اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾1 وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ، "اَلْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِنْ جَلِيْسِ السُّوءِ، وَالْجَلِيْسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِنَ الْوَحْدَةِ۔"2
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ فِي الْفِتَنِ: "تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْنَ وَاِمَامَهُمْ قِیْلَ: فَإِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُمْ جَمَاعَةٌ وَّلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا"3 وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "يُوشِكُ أَنْ يَّكوْنَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَّتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ القَطْرِ يَفِرُّ بدِيْنِهٖ مِنَ الْفِتَنِ"۔4 وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ۔"5
معزز خواتین و حضرات! اس وقت، اَلْحَمْدُ للہ، اللہ پاک نے جو ہمیں زندگی دی ہے، اس کو ہم گزار رہے ہیں، لیکن یہ جو زندگی ہے، یہ برف کی طرح ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں نے زندگی کی قدر ایک برف کی قدر ایک بیچنے والے سے سیکھی ہے۔ تو لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ فرمایا: "ایک برف بیچنے والا میرا دوست تھا، ان کی دکان پر میں بیٹھا تھا"۔ ظاہر ہے برف تو گرمیوں کے دن ہی بیچی جاتی ہے، تو گرمی کے دن تھے، اور ان کی طبیعت وقت گزرنے کے ساتھ، اس کے اوپر tension کے آثار نظر آرہے تھے۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ تو کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ "گاہک نہیں آرہے اور میری برف پگھل رہی ہے، گاہک نہیں آرہے اور میری برف پگھل رہی ہے"۔ بات تو صحیح ہے، اگر برف کو آپ محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ انتظامات کریں، مثلاً refrigerator میں رکھیں، تو اس پہ اتنا خرچہ آتا ہے کہ اتنا کمائیں گے نہیں، اور اگر ایسا نہیں ہے تو برف تو پگھلے گی، پگھلے گی تو جب تک برف اس کی قیمت برف کی ہے، اور جب وہ پانی بن گیا، تو پھر پانی کی ہے۔ اس طریقہ سے گویا کہ حضرت نے فرمایا کہ ہماری جو زندگی ہے، برف کی طرح ہے، ہاں، برف کی طرح ہے۔ اس سے کام لے لو، تو بن جائے گا کام، اور اس کو ضائع کرلو، تو chance miss ہوگیا۔ اس وجہ سے اپنی زندگی کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے، اپنے وقت کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ ہمارا جو وقت ہے، وہ سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
اب اِس وقت ربیع الاول کا مہینہ ہے، اور جو بھی مسلمان ہے، ان کو آپ ﷺ یاد آرہے ہیں، اور یاد آنا بھی چاہیے، اور اس وقت ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ ان کو بھی ربیع الاول کے اوپر ہی بات کرنی چاہیے۔ کیونکہ ظاہر ہے، جب سب لوگ اسی پر بات کررہے ہیں، تو یہ کیوں نہیں کررہے، تو ہم کیا کہیں گے، ہم کہیں گے کہ ربیع الاول پر بات کرنے کا مطلب کیا ہے۔ ربیع الاول کے اوپر بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ محبت کریں، تو یہ تو ہر وقت ہے، تو صرف ربیع الاول میں نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ ربیع الاول کا مطلب ہے کہ ہم سنتوں کی پیروی کرلیں، تو یہ تو ہر وقت ہے، یہ صرف ربیع الاول میں تو نہیں ہے۔ اور اگر کوئی کہہ دے کہ ہم آپ ﷺ کی تعریف ہی کریں، تو کون سا وقت ایسا ہے، جس میں آپ ﷺ کی تعریف نہیں کرنی چاہیے؟ پس پتا چلا کہ ربیع الاول کا مہینہ اگر ہمیں یاد دلا رہا ہے، تو یہ اللہ کا احسان ہے۔ فرمایا: آپ ﷺ یاد آرہے ہیں، تو آپ ﷺ کی یاد آنے سے ہمیں یہ پتا چلنا چاہیے کہ آپ ﷺ نے ہمیں اپنی زندگی کا مقصد کیا بتایا، ہمیں اپنی زندگی کو گزارنے کا کیا طریقہ سکھایا، آپ ﷺ نے خود اپنی زندگی کو کیسے استعمال کیا، آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے اپنی زندگیوں کو کیسے استعمال کیا، صحابیات نے کیسے استعمال کیا، یہ ہمیں سوچنا چاہیے۔
تو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک قدر جس چیز کی تھی، وہ تھی قدر وقت کی، وقت کی قدر تھی، اعمال کی قدر تھی، اور احوال کی قدر تھی، آخرت یاد تھی، اور آخرت کے لئے جو کام کرنے ہوتے ہیں، وہ یاد تھے، اور اسی میں ہی لگے رہتے تھے ہر وقت، ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا کام کررہے ہوتے تھے، جس سے آخرت میں ان کا حصہ بڑھ رہا تھا۔ مثلاً ایک صحابیٔ رسول ﷺ ہیں، وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ نماز میں، ما شاء اللہ، اپنے باغ میں، ان کا باغ ما شاء اللہ! اتنا گنجان تھا، اتنا گنجان تھا کہ اس میں پرندے راستہ نہیں پا رہے تھے۔ تو ظاہر ہے، نماز تو باجماعت وہ پڑھتے تھے، وہ تو مسجد نبوی میں پڑھتے تھے، تو یہ تو نہیں تھا کہ ظاہر ہے مطلب ہے کہ کوئی فرض نماز ہی اس میں پڑھ رہے تھے، کوئی نفل نماز ہی پڑھ رہے ہوں گے۔ تو اس نفل نماز میں توجہ پرندے کی طرف ہوگئی، اور باغ کی طرف ہوگئی، کہ یہ دیکھو میرا باغ اتنا زبردست گنجان ہے کہ اس میں پرندے کو راستہ نہیں مل رہا۔ خیال چلا گیا باغ کی طرف۔ اب باغ کی طرف خیال چلا گیا، تو باغ کس چیز کا ہے، دنیا کی چیز ہے۔ تو ردِ عمل کے طور پر فوراً، چونکہ ان کا دل تو اللہ کے ساتھ لگا ہوا تھا، ایک دعا ہے آپ ﷺ کی بڑی پیاری دعا ہے، اور وہ دعا ہے: "اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِکْرَكَ"۔ اے اللہ! میرے دل کے وساوس کو اپنا ذکر بنا دے اور خشیت بنا دے اپنی، اپنی خشیت بنا دے۔ وہ چیز ان کو حاصل تھی۔ اب یہ دل میں وسوسہ آگیا، تو وسوسے سے ذہن کس طرف منتقل ہوگیا؟ ہاں، آخرت کی طرف منتقل ہوگیا کہ میں کس چیز میں مشغول ہوں، میں تو نماز پڑھ رہا ہوں آخرت کے لئے، اور اس میں کون سی چیز آئی ہے دل میں، دنیا کی چیز آگئی، یہ تو آخرت پر دنیا کو فوقیت حاصل ہورہی ہے، ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔ تو آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں: "یا رسول اللہ! اس باغ کو قبول فرمایئے، یہ میں نے صدقہ کرلیا، یہ میں نے صدقہ کرلیا"۔ یہ ہے بات۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دل، سبحان اللہ، سبحان اللہ، یعنی آخرت میں اٹکا ہوا تھا، آخرت کی بعد کی زندگی میں اٹکا ہوا تھا، دنیا میں تو وقت گزار رہے تھے، کیونکہ دنیا ہی میں انسان اعمال کرسکتے ہیں، آخرت اعمال کا موقع نہیں ہے، آخرت تو نتیجہ مطلب پانے کی جگہ ہے، وہاں تو نتیجہ ملے گا، جزا ہوگی یا سزا ہوگی۔ پھر کمال کی بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ فکر اتنی زیادہ تھی کہ باوجود ان کے ایسے اچھے اعمال ہونے کے، وہ سب سے زیادہ اس پر خائف تھے کہ کہیں ہمارے اعمال خراب نہ ہوں، اور اس پر اللہ پاک سے بار بار معافی مانگتے تھے، استغفار کرتے تھے۔ ان کا استغفار بے خیالی میں نہیں ہوتا تھا، ان کا استغفار ایک حالی انداز میں ہوتا تھا، جیسے ایک مجرم کسی سے معافی کی درخواست کررہا ہو، اس طریقہ سے وہ استغفار کرتے تھے، تو یہ صورتحال ہمارے لئے ما شاء اللہ بہت بڑا سبق ہے، ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔
اب دیکھیں، وقت ایسا تھا صحابہ کے دور کا، سبحان اللہ، کیا بات تھی پھر اس دور کے بعد تابعین کا دور آگیا، ظاہر ہے، صحابہ کرام کے دور کی طرح تو تابعین کا دور نہیں تھا، لیکن اس میں بھی بڑے بڑے لوگ تھے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اور اس طریقہ سے بہت اونچے اونچے حضرات، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، یہ سب حضرات ما شاء اللہ، علم و ہنر کے لحاظ سے بہت آگے لوگ تھے، اور خوفِ آخرت والے تھے، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور اس طرح، تو اس میں بھی بڑے بڑے باکمال حضرات گزرے ہیں، تابعین میں بڑے بڑے، ما شاء اللہ، فقہاء، محدثین گزرے ہیں، صوفیاء کرام گزرے ہیں۔ اس کے بعد پھر تبع تابعین کا دور آگیا، تو وہ تابعین کے جتنے تو نہیں، لیکن بہرحال وہ بھی بہت آگے تھے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، اور اس طریقہ سے، مطلب جو ہے وہ ناں، فقہاء کرام کے جو شاگرد حضرات تھے، یہ سب اونچے اونچے حضرات، باکمال لوگ، تبع تابعین میں بھی گزرے ہیں، لیکن تابعین جتنے نہیں، اور پھر اس کے بعد، اور پھر اس کے بعد، یہ سلسلہ چل رہا تھا، اور وقت کے ساتھ ساتھ دوری آتی رہی، دنیا کی محبت بڑھتی رہی، آخرت کی فکر کم ہوتی رہی، درمیان میں بڑے تلخ واقعات بھی ہوگئے، اور اس طرح خلافتِ راشدہ ملوکیت میں بدل گئی، اور بہت ہی خطرناک حالات اس امت نے دیکھے ہیں، اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، اور ابھی تک یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ ہر آنے والا دن گزشتہ دن کے مقابلہ میں زیادہ خرابی کی طرف جارہا ہے۔
اصل میں بات یہ ہے، جیسے فرمایا: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾6 اللہ پاک نے جو فرمایا کہ نہیں پیدا کیا میں نے جنات کو اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت کے لئے۔ تو اس طرح کائنات کا بھی ایک مقصد ہے، کائنات کا بھی ایک مقصد ہے۔ تو جن کے لئے کائنات بنائی گئی، ان کے احوال پر کائنات منحصر ہے: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾7 (الروم: 41) مطلب فساد ظاہر ہوگیا بر و بحر میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کائنات ہے، وہ اس کا اثر لے رہی ہے، اور جو برکت والی چیزیں تھیں، وہ عذابات میں اور مشکلات میں بدل گئیں، وہ کھلے دل اور فراخی والے جو اوقات تھے، وہ تنگ دلی، بزدلی اور اخلاقی برائیوں میں بدل گئے، اور یہ ساتھ ساتھ یہ چیزیں ہورہی ہیں، بڑھ رہی ہیں۔
اب ایک بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ شریعت اس وقت کے لئے نہیں آئی تھی کہ صرف اس وقت اس پر عمل کرنا ہوتا، بلکہ یہ قیامت تک کے لئے آئی، قیامت تک اس پر عمل ہوگا، قیامت تک پھر اس پر عمل ہونا ہوگا، تو ایسی صورت میں جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے، وہ لائقِ سزا ہوسکتے ہیں، اور جو لوگ اس پر عمل کریں گے اور حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جائیں گے، ان کا اجر بڑھتا جائے گا، ان کا اجر بڑھتا جائے گا۔ تو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ہے دنیا کے لوازمات، دنیا کی شہوات، دنیا کی خوشیاں، دنیا کی طلب، یہ روز بروز بڑھ رہی ہے، اور دنیا کی چیزوں میں یہ خاصیت ہے کہ یہ جتنی بڑھتی ہیں، طلب مزید بڑھتی ہے، الَّا کہ اللہ پاک کسی پر رحم فرمائے اور اس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوجائے، ورنہ دنیا کے اندر یہ خاصیت ہے کہ اس پہ انسان سیر نہیں ہوتا۔ حدیث شریف میں باقاعدہ کھل کے آگیا ہے، مطلب اس میں درمیان کی کوئی بات نہیں ہے کہ جو ایک شخص ہے، اس کو اگر ایک وادی سونے کی مل جائے، تو وہ دوسری کی تلاش میں ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں، ایک آدمی کے پاس ایک فیکٹری ہے، تو دوسری فیکٹری لگانے کی کوشش کررہا ہوگا، ایک کے پاس ایک گاڑی ہے، تو دوسری گاڑی کی فکر میں ہوگا، ایک مکان ہے، تو دوسرے مکان کی فکر میں ہوگا، مطلب یہ ہے کہ گویا کہ ایک دوڑ سی لگ جاتی ہے، اور اس کے اندر انسان بس پھنس جاتا ہے۔ وہ کسی نے کہا ناں ’’بتی کے پیچھے لگنا۔‘‘ مطلب وہ بتی کے پیچھے لگ جاتا ہے، اور اس کا جو ہے ناں مطلب سرا نہیں اس کو مل رہا ہوتا کہ کہاں ختم کروں، کبھی بھی انیس بیس نہیں بن جاتا، بلکہ انیس بیس کی بجائے ننانوے سو بن جاتا ہے، یعنی نو سو ننانوے ہزار بن جاتا ہے، اس طرح مطلب مقابلہ کی صورت بڑھتی جاتی ہے، اور ساتھ ساتھ tension بھی بڑھتی جاتی ہیں، کیونکہ tension کی جو چیز ہے ناں وہ یہ ہے کہ انسان کا دل کس چیز میں لگا ہوا ہے، مطلب tensions کا تعلق کس چیز کے ساتھ ہے؟ کہ دل کس چیز کے ساتھ، جس چیز کے ساتھ بھی دل لگا ہوا ہے، اس کے اوپر اگر کوئی اثر آرہا ہے، تو tension خود بخود، اب اگر دل اللہ کے ساتھ لگا ہوا ہے، تو مجھے بتاؤ، اللہ جل شانہٗ میں تو کوئی تبدیلی نہیں: ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾8 وہ تو اللہ تعالیٰ تو ہے، مطلب اس کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر دنیا کے ساتھ لگا ہوا ہے، تو دنیا تو تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اگر دل دنیا کے ساتھ لگا ہوا ہے، تو tension تو ہوگا۔
تو یہ ساری باتیں ہمارے سامنے ہیں، اس کے لئے لائحہ عمل بنانا ہوگا، ہمیں کس کے ساتھ ہونا چاہیے۔ نمبر ایک سوال۔ ہمارا مقصد کیا ہے، اور کیا ہمیں اس کے لئے کرنا چاہیے؟ دوسرا سوال۔ اور اگر ہم نے اچھے کو چن لیا، تو پھر اس کے تقاضے کیا ہوں گے، اور اگر برے کو چن لیا، تو اس کے مسائل کیا ہوں گے، اس کے مطلب اثرات کیا ہوں گے، یہ ساری باتیں سوچنے کی ہیں۔ سوچ اس چیز پہ جاتی ہے، جو ابھی ہوئی نہیں، جو ابھی ہوئی نہیں۔ جب ہوجائے پھر تو، پھر کیا بات ہے، "اب پچھتائے کیا ہو جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"۔ پھر معاملہ ختم ہوگیا، پھر اس کے بعد سوچنے کی کیا بات، سوچ ہمیشہ اس پر ہوتی ہے کہ آگے کی کوئی چیز ہونی ہوتی ہے، یا اس سے بچنا ہوتا ہے، اس کے لئے سوچنا ہوتا ہے، یا اس کو حاصل کرنا ہوتا ہے، اس کو سوچنا ہوتا ہے۔ تو ہمیں مطلب یہ بات سوچنی ہے کہ ہم کیا کریں۔
