علم، عمل اور اخلاص

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد الکوثر - ریلوے جنرل ہسپتال، راولپنڈی

 مسلمان آزاد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کا پابند ہے اور اصل کامیابی دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھ کر زندگی گزارنے میں ہے۔ علم ہونے کے باوجود عمل میں کوتاہی کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات اور شیطان کے وسوسے ہیں جو انسان کو سیدھے راستے سے بھٹکاتے ہیں۔ اس روحانی بیماری کا علاج تین چیزوں پر منحصر ہے: پہلا، دین کے بنیادی اور لازمی علم (فرضِ عین) کا حصول، دوسرا، اس علم پر خلوصِ نیت سے عمل کرنا، اور تیسرا، تصوف کے ذریعے نفس کی اصلاح تاکہ دل سے دنیا کی محبت نکل کر اللہ کی محبت پیدا ہو۔ یہ اصلاح ایک سچے اور باعمل شیخ کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں جس کی صحبت اللہ کی یاد دلائے۔ جو شخص اس راستے پر ثابت قدم رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں کامیابی اور جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ۔ أَمَّا بَعْدُ! فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

﴿يٰۤأَيُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ إِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ1 وَقَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ أَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۝ نَحْنُ أَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ2 وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: "الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الْاٰخِرَةِ"۔ صَدَقَ اللّٰهُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُهُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ۔

معزز خواتین و حضرات! اللہ جل شانہٗ نے ہمیں پیدا فرمایا اور ہمارے لئے زندگی گزارنے کا ایک لائحۂ عمل ہمیں دے دیا، طریقہ کار دے دیا۔ ہم آزاد لوگ نہیں، آزاد لوگ جو ہیں وہ کافر ہیں۔ ہم پابند ہیں اور شریعت کے پابند ہیں۔ اپنی مرضی سے ہم کچھ نہیں کرسکتے؛ نہ اپنی مرضی سے بول سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے سن سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے سو سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے میل جول رکھ سکتے ہیں۔ ہر چیز کے لئے قاعدہ مقرر ہے، تقریر موجود ہے۔

مثلاً، ایک شخص، نماز کا وقت ہو، فرض نماز، کیا اس وقت سو سکتا ہے؟ نہیں سو سکتا، جائز نہیں ہے۔ نماز کا وقت ہے، اس وقت "اَلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" ہے۔ اگر کھانے میں شراب ہو یا خنزیر کا گوشت ہو تو کھا سکتا ہے؟ نہیں کھا سکتا، اجازت نہیں ہے۔ کیا ایسے لوگوں سے ہم مل سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ اور خدا کے رسول کے خلاف کھلم کھلا باتیں کرتے ہیں؟ نہیں! یا جو مذہب پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں، جیسے قادیانی، ان کے ساتھ آزادانہ مل سکتے ہیں؟ نہیں! وجہ کیا ہے؟ کہ ہمیں تو بھیجا گیا ہے ایک خاص کام کے لئے، باقی چیزیں سب اِس سے متعلق ہیں۔ اگر اِس کام میں اس کو فائدہ ہو تو بالکل، اور اگر اس میں اس سے نقصان ہو تو نہیں۔ ہر چیز کے ہم مطلب پوچھیں: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾3 اگر کچھ پتا نہ ہو، پھر ان سے معلوم کرو جن کو پتا ہے۔ طریقہ کار متعین ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو دنیا ہے وہ کافر کے لئے جنت ہے اور مسلمان کے لئے قید خانہ۔ یہی بات اس میں ہے کہ کافر آزاد ہے، اپنی مرضی کرتا ہے، مسلمان آزاد نہیں ہے، اپنی مرضی نہیں کرسکتا۔ اس پہ مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ہم سکول میں پڑھتے تھے، ہمارے جو سکول کا کمرہ تھا، وہ اس کی کھڑکی راستے کی طرف تھی۔ اس وجہ سے ہمیں راستے پہ چلتے ہوئے لوگ نظر آتے۔ بچے جو کھیلتے تھے ریت وغیرہ میں، وہ بھی ہمیں نظر آتے تھے اور ہم ان کو بڑی للچائی نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ دیکھو یہ کتنے آزاد ہیں، یہ کھیل رہے ہیں اور ہم لوگ یہاں پر پڑھ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم باہر نہیں جاسکتے، بچے یہی سوچ سکتے ہیں۔ لیکن جو کھیل رہے تھے ان کو کیا ملا؟ اور جو نہیں کھیل رہے تھے ان کو کیا ملا؟ پتا چل گیا بعد میں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں اگر کسی نے اس کو کھیل کود کا میدان سمجھا، لہو و لعب کا، تو وہ بعد میں روئے گا، بعد میں پریشان ہوگا، اور اگر اس کو آخرت کی کھیتی سمجھے گا کہ میں جو یہاں کررہا ہوں وہ وہاں میرے کام آئے گا، تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ہوگا۔

اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم آزاد نہیں ہیں، ہم پابند ہیں اور جو کچھ بھی کرنا ہے تو شریعت کے مطابق کرنا ہے۔ اس لئے تین چیزیں بڑی ضروری چیزیں ہیں جو بزرگوں نے ہمیں بتائی ہیں۔ ظاہر ہے، اصل میں تو آپ ﷺ نے بتائی ہیں، بزرگوں نے اس کی تشریح کی ہے۔

پہلی بات: علم۔ کیونکہ جب تک انسان کوئی چیز جانے نہیں تو عمل کیسے کرے گا؟ نماز کا طریقہ نہیں معلوم ہوگا تو نماز کیسےپڑھے گا؟ زکوٰۃ کا طریقہ معلوم نہیں ہوگا تو کیسے دے گا؟ حج کا طریقہ معلوم نہیں ہوگا تو حج کیسے کرے گا؟ روزہ کا طریقہ معلوم نہیں تو روزہ کیسے رکھے گا؟ بہت سارے لوگ بعض غلطیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میں روزے کی مثال دیتا ہوں۔ لیکن وہ پوچھتے بھی نہیں، مسائل بھی نہیں پوچھتے ہیں۔ نتیجتاً اپنے خیال میں روزے رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے روزے، روزے نہیں ہوتے۔ وہ کیسے؟ اب دیکھیں، جب اذان دیں ناں، اذان۔ مثال کے طور پر میں کہہ رہا ہوں، ویسے تو مسائل بتانا میرا یہاں کام نہیں ہے۔ اذان اس وقت دی جاسکتی ہے جب وقت داخل ہونے کا یقین ہو۔ جب تک وقت داخل ہونے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک اذان نہیں دی جاسکتی۔ پس اگر فجر کی اذان ہوگئی تو یقین ہوگیا کہ اب دن ہوگیا، اس کے اللہ اکبر کے ساتھ ہی یقین ہوگیا کہ دن ہوگیا، اب دیکھ لیں کتنے سارے لوگ اذان کے دوران کھاتے ہیں۔ کھاتے ہیں یا نہیں کھاتے؟ اور اگر کوئی بتائے تو مانتے بھی نہیں، مانتے بھی نہیں۔

حج پہ ایک دفعہ گئے تھے، ہمارے ساتھ گروپ میں ایک بوڑھا آدمی تھا، شاید پچھتر سال کا ہوگا۔ گیارہ ذی الحج کا دن تھا، اس میں زوال کے وقت کنکریاں مارنی شروع ہوجاتی ہیں، زوال سے۔ اس سے پہلے اگر کوئی کنکریاں مارے تو وہ کنکریاں نہیں شمار کی جاتیں۔ وہ صاحب غائب تھا، پتا نہیں کدھر۔ دس ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ آگیا۔ ہم نے کہا، "بابا جی کدھر تھے؟" کہتے ہیں، "میں کنکریاں مارنے گیا۔" ہم نے کہا، "کنکریاں مارنے کا وقت تو ابھی شروع نہیں ہوا۔" تو اب سن لیں کیا کہتے ہیں۔ کہتے ہیں، "ایک آدمی نے صحیح طریقے سے حج کیا تھا، اس کا حج قبول نہیں ہوا۔ دوسرے نے صحیح طریقے سے حج نہیں کیا تھا، اس کا حج قبول ہوگیا۔" اب بتاؤ، کوئی جواب دیا جاسکتا ہے؟ اب ایسے آدمی کی اصلاح ممکن ہے؟ اب بھائی، اس کو کشف ہوگیا یا اس پہ وحی آگئی، کیا مسئلہ ہوگیا کہ اس کو پتا چل گیا کہ اس کا حج قبول ہوگیا؟ ہم تو صرف شریعت کو دیکھیں گے، کتاب کو دیکھیں گے کہ کون سا کام کس طرح کیا جاتا ہے۔ قبول ہونے نہ ہونے کا تو ولی اللہ کو بھی پتا نہیں ہوتا، وہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہوتا ہے کہ کس کا حج قبول ہوگیا، کس کا حج قبول نہیں ہوا۔ خیر، اس طرح بہت سارے مسائل ہیں جو لوگ جانتے نہیں ہیں، اور جو جانتے ہیں، ان کی مانتے نہیں۔ اس لئے قرآن پاک میں صاف واضح طور پہ آیا: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ4 تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھو۔

