سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 581

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم! آپ نے جو ذکر بتایا تھا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو دفعہ اور دس دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ پانچوں لطائف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہے ہیں اور پندرہ منٹ کے لئے یہ تصور کہ صفاتِ ثبوتیہ کا فیض اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کے دل پر آرہا ہے اور وہاں سے شیخ کے دل پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ روح پر اور ساتھ میں ان صفات کا استحضار کہ اللہ کی صفات ایسی ہیں، مہینہ ہوگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ گناہوں سے بچنے میں کچھ مدد ہوئی ہے اور دعاؤں میں بھی سکون آیا ہوا ہے، لیکن یہ condition ہر وقت نہیں ہوتی، پھر بھی گناہ ہوجاتا ہے اور دعا میں کبھی دھیان change ہوجاتا ہے، کبھی کبھی غصہ بھی بہت آتا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ابھی condition پہلے جیسی ہے اور بہت زیادہ فرق نہیں آیا، باقی آپ بہتر guide کرسکتے ہیں۔

جواب:

مجھے نہیں معلوم آپ نے جو فرمایا ہے کہ دس دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ پانچوں لطائف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہے ہیں۔ یہ اگر آپ اکٹھے کررہے ہیں تو وہ ٹھیک نہیں ہے، بلکہ دس دس منٹ سب لطائف پہ علیحدہ علیحدہ کریں یعنی دس منٹ پہلے لطیفۂ قلب، پھر اس کے بعد دس منٹ لطیفۂ روح، پھر دس منٹ لطیفۂ سِر، اگر اس طرح کررہے ہیں تو ٹھیک ہے اور صفاتِ ثبوتیہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار ہے مثلاً اللہ پاک دیکھ رہے ہیں، تو اس کا ہمارے اوپر کیا اثر ہے، سن رہے ہیں تو ہمارے اوپر کیا اثر ہے، اس بات کو محسوس کرنا ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں بتائیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ کے دین ودنیا کی خیر و عافیت رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ کچھ دن ہوگئے تھے، پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ، دس منٹ مراقبۂ دعائیہ ملا ہوا تھا۔ حضرت اس ماہ ذہنی لحاظ سے بہت زیادہ مسائل سے پریشان تھی، دوبارہ گھر آکر سسرال adjust نہیں ہوا جا رہا تھا، depression اور ساتھ میں جادو کی شدت، پھر شوہر اور اس کے متعلق ہر بات سے شدید کوفت رہتی تھی۔ جادو کے لئے بھی علاج کروا رہی ہوں، بہت بدزبان ہوگئی تھی، شوہر کے ساتھ زندگی شدید مسائل کا شکار تھی، اب بہت مشکل سے اپنے اوپر تھوڑا control کرتی ہوں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، گھر کے کام اور ساتھ میں میاں کے ساتھ دوبارہ قلبی تعلق بڑھانے پر بہت محنت کررہی ہوں، پھر کلینک بھی جانا ہوتا تھا، نیند بھی کبھی خراب ہوجاتی۔ ان سب کی وجہ سے ذکر اور مراقبہ بہت کوشش کے بعد بھی نہیں پورا کرسکتی تھی، بس جب موقع ملے جتنا بھی ملے کرلیتی تھی، جیسے لطائف کا ذکر پانچ منٹ کے بجائے کبھی دو یا تین منٹ کرلیتی اور مراقبۂ سلبیہ کبھی پندرہ منٹ، کبھی سات یا آٹھ منٹ یا دس منٹ اور مراقبۂ دعائیہ دس منٹ کے بجائے کبھی پانچ منٹ، کبھی دو چار منٹ کرلیتی تھی۔ مقصد دن میں تین چار حصوں میں ذکر پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، آج کل سمجھ ہی نہیں آرہی کہ دین کا کون سا وقت پچاس منٹ نکالوں یا دو حصوں میں کرسکوں۔ دو دن ناغہ بھی ہوا تھا، اس کے علاوہ دو دن فجر بھی قضا ہوئی تھی، چہل درود شریف، مناجاتِ مقبول بھی اکثر رہ جاتی ہے۔ باقی قرآنِ پاک، سورۂ یٰس، سورۂ مُلْک اور منزلِ جدید بھی پڑھ لیتی ہوں۔ حضرت جی آپ جانتے ہیں کہ میں اس معاملے میں کوتاہی نہیں کرتی لیکن رہنمائی فرما دیں کہ ان مسائل کے ساتھ کیا کروں؟ بہت مشکل سے ٹوٹا پھوٹا اور بے وقت ذکر کررہی ہوں، اس وقت جاری رکھنے کے لئے کچھ مشورہ بتائیں کہ میں اس سے کٹ نہ جاؤں اور میں اب میاں کے آگے کس طرح کوشش کروں کہ Negative response نہ دوں، اب وہ ساتھ لے کر جاتے ہیں تو گانے بھی لگاتے ہیں لیکن میں بالکل یہی ظاہر کرتی ہوں کہ جیسے مجھے کوئی مسئلہ نہیں، خوش رہنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ وہ مجھ سے چڑیں نہیں، اس پر میرا کوئی reaction آتا ہے تو مزید بگڑ جاتے ہیں اور میں کچھ نہ بولوں صرف پیار دوں تو جواباً وہ بھی بہت محبت کرتے ہیں۔ لیکن جو دل میں گانے آرہے ہیں، اوپر سے ذکر ٹھیک نہیں کرسکتی تو بالکل خراب نہ ہوجاؤں، اس کے لئے کیا کروں؟ اللہ بھی راضی رہے اور میں حالات پر صبر کرسکوں، مزید خراب نہ ہوجاؤں۔

جواب:

غیر اختیاری مجاہدے میں تو بڑا فائدہ ہوتا ہے یعنی انسان، انسان بن جاتا ہے۔ لیکن یہ جو آپ فرما رہی ہیں کہ مجاہدہ اس قسم کا ہے کہ گانے آرہے ہیں تو ان گانوں کا اثر بھی دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنا ذکر باقاعدگی کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں، بے شک دو تین steps میں ہو لیکن کوشش کریں کہ اس کا اثر دور ہوجائے، یعنی لطائف پہ اللہ جل شانہٗ کا جو ذکر آپ کررہی ہیں تو اس میں تصور کریں کہ وہ لطائف روشن رہیں اور جو سیاہی گانوں کی وجہ سے آئی ہے اس سے وہ دور ہورہی ہے، اس کے ساتھ یہ تصور کرلیا کریں، یہ ضروری ہے ورنہ پھر اس سیاہی کا اثر اس کے اوپر رہ سکتا ہے۔ باقی جو آپ کررہی ہیں کہ ان کو Negative response نہ دوں، بالکل صحیح ہے کیونکہ ہر شخص کے ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ نہیں ہوتا، تو سب سے پہلے آپ نے ان کو Positive response دینا ہے، ان کا ساتھ نبھانے کی کوشش کریں اور ساتھ اپنی حفاظت بھی کریں، اللہ پاک آپ کو توفیق عطا فرمائیں، فی الحال یہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم! حضرت جی آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کچھ لوگوں کی طنز اور طعنے دینے کی عادت ہوتی ہے، کبھی کبھی تو ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کی باتوں سے اگلے پہ کیا گزرے گی۔ تو کیا ایسے لوگوں کو گناہ ملتا ہے؟ یعنی کبھی کبھار تو ان کے طنز کے بعد بھی، پھر اور موقعوں پر بھی یاد آتے ہیں تو تکلیف دیتے ہیں، اور یہ کہ میرے ساتھ جب بھی ایسا ہو اور کوئی اپنا ہو جس سے میں frank ہوں اس کو تو میں realize کروا دیتی ہوں، لیکن جس سے زیادہ دوستی نہ ہو تو اس کے سامنے normal رہتی ہوں۔ لیکن دونوں کیسے بھی ہوں اگر وہ realize کرنے کے بعد چاہے لاکھ دفعہ sorry کہہ لیں، ہاتھ جوڑ لیں، میرا دل نرم نہیں ہوتا، ان کو دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ میں بات کرلیتی ہوں یا ان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیتی ہوں۔

