یہ جو شعر میں آیا ناں کہ گندا دل کبھی حق کو پڑھنے نہیں دیتا۔ ہاں جی! بالکل ایسا ہوا، ڈاکٹر صاحب پیچھے سے آرہے تھے، مجھے کہا آپ لوگ آگے جائیں، اس کو میں سنبھال لوں گا، ہاں جی! خیر بہرحال یہ ہے کہ وہ ہم آگے چلے گئے، ہمیں تو پتا نہیں چلا کہ ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ ملے، کیسی بات ہوئی، کیا بات ہوئی، وہ تو اللہ کو پتا ہے۔ خیر بعد میں بیان ڈاکٹر صاحب کا تھا، بیان جب ڈاکٹر صاحب کررہے تھے، تو تھوڑی دیر کے بعد میری نظر پڑ گئی، تو میرے ساتھ بائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا مطلب وہ لے آیا تھا ان کو۔ بائیں طرف میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں بڑا خوش ہوگیا کہ چلو ماشاء اللہ! آیا ہوا ہے۔ جس وقت بیان ختم ہوگیا، تو اسی نے مجھے کہا، کیونکہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، مجھے کہتے میرا دل بڑا خوش ہوا، میرا دل بڑا خوش ہوا۔ اب دیکھو! دو باتیں۔۔۔۔ یعنی درمیان میں گھنٹہ ہی گزرا ہوگا شاید یا گھنٹہ سے کچھ زیادہ گزرا ہوگا، لیکن پہلے کیا کہہ رہا تھا اور بعد میں کیا کہہ رہا تھا؟ یہی بات ہوتی ہے۔ ہاں جی! تو اگر انسان نیکی کی راہ پہ چل پڑے، ذکر اذکار شروع کرلے، پھر جو ہے ناں، پھر انسان حق کو سمجھنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، حق سننے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، حق پڑھنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ بات ہوتی ہے۔ ورنہ صحیح بات ہے کہ وہ بعض دفعہ یعنی بالکل straight forward جواب دے گا آپ کو، بھئی! یہ نہیں۔ ایک ہمارے، ایک رشتہ دار تھے، وہ بھی ڈاکٹر تھے، وہ جب میں جاتا اس کے ساتھ ملاقات ہوتی، تو سب سے پہلے مجھے کہتے اپنی ٹیپ نہیں چلانی ہے اچھا، پھر فوراً جو ہے مطلب اس نے مجھے یہ بات وہ کرنی ہوتی تھی اپنی ٹیپ نہیں چلانی اچھا۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ ظاہر ہے، ان کو بس ان چیزوں میں غلطاں پریشاں تو اس طرح ہوتا ہے۔
اگر ہو نفس گاڑی تو بنے دل اس کا ڈرائیور پھر
ہو ان میں نقص کسی میں آگے وہ بڑھنے نہیں دیتا
ہاں! یہ دیکھیں ناں، یہ بہت اچھی مثال۔۔۔۔ گاڑی نفس کی طرح ہے اور دل جو ہے یہ ڈرائیور کی طرح ہے۔ اگر گاڑی میں کوئی نقص ہو، انجن میں کوئی گڑبڑ ہو یا steering میں کوئی مسئلہ ہو یا کسی electrical چیز میں کوئی مسئلہ ہو، تو گاڑی نہیں چلے گی، بے شک کتنا ہی ماہر ڈرائیور ہوگا، گاڑی نہیں چلا سکے گا، خراب ہوگا۔ اور اگر گاڑی بالکل first class ہے، نئی نئی گاڑی آئی ہے، لیکن ڈرائیور اناڑی ہے، اس کو نہیں پتا کہ گاڑی کیسے چلائی جاتی ہے، تو وہ بھی مصیبت، گاڑی نہیں چل سکتی، بلکہ چلے گی، تو نقصان ہوگا۔ تو اس کا مطلب کہ دل بھی ٹھیک ہونا چاہئے، نفس کی بھی اصلاح ہونی چاہئے، یہ بنیادی بات ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ صرف نفس کا علاج کرلیں اور دل کی اصلاح نہ کریں، تو جوگ بن جائے گا اور اگر دل کی اصلاح کریں اور نفس کی اصلاح نہ کریں، تو یہ مجذوب متمکن ہوجائے گا، دونوں کام خراب ہیں، تو لہٰذا دونوں کی اصلاح ضروری ہے۔
ذکر سے دل ہو ٹھیک اور نفس کو دینا جہد کی گولی
ہو رہبر ساتھ کہ داؤ شیطان کا وہ چلنے نہیں دیتا
