"حج، قربانی اور خانہ کعبہ کی فضیلت: روحانی سفر اور عبادات کی اہمیت"

مدنی مسجد جی الیون اسلام آباد

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

"حج، قربانی اور خانہ کعبہ کی فضیلت: روحانی سفر اور عبادات کی اہمیت" میں سورۃ الحج کی آیات کی روشنی میں خانہ کعبہ، حج، اور قربانی کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ خانہ کعبہ کو اللہ کی تجلی مسجودی کی جگہ بتایا گیا، جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے موجود ہے اور ابراہیم علیہ السلام نے اس کی جگہ کو دوبارہ متعین کیا۔ یہ جگہ عبادت، طواف اور سجدے کے لیے مختص ہے، جہاں شرک کی ممانعت اور پاکیزگی کا حکم ہے۔ حج کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں، جیسا کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اعلان کا حکم دیا۔ قربانی کے جانوروں کو اللہ کے شعائر قرار دیا گیا، جن پر اللہ کا نام لینا لازم ہے۔ تقویٰ ہی اللہ تک پہنچتا ہے، نہ کہ گوشت یا خون۔ حج کے دوران عرفات کی حاضری بنیادی ہے، جہاں مغفرت کا سمندر کھلتا ہے۔ اس بیان میں شعائر اللہ کے احترام، شرک سے اجتناب، اور سنت کے مطابق عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔ آخر میں، دجال اور امام مہدی کے دور کے فتنوں سے بچنے کے لیے حق پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

"حج، قربانی اور خانہ کعبہ کی فضیلت: روحانی سفر اور عبادات کی اہمیت"

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْـًٔا وَّطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىِٕفِیْنَ وَالْقَآىِٕمِیْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ۝ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ ۝ لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚفَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَ٘ ۝ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ۝ ذٰلِكَ ۗوَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ؕ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ ۝ حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ ؕ وَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ ۝ ذٰلِكَ ۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۝ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠ ۝ وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ ۝ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَهُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِ ۙ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۝ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ۖۗ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۝ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ ؕ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ۝ اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠﴾ (الحج: 26-38) صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

ترجمہ:1 "اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتادی تھی۔ (اور یہ ہدایت دی تھی کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اور رکوع سجدے بجا لائیں۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔ تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔ پھر (حج کرنے والے) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی منتیں پوری کریں، اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔ یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے گا جن کو اللہ نے حرمت دی ہے تو اس کے حق میں یہ عمل اس کے پروردگار کے نزدیک بہت بہتر ہے۔ سارے مویشی تمہارے لیے حلال کردیے گئے ہیں، سوائے ان جانوروں کے جن کی تفصیل تمہیں پڑھ کر سنا دی گئی ہے۔ لہذا بتوں کی گندگی اور جھوٹ بات سے اس طرح بچ کر رہو۔ کہ تم یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانتے ہو۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گرپڑا۔ پھر یا تو پرندے اسے اچک لے جائیں، یا ہوا اسے کہیں دور دراز کی جگہ لا پھینکے۔ یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔ تمہیں ایک معین وقت تک ان (جانوروں سے) فوائد حاصل کرنے کا حق ہے۔ پھر ان کے حلال ہونے کی منزل اسی قدیم گھر (یعنی خانہ کعبہ) کے آس پاس ہے۔ اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں پر رعب طاری ہوجاتا ہے، اور جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنے والے ہیں، اور نماز قائم کرنے والے ہیں، اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے (اللہ کے راستے میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنادیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو۔ بیشک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں، یقین جانو کہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔"

سورۃ حج کی چند آیات مبارکہ میں نے تلاوت کی ہیں جن میں شرک کی نفی، شعائر اللہ کے احترام اور حج اور قربانی کے بارے میں بہت مفید احکام وارد ہوئے ہیں۔ ویسے تو قرآن کا ہر حکم ہی مفید ہے لیکن آج کے موجودہ وقت کے لحاظ سے ہم اگر اس کو جان اور سمجھ لیں تو ان شاء اللہ العزیز آنے والے دن ہمارے لئے بہت مفید بن جائیں گے۔ اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:

"اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتادی تھی۔"