بہت بڑا مسئلہ آج کل کے دور کا جو ہے، بالخصوص خواتین کا، بالخصوص خواتین کا، اِس وقت میں چونکہ خواتین سے مخاطب ہوں، بالخصوص خواتین کا جو مسئلہ ہے، وہ کیا ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔ مرد بھی اس طرح سوچتے ہیں، آج کل کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے، لیکن بہرحال خواتین کا تو یہ main مسئلہ ہے: "لوگ کیا کہیں گے"، اسی میں ہی بیچاری پھنسی ہوتی ہیں۔ یہ سارے رسومات کس چیز میں آتی ہیں: "لوگ کیا کہیں گے"۔ ورنہ اگر ان سے one to one آپ اس سے پوچھیں رسومات کے بارے میں، وہ خود ان کے خلاف بات کرنے لگے گی، یہ فضول ہے، وہ کہیں گی فضول، لیکن جس وقت وقت آجاتا ہے، تو پھر کیا، "کیا کریں لوگ کیا کہیں گے"۔ یعنی یہاں تک بات ہوتی ہے کہ اگر کسی خاتون نے کسی شادی کے موقع پر ایک جوڑا پہننا ہے، تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جوڑا کسی اور شادی پر بھی پہنے، حالانکہ وہ صرف ایک دفعہ استعمال ہوچکا ہوگا۔ اب مجھے بتاؤ، یہ عقل کی کون سی بات ہے، یعنی آپ اندازہ کرلیں کہ اس وقت مشینی صلاحیت کپڑوں کی یہ ہے کہ وہ دیرپا ہوتے ہیں، اتنی جلدی خراب نہیں ہوتے، اس وجہ سے مہنگے بھی ہوتے ہیں، اس پر خرچ زیادہ ہوتا ہے، مہنگے بھی ہوتے ہیں، اور یہ fire کرتے ہیں فلاں کا جوڑا جو ہے ناں بیس ہزار کا تھا، تو میرا بیس ہزار کا کیسے نہ ہو، مطلب یہ بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ اچھا بیس ہزار کا جوڑا پہن لیا، اور دوسری دفعہ پہننا نہیں ہے، اور ہر شادی پہ جانے کا شوق سر پہ سوار ہے، تو نتیجہ کیا ہوگا، خاوند کے ساتھ لڑائی ہوگی، اور مسائل ہوں گے اس کے لئے۔
تو یہ بات ہمارے بالکل سامنے کی باتیں ہیں، مطلب اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں ہے، یعنی میں دیندار گھرانوں کی بات بتا رہا ہوں آپ کو، یہ کوئی بے دینوں کی بات نہیں بتا رہا ہوں آپ کو، دیندار گھرانوں کی بات بتا رہا ہوں کہ وہاں یہ صورتحال ہے کہ ایک جوڑا اگر پہننا ہے کسی شادی پر، تو وہ دوسری شادی پر اس جوڑے کو نہیں پہنا جاسکتا۔ یہ بات ہے۔ تو یہ مجھے بتاؤ، یہ کیا حالت ہے۔ اب ہمارے اپنے اسلاف کو دیکھیں، تو یہ حالت تھی کہ وہ پیوند پہ پیوند لگاتے تھے، اور اس کو برا نہیں سمجھتے تھے، پیوند پہ پیوند لگاتے تھے، اور اس وقت دیکھیں کہ دوسری دفعہ پہننے کی کوشش نہیں ہے، تو یہ اپنے لئے ایک مصیبت ہے۔ جہاں تک دل کے اطمینان کی بات ہے، خدا کی قسم! ان چیزوں میں نہیں ہے، میں صاف صاف عرض کرتا ہوں، ان چیزوں میں دل کا اطمینان نہیں ہے۔ آپ اگر دن میں پانچ جوڑے بھی بدلیں ناں، پھر بھی دل کو اطمینان حاصل نہیں ہوگا، بلکہ مزید tension سوار ہوگی، مزید پریشانی ہوگی، لیکن اگر آپ کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے، اور اللہ جل شانہ کی طرف آپ متوجہ ہیں، تو تھوڑی سی محنت سے آپ کے دل کو اطمینان ہوسکتا ہے، کیونکہ: ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾9 ’’آگاہ ہوجاؤ، دلوں کو اطمینان اللہ کی یاد سے ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ اس کی خاصیت ہے، مطلب یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ تم۔۔۔۔ یہ ذکر کی خاصیت ہے کہ ذکر جو ہے ناں انسان کو اطمینان دلا دیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ذکر جس کا ہے، وہ باقی ہے، تو جب باقی کی طرف آپ کی توجہ ہوگی، تو آپ کے دل کو اطمینان ہوگا، اور جب فانی کی طرف آپ کا دل متوجہ ہوگا، تو دل پریشان ہوگا۔ ہر چیز کی اپنی اپنی خاصیت ہے۔ اب دیکھو، برف ہے ناں برف، یہ کم ہورہی ہے تو پریشانی تھی ناں، کیوںکہ فانی ہے، لیکن ایک دفعہ آپ نے ذکر کرلیا، یہ فانی نہیں ہے، سبحان اللہ، یہ باقی ہے، ہمیشہ کے لئے ہے۔ آپ نے ایک دفعہ ذکر کرلیا، آپ کے لئے درخت جنت میں لگ گیا۔ اب وہ جنت میں جو درخت لگ گیا، وہ دس سال کے لئے نہیں ہے، بیس سال کے لئے نہیں ہے، سو سال کے لئے نہیں ہے، ہزار سال کے لئے نہیں ہے، وہ ہمیشہ کے لئے ہے، لگ گیا۔ چابی آپ کے ہاتھ میں ہے، کتنے لگوانا چاہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ جتنے لگوانا چاہیں لگوا دیں۔
وہ ایک واقعہ ہے، ایک بزرگ تھے تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک مکان بن رہا تھا، جو مکان بنانے والا نوجوان تھا، اس کو دیکھ کر وہ بزرگ حیران ہوگیا، اب اس کو گھور گھور کے دیکھ رہا ہے، جیسے کوئی عجیب بات ہورہی ہو۔ اس نوجوان کو بھی خیال ہوگیا کہ یہ بزرگ مجھے گھور گھور کے دیکھ رہا ہے، پتا نہیں کیا وجہ ہے۔ آگیا، سلام کیا، "حضرت، آپ مجھے اس طرح مسلسل دیکھ رہے ہیں، کوئی بات ہے مجھ سے کوئی کہنے کی؟" انہوں نے کہا: ہاں، بات کہنے کی تو ہے۔ انہوں نے کہا: کیا؟ انہوں نے کہا کہ، آپ کے ماتھے کو دیکھتا ہوں تو نیک بختی کے آثار ہیں، آپ کے کام کو دیکھتا ہوں تو بد بختی کے آثار ہیں۔ اب یہ دونوں چیزیں آپس میں مل نہیں پا رہیں، مجھے پریشانی ہے، میں حیران ہوں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اب نوجوان بھی صالح تھا، انہوں نے کہا: حضرت، آپ بتایئے کیا بات ہے، مطلب کس طرح بات ہے، اور یہ کیا کام جو بد بختی؟ انہوں نے کہا: دیکھو بیٹا، حدیث شریف میں ہے، پکا مکان، اس کی مذمت کی گئی ہے، وہ تو انسان پر بوجھ ہوگا، تو یہ تو بد بختی کی بات ہوگئی، اور آپ نیک بخت نظر آتے ہیں، تو کیسے؟۔ انہوں نے کہا: پھر میں کیا کروں؟ فکر ہوگئی۔ پھر میں کیا کروں؟ کہا: اگر آپ یہ اللہ کے راستہ میں خیرات کردیں، تو اللہ پاک آپ کو جنت میں ایسا مکان دے گا، جس میں اتنے دروازے ہوں گے، اتنے مطلب جو ہے ناں وہ فانوس ہوں گے، اور اتنے تخت اور کرسیاں ہوں گی، اتنے یہ ہوگا، بڑے عالی شان، اس کو بتا دیا۔ جیسے انسان خواب میں دیکھ سکتا ہے، سوچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: "حضرت، مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں؟" اب ان کی قسمت تھی، انہوں نے کہا: "اچھا ٹھیک ہے، میں لکھ کے دیتا ہوں"۔ کاغذ قلم منگوا لیا، انہوں نے باقاعدہ لکھ کے دے دیا۔ لکھ کے دیا، اس نے کاغذ لے لیا، اور ان کو جتنے پیسے اس کے تھے، گھر جاکر وہ پیسے لاکر ان کو دیئے کہ یہ مکان بھی آپ کا، یہ پیسے بھی آپ کے، کیونکہ یہ اسی کے لئے تھے، اور میں جارہا ہوں، اس کو چھوڑ کے چلا گیا۔ اور ساتھ انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے پیسے بھی خیرات کردیئے، اور مکان بھی شاید کسی کو بیچ دیا ہوگا، پیسے خیرات کردیئے۔ چلے گئے، بزرگ کو تو ظاہر ہے اس کی ضرورت نہیں تھی، چلے گئے۔ اب دن گزرتے گئے، ایک دن جمعہ کی نماز کے خطبہ کے لئے منبر پر حضرت تشریف مطلب ظاہر ہے، لے جارہے تھے، اوپر سے ایک کاغذ اڑ کے آگیا، اس کے سامنے گر گیا، اس نے دیکھا تو اس کے اوپر لکھا ہوا ہے: "آپ نے جو ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا، میں نے تو اس سے بھی زیادہ اس کو دے دیا"۔ اور ایسی سیاہی سے لکھا تھا، جو دنیا میں وہ سیاہی موجود نہیں تھی، بڑی حیرت سے انہوں نے الٹا کرکے دیکھا تو وہی خط تھا جو اس نے اس کو دیا تھا، ضرور کچھ واقعہ ہوگیا ہے۔ خط کو جو جیب میں رکھ دیا، خطبہ پڑھا، نماز پڑھائی، اور اس علاقہ میں جانا شروع کرلیا جس علاقہ میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کے پوچھا کہ اس طرح ایک نوجوان تھے جو گھر بنا رہا تھا، اس طرح وہ، تو وہ کدھر ہے؟ کہا: وہ تو فوت ہوگئے ہیں۔ اچھا، غسالوں نے جو ان کو غسل دیا تھا، کیا وہ موجود ہیں؟ کہتے ہیں: ہاں، موجود ہیں۔ تو ان کو بلائیں، ان کو بلوایا، ان سے کہا کہ کیا اس صاحب نے کوئی وصیت کی تھی، کوئی بات ایسی تھی؟ کہتے ہیں: ہاں، انہوں نے کاغذ ہمیں دیا تھا، یہ کاغذ میرے کفن اور سینے کے درمیان میں رکھنا ہے، وہ ہم نے رکھوا دیا تھا۔ اچھا، وہ کاغذ جانتے ہو تم؟ کہتے ہیں، ہاں۔ جیب سے نکالا، کہا یہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، حضرت، یہ تو قبر میں دفن ہوچکا ہے، آپ کے پاس کیسے آیا؟ کہتے ہیں، یہی تو بات ہے۔ تو انہوں نے جب دوسری طرف دیکھا، تو اس پہ یہ لکھا تھا، وہ جو وعدہ تھا، پورا ہوگیا۔ اب اس کو، ابھی باقی لوگ تو ششدر ہورہے تھے کہ ایک نوجوان بھاگا بھاگا آیا، کہتے ہیں، حضرت! آپ میرے ساتھ یہ ایسا معاہدہ کرسکتے ہیں؟ کہا: بیٹا، اس نے بغیر دیکھے کیا تھا، تم دیکھ کے کررہے ہو، یہ میرے بس کی بات نہیں۔ اس نے بغیر دیکھے کیا تھا، تم دیکھ کے کررہے ہو، تو یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مطلب میرا یہ ہے، یہ تو اللہ پاک کی طرف سے وعدے ہیں، یہ بزرگ تو خیر بعد کی بات ہے، وہ تو چھوڑو، ان کو اتنا مسئلہ نہیں ہے، یہ تو قرآن میں، حدیث میں، تمام چیزیں صاف صاف بیان کی گئی ہیں، ایک ایک چیز پر کتنے کتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ اب وہ چیزیں کیا اخبار نہیں ہیں، کیا اس کے لئے آپ کو خواب دیکھنا ہوگا، کیا اس کے لئے آپ کو کسی کاغذ کا انتظار ہوگا؟ یہ تو پہلے سے موجود ہے، ہمیں یقین کی ضرورت ہے۔ ایک مثال ظاہر ہوگئی کہ بغیر دیکھے کرنے سے کام بنتا ہے، ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾10 پھر جب تک معاملہ چلتا ہے، تو کام بنتا ہے، جس وقت بالمشاہدہ ہوگیا، تو معاملہ الگ ہوگیا، فرعون کا ایمان قبول نہیں ہوا، کیوں قبول نہیں ہوا؟ مشاہدہ جو تھا۔ جب غیب کی حالت جاری ہوتی ہے، اس وقت تک سب کچھ ہوتا ہے، اس وقت آپ کے ہاتھ میں آخرت کی تمام خیروں کی کنجی موجود ہے، اور جس وقت وہ وقت نکل گیا، پھر اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوسکتا، کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
سب سے بڑی بات جو انسان حاصل کرسکتا ہے، اور کسی لمحہ بھی حاصل کرسکتا ہے، کسی لمحہ بھی، اس کے ہاتھ میں جب تک وہ زندہ ہے، موت کے آثار نہیں آئے، اس وقت تک وہ کسی وقت بھی حاصل کرسکتا ہے، وہ بڑی لمبی چوڑی بات کے ذریعہ سے نہیں ہے، بس صرف ایک determination ہے، اور وہ کیا ہے کہ میں توبہ کرتا ہوں، تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، دل سے کوئی توبہ کرلے، جتنے گناہوں سے توبہ کرلے، سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ ہاں، توبہ کا طریقۂ کار ہے، یہ نہیں کہ مطلب آپ دھوکہ دے سکتے ہیں، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ، ایسے دھوکہ دینے والی تو بات ہی نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ تو علیم وخبیر ہے، وہ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ آپ نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ، اللہ پاک کو دھوکہ دیں گے، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ صاف صاف باتیں ہیں، وہ کیا ہیں؟ گناہ دو قسم کے ہیں، ایک گناہ وہ جو اللہ جل شانہٗ کے کسی حکم کو توڑا ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کسی انسان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا، مثلاً نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، حج ہے، اور اس طریقہ سے مطلب وہ ایمان، سب سے بڑی بات ہے ایمان ہے، تو یہ، یہ جو چیزیں ہیں، اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ تو اس میں توبہ کرنے سے براہ راست، وہ تین چیزیں بس صرف ہوتی ہیں، ایک یہ آپ نے اس کو چھوڑ دیا فوراً، جو چیز آپ اس سے توبہ کررہے ہیں، آئندہ اس سے آپ رک گئے، مطلب جو ہے ناں آپ نے توبہ کرلی، اس سے آپ رک گئے، اور اس سے آئندہ نہ کرنے کا عزم کرلیا، تین شرطیں ہیں۔ تین شرطیں پوری ہوگئیں، اگر اس کی قضا نہیں ہے، اب نماز کی قضا ہے، قضا نماز پڑھنی پڑے گی۔
اب مزید بات یہ ہے، شیطان بہت فعال ہے، ظالم، وہ ہر چیز کی طرف کوئی گند ڈالتا ہے۔ اب جیسے قضا، اب دیکھو ناں، ایک آدمی نے نماز جیسی عظیم چیز چھوڑی ہے، اس نے نہیں پڑھی ہے، اس کے لئے کیا یہ کم مطلب جو ہے ناں favor ہے کہ اس کو اللہ پاک معاف کردیتا ہے، ہاں، اس کی قضا پڑھ لے، یعنی بعد میں وہ پڑھ سکتا ہے، اور بعد میں وہ پڑھ لیتا ہے، اور بس، سبحان اللہ، معاف ہوگیا، اور توبہ بھی کرلی۔ اب شیطان نے کیا کیا، کچھ لوگوں کو قضائے عمری کا بتایا، اس طریقہ سے کہ رمضان شریف کے آخری جمعہ کو پانچ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھ لیں، یعنی اپنی فرض نمازوں کے علاوہ پانچ نمازیں اور، صبح ایک فجر کی، ایک ظہر کی، عصر کی، مغرب کی، اور عشاء کی، حجۃ الوداع کے موقع پر، بس ساری نمازیں اس کی معاف ہوگئیں گزشتہ۔ یہ طریقہ تو ان لوگوں نے نکالا، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ بھئی، جو چیز حدیث سے ثابت ہے نہ قرآن سے ثابت ہے، کسی نے اس کے بارے۔۔۔۔ تو آپ نے کیسے اپنی طرف سے نکال لیا؟ حساب لینے والے تم ہو؟ حساب لینے والا دیکھے گا کہ وہ کس طرح چاہتا ہے۔ تو ان لوگوں نے تو یہ راستہ نکال لیا غلط، جو بدعت ہے، بدعت کا گناہ بھی اپنے سر۔ دوسرے کچھ لوگوں نے کہا، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ، انہوں نے کہا نماز قضا ہوگئی، توبہ کرلو، کوئی قضا وضا نہیں ہے، کوئی قضا وضا نہیں ہے۔ یہ کام تو پیغمبر کرسکتا ہے، کوئی اور نہیں کرسکتا، کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ بس اب آپ کے اوپر نہیں ہے، آپ ﷺ نے قضا نماز پڑھی ہے، تو کہتے ہیں نہیں "وہ special case ہے"۔ تو پھر ساری زندگی آپ ﷺ کی special case بنا دو، پھر آپ کو کیسے پتا چلے گا کہ یہ special case نہیں ہے، اور آپ کو کس نے کہا ہے، کسی صحابی نے کہا ہے کہ یہ special case تھا؟ چلو، ایک ثبوت تو دے دو کہ کسی صحابی نے کہا ہو، کسی فقیہ نے کہا ہو کہ یہ special case ہے۔ کہاں پر ہے special case؟ اور پھر وہاں لے آؤ گے، اگر پتا چل گیا کہ special case نہیں تھا، پھر کیا کرو گے، وہاں پڑھ سکو گے؟ اصل میں اس میں اندر ایک خفیہ بات ہے، وہ بتاتے نہیں ہیں، وہ میں بتاتا ہوں، بعض اماموں کے نزدیک بھی ہے، بعض اماموں کے نزدیک بھی، بعض اماموں کے نزدیک بھی نماز قصداً نہ پڑھنے والا کافر ہوجاتا ہے، ہے ناں مفتی صاحب؟ بعض اماموں کے نزدیک نماز قصداً نہ پڑھنے والا کیا ہوجاتا ہے؟ کافر ہوجاتا ہے۔ تو اس وجہ سے جب کافر ہوگیا، مسلمان ہوگیا، توبہ کرلی، تو پھر باقی پیچھے نمازیں پڑھنے کی ضرورت تو نہیں ہوگی ناں، یہ اصل میں وہ مسئلہ ہے۔ لیکن بتا نہیں سکتے، اتنی جرات نہیں ہے، تو پھر آگے آؤ، کہیں نکاح بھی دوبارہ پڑھاؤ، کفر کے بعد مسلمانی کی طرف آتے ہو، تو کیا تمھارا پرانا نکاح برقرار ہے؟ اس کو بھی کرلو ناں، تمھاری ساری نمازیں چلی گئیں، تمھارے سارے روزے چلے گئے، تمھاری ساری زکوٰتیں چلی گئیں، تمھارے حج سارے چلے گئے، حج بھی دوبارہ کرلو، اتنی جرات ہے؟ تو پھر بتاؤ ناں، یہ مسئلہ ہے، مسئلہ اور کچھ نہیں ہے، یہ بتا نہیں سکتے، اتنی جرات نہیں ہے، تو چپکے چپکے سے اس کی باتیں کرتے ہیں۔ خدا کے بندو! اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، دوسرے لوگوں کی ذمہ داری اپنے سر نہ لو۔ مسئلہ اگر کسی کو معلوم نہیں ہے تو جرم نہیں ہے، اگر عالم نہیں ہے تو جرم نہیں ہے، بس ٹھیک ہے، ﴿فَسْـئَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾11 کسی عالم سے پوچھ لو، فرض عین علم تو سب کو حاصل ہونا چاہیے، لیکن بہرحال اس قسم کے جو مسئلے، معرکۃ الآراء مسئلے ہیں، اس کو تو کسی عالم سے پوچھ کے ماننا چاہیے ناں، تو کسی عالم سے پوچھ کے چلو۔ یہ کیا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی جواب بنا دو، یہ غلط بات ہے۔ قرونِ اولیٰ کے چار امام جس چیز پر جمع ہوجائیں، اس کے خلاف بات بنانا، یہ بہت بڑی جرات ہے۔ قرون اولیٰ، "خَيْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ"12 آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے۔ سب سے بہتر میرا زمانہ، پھر اس کے بعد، اور پھر اس کے بعد۔ اس میں ایک فیصلہ ہوچکا ہے، اس وقت کے بڑے علماء، اس وقت کے بڑے فقہاء، ایک بات پر متفق ہیں، تو پھر تم درمیان میں کہاں سے آگئے ہو، کہاں سے مسئلہ نکال رہے ہو؟ یہ اصل میں بات ہوتی ہے، خدا سے ڈرنا یہاں پر ہے، یہ معاملہ آسان نہیں ہے۔ بھئی دیکھو، اگر کسی پہ فرض نماز کی قضا رہ گئی ہے، اور آپ نے اس کو کہہ دیا کہ نہیں بس تمھیں۔۔۔۔ اس سے پوچھا جائے، وہ تو کہے، "مجھے تو فلاں نے بتایا تھا"۔ پھر کیا کرو گے؟ وہ بھی نہیں چھوٹا جائے گا، اس کو کہا جائے گا کہ تو نے مطلب صحیح جگہ سے پوچھنا تھا، لیکن بہرحال تم بھی ساتھ میں پکڑے جاؤ گے۔ اس وجہ سے دوسروں کی ذمہ داری تو لینی نہیں چاہیے، کبھی بھی نہیں لینی چاہیے۔ اس میں احتیاط کی صورت اپنانی چاہیے، احتیاط کی صورت کیا ہے کہ بھئی اتنے سارے علماء ہیں، اور یہ کہہ رہے ہیں، سارے فقہاء اگر یہ کہہ رہے ہیں، مطلب گزشتہ، وہ کہہ رہے ہیں، اب میں اگر کہوں، اگر بات ان کی ہو، پھر کیا ہوگا، پھر کیا ہوگا؟ تو اس پہ خاموش رہا جائے، بس ٹھیک ہے جی، میں نہیں جانتا، بس ٹھیک ہے۔ سب سے آسان بات کیا ہے، میں نہیں جانتا، بھئی ان سے پوچھو جو جانتا ہے، آسان بات ہے، اپنے آپ کو بچاؤ، ورنہ اگر پھنسا دیا اپنے آپ کو، تو بہت خطرناک بات ہے۔ اس وقت میں حیران ہوتا ہوں جاوید غامدی جیسے لوگ، جو کہتے ہیں شراب پینا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ تو اس طرح نہیں ہے، موسیقی جائز ہے، اس طرح اور بہت ساری چیزیں ان کے نزدیک جائز ہیں۔ اب میں حیران ہوں کہ جگر گردے، یا تو یہ، نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ، مسلمان نہیں رہا، اس وجہ سے اس کو خوف نہیں ہے، وَاللہُ اَعْلَمُ، میں کفر کا فتویٰ نہیں لگا رہا، لیکن میں کہتا ہوں یہ صورت ایک کافر کی ہوسکتی ہے کہ اس کو پروا نہ ہو، اس طرح ایک مسلمان آدمی دھڑلے کے ساتھ ایسے جو مانی ہوئی چیزیں ہیں، جس پہ کوئی اختلاف نہیں ہے، نہیں چلا آرہا، اور تم اس طرح دھڑلے کے ساتھ بات کررہے ہو، تو یا تو یہ بات ہے کہ تم مسلمان نہیں رہا، جس وجہ سے تجھے فکر نہیں ہے، اور یا پھر یہ انتہائی بیوقوف آدمی ہو کہ سب لوگوں کے گناہ اپنے سر لے رہے ہو، پھر آپ کو کیسے ہوشیار آدمی کہا جائے گا؟ ہوشیاری کی باتیں تو نہیں ہیں، ہاں۔ تو خیر، میں ذکر کررہا تھا کہ آخرت کی فکر ہونی چاہیے، آخرت کی فکر ہونی چاہیے۔
دنیا کے بارے میں دو دفعہ احادیث شریف، جو میرے سامنے ہے، اس میں دنیا کا نام آیا، اور دونوں بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔ ایک میں فرماتے ہیں: "اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرۃِ"13 ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ اور دوسری میں آتا ہے: "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ"14 ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔‘‘ اب وہاں آخرت کی کھیتی ہے، یہاں ساری خطاؤں کی جڑ ہے اس کی محبت، یہ کیا بات ہے؟ اگر دنیا کی صحیح تعریف ہم اپنے سامنے رکھ لیں، تو دونوں باتیں زبردست information ہیں۔ وہ کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے پہلے پہلے جو کچھ ہے، وہ سارا دنیا ہے، موت سے پہلے جو کچھ بھی ہے، وہ کیا ہے؟ وہ دنیا ہے، اور موت کے ساتھ ہی آخرت کے آثار شروع ہوگئے۔ اب اس میں موت سے پہلے آپ کا جو وقت ہے، وہ بھی دنیا ہے، آپ کا جو مال ہے، وہ بھی دنیا ہے، آپ کی جو یعنی جو اولاد ہے، وہ بھی دنیا ہے، مطلب ساری چیزیں آپ کی دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، اور یہی چیزیں آپ کی آخرت کی کمائی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں، اور تباہی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں، تو اب یہ جو فرمایا: "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ"15 اگر اس کی محبت آخرت کی محبت پہ غالب آجائے، آخرت کی چیزوں سے آپ کو دنیا کی چیزوں سے زیادہ محبت ہو، آخرت کی تکلیفوں سے زیادہ آپ دنیا کی تکلیفوں سے ڈرتے ہوں، اور آپ آخرت کی چیزوں پر دنیا کی چیزوں کو ترجیح دیتے ہوں، تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے، یہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، ہر چیز اس سے نکلتی ہے۔ مجھے بتاؤ، کون سا گناہ ہے جو اس سے نہیں نکلا؟ کوئی بھی گناہ آپ لے لو، تکبر اس سے ہے، ریا اس سے ہے، زنا اس سے ہے، جھوٹ اس سے ہے، فریب اس سے ہے، فساد اس سے ہے، مطلب جو بھی چیز ہے، وہ کیا ہے، مطلب وہ اسی سے نکلی ہے، وہ دنیا کی محبت سے نکل رہی ہے، ہر چیز دنیا کی محبت سے، برائی سب نکل رہی ہیں، "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ"16۔ اور یہ فرمایا: "اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرۃِ"17 ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ آپ نماز پڑھ رہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ روزہ رکھ رہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ حج کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ ذکر کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ بڑے کا اکرام کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ چھوٹے پہ شفقت کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، آپ اچھا بول بول رہے ہیں، آخرت کا فائدہ، ذکر کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، سنت کے مطابق کوئی کام کررہے ہیں، آخرت کا فائدہ، ہر چیز آپ کی آخرت میں باقاعدہ پہنچ رہی ہے، پہنچ رہی ہے۔ اس وقت آپ کے لئے دنیا کتنی قیمتی ہے، ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، ایک ایک پیسہ قیمتی ہے، ایک ایک بال قیمتی ہے، ہر چیز آپ کی قیمتی ہے۔ آپ کو اللہ نے آنکھیں دی ہیں، اس کو اللہ کے لئے استعمال کرو، آپ کو اللہ پاک نے کان دیئے، اس کو اللہ کے لئے استعمال کرو، آپ کو اللہ نے زبان دی ہے، اس کو اللہ کے لئے استعمال کرو، آپ کو اللہ پاک نے ذہن دیا ہے، اللہ کے لئے استعمال کرو، ہاتھ پاؤں دیئے ہیں، اللہ کے لئے استعمال کرو، کوئی بھی چیز دنیا میں اللہ پاک نے آپ کو دی ہے، اس کو اللہ کے لئے استعمال کرلو، یہ باقی ہوجائے گا، ورنہ یہ ساری چیزیں ختم ہونے والی ہیں، ایک وقت تک آپ کے پاس ہیں، ایک وقت تک آپ کے پاس ہیں، اور آپ کے ہاتھ میں دی گئی ہیں، پھر اس کے بعد آپ اس کے ساتھ کیسے برت رہے ہیں، یہ پھر آپ سے پوچھا جائے گا، اس میں ہی آپ کا امتحان ہے، اس میں ہی آپ کو نوازا جائے گا، اسی میں آپ کے اوپر لادا جائے گا، مطلب ہر وہ چیز جو ہے، وہ آخرت میں جو ہوگا، وہ انہی چیزوں کے مطابق ہوگا کہ اس میں آپ نے کیا کیا ہے۔
