محرم الحرام کی دینی و تاریخی حیثیت

آن لائن بیان برائے رفاہ یونیورسٹی

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان محرم الحرام کی دینی اور تاریخی اہمیت کو بیان کرتا ہے، جس میں عاشورہ کے روزے کی فضیلت اور اہل و عیال پر خرچ کرنے سے رزق میں وسعت کا ذکر ہے۔ بیان میں اس ماہ سے وابستہ افراط و تفریط سے بچنے پر زور دیا گیا ہے، بالخصوص واقعۂ کربلا کے حوالے سے۔ دین کی مکمل تعلیمات کے تین بنیادی ذرائع بیان کیے گئے: عام صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ، اور امہات المؤمنینؓ۔ ان تینوں گروہوں کا احترام اور ان سے محبت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا۔ حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی یزید کے فسق کے خلاف حق کے لیے تھی، تاہم اس کی وجہ سے صحابہؓ پر تنقید کرنا گمراہی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام مقدس ہستیوں سے یکساں محبت رکھے تاکہ فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ O فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ O وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ O فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ (القارعۃ: 6-9) صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ

معرز خواتین و حضرات یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے ماہِ محرم الحرام۔ محرم الحرام محترم مہینوں میں ہے۔ اس کی جیسے ایک دینی حیثیت ہے، جیسا کہ ابھی ان شاء اللہ عرض کیا جائے گا۔ اسی طرح اس کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ وہ بھی ساتھ عرض کی جائے گی، تاکہ اس کے بارے میں ہم وہ چیزیں جان سکیں جو ایک عام مسلمان کو جاننی چاہئیں تاکہ وہ غلط فہمیوں سے بچ سکے اور صحیح سوچ و فکر اس کی پیدا ہو سکے۔

سب سے پہلے تو عاشورہ کے بارے میں عرض کروں گا چوںکہ اس ماہ میں عاشورہ کا دن بھی آتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1163)

ترجمہ: ’’رمضان کے بعد سب روزوں میں افضل اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم (کا روزہ) ہے‘‘۔

یعنی محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا رمضان کے سوا باقی سب مہینوں کے روزوں سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔

رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ، اَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1162)

ترجمہ: ’’میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشورہ کے دن کا روزہ پہلے والے ایک سال (جو گزر چکا ہو) کے (چھوٹے) گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے‘‘۔

’’كَانَ عَاشُورَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2002)

ترجمہ: ’’عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے‘‘۔

اس حدیث سے پتا چلا کہ رمضان شریف سے پہلے یہ روزہ رکھا جاتا تھا، اور جس وقت رمضان شریف مہینہ فرض ہو گئے تو اس کے بعد اختیار دے دیا گیا کہ کوئی رکھے یا کوئی نہ رکھنا چاہے۔ اس سے پتا چلا کہ یہ مستحب ہے، اس کی فرضیت ختم ہوگئی ہے، اب یہ مستحب ہے۔ البتہ یہ طریقہ ہے کہ جو چیز پہلے فرض ہو، بعد میں اس کو مستحب قرار دیا گیا ہو تو اس کی value بہت زیادہ ہوتی ہے باقی نوافل کے مقابلہ میں۔ تو یقیناً جیسا کہ پہلے حدیث شریف میں گزرا کہ اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے یہ بخاری شریف کی حدیث شریف ہے۔

اس میں ایک بات اور بھی ہے، ایک حدیث شریف رہ گئی ہے وہ حدیث یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یہود کی مخالفت کرو اس میں، اس سے ایک دن پہلے کا روزہ ساتھ رکھو یا ایک دن بعد کا روزہ رکھو۔‘‘ (فیض القدیر، حدیث نمبر: 5068)

اس میں بہت بڑا علم ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے وہاں مدینہ منورہ کے یہودیوں سے پوچھا تھا کہ آپ لوگ یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ کیونکہ وہ پہلے رکھتے تھے، تو انہوں کہا کہ اس دن میں موسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو آزادی حاصل ہوئی تھی فرعون سے، اس وجہ سے ہم اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تو ہمارا زیادہ حق بنتا ہے موسیٰ علیہ السلام پر، کیونکہ موسیٰ علیہ علیہ السلام تو ہمارے ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1130) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مشابہت نہیں ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن پہلے کا یا ایک دن بعد کا روزہ اس کے ساتھ ملا لیا جائے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1134) تو پھر ظاہر ہے یہ ہمارا طریقہ ہوجائے گا۔ تو اس طریقے سے ہم روزہ رکھیں گے تو مشابہت بھی نہیں ہوگی اور ساتھ ساتھ اس کا جو اجر ہے وہ بھی ہمیں ملے گا۔

ایک اور بات جو آپ ﷺ نے عاشورہ کے بارے میں یہ ارشاد فرمائی، وہ یہ ہے کہ:

’’مَنْ وَّسَّعَ عَلٰى عِيَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ يَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللّٰهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح، حدیث نمبر: 1926)

ترجمہ: ’’جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشوراء کے دن، فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رزق میں تمام سال‘‘۔

جیسا کہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں کہ آپ نے مدینہ منورہ کے یہودیوں سے یہ بات معلوم کی تھی اور پھر اس کے بعد یہ فرمایا تھا۔ تو ہم لوگ بھی یہودیوں کے ساتھ مخالفت کریں، اور ساتھ ہم لوگ یہ روزہ بھی رکھیں۔

اب اس میں ایک بہت اہم بات جو میں عرض کرنے والا ہوں، اس کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں۔ یہ تو اس کی ایک دینی حیثیت ہے کہ رمضان شریف کے روزے جب فرض ہوگئے تو اس کے بعد جو عاشوراء کا روزہ ہے اس کو رکھا جاتا ہے لیکن مستحب کے درجے میں، لیکن بہت اعلیٰ درجے کا مستحب ہے۔