دراصل خانہ کعبہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ پہلے سے موجود تھا۔ یعنی آدم علیہ السلام کے وقت سے موجود تھا۔ لیکن بعد میں حالاتِ زمانہ کی وجہ سے منہدم ہوگیا تھا تو ابراہیم علیہ السلام کو اس کی جگہ بتا دی گئی۔ کسی اور جگہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ خانہ کعبہ کو shift نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ تجلی مسجودی وہیں پر ہے۔ اگر وہاں پر کچھ بھی نہ ہو پھر بھی وہ جگہ خانہ کعبہ ہے۔ دوسری جگہ بھلے خانہ کعبہ کی پوری عمارت لے کر چلے جائیں، وہ جگہ خانہ کعبہ نہیں ہوگی۔ اس سے پتا چلا کہ ہم ان پتھروں کو اور ان دیواروں کو سجدہ نہیں کررہے ہیں، بلکہ ہم اللہ پاک کو سجدہ کررہے ہیں اور اللہ پاک ہر جگہ ہیں۔ اللہ پاک نے پوری امت کے لئے یہ ایک ایسی جگہ بنا دی ہے کہ کوئی شخص کہیں سے بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ ہوگا۔ اس کو تجلی کہتے ہیں۔ تجلی اصل نہیں ہوتی بلکہ اصل کا عنوان ہوتی ہے۔ گویا کہ تجلی کا عنوان ذہن میں رکھنے سے آپ کا ذہن اس کی طرف جائے گا جس کی تجلی ہے تو خانہ کعبہ کو ذہن میں رکھ کر ہمارا ذہن خانہ کعبہ کے اوپر جس کی تجلی ہے اس کی طرف یعنی اللہ جل شانہ کی طرف جائے گا۔ احادیث شریفہ میں ما شاء اللہ ایسی کافی باتیں موجود ہیں جو اس طرف اشارہ کررہی ہیں، مثلاً حجرِ اسود کو اگر کوئی چومتا ہے تو یہ ایسا ہے جیسے وہ اللہ پاک کے ساتھ مصافحہ کررہا ہے، اور ملتزم شریف کے ساتھ جو معانقہ کرتا ہے تو یہ ایسا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معانقہ کررہا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے، حجر اسود اصل معنوں میں اللہ کا ہاتھ نہیں ہے، کیونکہ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے، اللہ تعالیٰ کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے نہ اللہ تعالیٰ تک کوئی اس طرح پہنچ سکتا ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے پاس ساتھ جاتے ہیں۔ لیکن اللہ جل شانہ کو چونکہ پتا ہے کہ لوگ اس طرح نہیں کرسکتے تو اللہ پاک نے اس کی ایک ایسی صورت بنا دی کہ عام لوگ بھی اگر اس کو حاصل کرنا چاہیں تو وہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ پاک نے حجر اسود ایسی جگہ بنائی ہے جس کو چومنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپ ﷺ نے بھی اس کو چوما ہے اور جتنے بھی انبیاء کرام آئے ہیں اور جتنے صحابہ کرام ہیں، انہوں نے اس کو چوما ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔

اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ یہ کس مقصد کے لئے ہے۔ اگر اس کو ٹھیک ٹھیک اس پر فِٹ کرنے کی بات ہوجائے تو یہ غلط بات ہوگی، کیونکہ خانہ کعبہ کی عمارت خانہ کعبہ نہیں ہے، بلکہ اصل میں یہاں جو تجلی مسجودی ہے، وہ خانہ کعبہ ہے اور اس کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے۔ اگر خدانخواستہ خانہ کعبہ کی عمارت کو یہاں سے ہٹا دیا جائے تو بھی خانہ کعبہ اِدھر ہی رہے گا۔ اللہ نہ کرے اگر کوئی شخص خانہ کعبہ کسی اور طرف بنا دے تو پھر بھی یہیں رہے گا۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں جو خانہ کعبہ تھا وہ اس طرح نہیں تھا، اس میں ایک طرف دروازہ حطیم کی طرف بھی تھا، لوگ یہاں سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔ سب لوگ اس میں سے گزر کے جاتے تھے۔ آپ ﷺ کی دلی خواہش تھی کہ میں دوبارہ اس طرح بنا دوں جیسے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا۔ دراصل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے قریش نے یہ سوچا تھا کہ اس پر ہم صرف حلال کمائی استعمال کریں گے، لیکن حلال کمائی کم تھی، اس وجہ سے جب خانہ کعبہ کی تعمیر حطیم تک ہوئی تو پیسے ختم ہوگئے، تو اس کو ایک علیحدہ حصہ بنا دیا گیا۔ اس میں اللہ پاک کی حکمت یہی ہوئی کہ اب اگرچہ وہ دروازہ نہیں ہے لیکن جو لوگ حطیم کے اندر ہوں وہ بھی خانہ کعبہ کی برکات حاصل کرسکتے ہیں۔ بہرحال آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ نبی خانہ کعبہ کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ بعض دفعہ حکمتًا بعض مستحب کاموں کو بھی چھوڑا جاتا ہے تاکہ فتنہ نہ ہو۔

