غفلت سے بیداری اور آخرت کی تیاری

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد مدنی - کھنہ پل، اسلام آباد

اس بیان میں زندگی کے اصل مقصد یعنی آخرت کی تیاری کی یاد دہانی کروائی گئی ہے، جہاں ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔  انسان علم رکھنے کے باوجود نفسانی خواہشات اور غفلت کا شکار ہوکر گناہ کرتا ہے، جبکہ کامیابی کا واحد راستہ نفس کا تزکیہ اور اسے گناہوں سے پاک کرنا ہے۔ دنیاوی عزت، دولت اور عہدہ عارضی دھوکے ہیں، اور اللہ کے نزدیک حقیقی کامیابی کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ گناہوں سے نجات کے لیے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، لیکن ہدایت کے حصول کے لیے محض تمنائیں کافی نہیں، بلکہ دعا (بالخصوص سورۃ فاتحہ میں) اور نیک لوگوں کی صحبت میں دین سیکھنے کی عملی کوشش لازمی ہے۔ آخر میں، اپنی اولاد کی صحیح دینی تربیت اور اپنے وقت، علم و مال کو آخرت سنوارنے کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ غفلت کی زندگی سے نکل کر ابدی کامیابی حاصل کی جا سکے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿وَذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾1 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ ۝ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾2 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾3 وَقَالَ عَلیْہِ الصَّلٰوٰۃ وَالسَّلَامُ: ’’اَلدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْاٰخِرَۃِ‘‘4۔ وَقَالَ عَلیْہِ الصَّلٰوٰۃ وَالسَّلَامُ: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘5۔

صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

بزرگو اور دوستو!

چند ایسی باتیں ہیں جو ہم سب مانتے ہیں، جانتے ہیں اور مانتے ہیں، لیکن وہ باتیں یاد نہیں رہتیں۔ عملی طور پر یاد نہیں رہتیں، تو اس کو بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کا بھول جانا بہت نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ تو میں نے پہلے جو آیت کریمہ تلاوت کی ہے، اس میں اللہ جل شانہ کا ارشاد مبارک ہے: "پس یاد دہانی کیا کریں، یاد دہانی مومنین کو نفع پہنچاتی ہے"۔ تو یہ بیان جو میرا ہے، وہ اس کا ایک یاد دہانی سمجھیں۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی، سب پرانی باتیں ہیں، لیکن ان پرانی باتوں کو بار بار ذہن میں لا کر اپنے دل کو اس سے متاثر کرنا ہے اور پھر اس کے متعلق عمل کرنا ہے۔ تو یہ سارے بیانات اس سلسلہ کی کڑی ہیں۔ یہ کوئی بہت زیادہ عالمانہ، فاضلانہ بیان نہیں ہوتا، صرف ایک یاد دہانی اس کو سمجھ لیجئے گا۔

پہلی بات جو ہمیں یاد رہنی چاہیے، پہلی بات جو ہمیں یاد رہنی چاہیے کہ ہم نے مرنا ہے۔ اس میں کسی کو انکار نہیں ہے، حتیٰ کہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہر شخص نے مرنا ہے اور دوسری بات، صرف مرنا نہیں ہے، بلکہ وہاں پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔ حساب کیسے دینا ہے؟ وہاں ہر ہر عمل کو تولا جائے گا، تو جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا، وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں چلا جائے گا۔ ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ﴾6 اور جس کا نیکیوں کا پلڑا یعنی ہلکا ہوگیا، تو پھر اللہ نہ کرے، وہ جہنم جائے گا۔ پس ہم ہر وقت یا کوئی نیکی کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی برائی کر رہے ہوتے ہیں، اور یا پھر یہ ہے کہ نہ نیکی ہوتی ہے نہ برائی ہوتی ہے۔ مثلاً، انسان سو جائے تو اس میں نہ نیکی ہے نہ برائی ہے۔ جب نماز کا وقت نہ ہو، اور اگر نماز کے وقت میں سو جائے، تو پھر برائی ہے۔ اس طریقے سے ہمیں ان اعمال کا سوچنا ہے جس کا ہمیں حساب دینا ہے۔