اور اس میں بات ہے کہ اگر اپنے عیال پر خرچ کیا جائے، تو پورے سال میں وسعت اللہ تعالیٰ نصیب فرماتے ہیں۔

یہ تو اس کی ایک دینی حیثیت ہوگئی۔ لیکن اس کی جو تاریخی حیثیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں چونکہ ایک تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ وفات ہے یکم محرم، وہ گزر گیا ہے۔ اور دوسرا یہ جو عاشوراء کا دن ہے نو دس یا دس گیارہ، وہ تو ہے، لیکن اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت بھی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ یہ واقعہ اگرچہ کسی بھی مہینہ میں ہو سکتا تھا۔ یہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں ہے کہ یہ واقعہ محرم میں ہوگیا۔ لیکن چونکہ یہ محرم میں ہوا، تھا تو محرم کا جو مہینہ ہوتا ہے اس کے ساتھ کچھ تاریخی واقعات وابستہ ہوگئے۔ اس اِفراط و تفریط بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اور افراط و تفریط سے نکلنا، یہ بہت ہی اہم کام ہے۔ تو آج میں کوشش کروں گا کہ آپ کے سامنے اس چیز کو واضح کردوں کہ جو افراط و تفریط ہے وہ کیا ہے، اور اس سے کیسے ہم نکلتے ہیں۔

تو اس کی وجہ بات یہ ہے کہ آپ ﷺ چونکہ اللہ پاک کے اسم ھادی کے مظہر ہیں یعنی ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف سے آتی ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے پھر امت کی طرف آتی ہے اور امت تک پہنچنے کے لئے تین راستے بن گئے تھے۔ ایک تو یہ ہے کہ عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، دوسرا اہلِ بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور ساتھ یہ ہے کہ امھات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔ یہ تینوں جو راستے ہیں، یہ بہت اہم ہیں۔ اب اس میں اگر افراط تفریط ہوجائے، تو اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ کیسے نقصان ہوتا ہے؟ وہ یہ بات ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے بارے میں آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ ہیں، جیسا کہ ابھی ان شاء اللہ! آئیں گے، ہر گروہ کے بارے میں ہیں۔ تو اگر کسی کے اوپر خاص گروہ کی محبت غالب ہے اور اس کی وجہ سے کسی اور گروہ کو چھوڑ رہا ہے یا ان کے ساتھ بغض رکھ رہا ہے، تو اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ دو قسم کا نقصان ہے، ایک نقصان تو یہ ہے کہ صرف ان کو چھوڑے یعنی ان سے روایت نہ لیں، ان سے جو دین پہنچا ہے، اس کو قبول نہ کریں، تو یہ ناقص دین لے رہے ہیں یعنی گویا کہ پورا دین نہیں لے رہے، کیونکہ پورا دین جو ہے، وہ تینوں سے جب لیں گے، تو پھر ہوسکتا ہے، لیکن اگر ہم کسی سے لیتے ہیں اور کسی سے نہیں لیتے، تو اس کا مطلب ہے ناقص دین لے رہے ہیں، لیکن خدانخواستہ مثال کے طور پر کوئی صحابہ سے لے رہا ہے، لیکن اہل بیت سے نہیں لے رہا، اہل بیت سے لے رہا ہے، لیکن صحابہ سے نہیں لے رہا یا امھات المومنین سے نہیں لے رہے، تو اس کا نقصان یہ ہوا کہ ظاہر ہے وہ حصہ جو دین کا ان کے ذریعے سے آتا ہے، اس سے محروم ہوجائے گا۔ تو یہاں تو صرف نقصان کی بات ہے، لیکن خدانخواستہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کے مخالف ہوجائے اور اپنی محبت کی وجہ سے یہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی کرلے، تو یہ تباہی کی بات ہے، کیونکہ ہر گروہ کے بارے میں چونکہ آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ موجود ہیں، تو گویا کہ ان کے بارے میں جو ارشادات ہیں، ان سے منکر ہے، گویا کہ آپ ﷺ کے ان ارشادات سے منکر ہے، نتیجتاً وہ کچھ بھی نہیں لے سکے گا اور خائب و خاسر ہوگا۔ لہٰذا ہم لوگوں کو کم از کم اتنا سمجھنا چاہئے کہ تینوں گروہ جن کے بارے میں قرآن پاک میں بھی بالکل وضاحت کے ساتھ آیا ہے اور ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی طرف سے حدیث شریف میں بھی آیا ہے، تو ہم لوگ اس کو جاننے کی کوشش کریں۔ اس وجہ سے میں یہاں تینوں گروہ کے بارے میں کچھ عرض کروں گا، اس کے بارے میں اصل واقعات کی طرف آؤں گا کہ ہوا کیا ہے اور اس میں ہم لوگوں کو کیا نظریہ رکھنا چاہئے۔

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(التوبہ: 100)

ترجمہ: ’’اور مہاجرین و انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ اُن سب سے راضی ہوگیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے‘‘۔

یہ سورۃ توبہ میں آتا ہے۔ تو ان میں مہاجرین اور انصار کون ہیں؟ ظاہر ہے وہ صحابہ کرام ہی تھے۔ تو لہٰذا صحابہ کرام کے بارے میں یہ ارشاد مبارک قرآن پاک میں موجود ہے۔ تو صحابہ کرام کی تین قسمیں جیسے میں عرض کرچکا ہوں، عام صحابہ اور صحابیات ہیں، اہل بیت ہیں، امھات المومنین ہیں، ان تینوں گروہوں کو ماننا بھی ہوگا، ان کی طرف سے آیا ہوا دین اس کو لینا بھی ہوگا، ان کے ساتھ محبت بھی کرنی ہوگی، کیونکہ آپ ﷺ کی نسبت ان سب کے ساتھ شامل ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے صحابہ کرام کے لئے اپنی رضا کا اعلان کیا، ان سے جنت کا وعدہ کیا ہے:

﴿وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى (الحدید: 10)