"(اور یہ ہدایت دی تھی کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اور رکوع سجدے بجا لائیں۔"

اس کا مطلب ہے کہ خانہ کعبہ کی بنیادی بات یہ ہے کہ یہ عبادت، طواف، نماز اور اعتکاف کی جگہ ہے۔ اس کے لئے اس کی صفائی اور پاکی کا اہتمام ہونا چاہئے۔

"اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔"

اس وقت اگر ہم دیکھیں تو سبحان اللہ! دنیا کے کونے کونے سے اور بہت دور دور سے لوگ حج کے لئے آتے ہیں۔ بعض ایسے علاقوں سے بھی آتے ہیں جن کے نام بھی ہم نے نہیں سنے ہوتے۔ اور ایسی جگہوں سے بھی آتے ہیں جن کو کفرستان کہا جاتا ہے۔ اللہ پاک نے اس کے اندر جو کشش رکھی ہے وہ بڑی عجیب ہے، اسی کشش کی وجہ سے لوگ آرہے ہیں۔

جب ابراہیم علیہ السلام کو اعلان کے بارے میں حکم ہوا تو ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی کہ اے اللہ! میری آواز کہاں تک جائے گی؟ کیونکہ اس جگہ پر تو اس وقت چاروں طرف پہاڑ تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ تیرا کام آواز دینا ہے، آواز پہنچانا میرا کام ہے۔ اور پھر اللہ نے ایسا پہنچایا کہ ارواح کو بھی آواز سنوا دی گئی۔ پس فرماتے ہیں کہ جس نے جتنی دفعہ لبیک کہا تھا اتنی دفعہ وہ حج پہ جائے گا اور جس نے نہیں کہا تو وہ نہیں جاسکے گا۔ بہرحال یہ ایک پورا ایک نظام ہے جو چلایا جارہا ہے۔

"تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔"

یعنی قربانی کے جو جانور ہیں ان پہ اللہ پاک کا نام لیں اور ان کو اللہ کے لئے قربان کریں۔

"چنانچہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔"

انسان جس جانور کی خود اپنے لئے قربانی کرتا ہے، اس میں سے وہ خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے۔ دوسروں میں رشتہ دار بھی آتے ہیں اور محتاج لوگ بھی آتے ہیں۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں ان میں سے ایک حصہ خود کھا لیں، ایک حصہ رشتہ داروں کو دیں اور ایک حصہ فقراء کو دے دیں۔

"پھر (حج کرنے والے) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی منتیں پوری کریں، اور اس بیتِ عتیق کا طواف کریں۔"

آج اَلْحَمْدُ للہ ہمارا یومِ ترویہ ہے اور وہاں پر ان کا یوم العرفہ ہے۔ اس وقت حاجی تقریباً عرفات پہنچ گئے ہوں گے، کیونکہ وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے یعنی دو گھنٹے بعد ان کا زوال ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں تقریباً سوا بارہ بجے کے لگ بھگ زوال ہے تو ان کے ہاں ہمارے سوا دو بجے کے لگ بھگ وقت سے حج کا وقت شروع ہوجائے گا، اس کے بعد جو بھی عرفات کے میدان میں پہنچا وہ حاجی ہوجائے گا، حتیٰ کہ اگر کوئی کسی کو بیہوشی کی حالت میں بھی پہنچا دے تو اس کا حج بھی ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی راستے میں بیہوش ہوگیا تو ساتھیوں کو چاہئے ہوتا ہے کہ وہ اس کو اٹھا کر کم از کم عرفات میں پہنچا دیں، بھلے اس کی treatment وغیرہ اس کے بعد کرلیں، لیکن اس کو عرفات میں لازمی طور پر پہنچا دیں تاکہ وہ حاجی بن جائے۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ "اَلْحَجُّ عَرَفَةُ" (ترمذی: 890) کہ حج عرفات کی حاضری کا نام ہے۔ یہ بہت عجیب جگہ ہے، یہاں ایک دن پہلے جائیں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا، بالکل خالی میدان ہوگا اور ایک دن بعد جائیں گے تو ایسی حالت ہوگی کہ جگہ نہیں ملے گی۔ سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا سمندر کھل جاتا ہے۔ جو لوگ بھی وہاں حاضر ہوتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ تھوڑی تھوڑی باتوں پر مغفرت فرماتے ہیں جس سے شیطان ذلیل ہوتا ہے اور اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے۔ یہ اس جگہ کی برکت ہے۔