تو ایک تو علم ہوگیا۔ دوسرا ہے عمل۔ علم عمل کے لئے ہے۔ علم کی دو قسمیں ہیں، وہ بھی ذرا عرض کرلوں: ایک علم ہے فرضِ عین اور دوسرا علم فرضِ کفایہ ہے۔ فرضِ عین علم سب پر فرض ہے، ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ فلاں پہ ہے، فلاں پہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ علم سب کو حاصل ہونا چاہئے۔ اور فرضِ کفایہ علم یہ کہ جو لوگ اپنی زندگی کو علم کے لئے وقف کردیں اور یہ ذمہ داری اٹھائیں کہ اگر کسی کو ضرورت ہوگی کسی مسئلہ کو جاننے کے لئے، تو ان کو ہم بتائیں گے۔ درس و تدریس وغیرہ کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیتے ہیں، یہ فرضِ کفایہ علم ہے۔ یہ جماعت اگر موجود ہو، تو سب کی مطلب گردن سے اتر جائے گا، لیکن فرضِ عین علم یہ کسی اور کے حاصل کرنے سے نہیں اترے گا گردن سے، وہ ہر شخص کے ذمہ خود فرض ہے۔

اب یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ فرضِ کفایہ کا تو انتظام ہے، مدارس ہیں، لوگ فرضِ کفایہ کا علم حاصل کرتے ہیں، آٹھ سال اس میں لگتے ہیں تقریباً، وہ کرلیتے ہیں۔ فرضِ عین کا کوئی انتظام نہیں ہے آج کل، کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے لوگ، جیسے میں نے بڑے میاں کی بات بتائی آپ کو، یا وہ اذان کے دوران جو کھاتے ہیں، ہاں جی، یہ مسائل اسی وجہ سے ہیں، کیونکہ فرضِ عین علم کا کوئی انتظام ہی نہیں۔ ہمیں پہلے، اَلْحَمْدُ للہ، گاؤں میں جب ہم تھے تو ہماری مسجد میں امام صاحب جو تھے، وہ "خلاصہ کیدانی" پڑھاتے تھے، "منیۃ المصلی" پڑھاتے تھے، "کنز الدقائق" پڑھاتے تھے۔ یہ مسجد کے امام صاحب پڑھاتے تھے تو لوگ پڑھتے تھے، فائدہ ہوتا تھا، مسائل معلوم ہوتے تھے۔ خواتین میں باقاعدہ ایسی کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ ہمارا چونکہ پشتو والا علاقہ ہے تو پشتو زبان میں لکھی ہوئی کتابیں وہ پڑھتی تھیں، اس میں مسائل ہوتے تھے اور وہ سیکھتی تھیں۔ آج کل نہ وہ کتابیں پڑھی جارہی ہیں، آج کل تو ہر ایک کے پاس موبائل ہے، اس سے فارغ نہیں ہے کوئی، اور نہ جو ہے ناں کوئی مساجد میں انتظام ہے کہ لوگ فرضِ عین علم سکھائیں، اور نہ سیکھنے کا شوق ہے۔ مثلاً، کوئی اگر شروع بھی کرلے تو دو تین آدمی سامنے بیٹھے ہوں گے، باقی اپنے ضروری کاموں میں، حالانکہ دس پندرہ منٹ کی بات ہے۔ روزانہ اگر دس پندرہ منٹ دے دیں تو ما شاء اللہ۔ ہمارا اپنا اندازہ ہے، خود ہم نے اپنی خانقاہ میں اس کا انتظام کیا تھا خواتین کے لئے، تو دو مہینے میں، روزانہ دو لیکچروں کے ذریعہ سے مسئلہ حل ہوگیا، دو مہینوں میں پورا ہوگیا۔ اب دو مہینے کتنے زیادہ ہیں؟ ہاں جی، کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن نہ لوگ سننے کے لئے تیار ہیں، نہ لوگ پڑھانے کے لئے تیار ہیں، دونوں طرف معاملہ گڑبڑ ہے۔

تو اس وجہ سے شیطان کی حکومت ہے۔ شیطان جو چاہتا ہے، وہ دلوں کے اندر ڈال لیتا ہے، دماغ کے اندر ڈال لیتا ہے۔ اور پھر اپنے اپنے خیال، بلکہ آج کل تو یہ بہت زیادہ عام ہے: "میرے خیال میں یہ چیز ایسی ہونی چاہئے۔" دین کے اندر بات کریں گے، "میرے خیال میں۔" بھئی! کیا دین تمھارے خیال میں آیا ہوا ہے؟ دین میں کیا خیال چلتا ہے؟ دین میں خیال نہیں چلتا، دین میں اللہ کا حکم چلتا ہے، اللہ کا حکم جو اللہ نے اتارا ہے: ﴿اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا5 میں نے آج کے دن، اللہ پاک فرماتے ہیں، تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا اور تمھارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لئے دینِ اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔ تو دین اب مکمل ہے، نہ اس کے اندر منفی کیا جاسکتا ہے، نہ اس کے اندر جمع کیا جاسکتا ہے۔ جو جمع کیا جائے گا، بدعت ہے، جو منفی کیا جائے گا، الحاد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتا۔ جو اللہ پاک نے دین اتارا ہے، وہی ہوگا۔

