اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7-8)
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ''أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1163) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1162) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''صُوْمُوْا عَاشُوْرَاءَ وَخَالِفُوْا فِیْهِ الْیَھُوْدَ، صُوْمُوْا قَبْلَهٗ یَوْمًا اَوْ بَعْدَہٗ یَوْمًا''۔ (مسند احمد، رقم الحدیث: 2154)
''وَكَانَ عَاشُوْرَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ: ''مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ''۔ (بخاری، رقم الحدیث:4502) وَمِنَ الْأَوَّلِ إِبَاحَةً وَّبَرَکَةَنِ التَّوْسِعَةُ فِیْهِ عَلٰی عَیَالِهٖ؛ فَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''مَنْ وَّسَّعَ عَلٰی عَیَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ''۔ (شعب الْإیمان للبیھقي، رقم الحديث:3513)
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! محرم کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اس مہینے کی کئی حیثیتوں سے اہمیت ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ مہینہ ہجری سن کی ابتدا ہے یعنی یہ پہلا مہینہ ہوتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ یہ محترم مہینوں میں شامل ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ اس میں عاشورہ ہے۔ عاشورہ کا مطلب کیا ہے، آپ ﷺ نے مدینہ منورہ جب ہجرت فرمائی تو دیکھا کہ یہود دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں، ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو نجات ہوئی تھی اس دن، تو ہم اِس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام تو ہمارے ہیں پھر تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم یہ روزہ رکھیں، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ کہیں اس سے مشابہت تو نہیں ہوجائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہم ایک دن پہلا یا ایک دن بعد کا اس کے ساتھ شامل کرلیں گے یعنی مشابہت سے بات نکل جائے گی۔ تو اس سے پتا چلا کہ کسی بھی اچھی بات کی تقلید کرنا یہ اچھی بات ہے، جیسے فرماتے ہیں ’’اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ‘‘ دانائی کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ تو جہاں سے بھی کوئی اچھی بات مل جائے تو ہم اس کو لے سکتے ہیں، لیکن مشابہت نہیں کرنی چاہئے، مشابہت سے بچنا چاہئے۔ تو ایسے طریقہ کو اختیار کرنا ہوتا ہے جس میں مشابہت سے بھی بچیں اور اُس اچھی چیز کو استعمال بھی کرلیں، اس کو حاصل بھی کرلیں۔ تو محرم کا جو مہینہ ہے اس میں جو عاشورہ ہے اس کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں اللہ پاک سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کے جو گناہ ہیں اس کے ذریعہ سے معاف ہوجائیں گے، ایک سال پہلے کے گناہ جو ہیں وہ اس کے ذریعہ سے اللہ پاک معاف فرمائیں گے، وہ اس کا کفارہ ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے ہم سب کو یہ روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، مستحب ہے فرض و واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان شریف سے پہلے یہ روزہ رکھا جاتا تھا لیکن جس وقت رمضان شریف کے روزے فرض ہوگئے تو فرمایا کوئی اس روزے کو رکھنا چاہے تو رکھ لے کوئی نہ رکھنا چاہئے تو نہ رکھے۔ یعنی مستحب ہوگیا۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ جو چیز پہلے فرض ہوا کرتی ہے اور اس کے بعد حکم بدل کے وہ نفل یا مستحب ہوجاتی ہے تو اس کا نفل ہونا تو ثابت ہوجاتا ہے، لیکن اس کی جو اہمیت ہے وہ اس درجہ کے لحاظ سے قائم ہوتی ہے۔ مثلاً تہجد کی نماز یہ انبیاء کرام کے اوپر فرض تھی اور امت کے اوپر فرض نہیں ہے، لیکن باقی نوافل کی سردار ہے، یعنی باقی نوافل کے مقابلہ میں اس کی حیثیت بہت زیادہ اونچی ہے بلکہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ ولایت کی کنجی ہے جس کو اللہ جل شانہٗ تہجد کے نفل کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں، تو اللہ جل شانہٗ اس کے لئے ولایت کا راستہ کھول لیتے ہیں یعنی گویا کہ اس پہ اس کے لئے چلنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری: 54)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