ترجمہ: ’’اور اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے‘‘۔

﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ(التحریم: 8)

ترجمہ: ’’اس دن، جب اللہ نبی کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو رُسوا نہیں کرے گا‘‘۔

صحابہ کرام کے ایمان صادق کو اللہ تعالیٰ نے باقی لوگوں کے لئے معیار قرار دیا ہے۔ یہ دیکھیں! یہ دو طرح سے ثابت ہے، ایک تو حدیث شریف اور ایک یہ آیت کریمہ ہے۔ آیت کریمہ:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ (البقرہ: 137)

ترجمہ: ’’پھر اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم لائے ہو، تو یہ راہِ راست پر آ جائیں گے‘‘۔

تو اب ظاہر ہے مخاطب اس وقت کون تھے؟ صحابہ کرام تھے۔ گویا کہ صحابہ کرام کا جو ایمان لانا ہے، وہ معیار ہے دوسرے لوگوں کے ایمان لانے کے لئے کہ ان کی طرح اگر کوئی ایمان لائے گا تو وہ قبول ہوگا، ان کی طرح نہیں لائے گا تو وہ قبول نہیں ہوگا۔ صحابہ کرام کا جو راستہ ہے، اس کو جو لوگ چھوڑیں گے، تو اللہ پاک نے ان کو جہنم کی وعید سنائی ہے:

﴿وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا(النساء: 115)

ترجمہ: ’’اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مؤمنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کر دیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اللہ رب العزت نے اپنے سب سے پیارے نبی کے اصحاب اور ساتھی ہونے کا شرف سے نوازا ہے:

﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى(النمل: 59)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر!) کہو: ’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے‘‘۔

اس آیت میں اللہ پاک نے جن بندوں پر سلام بھیجا، ان کو برگزیدہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کہنا ہے کہ ان سے مراد صحابہ کرام ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لئے منتخب فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

’’اِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ‌صَلَّی ‌اللہُ ‌عَلَیْہِ ‌وَآلِہٖ ‌وَسَلَّمَ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہٖ فَابْتَعَثَہٗ بِرِسَالَتِہٖ ثُمَّ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ فَوَجَدَ قُلُوْبَ اَصْحَابِہٖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَہُمْ وُزَرَاءَ نَبِیِّہٖ یُقَاتِلُوْنَ عَلٰی دِیْنِہٖ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَیِّئٌ‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 3600)

ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی، تو محمد ﷺ کے قلب کو سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، پھر اللہ نے ان کو اپنے لئے چن لیا اور ان کو اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر قلبِ محمد ﷺ کے بعد بندوں کے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمد ﷺ کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، تو ان کو اپنے نبی ﷺ کا وزیر بنا دیا۔ وہ اس کے دین کی حفاظت کے لئے قتال کرتے ہیں۔ پس جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں، تو وہ اللہ کے نزدیک بھی بُری ہے‘‘۔

صحابہ کرام نے رسول کریم ﷺ کی ایک ایک سنت کو یاد کیا اور اسے امت تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا:

﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ، عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف: 108)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر!) کہہ دو کہ: ’’یہ میرا راستہ ہے۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے، وہ بھی‘‘۔

تو یہ صحابہ کرام کا بالکل ہر چیز میں ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ امتوں میں اکہتر فرقے یہود میں بن گئے تھے، بہتر نصاریٰ میں ہوگئے اور میری امت میں عنقریب تہتر ہوجائیں گے، صرف ایک نجات پائے گا۔ تو آپ ﷺ سے پوچھا گیا یارسول اللہ! وہ کون ہوں گے؟ فرمایا:

’’مَا اَنَا عَلَيْهِ وَ اَصْحَابِيْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2641)

ترجمہ: ’’جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا‘‘۔

تو اس سے بھی پتا چلا کہ آپ ﷺ کے طریقہ کی جو پیروی صحابہ کرام نے کی ہے، وہی ہمارے لئے معیار ہے، ہم بھی اسی طریقے سے کریں گے۔ اور آپ ﷺ نے انتہائی اور بہت ہی زیادہ پرزور انداز میں بات فرمائی ہے، جو کہ تقریباً ہمارے خطبوں میں جمعہ کے دن پڑھی جاتی ہے:

’’اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ اٰذَاهُمْ فَقَدْ اٰذَانِيْ، وَمَنْ اٰذَانِيْ فَقَدْ اٰذَى اللّٰهَ، وَمَنْ اٰذَى اللّٰهَ فَيُوْشِكُ أَنْ يَأْخُذَهٗ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3862)

ترجمہ: ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدفِ ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذا پہنچائی، اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے عذاب میں پکڑ لے گا‘‘۔

مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام کے بارے میں بہت محتاط ہونا چاہئے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام صرف صحابہ کرام کے لحاظ سے جب اس کا تذکرہ آجائے، تو اس میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں یعنی عام صحابہ بھی شامل ہوتے ہیں، اہل بیت بھی شامل ہوتے ہیں اور امھات المومنین بھی شامل ہوتی ہیں یعنی یہ سب کے لئے عام ہے، لیکن اگر صرف اہل بیت کا ذکر آئے یا امھات المومنین کا تو پھر صرف وہی مراد ہوں گی۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا جو فتویٰ ہے، وہ ذرا کافی شدید ہے اور وہ فرماتے ہیں: محمد اللہ کے رسول ہیں، جو ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں۔ (یہ قرآن پاک کی آیت کے بارے میں ہے) اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ تم دیکھو کبھی رکوع میں، کبھی سجدہ میں، غرض اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، ان کی علامات سجدہ سر اور چہرے پہ نمایاں ہیں، یہ ان کے وہ آثار ہیں جو تورات میں مذکور ہیں اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی ہو، جس نے اپنی کونپل نکال کر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ ان کی ترقی سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے، انہوں نے نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے۔