پس ہم لوگوں کو چاہیے کہ ہم سیکھیں وقت کو کیسے استعمال کریں۔ تو دیکھیں، وقت کو استعمال کرنے کی تین قسم ہوسکتی ہیں، میں یہ تو نہیں کہتا، کوئی اور تعریف اپنی طرف سے تو نہیں بناتا، لیکن جو فرمایا گیا، وہ بتاتا ہوں کہ رات آتی ہے ناں، تو یہ ٹائم ہے ناں، وقت ہے ناں، تو یا کسی کے لئے ما شاء اللہ! آخرت کی کمائی کا ذریعہ بنتی ہے یہ رات۔ کوئی عبادت کرتا ہے، تہجد کے لئے اٹھتا ہے، سنت طریقہ پہ سوتا ہے، کوئی اچھا کام کرتا ہے، تو یہ کیا ہے، آخرت کے لئے بن جاتی ہے رات۔ حالانکہ رات آرام کے لئے، لیکن دیکھو ناں، اس میں یہ چیز ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ تباہی کا بن جاتا ہے آخرت کی، زنا کے لئے کوئی جاتا ہے، کوئی چوری کے لئے جاتا ہے، کوئی مطلب اور fraud کے لئے جاتا ہے، مطلب تو یہ اس کے لئے کیا ہے؟ یہ رات اس کے لئے تباہی ہے، اور کوئی آرام سے سو گیا، نہ کچھ کیا، نہ کچھ غلط کام کیا، نہ کچھ اچھا کام کیا، بس صبح اٹھ گیا، نماز پڑھی، اس کے لئے نہ رات مصیبت ہے، نہ اس کے لئے کوئی اعزاز ہے، بس بچ گیا، صفر پہ آگیا، صفر پہ آگیا، اس کے لئے رات صفر کا باعث بن گئی۔ تو اب اسی طریقہ سے دن بھی ہے، اسی پہ دن کو قیاس کرلو، تو دن میں تو سارے کام ہوتے ہیں، تو ہر ہر لمحہ میں ہم کچھ کررہے ہوتے ہیں، ہماری آنکھیں کچھ استعمال ہورہی ہوتی ہیں، ہمارے کان کچھ استعمال ہورہے ہوتے ہیں۔ اب اس وقت دیکھیں، گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، اور ساتھ drum music لگا ہوتا ہے، اب اس کا کوئی تُک ہے؟ کوئی تُک نہیں۔ یعنی صاف طور پہ میں عرض کرتا ہوں، اگر کوئی بالکل ہی ڈفر ہو، تو اس کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ drum music جو ہے، یہ اعصاب پہ اثر ڈالتا ہے یا نہیں ڈالتا؟ اعصاب پہ اثر ڈالتا ہے یا نہیں ڈالتا؟ ڈاکٹر صاحب، اعصاب پہ اثر ڈالتا ہے ناں؟ اور اعصاب ہی کے ذریعہ سے ہم سارے کام کررہے ہیں۔ اب بتاؤ، آپ کا سٹیرنگ کے اوپر ہاتھ ہے، اور کوئی ایسا music میں آگیا جس سے آپ کے ہاتھ کو جھٹکا لگ گیا، تو گاڑی کدھر جائے گی؟ اور گاڑی آپ شوق میں speed سے چلا بھی رہے ہیں، نتیجہ کیا ہوگا، تباہی ہوگی، تو یہ مطلب کوئی تُک نہیں بنتا، اب یہ کان کا مسئلہ ہے، اور کچھ نہیں ہے، اگر یہ بہرا ہوتا، تو کیا یہ drum music لگاتا؟ کان کا مسئلہ ہے ناں۔ اس طریقہ سے اگر ایک غیر محرم کو دیکھنے لگ گیا، اور accident ہوگیا اس سے، تو یہ آنکھ کا مسئلہ ہے، اس طرح ذہن کا مسئلہ ہے کہ ذہن میں کچھ خیالات اس کے پیچھے چل رہا ہے، یہ ذہن کا مسئلہ ہے۔ اس طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں، جو میں نہیں ظاہر ہے تفصیل میں بیان کرسکتا، تو وہ سب کی سب چیزیں مطلب ہمارے لئے گناہوں کا سبب بن رہی ہیں، گناہوں کا سبب بن رہی ہیں۔ تو ہم اپنے کانوں کو صحیح استعمال کرلیں، اپنی آنکھوں کو صحیح استعمال کرلیں، اپنی زبان کو صحیح استعمال کرلیں، اپنے دل کو صحیح استعمال کرلیں، اپنے ہاتھ پاؤں کو صحیح استعمال کرلیں۔ ان چیزوں کو سیکھنا چاہیے۔ میں اکثر جو خانقاہ میں آتے ہیں ناں مرد، تو ان کو میں کہتا ہوں کہ ذکر سیکھو، ذکر کرنا سیکھو، یہ چیز آپ کو کہیں اور آسانی سے نہیں ملے گی، یہ ماحول آپ کو کہیں اور آسانی کے ساتھ نہیں ملے گا، یہاں آپ کے پاس ٹائم ہے، آپ اس ٹائم کو استعمال کرلو، اور ذکر کرنا سیکھو۔ تو ذکر کرنا سیکھنے کا مطلب کیا ہے، یعنی کثرت کے ساتھ ذکر کرو، یہاں تک کہ آپ کی زبان ذکر کے ساتھ مانوس ہوجائے، اور آپ کے جسم و جان میں ذکر راسخ ہوجائے۔ پھر کیا ہوگا، پھر جسم کی یہ demand ہوگی کہ آپ ذکر کریں، بے شک آپ کہیں پر بھی ہوں، لیکن جسم کی demand ہوگا کہ وہ ذکر کرے، اگر آپ ذکر نہیں کررہے، تو آپ کو ذکر یاد کرایا جائے گا، اور آپ ذکر کرنے لگ جائیں گے۔ تو جب ایسی صورتحال ہے، تو خانقاہیں کتنی زبردست جگہیں ہوگئیں کہ اس میں اس چیز کو انسان حاصل کرتا ہے، ذکر کو۔ یہاں پر ایک عالم صاحب تشریف لائے تھے، چلہ لگایا تھا تبلیغ کے ساتھ، اور پھر پتا نہیں کسی نے کہا ہوگا، تو سہ روزہ ہمارے ساتھ لگایا، گھر جانے سے پہلے ہمارے ساتھ سہ روزہ لگایا۔ ان کو میں نے یہ چیز بتائی، میں نے کہا کہ ہم یہاں پر یہ اس لئے کرتے ہیں کہ آپ کو ہم زیادہ ذکر دیں گے، تاکہ آپ مسلسل ذکر کرنا سیکھیں، اور پھر آپ جہاں بھی ہوں، تو ذکر کرتے رہیں، بس یہ چیز ہم صرف اس لئے آپ کو بتاتے ہیں، یعنی اس کو logically سمجھا دیا، مان گئے وہ۔ بہرحال یہاں پر جتنا سہ روزہ انہوں نے لگایا، تو اس میں ذکر کرلیا، جیسے ہم نے کہا، اَلْحَمْدُ للہ جس وقت چلا گیا، تو وہاں سے مجھے فون کیا، "اَلْحَمْدُ للہ، میں بالکل اسی طرح ذکر کررہا ہوں، جس طریقہ سے میں نے خانقاہ میں میرا معمول تھا، اس طرح میں کررہا ہوں"۔ تو دل لگ گیا، بس ذکر میں لگ گیا ناں، بس یہی تو چیز ہوتی ہے۔ بھئی جو سودا جہاں ملتا ہو، تو وہیں سے ملے گا ناں آپ کو، اس کو کہتے ہیں ناں مطلب وہ کریانہ کی دکان پہ جاؤ، ان سے کہہ دیں مجھے زیور بنا کے دے دو سونے کا، تو وہ کیا کہے: "تمھارا دماغ خراب ہے، یہ ہمارے پاس یہ چیزیں تھوڑی ہیں"۔ اور اگر سونے کی دکان پہ چلے جاؤ، کہتے ہیں: "جی دو کلو آلو دے دو"۔ تو وہ کہے گا، "بھئی یہ کیا تو کررہا ہے"۔ تو ہر جگہ، ہر چیز اپنی جگہ۔ تبلیغ میں اپنا فوائد ہیں، اور خانقاہوں کے اپنے فوائد ہیں، مدرسوں کے اپنے فوائد ہیں، جہاں جاؤ گے، وہاں کے فوائد حاصل کرلو گے، تو آپ کو پتا چل جائے، آپ کو مل جائے، اور تمام چیزوں کی ضرورت ہے، ہر چیز کی ضرورت ہے۔