دیکھو، ہم پہلے سورۂ بقرۃ، ابتدائی رکوع میں اس چیز کا اعلان کرتے ہیں: ﴿الٓمّٓ ۝ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۝ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَاۤ أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۝ أُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ6 بالکل صاف صاف واضح بات ہے۔

اس وجہ سے سب سے پہلے ہمیں ایک بات طے کرنی چاہئے کہ ہم یہاں پر ایک خاص کام کے لئے آئے ہیں۔ وہ خاص کام بھی میرا اور آپ کا بتایا ہوا نہیں ہے، وہ اللہ پاک کا بتایا ہوا ہے۔ اللہ پاک نے کیا فرمایا؟ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذریت: 56) ’’نہیں پیدا کیا میں نے جنات کو اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لئے‘‘. اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، یعنی اپنا حکم ماننے کے لئے، اللہ کی مرضی کے مطابق چلنے کے لئے۔ جو بھی کام ہے، اللہ بتائے گا، حضور ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچے گا، اور پھر اس کے بعد ہم اس پر عمل کریں گے۔ اس کے علاوہ تیسری بات کوئی نہیں ہے۔ بس: "لَا إِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ"۔

تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو بالکل اسی طریقہ پہ چلنا ہوگا۔ اب اس کے انعامات سن لیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو ہوگا، اس کو کیا ملے گا؟ ابھی میں نے ایک آیت کریمہ پڑھی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ (بے شک جن لوگوں نے کہا رب ہمارے اللہ ہیں)، ﴿ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (پھر اس پر قائم رہے)۔ سبحان اللہ! یہ دو باتیں ہماری طرف سے ہیں۔ کیا ہیں؟ "رب ہمارے اللہ ہیں،" ہم اللہ تعالیٰ کی بات مانیں گے، اللہ سے مانگیں گے، اللہ سے لیں گے، اللہ کی عبادت کریں گے۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾۔ اب یہ بات ہماری طرف سے ہے، اس کے بعد پھر ساری چیزیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ کیا ہیں؟ ﴿تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا (موت کے وقت ان پہ فرشتے اتریں گے، ملاقات کریں گے، کہیں گے کوئی خوف نہ کرو، کوئی غم نہ کرو)، ﴿وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (اور اس جنت کی بشارت حاصل کرو جس کا تمھارے ساتھ وعدہ تھا)۔ ﴿نَحْنُ أَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ(ہم تمھارے ساتھ یہاں بھی تھے دنیا کی زندگی میں)۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ فرشتے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، مختلف کاموں میں ان کے ذریعہ سے ہمارے دلوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ اس دنیا میں بھی تھے ﴿وَفِی الْاٰخِرَةِ اور آخرت میں بھی تمھارے ساتھ جارہے ہیں۔ کیوںکہ فرشتوں کے لئے آخرت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ آسمانوں پہ چڑھتے ہیں، نیچے اترتے ہیں، تو ہم تمھارے ساتھ ہی جارہے ہیں۔ ﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ أَنْفُسُكُمْ (اور اس جنت میں، جس کا تمھارے ساتھ وعدہ ہے، اس میں تمھارے لئے تمھیں ہر وہ چیز دی جائے گی جو تم اپنے دل سے مانگو گے، یعنی جی سے چاہو گے، جس کو ہم من چاہی کہتے ہیں)، ﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ(اور تمھیں ہر وہ چیز ملے گی جو تم منہ سے مانگو گے)۔

یہ دو لفظ دنیا میں موجود ہیں، اس کی حقیقت موجود نہیں ہے۔ وہ کیا ہے؟ من چاہی اور منہ مانگی۔ یہاں منہ مانگی چیز بھی نہیں ہوسکتی، من چاہی چیز بھی نہیں ہوسکتی۔ ٹھیک ہے، محدود درجہ میں آپ کی یہ خواہش پوری ہوجائے گی، لیکن ضروری تو نہیں ہے کہ دوسری خواہش پوری ہوجائے۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

