ماہِ صفر میں توہمات کی حقیقت، موجودہ سیلاب کی تباہ کاری کی وجوہات اور انکا تدارک

آیات از سورۃ یس 19، سورۃ توبہ 37، احادیث از خطبات الاحکام، چالیسواں خطبہ، ماہ صفر کے بارے میں

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا اور دیگر توہمات، جیسے بدشگونی لینا، اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔  اس قسم کے عقائد کی جڑ دنیا کی محبت اور نقصان کا خوف ہے، جن کا علاج صرف اللہ پر کامل بھروسہ (توکل) ہے۔  موجودہ دور کی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے کسی مہینے کی نحوست کی وجہ سے نہیں، بلکہ معاشرے میں عام ہو جانے والے تین بڑے گناہوں—جھوٹ، سود اور رشوت—کا نتیجہ ہیں۔ لہٰذا، ان مصیبتوں سے بچنے کا واحد راستہ ان گناہوں سے سچی توبہ کرنا، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ صرف اسی طرح اللہ کی رحمت حاصل کی جا سکتی ہے اور آفات کو ٹالا جا سکتا ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّٖنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قَالُوْا طَآئِرُكُمْ مَّعَكُمْؕ اَئِنْ ذُكِّرْتُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ1

اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةُ فِی الْكُفْرِ2

نَفٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الشُّوْمَ وَ الطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّ بِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَ أَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّ غُمُوْمًا، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:

''لَا عَدْوٰى وَ لا طِيَرَةَ وَ لَا هَامَّةَ وَّ لَا صَفَرَ''۔ 3

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: ''یَتَشَاءَمُوْنَ بِدُخُوْلِ صَفَرَ''۔ فَقَالَ النَبِیُّ ﷺ:

''لَا صَفَرَ''۔ 4

وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ:

''الطِّیَرَۃُ شِرْكُٗ [قَالَهٗ ثَلٰثاً]، وَ قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: مَا مِنَّا إِلَّا وَلٰکِنَّ اللهَ یُذْھِبُهٗ بِالتَّوَکُّلِ''۔ 5وَ عُلِمَ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ وَسْوَسَةَ الطِّیَرَۃِ إِذَا لَمْ یَعْتَقِدْھَا بِالْقَلْبِ وَ لَمْ یَعْمَلْ بِمُقْتَضَاھَا بِالْجَوَارِحِ وَ لَمْ یَتَکَلَّمْ بِھَا بِاللِّسَانِ لَا یُؤَاخَذُ عَلَیْھَا، وَ ھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ بِالتَّوَکُّلِ۔ وَ مَا رُوِیَ أَنَّهٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ قَالَ:

''الشُّؤْمُ فِي المَرْأَةِ وَ الدَّارِ وَ الْفَرَسِ'' 6

فَھُوَ عَلٰی سَبِیْلِ الْفَرْضِ لِمَا قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ:

''وَ إِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِيْ شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ وَ الْمَرْأَةِ وَ الدَّارِ''۔ 7

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! ماہ صفر شروع ہوچکا ہے ایک ہوتا ہے دین جو کہ اوپر سے آتا ہے، پیغمبر کے ذریعہ سے پہنچتا ہے امتیوں پر اور ایک جو لوگ دین کے اندر خود باتیں شامل کرتے ہیں۔ ایک لفظ ہے قانون ہاتھ میں لینا بری بات سمجھی جاتی ہے، ٹھیک ہے کہ قانون ہاتھ میں لینا اچھی بات نہیں ہے ورنہ فساد فی الارض شروع ہوجاتا ہے تو اگر اس کو دیکھا جائے تو شریعت کو ہاتھ میں لینا یہ کتنا خطرناک ہوگا، کیونکہ شریعت تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے تو اس کو کوئی ہاتھ میں لے سکتا ہے؟ یعنی اللہ پاک پر کوئی بہتان باندھ سکتا ہے کہ اللہ نے یہ کہا اور اللہ نے ایسا نہیں کہا، آپ ﷺ نے ایسا کہا اور آپ ﷺ نے ایسا نہیں کہا ہو یہ بہت خطرناک باتیں ہیں اگر تھوڑا سا اس پہ غور کیا جائے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ماحول سے ادھر ادھر سے آجاتی ہیں اور کچھ لوگ خوش عقیدگی میں ان کو مان لیتے ہیں، اب وہ خوش عقیدہ لوگ بظاہر اگر دیندار نظر آتے ہوں تو اس سے وہ چیز دینداروں میں پھیلنے لگتی ہے اور یہ مسئلہ اس طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اب دیکھیں! اس وقت ہم پاکستان میں ہیں لیکن ایک وقت میں یہ پاکستان ہندوستان بھارت اور بنگلہ دیش یہ ایک ملک تھا، ہندوؤں کے ساتھ ہم رہتے تھے اور ہندو ہمارے ساتھ رہتے تھے ہندو مذہب جو ہے یہ توہم پرستی کا مذہب ہے،یاد رکھئیے! انسان اپنی دنیا کے معاملہ میں بڑا محتاط ہوتا ہے تو جس طریقہ سے اپنی دنیا کی چیزوں کو بہتر کرنے کے لئے اور اپنے آپ کو دنیا کے نقصان سے بچانے کے لئے یہ ہندو جو تھے وہ مسلمانوں کی بعض باتیں مانتے تھے مثلاً مسجد بالخصوص مغرب کے وقت جب نمازی باہر آتے تھے تو راستے میں ہندو عورتیں لائن میں کھڑی ہوتی تھیں اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ان سے درخواست کرتیں کہ آپ ان کو دم کرتے جائیں، اب ظاہر ہے ان کو پتا تھا کہ یہ تو مسلمان ہیں یہ تو ہمارے مذہب پہ نہیں ہیں، لیکن دنیا کے لئے وہ سب کچھ مانتے تھے تو وہ ایسا کرتے تھے، اسی طریقہ سے مسلمانوں نے ان کی توہم پرستی کی بعض چیزیں اپنی دنیا کے لئے قبول کرلیں اگر انہوں نے کہا کہ او ہو اگر کوئی باہر نکل گیا اس کے پیچھے کسی عورت نے جھاڑو ماری گھر میں تو بس اس کی خیر نہیں ہے، اب چونکہ ڈر بیٹھ گیا اب کوئی جرات ہی نہیں کررہا کہ۔۔۔ بلکہ عورتوں کی لڑائیاں ہوئی ہیں اس پر مثلاً نئی بہو آئی ہوئی ہے اس کو پتا نہیں ہے گھر کے ماحول کا اور شوہر اس کا باہر چلا گیا ہے اور اس نے پیچھے جھاڑو مار دیا یا سر دھویا ہوا ہے تو بس اس کی شامت آگئی، اس کی ساس وغیرہ لڑ پڑتی کہ میرے بیٹے کا تو نے یہ خیال کیا؟ اور یہ میں سنی سنائی باتیں نہیں کررہا ہوں کچھ باتیں دیکھا دیکھی بھی ہیں کہ ایسا کرتے ہیں لوگ، میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں مثلاً کوئی مکان بنا رہا ہے اور اگر آپ نے اس معمار اور اس مالک مکان کے درمیان لڑائی کرنی ہو تو اس کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس مکان کے قریب سے گزر کر اس کو ذرا غور سے دیکھیں اور پھر زیر لب اس طرح کہیں جو اس کو سن لے یہ دیوار تو ٹیڑھی نظر آرہی ہے، بس پھر دیکھیں ان کے درمیان میں کیا مسئلہ ہوتا ہے وہ ہزاروں "ساہل" دکھائے گا یہ ایسا ہے ایسا ہے ایسا ہے اس کو تسلی نہیں ہوگی، اس کے دل میں شک بیٹھ گیا لڑائی ہوگئی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملہ میں لوگ بڑے touchy ہیں یہ توہم پرستی کی بنیاد دنیا کی محبت ہے، دنیا کی محبت ختم ہوجائے توہم پرستی ختم ہوجائے گی تو کیونکہ دنیا کی محبت کی وجہ سے لوگ اس کو یہ نہیں دیکھتے کہ یہ اوپر سے آیا ہے یا نہیں آیا، وہ دیکھتے ہیں کہ نقصان کا اندیشہ ہے یا نہیں ہے وہ سنی سنائی باتوں پر بھی یقین کرلیتے ہیں، بہت بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں متھ کہلاتی ہیں یعنی مشہور ہوتی ہیں عوام میں وہ بے شک ڈاکٹر بھی کہہ دے کہ نہیں یہ چیز ایسی نہیں ہے، نہیں مانتے لوگ ہاں جی وہ کہتے ہیں نہیں یہ تو دیکھو فلاں کے ساتھ یہ ہوگیا پوری ایک story تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی جو محبت ہے یہ توہم پرستی کی جڑ ہے اور ویسے بھی حدیث شریف میں ہے

