سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 577

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں کی بہن ہوں، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! آپ کو ذکر اور معمولات کے بارے میں بتانا تھا کہ رمضان شریف کے مہینے میں اَلْحَمْدُ للہ! کوئی نماز قضا نہیں ہوئی تھی، 19 مئی سے میری rotation start ہوگئی تھی، یہ بہت tough تھی، ہر تیسرے دن On call duty ہوتی تھی تیس گھنٹے کے لئے، اس لئے میرے معمولات اور مراقبہ متأثر ہو رہا تھا، معمولات پورے نہیں ہو پاتے تھے، جس دن کال کے بعد میں گھر جاتی تھی تو کوئی نہ کوئی نماز قضا ہوجاتی تھی، مجھے بہت پریشانی ہو رہی تھی، حالانکہ میں گھر والوں کو بھی کہہ کر سوتی تھی کہ نماز کے لئے لازمی check کریں، alarm بھی لگاتی تھی، کوشش کے باوجود نمازیں پوری نہیں ہو پاتی تھیں، کبھی کال کے دن ذکر میں بھی ناغہ ہوجاتا تھا۔ مجھے دس منٹ قلب، پندرہ منٹ روح اور دس منٹ سر پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنے کا ذکر ملا ہے، مراقبہ میں بھی ناغہ ہوجاتا ہے، کیونکہ ہم تین چار Female house officers ایک Rest room میں ہوتے تھے، کبھی bed بھی شیئر کرنا پڑ جاتا تھا، میں آپ سے کافی دنوں سے اس سلسلہ میں رابطہ بھی کرنا چاہ رہی تھی، شرمندگی بھی ہے کہ ابھی House job کا دوسرا مہینہ تھا اور معمولات، نمازیں اتنی زیادہ متأثر ہو رہی ہیں، درود شریف بھی اس سے پہلے اَلْحَمْدُ للہ! زیادہ پڑھا جاتا تھا، مگر اب نہیں، قرآن پاک کی تلاوت بھی بہت کم ہوگئی ہے، ہر جمعہ کو سورۃ کہف اور صلوٰۃ التسبیح پڑھا کرتی تھی، صلوٰۃ التسبیح اگرچہ بہت پہلے سے چھوٹ گئی تھی، مگر اب سورۃ کہف پڑھنے کی پوری کوشش کرتی ہوں، پھر بھی کبھی ناغہ ہوجاتا ہے، 313 والے سلسلے کے حصار کا وظیفہ اَلْحَمْدُ للہ! باقاعدگی سے کرتی ہوں، رات عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت نفل توبہ اور حاجت کی نماز پڑھتی ہوں، منزل باقاعدگی سے پڑھنے کی پوری کوشش کرتی ہوں، بیچ میں کبھی ناغہ بھی ہوجاتا ہے۔

جواب:

یہ ہماری زندگی ہے، اس زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ان سب میں جو ضروری چیز ہوتی ہے، وہ ہدایت پہ رہنا ہے اور ہمت کرنی ہوتی ہے۔ اور راستہ اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ سے بالکل واضح طور پہ بیان فرمایا ہے، مگر ہم لوگوں کی جو بے قاعدگی ہے اور ہمارے جو دنیاوی معمولات ہیں، اس کی وجہ سے ہمارے دینی معمولات متأثر ہوتے جاتے ہیں اور اس کا نقصان ہوتا ہے، لیکن اس میں جتنی کوشش ہوسکتی ہے کہ اس کو کم کر لیا جائے یعنی نقصان کم کیا جائے، تو priority اس میں دیکھنی ہوتی ہے کہ کون سی چیز priority کی ہے، مثال کے طور پر سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو فرائض ہیں وہ پورے ہوں، فرائض اور واجبات میں بالکل کمی نہ ہو، اس کے بعد پھر جو علاجی ذکر ہے، اس میں کمی نہ ہو، پھر اس کے بعد جو مزید چیزیں ہیں، جیسے تلاوت ہے، ذکر و اذکار یعنی جو مستحب ثوابی ذکر و اذکار ہیں یہ سب چیزیں اس میں آتی ہیں۔ لہٰذا یہ کرلیں کہ آپ اپنے فرائض و واجبات پورے رکھیں اور ساتھ علاجی ذکر آپ جاری رکھیں، کیونکہ اگر باقیوں میں کمی بھی آجائے گی تو اس کی بعد میں تلافی ہوسکتی ہے، لیکن علاجی ذکر کی تلافی بعد میں نہیں ہوسکتی، اس لئے کہ جو نقصان ہوجاتا ہے، وہ ہوجاتا ہے۔ اور فرائض و واجبات تو اپنے وقت پہ ہوتے ہیں، اگرچہ اس کی تلافی یعنی قضا تو آپ کرلیں گی، لیکن وہ چیز واپس نہیں آتی۔ اس وجہ سے اس میں آپ کوشش کرلیں کہ ان دو میں آپ سے کوئی سستی نہ ہو، اس کا پورا اہتمام کرلیں، باقیوں میں اگر اوپر نیچے تھوڑا بہت ہوجائے تو اس کی تلافی بعد میں کی جاسکتی ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت جی! مجھے کہا گیا ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ کون سا گناہ زیادہ تر ہوجاتا ہے، تو اس میں سب سے پہلے غیبت ہے، میں ہر روز صبح اٹھ کر تہیہ کرتی ہوں کہ آج میں نے کسی کی بات نہیں کرنی، پر جب بیٹھ جاتی ہوں کسی محفل میں تو مجھ سے بات ہوجاتی ہے اور مذاق میں کسی کو کچھ کہہ دینا ہوجاتا ہے، پھر بعد میں پچھتاتی ہوں کہ آج پھر غیبت کر آئی ہوں۔ دوسری بات، میری اَلْحَمْدُ للہ! تین بیٹیاں ہیں، جب کسی کا بیٹا ہو تو مجھے حسد ہونے لگت ا ہے کہ میں نے بہت دعائیں بھی کی ہیں، مگر نہیں ہوا، پھر میں اتنی باتیں سوچنے لگ جاتی ہوں۔ یہ دو مسئلے مجھ سے control نہیں ہوتے، رہنمائی فرمائی جائے۔