تو ان کی شان کو بیان کرنا اور ان کو قوت دینے پر اللہ کافروں کو چڑاتا ہے (یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں) شان صحابہ پر غصہ ہونے والا کافر ہوجاتا ہے۔ یہ فتویٰ ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر)

اب خلفاء راشدین کے بارے میں بھی روایات ہیں، میں سب اگر بیان کروں گا تو ٹائم بہت لگے گا، لیکن تھوڑا سا بتا دوں۔

حدیث میں ہے: ’’مسجد نبوی کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3654)

حدیث میں ہے: ’’اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا، تو ابوبکر کو بناتا‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 467)

آپ ﷺ نے بشارت دی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہ آپ کو جنت کے ہر دروازہ سے پکارا جائے گا کہ آپ جنت میں آجائیں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3666)

اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’ اے اللہ! عمر بن الخطاب یا عمر بن ہشام میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو، اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3681)

تو چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد مسلمان بیت اللہ میں نماز پڑھنے لگے، تو غلبہ ہوگیا۔

حدیث میں ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو رکھ دیا ہے‘‘۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر: 3682)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دور بھاگتا ہے‘‘۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر: 3691)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین دفعہ جنت خریدی۔

آپ ﷺ کے بقول فرشتے بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حیا کرتے تھے۔ (مشکوۃ، حدیث نمبر: 6069)

نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3716)

اب اہل بیت کے بارے میں کچھ بات کروں گا، کیونکہ جیسے میں نے عرض کیا کہ ان تینوں کے بارے میں معلوم ہونا ضروری ہے، تاکہ ہم لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ یہ اصل بات کیا ہے اور اس میں افراط تفریط کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ تو کچھ باتیں ایسی ہیں، جو صرف گھر والوں کو معلوم ہوسکتی تھیں، اس لئے دین کی تکمیل کے لئے اہل بیت کی روایت سے استفادہ لازم ہوا۔ خلفاء راشدین کے بعد اہل بیت سب صحابہ سے افضل ہیں، اس کی روایت موجود ہے۔ دین کے ظاہر کی خدمت خلفاء راشدین سے لی گئی اور دین کے باطن کی خدمت اہل بیت سے لی گئی، اس لئے تصوف کے تمام سلسلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے شروع ہوتے ہیں۔ دین کے ظاہر کی خدمت کرنے والے سارے فقہاء کرام کا قلبی تعلق اہل بیت کی اولاد کے ساتھ تھا۔ میں آپ کو عرض کرتا ہوں کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کا تعلق تھا اور حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے بیٹے تھے، ان کے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق تھا اور اس طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا جو اہل بیت تھے ان کے ساتھ تعلق تھا۔ تو پتا چل گیا کہ ہمارے جتنے امام ہیں، سب نے اس بات کو مانا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں، جیسا کہ آگے ایک روایت آرہی ہے۔

محرم کے مہینہ کا اہل بیت کے ساتھ جو تعلق ہے، وہ کیا ہے؟ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت عاشورہ کے دن ہوئی، تو بعض کو غلط فہمی ہوئی کہ جو عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا ہے، وہ اس وجہ سے ہے، حالانکہ یہ آپ ﷺ کے وقت سے تھا۔ یہ خود مجھ سے پوچھا ہے ایک صاحب نے، تو مجھ سے کہا کہ آپ عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ ﷺ سے منقول ہے اور آپ ﷺ بھی رکھتے تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ بھی۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں تو بتایا گیا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خوشی میں رکھتے ہیں۔ میں نے کہا ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ یہ کوئی عجیب بات ہے، مطلب کسی کو خوشی ہوسکتی ہے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے؟ کیسی عجیب بات ہے۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجبوری تھی، ان کے لئے ضروری تھا کہ یزید کے فسق کی وجہ سے ان کے خلاف ان کو تسلیم نہ کرے، اس کے لئے انہوں نے اتنی بڑی قربانی دی کہ اس حد تک ان کے ساتھ پریشانی ہوگئی اور ان کے خاندان کے ساتھ۔ اب ایک چیز میں عرض کرنا چاہوں گا، ایک حدیث شریف ہے، جس کی تخریج ابو داؤد، ابن ماجہ اور حاکم نے اپنی مستدرک نے کی ہے اور اس کو صحیح بتایا ہے، اس میں تقدیر کے منکر، ظلم سے حکومت حاصل کرنے والے، جس کے ذریعے وہ معزز کو ذلیل اور ذلیل کو معزز کرتا ہے اور اللہ کے حرام کو حلال کرنے والا اور آپ ﷺ کی اولاد کی حرمت کو حلال کرنے والے اور تارک سنت پر لعنت کی گئی ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث شریف کو ’’شرح تراجم ابواب بخاری‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اس وجہ سے جو یزید ہے، اس کے فسق کے اوپر ہمارے جو اکابر ہیں، وہ سب متفق ہیں کہ وہ فاسق تھا، کافر نہیں تھا، جو اس کو کافر کہتا ہے، وہ زیادتی کرتا ہے، کافر نہیں تھا۔ البتہ فاسق تھا، کیونکہ اس کی جو گمراہی تھی، وہ علی الاعلان تھی اور اس کے دور میں خانہ کعبہ پہ بھی سنگ باری ہوئی اور جو مدینہ منورہ ہے اس پہ بھی ظالمانہ انداز میں قبضہ کیا گیا تھا اور تین دن تک مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے اور اس طرح بہت سارے صحابہ کرام کی اولاد کو شہید کیا گیا، جو واقعہ حرہ کہلاتا ہے اور باقاعدہ ان کی قبریں جو ہیں، جنت البقیع میں موجود ہیں۔ تو گویا کہ حرم شریف، مکہ مکرمہ کی بھی حرمت کو زائل کرنے والا ہے، مدینہ منورہ کی بھی اور آپ ﷺ کی اولاد کی بھی۔ اس لئے جو حضرات ان پہ لعنت کرتے ہیں، اس بنیاد پر کرتے ہیں، لیکن بعض حضرات نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں شیطان پر بھی لعنت کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کا ذکر کرنا چاہئے۔ تو وہ بات صحیح ہے کہ جو لوگ سکوت کرتے ہیں ان کی بھی اپنی رائے ہے اور جو لوگ سکوت نہیں کرتے تو وہ بھی ان کی بھی اپنی رائے ہے، لیکن ان کو غلط نہیں کہا جاسکتا، ان میں سے کسی کو غلط نہیں کہا جاسکتا، اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ سکوت والے ہیں، ان سے جب کہا گیا کہ یزید نے تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا، یہ تو ان کے جو لشکری تھے انہوں نے کیا تھا، تو حضرت نے فرمایا اس کے پاس یہ اختیار تو تھا کہ ان سے بدلہ لے لیتے، جنہوں نے اس طرح کیا تھا ان کے حکم کے بغیر، لیکن انہوں نے ان کو کہا تو کچھ نہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ سکوت والے وہ بھی اس چیز کو جانتے ہیں۔