مطلب یہ ہے کہ انسان خواہش کرتا ہے، جو خواہشیں اللہ پاک نے پوری کرنا لکھا ہو، وہ پوری ہوجاتی ہیں، اس کے بعد ارمان رہ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں، جنت میں یہ معاملہ نہیں ہوگا۔ آخرت میں جو اللہ والے ہوں گے، جن پہ اللہ کرم فرمائیں گے، جو چیز مانگیں گے ان کو ملے گی، جو چیز چاہیں گے ان کو دی جائے گی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بارش ہوگی، نعمتوں کی بارش ہوگی اور بار بار پوچھا جائے گا: "اور مانگو، اور مانگو، اور مانگو۔" اب لوگ مانگیں گے، اللہ پاک دیں گے؛ لوگ مانگیں گے، اللہ پاک دیں گے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آجائے گا کہ لوگوں کی سوچ ختم، مطلب کیا مانگیں اور؟ اللہ پاک نے اتنا دیا، اس کے بعد کیا مانگیں؟ اللہ پاک کی طرف سے مطالبہ ہوگا کہ مانگو! علماء سے مشورہ کریں گے (دیکھو وہاں بھی علماء کام آئیں گے، ان شاء اللہ)۔ علماء سے مشورہ کریں گے کیا کریں؟

یہاں تو آج کل علماء پہ اعتراض کرنا سب سے آسان کام ہے۔ اللہ بچائے! میں آپ کو بتاؤں، یہ خطرے کی بات ہے۔ ایک بہت بڑے ولی اللہ ہیں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، انہوں نے فرمایا: جو علماء کے مخالف ہوتے ہیں ناں، تو قبر میں ان کا چہرہ قبلہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ فرمایا، کسی کو شک ہو تو دیکھ لے۔ بہت خطرناک بات ہے علماء کی مخالفت کرنا۔ دیکھو، میں ایک بات عرض کروں، بہت اہم بات عرض کرتا ہوں، اچھا ہوا یاد آگیا درمیان میں۔ عالم جو ہے، صرف علم کا داعی ہے۔ وہ عمل کا داعی نہیں کہ میں عمل کر رہا ہوں۔ وہ کیا ہے؟ میں علم جانتا ہوں۔ اچھا، اب جو علم کی بات کرتا ہے ناں، مثال کے طور پر ایک آدمی فاسق و فاجر ہے، لیکن اس کو نماز کے مسئلے سارے معلوم ہیں۔ وہ آپ کو کہہ دے نماز اس طرح پڑھنی چاہئے اور وہ صحیح طریقہ ہو، تو آپ اس وجہ سے انکار کرسکتے ہیں کہ تو تو فاسق و فاجر ہے، میں تیری بات کیوں مانوں؟ کہہ سکتے ہیں؟ کافر بھی کہہ دے ناں نماز پڑھو، آپ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں کرسکتے۔

وہ چیز ایسی ہے، مجھے خود ایسے ہوا۔ جرمنی میں میں تھا، تو میں نماز پڑھنے کی تیاری کررہا تھا، اتنے میں پروفیسر صاحب آگئے۔ جیسے ہی مجھے نماز کی تیاری کرتے دیکھا تو فوراً رک گئے۔ میں نے کہا، "آیئے سر، بات کرلیتے ہیں۔" کہتے ہیں، "نہیں، پہلے آپ نماز پڑھیے۔" میں نے کہا، "نماز پڑھنے کا میرے پاس کافی ٹائم ہے، میں اس کے بعد پڑھ لوں گا۔" تو آپ کہتے ہیں، "نہیں نہیں،" فوراً سیدھے چلے گئے اور بس، اس کے بعد پھر میں نے نماز پڑھی، پھر اس کے بعد ان سے بات چیت ہوگئی۔ اب دیکھو، وہ کافر تھے لیکن میرے لئے ما شاء اللہ نرم دل رکھتے تھے، مطلب میرے کاموں کے لئے، نماز کے لئے نرم دل۔ لہٰذا مجھے فائدہ ہوا۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ اگر کافر بھی کہہ دے ناں، تو اس سے انکار نہیں کرسکتے ہم اگر صحیح بات ہو۔ تو علم کا تعلق علم کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی صحیح علم جانتا ہے اور آپ کو مسئلہ صحیح بتاتا ہے، تو یہ نہ دیکھو کہ وہ خود عمل نہیں کرتا۔

میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں دوسری۔ پشاور میں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، specialist تھے، medical specialist۔ ایک آدمی اپنے علاج کے لئے، heart problem کے لئے گیا تھا، اس کو اس نے کہا کہ smoking نہ کیا کریں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب خود سگریٹ پی رہے تھے۔ اس نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحب، آپ خود تو سگریٹ پی رہے ہیں۔" تو وہ بڑے منہ پھٹ قسم کے ڈاکٹر تھے۔ کہتے ہیں، "I want to die with this, do you also?" (میں اس کے ساتھ مرنا چاہتا ہوں، کیا تم بھی کرنا چاہتے ہو؟) اگر مرنا چاہتے ہو تو مر جاؤ گے۔ مطلب یہ ہے کہ میں خود اپنے عمل کا ذمہ دار ہوں۔ مجھے جو نقصان ہوگا، فائدہ ہوگا، وہ مجھے ہوگا ناں، تمھیں تو صحیح بات بتا رہا ہوں ناں، تم تو میرے پاس علاج کے لئے آئے ہو۔ عمل ڈاکٹر صاحب کا نہیں تھا، بات ڈاکٹر صاحب کی صحیح تھی۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم اگر خود عمل نہیں کررہا، لیکن آپ کو صحیح بات بتا رہا ہے، آپ کو عمل کرنا چاہئے۔ آپ کو فائدہ ہوگا، بے شک وہ عمل نہیں کرتا، اس کو نقصان ہورہا ہے۔ شیخ جو ہوتا ہے، اللہ والے جو راستہ بتاتے ہیں عمل کا، اس میں عمل کو دیکھو گے، اس میں علم کو نہیں دیکھو گے۔ بس اس کا عمل اگر علمِ صحیح کے مطابق ہے، تو یہ کافی ہے۔ اس سے آپ بخاری شریف نہیں پڑھیں گے، اس سے آپ مشکوٰۃ شریف نہیں سنیں گے، اس سے آپ فقہ کا درس نہیں لیں گے، اس آپ صرف اور صرف اپنی اصلاح کے لئے جائیں گے۔

یہ غلطی جانبین کو ہے، دونوں طرف غلطی ہے۔ بہت سارے لوگ مشائخ سے مسئلے پوچھتے ہیں، فتوے پوچھتے ہیں، غلط کرتے ہیں۔ اور علماء سے گمان کرتے ہیں کہ یہ ولی اللہ ہیں، غلط کرتے ہیں۔ ولی اللہ بھی ہیں، عام لوگ بھی ہیں۔ جس طرح عام لوگوں میں بھی اولیاء اللہ بھی ہیں اور عام لوگ بھی ہیں۔ تو دیکھو، جس کا جو کام ہے، اس سے وہ کام لو، تمھارا فائدہ ہوجائے گا۔ تو علماء کو عالم سمجھتے ہوئے ان کی مخالفت کرنا یہ علم کی مخالفت ہے اور اپنے آپ کو بہت سخت نقصان دینے والی بات ہے۔ اس سے بہت زیادہ بچنا چاہئے۔

ہاں جی، تو خیر، میں عرض کررہا تھا کہ علم کے بعد پھر عمل ہے۔ اب عمل کرنا ہے اور بہت ضروری ہے عمل کرنا، کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ اب دیکھیں، میرا خیال ہے کہ جو مسلمان ہو اور جس نے کلمہ پڑھا ہے، وہ جنت میں جانا چاہے گا۔ کیوں نہیں جائے گا؟ کوئی ایسا مسلمان ہوگا جو جنت میں جانا نہیں چاہے گا؟ سارے مسلمان جنت میں جانا چاہیں گے۔ بطورِ مسلمان علم کے لحاظ سے اتنی بات سب کو پتا ہے کہ جنت میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان شریعت پر عمل کرلے۔ جو آپ ﷺ نے کرنے کو بتایا، اس کو کرے، جس سے منع فرمایا، اس سے منع ہو۔ ہاں جی، تو یہ اوامر و نواہی جس کو ہم شریعت کہتے ہیں، اس کی پابندی ضروری ہے۔ سارے مسلمان۔۔۔۔۔ ہر مسلمان جانتا ہے نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، زکوٰۃ فرض ہے، حج فرض ہے، معاملات درست رکھنے چاہئیں، یہ سب چیزیں معلوم ہیں ہر مسلمان کو۔ جھوٹ بولنا حرام ہے، شرک کرنا جرم ہے، ظلم ہے اپنے اوپر۔ اس طرح اور بہت ساری چیزیں سب کو معلوم ہیں۔ اتنی لاعلمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی جھوٹ بھی بولتے ہیں، ہیں وہ مسلمان، دھوکہ بھی کرتے ہیں، ظلم بھی کرتے ہیں، بے نمازی بھی ہیں، روزے بھی نہیں رکھتے۔ کیا ان کو علم نہیں ہے؟ علم ان کو ہے، لیکن عمل نہیں ہے۔