یہ procedures کی بات ہورہی ہے۔ ایک تو یہ بات ہے کہ دل ذکر سے ٹھیک ہوتا ہے، لہٰذا ذکر بھی کرنا پڑتا ہے، اصلاحی ذکر۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک سقالہ ہوتا ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ وہ کیا ہے؟ ذکر اللہ ہے، لہٰذا ذکر بھی کرنا ہوگا۔ اور اس طرح نفس اس کا علاج جہد سے ہوتا ہے یعنی مجاہدہ سے ہوتا ہے، علاج بضد کے اصول پر کہ اس کی بات نہیں مانو گے، تو کام بنے گا، تو لہٰذا اس سے مجاہدہ کروانا پڑتا ہے۔ ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں، یہ ہمارے جو شوگر کے بیمار ہوتے ہیں ناں بیچارے، یہ میٹھا جو پیتے ہیں، مطلب چائے پیتے ہیں اور اس طرح۔۔۔۔ تو ڈاکٹر لوگ ان کو کہتے ہیں کہ آپ ایک دو ہفتہ صرف نہ پئیں ناں، مطلب چینی نہ ڈالیں، تو پھر آپ عادی ہوجائیں گے، پھر آپ کو چینی کی ضرورت نہیں پڑے گی، اور بالکل بات ٹھیک ہے، صرف دو ہفتے کی بات ہوتی ہے، دو ہفتے آپ بغیر چینی کے آپ چائے پئیں، آپ بغیر چینی کی چائے کے ساتھ عادی ہوجائیں گے، آپ کو پھر چینی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ یہ کیا چیز ہے یہ؟ نفس کے اندر یہ تماشا تو ہے ناں، کمالات تو ہیں، تو ان کمالات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ناں؟ ہاں جی!
اچھا! رہبر اس لئے ہونا چاہئے، یہ آپ حضرات شاید جانتے ہو یا نہیں جانتے ہو، حج پہ جو جاتے ہیں، تو وہاں پر جب "جوازات" کا علاقہ ہوتا ہے، جب وہ آتا ہے، تو وہاں پر ہمارے ساتھ ایک آدمی کو بٹھایا جاتا ہے، راستہ مطلب گویا کہ ہوٹل تک پہنچانے کے لئے، اس کو وہ کہتے ہیں مرشد ہے، باقاعدہ اس کو مرشد کہتے ہیں۔ تو مرشد کا کام کیا ہوتا ہے؟ وہ یہ ہوتا ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے اور ڈرائیور کو پھر یہ کہتا ہے کہ اس طرف موڑو، اس طرف موڑو، یہ کرو، وہ کرو، مطلب سارا ٹھیک جو ہے ناں، مطلب وہ اس تک پہنچاتا ہے ڈرائیور یعنی وہ جو ہے ناں اس کو گاڑی کو ہوٹل تک، یہ اس کا کام ہوتا ہے۔ تو اسی طریقہ سے ڈرائیور جو ہوتا ہے ناں، وہ دل ہے مثال کے طور پر اور نفس گاڑی ہے، تو مرشد ساتھ ہونا چاہئے ناں، اگر مرشد نہیں، تو پھر کیا کریں گے؟ وہاں پہنچے گے نہیں۔ ہاں جی! تو یہ ساتھ ہونا چاہئے۔
چراگاہیں وہ جنت کی ملیں ہم کو چریں ان میں
مگر شیطان کبھی بھی مکر سے چرنے نہیں دیتا
یہ ایک حدیث شریف ہے، بہت واضح حدیث شریف ہے، بہت واضح حدیث شریف ہے، بقول مفتی حمید اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حمید اللہ جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے بیان کیا تھا، فرمایا کمال ہے، ایک حدیث شریف جس کا مطلب وہی ہے، جو لوگ بتاتے ہیں، اس سے ذکر کی مخالفت لوگ کراتے ہیں، حالانکہ باقاعدہ یعنی وہ جو ہے ناں وہ یعنی وہ احادیث شریف موجود ہے، آپ ﷺ سے براہ راست منقول، وہ موجود ہے، اب وہ اس کی طرف نہیں جاتے، تو کہتے چار احادیث شریف کم از کم میں آپ کو سناتا ہوں، ان میں سے ایک حدیث شریف یہ بھی، فرمایا کہ جب کبھی جنت کی چراگاہوں میں پہنچو، تو اس میں خوب چرو۔ جب کبھی جنت کی چراگاہوں میں پہنچو، تو اس میں خوب چرو، تو صحابہ کرام نے پوچھا جنت کی چراگاہیں کون سی ہیں؟ فرمایا: ذکر کے حلقے، ذکر کے حلقے۔9 اب دیکھو! حلقہ ایک آدمی کا ہوتا ہے، دو آدمی کا ہوتا ہے؟ ہاں جی! حلقہ کس چیز کا ہوتا ہے؟ کئی لوگوں کا۔ تو یہ اس سے ثابت ہوگیا ناں کہ اس قسم کی چیزیں ہیں ناں۔ تو ذکر کے حلقے جو ہیں جہاں جہاں ہیں، تو یہ ہمارے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے، آپ ان کے اندر بیٹھ جائیں، آپ کا دل آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہوجائے گا۔ جہاں پر ذکر کے حلقے ہوتے ہیں، سبحان اللہ! ہمارے احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے خطیب بھی تھے، بہت بڑے یعنی جس کو کہتے ہیں قرآن پڑھتے پڑھاتے، مطلب قرآن کی تشریح کرتے تھے، تفسیر کرتے، مفسر قرآن تھے۔ شیخ القرآن جس کو ہم کہتے ہیں۔ تو ان کا ملفوظ ہے، فرمایا اگر اللہ میاں نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا میں کیا لائے ہو میرے لئے؟ تو میں عرض کروں گا یا اللہ! کچھ ذکر کے حلقے تو بنائے تھے، کچھ ذکر کے حلقے تو بنائے تھے۔ مطلب گویا کہ وہ اپنی کامیابی کی سب سے بڑی چیز کس چیز کو سمجھتے تھے؟ ذکر کے حلقوں کو، مطلب وہ والی بات۔ تو یہ جو ذکر کے حلقے، بڑی قیمتی چیز ہے، بڑی قیمتی چیزیں ہیں، اس کے ذریعہ سے دل بنتے ہیں، ہاں جی! للٰہیت آتی ہے، آہستہ آہستہ انسان چلنا شروع کرلیتا ہے۔ اور آج کل انہی چیزوں کی سب سے زیادہ مخالفت ہورہی ہے، انہی چیزوں کی سب سے زیادہ مخالفت ہورہی ہے، بس ذکر کی بات شروع ہوجائے، تو بس وہ لوگ فتوے لگانے شروع کرلیتے ہیں۔ خدا کے بندو! اصلاح کی جس وقت بات اس میں آجائے، تو اصلاح کبھی منصوص نہیں ہوتی، اصلاح کا مقصد منصوص ہے، طریقہ منصوص نہیں ہے۔ اصلاح کا جو مقصد ہے، وہ منصوص ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ اور کیا ہے، اور منصوص کیا چیز چاہئے اور؟ یہ تو منصوص ہے۔ لیکن کس طریقہ سے ہو، اس کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ مختلف حالات میں، مختلف طریقے ہمارے پاس میسر ہوں، اس کے ذریعہ سے۔۔۔۔ جیسے مثال کے طور پر یہ طب کی طرح ہے ناں، اب جو ہے ناں، مطلب طب میں بیماریاں تبدیل ہورہی ہیں، تو دوائیاں تبدیل ہورہی ہیں، اب بیماریاں کبھی ایک طرف سے یعنی جس وقت ہم بچے تھے، اس وقت
tetracycline یہ 250 ملی گرام اس سے کام ہوجاتا تھا، ڈاکٹروں سے پوچھیں، 250 ملی گرام tetracycline گولی سے کام ہوجاتا تھا، پھر بعد میں پتا چلا کہ اس سے تو نہیں ہوتا، ہاں جی! 625 ملی گرام، یہ ہمارے دور کی باتیں ہیں، 625 ملی گرام اس کا جو ہے ناں وہ ہوگا۔ اچھا! اس سے جو ہے ناں وہ کیا ہے، اس سے آگے جو بڑھ گیا، تو پتا چلا کہ وہ one gram یہ augementin وغیرہ اور اس قسم کی چیزیں، مطلب یعنی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آرہی ہے، تبدیلی آرہی ہے، مطلب اس کے ساتھ آپ تبدیلی۔۔۔۔ بلکہ یہاں تک کہ یورپ میں جو دوائیاں اثر کررہی ہیں، وہ یہاں اثر نہیں کررہی ہیں، جو یہاں دوائیاں اثر کررہی ہیں، وہ وہاں اثر نہیں کررہی ہیں۔ اور یہ تو خیر دور جانے کی بات ہے، ایک آدمی کو ایک دوائی سے فائدہ ہوتا ہے، دوسرے کو اس سے نقصان ہوتا ہے، ڈاکٹر کو کرنا پڑتا ہے، مریض دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے لئے کون سی دوائی suitable ہے، وہ culture نہیں ہوتا، وہ blood culture test جو ہوتا ہے، وہ کس لئے ہوتا ہے؟ وہ اس لئے ہوتا ہے کہ دیکھو بھئی! اس کے لئے کون سی دوائی suit کرتی ہے؟ تو یہ ساری باتیں اگر ہم طب میں جانتے ہیں، تو یہ بھی تو علاج ہے ناں، تو علاج میں تو ایسا ہی ہوگا، علاج میں تو تبدیلیاں ہوں گی، تو جس وقت آپ نے اس کو علاج کہہ دیا، پھر اس کے منصوص ہونے پہ زور نہ دو، اس کے منصوص ہونے پہ زور نہ دو، آپ اس کے صرف یہ دیکھو کہ مطلب ایک مستند طریقے سے ثابت ہو۔ ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب یہ بڑے بزرگ گزرے ہیں سکھر کے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، اخیر عمر میں مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور وہیں پر مدفون ہیں، ان کے بیٹے سے میری ملاقات ہوئی ڈاکٹر کلیم اللہ صاحب، تو ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب جو تھے، حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ آپس میں اکٹھے رہتے تھے، ظاہر ہے ملتے جلتے تھے، مدینہ منورہ میں تھے، بیمار ہوگئے، چونکہ آخر عمر تھی، تو بیمار ہوگئے، بیٹے بھی دو بیٹے تھے اور دونوں ڈاکٹر ہیں، تو بیٹے جو علاج کرتے تھے، تو خود چونکہ ڈاکٹر تھے، تو ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے تھے کہ نہیں یہ نہیں ہے، وہ پرانے طریقوں سے وہ کرتا تھا ناں، یہ چیز چاہئے، وہ کہتے نہیں اب یہ کام نہیں کرتے، ہاں جی! اب یہ کام نہیں کرتے، اچھا! اخیر وہ بیٹے بیچارے تنگ ہوگئے کہ والد تو مان نہیں رہا، تو انہوں نے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شکایت کی کہ حضرت! ہمارے والد صاحب کو سمجھائیں، ہماری بات نہیں سن رہے ہیں، تو صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ڈاکٹر صاحب! ماشاء اللہ! آپ بھی ڈاکٹر ہیں اور یہ جو آپ کے بیٹے یہ بھی ڈاکٹر ہیں، لیکن یہ تھوڑے سے نئے ڈاکٹر ہیں، ہاں جی! تو دین کے معاملے میں پیچھے دیکھنا ہوتا ہے اور اس علاج کے معاملہ میں (دنیاوی علاج کے بارے میں) latest کو دیکھنا ہوتا ہے کہ latest کون سا ہے؟ تو چونکہ یہ آپ سے زیادہ latest ہیں، لہٰذا آپ مہربانی کرکے ان کی بات مان لیا کریں، اس میں آپ کا فائدہ ہے۔ پھر جو ہے ناں ڈاکٹر صاحب نے بات مان لی بیٹوں کی اور پھر ان کا علاج بھی ہو گیا۔ ہاں جی! تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں ہیں، تجرباتی ہیں، اس میں آپ کچھ کر نہیں سکتے۔
جو شر ہے بڑھ رہا ہے خوب رکاوٹ خیر کے واسطے ہے
خدا سے ہم کو وہ ظالم کبھی ڈرنے نہیں دیتا
کریمی کا مگر در ہے کھلا رب کا کریں توبہ
کہ مایوسی کا کوئی لفظ وہ سننے نہیں دیتا
اس کا در بہت زیادہ، بہت زیادہ کریمی کا در ہے یعنی جب یعنی سخت سے سخت کافر کسی وقت مسلمان ہونا چاہے، تو کوئی پابندی نہیں ہے، آجائے، ہاں جی! آجائے، کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس طرح گناہگار سے گناہگار آدمی ہو، توبہ کرنا چاہے، کوئی وہ مسئلہ نہیں ہے، توبہ کرے، سب کچھ معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہاں جی! یہ۔۔۔۔ تو یہ ہمارے لئے بہت ہی بڑی سعادت کی بات ہے کہ اگر ہم لوگ اس کو جانتے ہوں اور جیسے خدانخواستہ گناہ ہوجائے، فوراً توبہ کرلیں، کم از کم گزشتہ گناہ تو معاف ہوجائیں ناں، تو اس کو اپنے پیچھے کیوں لگاتے پھریں، ہاں جی! ہر وقت بس ہم لوگ جو ہے ناں، وہ یعنی گویا کہ اول تو گناہ کریں نہیں، کیونکہ کوئی ہوشیاری کی بات نہیں ہے کہ توبہ کی امید پر کوئی گناہ کرے، لیکن اگر گناہ ہوجائے، تو فوراً توبہ کریں، اس میں ذرا بھر بھی دیر نہ لگائیں، کیونکہ کچھ پتا نہیں کہ عین گناہ کے وقت میں کہیں انسان کی موت نہ ہوجائے، ہاں جی! تو پھر آدمی کیا کرسکتا ہے؟
آخری شعر میں حضرت والا فرماتے ہیں۔
شبیرؔ پھر فضل رب کا ہو تو مقصد پورا ہوجائے
کبھی شیطاں جو دال اپنی ہے وہ گلنے نہیں دیتا