جواب:

اصل میں طنز اور طعنے دینا تو بہت خطرناک بات ہے، کسی کے دل کو زخمی نہیں کرنا چاہیے اور واقعی تلوار کا زخم جلدی ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن زبان کا زخم جلدی ٹھیک نہیں ہوتا، اس کا گناہ بھی ضرور ہوتا ہے، کسی کا دل دکھانا کوئی عام بات تو نہیں ہے کہ جس پہ گناہ نہ ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے لئے response کیا ہونا چاہیے۔ چنانچہ جو آپ کے اوپر طنز وغیرہ کررہے ہیں اور اس کو برداشت کرنے سے مَاشَاءَ اللہ بہت فائدہ ہوتا ہے۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جن کو لوگ داتا صاحب کہتے ہیں، ان کی کتاب میں ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی حال میں پھنسے ہوئے تھے، وہ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں کچھ فقراء بیٹھے ہوئے تھے اور وہ کیلے کھا رہے تھے، تو یہ بھی ایک طرف بیٹھ گئے، ان فقراء کو شغل سوجھا تو وہ کیلے کے چھلکے ان کے اوپر پھینک کر ہنستے، یعنی ان کو ایک شغل مل گیا۔ لیکن حضرت نے اس کو برداشت کیا، اس کے برداشت کرنے سے مَاشَاءَ اللہ ان کا وہ حال پورا ہوگیا اور اس سے نکل آئے۔ لہٰذا اگر آپ اس کو اپنے علاج کے طور پہ لے لیں تو آپ کو فائدہ ہوگا اور ان کو نقصان ہوگا۔ ظاہر ہے ان کو تو اپنی نیت کی وجہ سے نقصان ہوگا لیکن آپ کو اس کا فائدہ ہوگا، کیونکہ اس سے آپ کی روحانی ترقی ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ کینہ جائز نہیں ہے، یہ تو بہت بری چیز ہے۔ ایک ہوتا ہے طبعی طور پر کسی چیز کو محسوس کرنا اور اس سے بات کرنے کو جی نہ چاہنا، اس کا انسان مکلف نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ضرور ان کے ساتھ بات کرے۔ ہاں! البتہ کوئی سلام کہے تو ان کے سلام کا جواب دیں اور آپ کبھی جائیں تو ان کو سلام کرلیں۔ یہ انسان اپنے اوپر جبر کرکے بھی کرسکتا ہے۔ اور ویسے اگر بات کرنے کو جی نہ چاہے تو کوئی زبردستی نہیں ہے کہ آپ خواہ مخواہ ان سے بات کریں۔ لیکن اگر آپ ان کو آپ ﷺ کا امتی سمجھ کر دل سے معاف کرکے ان کے ساتھ بات کرلیں تو اس کا اجر بھی پھر بہت زیادہ ہے۔ بہرحال یہ چیزیں تو آج کل ہیں اور ان کا علاج پھر یہی ہے جو میں نے عرض کیا۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! فلاں۔ معمولات: نماز سو فیصد، نوافل سو فیصد، سورۂ یٰس سو فیصد، سورۂ ملک سو فیصد، قرآنِ پاک سو فیصد، ذکر، تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو فیصد اور زاد السعید سو فیصد، مناجاتِ مقبول سو فیصد، مراقبہ سو فیصد اور سورۂ کہف سو فیصد۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اللہ پاک مزید برکت عطا فرمائیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! نام فلاں، تعلیم فلاں، شہر فیصل آباد۔ تسبیحات، ذکر اور روزانہ کی تسبیح، سوم کلمہ، درودِ ابراہیمی اور استغفار سو سو مرتبہ، لسانی ذکر: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ قلبی ذکر: لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ سارے دس منٹ، مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ پندرہ منٹ۔ شیخ محترم مراقبہ آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر اوقات مکمل توجہ نہیں کرپایا، مراقبہ کے دوران بھی بے چینی ہوتی ہے، دل کرتا ہے کہ اٹھ جاؤں، اور ایک دم پیشاب کی حاجت محسوس ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ کچھ دن بہت اچھی کیفیت رہی، مراقبے میں بھی بہت سکون وسرور محسوس ہوا، لیکن اس ماہ دس یا بارہ دن ایسے ہوں گے، رہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کو صحت وتندرستی خیر وبلند مرتبہ نصیب فرما دیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! بہت اچھی بات ہے، آپ فی الحال اس کو جاری رکھیں۔ آپ کو مراقبہ کرنے میں جو مسائل درپیش ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ مراقبہ ٹھیک نہیں ہوا بلکہ اصل میں آپ کا جسم اس کو برداشت کرنے میں ٹائم لے رہا ہے، لہٰذا آپ اس کو جاری رکھیں تاکہ یہ پوری طرح جاری ہوجائے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! نام فلاں۔ میرا ابتدائی چالیس دن والا ذکر تقریباً بائیس دن پہلے بلاناغہ مکمل ہوچکا تھا۔ دل میں بے چینی سی رہتی ہے، بعض اوقات دل میں عجیب سی کھٹک رہتی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہو۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ اب دوسرا ذکر شروع کرلیں، یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ سارے سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے کرنے ہیں اور جو نماز کے بعد والا ذکر ہے وہ بھی عمر بھر کرنا ہے۔ اب ذکرِ جہری سو سو مرتبہ کرنا ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، یہ جہری طور پر ایک مہینہ کرنا ہے اور باقی آپ کے دل میں اگر گناہ کا احساس ہو تو استغفار کرلیں یعنی اگر گناہ ہوچکا ہوا تو اس پہ وہ معاف ہوجائے گا اور اگر نہیں ہوگا تو درجہ بلند ہوجائے گا۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت آپ کے بتائے ہوئے ذکر و مراقبہ کرنے کے علاوہ میں اپنے آپ کو hypnotize کرتا ہوں، جس میں بغیر الفاظ بولے دماغ کے خیال کے ذریعے سے self-suggestion دوہراتا ہوں۔ مثلاً میں صحتمند ہوں، میں ہر حال میں پرسکون ہوں، یہ کرتے ہوئے ساتھ ساتھ قلب کے ذریعے سے شکر کرتا ہوں جس کا مقصد وقوفِ قلبی کی مشق کو بھی مضبوط کرنا ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جَزَاکَ اللہ۔

جواب:

اس کو آپ hypnotize کرنا نہ کہیں، البتہ اس کو آپ یوں کہہ لیں کہ جیسے انسان اپنے خیال میں اس کو لاتا ہے۔ کیونکہ انسان جس وقت کسی چیز کو خیال میں لاتا ہے تو وہ خیال بعض دفعہ جسم پر بھی طاری ہوجاتا ہے، اگر اچھا خیال ہو تو ظاہر ہے جسم پر اچھا حال آئے گا۔ لہٰذا آپ اس کو اس طریقے سے کرسکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میں مسجد رحمانیہ سے فلاں ہوں۔ اللہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہوچکا ہے: دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے چار ہزار، پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، مراقبہ صفات ثبوتیہ میں یہ سوچنا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سن رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کلام فرما رہے ہیں، اللہ تعالیٰ زندہ ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہیں، ان صفات کو تصور میں رکھتے ہوئے ان کا فیض اللہ جل شانہٗ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے میرے لطیفۂ روح کی طرف آرہا ہے۔ گزارش ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرما دیں، اللہ آپ سے راضی ہو۔