اصل میں حج پر جانے سے پہلے حج کا مذاکرہ ضروری ہوتا ہے تاکہ وہاں جا کر جو کام کرنے کے ہیں ان کے بارے میں انسان جان لے اور جو کام کرنے کے نہیں ہیں ان میں بلاوجہ لگنے سے اپنے آپ کو بچائے۔ مثلًا لوگ پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی بہت برکت والی چیز ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس پہاڑی کے دامن میں آپ ﷺ نے اونٹنی پہ بیٹھ کے خطبہ دیا تھا، اگر آپ چاہیں تو دامن میں کھڑے ہوجائیں اور دعائیں و استغفار اور وقوف کرلیں۔ آپ ﷺ نے دو نمازیں اکٹھی پڑھا کر جو وقوف شروع کیا وہ مغرب تک چلتا رہا۔ آپ اندازہ کریں کہ وقوف کا کتنا ٹائم ہے۔ چونکہ ایک خاص وجہ تھی کہ آپ ﷺ اللہ پاک سے مسلسل مانگ رہے تھے اور اللہ پاک دے رہے تھے تو اس لئے آپ ﷺ اتنا زیادہ وقت وقوف کیا۔ چنانچہ وہاں پر ایک ضروری کام تو وقوف کا ہے۔

دوسری اہم چیز نماز ہے۔ نماز کے بارے میں میں آپ کو ایک عجیب بات بتا دوں، اگر لوگ علماء کرام کے ساتھ نہیں ہوں گے یعنی ان سے رابطہ نہیں ہوگا تو بعض اوقات اتنی اتنی بڑی غلطیاں ہوجاتی ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ یہ کیسی غلطی کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں۔ مثلاً میں اپنا واقعہ بتاتا ہوں، ہم وہاں اپنے خیمے میں تھے، ہمارا خیمہ مسجد نمرہ سے دور تھا اس لئے ہم اپنے وقت میں نماز پڑھتے اور اپنے امام کے پیچھے پڑھتے، کیونکہ مسجد نمرہ کا امام ہم سے بہت آگے تھا۔ مسجد نمرہ کی آخری صف ہم سے شاید ایک کلومیٹر سے بھی زیادہ دور تھی۔ اور یہ نماز کا مسئلہ ہے کہ آپ اگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی صف میں اتصال نہیں ہے تو آپ کی نماز نہیں ہوگی۔ چونکہ آج کل لاؤڈ سپیکر اور ریڈیو ہے، تو ریڈیو سے آواز catch کرکے لاؤڈ سپیکر پر وہ خطبہ سنا دیا جاتا ہے۔ مجھے اسی وقت خدشہ ہوا کہ کوئی مسئلہ ہونے والا ہے، چنانچہ میں نے کھڑے ہوکر بیان کیا کہ خدا کے بندو! یہ خطبہ ان لوگوں کے لئے ہے جو وہاں امام کے ساتھ موجود ہیں، تم یہاں اپنی نماز اور معمولات کی طرف توجہ دو۔ کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ یہ نماز بھی ان کے ساتھ ہی پڑھنا شروع کردیں گے۔ اور بالکل وہی ہوا، جس وقت ان کی نماز کھڑی ہوئی تو یہ بھی ساتھ کھڑے ہوگئے۔ میں نے کافی لوگوں کو روکا جن میں سے چند لوگ میری بات مان گئے، لیکن اکثریت نے انہی کے ساتھ نماز پڑھی۔ اب مجھے بتائیں یہ دو نمازیں بھی انہوں نے پڑھی ہیں، لیکن یہ نمازیں نہیں ہوئیں۔ اور یہ نمازیں عرفات کی نمازیں تھیں۔ تصور کریں کہ اس جہالت کی وجہ سے ان کو کتنا نقصان ہوا۔ اگر یہ علماء کے ساتھ رابطہ رکھتے اور علماء کی بات مانتے تو کیا یہ غلطی کرتے؟ ہرگز نہیں۔ اس لئے میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں جو بھی حج پہ جائے وہ حج کے مسائل سیکھ کے جائے۔ یہ ضروری ہے ورنہ آپ حج کے اندر ایسی غلطیاں کریں گے کہ آپ پر دم لازم ہوچکا ہوگا اور آپ کو پتا بھی نہیں ہوگا۔