’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘8 تو یہ بھی ایک خَطِيئَةٍ ہے لہٰذا یہ بھی دنیا کی محبت سے ہے، تو جو صفر کا مہینہ ہے اس میں بھی توہمات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں، بہت زیادہ توہمات پائی جاتی ہیں اس میں کہتے ہیں بلائیں نازل ہوتی ہیں ان بلاؤں کو دفع کے لئے فلاں فلاں سورتیں پڑھیں، ہاں جی اب یہ تقدس کو ساتھ شامل کرلیا ہاں جی مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ہیں جو دیندار لوگ ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں فلاں فلاں سورتیں پڑھیں کس نے کہا ہے؟ لوگ کہتے ہیں ہاں جی کوئی بات نہیں لوگ کہتے ہیں بس، سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں لوگ تو بہت کچھ کہتے ہیں بھائی اس مسئلہ میں کتاب کی دلیل چاہئے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ تصوف کے ایک مسئلہ میں کوئی فقہ کی بات آگئی تو حضرت نے فرمایا میری رگِ فاروقی اس مسئلہ میں پھڑک جاتی ہے، مجھے اس معاملہ میں امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا قول چاہئے، مجھے جنید و شبلی کا قول نہیں چاہئے یہاں تک کہہ دیا مطلب ظاہر ہے جب دین کا معاملہ آگیا پھر اس کے جو اساطین ہیں انہی سے لیں گے، دین اپنی طرف سے ہم باتیں تو نہیں بنا سکتے تو یہ بہت ساری چیزیں۔۔۔۔ مثال کے طور پر بعض لوگ کہتے ہیں جی اگر جانور اڑے تو اس سے پھر بدشگونی لیتے ہیں، کہ یہ ہوگیا یا بلی اگر سامنے آجائے کوئی جاتا ہے باہر اور بلی سامنے آجائے تو بس واپس، یہ سفر میرے لئے خطرناک ہے ہاں جی اور یہ الو اس کو بھی نحوست کی علامت سمجھا جاتا تھا یا جاتا ہوگا، ابھی تو الو بولنا اس کا مطلب ہے ویرانہ ہوجائے گا بیماری آئے گی قحط آئے گا ہاں جی اب اس کے لئے پھر کرتے رہو تو یہ بالکل غلط باتیں ہیں، بے تحقیق باتیں ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اسی طریقہ سے یہ جو تعدیہ ہے یعنی مرض کا دوسرے کو لگنا اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے، اصل میں ہوتا کیا ہے؟ جس شخص کے اندر immunity کم ہوجاتی ہے، اس کو کوئی بھی بیماری جلدی لگ سکتی ہے اور immunity خوف اور توہم سے کم ہوجاتی ہے، خود بخود یہ نظام ہے اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ڈاکٹروں سے پوچھیں وہم سے یعنی تجربے کیے گئے ہیں تجربے کیے گئے ہیں ڈاکٹروں نے تجربے کیے مثلاً ایک شخص کو سوئی چبھو دی سانپ دکھا کر، ہاں جی تو وہ خوف کے مارے بے ہوش ہوگیا اور ساتھ ہی ان کے لئے پھر وہ اور انجیکشن تیار ہوتا تھا وہ distilled water کا ہاں جی کہتے ہیں vaccine کا injection لگا دیا آپ کو بس اب ٹھیک ہوجائیں گے، پھر ٹھیک ہوجاتا یہ کیا چیز ہے اور سانپ نے ڈسا ہے اور کہا کیا اوہ یہ تو مینڈک ہے مطلب پیر کے اوپر جو ہے الٹ ہوگیا تو بس پھر وہ rest باقی، تو یہ مطلب یہ چیزیں ہیں کہتے ہیں بہت کم سانپ ہیں جو اتنے زہریلے ہیں جس سے موت واقع ہوتی ہے زیادہ تر ایسے نہیں ہیں لیکن اگر سانپ کے بارے میں پتا چلے کہ یہ سانپ نے کاٹا ہے مجھے تو بس پھر اس کے بعد immunity یکدم گر جاتی ہے، اس کا ایک واقعہ میں نے خود پڑھا ہے ایک نانبائی نے یہ واقعہ بتایا تھا کہ دودھ میں بیچتا تھا ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کا جو اخیر آنے لگا تو وہ کافی زرد سا تھا، میں نے کہا دودھ کا رنگ زرد کیسے ہوگیا؟ کیا مسئلہ ہے جب تھوڑا سا اور چلا گیا تو پتا چلا کہ سانپ اس میں مرا ہوا پڑا ہے، وہ میں تو ڈر گیا میں نے کہا کہ یا اللہ میں نے بہت سارے لوگوں کو دودھ دے دیا ہے پتا نہیں ان کا کیا حال ہوگا؟ بہت گھبرایا لیکن ڈر کے مارے کہا بھی نہیں اب صبح سویرے میں آیا ہوں تو میں نے کہا کہ پتا نہیں کیا حال ہوگا لوگ میری دکان پر احتجاج کرنے کے لئے آئے ہوں گے، لیکن کوئی نہیں آیا اب میرا پرانا گاہک ایک آگیا جو صحیح سلامت تھا میں نے کہا شکر ہے ماشاء اللہ یا تو اس نے پیا نہیں ہے یا بچ گیا، تو کہتے کہ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کل جو دودھ آپ لے گئے تھے پیا تھا؟ کہتے ہیں ہاں کیسے پایا کہتے ہیں بڑے مزے کی نیند آئی ہاں جی اس نے کہا شکر اَلْحَمْدُ للہ کہ بچ گیا تو پھر اس نے کہہ دیا کہ وہ تو اس طرح بات تھی ،بس سننا تھا گر گیا گر گیا اور مر گیا اور پھر جب اس کا post-mortem ہوگیا تو پتا چلا کہ سانپ کے کاٹے سے مرا ہے یعنی زہر موجود تھا جب تک زہر موجود تھا جب تک اس کا immunity برقرار تھی، زہر نہیں چل رہا تھا آگے اور جس وقت وہ down ہوگیا تو بس پھر اس نے اثر کردیا تو مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں proven چیزیں ہیں تو وہم اور ڈر اور خوف جس کو ہم terror کہتے ہیں یہ انسان کی immunity کو بہت زیادہ گرا دیتی ہے، terror کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو terror ہوجائے ناں مثال کے طور پر دشمن آجائے تو بعض لوگ بالکل ان کے پیر ہی کام نہیں کرتے چل نہیں سکتے، بھاگ نہیں سکتے ا یسا ہوتا ہے مطلب بھاگ نہیں سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ساری چیزیں کیا ہیں آپس میں interrelated ہیں تو اس کے بارے میں احادیث شریفہ ہم سن لیں اب، فرمایا آپ ﷺ نے یہ بدفالی شرک ہے اس کو تین مرتبہ فرمایا

''الطِّیَرَۃُ شِرْكُٗ‘‘ 9

ترجمہ :’’بدفالی شرک ہے‘‘۔

بدفالی میں آپ اللہ کے نظام کے ساتھ ایک اور نظام کو شریک کرلیتے ہیں ہاں جی تو ظاہر ہے وہ شرک ہے، یہ بہت سارے بڑے لیڈر جو ہوتے ہیں ناں بڑے لیڈر تو بڑے لیڈر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بڑا عقلمند بھی ہو یہ limited چیزیں ہیں، تو بعض لوگ باقاعدہ زائچے بنواتے ہیں جانے سے پہلے کسی جوتش سے زائچے یہ ہندو تو کرتے ہی ہیں بعض مسلمان بھی ذرا جو توہم پرست ہوتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں، تو وہ زائچے بناتے ہیں کہ میں سفر کروں یا نہ کروں یہ میرے لئے ٹھیک رہے گا یا نہیں رہے گا، اس وقت جو ہمارے سیاسی حالات ہیں وہ تو ان چیزوں سے بہت متاثر ہیں ہاں جی پتا نہیں کتنی مرغیاں ذبح کی جارہی ہیں، جلائی جارہی ہیں اور حالات کو درست کرنے کے لئے یہ ساری چیزیں مطلب چل رہی ہیں تو یہ بدفالیاں ہیں اور یہ شرک ہے۔ یہ بعض باتیں تو ایسی عجیب ہوتی ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ہمارے پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں وہاں مردان اور سوات کا علاقہ جو بنیر ہے وہاں پر، تو وہاں ان کے ایک خلیفہ ہیں دیوانہ بابا خلیفہ ہے ناں دیوانہ بابا خلیفہ ہے تو ظاہر ہے بھئی خلیفہ اور اپنے پیر میں کوئی مقابلہ ہوگا؟َ ظاہر ہے اس میں تو نہیں ہوگا لیکن لوگوں نے بڑی عجیب باتیں مشہور کی ہیں تو پشتو کا ایک ٹپا ہے پیره بابا پهٔ ډانګ ئې وله تا نه تیریږی دیوانه بابا له ځی یعنی پیر بابا اس کو گرا دو کیونکہ تجھ سے گزر رہا ہے اور جو ہے دیوانہ بابا کے پاس جارہا ہے بھئی یہ نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ جو اولیاء اللہ تھے یہ کوئی عام انسانوں کی طرح لڑنے وڑے والے لوگ تھے آپس میں ان چیزوں پہ؟َ یہ تو آپس میں محبت کرنے والے لوگ تھے اور ان سے ان کا کیا ہوتا ہے اگر کوئی ان کے پاس نہیں جاتا تو ان کا کیا کم ہوتا ہے؟ ان کو اللہ پاک نے بہت کچھ دیا ہے وہ آپ کی چیزوں کے محتاج ہی نہیں ہیں، بلکہ ایک عالم نے بڑی اچھی بات کی کہ تم جو پھولوں کی چادر اس پہ چڑھاتے ہو تو یہ پھول اس دنیا کے ہیں اور اگر وہ اللہ کا بخشا ہوا ہے تو جنت کی چیزیں ان کو مل رہی ہوں گی تو جنت کی چیزوں کے مقابلہ میں یہ چیزیں ان کے سامنے کرنا ایسا ہے جیسا کہ بہت اچھی خوشبودار scent کے ساتھ آپ ایک بہت بدبودار چیز ملا دیں آپ خوش ہوجائیں کہ مطلب یہ ہے، تو یہ باتیں لوگوں میں ہیں اللہ پاک ہماری حفاظت فرما دے یہ شرک ہیں اس سے انسان کو بچنا چاہئے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جس کو خیال نہ آتا ہو لیکن اس کو توکل کے ذریعہ سے بھگا دیتے ہیں، خیال آنا کوئی مسئلہ نہیں ہے غیر اختیاری چیز پر اللہ کی گرفت نہیں ہے ہاں جی غیر اختیاری چیز پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہیں ہے لیکن اگر وہ اختیاری میں آجائے اس کا effect ایسا ہوجائے کہ وہ کوئی اختیاری عمل اس سے متاثر ہوجائے تو بس پھر شامت آجاتی ہے، تو اس کو اپنے اختیار میں نہیں لانا تو یہ توکل کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس وقت ہم ختم کردیتے ہیں اس کو کچھ نہیں ہوتا اور ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ جو بات مشہور ہو اس کا خیال دل پر آ ہی جاتا ہے لیکن خیال بے شک آجائے لیکن اس کو دل میں جمانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ توکل کو اپنے دل پر غالب کرنا چاہئے تو دفع ہوجائے گا، یہ اصل میں ابھی میں نے اس بیان سے شروع کرنے سے پہلے ایک آیت کریمہ تلاوت کی تھی