اعمال کون کون سے ہیں؟ موٹی موٹی باتیں ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں، "ہمیں علم نہیں"۔ یہ بات شاید مناسب نہیں ہے، کیونکہ جن باتوں کو ہم جانتے ہیں، اگر انہی کا حساب کیا جائے پھر کیا ہوگا؟ مثلاً، کوئی ایسا شخص مسلمانوں میں ہے جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے۔ کسی کو ہے علم یا نہیں ہے؟ سب کو پتا ہے۔ زنا کرنا گناہِ کبیرہ ہے، دھوکہ دینا، غیبت کرنا گناہِ کبیرہ ہے، اس طرح نماز چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے، حج فرض ہو اور نہ کرنا، زکوٰۃ فرض ہو اور نہ دینا، یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں۔ بڑی لسٹ ہے اور یہ سب ہم سب کو معلوم ہے۔ اس میں شاید کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جو ہمیں علم نہ ہو۔ ہاں! کچھ باتیں ایسی ہیں جو ذرا گہری ہیں، تو اس میں علماء سے پوچھنا پڑتا ہے، لیکن یہ موٹی موٹی باتیں سب کو معلوم ہیں۔ تو جنہوں نے یہاں جھوٹ بولا ہے، کیا وہ وہاں پر حساب کے وقت کہہ سکتا ہے کہ مجھے پتا نہیں تھا؟ نہیں کہہ سکتا۔ جو زنا کر چکے ہیں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں تھا؟ جو بدنظری کرتا ہے، جو دوسروں کا مال کھاتا ہے، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پتا نہیں تھا۔ پس معلوم ہوا کہ علم تو ہے، صرف غفلت ہے، یعنی یاد نہیں ہے عین وقت پہ، یہ یاد نہ ہونا دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک یاد نہ ہونا کہ بالکل اس کا علم ہی ختم ہو جائے، ایسا تو نہیں ہوتا۔ ایسا تو نہیں ہوتا، اتنا ہوتا ہے کہ کوئی نفس کی خواہش اس پر اتنی غالب ہو جاتی ہے کہ وہ اس چیز کو، جس کو منع کیا گیا ہوتا ہے، اس سے نظر ہٹ جاتی ہے۔ اس کو غافل کہتے ہیں۔ تو یہ بات تو ہے۔ تو اگر یہ بات ہے، تو پھر اس کا علاج بھی ہے۔ اس کا علاج بھی ہے۔ اس کا علاج بھی بتایا گیا ہے۔ اس کا علاج کیا ہے؟ سبحان اللہ! اللہ جل شانۂ نے اس کے علاج کے لئے پوری ایک سورۃ اتاری ہے۔ پوری ایک سورۃ! اللہ اکبر! اس سورۃ کا نام سورۃ الشمس ہے۔ اس میں اللہ جل شانہٗ نے سات قسمیں کھائی ہیں: سورج کی قسم، چاند کی قسم، زمین کی قسم، آسمان کی قسم، دن کی قسم، رات کی قسم، نفس کی قسم۔ سات قسمیں کھائی ہیں، پھر اللہ پاک فرماتے ہیں، میں نے اس نفس کو دو چیزیں الہام کی ہیں، یعنی ہر وقت اس نفس سے دو چیزیں ہو سکتی ہیں، واقع ہو سکتی ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ ہر وقت ہم یا نیکی کر رہے ہوتے ہیں یا برائی کر رہے ہوتے ہیں، تو اس کا جو source ہے، وہ کیا ہے؟ وہ یہی نفس ہے۔ یعنی نفس کی کچھ خواہشات ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں۔ نفس کی جو خواہش ہے، اگر پوری کیا جائے اور اللہ کے حکم کو چھوڑا جائے، تو یہ فجور کہلاتا ہے۔ ایسے شخص کو فاجر کہتے ہیں۔ اور اگر نفس کی اس خواہش کی مخالفت کی گئی اور اللہ کے حکم کو پورا کیا گیا، اس کو تقویٰ کہتے ہیں اور ایسے شخص کو متقی کہتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے پھر متقی کی بڑی شان بیان فرمائی ہے۔ سبحان اللہ! متقی کی بڑی شان بیان فرمائی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾7 ’’بے شک تم میں زیادہ عزیز اور زیادہ عزت والا مکرم وہ شخص ہے اللہ کے نزدیک جو زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘۔ جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ ہمارے نزدیک عزت والا یا بڑی پوسٹ والا ہوتا ہے یا بڑے مال والا ہوتا ہے یا بڑے خاندان والا ہوتا ہے یہ ہمارا معیار ہے عزت کا، نہیں اللہ کے ہاں یہ معیار نہیں ہے، اللہ کے ہاں یہ معیار نہیں ہے۔ مالداروں میں قارون کو دیکھو، کیا وہ اللہ کے نزدیک معزز تھا؟ اللہ نے اس کے مال کو سر پر لاد کر زمین میں دھنسا دیا۔ بہت بڑی پوسٹ پر ہامان اور اس قسم کے بہت سارے لوگ رہے ہیں، ان کے ساتھ کیا ہوا؟ بادشاہ تھے بڑے بڑے، نمرود، شداد، فرعون، ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ بھی عزت و اکرام والی بات نہیں ہے۔ خاندان والی بات، مجھے بتاؤ، پیغمبر کا بیٹا ہونے سے کوئی بڑی بات ہوسکتی ہے؟ براہِ راست بیٹا ہونے سے اور پیغمبر کا والد ہونے سے بڑی بات ہوسکتی ہے؟ پیغمبر کی بیوی ہونے سے بڑی بات ہوسکتی ہے؟ ان تینوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے: نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان، ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر اور لوط علیہ السلام کی بیوی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں کچھ قابلِ عزت نہیں ہیں۔ اصل چیز کیا ہے؟ متقی! سبحان اللہ! متقی! جو متقی ہے، وہ غلام بھی ہے، اللہ کو بڑا محبوب ہے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، لقمان حکیم علیہ السلام، یہ غلام تھے۔ ہاں جی، بڑے لوگ، لیکن اگر ایمان نہیں ہے یا فسق و فجور میں مبتلا ہے تو نہ نسب بچا سکتا ہے، نہ مال بچا سکتا ہے، نہ پوسٹ بچا سکتی ہے۔

پوسٹ کا تو یہ حال ہے کہ جو لوگ بڑی پوسٹ پر ہوتے ہیں، ٹھیک ہے، ادھر ادھر دیکھو، میری بات نہ مانو، یہ بڑے بڑے جرنیل، بڑے بڑے Secretaries، اس طرح Directors اور مختلف لوگ جب ریٹائر ہوجاتے ہیں، کوئی ان کا سلام بھی نہیں لیتا۔ وہی لوگ جو ان کے نیچے کام کر رہے ہوتے ہیں، اس کا جو گارڈ ہوتا ہے، اس کے لئے دروازہ نہیں کھولتا۔ بالکل طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی پوسٹ کے ساتھ ہی یہ بات ہوتی ہے۔ جب تک اس کے پاس پوسٹ ہے، اس کی عزت ہے؛ پوسٹ ختم، عزت ختم۔ اصل میں تو اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔

کہتے ہیں، شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کسی کھانے میں invited تھے مہمان کے طور پر۔ وہ اپنے سادہ لباس میں گئے تو دیکھا کہ کسی نے بھی اندر آنے نہیں دیا، نہیں مطلب ان کو چھوڑا۔ وہ چلے گئے اور ایک بہت جو عید کے لئے یا کوئی اس طرح اچھا لباس جو ان کے پاس تھا، وہ لباس پہن کے چلے گئے۔ تو سب کہتے ہیں: "جی آئیے، آئیے! تشریف لائیے!" اور یہ اور وہ۔ وہ چلے گئے تو کھانا شروع ہوگیا۔ اب یہ اپنی آستین کو بار بار سالن میں ڈبو رہے ہیں۔ تو لوگوں نے کہا، "حضرت! ویسے آپ بڑے اچھے نظر آرہے ہیں، لیکن یہ کام کیا کر رہے ہیں؟" انہوں نے کہا: "کیا مطلب؟" انہوں نے کہا، "اپنے کپڑوں کو کیوں سالن میں ڈبو رہے ہیں؟ آپ کھانا کھائیں۔" کہا: "میری دعوت تو اس میں ہے ہی نہیں، کپڑوں کی دعوت ہے۔ میں کپڑوں کو کھلا رہا ہوں۔" کہتے ہیں، "کیوں آپ کی دعوت نہیں ہے؟" کہتے ہیں: "میں پہلے بھی آیا تھا، ذرا سادہ لباس میں آیا تھا، آپ لوگوں نے چھوڑا نہیں۔ اب میں ان کپڑوں میں آیا تو آپ میری عزت کر رہے ہیں، آپ مجھے کھانا کھلا رہے ہیں، تو یہ کپڑوں کو کھانا کھلا رہا ہوں، مجھے تو کھانا نہیں کھلا رہے۔"