ہمارے ساتھ ایک اسی سال کا بوڑھا ساتھی تھا، وہ روزانہ سر منڈوا لیتا اور کہتا میں نے عمرہ کرلیا ہے۔ میں نے سوچا کہ ہم جوان ہو کر اتنے عمرے نہیں کرسکتے، تو یہ کیسے کرلیتا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ عمرہ کیسے کرتے ہیں؟ کہتے ہیں میں طواف کرلیتا ہوں، طواف کے بعد سعی کرلیتا ہوں، سعی کے بعد سر منڈا کر عمرہ پورا کرلیتا ہوں۔ میں نے کہا او ہو! یہ آپ نے کیا کردیا۔ اس کے لئے تو پہلے آپ کو مسجد عائشہ یا کسی اور ایسی جگہ جانا پڑتا ہے جو حدود حرم سے باہر ہو، پھر وہاں سے عمرے کی نیت سے احرام پہن کر واپس آنا پڑتا ہے، پھر عمرہ ہوگا۔ اس نے شاید چار یا پانچ عمرے اس طرح کیے ہوئے تھے، میں نے کہا آپ کے اوپر اتنے دم آگئے ہیں۔ کہنے لگا کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ اب لوگ حج کی تیاری نہیں کرتے، پہلے وقتوں میں تیاری ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ حجاج کرام ship پر جاتے تھے تو اس میں آٹھ دن لگتے تھے۔ ان آٹھ دنوں میں اچھی خاصی تیاری ہوجاتی تھی۔ اب یہ سوچ کر ٹالتے رہتے ہیں کہ فلاں وقت کرلیں گے۔ حتٰی کہ جب وقت آجاتا ہے تو جہاز پہ چلے جاتے ہیں اور جہاز چار گھنٹے یا پانچ گھنٹے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس دوران Air hostess اور staff وغیرہ کے ساتھ مصروفیت ہوتی ہے۔ جب نیچے اترتے ہیں تو جدہ کی مشکلات سامنے ہوتی ہیں۔ اتنے میں حرم شریف پہنچ جاتے ہیں اور کسی چیز کو جانے بغیر سب کچھ کرتے ہیں، اور پھر غلطیاں کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو شخص بھی حج کا ارادہ کرے وہ حج کے مسائل سیکھ کے جائے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ حج بہت بڑا عمل ہے اور صاحبِ استطاعت پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی نے یہ حج غلط کرلیا تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ پھر فرمایا کہ:

"یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے گا جن کو اللہ نے حرمت دی ہے تو اس کے حق میں یہ عمل اس کے پروردگار کے نزدیک بہت بہتر ہے۔ سارے مویشی تمہارے لیے حلال کردیے گئے ہیں، سوائے ان جانوروں کے جن کی تفصیل تمہیں پڑھ کر سنا دی گئی ہے۔ لہٰذا بتوں کی گندگی اور جھوٹ بات سے اس طرح بچ کر رہو۔ کہ تم یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانتے ہو۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گرپڑا۔ پھر یا تو پرندے اسے اچک لے جائیں، یا ہوا اسے کہیں دور دراز کی جگہ لا پھینکے۔"

یہ شرک کی مذمت ہے۔ کیونکہ ایمان آسمان کی طرح ہے اور اگر کوئی کسی بھی وجہ سے ایمان چھوڑ دے تو یہ ایسا ہے جیسے آسمان سے گر گیا اور پھر اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے پتا نہیں کس طرف چلا جائے، یا شیطان اس کو اغوا کرکے کہاں پر لے جائے اس لئے یہ بہت تباہی کی بات ہے، لہٰذا شرک کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہئے۔ اور فرمایا کہ:

"یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔"

دیکھیں! اسی آیت سے پہلے شرک کی سخت مذمت ہے اور اس کے فوراً بعد شعائر اللہ کے احترام کے بارے میں بات ہے، اس سے بعض حضرات نے یہ نکتہ نکالا کہ ممکن ہے کہ بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے شعائر اللہ کو ہی شرک نہ سمجھ لیں، مثلًا کوئی شخص خانہ کعبہ کا احترام کرتا ہے یا قرآن کا احترام کرتا ہے تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی شرک ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ قرآن پاک کو زمین پر رکھ لیتے ہیں اور خانہ کعبہ کی طرف پیر کرلیتے ہیں۔ جب ان کو کوئی منع کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے۔ خدا کے بندے! جب اللہ پاک نے اس کو عزت دی ہے تو تُو کون ہوتا ہے اس کی عزت کو ختم کرنے والا؟ قرآن کو اللہ نے عزت دی ہے، خانہ کعبہ کو بھی اللہ نے عزت دی ہے، صفا مروہ کو بھی اللہ نے عزت دی ہے؛ یہ شعائر اللہ ہیں، ان سے اللہ یاد آتا ہے۔ جس چیز کو دیکھ کر آپ کو اللہ یاد آئے اس کو شعائر اللہ یعنی اللہ کی آیات کہتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کا احترام کرنا لازم ہے۔ یہ آیت اس پر دال ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے وہ اصل میں دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے کرتا ہے اور جو شعائر اللہ کا احترام نہیں کرتے، پتا چلتا ہے کہ ان کے دلوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ اگرچہ باتیں بہت ہیں لیکن دلوں میں تقویٰ نہیں ہے۔

"تمہیں ایک معین وقت تک ان (جانوروں سے) فوائد حاصل کرنے کا حق ہے۔ پھر ان کے حلال ہونے کی منزل اسی قدیم گھر (یعنی خانہ کعبہ) کے آس پاس ہے۔ اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں پر رعب طاری ہوجاتا ہے، اور جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنے والے ہیں، اور نماز قائم کرنے والے ہیں، اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے (اللہ کے راستے میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے،"

اب یہاں بھی غور کریں کہ قربانی کے جانور بھی اللہ کے شعائر ہیں، ان کا بھی احترام کرنا لازم ہے۔

"تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہو کر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔"

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دے دو، اور بعض لوگ اگرچہ حاجت مند ہوتے ہیں مگر وہ خاموش رہتے ہیں اور وہ کسی کو نہیں کہتے، تو پہلا حق تو ان کا ہے کہ جو مانگتے نہیں ہیں، ان کو تلاش کرکے دو اور ان لوگوں کو بھی دو جو مانگ لیں۔

"اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنادیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔"

یعنی ہم جو جانور ذبح کرتے ہیں تو سب کا خون اور گوشت تو ایک جیسا ہوتا ہے، لیکن جس کے دل میں تقویٰ ہوتا ہے اور وہ جانور کو جس نیت سے ذبح کرتا ہے اور اس میں شریعت کا جتنا احترام کرتا ہے اور تمام چیزوں کا خیال رکھتا ہے، اس کا اجر اور ہوتا ہے اور جو ان چیزوں کو نہیں جانتا اگرچہ قربانی وہ بھی کرتا ہے، لیکن اس کا وہ مقام نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیں تقویٰ کو بڑھانا ضروری ہے۔ تقویٰ کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ جل شانہٗ کے حکم کے مطابق اور اللہ کے ڈر سے سارے کام کرنے لگیں، اس میں اپنے ذہن اور اپنے خیال کو نہ لائیں۔ آج کل یہ بیماری بہت زیادہ ہے کہ لوگ آپس میں کہہ دیتے ہیں کہ میرے خیال میں ایسا کرنا چاہئے۔ بھئی! اللہ کے حکم کے سامنے ہمارے خیال کی کیا حیثیت ہے؟ اول تو ہمارے خیال کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور اگر ہمارا خیال کچھ ہے بھی تو وہ صرف لوگوں کے درمیان ہے، اللہ کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہ کام بالکل نہ کریں کہ اللہ کے حکم میں ہم اپنے ذہن لڑانے لگیں، بس جیسے اللہ کا حکم ہو اسی پر من و عن عمل کریں۔ اس وجہ سے ہمیں قربانی کا طریقہ بھی جاننا چاہئے اور یہ بھی کہ جانور کیسا ہونا چاہئے۔ آج کل قربانی کے دنوں میں بہت زیادہ شور کیا جاتا ہے، لوگ ایسی باتیں پھیلا دیتے ہیں کہ قربانی کرنے کی بجائے اگر کسی غریب کو پیسے دے دیئے جائیں تو کیا زیادہ اچھا نہیں ہے؟ یا کسی کی بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کو رقم دے دی جائے کیا اچھا نہیں ہے؟ اور یہ لوگ گوشت کو ضائع کردیتے جس سے خواہ مخواہ پیسے ضائع ہوجاتے ہیں، زیادہ بہتر یہ ہے کہ یہ کسی حقدار کو دے دیے جائیں وغیرہ. ان کا جواب صرف ایک ہے کہ اللہ کا حکم سب سے زیادہ آپ ﷺ جانتے تھے، اگر پیسے دینے میں زیادہ فائدہ ہوتا تو آپ ﷺ اس پر عمل فرماتے۔ آپ ﷺ نے حج کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی کی ہے حالانکہ صرف ایک اونٹ میں ایک حصہ کافی تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے وقت میں اکثر صحابہ غریب ہوا کرتے تھے، حتی کہ کپڑے تک بھی پورے نہیں ہوتے تھے، اگر ایسی بات ہوتی تو آپ ﷺ کم از کم ننانوے اونٹوں کے پیسے غریبوں کو دے دیتے اور صرف ایک اونٹ ذبح فرماتے، لیکن آپ ﷺ نے سو اونٹ ذبح فرمائے اور یمن سے بھی منگوائے۔ مزید یہ کہ آپ ﷺ نے تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائے ہیں اور سینتیس اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے فرمائے۔ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے کہ آپ ﷺ کی عمر مبارک اس وقت تریسٹھ سال تھی، گویا کہ آپ ﷺ نے ہر سال کے لئے ایک اونٹ قربان کردیا، حالانکہ اس وقت ان پر قربانی واجب بھی نہیں تھی، لیکن تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے سینتیس اونٹ ذبح کروائے۔ اور ماشاء اللہ ان کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ اور سبحان اللہ! کمال کی بات یہ کہ آپ ﷺ نے ان تمام اونٹوں سے تھوڑا تھوڑا گوشت لے کر اس کو ایک برتن میں ڈال کے ابال لیا اور اس کا شوربا پی لیا۔ یہ سنت کی بات ہے۔

سبحان اللہ! اس وقت لوگوں نے یہ عجیب تماشا دیکھا کہ آپ ﷺ کے سامنے اونٹ خود آکر اپنا گلا پیش کررہے ہیں، حالانکہ جانور تو بدکتے اور بھاگتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ حضور ﷺ کی قربانی کا تھا تو اس وقت وہ اونٹ خود اپنا گلا پیش کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ کتنی محبت کی کہ سارے اونٹوں کا گوشت ملا کر اس کو ابال لیا اور اس کا شوربا آپ ﷺ نے خود پی لیا۔ لہٰذا علماء کرام فرماتے ہیں کہ جنہوں نے قربانی کرنی ہو، ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس دن اس وقت تک کچھ نہ کھائے پیئے جس وقت تک قربانی نہ ہوجائے اور اپنے گوشت سے کھانے کی ابتدا کرے۔ یہ مستحب ہے، فرض و واجب نہیں ہے۔ یہ بہت ہی محبوب گوشت ہے، یہ اللہ کی طرف سے تحفہ ہے اس کو مقدس گوشت سمجھیں۔ کیونکہ قربانی کے جانور کو شعائر اللہ فرمایا گیا ہے۔ شعائر اللہ کی قربانی کرکے ہم نے ما شاء اللہ وہ گوشت حاصل کیا ہے تو ہمارے لئے وہ گوشت معظم ہے، اس وجہ سے اس کو کھا کر ہم اس کی برکت اور نور کو محسوس کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ہم لوگ اسی طریقہ سے سارے اعمال کریں جس طریقہ سے آپ ﷺ سے ثابت ہیں۔

آپ ﷺ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا کہ گزشتہ امتوں میں یہودیوں میں اکہتر فرقے ہوئے، نصاریٰ میں بہتر فرقے ہوگئے اور میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوجائیں گے، لیکن صرف ایک فرقہ نجات پائے گا۔ صحابہ کرام نے ڈر کے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے جو نجات پائیں گے؟ فرمایا: "مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) یعنی جس طریقے پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، اس طریقہ پہ چلنے والے کامیاب ہوں گے۔ اس فقرے کو یاد رکھیں: ’’مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ‘‘ یہ حدیث شریف کا ایک ٹکڑا ہے، اس کو دل کے اوپر لکھ لیں اور ہر وقت اس کو سامنے رکھیں۔ دین تو حضور ﷺ اور حضور ﷺ کے صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی جس طرح پیروی کی، وہ دین ہے۔ دیکھیں! اللہ پاک نے کیسا زبردست نظام قائم کردیا کہ آپ ﷺ فرد واحد تھے، لہٰذا آپ ﷺ کی طرح سب نہیں تھے، آپ ﷺ مرد تھے عورت نہیں تھے، آپ ﷺ شہری تھے دیہاتی نہیں تھے، آپ ﷺ بہت اونچے خاندان کے تھے کم خاندان کے نہیں تھے، آپ ﷺ کے اور ایسی صفات تھیں جو باقیوں میں نہیں تھیں تو کیسے پیروی ہوتی؟ آپ ﷺ نے صحابہ کی تربیت فرمائی اور آپ ﷺ کے صحابہ میں ہر طبقے کے لوگ تھے، مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں، بہت ذہین لوگ بھی تھے اور بہت سادہ بھی تھے۔ شہری بھی تھے اور دیہاتی بھی تھے، پہاڑی لوگ بھی تھے اور صحرائی بھی۔ گویا کہ صحابہ کرام میں ہر قسم کے لوگ تھے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام میں ہر ایک کو اپنا نمونہ مل جاتا ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کے پیچھے جاؤ گے تو ہدایت پا لو گے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و حرمت کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ آج کل صحابہ کے خلاف بھی زہر گھولا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، اس دور میں فتنے کھل کے سامنے آرہے ہیں، جیسے فتنے ابل رہے ہوں۔ ایسی صورت میں اپنی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ایک تو "مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ" کو یاد رکھیں، دوسرا ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) کو یاد رکھیں کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ تیسری بات یہ ہے کہ جذبات کچھ بھی ہوں، بات ہر صورت میں حق کی کرنی چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ وہاں قیامت میں مجھے کوئی نہیں بچا سکتا، کوئی پارٹی کا لیڈر، کوئی چوہدری، کوئی خان، کوئی بڑا، کوئی چھوٹا مجھے نہیں بچا سکتا، مجھے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ لہٰذا میرا معاملہ اللہ کے ساتھ صاف ہونا چاہئے۔ جب کبھی حق اور باطل کی بات ہو تو اس وقت کبھی بھی کسی جذبے سے باطل کا ساتھ نہ دو، ورنہ یہ بہت بڑی تباہی کی بات ہے۔ اِس وقت دجالیت شروع ہوچکی ہے اور دجال کے آنے کے مواقع بھی بن رہے ہیں۔ دجال کا نکلنا بہت زیادہ قریب قریب لگ رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کہیں دجال ہمارے دور میں ہی نہ آجائے۔ اور ظاہر ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے، تو امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہونے کے لئے اور دجال سے بچنے کے لئے جو لوگ ابھی اُس طریقہ پہ چل رہے ہیں ان کے ساتھ ہوجاؤ، ورنہ یہ چھوٹی چھوٹی جذباتی باتوں سے ہم اپنے آپ کو پارٹیوں میں تقسیم کرلیتے ہیں اور بعض دفعہ اہل حق کے ساتھ مقابلے کی صورتیں بن جاتی ہیں، جو تباہی کے آثار ہوتے ہیں، لیکن اِس وقت اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوتا کیونکہ سب ملے جلے ہیں، اُس وقت صرف دو ہی پارٹیاں ہوں گی، ایک امام مہدی علیہ السلام کی اور ایک دجال کی۔ اگر کوئی امام مہدی علیہ السلام کے پاس نہیں آتا تو دجال کے پاس جائے گا اور یہ تباہی کی بات ہوگی۔ لہٰذا ہم ابھی سے اس بات کو سیکھیں کہ کہیں ہمارے جذبات ہمیں کسی اور طرف نہ لے جائیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔


"حج، قربانی اور خانہ کعبہ کی فضیلت: روحانی سفر اور عبادات کی اہمیت" - جمعہ بیان