اب یہ علم ہے اور عمل نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ آسان سا سوال ہے۔ علم ہے لیکن عمل نہیں ہے، تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے ساتھ دو بڑے مسئلے ہیں۔ ہر مسلمان کے ساتھ، ہر کافر کے ساتھ دو بڑے مسئلے ہیں: ایک شیطان ہے اور دوسرا نفس ہے ہمارا۔ ہمارا نفس جو ہے، وہ کیا کرتا ہے؟ وہ جو ہے ناں، وہ بیوقوف ہے، پرلے درجے کا بیوقوف ہے۔ وہ اپنا خیر اور شر نہیں دیکھتا، اپنے مزے کو دیکھتا ہے، اپنے مزے کے شر کو پورا کرنا چاہتا ہے اور وہ خیر اور شر کو نہیں دیکھتا، نہیں جانتا۔ جیسے بچہ ہوتا ہے، وہ کہتا ہے والدہ کو کہتا ہے: ice cream، اور ڈاکٹر نے ice cream روکی ہے اور وہ رو رہا ہے جی مجھے ice cream دے دو۔ بس اسی طرح نفس کا حال ہے۔ اور جو شیطان ہے، وہ اس نفس کی جو خواہش ہے، اس کو جال بنا کر وسوسہ ڈالتا ہے۔ بس یہ دونوں کی ملی بھگت ہے۔ نتیجتاً انسان دودھ میں پانی بھی ڈالتا ہے، جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکہ بھی دیتا ہے، گالیاں بھی دیتا ہے، بے نمازی بھی ہوتا ہے۔ یہ سب ان دو چیزوں کی وجہ سے ہیں۔

اب اگر آپ کو کوئی ان دو چیزوں کو، یعنی مطلب شیطان سے بچنے کا اور نفس کی اصلاح کرنے کا طریقہ بتا دے، اور آپ اَلْحَمْدُ للہ یہ دو گھاٹیاں عبور کرلیں کہ آپ جو ہے ناں نفس مطلب یعنی آپ کا مہذب ہوجائے اور شیطان کی بات آپ نہ مانیں، سبحان اللہ! آپ پکے مسلمان ہوجائیں گے، اللہ کے ولی بن جائیں گے۔ وہی انسان ہے اللہ کا ولی، کیونکہ دونوں چیزیں ولایت کے لئے ہیں؛ ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۝ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ7 ’’آگاہ ہوجاؤ، جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ صرف دو باتیں: وہ ایمان رکھتے ہوں گے اور تقویٰ اختیار کیا ہوگا۔ بس یہ دو باتیں ہیں۔ اب ان دو باتوں پہ کوئی آگیا، اللہ کا ولی ہے۔ تو اب یہ اللہ کا ولی بننے کے لئے صرف نفس کی اصلاح ہے، ایمان تو پہلے سے موجود ہے، ایمان تو پہلے سے موجود ہے۔ صرف نفس کی اصلاح ہے ناں۔ تو اس نفس کی اصلاح کے لئے جو طریقۂ کار ہے، اس کو ہم عرف عام میں تصوف کہتے ہیں۔ بے شک تصوف کو کوئی اور چیز کہہ دیں، ان کے ساتھ ہم نہیں ہیں، ہم تو اس کو کہتے ہیں، ہم تو تصوف کس چیز کو کہتے ہیں؟ جو تصوف حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ یہی تصوف ہے، اس کے علاوہ کوئی اور تصوف ہو، مجھے بتا دیں۔ جو سزا چور کی ہے، وہ سزا میری۔ صرف یہی تصوف ہے، اس کے علاوہ اور کوئی تصوف نہیں ہے۔ لوگوں نے تصوف کے ساتھ پتا نہیں کتنی چیزوں کو ملایا ہوا ہے۔ اپنی طرف سے ملانے سے کیا مطلب وہ چیز بدل جائے گی؟

تو بس اتنی ہی بات ہے۔ اگر کوئی اس بات کو جانتا ہے کہ تصوف یہ ہے، میں نے اس پر بیان کیا ہے صرف بیس منٹ جرمنی میں عربوں کے سامنے، سارے عربوں نے کہا: "اگر یہ تصوف ہے تو ہم صوفی ہیں۔" میں نے کہا: "سبحان اللہ" بس یہی بات ہے۔ انہوں نے بیس منٹ میں یہ بات۔۔۔ ابھی میری تقریر شاید آدھے گھنٹے سے تو زیادہ ہوگئی، میرے خیال میں آپ پھر بھی حجت پوری ہوگئی۔ ہاں جی، آپ کو سمجھ میں تو بات آگئی ہے ناں؟ تو تصوف صرف یہی ہے، اس سے زیادہ ہم تصوف کسی چیز کو نہیں مانتے۔