لہٰذا اگر کسی کا تہجد کی نماز سے قرب الہٰی مقصود ہے، اگر تہجد کی نماز سے کسی کا قرب الہٰی مقصود ہو تو اس کے لئے چونکہ اللہ پاک نے ایک بہت ہی عام قسم کا اعلان مطلب جو ہے وہ سلسلہ شروع کیا ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت باقاعدہ آواز آتی ہے فرشتوں کی طرف سے کہ ہے کوئی مجھ سے مدد مانگنے والا؟ ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی دور کرلوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کرلوں ہے؟ کوئی ایسا ہے کوئی ایسا؟ مسلسل یہ اعلان ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر کا وقت داخل ہوجاتا ہے۔ پس پتا چلا کہ جو جس نیت سے کھڑا ہوگیا اس میں اللہ پاک کی طرف سے اس کے ساتھ مدد ہوگی، تو اگر کوئی قربِ الہٰی کے لئے کھڑا ہوگیا تو اس کو اللہ پاک قرب الہٰی عطا فرما دیں گے، اگر کوئی کسی مصیبت سے بچنے کے لئے کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کو مصیبت سے نجات عطا فرما دیں گے، اگر کوئی اور مقصد کے لئے کھڑا ہوگیا اور جائز ہو، اللہ تعالیٰ اس کو وہ مقصد پورا فرما دیں گے۔ یہ بات میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہم لوگوں کو trap کیا گیا ہے trap مطلب کیسے trap کیا گیا ہے، لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے ہمیں trap کردیا ہے، اب دیکھیں! ہماری جو سیاست ہے، کس حد تک چلی گئی ہے، ذاتی مفادات کے لئے پورے ملک کو گروی رکھوا دیا، کیا مصیبت پڑ گئی۔ تو اسی طریقہ سے ذاتی مفاد جس کا جو بھی ہے، ڈاکٹر کا جو ذاتی مفاد ہے وہ مریض کو مصیبت میں ڈالتا ہے، جو مطلب جو ہے دکاندار کا ذاتی مفاد ہے وہ گاہک کو مصیبت میں ڈالتا ہے اور اس طرح کوئی اور مطلب جو ہے ناں کسی اور عہدہ پر ہے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے دوسرے لوگوں کو مصیبت میں ڈال لیتا ہے، تو یہ ذاتی مفادات کی وجہ سے سارا نظام مطلب جو ہے ناں ہمارا گڑبڑ ہوچکا ہے، تو اس سے ہمیں نکلنے کی ضرورت ہے۔
تو یہ میں عرض کررہا تھا کہ عاملین نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے لوگوں کو اس قسم کے چکروں میں پھنسا دیا ہے کہ اگر کوئی کسی بیماری کے لئے، کسی پریشانی کے لئے، کسی مقصد کے لئے اس کو کہا جائے کہ آپ نے فلاں نہر میں جاکر تین گھنٹے آپ ایک پاؤں پہ کھڑے ہوکے یہ وظیفہ پڑھیں گے، تو لوگ پڑھ لیں گے، پڑھ لیں گے لوگ، اور اگر کوئی کسی کو کہہ دے کہ آپ آٹھ رکعت تہجد پڑھ لیں اس کے بعد دعا کرلیں، نہیں، یہ کیا بات ہے؟ مجھے بتاؤ عامل چاہے کتنا بڑا ہو، اللہ جل شانہٗ کے حکم کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ یہ جو تہجد والی بات ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو عاملوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، لیکن لوگوں کے ذہنوں کے اندر اس قسم کا جال انہوں نے بچھایا ہوا ہے کہ اب لوگ مجبور ہیں اور لوگ جو ہیں ناں وہی کرتے ہیں، بلکہ اس انداز میں بات کرتے ہیں کہ جیسے ان کا یہ تعویذ فوراً مطلب action کرے گا، ان کا یہ جو وظیفہ ہے وہ فوراً اثر کرے گا اور باقی چیزوں کے بارے میں اس قسم کی بات نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، اللہ پاک ہی سب کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ کرتے ہیں، اگر اللہ نہ چاہے کسی کا تعویذ ہوتا رہے ناں اللہ نہ چاہے کسی کا وظیفہ ہوتا رہے ناں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اللہ چاہے گا تو بغیر اس کے بھی کرلے گا۔ دعا: ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ1: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
پکی بات ہے قرآن پاک کی بات ہے، احادیث شریفہ میں بات ہے، اس کی طرف لوگ نہیں جاتے، لیکن ان عاملوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور اس قسم کی جو ہے ناں حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ میں صحیح عاملوں کے خلاف نہیں ہوں ایک دوائی کی طرح چیز ہے۔ ڈاکٹر لوگ، یہ ہمارے میجر جنرل عجب خان صاحب ما شاء اللہ اللہ ان کو خوش رکھے، (انہوں نے) اپنے اس پہ لکھا ہوتا ہے: شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور واقعی صحیح ہے بالکل، ڈاکٹر چاہے کتنا ہی باکمال کیوں نہ ہو اگر اللہ پاک نے شفا کا ارادہ نہیں فرمایا، نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا، مطلب ظاہر ہے اللہ پاک کے ہاتھ میں شفا ہے تو وہ لکھتا ہے: شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے تو اسی طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ جو یعنی دعا کرتا ہے تو اَلْحَمْدُ للہ وہی اللہ پاک قبول فرمانے والا ہے، وہی اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے اور اس کے بعد دعا کرتا ہے تو وہی اللہ پاک قبول فرمانے والا ہے، آپ کوئی سبب اختیار کرتے ہیں تو یہ اسباب میں سے ہیں، یہ ڈاکٹری کا علاج ہے یا عملیات کا علاج ہے یا جو بھی ہے یہ اسباب میں سے ہیں، تو اللہ ہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں باقاعدہ ایک وظیفہ دیا گیا ہے افسوس کی بات ہے کہ اس وظیفہ کی طرف ہمیں خیال نہیں جاتا، وہ وظیفہ کون سا ہے؟ یہ ہم ابھی کریں گے ان شاء اللہ، ہر رکعت میں وہ وظیفہ ہمارا چل رہا ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4) ترجمہ: ’’ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ یہ اتنی پکی بات ہے، پتا نہیں انسان کیوں بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اگر کسی کو اللہ پاک کی بات پر یقین آجائے، اس نے بہت بڑا مضبوط کڑا پکڑ لیا، بہت بڑا مضبوط کڑا پکڑ لیا، آیت الکرسی کے بعد کون سی آیت ہے؟ وہ یہی تو ہے آیت الکرسی کے بعد۔ تو مقصد یہ ہے کہ یہ جس نے اللہ پاک کی مطلب جو ہے ناں مدد مطلب حاصل کرلی اس نے بڑا مضبوط کڑا پکڑ لیا، اس وجہ سے ہم لوگوں کو اُس طرف جانا چاہئے، صحابہ کرام کی زندگی، دیکھیں! صحابہ کرام کیا کرتے تھے، جب کبھی مشکل پڑتی تھی، خود آپ ﷺ آندھی ذرا تیز چلتی، مسجد کا رخ، کوئی پریشانی، مسجد کا رخ، یہ نماز استسقاء باقاعدہ مشروع ہے، اس طریقہ سے اور بہت سارے مسائل کے لئے صلوٰۃ الحاجت ہے یہ مشروع ہے، صلوٰۃ التوبہ ہے یہ مشروع ہے، یہ ساری باتیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن یہ چیزیں ہم سے بھُلائی گئیں، یہ چیزیں ہم بھول گئے ہیں اور جو چیزیں یاد ہیں وہ ذاتی مفادات کی باتیں ہیں، لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں، وہ ہمیں اس طرح انہوں نے رٹوا دیئے ہیں کہ لوگ جو ہیں ناں بالکل یعنی اندھے بن کر مطلب جو ہے ناں ان کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ خیر بات بہت دور چلی گئی! میرا موضوع یہ نہیں تھا آج، میں تو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ محرم کا مہینہ سبحان اللہ بہت زبردست مہینہ ہے بہت زبردست مہینہ ہے، ایک تو یہ بات ہے کہ جیسے میں نے عرض کیا کہ اس سے ہجری سن کی ابتدا ہوتی ہے، ہجری سن سبحان اللہ! یہ دیکھیں تھوڑا سا غور کرلیں! اسلام کے اندر کن چیزوں کو دیکھا جاتا ہے؟ جس وقت ہجری سن کا اجراء ہوگیا تو باقاعدہ صحابہ کرام کی میٹنگ ہوئی، اس کو کون سا سن کہا جائے، تو مختلف قسم کے مشورے آتے رہے ہیں، تو اخیر میں فیصلہ ہوا کہ اس کو ہجری سن کہا جائے، ہجرت، کیونکہ اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی ترقی کی راہ جو کھلی ہے وہ ہجرت سے کھلی ہے اور ہجرت ابتدا میں فرض تھی، جس نے ہجرت نہیں کی تو اس کو مطلب اس category میں نہیں ڈالا گیا، تو ہجرت اس وقت فرض تھی تو ہجرت کو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا ذریعہ بنایا ہوا ہے اُس وقت کے لحاظ سے بھی، بعد میں بھی مطلب ظاہر ہے اس کی ضرورت پڑتی ہے، تو ہجری سن اس کو کہا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیکھو! اس کے ساتھ ہماری ساری عبادات وابستہ ہیں، یعنی نمازِ عید جو ہے وہ اس کے ساتھ وابستہ ہے، روزے اس کے ساتھ وابستہ ہیں، زکوٰۃ اس کے ساتھ وابستہ ہے، حج اس کے ساتھ وابستہ ہے، اب یہ چیزیں ساری اس کے ساتھ وابستہ ہیں، لیکن اگر کسی کو پوچھا جائے کہ آج کون سی تاریخ ہے ہجری سن کی؟ بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں گے۔ میں جرمنی میں تھا تو اپنے آفس میں چلا گیا تو جو آفس سیکریٹری تھی مجھے دیکھتی ہے کہتی ہے Happy birthday to you وہ 24 اپریل تھا، میری 24 اپریل تاریخ لکھی ہوئی تھی یعنی birthday لکھا ہوا تھا، تو میں چپ ہوگیا، کہتی ہے آپ کا birthday نہیں ہے آج؟ میں نے کہا نہیں، کہتی ہیں میرے پاس تاریخ لکھی ہوئی ہے 24 اپریل، آج 24 اپریل ہے، میں نے کہا ہمارا سن یہ نہیں ہے ہمارا سن اور ہے مسلمانوں کا سن اور ہے، بس چپ ہوگئی۔ مقصد یہ ہے کہ ہم بالکل مختلف ہیں، ہم مختلف ہیں۔ وہ میرے پاس ایک صاحب آئے ہمارے PINSTECH کے ساتھ تھے تو وہ آئے تو مجھے کہتے ہیں کمال ہے آپ کو تو پروفیسر صاحب ہر نماز کے لئے چھوڑتے ہیں، ہمیں تو جمعہ کی نماز کے لئے بھی نہیں چھوڑتے، میں نے کہا شکر کرو تمھیں چرچ نہیں بلاتے ہیں، کہتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا تم میں اور ان میں کیا فرق ہے ذرا بتاؤ ناں؟ مجھے پہلے دن recognize کیا ہوا ہے پہلے دن سے recognize کیا ہوا ہے، حالانکہ میری ان کے ساتھ کوئی واقفیت نہیں تھی پروفیسر کے ساتھ، جس وقت میں گیا ہوں، سب سے پہلے اس نے مجھ سے پوچھا آپ کیا تھے وہاں پر؟ میں نے کہا instructor انہوں نے مجھے instructor کے ساتھ بٹھا دیا، میرے colleague سے کہا ان کو کسی ایسی جگہ لے جاؤ جہاں یہ کھانا کھا سکے۔ ہر چیز یہ نہیں کھائے گا۔ اب دیکھ لیں! میں نے تو نہیں کہا تھا اس کو، میں نے تو نہیں کہا تھا، صرف فرق کیا تھا؟ میں ان کی طرح نہیں تھا۔ ہاں جی، تو اس طرح مطلب بازار میں جاتا تو کوئی اِس طرح سلام کرتا، کوئی اِس طرح سلام کرتا، کوئی اِس طرح سلام کرتے اپنی طرف سے مطلب یعنی ملنے کی کوشش کرتے تھے، کیوں؟ میں ان سے مختلف تھا، ان سے مختلف تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ہماری جو اسلامیت ہے وہ ظاہر نظر آنی چاہئے، ہماری اسلامیت چھپنی نہیں چاہئے۔
﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن﴾ (حم سجدہ: 33)
ترجمہ: ’’اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دے، اور نیک عمل کرے، اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل ہوں۔‘‘
یہی بات ہے۔ مطلب فخر کرنا چاہئے اپنے اسلام پر، اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ مسلمان ہیں ہم، مسلمان ہونے پر ہمیں فخر کرنا چاہئے واقعتاً اسلام کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ہے، اگر کوئی مسلمان نہیں ہے بے شک آسمان تک پہنچ جائے اپنے کمالات کے لحاظ سے، صرف اس دنیا تک ہے، اس کے بعد تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ میں عرض کررہا تھا کہ پہلی بات تو اس میں یہ ہے۔ دوسری بات اس میں ما شاء اللہ عاشورہ کا میں نے بتا دیا کہ اس میں ہم روزہ رکھ سکتے ہیں، روزہ رکھ سکتے ہیں مستحب ہے، کوئی رکھے گا تو ایک سال گزشتہ کے گناہ اس کے ان شاء اللہ معاف ہوجائیں گے صغیرہ گناہ۔ صغیرہ گناہ اس کے ایک سال کے معاف ہوجائیں گے ان شاء اللہ۔ تو یہ ما شاء اللہ بہت بڑی بات ہے، کون سا مشکل کام ہے روزہ رکھنا، ہاں جی اس کے ذریعہ سے اتنی بڑی نعمت مل رہی ہے تو ہمیں یہ نعمت حاصل کرنی چاہئے۔ ایک روزہ زیادہ رکھنا چاہئے کہ یا ایک روزہ پہلے رکھنا چاہئے یا بعد میں رکھنا چاہئے۔ایک اور چیز کا بھی اس میں بتایا گیا ہے وہ میں آپ کو دوبارہ سناتا ہوں تاکہ آپ کو یقین آجائے حدیث شریف ہے فرماتے ہیں:
فَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلَامُ: ’’مَنْ وَسَّعَ عَلیٰ عَیَالِہٖ فِی النَّفَقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہٖ ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 1926) کہ جس نے اپنے عیال کے اوپر اس دن یعنی عاشورہ کے دن وسعت کرلی سارا سال ان کو وسعت حاصل ہوگی۔ پورے سال ان کو وسعت ما شاء اللہ نصیب ہوجائے گی۔ مشکل کام ہے؟ بہت آسان کام ہے لوگ بہت ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں یہ ہوگیا وہ ہوگیا، بھئی یہ تو حدیث شریف ہے اس پر عمل کرلو ان شاء اللہ اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔ ایک بات یاد رکھئے! جہاں پر کوئی وعدہ ہو ناں، وعدہ ہو حدیث شریف میں اس کو نہ چھوڑو، یہ بہت مبارک چیز ہوتی ہے، اس کے ذریعہ سے آسانیاں ملتی ہیں۔ مثلاً دیکھو! ایک حدیث شریف ہے فرمایا:
’’اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُو الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3251)
کیا خوبصورت بات ہے! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلح رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جس وقت لوگ سوتے ہوں یعنی تہجد کی نماز اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اب بعض لوگ جو شکی مزاج ہوتے ہیں ہر چیز پر جن کو شک ہوتا ہے وہ کہتے ہیں اس میں پورا دین تو آیا نہیں ہے اور کہتے ہیں سلامتی کے ساتھ۔ خدا کے بندو! یہ حدیث شریف ہے وعدہ ہے تم ایسا کرلو باقی دین پر چلنا اللہ پاک نصیب فرما دے گا ناں، یہ کھینچ لے گا بعض دوسری چیزوں کو، اُن باقی چیزوں کو کھینچ لے گا، آپ اس پر عمل تو کرکے دکھائیں۔ دوسری بات حدیث شریف ہے، فرمایا: تم مجھے دو چیزوں کو ضمانت دو ایک جبڑوں کے درمیان جو چیز ہے اور ایک جو دو رانوں کے درمیان چیز ہے، ان کی حفاظت کا بندوبست تم کرلو اس کی ضمانت دو، میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ گویا کہ وہ positive کا یعنی جو اعمال کرنے کے ہیں اس کی ہے بات اور یہ جو اعمال نہیں کرنے کے ہیں، اس کی بات ہے، یعنی یہ منفی چیزوں سے بچ جاؤ، یہ چار مثبت کام کرلو، کام بن گیا آپ کا، تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو ان چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اب ایک اور بہت اہم بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو ایسے موقع پہ عرض کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، محرم کا مہینہ جو ہے اس میں کچھ واقعات ہوئے ہیں نمبر ایک واقعہ یکم محرم کو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم وفات، یاد رکھنا چاہئے کہ ہم لوگ دن نہیں مناتے کیونکہ اگر ہم دن منانا شروع کرلیں تو ہر روز ہم دن منائیں۔ کیوں؟ بھئی ایک لاکھ سے اوپر تو انبیاء کرام ہیں، پھر ایک لاکھ سے اوپر صحابہ کرام ہیں، کوئی ولی کتنا ہی بڑا ہوجائے وہ صحابی تک تو نہیں پہنچ سکتا، کوئی صحابی کتنا ہی بڑے سے بڑا ہوجائے وہ نبی تک تو نہیں پہنچ سکتا، تو اب یہ بات ہے کہ پھر اگر میں ولی کا دن منا رہا ہوں تو کیا صحابی کا دن نہیں منانا چاہئے؟ پھر کیا کروں گا، اب جتنے صحابہ ہیں، اُن کے دن مناؤں گا تو کوئی دن فارغ رہے گا؟ تو اس وجہ سے شریعت میں دن نہیں منائے جاتے، ہاں! یاد رکھے جاتے ہیں، یاد رکھا جاتا ہے یاد رکھا جاتا ہے۔ اب دیکھیں اگر مجھے یکم محرم کو یاد ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا سے تشریف لے گئے، تو میرے سامنے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ کمالات، وہ جو خوبیاں، وہ جو ان کا مقام تھا وہ میرے سامنے آجائے تو میرے لئے ایک ideal چیز بن جائے گی، پھر میں اس کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، نتیجتاً مجھے فائدہ ہوگا۔ تو یاد رکھنے پہ پابندی نہیں ہے منانے والی بات ہمارے ہاں نہیں ہے۔ اسی طریقہ سے دس محرم کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے، منانا نہیں ہے، جیسے میں نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن بھی ہم مناتے تو نہیں ہیں ناں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن بھی ہم نہیں مناتے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن بھی نہیں مناتے، مناتے نہیں لیکن یاد رکھتے ہیں۔ اس طرح دس محرم جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے اس کو بھی ہم یاد رکھتے ہیں، سب سے پہلے کیا بات ہے کیسے یاد رکھیں؟ اب ذرا تھوڑا سا غور فرمائیں ایک اصولی بات عرض کرتا ہوں، اصولی بات دیکھو جب تک انسان اصولی بات کو نہیں سمجھ سکتا جزئیات میں وہ فیصلہ نہیں کرسکتا، اصولی بات کیا ہے؟ ہدایت اللہ دیتا ہے، ہدایت اللہ دیتا ہے ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے ذریعہ کس کو بنایا؟ آپ ﷺ کو۔ آپ ﷺ کو۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ آپ نے اللہ کے لئے سارے کام کرنے ہیں اور کرنے ہیں محمد ﷺ کے طریقہ پہ کرنے ہیں، محمد ﷺ کے طریقہ پہ، کامیابی کے لئے یہ ایک اصول ہے۔ اب جب آپ ﷺ کا طریقہ اپنانا ہے، کیسے اپنائیں گے؟ میں نے تو آپ ﷺ کو دیکھا نہیں، ہم میں سے آج جو بھی ہے چاہے کوئی کتنا بڑا ہے وہ آپ ﷺ کو دیکھ سکتا ہے؟ کیونکہ آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ اب جنہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا ہے اور ان کی تربیت آپ ﷺ نے کی ہے، انہوں نے آپ ﷺ کے طریقہ کو جیسے مطلب حاصل کیا ہے اس پر جیسے عمل کرلیا ہے وہ ہمارے پاس نمونہ ہے۔ اگر صرف آپ ﷺ کو ہم دیکھتے تو ظاہر ہے ہم تربیت میں آجاتے لیکن چونکہ وہ چیز ہے نہیں، تو اب کیا ہے جنہوں نے دیکھا ہے اور جنہوں نے اس پر عمل کرلیا ہے وہ ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہود میں اکہتر فرقے تھے نصاریٰ میں بہتر ہوگئے اور اس امت میں عنقریب تہتر ہوجائیں گے اور نجات ایک پائے گا۔ ڈر گئے صحابہ کرام، یارسول اللہ وہ کون سے لوگ ہوں گے؟ فرمایا:
’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (سنن ترمذی: 2641)
ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں‘‘۔
پس پتا چلا کہ آپ ﷺ کا طریقہ اور آپ ﷺ کے صحابہ کا طریقہ۔ یہ دوسرا کیوں لگایا گیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے کہ آپ ﷺ ایک فرد ہیں آپ ﷺ مرد ہیں عورت نہیں ہیں، آپ ﷺ شہری ہیں دیہاتی نہیں، آپ ﷺ اونچے خاندان کے ہیں کم خاندان کے نہیں، آپ ﷺ کی اپنی صفات ہیں باقی لوگوں کی اپنی ہیں، تو کوئی شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ میں تو آپ ﷺ کی طرح نہیں ہوں تو میں کیسے ان کو follow کروں؟ تو اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کرلیا کہ صحابہ کرام میں ہر طبقہ کا آدمی ہے، غریب ہے مالدار ہے، بہت ہوشیار ہے بہت سادہ ہے، پہاڑی ہے صحرائی ہے، دیہاتی ہے شہری ہے، اس طرح گورا ہے کالا ہے، ہر قسم کا صحابی موجود ہے۔ پس جس وقت ہمیں اتباع کی ضرورت ہو تو جو میری طرح کا صحابی ہے وہ میرے لئے رہنما ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 6009)
ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا لو گے‘‘۔
جن کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا لو گے، پس ہر شخص اپنے اپنے، (یعنی) غریب شخص غریب صحابہ کی پیروی کرلے، مالدار جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، انہوں نے اپنی دولت کو کن چیزوں میں خرچ کیا؟ مالداروں کے لئے وہ نمونہ ہیں، غریبوں کے لئے وہ نمونہ ہیں کہ غریب صحابہ بے شک فاقے سے ہوتے تھے لیکن کسی سے مانگتے نہیں تھے، یہ بات مطلب تھی، ہاں جی۔ سب اپنے اوپر گزارتے تھے۔ تو یہ بات ہے کہ:
﴿لَا یَسْــئـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ﴾ (البقرۃ: 273)