جواب:

اس کا جو اثر ہے وہ مجھے بتا دیں، اس کے بعد عرض کروں گا۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم! دو تین ہفتے پہلے میری حالت ہوئی کہ ہر کام سنت کے مطابق کرنے کی کوشش کررہا تھا، اس وقت میں نے اس بات پر غور کیا کہ میرے کام سنت کے مطابق کیوں نہیں ہورہے، تو اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے اندر جلد بازی ہے جس کی وجہ سے سنت طریقہ مجھ سے رہ جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ کوشش کی کہ ہر کام کو اطمینان کے ساتھ کروں اور کام کرنے سے پہلے سوچوں، لیکن کچھ دن ہی یہ حالت رہی۔ اب میں نے یہ سوچا کہ خریداری کرتے ہوئے سنت کے مطابق تین جگہوں سے قیمت نہیں پوچھتا بلکہ بازار میں بس ایک دکان پر یا ایک ریڑھی والے کے پاس جا کر سبزی، فروٹ یا جو خریدنا ہو خرید لیتا ہوں، اس میں سنت طریقہ مجھ سے رہ جاتا ہے۔ پھر کچھ دن تین جگہوں سے پوچھ کر خریداری کرتا رہا یا بعض دفعہ دو جگہوں سے پوچھ کر، لیکن اب اس طرح کا جذبہ نہیں ہے، اگرچہ دل میں یہ بات ہے کہ سنت پر چلوں۔ پہلے میں اوّابین کا اہتمام نہیں کرتا تھا لیکن اس وقت سے اوّابین کا اہتمام شروع کرلیا ہے، اسی طرح تہجد بھی پچھلے مہینے کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔

ہمارے گھر پانی کا مسئلہ ہے، Cantonment Board کا پانی لگوایا ہے لیکن اس میں پانی بہت کم آتا ہے، شروع میں زیادہ آتا ہے، لیکن جب باقی لوگ بھی موٹر چلا لیتے ہیں تو پھر پانی کم ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں مالک مکان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جو پانی کے connection والے بھائی ہیں ان کے ساتھ ایک صاحب کی جان پہچان ہے ان کو کہہ کر سائیڈ سے connection لگوا دے گا، تو اس شخص سے بات ہوئی لیکن بات بنتی نظر نہیں آئی۔ پھر اس صاحب نے مجھے کہا کہ آپ کے محلے میں اگر کسی اور کی ان کے ساتھ جان پہچان ہو تو اس سے کہلوا دیں، ہمارے گھر کے پیچھے والے گھر کے صاحب وکیل ہیں اور کنٹونمنٹ بورڈ سے ان کا اچھا تعلق ہے، بہرحال ہمارے ایک پڑوسی ہیں ان کو میں نے کہا تو انہوں نے Cantonment Board فون کیا اور مجھے کہا کہ آپ کا کام ہوجائے گا۔ پھر میرے دل میں کھٹک آئی کہ کیوں اس کا احسان لوں، میں نے ان کو کہا کہ میرے دل میں خدشہ ہے کہ یہ کام شاید ناجائز نہ ہو اس لئے آپ اس کو منع کردیں، لیکن اس نے کہا: نہیں یہ آپ کا حق ہے اور میں کل اس سے اپنا کام کروا لوں گا۔ میرے ساتھ وہ بھی تھے تو انہوں نے کہا کہ کل دن گیارہ بجے مجھے یاد دلانا، میں نے یاد نہیں دلایا تاکہ ان کے سامنے نہ رہے۔ ایک بہت بڑی غلطی مجھ سے ہوئی کہ ایک بدعقیدہ شخص سے میں کام کروا رہا ہوں، اللہ کرے کہ وہ یہ کام نہ کرے۔

جواب:

بہرحال پہلی بات تو یہ ہے کہ مَاشَاءَ اللہ! ہر کام سنت کے مطابق کرنا، یہ تو بہت اچھا جذبہ ہے۔ اور سنت کی پہچان بھی ہونی چاہیے، سنت کا فہم بھی ہونا چاہیے اور پھر اس کے مطابق اہتمام کے ساتھ کام کرنا چاہیے، یہ مستقل مزاجی بڑی دولت ہے اگر نصیب ہوجائے، اللہ نصیب فرما دیں۔ اور پھر استقامت کہ آدمی اس پہ مسلسل چلتا رہے، ورنہ پھر چند دن کے لئے کر کے اس کو چھوڑنا یہ مناسب نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر آپ نے اوابین شروع کیے ہیں تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس کو جاری رکھیں، تہجد کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ باقی جو Cantonment والا مسئلہ ہے، اگر آپ اس کو کسی طریقے سے ٹھیک کروا سکتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے مسئلہ ہے، اور جو دوسری بات آپ نے کی ہے اس کے بارے میں کسی مفتی صاحب سے پتہ کرلیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت بندہ انتہائی ویران اور قبض کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ذکر: دو سو، دو سو، چار سو، چھ ہزار والا ہے جس میں چھ ہزار کم ہورہا ہے اور وہ بھی ویرانی سے، نمازیں بھی اسی طرح ہیں، دفتری ماحول میں اکثر منہ ماری رہتی ہے، صبر واستقامت اور درگزر کا نام ونشان تک نہیں، مروت کی بجائے فوراً action کا مسئلہ ہے، اس وجہ سے شخصیت کافی متاثر ہوئی ہے۔ اعتقاد سے جذبات کو کچھ control کی توفیق ملی تھی اور دوسری جانب حبِ جاہ Out of control ہوگئی۔ حضرت جی لگتا ہے کہ جیسے اتنی عمر گزار کر چند چیزیں سرشت سے جبلّت میں آگئی ہیں اور جلتی چنگاری کی طرح ہیں۔ دل کی ویرانی کی وجہ سے یکسوئی کا وقت کم میسر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں ذکر بھی صحیح طریقے سے نہیں کررہا، رہنمائی کی درخواست ہے۔ بیانات اگرچہ عالی ذوق ہیں مگر میں اس میں سے اپنے لئے راستہ برائے عمل اور استقامت نہیں لے پا رہا، بجز سوال وجواب میں درج کرنے سے، طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

جواب:

قبض تو بہت اونچی حالت ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی برکات نصیب فرما دیں، اس سے انسان کی بڑائی کی جو جڑ ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔ آپ اس پہ صبر اور استقامت سے کام لیں تو بہت فائدہ ہوگا اِنْ شَاءَ اللہ۔ باقی ذکر اہتمام کے ساتھ کیا کریں، کیونکہ یہ ہے ہی اصلاح کے لئے اور یہ دو سو، چار سو، چھ سو اور چھ ہزار والا ہوگا، میرے خیال میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔ نمازوں کو آپ اپنے طور پہ جتنا آپ سے ہوسکے صحیح طریقے سے پڑھ لیا کریں اور جو اختیاری چیز ہے اس میں اپنے اختیار سے کام لیں، چاہے وہ آپ کو مشکل لگتا ہو، تو وہ مجاہدہ بن جائے گا اور وہ آپ کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ باقی مَاشَاءَ اللہ! آپ جو بتا رہے ہیں، تو کم ازکم آپ کو احساس تو ہے کہ یہ برائی ہے، لہٰذا برائی پہ توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ اس کو درست کرنا چاہیے۔ اور جو یکسوئی ہے، اصل میں انسان اپنے اختیار کے مطابق جتنی حاصل کرسکتا ہے کرے، باقی اللہ پاک سے مانگے۔ اصلاحی ذکر کم ازکم نہیں چھوڑنا چاہیے، ثوابی ذکر بے شک چلتے پھرتے جتنا بھی ہوجائے۔ اللہ جل شانہٗ استقامت نصیب فرما دیں اور اس قبض میں انسان کی جو صحیح حالت ہونی چاہیے وہ نصیب فرما دیں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میں فلاں کی اہلیہ مخاطب ہوں۔ معمولات میں دس دس منٹ لطیفۂ قلب اور روح اور پندرہ منٹ لطیفۂ سِر، معمولات کو کچھ ماہ ہوگئے ہیں۔ حضرت میں اپنے حالات سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتی تھی، مجھے اللہ کے فضل سے بیعت ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوا ہے، اس عرصے میں ایک ہی طرح کا خواب مجھے پریشان کرتا ہے، خواب میں کوئی اَن دیکھی چیز ڈراتی ہے، نظر کچھ نہیں آتا لیکن احساس دلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر رات کو ڈر جاتی ہوں، یہ خواب عموماً فجر کے بعد آتا ہے۔ حضرت صاحب پچھلے چند ماہ کے دوران دنیاوی مشکلات میں شدید اضافہ ہوگیا ہے، میری job بلا کسی وجہ سے ختم ہوگئی ہے، ہاتھ تنگ ہوگیا ہے، شوہر کی طرف سے بے رخی کا سامنا ہے، صحت اتنی گر گئی ہے کہ صحت کی خرابی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل رہنا پڑا، منزلِ جدید پڑھ نہیں سکی، اس لئے سن لیتی ہوں۔ آپ سے یہ سب عرض ہے کہ آپ ہدایت فرمائیں، مجھے ڈر ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو جس کی یہ سزا ہو۔

جواب:

جو مشکل حالات انسان کے اختیار سے باہر ہوں اور وہ آرہے ہوں تو انسان کے لئے وہ مفید ہوتے ہیں، ان کے ذریعے سے انسان کی جلدی اصلاح ہوجاتی ہے، لہٰذا آپ اس پہ گھبرائیں نہیں۔ باقی جو معمولات ہیں وہ آپ کرلیا کریں، آپ کے معمولات میں جو لطائف کا ذکر ہے اس کی آپ نے کیفیت نہیں بتائی کہ صحیح ہورہے ہیں یا نہیں، اس سے مجھے آگاہ کریں۔ اور خوابوں سے آپ بالکل گھبرائیں نہیں، خوابوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا، اصل میں جاگنے کی حالت میں جو آپ کام کررہی ہیں وہ بنیادی بات ہے، لہٰذا آپ جاگتے کے کام ٹھیک کرلیں، خواب کے کام اللہ پاک درست فرما دیں گے۔ اللہ پاک آپ کی دنیاوی مشکلات کو دور فرمائیں، میں دعا کرتا ہوں۔ بہرحال اگر یہ غیر اختیاری ہیں تو غیر اختیاری مصائب پر بہت بڑا اجر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس کا اجر عطا فرما دیں اور ’’یَا وَدُوْدُ‘‘ اس کو 313 مرتبہ پڑھ لیا کریں تاکہ جو شوہر کی بے رخی ہے وہ ختم ہوجائے، اللہ پاک آسانی فرما دیں۔

سوال نمبر 12:

نمبر 1:

اس بچی نے اپنا وظیفہ چلتے پھرتے کیا ہے، ایک جگہ بیٹھ کر نہیں کیا۔ اب یہ کیا کریں؟

جواب:

اس بچی کو کہہ دیں کہ وظیفہ دوبارہ کرلیں، کیونکہ بیٹھ کے کرنا ہے، اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز پچھلے کا بھی ان کو فائدہ مل جائے گا اور اس کا بھی ہوجائے گا۔


نمبر 2:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ فی الحال ایک ہزار مرتبہ اسمِ ذات کا ذکر ان کو بتا دیں، یعنی یہ ایک مہینے کے لئے زبانی طور پر اس طرح ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں۔

نمبر 3:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ، سِر پر دو ماہ کرلیا ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اب سِر والا بیس منٹ کرلیں اور باقی دس دس منٹ کریں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ، سِر اور خفی دونوں پر محسوس نہیں ہوتا، پہلے سِر پر محسوس ہوتا تھا، اب سِر پر بھی محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت، اعمالِ حسنہ کی محبت اور شوق بڑھ گیا ہے، قرآن کی محبت بڑھ گئی ہے، دنیا سے دل بھر گیا ہے، دل کرتا ہے کہ دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھوں اور ذکر اور عبادت میں مصروف رہوں۔

جواب:

ان کو مراقبۂ احدیت کی جگہ اب تجلیاتِ افعالیہ کا مراقبہ بتا دیں، باقی لطائف پر دس دس منٹ جاری رکھیں۔

نمبر 7:

تمام لطائف پر دس دس منٹ اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، اس مراقبے سے غصہ کم ہوگیا ہے، پہلے غصے میں بددعا کرتی تھی اب دعا دیتی ہوں، مراقبہ میں بہت لطف محسوس کرتی ہوں، اللہ کی ذات و صفات میں گم رہتی ہوں، دنیا کے کسی مشغلے کی پروا نہیں ہوتی۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اللہ پاک آپ کو اس کے جملہ فوائد عطا فرما دیں۔ اب اس طرح کریں کہ اس مراقبے کی جگہ ان کو مراقبۂ سلبیہ یا تنزیہ دے دیجئے گا اور باقی ذکر یہی رکھیں۔

نمبر 8:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ، احوال آپ کو آڈیو میں صبح بھیج دیئے تھے۔

جواب:

اگر انہوں نے مراقبۂ دعائیہ نہیں کیا تو اس کی جگہ مراقبۂ دعائیہ ان کو بتا دیجئے گا، باقی پانچ پانچ منٹ لطائف پر ذکر جاری رہے۔

نمبر 9:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ، یہاں تک مراقبہ کیا پھر مدرسہ چھوڑ دیا تھا، مراقبہ بھی اب دوبارہ شروع کرنا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے دوبارہ شروع کروا دیں۔

نمبر 10:

پہلے لطائف پر دس منٹ ذکر اور خفی پر پندرہ منٹ، یہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ اخفیٰ پر پندرہ منٹ کرلیں، باقی پر دس دس منٹ۔

نمبر 11:

چالیس دن کا وظیفہ بلاناغہ پورا کرلیا ہے، پھر سو مرتبہ درود شریف، اب بڑی ہوگئی ہے۔

جواب:

اب ان کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو مرتبہ بتا دیجئے گا۔

نمبر 12:

حضرت نے سوال مجلس میں نہیں سنایا۔

جواب:

ان کو ابتدائی وظیفہ کروا دیں۔

نمبر 13:

پہلے لطائف پر دس منٹ اور اخفیٰ پر پندرہ منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان سب پر دس دس منٹ کرلیں اور مراقبۂ احدیت بتا دیں۔

نمبر 14:

حضرت نے سوال مجلس میں نہیں سنایا۔

جواب:

اگر انہوں نے مراقبہ دعائیہ کرلیا ہے تو اب ان کو مراقبۂ عبدیت بتا دیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تصور میں یہ سمجھیں کہ میرے سارے اعضاء اللہ تعالیٰ کی طرف سجدے میں پڑے ہوئے ہیں، پندرہ منٹ یہ مراقبہ کریں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم! حضرت مراقبے میں کچھ ناغے بھی ہوئے ہیں، میرا مراقبہ لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ، کبھی ذکر میں بہت اچھا دھیان ہوتا ہے اور کبھی دھیان نہیں رہتا۔