حدیثِ ثقلین موجود ہے، اس میں فرماتے ہیں کہ بے شک میں دو امانتیں تمھارے درمیان میں چھوڑے جارہا ہوں، انہیں قبول کرو تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، خدا عزوجل کی کتاب اور میرے اہل بیت (اور میرے عترت) اے لوگو! سن لو میں تمھیں حقیقت پہنچا چکا، تم میرے پاس حوض کے کنارے لوٹا دیا جاؤ اور میں ان دونوں بھاری اور ان گراں بہا امانتوں کے ساتھ تمھارے برتاؤ کے بارے میں تم سے بات کروں گا، ان دو بھاری امانتیں کتاب خدا اور میرے اہل بیت ہیں، بس ان سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو، انہیں کچھ سکھانے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ تم سے زیادہ عالم اور دانا ہیں۔

یہ حدیث ثقلین جو ہے، یہ ایک مشہور اور متواتر حدیث شریف ہے اور اس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان اللہ کی کتاب اور عترت (اہل بیت) چھوڑ رہا ہوں، قرآن اور اہل بیت قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور فرمایا (سن نسائی میں) کہ گویا کہ مجھے خالق یکتا نے بلایا اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی، (اور میرا وقتِ وصال آن پہنچا ہے) میں تمھارے درمیان میں دو گراں بہا امانتیں جن میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے، وہ کتاب اللہ ہے۔ اور میرے عترت جو میرے اہل بیت ہی ہیں۔ بس دیکھو! کہ ان کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہو، کیونکہ وہ کبھی جدا نہیں ہوتے حتیٰ کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 3788)

اب ایک اور روایت ہے، جس کو مسند احمد نے روایت کی ہے، فرمایا: ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے کعبہ کے دروازے کو پکڑ کے یوں بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یاد رکھو تمھارے حق میں میرے اہل بیت کی وہی اہمیت ہے، جو نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہوگیا، اس نے نجات پائی اور جو شخص اس کشتی میں سوار ہونے سے رہ گیا، وہ ہلاک ہوگیا۔ (معجم صغیر، حدیث نمبر: 868)

اس پر میں مزید تبصرہ نہیں کرتا، بات لمبی ہوجائے گی، صرف اتنا عرض کروں گا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بہت عجیب تشریح کی ہے، عاشقانہ تشریح کی ہے، انہوں نے فرمایا ہے کہ چونکہ کشتیٔ نوح سے مماثلت ہے اہل بیت کی جو محبت ہے، تو ہم کشتیٔ نوح میں (اہل بیت کی محبت کی کشتی میں) بیٹھ گئے اور چونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

’’أَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ، فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6018)

ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی اتباع کرو گے، تو ہدایت پا لو گے‘‘۔

تو آپ ﷺ کے صحابہ کے طریقے میں ہم ہدایت تلاش کرتے ہیں، گویا کہ راستہ ان کا اپنا لیتے ہیں، اور کشتی اسی طرف جارہی ہوتی ہے جو صحابہ کرام نے بالخصوص خلفاء راشدین نے وضع فرمایا ہے، اس کے اوپر چلتے ہیں۔ تو دیکھو! دونوں چیزوں کو جمع کردیا اور واقعتاً ایسا ہی ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام کے طریقے پہ چلنا چاہئے اور اہل بیت کے ساتھ محبت ہونی چاہئے۔

آگے امھات المؤمنین کے بارے میں ہے، لیکن اہل بیت کے بارے میں اتنی بات عرض کروں کہ اہل بیت کے ساتھ محبت بہت ضروری ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے، تو اس وجہ سے ہمارے جتنے بھی یعنی چاروں امام ہیں، وہ سب ان کے ساتھ تھے، جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے اور امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ تو اب ذرا غور فرمایئے کہ دیکھیں! امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ دو سال جو میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گزارے تھے، اگر وہ نہ گزارے ہوتے، تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔ تو گویا کہ ان کے ساتھ کو حضرت اتنی importance دے رہے ہیں، اتنی اہمیت دے رہے ہیں کہ اگر میں ایسا نہ ہوتا تو پھر ہلاک ہوجاتا، بلکہ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ مسجد نبوی میں حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے لوگ مسئلہ پوچھ رہے تھے، وہ جواب دے رہے تھے، کسی نے کان میں کہا کہ یہاں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، تو وہ ڈر گئے اور ڈرتے ڈرتے حضرت کے پاس پہنچ گئے اور پوچھا کہ حضرت! آپ بھی ادھر ہیں؟ تو آپ آجایئے مسند پر تشریف فرما ہوجایئے اور آپ سے لوگ پوچھیں گے اور ہم اس کے جواب سنیں گے، تو حضرت نے فرمایا نہیں نہیں، میں نے آپ کے جوابات سن لئے، آپ کے جوابات ہمارے آباؤ اجداد کے جوابات سے مختلف نہیں ہیں، آپ جوابات دیتے رہیں۔ یہ اتنی بڑی سند ہے حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے، جس کا ما شاء اللہ ہم بہت زیادہ شکر کرتے ہیں کہ ہم حضرت ہی کے طریقہ پر ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو اہل بیت کے ساتھ رہنا، اہل بیت کے ساتھ ہونا اور پھر اہل بیت کے ساتھ محبت رکھنا یہ دونوں باتیں اہم ہیں۔ اب میں امھات المومنین کے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات جو مومنین کی مائیں ہیں، ان کا احترام واجب ہے۔ تو فرمایا: ﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ﴾ (الأحزاب: 6) اور اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کو دگنا اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور نیک عمل کرتی رہے گی، اس کو ہم دوگنا ثواب دیں گے، اس کے لئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔

ازواج مطہرات عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، بلکہ ان سے کہیں زیادہ بہتر اور افضل ہیں، جیسا کہ فرمایا:

﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ(الاحزاب: 32)

ترجمہ: ’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘۔

کچھ باتیں آپ ﷺ کی ایسی ہیں، جو صرف ازواج مطہرات کو ہی معلوم ہوسکتی ہیں، جیسا کہ میاں بیوی کی آپس میں باتیں ہوتی ہیں اور میاں بیوی کے رشتے کے لئے تمام امت کو اس کا جاننا ضروری تھا، تو یہ علم صرف امھات المومنین کو ہی حاصل تھا، لہٰذا انہوں نے اس کو بیان کردیا اور بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جو علم تھا، وہ ان تمام صحابیات سے زیادہ تھا اور اس کا جو حصہ تھا، وہ سب سے زیادہ تھا، اس وجہ سے اکابر صحابہ جو تھے، وہ بھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایسے مسئلے پوچھا کرتے تھے، بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا، جیسے میں نے ذکر کیا، ان کی فضیلت بہت زیادہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ان کی فضیلت ایسی ہے، جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔ عہد نبوی ﷺ میں ثرید کو تمام کھانوں میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے 2210 احادیث رسول کریم ﷺ کی مروی ہیں، جبکہ ان میں سے 174 متفق علیہ ہیں، جن کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں، امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کی ہیں، امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایتیں 174 لی ہیں، جن میں امام بخاری 54 اور امام مسلم 69 میں منفرد ہیں اور 2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت عائشہ میں لکھا ہے کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرف مسلم، امام احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کی تعداد 2524 ہے۔

اب میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ چونکہ یہ ایک بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو ایسی ہر چیز سے بچا دے جس سے ہمیں نقصان ہوتا ہو۔ اس وجہ سے پھر میں نے اس کے اوپر کچھ کلام لکھا ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان کے بارے میں، اہل بیت کی شان کے بارے میں اور امھات المومنین کی شان کے بارے میں۔ یہ میں آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، آپ کبھی کبھی اس کو پڑھ لیا کریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ماشاء اللہ! ایسی چیزوں سے انسان کا دل متأثر زیادہ ہوتا ہے، تو ہم لوگ بھی اس کو سن سکتے ہیں۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان کے بارے میں۔

صحابہ کی شان میں بیان کیا کروں

کہ قرآن میں اس کا بیان ہو چکا ہے

صحابہ کا راستہ ہدایت کا معیار

طریقہ نبی یعنی سنت کا معیار

حب ان کا نبی کی محبت کا معیار

ستارے ہدایت کے ہیں صحابہ، مقام ان پر عیاں ہو چکا ہے

یہ حبِ صحابہ نہ ہو جن کو حاصل

نہ ہوسکتا ہے وہ کبھی حق کا واصل

یہ حق اور باطل کا ہے ایک فاصل

بغضِ صحابہ کا داعی بنے تو

جو شر ہے وہ اس میں جواں ہو چکا ہے

عقیدہ صحابہ کا اصلی عقیدہ

جو ہے مختلف یہ اس سے سربریدہ

کہ باقی ہیں شنیدہ اور وہ ہے دیدہ

جو غیر انبیاء سے ہیں افضل سارے

کہ رب ان پہ یوں مہرباں ہوچکا ہے

کبھی بھی صحابہ پہ تنقید نہ کرنا

کہ بارے میں ان کے خدا سے ڈرنا

آخر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3862)

کہ بارے میں ان کے خدا سے ڈرنا

جو ان سے کٹے ان کا کیسے سنورنا

تباہی کے راستے کھلے ہوں وہاں پہ شبیرؔ

ظلم خود پہ ایسا جہاں ہو چکا ہے

اہلِ بیت کا مقام:

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

جو سمجھے کوئی دل میں شانِ رسول

ہو محبوب انہیں خاندانِ رسول

ذرا پڑھ تو لینا فرمانِ رسول

ہے قرآن کے ساتھ ’’عترتی‘‘ اس میں جب لائق اتباع کے پھر سارے ہیں یہ

ابھی یہ حدیث شریف گزر چکی ہے۔


خواتینِ جنت کی ہے سیدہ

جگر گوشہ آقا کی ہے فاطمہ

مثالی رہی ہے یوں ان کی حیا

مثالی رہے ہیں یہ سب اہل بیت، نہیں غیر کے ہیں ہمارے ہیں یہ

شجاعت علی کی رہی ہے مثالی

جو ہیں بابِ علم مقام ان کا عالی

سلاسل کے باغِ مقدس کے مالی

یہ گلشن نبی ﷺ کے ہیں پھول ایسے ،کہ جو حق پہ ہیں سب ان کے پیارے ہیں یہ

وہ سردارِ امت اور نام کا حسن

فہیم اُمت تھے بچایا چمن

تھے اُمت کے جوڑ کی امید کی کرن

یہ آقا کے گود میں پلے اور بڑھے ہیں اور آقا کے سچ مچ دلارے ہیں یہ

وہ شیر متقی، وہ حسین، وہ نڈر

کہ حق کے لئے پیش کیا جس نے سر

جب آواز حق اس پہ تھی منحصر

یعنی ان پہ منحصر تھی، اگر وہ نہ کرتے تو پھر یہ بات ختم ہوجاتی۔

رقم اپنے خون سے کی داستانِ حق ،عجب فکرِ حق کے نظارے ہیں یہ

نبوت، ولایت یہاں دیکھ لو

یہ دل کا کچھ اور ہی جہاں دیکھ لو

شبیرؔ ان کی قربانیاں دیکھ لو

تبھی ساتھ ہونے کا فرمایا ہے کہ دین پر عمل کے سہارے ہیں یہ

جیسے حدیث شریف گزری۔ امھات المومنین کا جو مقام ہے۔

امہات المؤ منین کا مقام

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

خدیجہ کا جب لب پہ آتا ہے نام

تصور میں میں پیش کردوں سلام

وہ ایثار و قربانی و احترام

نبی کے لئے جو ہمیش کرتی تھیں، ذرا سوچے کوئی کہ وہ کس قدر ہے

حمیرا لقب عائشہ ماں ہماری

اشاعت میں دیں کا حصّہ ان کا بھاری

اٹھائی ہے کس شان سے ذمّہ داری

ہے قرآن میں ان کی براءت کا اعلان جو ظاہر سب پر"کالشمس و القمر"ہے

ان پر تہمت مطلب لگائی گئی تھی، تو اس کا جواب اللہ پاک نے قرآن پاک میں دیا اور ان کی صفائی فرمائی اور یہاں تک فرمایا کہ جن لوگوں نے، جو فتین تھے، ان کی بات پر یقین کرلیا تو انہوں نے فوراً دل میں کیوں نہیں کہا کہ یہ بات غلط ہے، یہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس طرح ان کی صفائی بیان فرمائی۔

ہمیں ماؤں سے دین کا حصّہ ملا وہ

ہے باقی صحابہؓ سے بالکل چھپا وہ

جو دیں کے لئے تھا ضروری کیا وہ

بغیر اس کے تکمیل دین کیا تھا ممکن، یوں احسان ان کا بہت امت پرہے

تو بھیجیں ہم ان پہ شبیرؔ اب سلام

رہے دل میں ان کے لئے احترام

ایصالِ ثواب کا بھی ہو اہتمام

کہ ماؤں کا حق ہے مسلم، وہ سمجھے شرافت کی جس کی کوئی کچھ نظر ہے

بہرحال یہ بات تو ہوگئی ہے، ان شاء اللہ العزیز! اسی بارے میں عرض کروں گا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ بات ہے کہ یہ کام کس طرح ہوا اور شہادت کیسے ہوئی؟ بعض لوگوں نے تو اس شہادت سے انکار ہی کیا ہے، عجیب بات ہے ہماری اتنی بڑی بڑی کتابیں ہیں ’’البدایہ والنہایہ‘‘ اور مختلف جو کتابیں مشہور مشہور ان کے اندر سارے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، ان کا انکار کیا جاسکتا ہے؟ تو واقعہ ہوا ہے، البتہ یہ ہے کہ اس میں افراط تفریط بہت پائی جاتی ہے۔ تو صحیح بات تو یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ اس وقت یہ بات منحصر تھی کہ اگر وہ مان جاتے تو یہ خلافت و ملوکیت والی بات ختم ہوجاتی، بس خود بخود ملوکیت کی طرف بات چلی جاتی، تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو نہیں مانا، اس کے لئے پھر انہوں نے گویا کہ اپنے آپ کو پیش کیا اور صرف اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وہ تشریف لے گئے اور وہاں پر جس وقت پہنچ گئے کربلا کے موقع پر، تو وہاں پر صورتحال یہ تھی کہ حضرت نے دِیا (چراغ) بجھا دیا اور فرمایا کہ جو لوگ جانا چاہتے ہوں، وہ چلے جائیں، ہمارے ساتھ تو اس قسم کا معاملہ ہے، تو جو لوگ جانا چاہتے ہیں، تو وہ لوگ نہیں گئے، وہ رہ گئے، اس کے بعد پھر وہ جو صورتحال تھی کہ (اللہ معاف فرمائے) جن لوگوں نے انہیں بلایا تھا، انہوں نے انکار کردیا اور وہ ابن زیاد کے چکر میں آگئے اور اس وجہ سے لڑائی ہوگئی، لڑائی میں چونکہ بہت تھوڑے تھے، تو بہت بےجگری کے ساتھ لڑے، لیکن شہید ہوگئے۔ اب جب یہ شہید ہوگئے، تو ان میں سے جو عمرو بن سعد تھا، جو ان کو lead کررہا تھا، تو جب ان کے ساتھ خولی نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر کاٹ دیا، تو سر لے کے ان کے خیمہ میں چلے گئے، تو ان سے کہا کہ میری جھولی کو جواہرات سے پھر دو، کیونکہ میں نے نواسۂ رسول کا (دونوں جہاں کے سردار کے نواسہ کا) سر کاٹا ہے۔ یعنی گویا کہ آخرت تو تباہ کرلی ہے، اب دنیا تو میری بن جائے، تو انہوں نے دھکے دے کر اس کو خیمہ سے نکالا کہ تو نے کون سا اچھا کام کیا ہے کہ تو اس پر انعام لینے آگیا، تو ’’خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ‘‘ والی بات ان کے ساتھ ہوگئی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی directly یا indirectly حصہ لیا تھا ان کی شہادت میں، اللہ پاک نے ان کو طبعی موت نہیں حاصل ہونے دی، وہ یا کسی سے مارے گئے یا کسی طریقے سے (مر گئے) بہرحال بہت بری طرح ان کی اموات ہوگئیں، جس میں شمر ذی الجوشن بھی ہے، عمرو بن سعد بھی ہے، اس طرح جو دوسرے لوگ تھے، وہ بھی تھے، ان سب کے ساتھ اس قسم کے معاملات ہوگئے، بلکہ یہاں تک کہ ایک بوڑھا تھا، ان کو جب کہا گیا کہ ان سب کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی، تو اس پر اس نے کہا کہ میں بھی اس میں شامل تھا، مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا، (یہ روایت بیان کی ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے، تو انہوں نے فرمایا کہ) وہ جب اپنے گھر چلے گئے، تو اپنے چراغ کو بجھانے کے لئے جو ٹمٹما رہا تھا، اس کو بجھانے کے لئے پھونک ماری، تو اس کی جو چنگاریاں تھیں، ان کی داڑھی میں پڑ گئیں، داڑھی نے آگ پکڑی اور اس سے کپڑوں نے آگ پکڑی اور تھوڑی دیر میں جل کر راکھ ہوگیا۔ بس اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی (ختم کردیا) تو گویا کہ یہ بہت بڑا امتحان تھا اس وقت امت کا اور لوگ ابتلاء میں پڑ گئے۔ اب بھی یہ ابتلاء موجود ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی نہ کریں، ہم ان تینوں کا، مطلب اہل بیت کی مظلومیت کا انکار نہ کریں، لیکن اس کے مقابلہ میں ہم صحابہ پہ اعتراض نہ کریں کہ ان کی وجہ سے ہوا، وہ تو بچانے کے لئے تھے، لیکن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اجتہاد سے تشریف لا رہے تھے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ یہ بات ان کے ذمے نہیں تھی، کیونکہ انہوں نے تو اپنا کام کر لیا تھا، تو صحابہ کی مخالفت اس میں جائز نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ پھر جو ان کا اپنا مقام ہے، جو اللہ پاک نے ان کو دیا ہے، جو کہ ’’سَیَّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ بنانا تھا، تو ظاہر ہے اس کے لئے تو کچھ راستے بننے تھے، تو اللہ پاک نے ان کو مقام عطا فرما دیا۔ لیکن بہرحال یہ ہے کہ ہم لوگ ان کے مقام سے بھی انکار نہیں کریں گے، صحابہ کے مقام سے بھی انکار نہیں کریں گے اور امھات المومنین کے مقام سے بھی انکار نہیں کریں گے۔ اللہ پاک مجھے بھی اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کو بھی۔ اگر کوئی سوال ہے تو کرسکتے ہیں۔

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت عمومی اہل سنت علماء بھی اس بات کو بیان کرتے ہیں جیسے مولانا سید ابوالحسن ندویؒ صاحب نے لکھا ہے کہ جس درجے میں اہلِ بیت کا تذکرہ ہونا چاہئے تھا اہل سنت کے اندر، ویسا نہیں ہوسکا۔ اس وجہ سے ہمارے لوگ اس درجے کی معلومات نہیں رکھتے جو ہونی چاہئے تھیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ شیعہ جو ہیں وہ تو اپنے مخصوص موقف کی وجہ سے اس کو شروع ہی کربلا سے کرتے ہیں، لیکن سیدنا حسینؓ کی جو 58 سالہ زندگی اس سے پہلے ہے، جو انہوں نے مدینہ شریف میں اور مکۃ المکرمہ میں گزاری ہے اور حجاز میں گزاری ہے، اس میں ان کے جو کام ہیں، اس سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو دوسرا گروہ ہے وہ تو اس کو بیان ہی نہیں کرتا، اس کا تو موقف ہی علیحدہ ہے۔ اور اہل سنت اس سے واقف نہیں۔ تو ایسے کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں جس سے ہم ان کے پورے حالات زندگی وغیرہ سے واقف ہوجائیں؟

جواب:

جزاک اللہ! یہ آپ نے بالکل صحیح نکتہ اٹھایا ہے اور حضرت ابوالحسن ندویؒ صاحب رحمۃ اللہ علیہ صرف نہیں ہیں، اور بھی ہیں، مولانا حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرات بھی ہیں، جو یہ بات کرتے ہیں، لیکن واقعتاً اس پہ کام بھی بہت کم ہوا ہے اور اب اس کے کام کی ضرورت بھی اور زیادہ ہوگئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ کہ ابھی فتنے اتنے زیادہ آگئے ہیں کہ یہ فتنے بڑھ کے اب لگتا ہے جیسا کہ وہ آخری وقت قریب ہوگیا ہے، دجال کا جو خروج ہے، وہ بھی شاید قریب لگ رہا ہے اور جو امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے، وہ بھی اور امام مہدی علیہ السلام جو ہیں، یہ حسنی حسینی سید ہوں گے۔ تو اب اگر خدانخواستہ کسی کا اہل سنت کے ساتھ دل میں کوئی گڑبڑ ہو، تو ان سے استفادہ نہیں کرسکیں گے اور اس کی وجہ سے دجال کے نرغے میں ممکن ہے کہ پھنس جائے۔ تو اس وجہ سے اب اور زیادہ بھی اس کی ضرورت ہے کہ ان چیزوں کو بیان کیا جائے۔ یہ آج کا جو بیان ہے، وہ اصل میں بنیادی طور پر اس مقصد کے لئے تھا کہ ہم لوگ اہل سنت و الجماعت اپنا جو نظریہ ہے اہل بیت کے بارے میں، وہ بھی بیان کرلیں اور ساتھ ساتھ صرف ایک طرف نہ بیان کریں، بلکہ تینوں بیان کریں، جیسے قرآن کا طریقہ ہے کہ اگر جنت کا ذکر کرتے ہیں، ساتھ دوزخ کا بھی کرتے ہیں، دوزخ کا کرتے ہیں، جنت کا بھی کرتے ہیں، اچھے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں، برے کا بھی کرتے ہیں، بروں کا ذکر ہو، تو اچھوں کا بھی کرتے ہیں، تو میں نے اس وجہ سے ان سب کو ملا کے بیان کرلیا، تاکہ افراط تفریط سے ہم بچ جائیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

محرم الحرام کی دینی و تاریخی حیثیت - بیرونِ خانقاہ بیانات