﴿قَالُوْا طَآىٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ-اَىٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ 10

ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ جو رسول اصحاب قریہ کی طرف بھیجے گئے تھے انہوں نے کفار سے فرمایا تمھاری نحوست تو تمھارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے کیا نحوست اس کو سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاتی ہے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے ہو قرآن پاک کی آیت ہے

﴿قَالُوْا طَآىٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ-اَىٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ11

تو اصل میں ہوتا یہ تھا کہ جس وقت پیغمبر آتے اور دعوت دیتے تو ان کی دعوت کو کچھ لوگ مانتے اور کچھ لوگ نہیں مانتے تھے، تو مثلاً ایک بھائی نے مان لیا ایک نے نہیں مانا بیوی نے مان لیا شوہر نے نہیں مانا شوہر نے مانا بیوی نے نہیں مانا باپ نے مانا بیٹے نے نہیں مانا یہی چیز تو ہوتی تھی تو مطلب گھر کے اندر تفریق تو ہوجاتی، تو وہ لوگ کہتے کہ ہم ٹھیک ٹھاک بھلے اچھی طرح کام کررہے تھے تم لوگ درمیان میں نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ آکے ہمارے درمیان تفریق ڈالی نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ تم منحوس ہو تو وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے تمھاری نحوست تو تمھارے ساتھ لگی ہوئی ہے یعنی پیغمبروں کی زبان سے، کیا نحوست اس کو سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاتی ہے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے ہو ایک بات یاد رکھنا چاہئے کہ اکثریت پر فیصلہ نہیں ہے یہ جمہوری نظام نہیں ہے دین جمہوریت پر مبنی نہیں ہے، دین اصل بنیاد پر مبنی ہوتا ہے اور وہ قرآن و سنت ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک وقت میں بالکل اکیلے تھے بالکل اکیلے تھے کہ ان کو اکابر صحابہ بھی کہتے کہ اس وقت یہ وقت نہیں ہے اور آپ ذرا خیال رکھیں مطلب ہاتھ ہولا رکھیں، مطلب اس قسم کی باتیں ہوتی تھیں ہاں جی لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ پاک نے اتنا بڑا حوصلہ عطا فرمایا تھا کہ ایک عجیب بات فرمائی، فرمایا کہ اگر مدینہ منورہ کے کوچوں میں امھات المؤمنین ظاہر ہے ان میں ان کی بیٹی بھی شامل تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو کتے کھینچنے لگیں پھر بھی میں یہ لشکر بھیجوں گا اس حد تک مطلب استقامت تو وہ بالکل اکیلے تھے لیکن پھر سب کو بات سمجھ میں آگئی تو پھر سب ساتھ کھڑے ہوگئے کیونکہ مشورہ سب دے سکتے ہیں لیکن فیصلہ امیر کا چلتا ہے، یہ بھی قانون بن گیا ناں مشورہ سب کے ساتھ ہوتا ہے لیکن فیصلہ کون کرتا ہے امیر کرتا ہے امیر کے شرح صدر پہ بات چلتی ہے تو امیر چونکہ وہی تھے لہٰذا فیصلہ وہی ہوا وہی چیزیں چلیں، اس کے بعد ایک موقع پہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ رحم کرے ان کی برکت سے ہمارے ایمان محفوظ ہوگئے، ان کی برکت سے ہمارے ایمان محفوظ ہوگئے یہ بات ہے تو اس وجہ سے ہم لوگ اس کو نہیں دیکھیں گے کہ زیادہ لوگ کس چیز کی طرف ہیں عموماً گمراہی پھیلتی ہے اس طریقہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کچھ باتیں یہ چلی آتی ہیں اس میں

﴿مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ 12

ترجمہ :’’جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے‘‘۔

تو آباؤ اجداد کو پانا کوئی دلیل نہیں ہے، آباؤ اجداد کو پانا کسی چیز پر دلیل نہیں ہے دلیل کیا ہے پیغمبر نے کیا کہا ہے، اللہ تعالیٰ نے کیا کہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبر نے کیا کہا ہے صحابہ کرام سے جب کوئی سوال کہتا تو اکثر جواب دیتے و اللہ و رسول اعلم مطلب جو ہے ناں وہ یعنی اللہ جانتے ہیں زیادہ اور رسول جانتے ہیں یعنی ہم لوگ زیادہ نہیں جانتے،