ہاں! یہ اصل میں ایک بہت بڑی حقیقت کی بات ہے کہ جتنے بھی ہمارے اسباب ہیں، ان اسباب کو اس امید پر اختیار کریں کہ اللہ پاک اس سے وہ کام کروا دے گا، جس کے لئے اللہ پاک نے یہ بنائیں ہیں، لیکن اصل فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے، اصل فیصلہ تو اللہ میاں نے کرنا ہے، تو جب اس کا فضل ہوجائے، تو کام بن جاتا ہے۔ ناکافی اسباب سے بھی کام بن جاتا ہے، اگر اس کا فضل ہوجائے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف متوجہ رہنا چاہئے، دعا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے، ورنہ اگر ایسا نہیں ہے، تو شیطان جو ہے، یہ ہمارے راستہ میں بیٹھا ہوا ہے، وہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ، قرآن پاک میں بھی ہے اس کے بارے میں کہ وہ یہ ہے کہ میں ان کے راستہ میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا، ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا، تو ان میں بہت کم کو شکرگزار پائے گا، ہاں! مگر جن پر میرا داؤ نہیں چلتا، وہ تیرے پاس پہنچ جائیں گے۔ ہاں جی! تو یہ بات ہے کہ شیطان جو ہے، وہ مسلسل لگا رہتا ہے یعنی بہترین سے بہترین شخص اور اللہ کے بڑے سے بڑے ولی پہ بھی یہ مسلسل، اخیر تک یہ کوشش کرتا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ آخر وقت کی بات ہے، غشی طاری ہوگئی، بچے سمجھنے لگے کہ شاید آخری وقت ہے، کلمہ کی تلقین کرنے لگے، امام صاحب کی زبان سے مسلسل نکل رہا ہے، ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں، وہ حیران ہیں کہ ہم ذکر کی تلقین کررہے ہیں اور ذکر ساری عمر ذکر کرتے رہے ہیں، لیکن اب نہیں ہورہا، پریشان ہوگئے، جب افاقہ ہوگیا، تو پوچھا کہ حضرت! یہ کیا بات تھی، آپ کیا کہہ رہے تھے؟ فرمایا مجھے تو یاد نہیں، تم لوگوں کی باتیں تو میں نے نہیں سنی، میرے سامنے شیطان اپنے سر پہ خاک ڈال رہا تھا اور مجھے بار بار کہہ رہا تھا احمد! تو مجھ سے بچ کے نکل چلا گیا، احمد! تو مجھ سے بچ کے نکل گیا، احمد! تو مجھ سے بچ کے نکل گیا، میں اس سے کہتا نہیں ابھی نہیں، ابھی نہیں یعنی ابھی میں زندہ ہوں، ابھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور واقعتاً کچھ بھی ہوسکتا ہے، کچھ پتا نہیں کہ کس وقت کیا ہوجائے۔ ہاں جی! تو جب یہ والی بات ہے، تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے، اللہ پاک سے مانگنا چاہئے، اللہ کا فضل ہوجائے، تو سارے کام ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی فضل فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الحشر: 18)
(الشعراء: 88)
(الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’(اللہ) ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 189)
ترجمہ: ’’اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سدا زندہ ہے جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے (وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے (وہ بھی) سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے‘‘۔ (البقرۃ: 255)
نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
(الزمر: 53)
ترجمہ: ’’اور میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا)‘‘۔(یوسف: 53)
(الشمس: 9-10)
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3510)