باقی ذرائع ہیں۔ جیسے آپ نماز پڑھتے ہیں تو اصل مقصد تو نماز پڑھنا ہے، وضو بھی کرتے ہیں، کپڑے بھی پاک رکھتے ہیں، جسم بھی پاک رکھتے ہیں، وہ ساری چیزیں اس کی شرائط ہیں۔ اسی طریقے سے اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہم، مثال کے طور پر نفس کے لئے، مجاہدہ ہے، ذکر ہے، یہ مطلب جس کو کہتے ہیں، وہ مراقبہ ہے، یہ سب ذرائع ہیں، یہ مقاصد نہیں ہیں، یہ ذرائع ہیں۔ اور وہ مشائخ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق ذریعہ بتاتے ہیں۔ ہر شخص کو ایک چیز نہیں بتاتے۔ جیسے ایک ڈاکٹر صاحب ہر بیمار کو ایک دوائی نہیں دیتے، جس بیمار کے لئے جو دوائی ضروری ہو، وہی دوائی بتاتے ہیں، وہی پرہیز بتاتے ہیں۔ اسی طریقے سے ہر مریض کا علاج اپنا ہے، ہر سالک کا علاج اپنا ہے۔ اگر کوئی شیخ یہ نہیں جانتا تو میں اس کو شیخ نہیں مانتا۔ اگر کوئی شیخ یہ نہیں جانتا ہر مریض کا علاج مختلف ہے، وہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہو، تو میں اس کو شیخ نہیں مانتا۔ اور جو اس کو تصوف نہیں جانتا، میں اس کے تصوف کو پھر تصوف نہیں مانتا۔

صحیح ہے بات سمجھ میں آگئی ناں؟ بس یہی بات ہے۔ اگر ہم اس پر ما شاء اللہ سمجھ لیں، تو اپنے لئے کچھ نہ کچھ انتظام کرلیجئے گا، اپنے لئے کچھ انتظام کر لیجئے گا۔ ہاں، ذرا میں تھوڑا سا عرض کردیتا ہوں کہ کسی کے پاس جانا ہو اس مقصد کے لئے، کیونکہ بغیر صحیح شیخ کے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ faulty meter سے صحیح reading نہیں آسکتی۔ لہٰذا صحیح شیخ ہوگا تو اس سے علاج ہوگا۔ تو اس کے لئے میں آپ کو ان کی نشانیاں بتاتا ہوں:

پہلی نشانی، (No. 01)، اس کا جس کو کہتے ہیں ناں، عقیدہ صحیح ہو۔

نمبر 02، علم اس کو حاصل ہو، فرضِ عین درجہ کا کم از کم۔

نمبر 03، اس پر عمل ہو۔ (تین باتیں ہوگئیں)

نمبر 04، کہ مطلب جو سلسلہ ہے اس کی صحبت کا، وہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ (چار باتیں ہوگئیں)

پانچویں، کسی نے ان کو اجازت دی ہو جو پہلے سے صاحبِ اجازت ہو کہ آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔ (پانچ باتیں ہوگئیں)

چھٹی بات یہ کہ ان کی reputation اچھی ہو، علماء اور صلحاء سمجھتے ہوں کہ یہ صحیح آدمی ہے۔ (چھ باتیں ہوگئیں)

ساتویں بات ہے، مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔ اگر کسی ڈاکٹر کے پاس آپ چلے جائیں، آپ کو چائے پلا دے اور رخصت کرلے، تو آپ اس کو اچھا ڈاکٹر کہیں گے؟ آپ کہیں گے میرا وقت ضائع کردیا۔ بھئی مروت نہیں، علاج! اگر کسی کا injection سے علاج ہے، بے شک وہ بچہ رو رہا ہے، لگانا پڑے گا۔ operation علاج ہے تو operation کرنا پڑے گا۔ اسی طریقے سے شیخ بھی، اگر کسی کو سختی کی ضرورت ہے، سختی کرنی پڑے گی، نرمی کی ضرورت ہے، نرمی کرنی پڑے گی۔ ہر چیز کے لئے اپنا اپنا موقع ہے۔ تو مروت نہیں، علاج۔ (سات ہوگئیں)

آٹھویں، وہ اللہ کی طرف سے چیز عطا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر اللہ یاد آتا ہے اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہے۔ جہاں آپ کی دنیا کی محبت بڑھ جائے، وہ دنیادار ہے؛ جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھ جائے، وہ اللہ والا ہے۔

سمجھ میں آگئی ناں بات؟ بس اتنی سی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔



  1. ۔ (النحل: 43) ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘

    نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

  2. ۔ (النحل: 43) ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘

  3. ۔ (المائدہ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا‘‘۔

  4. ۔ (البقرۃ: 1-5)

  5. ۔ (یونس: 62-63) ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔‘‘

  6. ۔ (البقرہ: 208)

  7. ۔ (فصلت: 30-31)

علم، عمل اور اخلاص - جمعہ بیان