تو اس طرح ہر انسان کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ تو پوسٹ کے ساتھ عزت کوئی عزت نہیں ہے، انسان کی عزت نہیں ہے، یہ کرسی کی عزت ہے۔ نسب کے لحاظ سے اگر کوئی عزت کر رہا ہے، تو یہ اس نسب کی عزت ہے، اس کی عزت تو نہیں ہے۔ اور یہ ساری چیزیں جو دوسروں کی ہیں، یہیں رہ جائیں گی، یہیں رہ جائیں گی۔ نسب بھی یہاں رہ جائے گا، مال بھی یہاں رہ جائے گا، پوسٹ بھی یہاں رہ جائے گی۔ ہم جو جائیں گے، اپنے اعمال کے ساتھ جائیں گے، اپنے اعمال کے ساتھ جائیں گے۔ اور اعمال کا بہت واضح طور پر فرمایا گیا ہے: ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ ۝ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾8 جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگیا تو وہ تو ہمیشہ کے لئے جنت میں جائے گا اور جن کے نیک اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگیا وہ دوزخ میں جائے گا۔ پس پتا چلا کہ ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔ اب اعمال کو ہم کیسے اچھا کریں؟ دیکھیں، میرا اپنا خیال ہے، دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جو اچھے اعمال والا ہونا نہیں چاہتے۔ یہ ایسا نہیں ہے، لیکن ان اچھے اعمال کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے، اس محنت سے اپنے آپ کو لیس نہیں کرنا چاہے، بس یہی مطلب، سستی کی وجہ سے، بے ہمتی کی وجہ سے، انسان نہیں کر پاتا، ورنہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میں اچھے اعمال والا ہوجاؤں۔

مجھے بتاؤ، اس وقت جتنے لوگ بیٹھے ہیں، کوئی ایسا آدمی ہو جو جنت نہیں چاہتا ہو، ہاتھ کھڑا کرے۔ ہے کوئی ایسا شخص جو جنت نہیں چاہتا؟ ہے کوئی ایسا شخص جو جنت جانے سے، جہنم جانے سے نہیں ڈرتا ہو؟ ہے کوئی دنیا میں ایسا شخص؟ ایسا نہیں ہے۔ ہر شخص جنت میں جانا چاہتا ہے، جہنم سے بچنا چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا دین بڑا واضح ہے کہ جہنم جانے کے لئے کون سے اعمال ہیں اور جنت جانے کے کون سے اعمال ہیں۔ صاف صاف باتیں ہیں۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو جنتی اعمال ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو جہنمی اعمال کرتے ہیں؟ تو ہم خود فیصلہ کرلیں۔

اب میں عرض کرتا ہوں کہ یہ سستی اور غفلت، کوتاہی، جرم، یہ کیوں ہوتے ہیں؟ اس پہ بات میں کر رہا تھا۔ تو صاف بات ہے۔ میں نے جو ابھی سورۃ شمس کے بارے میں آپ سے عرض کیا تھا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اس میں میں نے دونوں چیزیں رکھی ہیں، ایک فجور والی اور ایک تقویٰ والی۔ وہ دونوں باتیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے۔ یہ جو انسان ہے ناں، اس کو اللہ نے اختیار دیا ہے۔ فرشتوں کو اختیار نہیں دیا، فرشتوں کو اختیار نہیں دیا۔ انسانوں کو اختیار دیا ہے، جنات کو اختیار دیا ہے، ان دونوں کو اختیار دیا ہے۔ چاہے اچھے کام کرو، چاہے برے کام کرو، یہ تمہاری مرضی ہے۔ لیکن اس پر، کس چیز پر میں کیا دیتا ہوں، کس چیز پر میں کیا، یہ میری مرضی ہے، یہ میری مرضی ہے۔ تو اب بتا دیا کہ کیا چیزیں ایسی ہیں جو تقویٰ والی ہیں اور کیا چیزیں ایسی ہیں جو فجور ہیں۔ تو اس کے بارے میں پھر نتیجہ اللہ پاک بیان فرماتے ہیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾9 یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کی بری خواہشات کو دبا دیا یعنی اپنے نفس کو پاک کردیا اس سے، اور یقیناً تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو ایسی چیزوں میں ملیامیٹ کردیا۔ اب نتیجہ سنا دیا۔ اب ہر شخص کی مرضی ہے آیا وہ نفس کا تزکیہ کرکے جنتی اعمال کرنے کے قابل ہونا چاہتا ہے یا نفس کے تزکیہ سے غفلت کرکے اپنے آپ کو جہنم کا نوالہ بنانا چاہتا ہے، یہ اختیار دے دیا۔ ایک عالم تھا ان کو غلط فہمی ہوئی، مجھے کہتے ہیں شبیر صاحب! آپ کو کیا ہوگیا کہ آپ کہہ رہے ہیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾10 یہ ﴿قد قَدْ اَفْلَحَ﴾ تو بہت ساری آیات قرآنیہ میں آیا ہوا ہے، صرف اس جگہ تو نہیں آیا ہوا، تو اس وجہ سے آپ اس کو فرض تو نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایک عالم نے مجھ سے کہا۔ میں نے کہا کہ میں ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ کی وجہ سے تو نہیں کہہ رہا میں ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ کیا فرمایا اللہ پاک نے؟ تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو ان رذائل میں ملیامیٹ رکھا۔ اب جس چیز سے تباہ و بربادی یقینی ہے اللہ پاک کے فرمان کے مطابق، اس سے بچنا کیا ہے، نفل ہے؟ کیا خیال ہے مولانا صاحب؟ کہتے ہیں ہاں پھر ٹھیک ہے، پھر ٹھیک ہے۔ یہ غلط فہمیاں ہیں۔ غلط فہمیاں بہت سارے لوگوں کو ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں، لیکن ان غلط فہمیوں سے نکلنا لازمی ہے۔ اس زندگی میں لازمی ہے۔ موت کے بعد سب غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ سب کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی، بلکہ موت کے اثرات آنے کے ساتھ ہی ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔ بلکہ جب سخت بیماری آجاتی ہے، اس وقت بھی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔ جب کبھی سخت مشکل حالات میں انسان پھنس جاتا ہے، اس وقت بھی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور آدمی کہتا ہے کہ اس سے میں بچ گیا ناں، تو پھر میں یہ کروں گا، میں یہ کروں گا، میں یہ کروں گا۔ اور جیسے ہی اس سے نکل جاتا ہے، پھر وہیں کا وہیں۔

اور اللہ جل شانہ نے باقاعدہ اس کا شکوہ بھی فرمایا ہے۔ ہاں جی، کہ جس وقت یہ پھنس جاتے ہیں تو دل سے پکارتے ہیں اللہ کو اور جس وقت حالات وہ دور ہوجاتے ہیں، پھر ویسے کے ویسے ہوجاتے ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی میں اس بات کا استحضار کرنا کہ ہمیں جواب دینا ہے، اس کے لئے وہ کام کرنے ہیں جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس کے لئے ان کاموں سے بچنا جس سے اللہ پاک نے روکا ہوا ہے، یہ ہمارے ذمہ ہے۔ پھر بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ طفل تسلیاں، بچوں کی تسلیاں ہوتی ہیں ناں، طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ تو ان طفل تسلیوں کو بھی آپ ﷺ نے صاف کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سن لو اچھی طرح، حدیث شریف ہے، مشہور حدیث شریف ہے، عقلمند ہے وہ شخص، عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور بیوقوف ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا، جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے دیا، پھر بعد میں محض اللہ پہ تمنائیں کرتا رہا۔ ’’تَمَنّٰى عَلَى اللهِ‘‘11 محض تمنائیں کرتا رہا۔ تمنائیں کیسے ہوتا ہے؟ اللہ غفورٌ وّرحیم ہے۔ اللہ غفور ہے۔ اللہ غفورٌ وّرحیم ہے بے شک اللہ، غفورٌ وّرحیم ہے بے شک، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اللہ پاک نے عفو کا دروازہ توبہ کے ساتھ وابستہ کیا ہے ناں۔ توبہ کرو، اللہ غفورٌ وّرحیم ہے یا نہیں ہے؟ ابھی توبہ کرلو، ان کے لئے تو بشارت ہے: ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ﴾12 اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجانا۔ اللہ پاک سارے گناہوں کو معاف فرماتا ہے، تم توبہ کرکے تو دیکھو، سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ توبہ کرنے کے لئے اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بعض توبہ کی صورت میں اعلان کی ضرورت ہے، اس کا میں عرض کروں گا، لیکن عمومی طور پر اس کی requirement نہیں ہے۔ عرض کرتا ہوں، موسیٰ علیہ السلام پیغمبر ہیں اور استسقاء کی نماز کے لئے اپنی قوم کے ساتھ باہر آئے ہیں، تو وحی آگئی: اے موسیٰ! میں بارش نہیں دوں گا اس وقت تک، جب تک فلاں شخص، ایک شخص ہے، تیری مجلس میں ہے جس نے مجھے چالیس سال سے ناراض کیے رکھا ہے۔ جب تک یہ تیری مجلس میں ہے، میں بارش نہیں دوں گا۔

موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور اعلان کیا، اے میرے ساتھیو، کوئی شخص ایسا ہے جس نے چالیس سال سے اللہ کو ناراض کیے رکھا ہے، مہربانی کرکے وہ چپکے سے کھسک جائے تاکہ اللہ پاک بارش دے دے، ورنہ باقی لوگوں کو بارش نصیب نہیں ہوگی۔ اعلان کردیا۔ اب تھوڑی دیر گزر گئی، بارش شروع ہوگئی، کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھا نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے، کہیں لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے جھوٹ کہا ہے، کیونکہ پیغمبر کا جھوٹ کا معاملہ ہو نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ سے عرض کیا، یا اللہ! یہ کیا ہوگیا؟ میں نے تیرے فرمانے پر ابھی اعلان کردیا اور بارش ہوگئی، کوئی آدمی اٹھا نہیں ہے، یہ کیا ماجرا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا: اے موسیٰ، اس نے میرے ساتھ صلح کرلی ہے، یعنی اس نے توبہ کرلی ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام بہت خوش ہوگئے اور فوراً عرض کیا کہ یا اللہ! میں کیا اس کی ملاقات کرسکتا ہوں؟ یہ تو آپ کا دوست بن گیا ہے، کیا اس سے ملاقات کرسکتا ہوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! کیا کہتے ہو؟ چالیس سال تک مجھے جب ناراض کیے رکھا، میں نے اس کا پردہ نہیں اٹھایا، اب جب میرا دوست بن گیا تو اس کا پردہ اٹھاؤں گا؟ یہ ہے بات۔ تو اللہ پاک تو اتنا مہربان ہے، توبہ کرنے سے سارے گناہ معاف فرماتے ہیں اور توبہ کرنے سے کتنے خوش ہوتے ہیں، یہ بھی آپ ﷺ نے فرمایا ہے اور وہ حدیث شریف، بڑی عجیب حدیث شریف ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ایک صحرا ہے یعنی ایسا صحرا جس میں کوئی گم ہوجائے پھر واپس اس کے ملنے صحیح راستہ ملنے کا امکان نہ ہو، یہ صحرائیں پہلے ہوا کرتی تھیں، اس میں ایک سوار ہے اونٹ پر، اس کا سامان لدا ہوا ہے، توشہ، اور راستہ گم کرگیا۔ اب جب راستہ گم کرگیا، تو راستے کی تلاش میں اونٹ بھی گم ہوگیا۔ اب بہت پریشان ہوگیا کہ اونٹ بھی گم ہوگیا، سامان، توشہ، اس کے اوپر ہے، پانی، کھانے پینے کا سامان، سب کچھ اس پر ہے۔ اب تو مرنا ہی ہے۔ جتنی کوشش کرسکتا ہے کرلی، آخر میں بہت تھک گئے، سستانے کے لئے بیٹھ گئے، نیند غالب ہوگئی، سو گئے۔ جس وقت اٹھے تو وہ اونٹ بمع سامان کے سرہانے موجود۔ اونٹ نے بھی اس کو تلاش کرلیا۔ ہاں جی۔

اس پر یہ آدمی اتنا خوش ہوگیا کہ کہنا چاہتا تھا کہ یا اللہ تو میرا رب ہے، میں تیرا بندہ ہوں، زبان سے نکل رہا ہے خوشی کی وجہ سے: اے اللہ، میں تیرا رب ہوں، تو میرا بندہ ہے۔ تو آپ ﷺ فرمانے لگے، اس اونٹ والے سے، اس سوار سے، اللہ جل شانہ کو زیادہ خوشی ہوتی ہے جب کوئی شخص توبہ کرتا ہے، جب کوئی شخص توبہ کرتا ہے۔13