آمَنّا وَصَدّقْنَا ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کرلی سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٘ ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا یہ باتیں تھیں تو اس وجہ سے دین کی حفاظت اس مسئلہ میں ہے کہ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٘ ہو سَمِعْنَا لوگوں کا سَمِعْنَا نہیں ہے اللہ پاک کی بات اور رسول کی بات کا سَمِعْنَا مطلب جب ہم نے سن لیا بس مان لیا اب دیکھو ناں یہ آیت کریمہ میں نے پڑھی ناں اور احادیث شریفہ بھی پڑھ لیں، اب ہمارا کام کیا ہونا چاہئے سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٘ بس ہم نے مان لیا اور اب ہم صفر میں کچھ نہیں سمجھیں گے ہاں ہم کہیں گے چونکہ اللہ پاک سے مطلب ظاہر ہے جو کام بھی آپ ﷺ نے فرمایا جو چیز وہ اللہ کی طرف سے تھی تو بس اللہ کی طرف سے جب یہ بات آگئی آپ ﷺ کے ذریعہ سے تو بس وہ ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا اب ہم دوسری بات نہیں کریں گے، ورنہ پھر کیا ہے اگر ہم نے درمیان میں اپنی عقل لڑانے کی کوشش کی! تو ہماری عقل اللہ کرے کہ عقلِ ایمانی بن جائے پھر تو مسئلہ نہیں ہوگا لیکن یہ عقلِ نفسانی ہے نفس سے متاثر ہے، اس کو نفس جو کہتا ہے اسی طریقہ سے وہ سوچتا ہے یہ ڈاکو جو ہوتا ہے ڈاکو کیا عقلمند نہیں ہوتا؟ اس کے پاس بھی ذہن ہوتا ہے ناں ہاں جی یہ بڑے بڑے لوگوں کو نقصان پہنچانے والے corruption والے کوئی کم عقلمند ہوتے ہیں ایسے طریقے corruption کے ڈھونڈ لیتے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے اچھا اس میں یہ بات بھی یہ کام بھی ہوسکتا تھا ہاں جی تو یہ یا وہ اپنی عقل کو کہاں استعمال کررہے ہیں برائی کے لئے استعمال کررہے ہیں یعنی عقل نفسانی ہے، جب یہ عقل ایمانی بن جائے پھر یہ اچھائی کے لئے استعمال ہوگی اس کے لئے بڑی محنت کی ضرورت ہے، تو خیر بہرحال بات لمبی ہوئی میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ صفر جو ہے اس کو منحوس نہ سمجھا جائے یہ عام مہینہ ہے جیسے باقی مہینے ہیں اس طرح یہ مہینہ بھی ہے اس میں کوئی نحوست نہیں ہے اس میں کوئی بلائیں صفر کے مہینے کی وجہ سے نہیں اترتیں، اگر اتر رہی ہیں تو اعمال کی وجہ سے اتریں گی وہ محرم میں بھی اتر سکتی ہیں، ہاں جی وہ کوئی اچھے سے اچھے مہینے میں بھی اتر سکتی ہیں اگر ہمارے اعمال خراب ہوں تو اعمال کی وجہ سے جو بری چیزیں بلائیں وغیرہ اتر رہی ہیں ان کو اعمال کو صحیح کرنے کے ذریعہ سے دور کیا جاسکتا ہے، اب دیکھیں زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے اگر قحط آجائے تو قحط ذکر کرنے سے دور نہیں ہوگا وہ کس چیز سے دور ہوگا زکوٰۃ ادا کرنے سے دور ہوگا، زنا کی وجہ سے جو مصیبت آئے گی تو وہ دعاؤں سے دور نہیں ہوگی وہ کس چیز سے دور ہوگی ان چیزوں کے رکنے سے دور ہوگی یہ اصل میں یہ بنیادی بات ہے جس کو ہم لوگ نہیں سمجھ پاتے، بلکہ یہ بات اس حد تک بڑھ گئی ہے میں آپ کو کیا کہوں مثلاً کوئی رشوت خور ہے اب اس کی ساری دولت رشوت کی وجہ سے ہے تو شیطان اس کو کیا سکھاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ خیراتیں کرو صدقات دو مال پاک ہوجائے گا، سور کے گوشت کو خیرات کرکے پاک کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے وہ نجس ہے اس کو آپ جتنا بھی دھو لیں جتنا بھی پکائیں جتنا بھی اس کے اندر وہ ڈالیں مطلب وہ پاک نہیں ہوگا، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اس پہ پڑھیں گے تو خطرہ ہے کہ ایمان نہ چلا جائے، ہاں جی تو جب یہ سلسلہ ہے تو یہ چیزیں کس طریقہ سے دور ہوں گی ان چیزوں کو دور کرنے سے دور ہوں گی اس وقت یہ سیلاب جو آیا ہوا ہے 2010 میں بھی سیلاب آیا تھا بہت زیادہ سیلاب آیا تھا، وہ واقعات بھی ہمیں یاد ہیں اور 2008 میں زلزلہ آیا تھا بہت خطرناک زلزلہ آیا تھا وہ واقعات بھی ہمیں یاد ہیں، اس میں بھی باوجود اس کے کہ اللہ پاک کا عذاب آیا تھا لیکن ایسی صورت میں بھی بعض لوگ اتنے۔۔۔۔ کہتے ہیں عذاب اصل میں یہ ہوتا ہے ناں کہ انسان حق بات کو سمجھے ہی ناں یہ سخت عذاب ہوتا ہے، تو اس وقت شیطان نے کیا کیا یعنی خود واقعات شاید آپ لوگوں کو بھی یاد ہوں کہ بعض لوگ جن کے علاقے بالکل ان میں شگاف پڑ گئے تھے اور مطلب یہ ہے کہ وہ تباہی آئی ہوئی تھی تو نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ وہ کھل کے کہتے کہ اللہ پاک نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اور کفریہ باتیں کرنے لگے، اب بجائے اس کے کہ توبہ استغفار کرتے تو اس قسم کی باتیں کرنے لگے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو کہ اس وقت بھی لوٹ رہے تھے لوگوں کو جو ان کی دکان میں شگاف پڑ رہے تھے، دھنس رہے تھے ہاں جی تو بجائے اس کے کہ ان کی مدد کرتے ان کی دکان لوٹ رہے تھے اور پھر وہ خود بھی غرق ہوجاتے ہاں جی یہ چیزیں حتیٰ کہ جو لوگ ان کے ساتھ خیرخواہی کرکے سامان لے جاتے تھے ان کے پاس مدد کے لئے وہ ان کو راستہ میں لوٹ لیتے تھے وہی لوگ اور ہنستے تھے کھل کھلا کے ہنستے تھے، یہ سخت دلی ہوتی ہے شقاوت اور قساوت بہت خطرناک چیز ہے، تو یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ اس وقت ڈرنے کی باتیں ہیں، خبریں سننے کی باتیں نہیں ہیں وہ بعض لوگ خبریں سنتے ہیں اور discuss کرتے ہیں فلاں جگہ یہ ہوگیا فلاں جگہ یہ ہوگیا فلاں جگہ اس کا آپ کے اوپر اثر کیا ہوا دیکھو اثر کو دیکھو! آیا آپ نے اپنی غلط باتوں سے توبہ کرلی؟ اچھا پھر بعض لوگ شیطان اس طرح کہتا ہے کہ دیکھو ناں اسلام آباد میں تو زیادہ گناہ ہورہے ہیں تو وہ فلاں جگہ جو ہے وہ تباہ ہوئی، آپ کو کیا پتا اسلام آباد کیا اگلے دن میں بچتا ہے کہ نہیں بچتا آپ کو کیا پتا یہ تو نمبر لگانے والی بات ہے پتا نہیں کس کا نمبر کس وقت ہوتا ہے، یہ کوئی مطلب ان کے لئے clearance چٹ تو نہیں آگیا ناں کہ اسلام آباد محفوظ رہے گا اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی فیصلہ کیا ہے اور اس میں تھوڑا سا تاخیر ہے تو تاخیر کے بعد پھر وہ پھر تو موقع نہیں ملے گا تو اس سے بچنا چاہئے ہمیں ہمیں ڈرنا چاہئے توبہ کرنا چاہئے، تو خیر قرآن اور حدیث میں غور کرنے سے، بزرگوں کے اقوال میں غور کرنے سے جو بات سامنے آئی ہے اس وقت تین باتیں ایسی ہیں جو کہ اس کے لئے ذریعہ بن رہی ہیں ان چیزوں کی۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے اللہ تعالیٰ کا قانون جو ہے وہ اللہ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے تکوینی قانون کی بات کررہا ہوں، تشریعی قانون تو لوگ بھی ان کو بھی علم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ بھیجا جاتا ہے ساتھ علم، لیکن تکوینی قانون کا بھیجا جانا ضروری نہیں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھلکی دکھائی گئی تکوینی قانون کی جھلکی، کس کو پیغمبر کو ہاں جی پیغمبر کو ایک جھلکی دکھائی گئی کہ تین مواقع ایسے ہوئے جس پہ برداشت ختم، تو پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے یہ کیوں ایسا ہوگیا تو خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں کہا تھا؟ کہ تو میرے ساتھ نہیں چل سکتے ہو اخیر میں انہوں نے کہا اب آپ بالکل ٹھیک ہیں آپ صحیح کہتے ہیں تو اس کے بعد انہوں نے ان تینوں کی وجوہات بتائیں، یہ واقعہ جب آپ ﷺ نے فرمایا تو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بھی نکلا کاش موسیٰ علیہ السلام کچھ اور صبر کرتے تو کچھ اور باتوں کا بھی پتا چل جاتا اب دیکھو کون کہہ رہا ہےَ؟ کاش اگر موسیٰ علیہ السلام کچھ اور صبر فرماتے تو کچھ اور باتوں کا بھی پتا چل جاتا، تو تکوینی قانون کا کھولنا یہ اللہ پاک ہی بس اپنے پاس رکھے ہوئے ہے اور ان لوگوں کو پتا ہوتا ہے جو اس کے لئے استعمال ہورہے ہوتے ہیں جن کو اصحاب خدمت کہتے ہیں، ہم جیسے لوگ ہم ایک کام کرسکتے ہیں اور وہ اللہ کے سامنے رو کر دعائیں کرسکتے ہیں، معافی مانگ سکتے ہیں یہی ہمارا کام ہے ایک بزرگ ہیں انہوں نے اپنی کتاب لکھی ہے حیدرآباد کے تنویر احمد خان صاحب ان کو ذرا یہ تکوینی امور کا تھوڑا سا وہ تھا، کتاب لکھی ہے اس میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ منیٰ میں ایک دفعہ سیلاب آیا تھا بہت زیادہ، بہت سارے حاجی اس میں بہہ گئے تھے سامان بہت سارا نہیں sorry سیلاب نہیں سیلاب تو اب بھی آیا تھا یہ واقعہ آگ والا ہے آگ لگی تھی آگ لگی سیلاب والا واقعہ دوسرا ہے آگ لگی تھی تو تنویر احمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مجذوب تھے اور بڑے جلال میں ہاتھ اس طرح کھڑا کیا تھا جس طرف ہاتھ کرتے اس طرف آگ چلی جاتی، جس طرف ہاتھ کرلیتے اس طرف آگ چلی جاتی یہ تو اس مجذوب کا تھا معاملہ اپنے خیمے میں مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے وہ اس میں شامل تھے یعنی حج میں تو رو رہے ہیں رو رہے ہیں یا اللہ معاف کردے یا اللہ معاف کردے یا اللہ معاف کردے یا اللہ معاف کردے مسلسل رو رہے ہیں تو کہتے ہیں اس مجذوب نے چیخ کر کہا فقیر محمد! چپ ہوجاؤ میں نے سب کو جلانا ہے، مجھے یہی حکم ہے ہاں جی مطلب چیخ کے کہا کہ خاموش ہوجاؤ لیکن مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ خاموش نہیں ہورہے تھے، لائنیں الگ الگ تھیں سمجھ میں آگئی ناں بات یہی فرق ہے موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام والی بات خضر علیہ السلام کی لائن الگ موسیٰ علیہ السلام کی لائن الگ دونوں اللہ پاک کے حکم کے تابع ہیں، موسیٰ علیہ السلام اصحابِ شریعت میں سے ہیں اور حضرت خضر علیہ السلام اصحابِ تکوین میں سے ہیں یہاں پر وہ مجذوب اصحابِ تکوین میں سے تھے مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اصحاب شریعت میں سے تھے، اب اصحابِ شریعت تو قرآن اور حدیث کے ظاہری حکم کے مطابق رو سکتے تھے، گڑگڑا سکتے تھے یا اللہ پاک سے دعا کرسکتے تھے اور وہی کررہے تھے تو حکم تو اللہ کا تھا جلاؤ اس مجذوب کے اس الفاظ سے پتا چلتا ہے لیکن مولانا فقیر محمد صاحب اس اللہ سے مانگ رہے تھے کہ معاف کردے ٹھیک ہے ناں تو کہتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد اس مجذوب کا ہاتھ گر گیا ہاں جی اور چپ ہوگیا اور پھر آگ جو ہے ناں وہ پہاڑ کی طرف چلی گئی اور وہیں پر بجھ گئی، بس فیصلہ ہوگیا کام یہی چیز آتی ہے جو مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، تو مجذوبوں کے پیچھے کیا بھاگو گے ان کو تو حکم جو ہوتا ہے وہی کرتا ہے، وہ تو دوسرا کام نہیں فرشتوں کو آپ کتنی منتیں کرو گے تو مان لیں گے فرشتے کسی کی بات مانتے ہیں؟ فرشتے کسی کی بات نہیں مانتے تو وہ صرف اللہ کی بات مانتے ہیں، تو یہ بات ہے کہ ان کو اللہ پاک اجازت دے دے تو وہ پھر ٹھیک ہے تو اس طرح وہ مجذوب جو تھے وہ بھی اصل میں اسی طریقہ سے تھے اب لوگ مجذوب کی اس ظاہری صورت کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید ان سے ہم کہیں گے تو یہ معاف کردے گا، بھئی خدا کے بندے وہ اپنی بات نہیں کررہا ہے اس لئے حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بھئی مجذوبوں کے پیچھے نہ بھاگو وہاں کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو علماء اور مشائخ ان کے پاس رہو علماء آپ کو صحیح مسئلہ بتائیں گے مشائخ آپ کی تربیت کریں گے، صحیح بات بتائیں گے وہ کام آئے گا وہ مجذوب جو ہوگا وہ تو مجذوب تو مجذوب حکم کا تابع ہے اس کو تو جو حکم ہے اس کے مطابق وہ کرے گا تو اس وجہ سے ہم بھی اس وقت اس بات کے مکلف ہیں کہ رجوع الی اللہ کریں، توبہ کریں اور یہی ضروری ہے اب جو تین باتیں میں نے بتائیں پہلی بات کیا تھی کہ جس کی وجہ سے مطلب یہ ہورہا ہے ایک جھوٹ ہے بہت زیادہ عام ہوگیا ہے جھوٹ، اس وقت جھوٹ نے باقاعدہ ایک آرٹ کی شکل اختیار کیا ہے ایک فن ہے اور اس فن پر باقاعدہ فخر کیا جاتا ہے میں جب اخبار میں پڑھتا ہوں ناں تو کہتے ہیں سوشل میڈیا میں بڑی طاقت ہے اصل میں وہ کہتے ہیں جھوٹ میں بڑی طاقت ہے جو اس پہ فخر کرتے ہیں وہ اصل میں جھوٹ پہ فخر کرتے ہیں، سوشل میڈیا کا کام کیا ہوتا ہے وہ چیز کو ایسا دکھانا کہ اس سے وہ نتیجہ برآمد ہوجائے جو وہ چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے کتنا جھوٹا نظام بنایا گیا ہو میں آپ کو بتاؤں اس وقت بڑی techniques چل رہے ہیں بڑے techniques چل رہے ہیں اس technique کو آج کل کیا کہتے ہیں بیانیہ script ہاں جی وہ باقاعدہ اس کا وہ ہے پوری terminology ہے تو script جو ہوتا ہے وہ design کیا جاتا ہے لوگوں کے تمام ذہنوں کو حالات کو پڑھ کر script design کیا جاتا ہے کہ یہ بات کرو گے پھر ہزاروں سوشل میڈیا کے channels ہوں گے ان سب کو بیانیہ پہنچے گا اس بیانیہ کے مطابق وہ اپنا اپنا جھوٹ design کریں گے اور وہ floatکریں گے float یہ لفظ میرے خیال میں اس کے لئے بالکل مناسب ہے وہ floatکریں گے اس کو ماحول میں، تو کیا ہوتا ہے لوگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں کہتے ہیں تین ٹھگ تھے انہوں نے تہیہ کرلیا کہ اس آدمی کے پاس بکری ہے اس سے ہم نے لینی ہے planning کرلی وہ آدمی جارہا تھا بکری کو کان سے پکڑ کرلے جارہا تھا اتنے میں ایک technical آیا، اوہ یہ کتے کو کہاں لے جارہا ہے اس نے کہا دماغ تیرا ٹھیک ہے کہتے ہیں کیوں؟َ کہتے ہیں یہ کتا ہے اچھا کتا نہیں ہے چلو ٹھیک ہے یوں سہی جاؤ چلا گیا بھڑبھڑایا کہ بھئی یہ عجیب آدمی ہے بکری کو کتا کہہ رہا ہے تھوڑی دور جاکر پھر ایک ٹھگ نکل آیا بھلے مانس! کتے کے گلے میں تو پٹا ڈالا جاتا ہے یہ کیا کررہے ہو؟ کان سے پکڑ کے لے جارہے ہو کوئی طریقہ سیکھو وہ کہتا ہے یار تم عجیب آدمی ہو تمھیں کیا لگے کتا ہے کس طرح کتا ہے یہ تو بکری ہے تو انہوں نے کہا اچھا آپ کو بکری نظر آتی ہے چلو ٹھیک ہے ٹھیک ہے صحیح ہے لے جائیں، اب تھوڑی دیر کے بعد پھر جو ہے ناں تیسرا نکل آیا اس نے کہا بھئی صاحب یہ مطلب آخر یہ کیا ارادہ ہے اس کتے کے ساتھ آپ کا کیا پروگرام ہے کیا ترتیب ہے کیا کرنا چاہتے ہو تو خیر وہ تو چلا گیا بات کرتے ہوئے مطلب اس نے کچھ باقاعدہ اس کو کہا بھی نہیں لیکن اس طرح بڑبڑا کے نکل گیا، یہ سوچنے لگا کہ پتا نہیں میرے دماغ کو کچھ اثر ہوا ہے یا کیا ہوا ہے کہ میں کتے کو بکری سمجھا ہوں تو اس نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا تھوڑا سا آگے گیا تو ایک ٹھگ اس میں جو قریب ترین تھا اس نے پکڑ لیا اور لے گئے، بس یہ سوشل میڈیا ہے آج کل اس وقت سوشل میڈیا یہی چیز ہے وہ چیزوں کو ایسے design کریں گے ایسا flood کریں گے مختلف channels سے، مختلف angles سے مختلف طریقوں سے کہ آپ کا دماغ out ہوجائے گا آپ کہیں گے یہ سارا سچ ہے اتنے سارے لوگ جو کہتے ہیں پہلے میں نے بات کی تھی دیکھو ناں تھوڑی دیر پہلے بھئی یہ جمہوریت والی بات نہیں ہے حق اور باطل کا مسئلہ جمہوریت کا نہیں ہوتا، زیادہ لوگ جس طرف ہوں تو ضروری نہیں کہ وہ ٹھیک ہو آپ نے حق کو حق کے طور پہ سمجھنا ہے اس کی بنیاد کی وجہ سے، reference کی وجہ سے صحت کی وجہ سے آپ اس کو دیکھیں گے اس کو نہیں کہ کتنے لوگ یہ کہہ رہے ہیں مجھے بتاؤ اس وقت ٪84 لوگ کافر ہیں declared کافر ٪84 ٪16 مسلمان declared ہیں ان میں اصل میں کتنے مسلمان ہیں یہ تو اللہ کو پتا ہے لیکن ٪16 لوگوں کو مسلمان سمجھا جاتا ہے، تو اکثریت کن کی ہے کافروں کی تو کیا کفر مان لو گے نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ جمہوریت پہ فیصلہ ہے ہی نہیں فیصلہ تو حق پر ہے، بعض پیغمبر تشریف لائے اور انہوں نے ابھی دعوت بھی نہیں دی کہ قتل کردیئے گئے تو پیغمبر تھے پھر بھی اور جنہوں نے شہید کرلیا وہ قاتل تھے ان پہ وبال آجاتا تو مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں نے یہ نہیں دیکھنا تھوڑے کون سے ہیں اور زیادہ کون سے ہیں، ہم نے دیکھنا ہے حق پر کون سے ہیں اور باطل پر کون سے ہیں ہم نے صرف اس کو دیکھنا ہے تو جھوٹ جو ہے اس وقت بہت عام ہوچکا ہے اس وقت پھونک پھونک کے چلنا ہے، دیکھو دجال جو ہوگا اس کے پاس یہ ساری کی ساری چیزیں ہوں گی اور اس وقت جو ہورہا ہے یہ دجالیت کا ایک مظاہرہ ہورہا ہے کسی کو یقین نہیں آتا تھا تو اب یقین آنا چاہئے کہ دجالیت کس کو کہتے ہیں کس طرح دجال فریب کرے گا، یہ مطلب یہ مظاہرہ ہے ان تمام چیزوں کا نظر آتا ہے کہ لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں اور متاثر ہوں گے دجال سے جس کے ماتھے پہ کافر لکھا ہوگا پھر بھی لوگ اس کی طرف جائیں گے اب صورتحال دیکھیں! کیا ہورہا ہے اور کیا نظر آرہا ہے اور پھر بھی لوگ ان کی طرف جارہے ہیں اب بتاؤ کیا وہ چیز ہے یا نہیں ہے بدبختی کی باتیں ہیں بدبختی کی باتیں ہیں تو یہ جھوٹ جو ہے بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے دوسری بات سود ہے سود کو لوگوں نے حق سمجھا ہوا ہے اصل میں بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں بھی سود کے بارے میں جو بات آئی ہے ناں تو اس انداز میں آئی ہے کہ سود والے تجارت اور سود کو ایک جیسا سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ پاک نے سود کو حرام قرار دیا اور تجارت کو حلال کردیا ہے، ایسا ہوتا ہے بعض دوسرے دلائل نہیں دیئے ہیں اللہ کے حکم کے لحاظ سے فرمایا کہ اللہ پاک نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تجارت کو حلال کردیا ہے اصل حکمت اس کے اندر کیا ہے وہ نہیں بتائی پھر ایک output کا نتیجہ بھی بتایا ہے

﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ 13

ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔

یہ نہیں بتایا کہ کس لئے ہے کس طرح یہ نہیں بتایا لیکن یہ بات ضرور ہے کہ

﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ 14

اب اگر کسی کو سمجھ نہیں آیا تو مارے جاتے ہیں اب میں آپ کو صرف ایک واقعہ سناتا ہوں جو خود میں دیکھ چکا ہوں یعنی جس میں کسی اور کی بات نہیں ہے خود ہماری نظروں کے سامنے ہوا ہے، ہمارے ایک teacher تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے فوت ہوگئے ہیں اس نے مکان بنایا G-9 میں G-9 میں مکان بنایا یہ 82-1981 کی باتیں ہیں، مکان بنایا پانچ لاکھ کا اس وقت بن گیا تھا دس مرلے کا مکان double-storey آج کل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہاں جی تو وہ بنایا انہوں نے ہمارے کھانے کی دعوت کی اس خوشی میں ہم گئے تھے دوپہر کا کھانا ادھر کھایا، واپس ہم جارہے تھے گاڑی میں وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ایک ساتھی نے کہا پوچھا کہ آپ کو کیا مطلب جو ہے کہ محسوس ہوا مکان جو بنایا یعنی آپ اپنی feelings کیا سمجھتے ہیں؟ تو اس نے جھٹ سے کہا کہ بنا تو لیا نہ بناتا تو اچھا تھا حیرت سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں لوگ تو بڑے خوش ہوتے ہیں اس پر اور آپ نے بھی اس خوشی میں ہماری دعوت کی تھی تو اب کہتے ہیں کہ نہ بناتا تو اچھا تھا، کہتے ہیں دیکھو ناں اگر یہ پانچ لاکھ روپے میں بینک میں رکھ دیتا fix deposit میں تو مجھے چھ ہزار روپے per month اس پر ملتے اور پانچ لاکھ روپے میرے پڑے رہتے ہاں جی اس وقت اگر میں مکان کرایہ پر دوں تو بارہ سو روپے سے زیادہ پہ نہیں جاتا بارہ سو روپے per month تو مجھے نقصان ہورہا ہے، یہ اس کی سوچ تھی یہ اس کی سوچ تھی اب ذرا حقیقت کو دیکھو اس وقت اس مکان کی کیا قیمت ہوگی جو G-9 میں ہے دس مرلے کا مکان double story بنا ہوا تھا اس کی قیمت کیا ہوگیَ؟ ہاں جی میں نہیں جانتا کیونکہ میں property dealer نہیں ہوں، لوگ مجھے کہتے ہیں کہ پانچ کروڑ روپے کا ہوگا ہاں زیادہ کم ہے لیکن لوگ جو کہتے ہیں وہ چلو پانچ کروڑ کرلو میں تو کہتا ہوں دو کروڑ مان لو کیا فرق پڑتا ہے مطلب تو ایک چیز کو ثابت کرنا ہے تو پانچ لاکھ منفی کرلو پانچ کروڑ سے تو چار کروڑ پچانوے لاکھ تو خسارہ ہوتا اس کو کس میں property میں اور اس وقت اس کا کرایہ کتنا ہوگا اگر وہ کرایہ پہ کوئی دیتا ہے تو وہ اس مکان کا کرایہ کتنا ہوگا ہاں جی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوگا، تو ایک لاکھ سے چھ ہزار منفی کرو چرانوے ہزار اس میں نقصان تو بتاؤ سود میں اس کو فائدہ تھا یا نقصان تھا سمجھ میں آگئی ناں بات یہی تو اللہ پاک فرماتے ہیں

﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا اور وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ 15