قرآن میں ان کے بارے میں ہے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کے نہیں مانگتے۔ ہاں جی اور یہ بھی مالدار صحابہ کا (حال) تھا کہ بے شک ان کو اپنی ضرورت بھی ہوتی ہے وہ دوسروں پہ خرچ کرتے تھے، یہ بھی صحابہ ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر قسم کا صحابی مل جاتا ہے اور ہر قسم کے صحابی کی پیروی مل جاتی ہے۔ ایک دوسری اصولی بات عرض کرتا ہوں، جب صرف صحابی کی بات آجاتی ہے تو سمجھ لو کہ اس میں تین گروہ شامل ہیں۔ تین گروہ: پہلا گروہ، عام صحابہ، دوسرا گروہ اہلِ بیت، تیسرا گروہ امہات المؤمنین۔ یہ تین گروہ ہر صحابہ کے گروپ میں ہوسکتے ہیں، دیکھو! عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ ہیں یا نہیں؟ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ ہیں یا نہیں؟ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں یا نہیں؟ ہاں! علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی بھی ہیں اہلِ بیت میں سے بھی ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ بھی ہیں اور امھات المؤمنین میں سے بھی ہیں، اس طرح عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سب صحابہ ہیں۔ تو اب یہ تین گروہ ہیں اور تینوں گروہوں کے بارے میں آپ ﷺ کے مبارک کلمات موجود ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اور بہت سارے صحابہ کے بارے میں آپ ﷺ کے کلمات مبارک موجود ہیں۔ پس اصول دیکھ لیجیے! جس نے ان تینوں سے لے لیا، ان تینوں گروپوں سے لے لیا انہوں نے پورا دین لیا، جس نے ان میں سے کسی سے لیا اور کسی سے نہیں لیا انہوں نے ناقص دین لیا، انہوں نے ناقص دین لیا، کیوں؟ ان کو کچھ حصہ نہیں ملا ناں، جنہوں نے ان میں سے کسی کی مخالفت کی تو انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، کیوں کچھ بھی نہیں لیا؟ اس لئے نہیں لیا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کی، آپ ﷺ جو ان کے بارے میں فرما چکے اس کو نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ نہیں مانا، نتیجتاً گمراہ ہوگئے۔ میں (ذرا مردود کا لفظ سخت لفظ ہے) وہ نہیں کہتا۔ گمراہ ہوگئے۔ اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ یعنی جو بات ہے کہ اگر کوئی ناصبی ہے، گمراہ، کوئی شیعہ ہے، گمراہ، کوئی صحابہ یا صحابیات کو نہیں مانتا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں مانتا گمراہ ہے، confirm بات ہے اس کے اندر کوئی کمزوری نہیں ہے، اصولی بات ہے۔ پس اگر سب کو ہم مانتے ہیں تو ہم اہل سنت و الجماعت میں سے ہیں، اگر ہم سب کو مانتے ہیں تو کیا ہیں؟ اہل سنت و الجماعت ہیں اور اہل سنت و الجماعت ہی کامیاب ہے۔ ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ پہ عمل کرنے والے کون ہیں؟ اہل سنت والجماعت بلکہ اہل سنت و الجماعت کا جو نام ہے وہ اسی لحاظ سے ہے، اہل سنت آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنے والا، والجماعت جماعت صحابہ کے طریقہ پہ چلنے والا، یہ نام ادھر ہی سے آیا ہے اہل سنت و الجماعت، لہٰذا ہم لوگ کیا ہیں؟ اہل سنت و الجماعت ہیں، ہم ان تینوں کو مانتے ہیں اَلْحَمْدُ للہ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبحان اللہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا بات ہے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا بات ہے تین دفعہ جنت خریدی ہے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم، کیا بات ہے! یہ سب حضرات ما شاء اللہ بہت بڑے ہیں ہم سب کو سلام کرتے ہیں، سب کے لئے ایصال ثواب کرتے ہیں، سب کو اپنے بڑے کہتے ہیں، سب سے ہم اخذ کرتے ہیں، ہم کسی کے مخالف نہیں ہیں۔ اس وجہ سے یقین جانیے! اگر اہل سنت و الجماعت ذرا تھوڑے سے سمجھدار ہوں ناں اور جانتے ہوں اپنے دین کو، ان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ کیوں؟ وہ سب کو مانتے ہیں، جو سب کو مانتے ہیں اس پہ آپ کیا اعتراض کریں گے۔ اعتراض تو اس پہ ہو جو کسی کو مانتا ہو کسی کو نہ مانتا ہو، مطلب اسی پہ اعتراض ہوگا ناں، تو ہم تو سب کو مانتے ہیں ہم پر کیا اعتراض ہوگا۔ کوئی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کررہا ہے تو کیا مجھے تکلیف ہوگی؟ کوئی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرے گا تو کیا ہمیں تکلیف ہوگی؟ کوئی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرے تو کیا ہمیں تکلیف ہوگی؟ کوئی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تعریف کررہا ہو تو کیا ہمیں تکلیف ہوگی؟ نہیں، کسی پہ ہمیں تکلیف نہیں ہے ہم تو سب کی تعریف خود کرنے والے ہیں، لہٰذا ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ اب آخری بات میں عرض کرتا ہوں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ صحابی ہیں، کیا ہیں؟ صحابی ہیں۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں۔ یزید کون ہے؟ تابعی ہے، اگر صحابی کا صحابی کے ساتھ اختلاف ہوجائے، ہم چپ، حکم دیا گیا ہے چپ رہو۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ فقہاء کرام اس میں بات کریں گے مسئلے نکالنے کے لئے، لیکن کسی کی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ ہمیں روک دیا گیا ہے کہ نہیں ان کے خلاف بات نہیں کرنی، صحابی صحابی کا معاملہ ہے ہم بات نہیں کرتے، ہم ان کے جو ملی ہوئی چیزیں ہیں ان کو فوراً لیتے ہیں، جو اختلاف ہے وہ فقہاء کے حوالے کردیتے ہیں، جو ہمیں دے دیتے ہیں وہ ہم لے لیتے ہیں جو نہیں دیتے وہ نہیں لیتے، اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں بناتے۔ ٹھیک ہے ناں؟ جب صحابی کا تابعی کے ساتھ اختلاف ہو confirm بات ہے صحابی حق پر ہے، confirm بات ہے کہ صحابی حق پر ہے، کیونکہ احادیث کی تمام کتابوں اٹھا لو اس کے اندر راوی جو بیان ہوتے ہیں، اس میں اخیر میں جب صحابی کا ذکر آتا ہے تو: ’’وَھُوَ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوُلٌ‘‘ ’’اور وہ صحابہ میں سے ہے اور صحابہ سارے عادل ہیں‘‘۔
تو اس کا مطلب ہے کہ جب صحابی کی بات آجائے اور سارے عادل ہیں لہٰذا ہمیں کچھ بھی درمیان میں کوئی اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو صحابی ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یزید تابعی ہے، اختلاف آگیا، ہم امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پہ مانیں گے، ہم امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر مانیں گے۔ جہاں تک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات ہے، اس میں ہم خاموش ہیں، فقہاء کے فیصلہ پہ عمل کرتے ہیں، فقہاء نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے فیصلہ کیا: ’’حق پر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی غلط نہیں تھے‘‘۔ یہ میری بات کمزور تو نہیں ہے؟ حق پر کون تھے؟ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی غلط نہیں تھے، کیونکہ مجتہد تھے مجتہد جو ہوتا ہے اس کی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے، یہ بھی اصول کی بات ہے مجتہد کی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے اور جو صواب ہوتا ہے جو صحیح بات ہوتی ہے اس پہ دو ثواب ملتے ہیں، تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو اجر مل گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک اجر مل گیا، وہاں پر کوئی مسئلہ ہم نہیں کرتے۔ لیکن جب یزید کی بات آتی ہے اب اس میں ذرا دو گروہ ہیں اہل سنت و الجماعت کے، کچھ اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں یزید کو کہ لعنتی ہے، وہ لعنتی کہتے ہیں، وہ بھی غلط نہیں ہیں اس کی وجہ کہ ایک حدیث شریف ہے کہ جس نے آپ ﷺ کی آل کی حرمت کو زائل کیا یا انہوں نے کوئی مطلب جو ہے ناں دین میں کوئی تبدیلی یا کوئی اور، مختلف چار پانچ باتیں ہیں تو ان پہ لعنت ہے اللہ کی اللہ کے رسول اور فرشتوں کی، ٹھیک ہے ناں؟ تو یزید میں تین باتیں تھیں اس قسم کی، لہٰذا وہ اس بنیاد پہ کرتے ہیں۔ لیکن کچھ علماء کرام اہل سنت کے وہ کہتے ہیں خاموش رہنا چاہئے، شیطان پر بھی لعنت نہیں کرنی، ذکر کرنا چاہئے۔ تو لہٰذا جو اس گروہ میں بھی ہے، ٹھیک ہے، جو اس گروہ میں بھی ہے، ٹھیک ہے، کوئی لعنت کرتا ہے اس کو بھی ہم غلط نہیں کہتے، مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ لعنت کرتے ہیں، مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خاموش رہتے تھے، بس ٹھیک ہے جی صحیح بات ہے۔ آپ دونوں میں سے جس کے پیچھے بھی چلیں تو کوئی بات نہیں، لیکن یہ بات یاد رکھو! جس نے کہا یزید سیدنا یزید، جس نے یزید کو حق پہ کہا، ان کو ناصبیوں میں سے شمار کیا جائے گا، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ کیوں کہ صحابہ کے خلاف ہوگیا ناں، ان کو کس میں شمار کیا جائے گا؟ ناصبیوں میں شمار کیا جائے گا۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے بچنا چاہئے۔ اس قسم کی باتیں چونکہ چل پڑی ہیں اس وجہ سے مجبوراً مجھے کہنی پڑتی ہیں، ورنہ صحیح بات ہے ضرورت ہی کیا ہے ان باتوں پہ بات کرنے کی، لیکن اب چونکہ یہ باتیں چل پڑی ہیں لہٰذا مجبوراً یہ بات سمجھانی پڑتی ہے: ’’اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ‘‘ ’’صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں‘‘۔ لہٰذا ہم تو صحابہ کے ساتھ ہیں اور صحابہ، صرف صحابہ کا نام لیا جائے اس میں تینوں گروہ شامل ہیں، وہ کیا ہیں؟ عام صحابہ، اہل بیت اور امھات المؤمنین یہ تینوں گروہ شامل ہیں اور اگر صرف کہا جائے جیسے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا امھات المؤمنین میں بھی ہیں صحابیہ بھی ہیں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا، ہاں! اہل بیت میں سے بھی ہیں صحابہ میں بھی ہیں۔ لہٰذا ہم لوگ سب کے ساتھ ہیں اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ان کے ساتھ رکھے، ان کے ساتھ رکھے، کیوں؟ قیامت میں اگر ان میں سے کسی صحابی کے ساتھ بھی ہم ہوگئے ناں! بس کام بن گیا، کام بن گیا، کیونکہ صحابی کن کے ساتھ ہوں گے؟ آپ ﷺ کے ساتھ ہوں گے اور ہم کن کے ساتھ؟ ہم صحابی کے ساتھ، لہٰذا کام بن گیا ناں ہمارا۔ اور خدانخواستہ صحابہ کے خلاف بات کی، تو بات سنو! قرآن شریف میں صاف صاف باتیں ہیں صاف صاف باتیں ہیں، قرآن پاک کی وہ آیت جو فرمایا کہ کونپل نکلی اور پھر مضبوط ہوگئی اور کھڑی ہوگئی ہاں جی اور پھر فرماتے ہیں اللہ پاک صحابہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں: ﴿لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ﴾ (الفتح: 29) تاکہ کفار کے دل جلیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے جو استدلال کیا وہ ہضم کرنے میں بہت مشکل ہے، لیکن ہے۔ وہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں جو صحابہ کی تعریف پہ جلتا ہے یہ کفار کے ساتھ ہے، یہ کفار کے ساتھ ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ کیونکہ قرآن کی نص موجود ہے ناں: ﴿لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ﴾ (الفتح: 29) اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس لئے صحابہ کی تعریف کررہا ہوں تاکہ کفار کے دل جلیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی صحابہ کے مخالفین کے ساتھ نرم گوشہ نہیں اختیار کرنا چاہئے، ہاں! بلاوجہ ہم ٹکر بھی نہیں لیتے، بلاوجہ ہم کوئی مسئلہ بھی نہیں کرتے، بلاوجہ ہم کوئی شور بھی نہیں کرتے، لیکن اگر کوئی صحابی کے خلاف بات کرتا ہے تو ہم بیغیرت بن کر ان کو سنتے رہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہمارے باپ کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو ہم چھوڑتے ہیں اس کو؟ ظاہر ہے ہمارے ماں باپ ان سب پر قربان ہوں، لہٰذا ہم کیسے جو ہے ناں مطلب اس میں خاموش رہ سکتے ہیں، وہاں پر ہم چپ نہیں رہیں گے وہاں پر ہم چپ نہیں رہیں گے، کم از کم ان کو بتائیں گے کہ صحابہ کرام، ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے اس معاملہ میں کچھ بات نہ کرو، کرو گے تو زبان تمہاری گنگ ہوسکتی ہے، معاملہ تمہارا خراب ہوسکتا ہے، یہ بہت مشکل والی بات بن جاتی ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام جو ہیں ناں کیا ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رشتہ دار تھے وہ ایک صاحب تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ہے ناں کچھ برا بھلا کہا، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کچھ سخت بات کہی، انہوں نے کہا آپ مجھے یہ بات کردیں تاکہ جو ہے ناں بدلہ ہوجائے، وہ کہتے ہیں: میں تو نہیں کرسکتا، میں تو نہیں کرسکتا۔ تو ان کی شکایت جاکر آپ ﷺ سے کی کہ یا رسول اللہ حضرت ابوبکر صدیق مجھے یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں، تو انہوں نے کہا جی کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا جی میں کیسے کہوں؟ آپ نے کہا ہاں! آپ نے اچھا کیا، وہ ٹھیک ہے کہنا تو نہیں چاہئے، کہنا تو نہیں چاہئے، لیکن تم کہہ دو: میرے بھائی میں نے تجھے معاف کردیا، تو اس پر تجھے اجر مل گیا۔ یہ بات اس نے کرلی تو ان کے رشتہ دار تھے، قبیلے والے کہتے ہیں کمال ہے بات بھی خود ہی پھر ناراض ہوکر شکایت بھی کردی، خدا کے بندو! تم کن کی بات کررہے ہو، تم بات کررہے ہو ابوبکر کی، ابوبکر آپ ﷺ کا یار ہے اگر میں نے ابوبکر کے خلاف بات کی تو یہ بات آپ ﷺ پہ جائے گی اور آپ ﷺ کے خلاف بات جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف جائے گی، پھر میری کون سی جگہ ہے میری بچت کی کون سی جگہ ہوگی۔ لہٰذا پھر میں بچ نہیں سکتا، تو میں اس وجہ سے ان کے خلاف کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ تو بات یہی ہے کہ صحابہ بھی صحابہ کا اس طرح خیال رکھا کرتے تھے، تو ہم ان کا خیال نہیں رکھیں گے؟ اس وجہ سے ہم کسی کے مخالف نہیں ہیں، لیکن جو صحابہ کا مخالف ہے پھر معاملہ مختلف ہوجاتا ہے، سمجھ میں آگئی ناں؟ اور صحابہ ہم کن کو سمجھتے ہیں؟ تینوں کو، کوئی اہل بیت کے خلاف بھی بات کرے پھر بھی ہم ان کے مخالف، کوئی امہات المؤمنین کے خلاف بات کرے پھر بھی ہم ان کے مخالف، اس کی وجہ کیا ہے؟ تینوں صحابہ ہیں تینوں گروہ صحابہ ہیں، ہم سب کے ساتھ ہیں ہم سب کے تابع ہیں ہم سب کے فرمانبردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ کردے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