تو جب یہ بات ہے، تو مطلب یہ ہے کہ انسان جس وقت ذکر کرنا سیکھ لیتا ہے، اور ذکر اس کا جسم و جان کا ایک حصہ بن جاتا ہے، پھر وہ ہر وقت ذکر کرسکتا ہے۔ تو اب دیکھیں کہ یہاں پر میں کچھ باتیں عرض کروں، ابھی میں نے کچھ احادیث شریفہ تلاوت کی ہیں، اور قرآن پاک کی آیت، تو پہلے میں ذرا اس کو عرض کرلوں۔ آپ ﷺ نے بعض فتنوں کا ذکر کیا، اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ اس وقت کے لئے ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بس تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ"، یعنی باہر نہ نکلو کہ ان فتنوں میں شریک ہونا پڑے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شر غالب ہوجائے، اور اس سے بچنا ممکن نہ رہے، ایسی صورت میں آپ صرف پناہ گاہ ڈھونڈ سکتے ہیں کہ آپ اس سے پناہ میں آجائیں، اس کے علاوہ آپ کوئی۔۔۔۔ بھئی سونامی آگیا، تو اس میں کیا کرو گے، اس کا مقابلہ کرو گے؟ ہاں، پھر تو آپ کو کسی پہاڑ کے اوپر چڑھنا پڑے گا، یا کسی tower کے اوپر چڑھنا پڑے گا، مطلب جو بھی آپ کو میسر ہو کہ آپ مطلب اس سے بچ جائیں، بس یہی کرنا پڑے گا ناں، اس کے علاوہ تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ تو ایسی صورت میں مطلب جب بالکل اتنا زیادہ ہو، تو کہتے ہیں، فرمایا کہ اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "قریب ہے کہ مسلمان کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر پہاڑ کی چوٹی اور بارش کے موقع کو تلاش کرتا پھرے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچا کر بھاگے گا"۔ یہ بات ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ویسے قصے کہانیاں ہوتی ہیں، لوگوں نے بنائی ہوتی ہیں، لیکن اس میں بڑی عبرت ہوتی ہے بعض دفعہ، جیسے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اکثر استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی، اور وہ بارش جن پہ بھی پڑ گئی، وہ پاگل ہوگئے۔ وزیراعظم اور بادشاہ بچ گئے، باقی سب پاگل ہوگئے۔ اب سب پاگل ہیں، بادشاہ اور وزیراعظم پاگل نہیں ہیں، تو وہ سب پاگل کہنے لگے، "بادشاہ پاگل ہے، اور وزیراعظم پاگل ہے"۔ وہ پاگل تھے، پاگل تو کچھ بھی کرسکتے ہیں، آخر انہوں نے بادشاہ اور وزیراعظم کو اتنا تنگ کیا کہ بادشاہ نے وزیراعظم سے کہا: "ہم اس پانی کو پی نہ لیں، چلیں، ہم بھی اس پانی کو پی لیتے ہیں"۔ یعنی ان جیسے ہوجائیں، مطلب پھر ظاہر ہے۔ اس طرح ایک شخص کی ناک تھی، اور ایسی جگہ پہ تھا، جس پہ سب کی ناکیں کٹی ہوئی تھیں، مطلب ناک نہیں تھے، تو سب نے اعلان لگا دیا: "اوہ جی ناکو آگیا، ناکو آگیا، ناکو آگیا"۔ اب وہ بیچارہ، اچھا وہی تھا، صحیح وہی تھا، لیکن غالب وہ تھے جو صحیح نہیں تھے، تو ان کی اکثریت تھی، نتیجتاً وہ بیچارے حیران ہوگئے کہ ہم کیا کریں، ناک کٹوا دیں؟ تو یہ صورتحال ہوتی ہے، مطلب یعنی جب برائی پھیل جائے، تو نیکی کا بچانا ممکن نہیں رہتا، اس صورت میں پھر کیا کرو گے، پھر یہ طریقہ ہے جیسے فرمایا گیا۔ مجھے ایک بہت بڑے ڈاکٹر صاحب تھے، میجر جنرل ریٹائیرڈ، دوست تھے میرے، میں ویسے کسی مشورہ کے لئے ان کے پاس گیا تھا، اس نے کہا: "اچھا ہوا کہ آپ تشریف لائے ہیں، میری بیٹی کی شادی ہے، اور فلاں ہوٹل میں مطلب ظاہر ہے، وہ بارات ہوگی، تو آپ اس کے لئے نہ آئیں، بارات کے لئے، آپ صرف دین کی دعوت دینے کے لئے آئیں، دین کی دعوت دینے کے لئے آئیں، تاکہ کسی نہ کسی کو کچھ مطلب۔۔۔۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ ظاہر ہے اس کے لئے تو ہم کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ تو تیار ہوگیا، اور میں چلا گیا جی۔ اب گیا، تو وہ سارے کوئی جنرل ہے، کوئی بریگیڈیر ہے، کوئی سکریٹری، کوئی فلاں، ظاہر ہے اس کی دوستی یاری تو انہی لوگوں کے ساتھ تھی، اور اتنے متکبر، ایسے ڈوبے ہوئے تکبر میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میں نے لَا حَوْلَ پڑھنا شروع کیا، میں نے کہا، بس اپنے آپ کو بچاؤ، دوسرے کو آپ نہیں بچا سکتے، اپنے آپ کو بچاؤ، بس میں نے لَا حَوْلَ پڑھنا شروع کیا، اور لَا حَوْلَ ہی پڑھتا رہا جتنی دیر وہاں پر بیٹھا رہا، اور پھر اس کے بعد چلا آیا۔ یہ صورتحال ہوتی ہے، کوئی غلط تو نہیں کہا؟ مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ جو ہے ناں، بعض دفعہ صورتحال یہ بن جاتی ہے کہ آدمی کو اپنے آپ کو بچانا پڑ جاتا ہے، دوسرے لوگوں کو بچانے کی بجائے اپنے آپ کو بچانا پڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اللہ اکبر۔ ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ فتنوں کے بارے میں کہ "پکڑے رہو تم مسلمانوں کی جماعت کو ان کے امام کو، عرض کیا گیا پس اگر نہ ہو ان کی جماعت سے کوئی امام؟ ارشاد فرمایا، "ایسی حالت میں ان کل فرقوں سے دور رہنا"۔ مطلب اپنے آپ کو علیحدہ کرلینا، کیوں؟ وجہ کیا ہے، وہ کوئی نہ کوئی آپ کو ایک طرف کھینچے گا، دوسرا آپ کو دوسری طرف کھینچے گا، تیسرا آپ کو تیسری طرف کھینچے گا، درمیان میں آپ کا حشر ہوجائے گا، تو بس پھر اپنے آپ کو بچاؤ۔ ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ "خلوت بہتر ہے برے ہم نشین سے، اور نیک ہم نشین بہتر ہے خلوت میں رہنے سے"۔ سبحان اللہ۔ یعنی سب روایات سے معلوم ہوگیا کہ نہ ہر حالت میں خلوت بہتر ہے، نہ جلوت، بلکہ خلوت برے ہم نشینوں سے بچنے کا واسطہ ہے، اور جلوت اچھی صحبت کے لئے ہے، اور فتنہ کے موقع پر ضعیف لوگوں کے لئے، جو کہ فتنوں پہ قادر نہ ہوں، خلوت بہتر ہے، جیسے کہ ابھی آنے والی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مجھے بہت سارے ساتھی، جو ظاہر ہے، اَلْحَمْدُ للہ، اس راستہ کے سالکین ہوتے ہیں، تو اپنے گھر کے احوال وغیرہ بھی بتاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ بتاتے ہیں کہ اس میں ہم کیا کریں؟ تو ان کو تبلیغ کا شوق ہوتا ہے، اور تبلیغ پھر وہ غلط طریقہ سے، اگر سیکھا ہوتا نہیں ہے، تو پھر لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں، پھر اس سے اس قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، جو بعد میں لَا یَنْحَل بن جاتے ہیں۔ تو ان کو میں کہتا ہوں: ابھی فی الحال تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو، ابھی فی الحال تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو، دوسروں کو فی الحال نہ چھیڑو۔ ان کو میں یہی کہتا ہوں۔ اس کے لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک لفظ استعمال کرتے تھے، "دوسروں کی جوتیوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھری گم نہ کرو"۔ دوسروں کی جوتیوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھری گم نہ کرو، یہ والی بات ہے۔ بعض دفعہ صورتحال ایسی بن جاتی ہے کہ آپ واقعی کسی کو بچانے کی فکر کریں، اور آپ کا ایمان درمیان میں سے چلا جائے گا، کوئی اس قسم کے مسائل پیدا ہوجائیں گے، تو اس وقت پھر ایسے لوگوں کو کہا جائے کہ بھئی فی الحال اپنے آپ کو بچاؤ، یہ ضروری ہے، کیونکہ وجہ کیا ہے، آگے سے بحث شروع کرلیتے ہیں، اور ایسے بحث میں جب انسان عالم نہیں ہوتا، تو خیال نہیں کرتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اور کیا کہنا چاہیے، اس کے متعلق معلوم نہیں ہوتا، تو اپنی طرف سے کوئی بات کہہ جاتا ہے، جس سے پھر نقصان ہوجاتا ہے، تو اس وجہ سے ایسے حضرات کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، فی الحال اپنے آپ کو مستحکم کرو۔