آپ کو بتاؤں جنید جمشید کو تو آپ سب لوگ جانتے ہیں ناں اس کا کاروبار بڑا tough جارہا تھا بڑا tough جارہا تھا نہیں چل رہا تھا، مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم سے کسی طرح ملاقات ہوگئی ان کے partner بھی تھے ان سے درخواست کی حضرت کچھ بتائیں یہ ہمارا کاروبار بڑا tough جارہا ہے تبلیغی جماعت کے ساتھ چونکہ آگیا تھا ناں تو علماء کرام کے ساتھ ملاقاتیں تو پھر ہوتی تھیں، تو حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ شریک کرلو اس میں کاروبار میں کچھ حصہ مقرر کرلو اللہ کے لئے کہ میں یہ دوں گا مستقل جب جو نفع ہوگا اس میں سے اتنا حصہ مثلاً ٪20 یا ٪10 جو بھی ہے وہ میں اللہ کے راستہ میں دوں گا انہوں نے کہا ٹھیک ہے اس کے بعد کاروبار ایسا چمکا کہ حضرت فوت ہوگئے لیکن اس کا کاروبار ابھی تک اسی طرح زوروں پہ چل رہا ہے، یہ ہے بات اس وجہ سے یہ بات ہمیں سمجھنی چاہئے کہ اللہ نے جو کہا ہوتا ہے وہی حق ہوتا ہے جو ہم سمجھتے ہیں سوچتے ہیں وہ بڑی کمزور بات ہوتی ہے، وہ ہمارے صرف مشاہدہ کی بات ہوتی ہے اور ہمارا مشاہدہ ضروری نہیں کہ صحیح بات بھی ہم تک پہنچا رہا ہے، ایمان بہت بڑی طاقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ ایمان کی دولت نصیب فرمائے ان کو اپنا مشاہدہ ہیچ نظر آنے لگتا ہے، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کا بیٹا فوت ہوگیا غمگین تھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا بیٹا جنت میں دکھا دے گا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اب مجھے اس کے دیکھنے کی خواہش نہیں ہے مجھے آپ کی زبان پر اپنی آنکھوں سے زیادہ یقین ہے مجھے آپ کی زبان پر میری اپنی آنکھوں سے زیادہ یقین ہے یہ ہے ایمان، ہاجرہ بی بی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو ابراہیم علیہ السلام چھوڑ رہے ہیں لق و دق صحرا ہے کچھ بھی نہیں بس توشہ دے دیا بچہ infant ساتھ ہے بیٹھا دیا اور خود اونٹ سے اترے بھی نہیں اور روانہ ہوگئے روانہ ہوگئے، تو بی بی پوچھ رہی ہے آپ کدھر ہمیں چھوڑ کے جارہے ہو؟ کیا مسئلہ ہے تو جواب کی اجازت نہیں تھی خود ہی ان کو خیال آیا کہ یہ تو پیغمبر ہے اور پیغمبر کوئی بات بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ کیا اللہ پاک نے ایسا کرنے کو فرمایا ہےَ؟ تو اشارہ سے ایسا کہا کہ ہاں بس یہ سننا تھا یہ سننا تھا کہ اس پر جو ہے ناں فرمایا اب آپ بے شک چلے جائیں جس اللہ نے یہ بات کی ہے وہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا وہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور پھر اللہ نے کیسے دیا اس کے ایمان کی برکت سے اللہ نے ہمیں مستقل طور پر زم زم کا پانی دیا ہے جو ابھی تک ماشاء اللہ چل رہا ہے یہ فیض، یہ ہے ایمانی قوت تو جو ایمانی قوت ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے فیصلے کروانی والی ہوتی ہے اور جو ہمارے مشاہدہ کی باتیں ہوتی ہیں وہ بعض دفعہ اللہ کو ناراض کرنے والی ہوتی ہیں، ہاں جی تو ہمیں رجوع کرنا پڑے گا اپنے مشاہدہ کی باتوں سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں کی طرف، تو میں عرض کررہا تھا کہ ایک سود ہے سود کے بارے میں مشاہدہ یہ ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے مشاہدہ یہ ہے کہ ہماری آنکھوں کا مشاہدہ یہ ہے لیکن ایمان کہتا ہے اس سے مال کم ہوتا ہے اور صدقات سے مال کم ہوتا نظر آتا ہے مشاہدہ یہ ہے لیکن اللہ فرماتے ہیں کہ مال بڑھتا ہے تو اس مسئلہ میں مسلمان اور کافر کی بھی تخصیص نہیں ہے، ایک انگریز جج تھے آگ لگ گئی ایک علاقہ میں تو اس کا جو مکان تھا وہ بھی اس علاقہ میں تھا اس کو ٹیلی فون پر کسی نے اطلاع کردی کہ آپ کے محلے میں آگ لگی ہے تو آپ ذرا اپنے گھر کی طرف توجہ کریں اس نے بے اعتنائی سے کہا میرے گھر کو کچھ نہیں ہوگا، پھر اس کے بعد کچھ ان کے ظاہر ہے ہوتے ہیں یا خوشامدی، یا اصل ان کے خیرخواہ تو پھر انہوں نے فون کرلیا کہ وہ آگ آپ کے گھر کے قریب پہنچ گئی ہے انہوں نے کہا کہ میرے گھر کو کچھ نہیں ہوگا، پھر لوگوں نے فون کیا ہر دفعہ کہہ دیا میرے گھر۔۔۔۔ وہ جو آگ تھی وہ بالکل ان کے گھر کے پاس آکر بجھ گئی اس کے گھر کو کچھ نہیں ہوا، خیر یہ تو ایک واقعہ تھا اس انگریز جج سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کس طرح یقین تھا کہ آپ کا گھر نہیں جلے گا اب اس کا جواب سن لو ابھی تک تو آپ انگریز کی بڑائی کے خیال کررہے ہوں گے ناں کہ دیکھو کتنا زبردست ہاں جی وہ تھا لیکن اب اس کا جواب سنو انہوں نے کہا کہ میں چونکہ مسلمانوں کے طرز پر زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، مسلمانوں کی طرز پر زکوٰۃ ادا کرتا ہوں اس لئے مجھے یقین تھا کہ میرے گھر کو کچھ نہیں ہوگا یہ بات ہے، تو مسلمان تو کیا کافر بھی اس پر عمل کریں گے تو دنیا میں فائدہ ہوگا آخرت کی بات نہیں کررہا ہوں آخرت میں صرف مسلمانوں کو فائدہ ہوگا لیکن دنیا میں کافر کو بھی فائدہ ہوگا۔ ہاں جی corona آگیا تھاں ناں تو یورپ میں جلوس نکل گئے تے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ جلوس نکلے تھے ناں، تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو چیزیں ہیں ناں یہ اس کو ہمیں سمجھنا چاہئے اگر ہم واقعی اس بات کی طرف آجائیں کہ سب کچھ اللہ کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے ہمیں جھک جانا چاہئے، اللہ پاک بہت کریم ہیں اللہ بہت کریم ہے بہت کریم ہے تو اس وجہ سے ہمیں سود سے توبہ کرنی چاہئے اور سود کی طرف کیونکہ سود بھی آج کل بہت عام ہوگیا ہے، کسی نہ کسی form میں سود ہے یہ ایزی پیسہ اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں آئی ہوئی ہیں بلائیں یعنی جو لوگ سود سے بچنا چاہتے وہ بھی درمیان میں رگڑے گئے، میرے پاس ادھر آئے تھے ایزی پیسہ کا جو Managing Director تھے مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب تقریباً تین لاکھ میری تنخواہ بن جاتی ہے تین لاکھ تنخواہ میری بن جاتی ہے، دس بارہ تاریخ کے بعد میرے پاس کچھ نہیں ہوتا credit پہ چلتا ہوں کیا کروں میں نے کہا کہ آپ اپنا job change کرلیں خیر اس وقت تو اس نے کچھ نہیں کہا لیکن کراچی گئے تھے تو کراچی سے انہوں نے مجھے ٹیلی فون کرلیا کہ میں نے اپنا job change کردیا، ہاں جی یہ برکت اٹھ جاتی ہے برکت اٹھ جاتی ہے یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا والی بات یہ ہوتی ہے، تو مطلب یہ ہے کہ یہ سود ہے ناں سود اس سے توبہ کرنی پڑے گی جو جس سطح پہ ہے مطلب اکثر یہ fix desposit کرلیتے ہیں لوگ پیسے پھر آرام سے اس سے کھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں بس ٹھیک ہے ہم تو معزور ہیں، معزوری میں اپنے آپ کو ڈال کر ٹھیک ٹھاک۔۔۔۔ حالانکہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں یہ بالکل قریب ہی جگہ ہے میرے پاس یہ یہاں پر مطلب ایک ساتھی کو میں نے کہا کہ مجھے اگرچہ ضرورت نہیں ہے لیکن میں تجربہ کے طور پر تجربہ سے مطلب ثابت کرنا چاہتا ہوں میں مضاربت کرنا چاہتا ہوں تاکہ فائدہ ہوجائے، تو خیر ایسا ہے کہ تیس ہزار روپے کا میں نے ان کو بتایا وہ کسی جگہ پر تین ہزار روپے پر کیا کہتے ہیں ملازمت کررہے تھے، میں نے کہا آپ اس طرح کرلیں اپنے بیٹھک میں دکان کھولیں میں تیس ہزار روپے کا سامان اس میں ڈالتا ہوں چونکہ بیٹھک آپ کی ہوگی تو مضاربت اس طرح ہوگی کہ آپ کا ٪60 ہوگا نفع میں اور میرا ٪40 ہوگا تو اس پر ہمارا آپس میں طے ہوگیا اور شروع کردیا،۔ پہلے ہی مہینے میں اس نے مجھے ڈھائی ہزار روپے دیئے اور ان کے ساڑھے تین ہزار روپے ہوگئے وہ پھر تقریباً اس کے برابر ڈھائی ہزار پونے تین ہزار لگ بھگ ڈھائی ہزار کے لگ بھگ، بس وہ مجھے مہینے میں اب ڈھائی ہزار اگر مجھے مل رہے تھے مہینے میں تو سال میں کتنے ہوگئے ہاں جی سال میں تیس ہزار ہوگئے ناں تو تیس ہزار پہ تیس ہزار مجھے مل رہے تھے تو کتنے فیصد نفع ہوگیا سو فیصد مجھے بتاؤ دنیا کا کون سا بینک آپ کو سو فیصد دیتا ہے؟ دیتا ہے یہ ہماری آنکھوں دیکھا حال ہے، رفاقت کے ساتھ ہمارا وہ تھا ہاں جی تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ چیزیں ہیں کہتے ہیں تجارت کے اندر اللہ پاک نے ٪90 رزق رکھا ہوا ہے لیکن تجارت ہو، ہاں corruption والی نہیں دھوکے والی نہیں، ملاوٹ والی نہیں لوگ چیزوں کو گندا کرلیتے ہیں جلدی کہتے ہیں وہ ہاں نہیں بھئی اللہ پہ بھروسہ کرکے آپ تجارت صحیح کرو پھر دیکھو اللہ کیسے دیتا ہے، تو خیر یہ بات ہمارے سامنے آگئی تو سود سے جانا پڑے گا تجارت کی طرف اس پہ محنت کرنی پڑے گی، کیونکہ بگڑا ہوا نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے بغیر محنت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا دو باتیں ہوگئیں۔ تیسری بات جو بہت خطرناک اور جو آج کل بہت زیادہ ہوگئی ہے وہ ہے رشوت، پہلے وقتوں میں رشوت لوگ چھپ کے لیا کرتے تھے کیا خیال ہے اب چھپ کے لیا کرتے ہیں دھڑلے سے لیتے ہیں میرے پاس آیا وہ بجلی کا میٹر میں لگا رہا تھا تو صاحبان آگئے تو بہرحال یہ ہے کہ شاہ صاحب! وہ کہتے ہیں اوہ فلانے ادھر آجاؤ ان کو پشتو میں سمجھا دو کوئی پشتو والا تھا وہ آگیا جی موٹر سائیکل پہ بیٹھ کے شاہ صاحب ہم آپ سے کچھ نہیں لیتے لیکن اوپر والے مانگتے ہیں تو ذرا ان کو دینا پڑے گا، ہاں جی میں نے اس وقت آئیں بائیں شائیں ادھر ادھر دیکھ کے باتیں شروع کرلیں جیسے میں نے آپ کی بات سنی ہی نہیں مطلب نہ ان کو جواب دیا نہ اس کو کیا بس مجھے سمجھنا میں نے خواہ مخواہ اپنے کام کو خراب کرنے کی بجائے بس ٹال دو تو میں نے ٹال دی بات، خیر خدا کی شان میں واپڈا آفس چلا گیا واپڈا آفس کا جو انجینئر تھا ان کے ساتھ میں ملا تھوڑی دیر میں گپ شپ لگی دوست بن گیا تو میں نے اس سے کہا کہ سلیم صاحب ہاں جی تو میں نے کہا کہ اس قسم کا۔۔۔۔ اوہ یہ کیا بات ہے وہ Superintendentکو بلاؤ وہ اس کے لئے میٹر issue کرلو چلو جی میٹر issue ہوگیا لگ گیا میٹر، یہ بات ہے تم اللہ پہ بھروسہ کرنا سیکھو رشوت ابتدا ہوتی ہے دینے والے سے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ لینے والے سے ہوتی ہے نہیں دینے والے سے ہوتی ہے کیونکہ لوگ جو ہیں ناں اپنے ناجائز کام کرنا چاہتے ہیں وہ ناجائز کام صحیح قانون کے مطابق تو ہوتے نہیں ہیں تو پھر یہ راستے بناتے ہیں پھر ان کو دیتے ہیں ان کو دینے کا عادی بنا لیتے ہیں لینے کا، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ نہیں لیتے ابتدا میں جب چلے جاتے ہیں رشوت نہیں لیتے جی نہیں بھئی میں رشوت نہیں لیتا اب مثال کے طور پر پچاس ہزار رشوت دیتے ہیں نہیں لیتا ایک لاکھ نہیں لیتا ڈیڑھ لاکھ نہیں لیتا دو لاکھ نہیں لیتا مطلب یہ کہ نہیں لیتا کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ہر ایک آدمی کی بس ہوتی ہے اب پانچ لاکھ پہ پہنچ کے وہ بھی تھوڑا سا بے بس ہوجاتا ہے وہ کہتے ہیں اچھا دیکھیں پھر بعد میں دیکھیں گے چلو چھوڑو اس وقت بس راستہ ان کو معلوم ہوگیا کہ گنجائش ہے، ابھی اس کے ساتھ ملیں گے پھر ان کو باقاعدہ diplomatic طریقہ سے ملتے ہیں کبھی ان کی بیوی کو راضی کرلیتے ہیں، کبھی ان کے بھائی کو راضی کرلیتے ہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور اس کو ابتدا میں راشی بنا دیتے ہیں، اس کے بعد جتنی دفعہ رشوت لے گا وہ اس خبیث کے سر پر ہوگا جس نے اس کو راشی بنایا، سمجھ میں آگئی ناں بات جس نے اس کو راشی بنایا اس خبیث کے سر پہ ساری چیزیں لگیں گی اس کے گناہ میں شریک ہوگا تو ان چیزوں سے بچنا چاہئے