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ جو غیبت ہے، یہ ایک اختیاری گناہ ہے اور انسان اختیار سے اس کو control کرسکتا ہے۔ اس کو control کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خاموش رہنا سیکھے، کیونکہ جب تک انسان خاموش رہنا نہیں سیکھ پاتا، اس وقت تک اس کو control کرنا بڑا مشکل ہے۔ اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ جب انسان تولے گا اور پھر بولے گا تو پھر کچھ فائدہ ہوگا، لیکن تولنے کا وقت ہی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟ لہٰذا اس کا وقت حاصل کرنے کے لئے خاموش رہنا سیکھنا پڑتا ہے، اس لئے آپ اس طرح کرلیں کہ پہلے خاموشی کا مجاہدہ کرلیں، اس سے آپ کو اس میں فائدہ ہوگا ان شاء اللہ! خاموش رہنے کا مجاہدہ یہ ہے کہ جب کبھی آپ ایسی محفل میں بیٹھیں، جس میں آپ کا دل چاہے کہ میں شریک ہوجاؤں اور بات کروں، تو بے شک اس بات کو یاد رکھیں، لیکن دس منٹ انتظار کریں، پھر دس منٹ کے بعد وہ بات کرلیں، اب جو دس منٹ آپ نے انتظار کیا ہوگا، ان شاء اللہ! اس میں پھر آپ سوچ سکتی ہیں کہ کون سی بات کروں اور کون سی بات نہ کروں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو حسد ہے، اس کا حل تفویض ہے یعنی آپ اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ کسی کو پتا نہیں ہے کہ اس کو کس چیز سے فائدہ ہے، مثال کے طور پر کسی کا بچہ ہوجائے اور وہ بچہ اس کے لئے لڑائیاں اور مختلف قسم کی قتل و غارت شروع کرلے، تو پھر آدمی کیا کرسکتا ہے۔ پھر آدمی کہتا ہے کہ یہ نہ ہی ہو تو اچھا ہے، اس لئے بیٹا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے کہ کامیابی کا باعث بیٹا ہی ہو، بلکہ بہت سارے لوگوں کے لئے بیٹا بہت نقصان کا باعث بن جاتا ہے، اس لئے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کے لئے کون سی چیز اچھی ہے۔ لہٰذا اس میں آپ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اور جب آپ کو کبھی اس قسم کی بات ہو اور جس بچے کے ساتھ آپ کو حسد ہو تو اس کے لئے بڑی دعائیں کریں اور دل پر جبر کرکے دعائیں کریں کہ یا اللہ! اس کو سلامت رکھیں، اس کو مشکل سے بچائیں، بیماری سے بچائیں، نظر بد سے بچائیں، تو اس طرح اس کے لئے دعائیں کرنی شروع کرلیں، کیونکہ جس وقت آپ اس کے لئے دعائیں کریں گی تو یہ مجاہدہ ہے، اس مجاہدہ کی برکت سے آہستہ آہستہ آپ کا جو حسد ہے، وہ بھی رک جائے گا اور ان شاء اللہ العزیز! اس مجاہدہ کا جو اجر ہے، وہ بھی آپ کو ملے گا، اللہ جل شانہٗ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت مرشدی دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! اس مہینے میری فجر کی نماز ایک دو بار قضا ہوگئی ہے فقط alarm نہ لگانے کی وجہ سے۔ میرے پاؤں پر آپریشن بھی ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجھے دن میں بعض اوقات گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔

جواب:

اللہ جل شانہٗ آپ کو کامل صحت عطا فرمائے اور جب آپ کو ذرا صحت ہوجائے تو آپ ہمت کرکے سزا کے طور پر تین روزے ہر نماز کے لئے رکھیں اور آئندہ کے لئے احتیاط کر لیا کریں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں بیمار ہوں، مجھے چکر اور الٹیاں آتی ہیں، میرا مراقبہ تیس من ٹ کا ہوتا ہے، جس میں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، کیا میں مراقبہ درمیان میں چھوڑ سکتی ہوں؟ میری رہنمائی کیجئے، دعاؤں کی طلبگار۔

جواب:

آپ کی جو بیماری ہے، اس کے لحاظ سے آپ کو رخصت ہے اور رخصت یہ ہے کہ آپ اپنا مراقبہ ایسے وقت میں کریں جب آپ بہتر ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ درمیان میں اگر ایسا ہوجائے تو بالکل آپ تھوڑا سا rest کرکے پھر دوبارہ اپنا مراقبہ شروع کرسکتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جو بیماری ہے، وہ اس قسم کی ہے کہ اس میں آپ کو سانس لینا ضروری ہے اور بہتر ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں جہلم سے فلاں بات کررہا ہوں، ان شاء اللہ! آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! آپ نے مجھے ذکر دیا تھا، لیکن اس ذکر کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے کہ میں نے یہ ذکر چھوڑ دیا تھا، اب دوبارہ سے شروع کرنا چاہتا ہوں، اگر آپ اجازت دیں تو میں دوبارہ سے آپ کے دیئے ہوئے معمولات کو شروع کرلوں؟

جواب:

ہماری طرف سے اجازت ہی اجازت ہے، اس میں ہم لوگ آپ کو روکیں گے نہیں، کیونکہ آپ اپنے آپ کو نقصان دے رہے ہیں اور پھر آپ مجھے اطلاع کررہے ہیں کہ میں اب اپنے آپ کو نقصان نہیں دوں گا، تو میں آپ کو کیا کہوں گا کہ آپ اپنے کو ایسا نقصان دے دیں؟ نہیں، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ بات ہے کہ آپ اس مسئلہ کو اچھی طرح جان لیں کہ زندگی بار بار نہیں ملا کرتی اور اگر آپ لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو ایک دفعہ یہ ختم ہوجائے گی، پھر اس کے بعد یہ دوبارہ نہیں ملے گی، اس وجہ سے ایسا کام بالکل نہ کیا کریں، جس پہ بعد میں پچھتاوا ہو، اللہ جل شانہٗ توفیق عطا فرمائے۔ آپ دوبارہ ذکر شروع کرلیں، لیکن ذرا تھوڑا سا اس پہ آپ نظر ڈالیں کہ یہ رہ کیوں گیا تھا؟ تاکہ اس کا علاج ہو سکے کہ آئندہ کے لئے اس طرح نہ ہو، کیونکہ جو غلطی ہوجاتی ہے، اس سے اگر ایک انسان عبرت سیکھ لے اور انسان کو اس سے تجربہ ہوجائے اور پھر آئندہ اس کی وجہ سے وہ غلطی نہ ہو تو یہ بھی اس کا ایک حل ہوتا ہے یعنی گویا کہ compensation ہوتی ہے، لہٰذا آپ اس پر نظر ڈالیں کہ آخر ایسا کیوں ہوگیا تھا اور کیوں آپ سے یہ رہ گیا تھا؟

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں میرانشاہ سے بات کررہا ہوں، جون کے مہینے کے معمولات کی شیٹ ارسال کررہا ہوں، معمولات درج ذیل ہیں: دو سو، چار سو، چھ سو، ساڑھے چار ہزار اور دس منٹ لطیفۂ قلب اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح ہے۔ اس مہینے میں ذکر علاجی کا دو دن ناغہ ہوا تھا اور یہ انتہائی مصروفیت کی وجہ سے ہوا، باقی اَلْحَمْدُ للہ! اب مراقبہ میں یکسوئی رہتی ہے، مراقبہ کے علاوہ کبھی دل کی توجہ ہوتی ہے اور اپنے تصور میں مجھے یوں لگتا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ بڑی اچھی بات ہے، ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پہ دس دس منٹ کریں اور لطیفۂ سر یہ پندرہ کرلیں۔ اور ذکر علاجی کا جو ناغہ ہوا ہے، تو سمجھ لیں کہ اس کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرلیں اور مصروفیت کا جو مسئلہ ہوتا ہے، اس کی compensation یہ ہوتی ہے کہ اگر اسی وقت پہ نہ ہوسکتا ہو تو اس کو دوسرے وقت میں کر لیا جائے، مثال کے طور پر اگر آپ کا صبح کا معمول ہے اور آپ شام کو فارغ ہوجائیں تو شام کو کرلیں، یہ نہ کرنے سے بہتر ہے، مصروفیت کی وجہ سے چھوڑنے کے نقصان سے یہ نقصان کم ہے، لہٰذا اس کی کوشش کرلیں کہ کم از کم اس دن کر ہی لیں۔

سوال نمبر 7:

شیخ محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا نام فلاں، والد فلاں، شہر فلاں، تعلیم فلاں ہے، گزشتہ ماہ کے اذکار یہ ہیں کہ لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ ہے، کیفیت اچھی ہے، دل و دماغ اور ذہن سے ہر وقت شکر گزاری محسوس ہوتی ہے، ہر بات پر شکر آگیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا چلتے پھرتے یا سفر میں ذکر کرسکتے ہیں؟

جواب:

جو ثوابی ذکر ہے، وہ چلتے پھرتے اور سفر میں آپ کرسکتی ہیں، لیکن جو علاجی ذکر ہے، اس کے لئے بیٹھنا پڑتا ہے، اور اس کو اسی طرح کرنا ہوتا ہے، جس طرح بتایا گیا ہے۔

سوال نمبر 8:

روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں اَلْحَمْدُ للہ۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ تینوں لطائف یعنی لطیفۂ قلب، روح، سر کو دس دس منٹ اور لطیفۂ خفی کو پندرہ منٹ شروع کرلیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں مسجد رحمانیہ سے فلاں بات کررہا ہوں، اللہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہو چکا ہے۔ ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے چار ہزار مرتبہ اور پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے۔ مراقبہ تجلیات افعالیہ میں اس نیت کے ساتھ دل کی طرف متوجہ ہو کے بیٹھتا ہوں کہ فیض اس ذات کی طرف سے آرہا ہے جو سب کچھ کرتی ہے یعنی عزت، ذلت، صحت، بیماری، نقصان، موت و حیات سب اس کے اختیار میں ہے، ان سب کو اللہ ہی کررہا ہے۔ اور فیض کے آنے کی ترتیب جس طرح آپ نے فرمائی تھی کہ اللہ جل شانہٗ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے دل پر فیض آرہا ہے۔ گزارش ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرمائیں۔

جواب:

ابھی یہ کرلیں کہ جو مراقبہ آپ کا پندرہ منٹ کا تھا، اس کی جگہ اب آپ کا دوسرا مراقبہ ہے یعنی صفات ثبوتیہ کا مراقبہ کہ اللہ جل شانہٗ دیکھ رہے ہیں، اللہ پاک سن رہے ہیں، اللہ پاک کلام فرماتے ہیں، اللہ پاک زندہ ہیں، اللہ پاک ہمیشہ سے ہیں اور اسی طرح وہ صفات ہیں جن کو آپ نے تصور میں رکھنا ہے کہ ان صفات کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے۔ اس کو بھی پندرہ منٹ کریں، باقی چیزیں وہی ہیں جو پرانی ہیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔

Sheikh, completed doing the Muraqba that Allah is with me. I don’t know how He is with me but He is really with me. This فیض is coming from Allah to رسول اللہ ﷺ and from him to my Sheikh and from him to my whole body for five months already. My feelings are as follows:

No. 1: I feel Allah is with me during the day. I also can feel that Allah is with me for some time.

No. 2: Secondly, I feel nothing important for me in this world and everything which I got either good or bad which mostly, people are thinking about. But I think is all is coming from اللہ سبحانہ و تعالیٰ as test and hidaya.

No. 3: I feel, through doing this, makes me truly understand the meaning of obedience and truly implement it. Also, I have more patience than before اَلْحَمْدُ للہ . Before, when I would do something I would want to show it off to others. Kindly guide me what I should do next?

جواب:

I think, now, you should concentrate on what spiritual problems you have? It means spiritual weaknesses. So, seek them and write about them to me continuously.

سوال نمبر 11:

السلام علیکم

Sheikh, completed doing the thinking that Allah is with me but I don’t know how He is with me but He is really with me. This فیض is coming from Allah to رسول اللہ ﷺ from him to my Sheikh, from him to my whole body for the month. The following are my feelings.

No. 1: I already feel الایمان. It's not superficial but it is inner and strong.

No. 2: I feel maybe due to my weak health that I can’t fulfill what I said in reality. For example, I always complain about my life. I can’t control myself emotionally. So, I really want my Sheikh to guide me on what I should do to improve this?

No. 3: I feel once the month of Ramazan is finished my efforts are also getting decreased. Please kindly guide me what should I do for next? جزاک اللہ خیراً

Wife of فلاں

جواب:

I think it’s very good that you are feeling this. But you should start as Allah is with you and you understand it. So whatever problem, like the ones you are telling me about, ask Him to help you. So, this is a continuous dua. It means you will be always in the state of dua and you will be asking اللہ سبحانہ و تعالیٰ for His help in any case all the time. ان شاء اللہ

سوال نمبر 12:

السلام علیکم

Sheikh, I did ten minutes on five points and fifteen minutes on مراقبہ تجلیات افعالیہ. When I am concentrating on this, I feel very open-minded as I realize that Allah controls everything. But sometimes, I can’t really concentrate, so the feeling is getting weak. Please guide me on the next step جزاک اللہ

جواب:

ماشاء اللہ! you are doing it right and you should continue this مراقبہ for one month more. In the case of your thinking that everything is controlled by اللہ سبحانہ و تعالیٰ and He is doing everything, so think now that He is correcting all your things. And think about the فیض which is coming from اللہ سبحانہ و تعالیٰ and to رسول اللہ ﷺ and then to Sheikh and from there to your heart.

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ میں برطانیہ سے فلاں بات کررہا ہوں، میرا ذکر چل رہا ہے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر۔ آپ نے جولائی میں صفات ثبوتیہ کی جگہ صفات شیونات ذاتیہ کا مراقبہ فرمایا تھا جو کہ لطیفۂ سر پر پندرہ منٹ کا تھا، اس مراقبے کو اب تک تقریباً دس مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں، فروری کے بعد سے آپ سے رابطہ نہیں ہو سکا، فروری میں پاکستان میں گیا تو Corona ہوگیا اور بیماری اور مصروفیت میں ذکر کا tempo ٹوٹ گیا، سوچا کہ شاید میں ذکر میں استقامت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے زیادہ ترقی ہوتی ہے، سوچا نماز اور سادہ ذکر میرے لئے کافی ہے، پھر سوچا کہ وسوسہ بھی ہوسکتا ہے اور سستی بھی، لیکن دوبارہ ہمت پکڑی اور دوبارہ ذکر کے معمول پہ آگیا ہوں، اکا دکا ناغہ ہوجاتا ہے، لیکن تین مہینے سے ذکر کا وہی معمول ہوگیا ہے، سفر یا سخت تھکن کے علاوہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ناغہ نہ ہو، مراقبہ میں کافی خیالات آتے ہیں، کبھی بالکل بھی ارتکاز نہیں ہو پاتا اور سخت کوفت ہوتی ہے اور مراقبہ مختصر کردیتا ہوں خاص طور پر قلوب کے مراقبہ میں، ذکر میں پابندی تو ہے، لیکن پورا ٹائم نہیں دیتا، اس لئے ارتکاز نہیں ہو پاتا اور مایوسی ہوتی ہے۔ میرے مراقبہ اور ذکر میں کچھ وقفہ آیا ہے، لیکن میرا ارادہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے کہ ذکر میں استقامت دکھانی ہے اور جیسے بھی ہو اس کو نہیں چھوڑنا، اس بات کی اللہ پاک سے دعا بھی کرتا ہوں۔ آخرت کی فکر کافی ہے، اکثر خواب میں دیکھتا ہوں کہ امتحان کا وقت قریب ہے اور میری کوئی تیاری نہیں ہے اور پھر گھبراہٹ میں آنکھ کھل جاتی ہے، کوشش کرتا ہوں کہ ہر وقت کوئی ذکر کروں خاص طور پر استغفار کرتا ہوں، لیکن یاد نہیں رہتا، سوچتا ہوں کہ جو وقت ذکر کے بغیر گزرا، وہ ضائع ہوگیا۔ اللہ کی عظمت کے آگے میرا ذکر بہت حقیر اور معمولی لگتا ہے، سوچتا ہوں کہ اپنے ذکر سے کیا اللہ کی قربت حاصل ہوگی؟ اس بات سے کافی مایوسی ہوتی ہے، بدنگاہی ہے، لیکن شاید ماحول کی وجہ سے ہے، اللہ پر بھروسہ کامل ہے اور ہر وقت برے وقت کے آنے کی سوچتا رہتا ہوں، اللہ کی نعمتوں کی طرف دھیان نہیں جاتا۔