دیکھیں، میں آپ کو ایک بات بتاؤں، جب تک آپ کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے، step نہ اٹھاؤ، step نہ اٹھاؤ، ورنہ لڑکھڑا جاؤ گے۔ شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ، یہ افغان جنگ میں، ما شاء اللہ، وہ فلسطینی تھے، اور انہوں نے اپنی پروفیسری چھوڑی تھی، اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، اور افغان جنگ میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا تھا۔ تو جرمنی تشریف لائے تھے، اس وقت ہم ادھر تھے، تو تقریر کررہے تھے وہاں پر، تو فلسطینی حضرات وہاں پر بھی تھے، انہوں نے سوال کیا، انہوں نے کہا، "آپ افغانستان میں کیا کررہے ہیں؟ آپ کو تو فلسطین میں کام کرنا چاہیے تھا، فلسطین کے کیا وہاں پر مسائل نہیں ہیں کہ آپ افغانستان جاکر ان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں؟" یہ سوال بڑا geniune سوال تھا ان کی طرف سے، لیکن جواب سنیں، جواب میں شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "اَیْنَ بَاکِسْتَان؟ پاکستان کدھر ہے آپ کے ساتھ؟ یعنی فلسطین کے ساتھ پاکستان کدھر ہے، آپ کے پاس جگہ کھڑے ہونے کی نہیں ہے، تو آپ کیسے کام کریں گے، آپ کے پاس rest کی جگہ نہیں ہے، حفاظت کی جگہ نہیں ہے، تو آپ کیسے لڑیں گے؟ دیکھو، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ یہ اس نے کہا: "اَیْنَ بَاکِسْتَان؟ پاکستان کدھر ہے؟ مطلب یہ ہے کہ افغان جنگ اگر لڑی گئی ہے، تو بنیادی طور پر یہی چیز کام آئی ہے کہ ان کو support ملی ہے، جگہ ملی ہے، اس کی بنیاد پر ان کو جو ہے ناں، مطلب یعنی اللہ تعالیٰ نے اتنی فتح عطا فرمائی۔ تو پاکستان کا بہت بڑا ان کے اوپر گویا احسان ہے، اور پاکستان کا احسان بھی نہیں، بلکہ کرنا ہی چاہیے تھا، یہی طریقہ تھا، مطلب ہونا ہی یہی چاہیے تھا۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جب تک آپ کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے، تو آپ کیسے مکا چلا سکتے ہیں کسی کے اوپر؟ آپ ہوا میں ہیں، تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ تو پہلے اپنے آپ کو مضبوط کرو، پھر اس کے بعد آپ دوسری طرف آپ توجہ کرسکتے ہیں، جب تک آپ خود محفوظ نہیں ہیں، تو آپ کسی اور کے لئے کام نہیں کرسکتے، تو یہ جو طریقہ کار ہے ہمارے بزرگوں کا، سلوک طے کرنے کا، وہ اسی لئے ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کرو، یعنی بنیادی بات یہ ہے کہ دیکھو ناں: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾18 اپنے قریبی لوگوں کو ڈراؤ، یہ بات مطلب پہلی۔ وہ ایک دفعہ ایسا ہوا، جماعت کے کچھ ساتھیوں سے ہماری بات چیت ہورہی تھی، گپ شپ ہورہی تھی، میں نے کہا کہ سنا ہے آپ حضرات سے کہ foreign میں تبلیغ کا کام نسبتاً آسان ہوتا ہے اپنے ملک کے مقابلہ میں؟ کہتے ہیں: ٹھیک سنا ہے، یہ بات صحیح ہے، جو باہر جماعتیں جاتی ہیں ناں، ان سے پوچھو، کیوںکہ کھلا میدان ہوتا ہے، آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ تو خیر، بہرحال یہ ہے کہ میں نے کہا: اچھا، پھر پورے ملک کے دوسرے حصوں میں کام کرنا آسان ہوتا ہے، اپنے علاقہ میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ہاں، ٹھیک سنا ہے۔ میں نے کہا: پھر اپنے علاقہ میں دوسری جگہوں پہ آسان ہوتا ہے کام، لیکن اپنے گاؤں میں، اپنے شہر میں کام مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں، "بالکل ٹھیک، صحیح کہتے ہیں آپ"۔ میں نے کہا: پھر اپنے شہر میں کام کرنا آسان ہوتا ہے، اپنے محلے میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے؟ کہتے ہیں: یہ بالکل صحیح کہتے ہیں آپ۔ میں نے کہا: محلے میں کام آسان ہے، گھر کے اندر کام کرنا مشکل ہے۔ کہتے ہیں: بالکل ٹھیک کہا۔ میں نے کہا: اپنے گھر کے اندر کام کرنا، اپنے آپ کو تبلیغ کرنا سب سے مشکل ہے۔ یہاں پر چپ ہوگیا۔ میں نے کہا: یہی میں کہلوانا چاہتا تھا، اس کو تصوف کہتے ہیں، اس کو کیا کہتے ہیں؟ تصوف کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو تبلیغ کرنا، سب سے پہلے کس کو تبلیغ کرو، اپنے آپ کو تبلیغ کرو۔ بھئی پہلے اپنے شیطان کو تو نکالو ناں، جب تک وہ شیطان نہیں نکلا ہوا، تو آپ کے ہر کام میں شیطانیت موجود ہے ناں؟ کیا خیال ہے؟ نہیں ہے موجود؟ موجود ہے۔ تو بس یہ بالکل logical بات ہے۔ اپنے آپ کو بچاؤ، اپنے آپ کو۔ مجھے خود وہ یاد آگیا، وہ جو واقعہ میں اکثر بتایا کرتا ہوں، وہ جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی تھی، اور آواز لگ رہی تھی مسلسل stage سے: "بزرگو اور دوستو! اپنے اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ"۔ اور پانچ منٹ میں مجمع سارا بیٹھ گیا۔ تو میں نے کہا کہ اس نعرہ کی کرامت تھی، کہ وہ اس طریقہ سے، یعنی اگر لوگ دوسروں کو بٹھانا شروع کرلیتے، لوگ دوسروں کو، تو کبھی بھی کوئی نہ بیٹھتا، سب جو ہے ناں مطلب کھڑے ہوتے، لیکن یہ جو فرمایا کہ اپنے اپنے آپ کو بیٹھاؤ، اپنے پر تو انسان کو اختیار ہر وقت حاصل ہوتا ہے ناں، تو کرلے، بس یہی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے، آپ کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
دعا
اعلان: ان شاء اللہ العزیز، آئندہ اتوار نو بجے سے لے کے بارہ بجے تک، یہ خواتین کے جوڑ کا مطلب انعقاد ہوگا، اور چاہیے کہ سب حضرات، مرد حضرات، اس کو اپنی ذمہ داری سمجھیں کہ اپنے گھر والوں کو وقت پر پہنچا دیں، اور بچوں کی حفاظت خود کریں، کیونکہ یہ موقع ایسا ہوتا ہے، جس میں ان کو کچھ سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے، تو وہ یہ ذمہ داری بچوں کی خود لے لیں، اور ان کو اچھی طرح سننے کا موقع دے دیں۔ نو سے لے کے بارہ بجے تک، اور ان شاء اللہ العزیز، جو بھی اس فکر میں کرتا ہے، تو ظاہر ہے، مطلب ہے کہ اگر گھر کی عورتوں کو دین نصیب ہوجائے، تو ما شاء اللہ آپ کے اندر باہر جو ہے ناں وہ دین آجائے گا، ورنہ پھر یہ ہے کہ اگر عورتوں کو اگر دین نہیں ہے، تو آپ کی بزرگی ساری باہر ہے، مطلب اندر جا کے آپ کا کچھ بھی نہیں رہے گا، لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اور اس میں پوری طریقہ سے شرکت کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، دو طریقے سے، خواتین کو جوڑ میں پہنچا کر، اور بچوں کی ذمہ داری خود لے کر۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
۔ (المائدہ: 25)
۔ (الذّٰریّٰت: 56) ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
۔ (الروم: 41) ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔‘‘
۔ (الرحمٰن: 29) ترجمہ: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے۔‘‘
۔ (الرعد: 28) ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
۔ (البقرہ: 3) ترجمہ: ’’جو بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
۔ (النحل: 43) ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘
۔ (الشعراء: 214) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو۔‘‘
۔ (شعب الإيمان للبيهقي، رقم الحدیث: 4639)
۔ (بخاری، رقم الحدیث: 7084)
۔ (بخاری، رقم الحدیث: 19)
۔ (صحیح مسلم: رقم الحدیث: 205)
۔ (لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف، ص: 90)
۔ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ص: 310)
۔ (مشکٰوۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5213)
۔ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ص: 310)
۔ (مشکٰوۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5213)
۔ (مشکٰوۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5213)