تو اس وجہ سے توبہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا ہتھیار دیا ہے مسلمان کو، بلکہ ہر انسان کو، ہر جن کو، یہ اتنا بڑا ہتھیار دیا ہے کہ شیطان اس کے سامنے عاجز ہے۔

اور کہتے ہیں کہ شیطان کو جب یہ پتا چلا توبہ کا، تو بہت پریشان ہوگیا اور سر پہ خاک ڈالنے لگا کہ اب تو ہماری محنتوں کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ صبح ہم، صبح سے لے کے شام تک ہم گناہ کروائیں گے اور شام کو یہ توبہ کرلے گا، ساری چیزیں ختم ہوجائیں گی، تو پھر ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔ تو دوسرے شیطان نے اس کو کہا، پروا نہ کرو، ان کے ساتھ ہم بھگت لیں گے، ہم نمٹ لیں گے، ان کے ساتھ ہم نمٹ لیں گے۔ کیسے نمٹیں گے؟ ان کو گناہ، گناہ ہی نہیں سمجھنے دیں گے، یہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھیں گے۔

مجھے آپ بتاؤ کہ جیب کے اندر جو موبائل پڑا ہوا ہے، اس کے ساتھ جو چیزیں ہیں، اس کو لوگ گناہ سمجھتے ہیں؟ ہاں جی، اگر گناہ سمجھتے ہیں تو پھر ایسا کرتے کیوں ہیں؟ ہاں جی۔ یہ چیز ہے۔ اس وجہ سے اس کو ہم نے کنٹرول کرنا ہے۔ یہ جو مطلب موبائل، اس کے اوپر ہر چیز موجود ہے۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، اگر خدانخواستہ گند کی طرف خیال چلا گیا تو پتا نہیں کیا کیا ہوجائے گا، ہاں جی۔ اس طرح تصویریں نکلوانا، حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں لوگ اپنی تصویریں نکالتے ہیں، طواف کے دوران لوگ اپنی تصویریں نکالتے ہیں، خانہ کعبہ کے اندر جاتے ہوئے تصویریں نکلواتے ہیں۔ اس کو کوئی گناہ سمجھتا ہے؟ اگر گناہ سمجھتے ہوتے تو خانہ کعبہ میں یہ کام کرتے؟ کرتے ہیں ناں۔

ایک عالم جو کراچی کے تھے، اس نے بڑی اچھی بات کی۔ کہتے ہیں، ایک عرب شیخ تھے، اس نے کیمرہ لگوایا تھا اور وہ تصویر کھنچوا رہا تھا تو خانہ کعبہ کے، ظاہر ہے، وہ سیڑھیوں پہ چڑھنے کا۔ تو کہتے ہیں، میں نے وہ، ذرا جھولی طبیعت کا عالم ہے، بہت ہنس مکھ مزاج کا ہے۔

کہتے ہیں میں نے اسے کہا ’’کَمْ ثَوَاباً فِیْ ہٰذَ الْأَمْرِ‘‘ اس میں کتنا ثواب ہے جو آپ کررہے ہیں؟ اس نے کہا: ’’مَا فِیْہِ ثَوَابٌ ھٰذَا حَرَامٌ‘‘ اس میں ثواب کوئی نہیں ہے، یہ تو حرام ہے۔ تو میں نے کہا تو انہوں نے کہا: ’’حَرَامٌ، وَعِنْدَ الْکَعْبَۃِ؟، حرام اور کعبہ کے ساتھ۔ بس فوراً سمجھ گیا۔ کہتے ہیں، ختم کرو بھائی یہ کیمرہ اٹھاؤ۔ ہاں جی، کیمرہ ہٹا دیا، استحضار ہوگیا۔ سبحان اللہ! یہی بات ہے۔ اتنے سارے لوگ اس میں مبتلا ہیں، میں آپ کو کیا بتاؤں۔ ایک دفعہ ہم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے مدینہ منورہ میں، مسجد نبوی میں۔ وہاں عموماً یہ بات ہوتی ہے کہ امام جو ہے ناں سوائے خطبے کے بات نہیں کرتا۔ بس آذان ہوتی ہے، خطبہ ہوتا ہے، نماز ہوتی ہے، لاؤڈ سپیکر کے اوپر، اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا، لیکن کیا ہوا، عشاء کی نماز پڑھ لی ہم نے، مائیک on ہوگیا اور امام صاحب بڑے جلال میں کہنے لگے: یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ یہ مسجد نبوی ہے، یہ نبی کا حرم ہے، یہاں آپ لوگ تصویریں لے رہے ہیں، آپ لوگ اپنے ساتھ کیمرے اٹھائے ہوئے ہیں، اپنے ساتھ موبائل اٹھائے ہوئے ہیں، یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ جرم ہے، یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہو؟ یہ ساری باتیں۔ اچھا! کمال کی بات ہے، اسی دوران بھی لوگ تصویریں لے رہے تھے۔ اب کیا کیا جائے۔ بلکہ اگر آپ کسی کو نصیحت کرلیں، وہ آپ کے ساتھ لڑنے لگتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے، میرے ساتھ لڑے ہیں۔ ہاں جی۔ اس وقت اس حد تک جہالت سر میں آگئی ہے کہ کوئی اچھی بات کو برداشت ہی نہیں کرتا۔ تو پھر جب جہنم کا پکوڑا بن جائے گا، پھر کون چھڑائے گا اس کو؟ اس وقت سوچنے کی بات ہے ناں۔ اس وقت نصیحت کی قدر کرو، نصیحت کی قدر کرو۔ یہ نصیحتیں آپ کو بچائیں گی۔ کبھی باپ کی نصیحت، کبھی استاد کی نصیحت، کبھی پیر کی نصیحت، کبھی اچھے آدمی کی نصیحت، یہ تمہارے لئے خیر کی بات ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے لئے سخت سمجھتے ہو اور اس کی مخالفت کرتے ہو، تو اپنے پیروں پہ کلہاڑی مارتے ہو۔ تو بہرحال، میں عرض کر رہا تھا کہ اللہ جل شانہٗ نے تو ہمیں ساری چیزیں بتائی ہیں، لیکن افسوس! ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

ہمارے پاس چار چیزیں ہیں زبردست، ان کو صحیح استعمال کرنا ہے۔ ہمارے پاس جان ہے، ہمارے پاس مال ہے، ہمارے پاس وقت ہے، ہمارے پاس علم ہے۔ یہی پانچ چیزوں کا پوچھا جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کوئی شخص آگے نہیں جائے گا جب تک ان سے یہ پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے: زندگی کیسے، کن اعمال میں خرچ کی ہے؟ مال کیسے کمایا ہے؟ مال کیسے خرچ کیا ہے؟ علم کا کیسے استعمال کیا؟ اور اپنے جسم کو کیسے استعمال کرلیا؟14 یہ پانچ چیزیں ہیں پوچھا جائے گا۔ تو یہ پانچ چیزوں کی تیاری کرو، یعنی چار چیزیں ہیں، ان کی تیاری کرو۔ اور ایک چیز ہماری اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو قبول فرمائے اور ان کو صحیح اعمال پہ لگا دے، یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنے گا۔ لیکن آج اگر آپ نے اپنی اولاد کا خیال نہیں کیا، ان کی تربیت کا سامان نہیں کیا، تو پھر کیا ہوگا؟ یہی اولاد آپ کے لئے خیر کا باعث نہیں ہوگی۔ اس وقت وہ ساری باتیں آرہی ہیں، سامنے آرہی ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پہ ساری چیزیں آرہی ہیں۔ یہاں تک، یہاں تک باتیں آرہی ہیں کہ کوئی مر جاتا ہے، بہت بڑا افسر مر جاتا ہے، اس کا بیٹا اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگانے کے لئے تیار، وہ چوہڑوں کو کہتا ہے کہ اس کو اٹھاؤ، خود اس کو ہاتھ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اور اگر آپ لوگ یورپ اور امریکہ کی چیزیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو وہاں تو اولڈ ہوم بنے ہوئے ہیں، یعنی بوڑھوں کے گھر۔ وہاں اپنے والدین کو جمع کرلیتے ہیں، ان کو فیس دیتے ہیں، بس وہ وہیں پر ہوتے ہیں۔ وہ جو ان کی اولاد ہوتی ہیں، ان کے ساتھ ملنے جاتے ہیں، نہ ان کی خبر لیتے ہیں، اسی طرح کسمپرسی میں کسی وقت مر جاتے ہیں۔ یہ چیزیں ادھر آرہی ہیں۔ اگر ہم نے ان کے نقشِ قدم پہ چلنا ہے، یہ چیزیں ادھر آرہی ہیں۔

تو اپنی اولاد پہ محنت کرو، ان کو اللہ والا بناؤ۔ اللہ والے کیسے بنائیں گے؟ مجھے بتاؤ، آپ کسی بچے کو کرکٹر بنانا چاہتے ہو، تو کیسے بناؤ گے؟ کرکٹ والوں کے پاس بھیجو گے ناں؟ اگر آپ کسی بچے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہو، تو ڈاکٹروں کے پاس بھیجو گے ناں؟ میڈیکل کالج میں بھیجو گے، تو اللہ والا بناؤ گے تو کس کے پاس بھیجو گے؟ اللہ والوں کے پاس بھیجو گے۔ آج کل لوگ اپنے بچوں کو اللہ والوں کے پاس بھیجتے ہیں؟ ڈرتے ہیں، ڈرتے ہیں لوگ کہ کہیں یہ خراب نہ ہوجائیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بچہ آکر بیٹھنے لگا۔ اس کے والد آگئے غصے میں کہ آپ نے میرے بیٹے کو بگاڑ دیا! تو حضرت نے فرمایا، ہاں بگاڑ دیا، ہم یہاں بگاڑنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں، ہم تو بگاڑیں گے، ہمارے پاس جو بھی آئے گا ہم بگاڑیں گے۔ لیکن یہ بگاڑنا ہی ان کے لئے فائدے کی بات ہے آخرت میں۔ آپ جس کو بگاڑنا سمجھتے ہیں، وہ اصل میں ان کا بنانا ہے۔ کیونکہ یہاں ہر چیز کا ظل ہے ناں، یہاں اصل حقیقت تو نہیں ہے ناں۔ جس کو ہم لوگ بگاڑنا سمجھتے ہیں، وہ بننا ہے اور جس کو بننا سمجھتے ہیں، وہ بگاڑنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو ہم لوگ دنیاوی تعلیم بہت زیادہ دیں گے تو ہمارے ہوجائیں گے، چلو پھر ان نتائج کو دیکھ لو کیا ہو رہے ہیں۔ ہاں، یہ ساری چیزیں ہیں ناں۔ تو بس ہم لوگوں کو کیا کرنا ہے؟ ذرا آنکھیں کھولنی ہیں، ذرا کان کھولنے ہیں اپنے، کان کھولنے ہیں اس لئے کہ نصیحت سن سکیں، آنکھیں اس لئے کہ حالات کو دیکھ سکیں اور ذرا دماغ کو fresh کرنا ہے کہ اچھی باتیں سمجھ آسکیں۔ اس کے لئے کیا چیز ہے؟ سب سے پہلی چیز دعا ہے، دعا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ دعا ہم روزانہ کرتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ہم یہ دعا کر رہے ہیں۔ ابھی آپ کو پتا چل جائے گا کہ کتنے لوگوں کو معلوم ہے۔ بھئی، آپ یہ دعا کرتے ہو یا نہیں کرتے ہو؟ کتنے لوگوں کو پتا ہے؟ ہاتھ کھڑا کردیں! کتنے لوگوں کو پتا ہے؟ بمشکل چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ ہوں گے بس دس بارہ یہ سارے، ان کو پتا ہے۔ ہم یہ دعا کرتے ہیں سورۃ فاتحہ میں، سورۃ فاتحہ میں یہ دعا کرتے ہیں، ہر رکعت کے اندر کرتے ہیں: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۝ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾15 اب جس کو پتا ہی نہیں کہ ہم یہ دعا کرتے ہیں، وہ دعا کی طرف کیا توجہ کریں گے؟ ہاں جی۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ہم یہ دعا کرتے ہیں، لیکن ذرا اس میں استحضار چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں اللہ تعالیٰ سے۔ ہر رکعت میں ہم اللہ تعالیٰ سے یہ مانگتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں، نمبر ایک۔ دوسری بات، تمنا کی حد تک نہیں، ارادے کی حد تک، جتنی ہماری ذمے کوشش ہے اس کوشش کو ہم کرلیں، کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾16 جو میرے راستہ میں کوشش اور محنت میری طرف آنے کی کرتا ہے ان کو ہم ہدایت کے راستے سجھائیں گے۔ ہم نے کیا مانگا ہے سورۃ فاتحہ میں؟ ہدایت مانگی ہے ناں؟ ہدایت مانگی ہے ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾17 اس کے ساتھ اگر ہم کوشش کریں گے تو کیا ہوگا؟ اللہ پاک ہمارے لئے ہدایت کے راستے سجھا دیں گے۔ تو ایک تو نماز نہ چھوڑیں اور ہر رکعت کے اندر جو یہ دعا ہم پڑھتے ہیں، اس دعا کو ہم جان لیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں اور پھر اس کے لئے کوشش کرلیں، کوشش کرلیں، کوشش کیا ہے؟ بھئی، اللہ والوں کے پاس جانا، کچھ دین کی باتیں سننا، کچھ دین کی باتیں سننا اور اس کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرنا۔

آج کل، میں آپ کو بتاؤں، یہ چیز آسان ہوگئی ہے۔ آج کل یہ چیز آسان ہوگئی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ، ثم اَلْحَمْدُ للہ۔ ہماری خانقاہ کے اندر جو بیانات ہوتے ہیں، روزانہ ہوتے ہیں، مغرب سے لے کر عشاء تک۔ یہ پوری دنیا میں جو سننا چاہتے ہیں، وہ سن سکتے ہیں۔ پوری دنیا کے اندر اسی وقت سن سکتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ! ایسا نظام بنا ہوا ہے۔ tazkia.org، یہ ہماری ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر اگر آپ اس کو، مطلب وہ دبائیں، تو آپ کو نظر آجائے گا کہ تازہ ترین بیانات، یا جو لائیو بیان ہیں وہ، یعنی جو چل رہا ہورہا ہے، وہ آپ کو نظر آجائے گا۔ آپ اس کو دبا دیں، آپ سننا شروع کرلیں۔ مغرب سے لے کر عشاء تک ہمارا جو وقت ہے، اس پہ آپ سن سکتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ، کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ جو سننے والے ہیں، وہ سنتے ہیں، چاہے وہ سعودی عرب میں ہیں، چاہے وہ امریکہ میں ہیں، چاہے وہ انگلینڈ میں ہیں، چاہے وہ آسٹریلیا میں ہیں، چاہے وہ انڈیا میں ہیں۔ کمال کی بات ہے انڈیا میں لوگ موجود ہیں، ملائیشیا میں لوگ موجود ہیں، آسٹریلیا میں لوگ موجود ہیں۔ اب وہ لوگ سنتے ہیں اور بعض محلے میں موجود ہیں، وہ نہیں سنتے۔ بعض محلے میں موجود ہیں، وہ نہیں سنتے۔ قسمت قسمت کی بات ہے۔ قسمت قسمت کی بات ہے۔ اب جو اُدھر دور سے اتنا سنتے ہیں، کمال کی بات ہے، ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے ناں۔ میں نے کہا: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾18 ابھی ہمارا بیان ختم ہوتا ہے اور انگلینڈ سے آجاتا ہے آپ نے ہمارے فلاں سوال کا جواب دے دیا۔ مجھے پتا تھا ان کے سوال کا؟ مجھے تو پتا نہیں تھا، کس کو پتا تھا؟ اللہ کو پتا تھا ناں۔ تو میرا دل بھی تو اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے ناں، وہ اس میں بات لا سکتا ہے جو اس کے سوال کا جواب ہے، وہ لا سکتے ہیں ناں۔ چاہے بے شک مجھے پتا ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ تو اس پر قادر ہے۔ تو وہ مجھے کہتے ہیں، میں آپ کو ابھی اس موبائل پر دکھا سکتا ہوں کہ وہ ساتھ ہی فوراً آجاتا ہے: آپ نے ہمارے فلاں سوال کا جواب دیا، آپ نے مطلب ہمارے فلاں concept کلئیر کردیا، یہ فلاں کردیا، فلاں کردیا، آجاتا ہے فوراً۔ یہ اللہ پاک کی ہدایت کا نظام ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ یہ ہدایت کا نظام ہے، لیکن اس کے لئے کیا چیز تھی؟ اس کے بس میں سننا تھا۔ اس کے بس میں سننا تھا۔ اس کے لئے اس نے کوشش کی۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾ کے اوپر عمل کرلیا ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾19 اللہ تعالیٰ کے پاس طریقہ ہے، وہ اس کے پاس کسی کے ذریعے سے بھی بات پہنچا دیتے ہیں۔ ایک شخص تھا۔ بس آخری بات کرتا ہوں، آپ ناراض نہ ہوں، لیکن یہ واقعہ ہے۔ میرا ایک بہت ذہین فطین دوست تھا، گمراہ ہوگیا۔ اللہ بچائے، گمراہوں کے ساتھ بیٹھنے سے گمراہی ہوجاتی ہے۔ گمراہ ہوگیا، کراچی چلا گیا تھا، گمراہوں کے ساتھ بیٹھ گیا تو گمراہ ہوگیا۔ مجھے پتا چل گیا، میں پریشان ہوگیا۔ میں نے کہا، یا اللہ! یہ تو بڑا اچھا ساتھی ہے، یہ کیا ہوگیا اس کو؟ اب میں سمجھا بھی نہیں سکتا، کیونکہ میں سمجھا رہا تھا، وہ سارے مجھے جواب دے رہے تھے۔ ذہین تو تھا، ہر بات کا توڑ کر رہے تھے۔ میں نے کہا، اس کا میں کیا کروں؟ میں نے کہا، اب اس کو بزرگوں کے پاس لے جانا چاہیے۔ میں نے کہا، بات سنو، آپ تو محقق ہیں ناں؟ کہتے ہیں، ہاں۔ میں نے کہا، تحقیق کے لئے تو لوگ سفر بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، ہاں۔ میں نے کہا، آپ ایک سفر کرسکتے ہیں؟ کہتے ہیں، کہاں کا؟ میں نے کہا، پشاور کا۔ اچھا ٹھیک ہے، ہوجائے گا۔ بس ایک شرط ہے کہ مغرب کے فوراً بعد روانہ ہونا ہے واپس۔ میں نے کہا، منظور ہے۔

ہمارے شیخ کے ہاں عصر کے بعد مجلس ہوا کرتی تھی۔ میں نے کہا، چلو جی، عصر سے مغرب تک کچھ اس کو مل جائے، اس کو تیار کرلیا، وہ میرے ساتھ چلا گیا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ ذرا لیٹ پہنچے، عصر کی نماز راستے میں پڑھ لی، وہاں پہنچ گئے تو بیان شروع ہوگیا۔ اب بیان میں تو کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اب میرے دل میں تھا کہ اگر حضرت کا بیان کچھ جلدی ختم ہوجائے تو میں عرض کرلوں گا۔ حضرت کا بیان لمبا ہوگیا، مغرب کا وقت داخل ہوگیا، اذان ہوگئی۔ اب میں نے کہا، اس کی قسمت! اب کیا کروں؟ ہاں جی، اب تو وعدہ کرلیا کہ فوراً جائیں گے۔

اب جیسے ہی نماز ہم نے پڑھ لی، مجھے کہتے ہیں، چلتے ہیں؟ میں نے کہا، بالکل چلتے ہیں، ظاہر ہے وعدہ جو کیا تھا۔ روانہ ہوگئے۔ میں نے کہا، اس بیچارے کی قسمت ایسی تھی۔ اب باہر جیسے نکلے، جوتیاں میں پہن رہا تھا، مجھے کہتے ہیں، آپ نے تو مولانا صاحب کی تعریف ہی نہیں کی تھی، یہ تو بہت بڑے آدمی ہیں۔ میں نے کہا، مجھے چھیڑ رہے ہیں۔ میں نے کہا، چھیڑنا اس میں منع ہے۔ کہتے ہیں، چھیڑ نہیں رہا۔ میں نے کہا، پھر کیا ہوا؟ ہمارے لئے تو بالکل معمول کی مجلس تھی۔ کہتے ہیں، نہیں، معمول کی مجلس نہیں تھی۔ میں نے کہا، پھر کیا ہوا؟ کہتے ہیں، مولانا صاحب بات کر رہے تھے، میرے ذہن میں ایک اشکال آگیا، ایک بات پہ، حضرت نے اس کا جواب دے دیا۔ میں نے کہا، یہ ممکن ہے؟ اُس جواب پر مجھے اشکال پیدا ہوگیا، حضرت نے اس کا بھی جواب دیا۔ میں نے کہا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے، یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ یعنی سوال کے جواب پر سوال ہو، پھر وہ بھی اس کا بھی جواب، پھر میرا تیسرا اشکال پیدا ہوگیا، اس کا بھی حضرت نے جواب دے دیا۔ میں نے کہا، یہ تو ناممکن ہے! یہ کیسی بات ہے، یہ کیا ہوا؟ مجھے بھی مزہ آگیا۔ میں نے کہا کہ فلاں، یہ تو میں تو آپ کو بڑا ذہین سمجھتا تھا، آپ تو بودے آدمی نکلے۔ کہتے ہیں، کیوں؟ میں نے کہا، کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ جو آپ کے ذہن میں ہے، اللہ تعالیٰ کو پتا ہے؟ کہتے ہیں، بالکل یقین ہے۔ میں نے کہا، کیا آپ کو اس پر یقین نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس زبان پر بھی جو بھی لانا چاہتے ہیں، لا سکتا ہے؟ کہتے ہیں، بالکل یقین ہے۔

میں نے کہا، خدا کے بندے، تیرے دماغ میں سوال آیا اور مولانا صاحب کی زبان پر جواب آگیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ممکن ہے مولانا صاحب کو پتا بھی نہیں کہ میں کس کا جواب دے رہا ہوں، اس کے لئے ایک عام بات ہو، چلتی بات ہو۔ ہاں جی، لیکن وہ تمہارے سوال کا جواب تھا۔ کہتے ہیں، یہ تو ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا، بس یہی مسئلہ ہے۔ تم کرامت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ناں کہ کرامت نہیں ہوتی۔ ہم کرامتِ اولیاء کو حق سمجھتے ہیں ناں، یہ کرامت ہے۔ لیکن یاد رکھو، کرامت کو آپ لوگ سمجھتے ہیں انسان کا فعل، اس لئے گمراہ ہوجاتے ہو۔ ہم کہتے ہیں، یہ اللہ کا فعل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، صرف آدمی کے اوپر ظاہر ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں، اللہ کا فعل ہے؟ معجزہ بھی تو اللہ کا فعل ہوتا ہے۔ تو یہ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا فعل کہہ دیا، اس میں پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کہتے ہیں، ہاں پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس اللہ پاک نے ہدایت دے دی۔ اب دیکھو، ہدایت دے دی ناں۔ اس کے لئے کیا کر دیا؟ ایک سفر کرلیا، ایک سفر کرلیا۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾ مکمل ہوگیا، راستہ کھل گیا، اس طرح ہی اللہ پاک راستہ کھولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے بھی سارے ہدایت کے راستے کھولے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (الذّٰریٰت: 54)

  2. ۔ (القارعۃ: 6-9)

  3. ۔ (الشمس: 9-10)

  4. ۔ (المقاصد الحسنۃ للسخاوي، ج2، ص69)

  5. ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 5313)

  6. ۔ ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے۔ تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا۔ اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہوگا۔‘‘ (القارعۃ: 6-9)

  7. ۔ ترجمہ: ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘ (الحجرات: 13)

  8. ۔ ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘ (الشمس: 9-10)

  9. ۔ (الشمس: 9-10)

  10. ۔ ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘ (الزمر: 53)

  11. ۔ ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ (الفاتحہ: 5-7)

  12. ۔ ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔ (العنکبوت: 69)

  13. ۔ (الفاتحہ: 5)

  14. ۔ (العنکبوت: 69)

  15. ۔ (العنکبوت: 69)

  16. ۔ ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے۔ تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا۔‘‘ (القارعۃ: 6-7)

    نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

  17. ۔(صحیح بخاری: 6502)

  18. ۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَلّٰهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهٖ مِنْ أَحَدِكُمْ، سَقَطَ عَلٰى بَعِيرِْهٖ، وَقَدْ أَضَلَّهٗ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ۔ (بخاری: 5950) لَلّٰهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهٖ حِيْنَ يَتُوْبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلٰى رَاحِلَتِهٖ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهٗ وَشَرَابُهٗ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِيْ ظِلِّهَا، وَقَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهٖ، فَبَيْنَا هُوَ كَذٰلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهٗ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَبْدِيْ وَأَنَا رَبُّكَ! أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ۔ (مسلم: 7136)

  19. . عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تزول قدما ابن آدم يوم القيامة من عند ربه حتى يسال عن خمس: عن عمره فيم افناه، وعن شبابه فيم ابلاه، وماله من اين اكتسبه، وفيم انفقه، وماذا عمل فيما علم

    [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5197]

غفلت سے بیداری اور آخرت کی تیاری - جمعہ بیان