’’الرَّاشِی وَالْمُرْتَشِی فِي النَّارِ‘‘16

17 بلکہ ایک روایت میں ’’كِلاَهُمَا فِي النَّارِ‘‘ تو اس کا مطلب ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور سود کے لئے فرمایا سود دینے والا لینے والا اور لکھنے والا تینوں، تو اس وجہ سے ہمیں ان چیزوں سے توبہ کرنا پڑے گی اور توبہ ہی اس کا علاج ہے، یہ سیلاب وغیرہ یقیناً عذاب ہیں لیکن اس سے بڑے عذاب موجود ہیں، مثلاً اگر اس سیلاب کے اندر زلزلہ بھی آجائے مجھے بتاؤ پھر کیا ہوگا اللہ حفاظت فرمائے بعض لوگ اس طرح کہتے ہیں جاہل وہ کہتے ہیں اوہ جی کمال ہے زیادہ ظلم تو اسلام آباد میں ہورہا ہے فلاں جگہ پر ہورہا ہے اور سیلاب نے فلاں جگہ کو اڑا دیا بھئی آپ کو کیا پتا کہ سیلاب اسلام آباد کی باری کب ہے؟َ کیا اس کو clean چِٹ مل گیا ہے کہ بس ٹھیک ہے اس کو نہیں ملے گا کیا پتا کس وقت آتا ہے وہ تو اللہ کو پتا ہے تو اس وجہ سے یہ اسلام آباد کے بارے میں تو باقاعدہ جو geological report ہے کہ fault line پر ہے، کسی وقت بھی تباہ ہوسکتا ہے کسی وقت بھی تباہ ہوسکتا ہے اور اس کے بارے میں ہے کہ باقاعدہ یعنی اس میں کاغذات میں موجود ہے کہ اس کے ابتدا میں قانون تھا کہ دو منزلہ عمارت سے اونچی عمارت نہیں ہونی چاہئے، اس میں اجازت نہیں دیتے تھے یہ تو درمیان میں لوگ رشوت دے دے کر سلسلہ بنا لیتے ہیں ورنہ صحیح بات ہے یہ fault line پر ہے تو ہمیں مطمئن نہیں بیٹھنا چاہئے کہ جیسے ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، بلکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غالباً نے پوچھا تھا آپ ﷺ سے کہ جو صحیح لوگ ہوں گے مطلب نیک لوگ ہوں گے کیا جب عذاب آئے گا تو اس میں نیک لوگوں پر بھی آئے گا؟ فرمایا ہاں دنیا میں تو ان پر بھی ساتھ آئے گا آخرت میں ان کو علیحدہ کرلیا جائے گا، تو اس وجہ سے سب کو توبہ کرنی چاہئے، استغفار کرنا چاہئے اور اس وقت سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہئے کیوں دیکھیں ناں! وہ جیسے بھی ہیں وہ تو اللہ کو پتا ہے وہ اللہ کے ساتھ ان کا معاملہ ہے، ہمارے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ اللہ کی مخلوق ہے مسلمان ہیں اس وجہ سے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے باقی یہ ہے کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے کس وجہ سے ہوا کیوں ہوا وہ ہماری calculation نہیں ہے، ہم ان کو سیلاب زدگان کہیں گے اس وجہ سے کچھ حضرات ایسے ہیں جو خدمت کررہے ہیں ہم کسی کا نام مجبوراً نہیں لیتے کہ پھر کہیں گے یہ لوگ ان کے ساتھ شریک ہیں البتہ خود ہم جن کو دیتے ہیں وہ اَلْحَمْدُ للہ ہم نے طے کرلیا ہے کیونکہ ظاہر ہے مطلب ہے کہ جو مخلصین لوگ ہیں ان کو اپنا وہ پہنچاتے ہیں، تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ان کی خدمت کی کوشش کرنی چاہئے اور ان تین گناہوں سے بالخصوص توبہ کرنی چاہئے اور بالعموم سب گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے کیونکہ گناہ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو چاہے بڑا ہو چنگاری کی طرح ہے اور چنگاری جب پڑتی ہے ناں کسی پہ تو کوئی بھی اس کو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا، مطلب کسی بھی چیز سے انسان کی آگ بھڑک اٹھ سکتی ہے اور ساری چیزیں تباہ ہوسکتی ہیں تو ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بہت جلد اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہونا چاہئے، توبہ استغفار کرتے رہنا چاہئے اور شعوری توبہ کرنی چاہئے ان تین چیزوں سے کم از کم کہ اللہ پاک ہمیں معاف فرما دے اور سب کو معاف فرما دے، یہ ایک بات درمیان میں یاد آگئی کہتے ہیں پاکستان میں کیا مطلب قطب جنوبی کے بعد سب سے زیادہ glaciers ہیں اور یہ glaciers اللہ کی نعمت ہوتی ہے، صاف پانی کا ایک زبردست مجموعہ ہوتا ہے خزانہ ہوتا ہے اگر یہ دھیرے دھیرے آجائے اپنے اپنے ٹائم پر آجائے تو سبحان اللہ بڑی نعمت ہے اور اگر سب مل کر آجائے تو سیلاب ہے، اس وقت اس نے سیلاب کا رخ اختیار کرلیا ہے پہلے سیلاب کا رخ نہیں اختیار کرتے وہ پانی آتا تھا یہ دریائے سندھ میں کون سا پانی آتا ہے یہی پانی آتا ہے، دریائے سوات میں کون سا پانی آتا ہے اس وقت دریائے سوات میں تباہی مچائی ہے ناں تو دریائے سوات میں یہ glaciers سے پانی آتا ہے یہ کالام میں اور مطلب جو ہے اس میں یہ سارا glaciers کا کیونکہ میں خود ادھر گیا ہوں اتنا ٹھنڈا پانی 19 جون کو 19 جون کو کتنی گرمی ہوتی ہے اور آسمان بالکل صاف ہے اور مجھے میرے ایک دوست نے کہا کہ آپ اس کے اندر اگر پانچ منٹ انگلی رکھیں تو میں آپ کو پانچ روپے دیتا ہوں، ہاں جی یہ بہت پرانی بات ہے میرے خیال میں 1976 کے لگ بھگ کی بات ہے ہاں جی تو خیر بہرحال بات یہ ہے کہ میں نے اس میں انگلی رکھی ایک منٹ بھی نہیں رکھ سکا ایک منٹ بھی فوراً میں نے نکال لی، کہتے ہیں یہ کیا میں نے کہا ایک روپیہ تو دے دو ناں ایک روپیہ تو دے دو تو مطلب یہ ہے کہ یعنی ایسا ٹھنڈا پانی ہمارے گاؤں میں دریائے سندھ کا پانی جو پہنچتا ہے اس وقت تو میں نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ درمیان میں تربیلا ڈیم بن گیا ناں شاید کچھ صورتحال بدل گئی ہو، یقین جانئے اس میں کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا گرمیوں میں کھڑا نہیں ہوسکتا اتنا ٹھنڈا تو یہ ٹھنڈا پانی کہاں سے آتا ہے glaciers سے آتا ہے ناں تو یہ میں آپ کو بتاؤں کہ اللہ کی بڑی نعمت ہے یہ چیزیں ان کو برا نہیں کہنا چاہئے، یہ تو اللہ کی نعمتیں ہیں لیکن اگر ہم نافرمان ہوجائیں تو یہی نعمتیں ہمارے لئے زحمتیں بن جائیں بارش کو دیکھو بارش زحمت بھی ہوتی ہے رحمت بھی ہوتی ہے ناں اب کراچی میں بارش آتی ہے وہ ڈر جاتے ہیں لوگ اوہ پتا نہیں اب کیا ہوگا ہاں کیونکہ ظاہر ہے کوئی نکاسی کا راستہ ہی نہیں ہاں جی تو حالانکہ بہت سارے لوگ رحمت اس بارش کو مانگتے مانگتے بالکل ان کے گلے سوکھ جاتے ہیں کہ کسی طریقہ سے رحمت کا کوئی قطرہ آجائے، ہاں جی تو رحمت رحمت ہے لیکن جس وقت اللہ کا حکم آجائے تو پھر یہ رحمت بھی زحمت بن جاتی ہے اس وجہ سے ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بھاگنا چاہئے

﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ- 18

اللہ کی طرف بھاگنا چاہئے اگر اللہ پاک اس کو رحمت بنا دیں تو سبحان اللہ پھر اللہ بنا دیتا ہے مایوس نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ بات ہے کہ اپنے اعمال پر کبھی بھی نیک گمان نہیں ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (یس: 19)

  2. (التوبہ: 37)

  3. (مشکٰوۃ المصابیح : 5213)

    ترجمہ : ’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے‘‘۔


  4. (بخاری،:5707)

  5. (ابوداؤد،:3915)

  6. (ابوداؤد:3910)

  7. (بخاری:5093)

  8. (ابوداؤد:3921)


  9. ترجمہ : ’’رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا آگ میں ہو گا‘‘۔


  10. (سنن ترمذی: 1614)


  11. (یس: 19)

  12. (یس: 19)


  13. (المائدۃ: 104)

  14. (البقرۃ: 276)

  15. (البقرۃ: 276)

  16. (البقرۃ: 276)

  17. (سنن ابی داود: 3580)

  18. (الذریت: 50)


ماہِ صفر میں توہمات کی حقیقت، موجودہ سیلاب کی تباہ کاری کی وجوہات اور انکا تدارک - خواتین کیلئے اصلاحی بیان