جواب:

اب پندرہ پندرہ منٹ دونوں لطائف پر کرلیں تاکہ دونوں صحیح طور پہ چل پڑیں۔

سوال نمبر 14:

حضرت جی معمولات کی کیفیت کی صورتحال یہ ہے کہ دھڑکن محسوس تو ہوتی ہے لیکن دنیاوی خیالات ختم نہیں ہوتے، معمولات ایک ذمہ داری کی طرح ادا کرتی ہوں۔

جواب:

بالکل ٹھیک ہے اگر دھڑکن محسوس ہوتی ہے تو پھر یہ کافی ہے. دنیاوی خیالات کی پروا نہ کریں، اس کی طرف توجہ ہی نہ کریں، کیونکہ یہ چیزیں تو خود بخود چلتی ہیں۔ جیسے انسان سڑک پہ چل رہا ہو تو اور بھی بہت سارے لوگ جا رہے ہوتے ہیں، ان کو روک تو نہیں سکتا، لہٰذا آپ ان کی طرف توجہ نہ کریں۔ اب آپ تینوں لطائف پر دس دس منٹ کریں اور لطیفۂ خفی پر پندرہ منٹ کریں۔ لطیفۂ خفی لطیفۂ روح کے چار انگل اوپر اور دو انگل Central line کی طرف جو point ہے اس کے اوپر لطیفۂ خفی ہوتا ہے۔

سوال نمبر 15:

حضرت کل آپ نے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ انسان کے اندر جو اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں رکھی ہیں وہ ان کا اسمِ مربی ہے، جب انسان کی اصلاح ہورہی ہوتی ہے تو اس کے اندر جو صلاحیتیں ہیں وہ ظاہر ہوجاتی ہیں، کیا اس کا صرف شیخ ہی کو پتہ چل سکتا ہے کہ فلاں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے یا باقی لوگوں کو بھی اس کا اندازہ ہوسکتا ہے؟

جواب:

دیکھیں پہلے اسمِ مربی کے بارے میں تھوڑا معلوم کرلیں کہ یہ کیا ہے۔ آپ حضرات نے سنا ہوگا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی تجلی کے ذریعے سے ساری چیزیں عدم سے وجود میں آئی ہیں۔ اب اس میں جو صفت استعمال ہوئی ہے وہ اس کا اسمِ مربی ہے۔ لہٰذا اس کے اندر اس کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس کی پہچان کبھی خود اپنے آپ کو بھی ہوسکتی ہے لیکن زیادہ تر شیخ کو ہی ہوتی ہے، کیونکہ شیخ باہر سے observer ہوتا ہے، اندر سے معلوم کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے، باہر سے لوگوں کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیا ہیں، چنانچہ شیخ جب وہ معلوم کرتا ہے تو پھر وہ ان سے وہی کام لیتا ہے یعنی اس کو ان کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے اور اس میں ان کو practice کراتا ہے۔ مثلاً ایک شخص بہت اچھا قاری ہے تو قرأت کے ذریعے سے وہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کرا دے گا، اب کیسے کراتا ہے؟ قاری حضرات ناراض نہ ہوجائیں۔ اس وقت قرأت بہت کم اللہ تعالیٰ کے لئے کی جاتی ہے، زیادہ تر دنیا کے لئے ہی کی جاتی ہے یعنی لہجہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ جس سے لوگ زیادہ متاثر ہوں، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ اب اگر کسی قاری کی یہ چیز change کردی جائے تو وہ ولی اللہ بن جائے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک صفت تو موجود ہے، اب صرف یہ ہے کہ اس کو دنیا کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اللہ کے لئے استعمال کرے تو بس اس کا کام بن جائے گا۔

اسی طرح ایک شخص کے اندر خدمت کی صفت موجود ہے، اب اگر شیخ اس کا صحیح طور پہ استعمال کرے تو اس کا فائدہ ہوگا، کیونکہ خدمت میں بھی دنیاوی نیت آسکتی ہے، طمع کی position آسکتی ہے یعنی اس قسم کی بات ہوجاتی ہے، اگر شیخ اس سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا اور اس کی خدمت کو اللہ کے لئے کردیا تو بس اس کا کام بن جائے گا۔ ایک ڈاکٹر کے پاس فن موجود ہے اور درد بھی موجود ہے، سارا کچھ ہے، لیکن اگر اس کو اللہ کے لئے کرلے تو بس اس کا کام اسی سے بن جائے گا۔ جیسے میں نے حضرت میجر جنرل عجب خان صاحب سے کہا تھا کہ آپ تو بالکل جنت کے دروازے پہ بیٹھے ہوئے ہیں، بس تھوڑی سی ہمت کرلیں اور اندر داخل ہوجائیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ یہی بات میں نے عرض کی ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے اندر جو چیزیں موجود ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی پرورش اس طریقے سے کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اب شیخ اس کی تربیت اچھے طریقے سے کرلے تو مَاشَاءَ اللہ کام بن جائے گا۔ یہ چیز مجھے اتنی آسانی سے معلوم نہیں ہوئی، اس میں کافی وقت لگا ہے۔

سوال نمبر 16:

حضرت آپ کے بغیر خانقاہ میں دل نہیں لگتا، اگر آپ نہ ہوں تو پھر بہت مشکل ہوجاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

خیر یہ تو ایک محبت کی بات بھی ہوسکتی ہے، البتہ خانقاہ کی اپنی برکات بھی ہوتی ہیں، اپنی برکات سے مراد یہ ہے کہ یہاں پر چونکہ ذکر کا ماحول ہوتا ہے، لوگ ذکر کرتے ہیں۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، ہماری مسجد صدیق اکبر کے پاس جو خانقاہ تھی اس میں صرف دو کمرے تھے، ایک میں ذکر ہوتا اور ایک میں لوگ ٹھہرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک ساتھی کے کوئی مہمان آئے تھے وہ ان کو دونوں کمروں میں باری باری لے گئے، پھر ان سے پوچھا کہ دونوں کمروں میں آپ کو کیا محسوس ہوا؟ جو ذکر والا کمرہ تھا اس میں اس نے کہا کہ اس میں میرا دل بڑا خوش ہوا، دل کھل گیا، جبکہ دوسرے کمرے میں مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا۔ تو ہم نے کہا بس یہی فرق ہے کہ یہاں ذکر ہوتا ہے اور وہاں پر لوگ رہتے ہیں۔ لہٰذا اسی طریقے سے خانقاہ کے در و دیوار جو ذکر جذب کرلیتے ہیں تو اس سے بھی خانقاہ میں راحت محسوس ہوتی ہے۔ اب میرے خیال میں ذرا اس اسمِ مربی والے سوال کی طرف ہم جائیں جو پہلے ہوا تھا، اگر میں کہہ دوں کہ خانقاہ کو چونکہ ذکر اور تربیت کے لئے بنایا گیا ہوتا ہے تو اگر اس چیز کو سمجھ کر اس چیز کو یہاں سے لینے کے لئے کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوجائیں گے۔ چنانچہ اگر آدمی خانقاہ میں آجائے اور آدمی سمجھے کہ میں جیسے یہاں پر داخل ہوا ہوں، تو چونکہ یہ جگہ اس چیز کے لئے ہے تو اس کی برکات میرے لئے اس مقصد میں استعمال ہوجائیں گی اور اس نیت سے یہاں پر ذکر کرلیں، مراقبہ کرلیں، اللہ کو یاد کرلیں، جو بھی کام یہاں پر ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ حضرات یہاں پر وقت لگانے کے لئے آتے ہیں، آپ دیکھیں اِدھر اُدھر کتابیں پڑی ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس اتنی جگہ تو ہے نہیں کہ کتابوں کے لئے الگ جگہ ہو اور باقی چیزوں کے لئے الگ جگہ ہو، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ الگ الگ ہوں، بہرحال لوگوں کی نظر کتابوں پہ پڑ جاتی ہے تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کتابوں کو پڑھیں، حالانکہ خانقاہ کتابیں پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، خانقاہ تو تربیت گاہ ہے یعنی جو سیکھا ہے اس کو عمل میں لائیں اور اس عمل میں جو رکاوٹ ہے اس کو انسان دور کرلے اور ذکر جو اس کا بڑا ذریعہ ہے اس کو استعمال کریں۔ لہٰذا یہاں پر اسی چیز میں فائدہ ہوگا، دوسری چیزوں میں اتنا فائدہ نہیں ہوگا لیکن اس چیز میں بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص آئے اور اس چیز کو محسوس کرکے اسی کے مطابق کام میں لگ جائے تو یقیناً فائدہ ہوگا اِنْ شَاءَ اللہ۔ باقی دل لگنا نہ لگنا وہ ایک وقتی بات ہے۔ ہمارے حضرات فرماتے ہیں کہ لگے رہو، لگے رہو، لگ جائے گی۔ کیونکہ اگر آدمی شروع کرے اور چلتا رہے تو پھر اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