جواب:

آپ کو اللہ پاک نے ایک نعمت عطا فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ کم از کم آپ کو اپنی بیماریاں نظر آرہی ہیں اور ماشاء اللہ! چونکہ آپ ڈاکٹر ہیں، اس لئے آپ کو اس چیز کا احساس ہوگا کہ اگر کسی کو اپنی بیماریاں نظر آرہی ہوں تو یہ بھی ایک بڑی نعمت ہے، مثلاً اگر کسی کو اپنا درد محسوس نہ ہوتا ہو، تو یہ بھی ایک بیماری ہے اور جب درد محسوس ہونے لگتا ہے تو یہ بھی ایک علاج کی صورت بن جاتی ہے۔ مجھے ایک سرجن نے کہا تھا کہ ایک افغانستان کا مہاجر تھا، اس کا ہاتھ دھماکہ میں خراب ہوگیا تھا، اب ایسے طور پہ چونکہ اکثر وہ ہاتھ کاٹ دیتے تھے اور پھر مصنوعی ہاتھ لگاتے تھے، لیکن میں اس کو کافی صاف کرتا رہا اور وہ کاٹتا رہا، تو ایک جگہ مجھے تھوڑا سا خون نظر آنے لگا، بس جیسے ہی خون آگیا تو میں نے شکر ادا کیا کہ اس میں ابھی جان ہے، پھر اس کے بعد اس کا میں نے علاج کیا، اگرچہ اس علاج میں سب لوگ کہتے کہ آپ اس کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا جو انفیکشن ہے، وہ بڑھ جائے گا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اس کی صفائی بھی کرواتا رہا اور اس کو bandage کرتا رہا، پھر جب اس کو ہم نے فارغ کیا تو بعد میں کافی عرصہ بعد ایک آدمی میرے دفتر میں داخل ہوا اور اس نے مجھے سلام کیا اور مجھے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں نے کہا جی بالکل نہیں پہچانا، انہوں نے کہا میں آپ کا وہ patient ہوں، جس کا ہاتھ کاٹا جارہا تھا، لیکن آپ نے بچا لیا اور پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کے خوب زور سے اس کو اوپر نیچے کیا کہ دیکھیں! میرا ہاتھ کیسے اچھا ہوگیا ہے۔ اب دیکھیں! یہی بات ہے کہ ہمت والی بات تھی یعنی ڈاکٹر کی ہمت تھی اور مریض کی بھی ہمت تھی، جس کی وجہ سے نقصان فائدے میں بدل گیا۔ بس اسی طرح آپ بھی اگر ہمت دکھائیں گے تو ان شاء اللہ العزیز! وقت کے ساتھ ساتھ یہ ساری باتیں remove ہوجائیں گی، ورنہ پھر یہی چیز ہے کہ اگر آپ کو احساس نہ ہوتا جیسے کینسر ہوتا ہے کہ کینسر میں بعض دفعہ پتا نہیں چلتا اور بالکل Last stage پہ پتا چلتا ہے جس وقت وہ لاعلاج ہوجاتا ہے یعنی اسی طریقے سے یہ بیماریاں بھی ہیں کہ اگر کوئی ان کو diagnose نہ کرے اور ان کا خیال نہ رکھے تو پھر لاعلاج ہوجاتی ہیں اور اس کا نتیجہ پھر جہنم ہی ہوتا ہے، اس وجہ سے آپ کو اللہ پاک نے اگر ان چیزوں کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ آپ نے اس کو جان لیا ہے کہ یہ بیماریاں آپ میں ہیں، تو اب ان کو ہمت سے ٹھیک کرنا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ یہ بات سمجھیں کہ جو ذکر آپ کرتے ہیں، وہ ضائع نہیں ہوتا یعنی جو ذکر بھی آپ کرتے ہیں چاہے تھوڑا سا کیوں نہ ہو، وہ ضائع نہیں ہوتا، اس بات کو اچھی طرح سوچ لیں کہ ذکر کبھی ضائع نہیں ہوتا اور دوسری بات یہ ہے کہ جو آپ سے سستی ہوئی ہے تو سستی کا علاج چستی ہے، اس میں آئندہ آپ ہمیشہ خیال رکھیں کہ جب آپ کو سستی ہونے لگے تو چستی دکھائیں، مثال کے طور پر ایک آدمی صبح فرض نماز کے لئے نہیں اٹھ پاتا اور اس کو سستی ہو رہی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اکثر لوگ جو ہمت کرنے والے ہوتے ہیں، وہ پیروں کو اس طرح اوپر اٹھا کے پھر اس کو زور سے نیچے لا کے یکدم سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں یعنی وہ اپنے نفس کے مقابلہ میں اپنی پوری قوت لگا کے کھڑے ہوجاتے ہیں، بس پھر اس کی نیند بھی ٹوٹ جاتی ہے اور وہ پھر نماز بھی پڑھنے لگتے ہیں، لہٰذا آپ نے بھی اس طرح ہی کرنا ہے کہ جب کبھی سستی ہو تو خوب چستی دکھائیں کہ اس کو کرنا ہے۔ اور جو وسوسہ آپ کو آگیا تھا کہ میرے لئے سادہ ذکر بہت ہے، تو یقیناً سادہ ذکر بھی بہت ہے، لیکن بات سمجھیں کہ خشک روٹی بھی بہت ہے یعنی اگر کچھ کھانے کو نہ ہو تو کیا خیال ہے اس پر کوئی ٹھہرتا ہے؟ کہ خشک روٹی پانی کے ساتھ میں کھا لوں گا تو میرا پیٹ بھر جائے گا۔ لہٰذا اگر کوئی اس طرح کرتا ہے تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے انسان کو اللہ تعالیٰ نے زندگی دی ہے تو کچھ پانے کے لئے دی ہے، اس میں سستی نہ کریں اور وسوسے کے پیچھے نہ جائیں، جو بات ہو ہمت کے ساتھ اس کو کریں، ان شاء اللہ العزیز! اللہ پاک مدد فرمائیں گے، بس فی الحال آپ اتنے کو ہی stable کرلیں کہ بالکل ناغے نہ ہوں، اگلے مہینے پھر مجھے بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم حضرت! نصیحت کے مطابق ذکر اور مراقبات اَلْحَمْدُ للہ! بلاناغہ جاری ہیں۔ آپ نے راہ سلوک پر چلنے کا فرمایا تھا اور نصیحت کی تھی کہ نفس اللہ تعالیٰ کے جن احکامات کو ماننے کی زیادہ مخالفت کرتا ہے، وہ میں آپ کو لکھ کر بتاؤں۔ محترم حضرت! نفس کے مندرجہ ذیل رذائل میں نے آپ کو لکھ کر بتائے ہیں، جن میں نفس کے لئے سب سے زیادہ مشکل بدنظری تھی، آپ نے نصیحت فرمائی تھی تو بدنظری سے ایک ماہ مکمل ہوگیا کہ بچنے کی کوشش کررہا ہوں، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کے فضل سے اور آپ کے فیض کی برکت سے پورا مہینہ مندرجہ ذیل پر control رہا، باقی رذائل کی ترتیب یہ ہے: نفس کا مشکل سے آسانی کی طرف، غیبت، جھوٹ اور ناجائز غصہ اس کے علاوہ زیادہ اور غیر ضروری باتیں ہیں۔

جواب:

اس میں غیبت واقعی بہت اشد ہے، لہٰذا آپ اس طرح کرلیں کہ جب بھی آپ سے غیبت ہونے لگے تو آپ خاموش ہوجایا کریں اور دس منٹ کے لئے اپنی خاموشی کو آپ continue رکھیں، اس کے بعد پھر ضروری بات کر لیا کریں غیبت کو چھوڑ کر۔ اور جو غیبت آپ کے سامنے کرے تو بہتر یہ ہے کہ اس کو کہہ دو کہ بھائی! میں غیبت نہیں سنتا اور میرے خیال میں آپ جہاں پر ہیں تو وہاں آپ کے سامنے کوئی غیبت کر بھی نہیں سکتا، کیونکہ آپ officer ہیں ان کے، لہٰذا کوئی آپ کے سامنے اگر غیبت کرلے تو آپ ان کو روک بھی سکتے ہیں کہ میں غیبت نہیں سنتا۔ اور اگر صاف نہیں کہہ سکتے تو ان سے کہہ دیں بھائی! میرا دل یہ چیزیں قبول نہیں کرتا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ پھر آپ جگہ چھوڑ دیں یا کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں اور آئندہ کے لئے یہ سوچیں کہ غیبت اصل میں اپنے ناپسندیدہ شخص کو اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز دینی ہوتی ہے یعنی نیکی، کیونکہ آخرت میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز نیکی ہوگی اور وہ آپ کس کو دے رہے ہیں؟ جو آپ کے لئے یہاں ناپسندیدہ ہے، تو اس کو ہم کیا کہیں گے؟ یہ بیوقوفی ہے، اور اس بیوقوفی سے بچنے کے لئے ہمیں یہ کرنا پڑے گا کہ جب کبھی کوئی غیبت کرے تو اس کو روکیں، اس سے کہیں بھائی! غیبت میں سنتا نہیں اور اگر دوسری بات ہے تو کہیں کہ بھائی! میری تسلی اس پہ نہیں ہو رہی، تیسری بات یہ ہے کہ آپ جگہ چھوڑ دیں اور خود غیبت اگر کرنے کا ارادہ ہو تو خاموش ہوجائیں دس منٹ کے لئے، ان شاء اللہ العزیز! پھر آئندہ یہ نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے، اس مراقبہ سے ذکر کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے اور نماز میں سستی ختم ہوگئی ہے، جب تک نماز نہ پڑھوں چین نہیں آتا۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، اب مراقبہ تجلیات افعالیہ ان کو بتا دیجئے اور یہ تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر جاری رہے گا ان شاء اللہ!

نمبر 2: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت ہے، ذکر کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے اور موبائل سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی آپ یہ کریں کہ دس منٹ کا ان کو تمام لطائف پر ذکر بتا دیں اور مراقبہ تجلیات افعالیہ ان کو دے دیں۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ!

جواب:

اب ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا دے دیں۔

نمبر 4: چار لطائف پر دس منٹ ذکر اور لطیفۂ اخفیٰ پر پندرہ منٹ ذکر ہے، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت بتا دیں۔

نمبر 5: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے، ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ اخفیٰ پر پندرہ منٹ اور باقی سب پر دس دس منٹ کا ذکر ان کو بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 16:

حضرت جی! گزشتہ ماہ کو مجھے آگے سبق نہیں ملا اور اس ماہ بھی پرانا سبق چلایا ہے جو یہ تھا، باقی آپ نے سلوک کا فرمایا تھا کہ آپ سلوک پہ چلیں، اگر اجازت ہو تو منگل کے دن بعد نماز عصر ملاقات کے لئے حاضر ہوجاؤں؟

جواب:

جی بے شک تشریف لے آئیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔ میں فلاں شعبۂ ہوا بازی ملتان سے ہوں، حضرت! آپ کے لئے میں ہر وقت دعاگو رہتا ہوں، آپ کے بیانات باقاعدہ سنتا ہوں اور اس کے فیوض و برکات اللہ پاک سے مانگتا ہوں۔ ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اَلْحَمْدُ للہ! باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے۔ ثوابی ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو مرتبہ کرتا ہوں، اس ذکر کا اثر اَلْحَمْدُ للہ! زندگی کے زیادہ شعبوں میں ہمہ تن محسوس کرتا ہوں، اپنے نفس کی کمزوریوں پر متوجہ رہتا ہوں۔

نمبر 1: اپنی گفتگو میں بعض دفعہ سختی محسوس کرتا ہوں۔

نمبر 2: کوشش تکبیر اولیٰ سے کافی پہلے مسجد پہنچنے کی ہوتی ہے، لیکن زیادہ ناکامی ہوتی ہے۔

نمبر 3: دن میں تیس منٹ سے ایک گھنٹہ حالات حاضرہ پر ضائع کرتا ہوں، چونکہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اس لئے اس سے پریشان بھی رہتا ہوں۔

نمبر 4: تیس منٹ سے ایک گھنٹہ ورزش اور کھیل اور پندرہ منٹ سے تیس منٹ تک اپنی کھیل و تفریح اور صحت کی research۔

نمبر 5: خاموش رہتا ہوں اور کئی دفعہ دنیاوی خواہشوں سے لڑتا ہوں اور روکے رکھتا ہوں، کئی عرصہ تک توفیق خدا سے رکتا ہوں اور کئی دفعہ اس کے سامنے بے بس بھی ہوتا ہوں۔

باقی معمولات بھی باقاعدگی سے جاری ہیں یعنی سورۃ یس، ’’مناجات مقبول‘‘۔ دعا میں اَلْحَمْدُ للہ! سورۃ ملک، حفاظت کی دعائیں اور منزل میں سے ایک، لیکن کچھ نہ کچھ معمولات میں روز کمی رہ جاتی ہے۔

جواب:

سب سے پہلے تو میں گزارش کروں گا کہ آپ نے اس کو میرے Personal number پہ بھیجا ہے، لہٰذا اب آپ میرے سوال و جواب والا جو نمبر ہے، اس پہ یہ بھیجا کریں، ورنہ یہ رہ جائے گا، جیسے آج رہنے والا تھا، یہ تو اتفاق سے میں نے دیکھ لیا۔ باقی ماشاء اللہ! ذکر تو آپ کا یہی ہے، البتہ اب یہ ہے کہ اس کے ساتھ پانچ منٹ کے لئے یہ سوچیں کہ میرا دل (اسی طرح جس طرح آپ زبان سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کہہ رہے ہیں پانچ سو دفعہ، اسی طرح آپ کا دل) ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، اس میں زبان خاموش رہے گی، آنکھیں بند اور قبلہ رخ ہونا ہے، لہٰذا اس طریقہ سے آپ پانچ منٹ کے لئے یہ اس کے ساتھ شامل کرلیں اور باقی سارا کچھ جو آپ کررہے ہیں وہی ٹھیک ہے۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا نام جاوید ہے، میرا سوال یہ ہے کہ علماء کرام سے تو مسائل پوچھنے چاہئیں، مگر شیخ کا کیا کام ہے؟ شیخ! اس کے بارے میں عرض کردیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے۔ علماء کرام سے دین کے مسائل سیکھنے چاہئیں، کیونکہ آپ ﷺ جو دین لے کے آئے ہیں، اس کا جو علم ہے، وہ ہمیں علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات کہ آپ نے لفظ سنا ہوگا تعلیم اور اس کے ساتھ ایک اور لفظ سنا ہوگا تربیت، یہ تعلیم و تربیت دونوں ایک لفظ ہوا کرتے تھے، مگر آج کل تعلیم پر تو کسی نہ کسی درجہ پر زور دیا جاتا ہے، لیکن تربیت پہ زور نہیں دیا جاتا، مدارس میں بھی اگر جائیں تو تربیت نہیں ہو رہی ہوتی، کالج، سکولوں میں بھی تربیت نہیں ہو رہی ہوتی، نتیجتاً وہ علم بعض دفعہ وہ وبال بن جاتا ہے یعنی وہ چیز عمل میں نہیں آتی۔ اس لئے مشائخ سے عمل کے لئے تعلق کیا جاتا ہے کہ انسان اسی علم پر عمل کرنا شروع کردے، کسی عمل میں اگر عملی کوتاہیاں ہوتی ہیں تو ان عملی کوتاہیوں پہ تنبیہ ہوجائے، اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے، سب سے بڑی یہ ہے کہ انسان کے ساتھ نفس بھی ہے اور نفس کو شیطان استعمال کرتا ہے یعنی شیطان کا جو اغوا ہے، وہ نفس کے ذریعہ سے انسان کو ہدایت سے دور لے جاتا ہے۔ لہٰذا جو حضرات مشائخ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، وہ شیطان کے دھوکے سے ان حضرات کی برکت سے نکل جاتے ہیں، کیونکہ شیطان جو بھی دھوکہ دیتا ہے، مشائخ ان کو وقت پر تنبیہ کردیتے ہیں کہ اس طرف نہیں جانا اور ان کو اس سے نکال لیتے ہیں اور پھر بعد میں اپنے experience سے انسان کو وہی چیز حاصل ہوجاتی ہے، لیکن بہت سارا نقصان اٹھانے کے بعد۔ جیسے اس کے لئے فارسی کا ایک فقرہ بھی ہے کہ ہر کہ دانا کند کند ناداں، لیکن بعد از خراب بسیار (یعنی جو ہوشیار کرتا ہے، وہ بعد میں نادان بھی کرتا ہے، لیکن بہت ساری خرابی اٹھانے کے بعد)

لہٰذا اسی طریقے سے جو مشائخ ہوتے ہیں، وہ بروقت انسان کو سمجھا دیتے ہیں، تو وہ اس سے بچ جاتا ہے۔ اور اس میں سب سے بڑی بات اپنے نفس کی اصلاح ہوتی ہے اور نفس کی جو اصلاح ہے، اس کے لئے انسان کو اپنی ہمت سے کام لینا ہوتا ہے، لیکن طریقہ شیخ بتاتا ہے، کیونکہ آپ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں ہمت ضرور استعمال کرنی ہوتی ہے، لیکن اگر طریقہ نہ آتا ہو تو پھر صرف ہمت کام نہیں کرتی، کیونکہ انسان زور لگائے اور غلط لگائے تو کیا فائدہ؟ اور جس وقت صحیح طریقے سے زور لگائے تو کم زور سے بھی وہ کام ہوجاتا ہے، ورنہ پھر زیادہ زور سے بعض دفعہ تو نقصان ہوجاتا ہے۔ خیر بس یہی مشائخ کا کام ہے۔

سوال نمبر 19:

حضرت! ایک سوال یہ ہے کہ مبتدی اور منتہی بظاہر دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو مبتدی ہے، وہ منتہی سے بھی آگے نظر آتا ہے، جیسے دو بزرگوں میں سے جو استاذ تھے وہ دریا کے کنارے پر کشتی کا انتظار کررہے تھے، جو مبتدی تھے وہ بعد میں آئے تو انہوں نے کہا کہ بھائی! آپ کیوں بیٹھے ہیں؟ منتہی نے فرمایا میں کشتی کا انتظار کررہا ہوں، کشتی آئے گی تو جاؤں گا، یہ سن مبتدی دریا کے اوپر سے چلے گئے۔

جواب:

یہ مبتدی نہیں ہوتا، یہ متوسط ہوتا ہے یعنی جو اس قسم کے کام کرتے ہیں وہ متوسط ہوتے ہیں، کیونکہ مبتدی تو یہ بھی نہیں کرسکتا۔ متوسط جو ہوتا ہے وہ مغلوب الحال ہوتا ہے یعنی ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی صفات کھلی ہوتی ہیں اور اپنی صفات ان سے غائب ہوتی ہیں یعنی وہ مغلوب الحال ہوجاتے ہیں۔ اب چونکہ ان کی اپنی صفات کے اوپر نظر ہی نہیں ہوتی، محض اللہ پاک کی صفات پر نظر ہوتی ہے، اس لئے پھر اس طرح کے لوگوں سے زیادہ کرامت سرزد ہوتی ہیں۔ اور ایسے لوگ اپنے اس ظن کے اعتبار یہ کام کر لیتے ہیں جو ان کو اللہ کے ساتھ ہوتا ہے، جیسے حدیث میں آتا ہے:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

مگر جو منتہی ہوتا ہے، اس سے یہ کام نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ منتہی کی نظر اللہ کے احکامات پر ہوتی ہے اور اللہ کے احکامات کے مطابق وہ کام کرتا ہے، جبکہ جو متوسط ہوتا ہے، اس کی اللہ پاک کی قدرت پہ نظر ہوتی ہے، اس لئے وہ اپنی صلاحیتوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ اچانک چپ ہوگئے تھوڑی دیر کے لئے، اس کے بعد پھر بات شروع کی، لیکن بات شروع کرنے سے پہلے فرمایا کہ ایک صاحب آئے تھے طی الارض کرتے ہوئے، تو میں نے ان کو ڈانٹا کہ اللہ پاک نے یہ پیر کس لئے دیئے ہوئے ہیں؟ ان کو استعمال کرو۔ اب یہ طی الارض کوئی مبتدی کرسکتا ہے؟ نہیں، مبتدی نہیں کرسکتا، لیکن یہ متوسط ہوسکتا ہے۔ اور متوسط سے لوگ زیادہ متأثر ہوتے ہیں یعنی عام لوگ متوسط سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کرامات کے پیچھے جاتے ہیں اور ایسی محیر العقول چیزوں کے پیچھے جاتے ہیں۔ باقی جہاں تک مبتدی کی بات ہے، تو مبتدی ابھی راستہ میں ہوتا ہے، جیسے دو کنارے ہیں، ایک کنارہ جہاں پہنچنا ہے اور ایک کنارہ جہاں سے روانہ ہوتا ہے، اب مبتدی اِس کنارے پر ہے اور منتہی اُس کنارے پر ہے اور درمیان میں متوسط ہے جو ابھی دریا میں تیر رہا ہے۔ اب متوسط مختلف ہوتا ہے، مگر مبتدی اور منتہی ایک جیسے نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ بھی کنارے پر ہے اور وہ بھی کنارے پر ہے، اس لئے یہ دونوں ایک جیسے نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر ایک بیماری ہے، اور بیماری سے مبتدی بھی کراہ رہا ہے اور منتہی بھی کراہ رہا ہے، لیکن متوسط ہنس رہا ہے، بس فرق صرف یہ ہے کہ مبتدی نفس کی تکلیف سے کراہ رہا ہے اور منتہی اللہ جل شانہٗ کے سامنے عاجزی دکھانے کے لئے کراہ رہا ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی دکھاؤں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیماری میں ہائے ہائے کررہے تھے، کسی نے کہا حضرت! آپ بھی؟ فرمایا: کیا میں اللہ تعالیٰ کو پہلوانی دکھاؤں؟ چونکہ یہ کامل تھے، اس وجہ سے ان کو جو اللہ پاک نے صلاحیتیں دی تھیں، ان صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ وہی کرتے تھے جو اللہ کا حکم ہوتا تھا۔ باقی یہ واقعہ جو آپ بیان فرما رہے تھے، یہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کھڑے تھے کہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ آئے، ان سے کہا کہ کیا بات ہے، کیوں کھڑے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کشتی کا انتظار ہے، کہا: اچھا! کیا آپ کو اللہ پاک کی قدرت پر یقین نہیں ہے؟ اور وہ اسی طرح چل کے پار ہوگئے، مگر ان کو حضرت نے کہا کہ آپ کو علم نہیں ہے؟ خیر وہ کھڑے رہے اور جب تک کشتی نہیں آئی وہ نہیں چلے، لہٰذا یہ فرق تھا۔ لیکن حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ مبتدی نہیں تھے، یہ تو اتنے بڑے آدمی تھے اور بعد میں تو بہت زیادہ بڑے بن گئے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، یہ چونکہ عجمی تھے، تو قرأت ان کی عجمیوں جیسی تھی، اس لئے حضرت ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھ رہے تھے، ایک دفعہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب دیکھا (پتا نہیں کس کو خواب میں دیکھا، تو) پوچھا کہ نجات کس چیز پہ ہوگی؟ فرمایا حبیب عجمی کے پیچھے نماز پڑھنے سے۔

سوال نمبر 20:

حضرت! یہ پوچھنا تھا کہ آپ نے پچھلی نشست میں بتایا تھا کہ تسلیم اور رضا دو علیحدہ منزلیں ہیں، ان کا جو سفر ہے، وہ ہر آدمی کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ تو ان کو کیسے طے کیا جاسکتا ہے؟ اور تسلیم بھی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ یعنی جیسے شریعت طریقت میں سارے رذائل کا لکھا ہوتا ہے، تو کیا جب ایک ایک کرکے سارا ہوتا جاتا ہے یا تسلیم جس بندے کو حاصل ہو اس پہ اللہ تعالیٰ کا کوئی اشارہ ہوتا ہے؟

جواب:

اصل میں نفس کے جو رذائل ہیں، وہ تہ در تہ ہوتے ہیں، اس لئے اس میں ان کو اتارا جاتا ہے۔ اور تسلیم میں یہ ہوتا ہے کہ جتنے حجابات ہیں، وہ دور ہوجاتے ہیں، تو پھر اس کے بعد تسلیم کا مرتبہ آتا ہے یعنی وہ حجابات جو نفس کے ہوتے ہیں، جس میں سستی بھی ہے، حرص بھی ہے، فجور کے تقاضے ہیں، جس میں بے صبری ہے یعنی ان تمام چیزوں کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کو recognize پورا نہیں کرتا، جس کو recognition کہتے ہیں، نتیجتاً وہ تسلیم سے دور رہتا ہے، اگرچہ عقلی طور پر وہ کرتا ہے، لیکن انسان طبعی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوتا، اس لئے عمل وجود میں نہیں آتا اور ایسی صورت میں جس وقت یہ رذائل دور ہوجاتے ہیں اور حجابات دور ہوجاتے ہیں، تو پھر اس کے بعد مقامِ تسلیم وجود میں آتا ہے یعنی جب ساری تہیں ختم ہوجاتی ہیں، اس کے بعد پھر مقام تسلیم آتا ہے، کیونکہ اس کے بعد پھر مقام رضا ہے اور اس کے درمیان کا جو سفر ہے وہ اچھا خاصا ہے، کسی کے لئے بیس سال ہوسکتے ہیں، کسی کے لئے دو سال ہوسکتے ہیں، کسی کے لئے دو دن ہوسکتے ہے یعنی یہ ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے، اس کے حساب سے یہ ہوتا ہے، لیکن بہرحال ان چیزوں کو cover کرنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 21:

دوسری آپ نے ایک چیز بیان فرمائی تھی تجلی کے بارے میں، تو جس وقت تجلی ہوتی ہے، اس کا کیسے پتا چلتا ہے؟ خواب آجائے، یہ ایک الگ بات ہے، مگر خواب کے علاوہ کہ اگر خواب نہیں آتا یا جس کو محسوس ہوتا ہے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں تو کیا یہ بھی تجلی کا نتیجہ ہوتا ہے؟

جواب:

اس کو مقامِ حضوری کہتے ہیں جس کا آپ بتارہے ہیں کہ میں اللہ کے سامنے ہوں۔ دراصل یہ بعض دفعہ برقی طور پر کسی کو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، لیکن دائمی طور پر ان کو ہوسکتا ہے، جن کے حجابات دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور تجلی پہ ان شاء اللہ! میرا ایک رسالہ آرہا ہے، اس میں تجلی پہ کافی detail کے ساتھ بحث ہے، کیونکہ بنیادی طور پر تو اللہ جل شانہٗ کی ذات وراء الوراء ہے، اللہ پاک کو کوئی نہیں دیکھ سکتا، لیکن ایسی چیز جو آپ کی سمجھ میں آسکے اور اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق نہ ہو، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کی شان کا اظہار ہو، تو وہ چیز اس کی تجلی ہوتی ہے، وہ انسان کو مل سکتی ہے۔ اس میں کافی technical باتیں بھی سمجھنی ہوتی ہیں کہ prerequisites تو ہر چیز ہوتی ہے، مگر اس میں ایک تو اضمحلال ہوتا ہے اور ایک محاکات ہوتے ہیں یعنی ان دونوں کی combintation سے جو تجلی وجود میں آتی ہے، یہ اضمحلال ہوتا ہے کہ اس میں یعنی orignation ایک جگہ ہوتی ہے اور ظہور دوسری جگہ پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر سورج میں روشنی generate ہوتی ہے، لیکن ایک دیوار کی اوٹ میں آئینہ ہے اور آئینے میں سورج کا عکس نظر آتا ہے اور اس عکس کی جو روشنی ہے وہ دیوار پہ پڑ رہی ہے، جس سے دیوار روشن ہو رہی ہے، لیکن اصل روشنی generate ہو رہی ہے سورج سے، تو اس کو اضمحلال کہتے ہیں اور محاکات یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز کا سن کے ذہن دوسری چیز کی طرف automatically آجائے۔ اور پھر ان دونوں کی combination ہوتی ہے، جیسے خانہ کعبہ ہے کہ خانہ کعبہ پہ تجلی مسجودی ہے، اب تجلی مسجودی کعبہ اللہ نہیں ہے، لیکن خانہ کعبہ کی طرف سجدہ کرتے ہوئے آپ کا تصور خود بخود جاتا ہے کہ میں اللہ کو سجدہ کررہا ہوں، تو یہ محاکات ہے۔ اور دوسری طرف اصل تو اللہ ہی اس کی origination ہے، لیکن جس کا ظہور خانہ کعبہ پہ ہو رہا ہے، یہ تجلی ہے۔

سوال نمبر 22:

حضرت! میرے ذہن میں ایک سوال تھا، پچھلے دنوں پوچھنے کا موقع نہیں ملا کہ حضور پاک ﷺ کی زیارت سے جن کو نصیب ہوتی ہے (جس کو بھی یا جو اللہ والے ہیں) تو اس زیارت کے اندر آپ ﷺ کو کیسے یہ imagine کرسکتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ تھے؟ یا اگر یقینی طور پہ بھی اگر وہ حضور ﷺ ہوں تو کس صورت میں دیکھے گا؟ کیا آپ ﷺ کی جو صورت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دی ہے، اس صورت میں دیکھے گا یا اشارۃً پردے کی صورت میں یا اس کو الہامی طور پہ پتا لگے گا کہ یہ حضور ﷺ ہیں؟ یعنی ان کا Face to face interaction بھی possible ہے، ایسے حالات بھی گزرے ہیں یا اس میں کون کون سی صورتیں ہوسکتی ہیں؟

جواب:

ایک بات یہ ہے کہ اگر کوئی خواب میں آپ ﷺ کو دیکھے اور اس کو آپ ﷺ سمجھے کہ یہ آپ ﷺ ہیں تو کئی علماء کرام کا opinion یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ ہی ہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں اس کی طرف اس طرح کا اشارہ ہے، جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نہیں! آپ ﷺ کو اسی صورت میں جب دیکھیں جس صورت میں حدیث شریفہ میں آپ ﷺ کی صورت ہے یعنی شمائل ترمذی کے مطابق جو ہے، پھر وہ ہوں گے۔ باقی علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو کمی بیشی اس دیکھنے والے کی طرف سے ہے، جیسے ایک انسان کا آئینہ ٹوٹا پھوٹا ہو، تو اس میں صورت بگڑ جاتی ہے، اب یہ آئینہ کی وجہ سے ہے، اس صورت کی وجہ سے نہیں ہے، ایسے ہی اگر کسی میں گڑبڑ ہو تو اس لحاظ سے دیکھنے میں والے میں گڑبڑ ہوسکتی ہے۔ اس میں چونکہ variety بہت زیادہ ہے، لہٰذا combination بہت بن سکتی ہے، البتہ جو آپ ﷺ کا دیکھنا ہے، یہ اگرچہ آپ ﷺ ہی کا دیکھنا ہے، لیکن اس سے وہ صحابی نہیں بنتا، جو دیکھنے والا ہوتا ہے اور اگر کوئی بات آپ ﷺ اس کو فرمائیں تو چونکہ یہ ظنی ہے، قطعی نہیں ہے، اس لئے یہ حدیث نہیں بن جاتی۔

سوال نمبر 23:

آپ ﷺ جو ارشاد فرمائیں تو اس کو quote کسی جگہ پہ کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے؟

جواب:

ظنی درجہ میں کرنا چاہئے، کیونکہ اس میں شیطان کا تصرف بھی ہوسکتا ہے یعنی الفاظ میں کہ آپ ﷺ کچھ کہہ دیں اور آپ کے کان کچھ سنیں، ایسا ہو سکتا ہے، لہٰذا اس کو آپ پرکھیں گے قرآن و سنت کے اوپر کہ اگر وہ اس کے مطابق ہے تو ٹھیک ہے، اگر اس کے مطابق نہیں ہے تو پھر اپنا قصور ہے۔

سوال نمبر 24:

اس میں جو بندہ یہ claim کرے کہ اس نے زیارت کی ہے، تو اس کا باشرع ہونا بھی ضروری ہے؟ یہ بھی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ کی زیارت باشرع اور جو سنت کا پیروکار ہے، وہی کرسکتا ہے یا عمومی طور پر زیارت ہوسکتی ہے؟ کیونکہ اب فتنے کے طور پہ بھی کئی لوگ اس طرح ہوتے ہیں جیسے پیری مریدی میں جو جعلی لوگ ہوتے ہیں عموماً یا جو دم درود وغیرہ کرتے ہیں وہ بھی اکثر اپنے ماننے والوں کو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں حضور ﷺ کی طرف سے یہ چیز ملی ہے، یہ حکم ہے یا یہ جو تعویذ دے رہے ہیں، یہ ہمیں حضور ﷺ کی طرف سے الہامی طور پر ملا ہے، تو اس چیز کے اوپر بھی یقین کسی درجہ میں کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

دیکھیں! سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی اور کا خواب اور کسی اور کا کشف آپ کے اوپر حجت نہیں ہے۔ یہ اصول ہے۔ البتہ آپ خود دیکھیں تو اس کے اندر تفصیلات ہیں، جیسے میں عرض کررہا ہوں، لیکن کسی اور کا خواب یا کسی اور کا کشف وہ آپ کے اوپر حجت ہی نہیں ہے۔ لہٰذا آپ تو direct قرآن اور حدیث کے اوپر عمل کریں گے، قرآن اور حدیث کے مطابق تعویذ صحیح معنوں میں ہے تو آپ مان لیں گے، صحیح معنوں میں نہیں ہے تو آپ نہیں مانیں گے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا بزرگ نظر آجائے، اس سے اس کو کوئی غرض نہیں ہے۔ اصل میں بنیادی طور پر یہ بات ہے کہ شریعت جو آپ کو ظاہری طور پر راستہ دے رہی ہے، وہ راستہ clear، روشن دن کی طرح ہے، لہٰذا روشن دن کے مقابلہ میں چھپی ہوئی چیز پہ آپ یقین نہیں کرسکتے یعنی جو چیز آپ کو نظر آرہی ہے، آپ خود دیکھ رہے ہیں تو وہ اور چیز ہے، اس لئے ظنی چیزوں کو قطعی کے مقابلہ میں نہیں لایا جاسکتا۔

سوال نمبر 25:

قبر کے اندر جب انسان کو رکھا جائے گا اور آپ ﷺ کا چہرہ مبارک دکھایا جائے گا تو تمام انسانوں کو ایک ہی صورت کے اندر دیدار ہوگا یا جو اہل اللہ ہیں ان کی situation different ہوگی اور جو خدانخواستہ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس چیز سے بچائے) گناہگار ہوں گے ان کی مختلف؟

جواب:

دیکھیں! اس میں آپ ﷺ کی جو صورت دکھانا ہے، یہ چونکہ اس کا فعل نہیں ہے، بلکہ یہ فعل دکھانے والے کا ہے، اس وجہ سے اس میں کمی نہیں ہوگی، البتہ جو دیکھنے والا ہے، اس کے حساب سے ہوگا کہ وہ پہچان سکے گا یا نہیں پہچان سکے گا؟ جو نہیں پہچان سکے گا تو وہ خطرہ میں پڑ جائے گا اور جو پہچان سکے گا وہ ٹھیک رہے گا۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب