اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾1 وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾2 وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾3 وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾4 وَقَالَ عَلَیْہِ الصّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ‘‘5 وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾6
’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ‘‘۔
معزز خواتین و حضرات، ربیع الاول کا مہینہ ہے اور اس میں آپ ﷺ کا تذکرہ کافی ہوتا رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کے ساتھ ربیع الاول کو بہت زیادہ تکوینی مناسبت ہے۔ جیسے مدینہ منورہ کو آپ ﷺ کے ساتھ مکانی نسبت ہے کہ آپ ﷺ وہاں آرام فرما ہیں۔ اور ربیع الاول کے مطلب مہینہ میں اور پیر کے دن آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی۔ اور آپ ﷺ اسی مہینے میں پیر کے دن رحلت فرما گئے۔ اور آپ ﷺ کی ہجرت بھی، ابتدا بھی، انتہا بھی اسی مہینے میں پیر کے دن ہوئی۔ گویا پیر کے دن اور ربیع الاول، ان کے ساتھ آپ ﷺ کو تکوینی مناسبت بہت زیادہ ہے۔ تو پیر کے دن کو پیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ باقی دنوں کا پیر سمجھا جاتا ہے، جس میں آپ ﷺ کی ولادت پاک ہوئی۔ پشتو میں اس دن کو ’’گُل‘‘ کہتے ہیں یعنی پھول۔ تو ظاہر ہے امت نے اس مہینے کو اور اس دن کو محبت کی وجہ سے یاد تو رکھنا ہے، کیونکہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت جو ہے یہ مطلوب ہے۔ آپ ﷺ نے خود بھی اس کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ مجھے اپنے اور اپنی اولاد سے، اپنے والدین سے، بلکہ سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔ اور ایک روایت کے مطابق اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھے۔ تو آپ ﷺ کے ساتھ محبت تو یقینی امر ہے، ہر مسلمان کے لئے مطلوب ہے۔ اور جس کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہے تو اس کے ایمان کو بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا یہ بات تو طے ہے۔ البتہ یہ جو آپ ﷺ کی محبت ہے، اس کے جو اظہار کے طریقے ہیں وہ کون سے ہونے چاہئیں؟ مطلب ظاہر ہے سوال ہے، محبت تو ہر مسلمان کو ہونی چاہئے اور ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ تو ایک بات میں عرض کروں گا کہ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تہتر فرقے ہوجائیں گے، ان میں سے صرف ایک نجات پائے گا۔ تو پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہیں؟ فرمایا، "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ"7 جس پر میں چل رہا ہوں اور جس پر میرے جو میرے ساتھ ہیں وہ چلیں گے۔ یہ طریقہ صحیح ہے، اس پہ چلنے والے لوگ ناجی ہیں، ان کو نجات ہوگی، باقی لوگ نہیں۔ پس پتا چلا کہ ہمیں ہر چیز میں صحابہ کی طرف دیکھنا ہے کہ صحابہ نے کون سا کام کیسے کیا۔ اب اتنی بڑی جرات تو شاید دنیا میں کسی مسلمان میں نہیں ہوگی کہ وہ کہہ دے کہ ہمیں آپ ﷺ کے صحابہ سے زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہے۔ یہ دعویٰ تو شاید ہی کوئی کرسکے گا، کرے گا تو پاگل ہی اس کو لوگ کہیں گے۔ کچھ مجاہدین سے میں نے ایک بات سنی ہے، وہ بھی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ بہت زیادہ افغانستان کی لڑائی میں بڑی قربانیاں دیں ان لوگوں نے، بڑی قربانیاں دی ہیں، ہمارے تصور سے زیادہ قربانیاں لوگوں نے دی ہیں۔ تو ان میں سے ایک صاحب تھے جو وہاں لڑے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ لوگوں کا خیال یہ ہوگیا تھا کہ شاید ہم بھی صحابہ کرام کی طرح قربانی دے چکے ہیں۔ مطلب یہ خیال آیا، خیال کسی کو بھی آسکتا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک صاحب نے خواب دیکھا۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ جیپ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور پہاڑ پہ چڑھ رہی ہے جیپ، اور یکدم اس کے بریکس فیل ہوجاتے ہیں، تو وہ پیچھے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ تو ہم لوگ دوڑ کے جاتے ہیں کہ پتھر اٹھا کے اس کے ٹائروں کے نیچے رکھ دیں تاکہ جیپ رک جائے، نیچے نہ آئے، آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو۔ تو پتھر اٹھا کے ہم پہنچے تھے کہ پتا چلا کہ صحابہ کرام نے، انہوں نے ٹائروں کے نیچے اپنے سر رکھے ہوئے ہیں، ان سے خون بہہ رہا ہے اور اس طرح سے وہ جیپ رک گئی۔ تو پتا چلا کہ صحابہ کی طرح قربانیاں دینا ہمارے بس میں نہیں، وہ نہیں ہوسکتا۔ تو جب یہ والی بات ہے تو پھر ہمیں تو محبت ہے الحمدللہ، بغیر اس کے تو کام نہیں، لیکن آپ ﷺ کے صحابہ کی طرح محبت ہونا، اس کا دعویٰ کرنا شاید بہت بڑی جرات ہے۔ تو اگر ان کو سب سے زیادہ محبت تھی، تو کیا اس محبت کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا جس طرح آج کل لوگ کررہے ہیں؟ پتا نہیں یا تو واقف نہیں ہوں گے ان سے، یا واقف ہونا نہیں چاہتے ہوں گے۔ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہ پر بھی ربیع الاول کا مہینہ آتا تھا، یہ مہینہ تو آپ ﷺ کی زندگی میں بھی آیا، کئی دفعہ آیا ہے۔ اس وقت بھی آگیا جب مدینہ منورہ میں تھے آپ ﷺ، یعنی اسلام پورا چھا گیا تھا، اس وقت بھی ربیع الاول کا مہینہ آیا تھا۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بھی آیا تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی آیا تھا، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی آگیا تھا، علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں بھی آیا۔ کیا انہوں نے یہ کام کیے جو آج کل ہم کررہے ہیں؟ کیا بات تھی؟ ہم کیوں اس چیز کو نہیں جانتے اور نہیں سمجھنا چاہتے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی عجیب بات فرمائی، اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لوگوں کو واقعی سمجھ آجائے۔ فرمایا، "جو آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، اگر وہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ تک نہ پہنچیں تو اپنے عاشق ہیں، حضور کے عاشق نہیں ہیں"۔ بات سمجھ میں آگئی؟ جو آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس محبت کی وجہ سے اللہ تک نہ پہنچیں، کیونکہ آپ ﷺ کی دعوت کس چیز کی تھی؟ اللہ تک پہنچنے کی تھی۔ "قُولُوْا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، تُفْلِحُوْا"8 یہ دعوت تھی آپ ﷺ کی، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت تھی، اپنی طرف تو دعوت نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ کی محبت طے شدہ ہے، ہر مسلمان کے دل میں ہوگی، لیکن اس کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ اس کا طریقہ جیسے کہ تمام کاموں میں ہم صحابہ کرام کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں، اس طرح اس میں بھی آپ ﷺ کے صحابہ کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔ یہی یہاں پر بھی کرنا چاہئے۔ یہ جو ابھی آیت کریمہ میں نے پڑھی ہے، جس میں ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾9 اس میں حکم ہے۔ فرمایا، "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس عظیم نبی پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے مومنو! تم بھی ان پر اہتمام کے ساتھ درود بھیجو"۔ یہ کون سے مہینے کے لئے ہے؟ رمضان شریف کے لئے ہے؟ ربیع الاول کے لئے ہے؟ یہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ کوئی مہینہ اس سے خالی نہیں، بلکہ اللہ پاک نے نماز کے اندر ہی اس کو رکھوا دیا کہ کم از کم نماز کے اندر تو سارے لوگوں پر ہے ناں۔ اور مختلف مواقع پہ درود پاک کے پڑھنے کے ما شاء اللہ طریقے ہیں، فضائل ہیں۔ ٹھیک ہے بعض لوگوں کو معلوم نہیں، میں ایک دفعہ پڑھ رہا تھا، میں نے کہا کون سی جگہ جہاں پر درود شریف نہیں پڑھا جاتا؟ وہ میں نے پڑھا حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فضائل درود شریف، اس میں بڑی تفصیل ہے، اس موقع پہ، اس موقع پہ، اس موقع پہ۔ میں حیران تھا، میں نے کہا کون سے موقع پہ نہیں ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ درود شریف تو ہمارا ہر وقت کا وظیفہ ہے۔ ہر وقت کا وظیفہ ہے۔ جیسے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلِ اللہِ" ہر وقت اس پر ایمان ہے، اس طرح درود شریف ہر وقت کا وظیفہ ہے اور ہر وقت اس کو پڑھنا چاہئے اور بڑی محبت کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾10۔ کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو ہر وقت پڑھنا چاہئے، کوئی خاص دن مخصوص نہیں۔ اب دیکھیں، جمعۃ المبارک کے فضائل باقاعدہ حدیث شریف میں موجود ہیں، سید الایام ہے اور روزے کی فضیلت بھی سبحان اللہ موجود ہے۔ ایسے موجود ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ باقی چیزوں کی جزا تو فرشتوں کے ذریعہ سے دی جاتی ہے، روزہ کی جزا میں خود دوں گا۔ تو روزے کی فضیلت اور جمعہ کی فضیلت بالکل ثابت ہے۔ لیکن جمعہ کے دن، خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اگر اس کے ساتھ کوئی اور دن شامل نہ کیا جائے۔ اب بتائیں کیا مطلب ہوگیا؟ خاص جمعہ کا دن، صرف اکیلے جمعہ کا روزہ اگر رکھ لیں تو یہ مکروہ ہے۔ ساتھ ایک اور دن ملا لیں، جمعرات ملا لیں، ہفتہ ملا لو، ٹھیک ہے، پھر صحیح ہے۔ مل جائے گی اس کی فضیلت۔ اسی طریقہ سے کسی دن کو خاص کرنا ایسی عبادت کے لئے جو ہر وقت معمول بہا ہے، یہ بھی ہماری طرف سے جرات ہوگی۔ ہاں! البتہ یہ کرسکتے ہیں کہ اس میں یاد آگیا، اس میں شروع کرلیا، اس کو پھر رواں رکھیں، اس کو پھر چلتا رکھیں۔ اس کو آپ ایک ذریعہ سمجھیں ابتدا کا اور اس ذریعہ کو پھر لے کے آگے چلیں۔ ربیع الاول میں پڑھنا شروع کریں درود شریف، روکنا نہیں ہے کسی کو کہ بھئی ربیع الاول میں نہ پڑھیں۔ یہ بات غلط ہے۔ پڑھنا چاہئے، کسی وقت بھی پڑھنا چاہئے۔ اب کسی نے ربیع الاول میں شروع کیا، پڑھو، پڑھو، پڑھتے رہو۔ ربیع الثانی، سبحان اللہ، پڑھتے رہو، پڑھتے رہو، جاری رکھو، بند نہ کرو۔ جمادی الاولی، جمادی الاخریٰ، رجب، شعبان، رمضان، سب میں پڑھو۔ یہی کام کی بات ہے۔ یہی کام کی بات ہے، یہی کام کی بات ہے۔ اسی طریقہ سے آپ ﷺ کی سنتوں کی جو پیروی ہے، یہ کوئی خاص نہیں کسی مہینے کے ساتھ، کسی دن کے ساتھ، کسی وقت کے ساتھ۔ یہ بھی عام ہے، ہر وقت آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾11 ’’ اے میرے حبیب، اپنی امت سے کہہ دیں، اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے۔‘‘ سبحان اللہ، کیا بات ہے۔ اللہ پاک نے اپنی محبت وہ آپ ﷺ کی پیروی میں رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ ﷺ کی ہر ادا اللہ کو محبوب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر طریقہ اللہ کو محبوب ہے۔ آپ ﷺ کی ہر نسبت اللہ کو محبوب ہے۔ تو جب ایسی بات ہے تو جس نسبت سے بھی اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے، ہوجائے گا کام۔ جس طریقہ کے ساتھ وہ کرنا چاہو گے، ہوجائے گا کام۔ ہاں! ایک بات ضرور ہے، مثلاً مجھے آپ ﷺ کی ایک خاص ادا محبوب ہے، ٹھیک ہے جی، بالکل صحیح ہے، اس میں ممانعت نہیں ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے باقی جو ادائیں ہیں، ان سے اعراض کرنا یا ان کے بارے میں دوسری رائے رکھنا، یہ غلط ہوگا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی ساری ادائیں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔ ہاں! آپ کو جس کے ساتھ زیادہ، بے شک وہ کرو، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ جو ہے ناں، یہ بات بہت جلدی لوگ بھول جاتے ہیں۔ بہت جلدی لوگ بھول جاتے ہیں کہ دین میں اپنی چوائس نہیں بنانی چاہئے۔ جس چیز کو اللہ پاک نے عام کیا ہے، اس کو خاص نہ کرو اور جس کو خاص کیا ہے، اس کو عام نہ کرو۔ جس کو حلال کیا ہے، اس کو حرام نہ کہو اور جس کو حرام کیا ہے، اس کو حلال نہ کہو۔ یعنی قانون جس طرح کہتے ہیں ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے، اس طرح شریعت بھی ہاتھ میں نہیں لینی چاہئے۔ اور جیسے فرمایا گیا ہے، اسی طریقہ سے کرو۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سبحان اللہ، فقیہ صحابی تھے، فقہاء صحابہ جو تھے وہ تھوڑے ہیں۔ تو فقیہ صحابی تھے اور لوگ ان سے مسئلے پوچھا کرتے تھے، صحابہ کرام ان سے مسئلے پوچھا کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی طرف دائیں طرف سے بھی پھر کے اس کے سامنے ہوسکتا ہے اور بائیں طرف سے بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے اپنے واسطے دائیں طرف کرنا خاص کرلیا، اس نے نماز میں شیطان کا حصہ بنا دیا۔ کیونکہ ہم نے آپ ﷺ کو بائیں طرف بھی پھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ دیکھیں، ہمیشہ دائیں طرف محمود ہے، یعنی دائیں طرف کو پسند کیا جاتا ہے۔ مسجد میں داخل ہوجاؤ تو کون سا پاؤں رکھنا چاہئے؟ دایاں پیر رکھنا چاہئے۔ اور باہر نکلنا ہو تو کون سا پیر رکھنا چاہئے باہر؟ بایاں پیر رکھنا چاہئے۔ آپ کپڑے پہنتے ہیں، دائیں آستین کو پہلے پہنیں، بائیں آستین کو بعد میں پہنیں۔ شلوار میں دایاں پیر پہلے ڈالیں، بایاں پیر بعد میں ڈالیں۔ محمود ہے۔ لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ سے دوسری صورت میں ثابت ہے۔ جب یہ والی بات ہوگئی تو اب آپ ﷺ کے اوپر کی بات تو ہم نہیں کرسکتے ناں۔ ﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾12 ’’اپنی آواز کو آپ ﷺ کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو‘‘، تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس وجہ سے جس چیز کو آپ ﷺ نے روا رکھا ہے، تم کون ہو روکنے والے؟ اور جس چیز کو آپ ﷺ نے روکا ہوا ہے، تم کون ہو اس کو جاری کرنے والے؟ یہاں پر ہماری بات ختم ہوجاتی ہے، اس میں ہم دوسری بات نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے ہر نسبت کے ساتھ پیار کرنا چاہئے، ہر سنت کے ساتھ پیار کرنا چاہئے، ہر طریقہ کے ساتھ پیار کرنا چاہئے، یہی ہمارے لئے کامیابی کا راستہ ہے۔ اس طرح دین کے جتنے بھی راستے ہیں ناں، دین کے جتنے بھی راستے ہیں، وہ سب آپ ﷺ کی طرف سے آئے ہیں۔ پس یہاں پر بھی یہی قانون ہے، یہاں پر بھی یہی قانون ہے کہ سب طریقوں کے ساتھ پیار کرو، سب طریقوں کو مانو۔ ہاں! آپ کسی ایک خاص طریقے پہ چل سکتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ سارے طریقوں پہ سارے لوگ نہیں چل سکتے۔ مثلاً دیکھو، تدریس ہے، یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ جہاد ہے، یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ دعوت و تبلیغ ہے، یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ اور اصلاحِ نفس ہے، یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ دینی سیاست ہے، یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ یہ سارے دین کے شعبے ہیں۔ آپ کو مناسبت ہے تدریس کے ساتھ، شوق سے کرو، اللہ پاک اجر دیں گے۔ لیکن آپ کہتے ہیں جہاد ٹھیک نہیں ہے یا دینی سیاست ٹھیک نہیں ہے، یہاں پر آپ گڑبڑ کرگئے۔ یہاں پر معامله خطا ہوگیا۔ تم ایسی چیز کو روک رہے ہو جس کو آپ ﷺ نے جاری فرمایا ہے، جس کو صحابہ کرام نے کیا ہے۔ مجھے بتاؤ، خلفاء راشدین، ان کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: "عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ"13 ’’تمہارے اوپر میری سنت کا اتباع لازم ہے اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کا اتباع لازم ہے۔‘‘ اب بتاؤ، خلفاء راشدین نے کیا ہے؟ شریعت کو نافذ کیا ہے ناں؟ شریعت کو نافذ کیا ہے۔ تو شریعت کو نافذ کرنے والے حضرات ہیں، ان کے لئے کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے؟ اب آپ اس کو غلط کہہ دیں، نہیں جی یہ تو یہ ٹھیک نہیں کررہے۔ یاد رکھنا چاہئے، غلط لوگوں کو بنیاد بنا کر صحیح لوگوں کی مخالفت کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ غلط لوگوں کی غلطیوں کو بنیاد بنا کر اس شعبہ میں جو صحیح لوگ ہیں ان کی مخالفت کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ وہ ایک دفعہ میں حیدر آباد چلا گیا تھا، حیدر آباد بڑا شہر ہے۔ مجھے کچھ ساتھی ملا رہے تھے لوگوں کے ساتھ، ظاہر ہے دین کے سلسلہ میں گیا تھا، ملا رہے تھے۔ ایک محلہ بہت شاندار تھا، میں نے کہا، بھئی محلہ تو بہت شاندار ہے، کن کا ہے؟ کہا یہ قصائیوں کا ہے۔ میں نے کہا، اچھا، یہاں قصائی اتنے مالدار ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں، نہیں، ڈاکٹروں کا ہے۔ مطلب ڈاکٹروں کو کیا کہہ رہا تھا؟ قصائی کہہ رہا تھا۔ میں نے کہا، پھر علاج کہاں سے کرواتے ہو؟ کہتے ہیں، ادھر ہی آتے ہیں۔ میں نے کہا، آپ تو ان کو قصائی کہہ رہے ہیں؟ کہتے ہیں، ان میں اچھے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میں نے کہا، یہ کام مولویوں میں بھی کرو ناں، مشائخ میں بھی کرو، اچھے مولویوں کو ڈھونڈو، سارے مولویوں کو غلط نہ کہو۔ اچھے مشائخ کو ڈھونڈو، سارے مشائخ کو غلط نہ کہو۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ تم غلط لوگوں کی بنیاد پر صحیح لوگوں کو غلط کہہ رہے ہو۔ یہ کتنی بڑی غلطی ہے، کتنا بڑا ظلم ہے اپنے اوپر۔ ان میں اولیاء کرام ہیں، ہر شعبے کے اندر اولیاء اللہ ہیں۔ ہر شعبے کے اندر، دینی سیاست میں اولیاء کرام ہیں، تبلیغ میں اولیاء کرام ہیں، جہاد میں اولیاء کرام ہیں، تدریس میں اولیاء کرام ہیں۔ ہر شعبے کے اندر اولیاء کرام ہیں۔ تم جب سب کی مخالفت کررہے ہو تو ان اولیاء کرام کی بھی مخالفت کررہے ہو۔ اور اگر ان کی مخالفت ذرا عملی طور پر چلی گئی ناں، تو تم کیا ہے، اس حدیث شریف کی زد میں آجاؤ گے کہ جس نے میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کی تو میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ جس نے میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کی، اس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔ کسی شعبہ میں ٹانگ نہ اڑاؤ، غلط چیزوں سے بچو، اس میں کوئی شک نہیں۔ جس شعبہ میں جو چیز غلط ہے، اس کو صحیح نہ کہو۔ اگر پتا نہیں ہے تو پوچھو، علماء کرام سے پوچھو۔ ﴿فَسْـئَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾14 اس وقت علماء کرام سے پوچھو، علماء کرام کام آئیں گے، ہر جگہ کام آئیں گے۔ آج کل یہ بھی بڑا فتنہ ہے: ’’ہم سب کچھ جانتے ہیں‘‘، ’’ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ، عجیب روایت ہے۔ جنت میں، جنت میں، سبحان اللہ، جنت کون سی جگہ ہے؟ جہاں سب کچھ خیر ہی خیر ہے، اچھا ہی اچھا ہے۔ تو وہاں اللہ پاک پوچھیں گے، کیا چاہئے؟ جنتی کہیں گے: یہ، اللہ پاک دے دے گا۔ بہت زیادہ، اس سے بھی زیادہ دے دیں گے۔ پھر اور کیا چاہئے؟ یہ، اللہ پاک اور بھی دے دیں گے۔ اس طرح، مطلب پوچھتے جائیں گے، بتاتے جائیں گے اور دیتے جائیں گے۔ ایک جگہ پر جنتی حیران ہوجائیں گے، اب ہم کیا مانگیں؟ اب ہم کیا مانگیں؟ سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا۔ تو وہ اپنے وہاں موجود جو علماء ہیں ان سے پوچھیں گے۔ دیکھیں ناں، کہاں پر پوچھ رہے ہیں؟ جنت میں پوچھ رہے ہیں، علماء کرام سے پوچھیں گے۔ اب ہم کیا مانگیں؟ علماء کرام کہیں گے، ابھی تک دیدار نہیں ہوا اللہ تعالیٰ کا، یہ مانگو۔ تو پھر سب دیدار مانگیں گے اللہ تعالیٰ سے۔ پھر سبحان اللہ، کرسیاں سج جائیں گی، میدان سج جائے گا اور ترتیب بن جائے گی اور سارے اللہ پاک کا دیدار کریں گے اور پھر کوئی ٹائم limit سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے۔ اخیر میں وہ جنتی کہیں گے، ابھی تک ہم نے کیا دیکھا تھا؟ اصل مزہ تو یہی تھا، اصل بات تو یہی تھی۔ تو یہ چیز ہے، ہمیں علماء کرام کو ماننا پڑے گا۔ بعض ایسے بدبخت لوگ ہوتے ہیں، کسی وجہ سے، کسی ذاتی عناد کی وجہ سے یا پارٹی بازی کی وجہ سے، یہ بھی بہت بڑی لعنت ہے آج کل، پارٹی بازی جو ہے ناں، پارٹی بازی میں انسان بہت گڑبڑ ہوجاتا ہے۔ بھئی پارٹی میں رہو، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن پارٹی کے لئے اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔ کوئی نہیں بچا سکے گا وہاں پر قیامت میں، کوئی نہیں بچا سکے گا۔ خود ہی اپنے آپ کے لئے انتظام کرنا ہوگا، کوئی آپ کے لئے کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ وہ خود اپنے پسینے میں شرابور ہوگا، وہ کیا کرسکے گا تمہارا؟ یہاں پر کسی کو نہ مانو۔ حتیٰ کہ باقاعدہ قرآن پاک میں ہے، ما شاء اللہ علماء کرام موجود ہیں، اگر میں غلط کہتا ہوں تو بتا دیں، قرآن پاک میں پورا نقشہ دیا ہوا ہے کہ شیطانیت کے اوپر جو لوگ ہوں گے، بڑے سردار، ان کی وجہ سے جو لوگ گمراہ ہوچکے ہوں گے، وہ لوگ ان کو پڑ جائیں گے کہ تمہاری وجہ سے ایسا ہوا ہے، تمہاری وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ ہم، مطلب جو ہے ناں، وہ کہیں گے، ہم خود ہی یہاں پر ہیں، آپ کے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ تم نہ مانتے ہماری بات۔ تو وہاں پر کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ تو پھر وہ کہیں گے جو شکار ہوچکے ہوں گے ان کو، یا اللہ! دگنا عذاب دے دو، ان کی وجہ سے ہم خراب ہوئے ہیں۔ تو یہاں پر دیکھو، پارٹی بازیاں آپ کو کچھ بھی نہیں دے سکیں گی۔ اس سے بچو، یہ آج کل کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس پارٹی میں جو ہے، اس کا صحیح بھی صحیح ہے اور غلط بھی صحیح ہے اور دوسری پارٹی میں صحیح بھی غلط ہے اور جو غلط ہے وہ بھی غلط ہے۔ بھئی ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام ایک حقانیت ہے، اس کا جو جو جس کے پاس ہے وہ صحیح ہے اور جو جس کی مخالفت جس کے پاس ہے وہ غلط ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے۔ بہرحال، میں عرض کروں گا کہ آپ ﷺ کی سنت پر چلنا یہ کامیابی ہے اور آپ ﷺ کی سنت کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں تین گروہوں کو ماننا پڑے گا: عام صحابہ کرام، اہل بیت اور امہات المؤمنین۔ ان تینوں کو ماننا پڑے گا، کیونکہ تینوں کے ذریعہ سے ہمیں آپ ﷺ کی زندگی کا پتا چلتا ہے۔ اگر کسی نے صرف عام صحابہ کو لیا اور اہل بیت کو نہیں لیا، ان سے وہ حصہ مطلب چھپ جائے گا جو اہل بیت کے ذریعہ سے آیا ہے۔ اور جو اہل بیت کی مانیں گے اور عام صحابہ کی نہیں مانیں گے، تو ان سے وہ حصہ چھپ جائے گا جو عام سے ثابت ہے۔ اور جو امہات المؤمنین میں سے کسی کے مخالف ہوں گے، ان کی طرف سے جو آیا ہو، اس سے محروم ہوجائیں گے۔ یہاں تک تو محرومیت ہے، یہاں تک تو محرومیت ہے، جزو کی محرومیت۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کی، مثلاً صحابہ کی مخالفت کی یا اہل بیت کی مخالفت کی یا امہات المؤمنین کی مخالفت کی، اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ کیوں نہیں ملے گا؟ اس نے آپ ﷺ کی مخالفت کی۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ان تینوں گروہوں کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ تو جو بھی ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کرے گا یا دو کی مخالفت کرے گا، وہ اصل میں آپ ﷺ کی ان باتوں کی مخالفت کررہا ہے جو آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے، اس سے انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں۔۔۔۔ علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں جو فرمایا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں، یعنی سب کے بارے میں، سبحان اللہ! جو فرمایا وہ حق ہے اور یہی اصل دین ہے کہ ہم سب کو مانیں۔ ورنہ پھر کیا ہوگا؟ اللہ معاف فرمائے، اللہ معاف فرمائے، آپ ﷺ کی کسی بات کا انکار کرنا بہت خطرناک بات ہے۔ عقلاً مطلب عقیدے کے لحاظ سے جو انکار کرتا ہے، ایک ہوتا ہے عمل نہ کرنا، اس میں گنجائش ہے معافی کی۔ عمل نہ کرنے میں گنجائش ہے معافی کی، کیونکہ انکار نہیں کررہا ہے، صرف مطلب چل نہیں رہا اس پہ۔ اگر اس سے کوئی پوچھے، کیا آپ اس کو مانتے ہو؟ وہ کہتا ہے، بالکل مانتا ہوں۔ مثلاً پانچ نمازیں ہیں، کوئی کسی مسلمان سے بھی پوچھے، بھئی پانچ نمازیں مانتے ہو؟ جی بالکل مانتا ہوں۔ ممکن ہے وہ ایک بھی نماز نہ پڑھتا ہو، گناہگار ہے، گناہگار ہے، کافر نہیں۔ لیکن اگر اس نے کہہ دیا: نہیں مانتا، تو پھر کیا ہوگا؟ کافر ہوجائے گا۔ تو اس وجہ سے اگر کوئی مانتا ہے تو ٹھیک ہے، مطلب بچ جائے گا۔ اس وجہ سے ان سارے شعبوں کو مانو، ان سارے، جس کو کہتے ہیں بڑے حضرات جو نسبتیں ہیں، ان سب کو مانو اور کوشش کرو کہ سب کے پیچھے چلو، کوشش کرو۔ اور یہ کوشش جو ہے، جس میں جو رکاوٹ ہے وہ کیا چیز ہے؟ ہمارا نفس، رکاوٹ اور کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمارا نفس، وہ ہے، تو اس نفس کا علاج کرو، شیطان کی بات نہ مانو، اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو، صحبتِ صالحین حاصل کرلو اور برے لوگوں سے اجتناب کرو، صحبتِ سوء سے بچو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بری صحبت سے خلوت اچھی ہے، بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ اگر کوئی اللہ والا آیا ہے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے، آپ کہتے ہیں، نہیں، میں تو بس خلوت میں رہنا چاہتا ہوں، تو آپ اپنے آپ کو محروم کررہے ہیں۔ اپنے آپ کو محروم کررہے ہیں۔ لیکن اگر بری صحبت سے، کوئی میوزک کنسرٹ ہے یا کوئی اور چیز ہے، اس وقت آپ کو اپنے گھر میں خلوت میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ باہر آؤ گے تو کسی مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔ تو بس یہی بات ہے، اگر یہ اصول ہم اپنائیں، تو امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہاں سے محفوظ چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں کسی ایسی چیز میں بھی شامل نہ ہونے دیں، جس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہوں۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (الانبیاء: 107) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
۔ (الم نشرح: 4) ترجمہ: ’’اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔‘‘
۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث: 32442) ترجمہ: میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔‘‘
۔ (الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 2641)
۔ (مسند احمد، رقم الحدیث: 16022) ترجمہ: ’’لا الہ کہو، کامیاب ہوجاؤ گے۔‘‘
۔ (الأحزاب: 56)
۔ (الأحزاب: 56)
۔ (آل عمران: 31)
۔ (الحجرات: 2) ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو۔‘‘
۔ (شرح مشکل الآثار، رقم الحدیث: 1186) ترجمہ: ’’تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
۔ (النحل: 43) ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