سوال نمبر 17:

حضرت عاجز کو ذکر کے جو معمولات آپ نے دیئے ہیں وہ کرتے کرتے اچانک غیر ارادی طور پہ مراقبہ شروع ہو جاتا ہے، اس کا کیا حل ہے، آیا مراقبے سے اٹھ جانا بہتر ہے یا کرنا بہتر ہے؟

جواب:

دیکھیں! ذکر کے دوران مراقبے کی طرف طلب ہوجانا، یہ اس لحاظ سے تو مستحسن ہے کہ ذکر کے بعد مراقبہ ہی ہوتا ہے، گویا کہ آپ کا قلب مراقبے کی طرف للچاتا ہے یہ تو اچھی بات ہے، لیکن ترتیب یہ ہے کہ ذکر کے وقت ذکر ہو، مراقبے کے وقت مراقبہ ہو۔ لہٰذا اُس وقت اپنا ذکر جاری رکھیں، ہاں! مراقبہ کرنے کا وقت آئے تو اس میں مراقبہ کریں۔

سوال نمبر 18:

اکثر مجھ سے ذکر کے درمیان غیر ارادی طور پہ مراقبہ ہوجاتا ہے اور ذکر رہ جاتا ہے۔

جواب:

مراقبہ دو قسم کا ہے، ایک مراقبہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ذکر بھی ہورہا ہوتا ہے اور اس ذکر کے مطابق ساتھ ساتھ مراقبہ بھی ہوتا ہے، وہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مثلاً آپ اسمِ ذات کا ذکر کررہے ہیں اور ساتھ آپ کا یہ مراقبہ شروع ہوجائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اللہ محبت کی نگاہ سے مجھے دیکھ رہا ہے تو یہ مراقبہ بھی ہے اور ساتھ ذکر بھی ہے، یہ تو بہت اچھی بات ہے، اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن جیسے تجلیاتِ افعالیہ کا ایک الگ مراقبہ ہے اگر آپ اس کو اس وقت کرنا چاہتے ہیں تو اس کا وقت یہ نہیں ہے، پہلے آپ ذکر کرلیں، اس کے بعد جب مراقبے کا وقت ہو تو مراقبہ کرلیں۔

سوال نمبر 19:

حضرت بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ آپ رش والی جگہ پہ کسی کے انتظار میں کھڑے ہیں، تو اس بندے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بدنظری کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔

جواب:

بالکل صحیح فرمایا۔ ہمیں اس میں بہت خطرناک تجربہ ہے، مثلاً حج کے موقع پہ کسی سے اگر اپنے گھر والے گم ہوجائیں تو بڑا امتحان ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان کو دیکھنا ہے اور وہ عورت ہے، لہٰذا آپ عورتوں کو دیکھیں گے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر ساتھ استغفار کی کیفیت اور دل کو ان سے ہٹانا، اس کی انسان اچھی خاصی مشق کرسکتا ہے۔ مثلاً یہ ایک چیز میں دیکھ رہا ہوں اور اردگرد غلط چیزیں ہیں، تو اب میری خاص نظر اسی پر مرکوز ہو اِدھر اُدھر نہ ہو، اس کی مشق بڑی قیمتی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا موقع ہوتا ہے کہ اس میں یہی مشق کرلے، کیونکہ ویسے آپ مشق کریں گے تو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے، لیکن اس وقت تو مجبوری سے کررہے ہیں تو آپ اس کو مشق بنا دیں۔

سوال نمبر 20:

ایسی صورت میں ایک نظر پڑ ہی جاتی ہے۔

جواب:

صحیح ہے، لیکن اس نظر باقی نہ رکھیں، مسئلہ تو بعد کا ہے۔ کیونکہ پہلی نظر آپ کا عذر ہے۔ (سائل) لیکن اس پہلی نظر کے بھی اثرات ہوتے ہیں۔ (حضرت کا جواب) ان اثرات کو دھونے کے لئے اللہ پاک کی طرف متوجہ رہیں، کیونکہ اللہ جل شانہٗ نے ایک چیز پیدا کی ہے، لیکن مجھے اسے دیکھنے کا حکم نہیں ہے، تو میں اس کے حکم پہ عمل کررہا ہوں، میں اس کو نہیں دیکھتا۔ تو یہ مراقبہ بن جائے گا، یعنی اسی کو استعمال کرلیں۔

سوال نمبر 21:

بعض اوقات خاندان کی کچھ بڑی عورتیں ہوتی ہیں، ان سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے، بعض تو کندھے پہ ہاتھ رکھ لیتی ہیں۔

جواب:

علماء کرام کے لئے تو یہ کام بہت آسان ہے کہ علماء کرام تو مسئلے سمجھانے کی نیت سے یہ ساری چیزیں بتا سکتے ہیں، لہٰذا ان کو بتا دیں کہ اگرچہ آپ کی نیت صحیح ہے، لیکن شریعت کے احترام میں اگر آپ اس کو نہیں کریں گی تو آپ کو اجر ملے گا۔ یعنی ان کو علمی طور پہ سمجھایا جائے، علماء کرام سے تو لوگ سنتے ہیں۔ ہم جیسے کچھ کہیں گے تو لوگ کہیں گے کہ یہ کہاں سے تم کہہ رہے ہو؟ لیکن علماء کرام سے تو لوگ اس قسم کی باتیں سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ یہ وہی شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ والی بات ہے۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی مراقبے میں ان صفات کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سن رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کلام فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہیں، زیادہ محسوس نہیں ہوتا لیکن تھوڑا بہت محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ! یہ محسوس کرنے کی کوشش کرنا جاری رکھیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اب ان صفات کے ذریعے سے اللہ پاک کی ذات کی طرف توجہ کرلیا کریں، یعنی جن کی یہ صفات ہیں ان کی طرف متوجہ ہورہا ہوں۔ تو اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور وہاں سے آپ کے لطیفۂ سِر پر آرہا ہے، یہ آپ کا نیا مراقبہ ہوگیا اِنْ شَاءَ اللہ۔

غزل:

عشق اپنا عشقِ حقیقی ہو

کاموں میں سوچ غلط صحیح کی ہو

یہ ایک شعر ہے لیکن اس میں دو سمندر ملا دیئے گئے ہیں سُبْحَانَ اللہ۔ پہلی بات یہ ہے کہ عشق ہو اور عشق بھی عشقِ حقیقی ہو۔ اب عشق میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا ذہن کام نہیں کرتا، عشق غالب آجاتا ہے، پھر غلط اور صحیح کی فکر آگے پیچھے ہوجاتی ہے، انسان مجذوب ہوجاتا ہے۔ اس میں اللہ پاک نے مَاشَاءَ اللہ ہمیں اعتدال نصیب فرمایا ہے کہ کاموں میں غلط صحیح کی سوچ موجود ہو، یعنی دل اور دماغ دونوں کام کررہے ہوں، سُبْحَانَ اللہ یہ بہت بڑی بات ہے۔

عشق اپنا عشقِ حقیقی ہو

کاموں میں سوچ غلط صحیح کی ہو

صرف جذبات ہی کی باتیں نہ ہوں

فکر اعمال کی پختگی کی ہو

خدا کی قسم یہ شعر اللہ نے اپنے فضل سے نصیب فرمایا ہے کہ جس میں معرفت کا پورا ایک سمندر بند ہے، مثلاً عشاء کی نماز کے بعد ایک انسان مسلسل نعتوں کی محفل میں بیٹھا ہو، حمد کی محفل میں بیٹھا ہو، قرآن سننے کی محفل میں بیٹھا ہو اور صبح فجر کی نماز قضا ہوجائے، ایسا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ رات کو سو جائیں، عشاء کی نماز کے بعد آرام کرلیں، صبح تہجد بھی پڑھ لیں، پھر اس کے بعد فجر کی نماز پڑھ لیں، کون سی چیز اچھی ہے، بس یہی بات ہے۔

صرف جذبات ہی کی باتیں نہ ہوں

یعنی بس ہم نعتیں سن رہے ہیں اور حمد سن رہے ہوں، قرآن سن کر جھوم رہے ہوں اور بس صرف جذبات ہوں۔ اور جب عمل کا وقت آئے تو غائب، یہ نہ ہو۔ یہ شعر جو اللہ پاک نے عطا فرمایا ہے یہ میرے خیال میں ہمارے سلسلے کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان چیزوں کی معرفت نصیب فرمائی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ میں کہتا ہوں کہ شکر کرنا چاہیے تاکہ نعمت مزید بڑھ جائے۔

صرف جذبات ہی کی باتیں نہ ہوں

فکر اعمال کی پختگی کی ہو

تکلفات میں پھنس جانا نہ ہو

ساری تعلیم سادگی کی ہو

تکلفات میں انسان بہت کچھ چھوڑ دیتا ہے، افطار پارٹی کرا دیتے ہیں اور لوگوں کو receive کرتے ہیں، لوگوں کو see off کرتے ہیں، اِس کا خیال، اُس کا خیال، ان تکلفات میں مغرب کی نماز گئی اور اگر گئی نہیں تو جماعت کے ساتھ نہیں ہوئی، اگر جماعت کے ساتھ بھی ہوئی تو آخری رکعتوں میں شامل ہوئے۔ ایسا ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا؟ یہ practical باتیں ہیں، ان چیزوں سے اللہ جل شانہٗ ہمیں بچا لیں۔

تکلفات میں پھنس جانا نہ ہو

ساری تعلیم سادگی کی ہو

رہنا شیطان سے ہوشیار ہمیش

خیال بہت اس کا چالاکی کا ہو

نفس کی شر سے نہ غفلت ہو کبھی

اَللہُ اَکْبَرْ! شیطان کا ذکر آگیا، شیطان چالاک ہے، وہ چالاکی سے دھوکہ دیتا ہے اور نفس کا شر continouty کی وجہ سے ہوتا ہے، وہ آہستہ آہستہ لگا رہتا ہے، لگا رہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لگے رہو، لگے رہو، لگ جائے گی۔ تو لگے رہو کا مطلب یہ ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ لگے رہو، صحبتِ صالحین حاصل کرتے رہو، تعلیم حاصل کرتے رہو، تربیت حاصل کرو، تو حاصل ہوجائے گی۔ ہم دعوت دیتے ہیں اور نفس بغیر دعوت کے سارا کچھ کررہا ہے، وہ تو کررہا ہے، وہ تو لگا رہتا ہے، لگا رہتا ہے، اپنا مطلب پورا کرا لیتا ہے۔

نفس کے شر سے نہ غفلت ہو کبھی

کوشش بس اس پہ سواری کی ہو

یعنی نفس پہ غالب ہوجاؤ، نفس تم پر غالب نہ آئے، سواری کا مطلب ہے کہ تم اس پر غالب آجاؤ، تم اس سے وہ کرواؤ جو تم چاہتے ہو۔ نفس تجھ سے وہ نہ کروائے جو وہ چاہتا ہے۔

سُبْحَانَ اللہ! دل کی بھی بات آگئی اور نفس کی بھی بات آگئی۔

در پہ دست بستہ عقل وحی کی ہو

قدر اس کو اس کی روشنی کی ہو

یہ شعر یونان کے سارے فلسفے کا جواب ہے، وہ اپنی عقل پہ نازاں تھے کہ ہماری عقل میں بڑی روشنی ہے، ہم نے بڑی ترقی کی ہے، ہم نے بڑی صفائی حاصل کی، ہماری عقل بالکل صحیح فیصلے کررہی ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ عقل ایک انسان کی عقل ہے اور انسان جیسے محدود ہے اس کی عقل بھی محدود ہے، انسان کی جن جن چیزوں تک پہنچ ہے وہاں تک عقل کی بھی پہنچ ہوسکتی ہے، جتنا دیکھ سکتا ہے، جتنا سن سکتا ہے، جتنا بول سکتا ہے، جتنا سوچ سکتا ہے، یہی عقل استعمال کرے گا، اس سے زیادہ کہاں سے لائے گا۔ تو عقل کی پہنچ ہمارے حواس تک ہے، اس سے آگے نظام ہمارے لئے بالکل ایسا ہے جیسے ہم اس کے لئے blind ہیں۔ لہٰذا اگر وحی کے ساتھ ہم connect ہوجائیں اور ہماری عقل وحی کی غلام بن جائے تو اس سے بالا جو نظام ہے اس تک رسائی ہوجائے گی، وہاں کی چیزوں سے لے کر وہ مَاشَاءَ اللہ نیچے ہم تک پہنچائے گا۔ اس وجہ سے کہا ہے:

در پہ دست بستہ عقلی وحی کی ہو

قدر اس کو اس کی روشنی کی ہو

راستہ حق کا حق سے ملے پھر شبیرؔ

پھر تجلی اس میں ھادی کی ہو

عشق اپنا عشقِ حقیقی ہو

کاموں میں سوچ غلط صحیح کی ہو

یعنی اس بات کو دو اور دو چار کی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے کہ یہ کلام الہامی ہے، اس میں ہم اس طرح algorithum نہیں بنا سکتے، ایک ایک چیز مَاشَاءَ اللہ! اپنی اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہے۔ جیسے عقل کے ساتھ ھادی کی بات آگئی کہ عقل پر جب ھادی کی تجلی ہوجائے تو وہ سر بن جاتا ہے، نتیجتاً پھر وہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔

وہ بھی جب دے تو لینا خوب ہے پھر

یعنی جب اللہ پاک دینا چاہے تو بھاگو نہیں پھر خوب لینا ہے،

وہ بھی جب دے تو لینا خوب ہے پھر

اس کی جانب دیکھنا ادھر نہ ادھر

ہم ہیں محتاج وہ جواد شبیرؔ

وہی عقل کو بناتا ہے سر

دل کو فتنے سے خبردار رکھنا

جہد کا چاقو نفس پہ تیار رکھنا

راہِ سنت پہ ہو چلنا تیرا

عقل ایماں پہ انحصار رکھنا

ماشاء اللہ یہ facts ہیں، حقائق ہیں۔ حقائق کا ادراک ہوجائے اور پھر ان حقائق تک رسائی کی کوشش کی جائے، مگر یہ کیسے ہو؟ اس بارے میں بات آگے آرہی ہے۔ یہ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی میں کلام تھا، اس کا ترجمہ ہمارے پاس آیا تھا جو ہم نے ذرا منظوم کرلیا ہے۔ مَاشَاءَ اللہ اس کا بہت فائدہ ہے، اس کے بارے میں اِنْ شَاءَ اللہ آج بات کرلیں گے۔

گِلِ خوش بوئے در حمّام روزِ

رسید از دستِ محبوبِ بہ دستم

بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری

کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم

بگفتا من گِلِ ناچیز بُودم

و لٰکن مدّتِ با گُل نشستم

جمالِ ہم نشیں در من اثَر کرد

وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

گِل مٹی کو کہتے ہیں اور گُل پھول کو کہتے ہیں۔ کیا عجیب حسن اس میں آیا ہوا ہے، کیونکہ فارسی کا اپنا ایک حُسن ہے، اس لئے اس کے اندر جو بات ہے وہ دوسری زبان میں شاید کم ہی آئے۔ آگے اس کا ترجمہ ہے، شاید تھوڑا بہت اثر اس میں آچکا ہو۔

ایک دن ملی حمّام میں مٹی ایک خوشبودار

محبوب کے ہاتھوں سے نرم نرم مزیدار

پوچھا کہ کیا تو مشک ہے عنبر ہے بتا دے

خوشبو سے تیری دل میرا بس مست ہے سرشار

وہ کہہ اٹھی ناچیز ہوں مٹی ہوں میں فقط

مدت سے ایک پھول کی صحبت ہے اختیار

مٹی ہوں کچھ بھی نہ ہوں جو بھی ہوں وہی ہوں

ہے مجھ پہ ہم نشین کے جمال کے آثار

شبیرؔ نے صحبتِ صالحین کے لئے یہ

سعدی کا جو بیاض ہے اس سے چن لیے یہ اشعار

ایک دن ملی حمّام میں مٹی ایک خوشبودار

محبوب کے ہاتھوں سے نرم نرم مزیدار

سُبْحَانَ اللہ! میرے خیال میں مفہوم تو آپ سمجھ گئے ہوں گے، یعنی مٹی جس کی طرف اشارہ ہے جس میں عاجزی ہے، عاجزی سے انسان کو بہت کچھ ملتا ہے، جس انسان میں عاجزی ہوتی ہے تو دنیا کے گناہگار سے گناہگار آدمی کے پاس بھی اگر ایک نیکی بھی ہو، تو وہ چوس لیتا ہے، اس کے لئے کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ لیکن اگر عاجزی نہ ہو تو اللہ سے بھی کچھ نہیں لے سکتے، بلکہ انبیاء سے بھی بعض دفعہ کچھ نہیں لے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو تکبر ہوتا ہے کہ میں تو کچھ ہوں، میں ان سے کیوں لوں، جیسے یونان کے فلاسفر تھے، انہوں نے انبیاء سے نہیں لیا۔ یہاں پر گِل کا لفظ مٹی کے لئے ہے، یہ اصل میں عاجزی کے لئے ہے، عاجزی بہت بڑی چیز ہے، اگر کسی میں عاجزی ہو تو وہ خیر کو حاصل کرلیتا ہے چاہے کہیں بھی ہو۔ اور گُل پھول ہے، اس کے اندر کی صفات ہیں، خوشبو ان صفات میں سب سے صفت ہے۔ وہ خوشبو اس مٹی کی خاصیت کی وجہ سے یعنی عاجزی کی وجہ سے اس کے اندر جذب ہوگئی، نتیجتاً اس سے بھی وہی خوشبو آنے لگی۔ اب اس پہ گمان ہونے لگا کہ یہ مشک ہے یا عنبر ہے، تو اس سے پوچھا کہ کیا تو مشک ہے یا عنبر ہے؟ اس نے کہا کہ نہ تو میں مشک ہوں نہ میں عنبر ہوں، بس ایک پھول کے ساتھ کچھ عرصہ میں رہی ہوں، اس کے جمال نے مجھ پر اثر کیا ہوا ہے، نتیجتاً میں آپ کو مشک، عنبر نظر آرہی ہوں، حالانکہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، میں تو صرف وہی ہوں جو ہوں، لیکن مجھے اس کا فائدہ ہوا ہے۔ رنگ چڑھنا یہ اصل میں محاورہ ہے کہ فلاں کے اوپر فلاں کا رنگ چڑھ گیا۔ جیسے قرآن میں بھی ہے:

﴿صِبْغَةَ اللّٰهِۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘﴾ (البقرۃ: 138)

ترجمہ1: ’’(اے مسلمانو! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے‘‘۔

یہ اللہ والوں کا رنگ انسان پر جب چڑھ جاتا ہے تو پھر ان میں وہی صفات آجاتی ہیں جو اللہ والوں کی ہوتی ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جو میں اکثر بیان کرتا ہوں۔ اس پر میں نے گزشتہ جمعہ سے کچھ پہلے والا جو جمعہ گزرا ہے اس میں تفصیلی بات کی تھی کہ اصل نسبت تو آپ ﷺ کی ہے اور آپ ﷺ کی نسبت صحبت کے ذریعے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ملی، پھر صحابہ کرام سے تابعین کو ملی، تابعین سے تبع تابعین کو ملی، اس کے بعد پھر جو مشائخ کاملین تھے ان سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے۔ اب ہم تک پہنچ جائے اور ہم اس کو وصول بھی کرلیں، لیکن وصول کرنے کے لئے خاک ہونا پڑتا ہے، نسبت آنا ضروری ہے اور نسبت کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے، اگر نسبت آئی نہیں تو بھی کچھ نہیں مل سکتا بے شک آپ کتنے ہی خاک ہوجائیں۔ اور نسبت آئے لیکن آپ خاک نہ ہوں، پھر بھی کام نہیں بن سکتا۔ یہ جو نفس کی، دل کی اور عقل کی اصلاح ہے وہ یہی تو ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو اخیر میں فرمایا کہ خاک اس کی نسبت سب سے اونچی ہے، وہ اسی وجہ سے فرمایا کہ جو عالمِ امر ہے، پھر اس کے بعد عالمِ خلق ہے، وہ عالمِ خلق میں پھر خاک ہے، خاک سب سے کم ہے، لیکن اس کا سب سے کم ہونا ہی سب سے اونچی بات بن جاتی ہے، جتنی زیادہ vaccum ہوتی ہے اسی کے اندر چیز زیادہ جاتی ہے، لہٰذا خاک ہونا اصل میں بہت بڑی چیز ہے اگر یہ کسی کو حاصل ہوجائے۔ چنانچہ نفس، عقل اور قلب کی اصلاح ہونے سے انسان خاک کی نسبت حاصل کرلیتا ہے اور خاک کی خاصیت حاصل کرلیتا ہے، اور ساتھ ساتھ شیخ کی نسبت بھی ملتی ہے۔ گویا دونوں جب اکٹھے ہوجاتے ہیں تو بالکل یہی بات ہوجاتی ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب