اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7-8)
أَمَّا بَعْدُ: فَقَدْ حَانَ يَوْمُ عَاشُوْرَاءَ لِلنَّاسِ فِيْهِ مَعْرُوْفَاتٌ وَّمُنْكَرَاتٌ ظَلْمَاءُ، فَمِنَ الْأَوَّلِ اسْتِحْبَابَانِ الصَّوْمُ فِيْهِ۔ فَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ''أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1163) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1162) وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''صُوْمُوْا عَاشُوْرَاءَ وَخَالِفُوْا فِیْهِ الْیَھُوْدَ، صُوْمُوا قَبْلَهٗ یَوْمًا اَوْ بَعْدَہٗ یَوْمًا''۔ ''وَكَانَ عَاشُوْرَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ: ''مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ''۔ (بخاری، رقم الحدیث: 4502) وَمِنَ الْأَوَّلِ إِبَاحَةً وَّبَرَکَةَنِ التَّوْسِعَةُ فِیْهِ عَلٰی عَیَالِهٖ؛ فَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''مَنْ وَّسَّعَ عَلٰی عَیَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ''۔ (شعب الِإیمان للبیھقي، رقم الحديث:3513) وَمِنَ الثَّانِي اتِّخَاذُہٗ عِیْدًا وَّمَوْسِمًا أَوِ اتِّخَاذُہٗ مَاْتَمًا مِّنَ الْمَرَاثِیْ وَالنِّیَاحَۃِ وَالْحُزْنِ بِذِکْرِ مَصَائِبِ أَھْلِ الْبَیْتِ وَاتِّخَاذِ الضَّرَائِحِ وَالْأَعْلَامِ وَمَا یُقَارِنُھَا مِنَ الْمَلَاھِیْ وَالشِّرْكِ وَ الْاٰثَامِ۔
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! ہم لوگ دارِ ابتلاء میں ہیں یعنی جو کچھ ہم کررہے ہیں اس کو لکھا جارہا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ وہاں ہوگا وہ اسی لکھنے پر منحصر ہوگا۔ اور ایک قانون جو سب کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ جس کا کوئی عملِ خیر مطلب وہاں پایا جائے گا جو یہاں کیا ہوگا اس نے، تو اس کو وہاں دیکھ لے گا اور اگر کوئی برا عمل اس سے سرزد ہوچکا ہوگا تو اس کو بھی وہاں دیکھ لے گا اور وہاں جو اعمال نامہ ہاتھوں میں دیا جائے گا اس کے بارے میں فرمایا: خود ہی تم پڑھ لو تم اس کے لئے کافی ہو یعنی تمھیں خود بخود اس سے پتا چل جائے گا کہ کیا تم نے کیا ہے۔ اسی طرح ﴿یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ﴾ (آل عمران: 106)
ترجمہ: ’’اس دن جب بعض چہرے چمکتے ہوں گے اور بعض چہرہ کالے ہوں گے‘‘۔
یہ اصل میں ہماری اس زندگی کا گویا کہ نتیجہ ہوگا، جو اعمال ہم نے یہاں پر کیے ہوں گے وہاں مجسم شکل میں آجائیں گے۔ گویا کہ یہاں کے اچھے اعمال وہاں پر روشنی ہوگی، یہاں کے برے اعمال وہاں پر اندھیرا ہوگا۔ یہاں کے اچھے اعمال وہاں پر مزے ہوں گے جنت کے اور یہاں کے برے اعمال وہاں کے دوزخ کے مصائب اور تکالیف ہوں گی۔ اس وجہ سے اللہ پاک نے یہ قانون بیان فرما کر ہمیں گویا کہ متنبہ کردیا کہ اس زندگی کو ہم ویسے نہ گزاریں، بلکہ اس میں ہر وہ چیز کرلیں جس کا حکم ہے اور ہر اس چیز سے بچ جائیں جس سے بچنے کا حکم ہے، اسی کو شریعت کہتے ہیں اوامر و نواہی۔ تو جو شریعت پر چلے گا وہ وہاں پر اَلْحَمْدُ للہ اللہ پاک کی زبردست دی ہوئی نعمتوں میں ہوگا، جنتوں میں، جس کا بیان ہم لوگ نہیں کرسکتے بس صرف اتنا ہم سمجھ لیں کہ یہاں جو مزے ہیں وہ ان مزوں کی صرف ایک چھوٹی سی نقل ہے وہاں کے مزوں کی، اور یہاں کی جو تکلیفیں ہیں وہ وہاں کی تکلیفوں کی ایک چھوٹی سی نقل ہے۔ اصل مزے بھی وہاں پر ہیں، اصل مصیبتیں بھی وہاں پر ہیں۔ اس لئے جو عارفین ہوتے ہیں وہ یہاں کی تکلیفوں کی پروا نہیں کرتے اس پر صبر کرتے رہتے ہیں وہاں کی تکلیفوں سے بچتے ہیں اور یہاں کے مزوں کے پیچھے نہیں لپکتے، وہاں کے مزوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اسی طرح گزار لیتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ محجوبین ہوتے ہیں ان بیچاروں کو اپنا فائدہ، نقصان نظر نہیں آتا، وہ یہاں کے مزوں میں مشغول ہوکر وہاں کے مزوں کو بھول جاتے ہیں۔ اُس کے لئے اللہ پاک نے ایک زبردست قانون کا تعارف کیا ہے قرآن پاک میں:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو۔‘‘
حالانکہ یہاں کی دنیا میں اگر ہم دیکھیں تو یہ جو مطلب کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، سخت گرمی میں پتھروں کو کوٹنے والے سڑکوں پہ، ان سے اگر پوچھا جائے کہ بھئی! یہ تو بڑا سخت کام ہے تم لوگ کیوں کرتے ہو؟ کہتے ہیں اگر یہ نہ کریں تو پھر کھائیں گے کہاں سے۔ اور ’’کھائیں گے کہاں سے‘‘ مراد یہ ہے کہ وہ جو بھوک اور پیاس کی جو تکلیف ہے اس کو برداشت کرنا پڑے گا۔ تو اُس تکلیف سے بچنے کے لئے اِس تکلیف کو گوارا کرتے ہیں۔ گویا کہ بعد میں آنے والی تکلیف کو دیکھتے ہیں، اُس وقت کی فوری تکلیف کو نظرانداز کرتے ہیں۔ دنیا کے معاملہ میں ایسے ہیں، لیکن آخرت کے معاملہ میں بالکل بودے بن جاتے ہیں، مثال کے طور پر یہ پتھر کوٹنے والے، اگر وہ نماز نہیں پڑھتے تو ان سے کہیں کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ کہتے ہیں کیسے پڑھیں! اب دیکھو ہمارے کام کو دیکھیں۔ مطلب گویا کہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں۔ ہاں جی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اللہ جل شانہٗ نے مثالیں پیدا فرمائی ہیں، ایسے لوگ سخت حالات میں بھی، وہ اللہ کے حکم کو نہیں چھوڑتے۔ ہاں جی۔ پریشانی کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دور نہیں ہوتے اور سخت خوشی کی حالت میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے اور ظاہر ہے اس میں اللہ پاک کے حکم کو ڈھونڈ کر اللہ پاک کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ تو مثالیں موجود ہیں، اس وجہ سے ہم لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تھا، اگر اللہ پاک اُن کو سامنے کردے کہ اِنہوں نے یہ کیا، تو کون سی بات تھی؟ تو ظاہر ہے پھر جواب ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ تو اس لحاظ سے اللہ پاک نے عالمی قانون بتا دیا: ﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7-8) کہ جس نے کوئی اچھا عمل یہاں پر کیا ہوگا ذرہ برابر، ذرہ برابر کیا ہوگا تو وہاں دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر کوئی برائی کی ہوگی اس کو بھی وہاں دیکھ لے گا، اور ایسے دیکھ لے گا کہ بالکل دیکھے گا کہ وہ کام جیسے ہورہا ہے۔ ہاں جی۔ ایسا مطلب نظر آرہا ہوگا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہمارے تمام اعمال کی نگرانی کی جا رہی ہے، ہر چیز کو نوٹ کیا جارہا ہے، ہر چیز کے بارے میں قانون بتایا ہوا ہے، اُس قانون کے مطابق اس کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔ لہٰذا جو لوگ بھی اس بات کو سمجھیں تو وہ جو ہے ناں اپنی زندگی کو اس نہج پر لائیں جو اللہ پاک کا پسندیدہ نہج ہے اور اللہ پاک کا پسندیدہ نہج کیا ہے؟ وہ ہے آپ ﷺ کا طریقہ، کہ آپ کے طریقہ پر آجائیں، آپ ﷺ نے جیسے زندگی گزاری ہے، آپ ﷺ نے جیسے اعمال کیے ہیں، آپ ﷺ نے جن چیزوں سے روکا ہوا ہے، تو ہم بھی ان چیزوں سے رک جائیں، وہی اعمال کرلیں، ان چیزوں کو ہم پسند کرلیں، ہاں جی، اسی میں کامیابی ہے۔ تو بہرحال یہ بات یہاں پر ہے۔ تو اس کے لئے پھر سبحان اللہ! بزرگوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں، بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں۔ ان بزرگوں میں ہمارے ظاہر ہے صحابہ کرام ہیں، اہل بیت ہیں اور امھات المؤمنین ہیں۔ اور پھر اس کے بعد میں اولیاء کرام ہیں اور اچھے اور نیک لوگ ہیں، یہ ہمارے سامنے ان کی تاریخیں موجود ہیں۔ اب ذرا غور کرلیں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، صحابی ہیں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یعنی یہ حالت ہے کہ ان کو مار مار کے لوگ تھک جاتے تھے، مارنے والے تھک جاتے تھے لیکن زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا تھا: ’’اَحَدْ اَحَدْ اَحَدْ اَحَدْ‘‘ کیونکہ وہاں پر بت پرستی تھی، کئی خداؤں کو مانتے تھے، تو ’’اَحَدْ‘‘ ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوتا تھا، جو لوگ کہتے تھے ناں کہ ایک خدا ہے، ایک خدا، ایک خدا، ایک خدا، ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوتا، تو ان کو غصہ آتا تھا، ہاں جی۔ لیکن ایسا عشق تھا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کہ عین اسی حالت میں ’’اَحَدْ اَحَدْ اَحَدْ اَحَدْ‘‘ یہ کہتے تھے۔ تو یہ دیکھو۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ رسول ﷺ ہیں اور ان کو شہید کیا جارہا ہے، لیکن وہ اپنی طرف سے تلوار نہیں چلنے کا حکم دیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان سے پوچھا گیا چچا جان کیا ہم آپ کی طرف سے مدافعت کرلیں؟ ہمیں قتال کی اجازت دے دیں۔ کنہوں نے پوچھا تھا؟ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، جو ان کے دروازہ پر پہرہ دینے والے تھے۔ تو ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں بھتیجو! ایسا نہ کرو، کیونکہ مجھے آپ ﷺ سے یہ بات پہنچی ہے، میں نے سنی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں اگر ایک دفعہ درمیان میں تلوار چل پڑی یعنی مسلمانوں کے درمیان میں، پھر وہ رکے گی نہیں قیامت تک چلے گی۔ اور میں اس کی ابتدا کرنے والا نہیں ہونا چاہتا، میں نہیں چاہتا کہ میں اس کی ابتدا کرنے والا ہوجاؤں۔ اب دیکھو! خلیفہ ہے power ہے۔ حکم دیتے تو ان کا کچومر نکال دیتے، لیکن نہیں! ایسا نہیں ہوا، تو اپنی جان دے دی لیکن آپ ﷺ کے اُس اشارہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ پھر لوگوں کا سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھر خلافت چھوڑی کیوں نہیں جب وہ کہتے تھے؟ تو یہ بھی حضرت نے فرمایا تھا کہ مجھے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمھیں ایک قمیض دی جائے گی، ایک قمیض امت کی طرف سے پہنائی جائے گی، کچھ لوگ اس کو دوبارہ اتروانا چاہیں گے تو اتارنی نہیں ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ میں نے اس سے مطلب لیا ہے کہ یہ خلافت ہے۔ تو اب دیکھو! خلافت اس لئے نہیں چھوڑی کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے، اپنی طرف سے قتال اس لئے شروع نہیں کہا کہ آپ ﷺ نے چونکہ فرمایا کہ ایک دفعہ شروع ہوجائے تو پھر (رکے گی نہیں) تو یہ بات ہے کہ دیکھو اتنی بڑی قربانی دی، اتنی بڑی قربانی دی، لیکن مطلب اللہ کے حکم سے آگے پیچھے نہیں ہوئے۔ بعینہٖ اسی طریقہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا کی طرف گئے، کس لئے گئے؟ اس لئے کہ اُس وقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے کہ اگر وہ چپ ہوجاتے تو پھر کوئی بھی اس پر نہ بولتا اور خلافت ملوکیت میں منتقل ہوجاتی۔ ہاں جی۔ کیونکہ یزید اس کے اہل نہیں تھے اور صرف اس وجہ سے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں، وہ خلیفہ اس وجہ سے بن رہے تھے۔ لہٰذا اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر خاموش ہوجاتے تو وہ جو ہے ناں مطلب ہے کہ ہمیشہ کے لئے قانون جاری ہوجاتا۔ اب بھی جاری ہے لیکن پسندیدہ نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ پھر پسندیدہ قانون بن جاتا۔ کیونکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان حضرات کی گویا کہ تائید مل جاتی، اس کے بعد کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کی جرات نہ کرسکتا۔ اب کہہ سکتے ہیں کہ نہیں! صحیح نہیں ہے، اگر کسی نے زبردستی اپنا لیا ہے تو پھر ٹھیک ہے اپنا لیا ہے، لیکن یہ بات ہے کہ اچھی بات نہیں ہے۔ یعنی اس کو ہم اسلامی قانون نہیں کہہ سکتے، اسلامی قانون اس کو نہیں کہہ سکتے کیونکہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان کی قربانی دی ہے اور اس کے خلاف ڈٹ گئے۔ تو یہ جو ہے ناں اپنی جان قربان کی، اپنے رفقاء کی اور اپنے خاندان کی، لیکن یہ ہے کہ اس سے جو ہے مطلب یعنی کہ وہ نہیں ہوئے۔ تو بہرحال میں عرض کررہا ہوں کہ قربانیاں جو حضرات نے دی ہیں تو دی ہیں، تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو قربانی دی ہے تو بعض لوگ ذرا واقعات سے نافہم ہوتے ہیں تو دو قسم کی غلطیاں پائی جاتی ہیں، دو قسم کی غلطیاں، ایک وہ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیتے ہیں لیکن اصل میں صحابہ کے دشمن ہیں، صحابہ کی دشمنی کی وجہ سے ان کا نام لیتے ہیں، ان کو کوئی محبت نہیں ہے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ۔ ہاں جی۔ ورنہ ان کے بھائی کو کیوں اُن کے خلاف باتیں کرتے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ صرف اور صرف ان کو صحابہ کے ساتھ دشمنی تھی، ایک چال کے طور پر مطلب اس کو چلا دیا گیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے جو آباؤ اجداد ہیں، انہوں نے ہی تو دھوکہ کیا تھا۔ دھوکہ کس نے دیا تھا؟ ان کو بلایا کس نے اور پھر بعد میں چھوڑا کس نے؟ نتیجہ کیا ہوا؟ یہ ساری چیزیں موجود ہیں ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو شہادت دی، وہ صرف اس لئے کہ کہیں پر خلافت ملوکیت میں دینی لحاظ سے transfer نہ ہوجائے، بے دینی کے لحاظ سے transfer ہوجائے تو علیحدہ بات ہے، اس کی ذمہ داری نہیں ہے، وہ تو لوگ بے دینی تو بہت ساری چیزیں کرتے ہیں، وہ تو کرتے ہیں لیکن دینی لحاظ سے نہیں، اس کو دین نہیں کہا جاسکتا، دین کیا ہے؟ خلافت راشدہ۔ خلافت راشدہ مطلب ہے کہ صحیح انداز میں جو خلافت ہے وہ چیز جو ہے دین ہے، باقی جو ہے ناں وہ دنیاداری ہے، تو دنیاداری میں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ اُن حضرات نے قربانی دی، تو یہ ماشاء اللہ ہمارے لئے ایک روشن باب ہے۔ پھر ایک بات میں عرض کرتا ہوں اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرۃ: 154)
جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں ان کو مرا ہوا نہ کہو وہ زندہ ہے ہاں! تمھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اور کسی ایک اور موقع پہ فرمایا کہ ان کو مردہ گمان بھی نہ کرو۔ تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہیں یا نہیں ہیں؟ ہم اس کو زندہ کہیں گے اس کو مردہ نہیں کہیں گے۔ تو جو زندہ ہے اس پہ ماتم کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ما شاء اللہ بڑی اچھی حالت میں ہیں۔ ہاں! البتہ اس واقعہ پہ ہمیں بھی افسوس ہے ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا، یعنی اس واقعہ پہ ہم خوشی نہیں منا سکتے، اس واقعہ پہ افسوس ضرور ہوگا لیکن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقام پا لیا ’’سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ کا، جس کے لئے اللہ پاک نے ان کو چنا تھا، وہ کام ہونا تھا۔ ہاں جی تو ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ اس مقام کے لحاظ سے ہم ان کو مردہ نہیں کہتے۔ کہتے ہیں وہ شہداء ہیں اور شہداء کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کس صریح حکم قرآن پاک میں موجود ہے: ان کو مردہ نہ سمجھو، ان کو مردہ نہ کہو۔ تو ان کا مقام تو بہت اونچا ہے، ہم لوگ اس وجہ سے اُن کے مقام کے لحاظ سے جب بات کرتے ہیں ہم کہتے ہیں وہ حق پر تھے حق پر تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور یزید تابعی ہے اور تابعی اور صحابی میں جب اختلاف ہوجائے تو صحابی کی بات کو لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ’’اَلصَّحَابَۃُ کَلُّہُمْ عُدُوْلٌ‘‘ سب علماء کرام اس پر متفق ہیں اہل سنت و الجماعت کے، سب علماء اس پر متفق ہیں کہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں، صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں۔ تابعین کے بارے میں یہ نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ تابعین کے بارے میں یہ نہیں ہے۔ تو جب ایک طرف کامل عادل ہو اور دوسری طرف کا پتا نہیں ہو، مجھے بتاؤ جواب پھر کیا ہوگا؟ ظاہر ہے بات صحابی کی لی جائے گی، کیونکہ وہ تو ہے ناں، وہ تو perfect بات ہے، وہ تو عادل ہیں، اس کے مقابلہ میں جو ہوگا وہ عادل نہیں ہوگا، اس کے مقابلہ میں جو ہوگا وہ عادل نہیں ہوگا۔ تو اب جب یہ والی بات ہے تو ہم امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہیں، یزید کو حق پر نہیں سمجھتے۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے کہ یزید پر آیا لعنت کرنی چاہئے یا نہیں کرنی چاہئے، اس میں علماء اہل سنت کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کرنی چاہئے، کیونکہ آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو یہ پانچ کام کرے گا ان پر اللہ کی لعنت، ان کے فرشتوں کی لعنت اور تمام مومنین کی لعنت۔ ہاں جی۔ وہ جو ہے ناں کون سے کام ہیں؟ ان میں سے ایک کام اہلِ بیت کی حرمت کو زائل کرنا، دوسرا کام خانہ کعبہ کی حرمت کو زائل کرنا، تیسرا کام مدینہ منورہ کی حرمت کو زائل کرنا۔ دو کام اور ہیں اِس وقت مجھے یاد نہیں ہیں۔ وہ ’’اکابر اہل سنت کا مقام‘‘ میں ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ حدیث شریف کے مطابق ہمیں جو ہے ناں اس کو دیکھنا چاہئے کہ وہ موجود ہیں چونکہ اس وجہ سے ہم لوگ کبھی بھی یہ نہیں کر سکتے کہ جنہوں نے یہ کام کیے ہوں، ہم ان کو حق پر سمجھیں۔ تو چونکہ یزید نے یہ تینوں کام کیے تھے اہل بیت کا تو معاملہ سب کے اوپر کھلا ہوا ہے اور خانہ کعبہ پہ سنگ باری ہوئی تھی منجنیق کے ذریعہ سے، خانہ کعبہ کے اوپر، اور مسجد نبوی مدینہ منورہ کو تین دن کے لئے مباح کر دیا گیا تھا لشکر کے لئے کہ چاہے جو کچھ کرے کرے اور مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے تھے، ہاں جی۔ ایسے تو کافر بھی نہیں کرتے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ کام انہوں نے کیے۔ تو اب بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف کے مطابق اگر کوئی ان پر لعنت کرلے، یہ بتاؤ کہ ان کو ہم غلط کہیں گے؟ ہاں! کچھ حضرات کہتے ہیں، ہمارے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نہیں یزید کو لعنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم تو شیطان کو بھی گالی نہیں دیتے، بلاوجہ خواہ مخواہ اس کی جگہ اللہ کا ذکر کیوں نہ کریں! بھئی شیطان کو گالی دینے کی بجائے اگر ہم اللہ کا ذکر کریں تو شیطان کے لئے زیادہ (تکلیف دہ ہوگا) اس کی مثال کیا ہے؟ اس کی مثال یہ ہے کہ جس وقت ہم حج پہ جاتے ہیں تو کنکر مارتے ہیں ناں وہ جو رمی جمار، کنکر مارتے ہیں، اس کنکر کے مارنے پہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ بعض لوگ گالیاں دیتے ہیں، اُس وقت شیطان کو بڑے موٹے موٹے پتھر مارتے ہیں یا چپل مارتے ہیں، اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ تو یہ غلط بات ہے اس سے تو شیطان خوش ہوتا ہے وہ اپنی گالی پہ خفا نہیں ہوتا، ظاہر ہے ایک کمینہ آدمی جو ہوتا ہے اس کو اگر آپ گالی دیں تو اس کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہاں البتہ آپ اپنے آپ کو بچائیں۔ تو اس طریقہ سے وہ حضرات کہتے ہیں کہ بلاوجہ خواہ مخواہ ہم کیوں وہ (لعنت) کریں۔ ہاں جی۔ تو وہ صرف اس وجہ سے ہے، یہ نہیں کہ مطلب جو لوگ اس پر (لعنت) بھیجتے ہیں، وہ تو غلط ہیں، نہیں! وہ نہیں کہتے کہ یہ غلط ہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ ہم یہ کام نہیں کرتے، تو ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں کہ یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے، کافر نہیں، فاسق کہنا ضروری ہے کیونکہ کھلم کھلا کام ہے ناں۔ کیونکہ بعض لوگوں نے ایسی حرکتیں کی ہیں۔ ہاں یہ حدیث شریف میں ڈھونڈ رہا تھا۔
یزید کے بارے میں البدایۃ و النہایۃ کو دیکھ لیں کہ بلاشبہ واقعہ حرہ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کے بعد یزید کو ڈھیل نہیں دی گئی، مگر ذرا سی تا آنکہ حق تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا، جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ظالموں کو ہلاک کرتا رہا ہے۔ بے شک وہ ایک بڑا علم رکھتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے۔ یاد رکھئے البدایۃ و النہایۃ کی کسی صحابہ کے مخالف کی کتاب نہیں ہے، بلکہ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ جو تفسیر ابن کثیر کا مصنف اور ابن تیمہ رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد ہے، یہ ان کی تصنیف ہے۔ تاریخ الخلفاء کو دیکھ لیں، جو رجال کے علوم والی دوسری کتابیں ہیں، ان کو بھی پڑھ لیں کہ یزید کے بارے میں اس نے کیا لکھا ہے۔ تاریخ الخلفاء امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی ہے، انہوں نے اور بہت ساری کتابیں لکھی ہیں۔ حضرت تاریخ الخلفاء میں واقعہ حرہ اور شہادت امام حسین اور یزید کا امام کعبہ پر سنگ باری کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلم سے فوراً (حالانکہ وہ انتہائی محتاط عالم ہیں بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں بہت احتیاط سے لکھتے ہیں) یہاں حضرت کا قلم لکھنے لگتا ہے ’’لَعَنَ اللہُ قَاتِلَہٗ وابْنَ زِیَادٍ مَعَہٗ وَیَزِیْدَ اَیْضاً‘‘ یعنی ان کے قلم سے کون سی بات نکلی تھی کہ لعنت ہو اس کے قاتل پر، ابن زیاد پر اور اس کے ساتھی یزید پر بھی۔ یہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس طرح کے لعنت کے الفاظ ہیں۔ جہاں تک یزید پر لعنت کرنے کا تعلق ہے اس میں اہل سنت و الجماعت کے دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں، بعض اکابر ان پر لعنت سے روکتے ہیں اس لئے نہیں کہ ان کو اس سے بری سمجھتے ہیں وہ بھی ان کو شقی اور فاسق قرار دیتے ہیں صرف یہ ہے کہ اس پر لعنت کرنا کوئی فرض تو نہیں ہے۔ تو اس وقت میں کوئی اچھا کام کیوں نہ کیا جائے۔ نیز اپنے انجام کا بھی پتا نہیں ہے، ہمیں کیا پتا کہ ہمارا انجام کیسے ہو۔ بعض اکابر اس پر لعنت کو از روئے قرآن اور حدیث جائز سمجھتے ہیں، کیونکہ جن چھ چیزوں کی وجہ سے حدیث شریف میں لعنت وارد ہوئی ہیں ان میں چار چیزیں یزید میں پائی جاتی ہیں، کیا ہیں وہ کون سی چیزیں ہیں؟ اس میں تقدیر کے منکر، ظلم سے حکومت حاصل کرنے والے، جس کے ذریعہ سے معزز کو ذلیل اور ذلیل کو معزز کرتا ہے اور اللہ کے حرم کے حلال کرنے والے اور آپ ﷺ کی اولاد کی حرمت کو حلال کرنے والے اور تاریک سنت پر لعنت کی گئی ہے اس حدیث شریف میں۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کو شرح تراجمِ بخاری میں نقل کیا ہے اب یزید نے ظلم سے حکومت حاصل کی صحابہ کو بے عزت اور قتل کیا، مفسدین کو عزت دی حریمین شریفین اور اولاد رسول کی حرمت کو پامال کیا، اس لئے ان اکابر کے نزدیک اس پر لعنت جائز ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے یزید کے بارے میں کچھ نرمی منقول ہے جس کی وجوہات مختلف ہیں مثلاً امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ شیطان پر بھی لعنت کے قائل نہیں اور ذکر اللہ کو اس سے بہتر خیال کرتے ہیں، لیکن دو بزرگوں کے اپنے ہم مسلکوں، ان کے ہم پلہ بزرگوں نے اس کی اس کمزوری کا توڑ کرکے ناصبیت کے لئے نرم گوشے کا موقع ختم کردیا۔ مثلاً غزالی ثانی امام غزالی کے استاد بھائی شمس الاسلام امام ابوالحسن علی بن محمد تبری الملقب عماد الدین المعروف بالکیا ہراسی سے جب یزید کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو لکھا یزید صحابی نہیں، کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عین خلافت میں پیدا ہوئے تھے رہا سلف کی اس پر لعنت کے بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں اس کے ملعونیت کے بارے میں اشارہ ہے اور ایک میں تصریح ہے، اس امام مالک اور امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی یہی لکھا اور اپنے بارے میں لکھا ہم تو اس قول کے قائل ہیں جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے۔ اور وہ کیوں ملعون نہ ہوگا حالانکہ وہ نرو کھیلتا تھا، چیتوں سے شکار کرتا تھا، شراب کا رسیا تھا۔ (تاریخ ابن خلکان)
یزید کے بارے میں اگر کچھ زیادہ تحقیق درکار ہو تو متاخرین میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تراجم بخاری اور شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کا تحفہ اثناء عشری، مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شہید کربلا اور مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’اکابر صحابہ پر بہتان اور شہید کربلا پر افتراء’’ اور ’’یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ متقدمین میں البدایۃ و النہایۃ، تاریخ الخلفاء، لسان المیزان، عقائد نسفیہ، فتح الباری، تاریخ ابن خلکان، تاریخ ابن کثیر دیکھنی چاہئے۔
اب یہاں پر ایک نکتے کی بات ہے۔ کچھ لوگ جو یزید کے حق میں بولنے والے ہیں، بھئی میں کہتا ہوں اس کو فاسق بے شک نہ کہو جو بھی نہ کہو وہ آپ کی اپنی بات ہے، لیکن آپ ان کی حمایت تو نہ کرو ناں، کیوں حمایت کرنے کا مطلب ہے کہ ان کے ساتھ جن کی لڑائی تھی وہ ان کو ناحق پہ سمجھتے ہیں، اُدھر تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اُدھر تو صحابہ کرام ہیں، اُدھر تو صحابہ کرام کی اولاد ہے، تو پھر کیا کرو گے۔ اس وجہ سے ان کی حمایت جائز نہیں ہے، حمایت بالکل جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ آپ ان کے بارے میں اگر سخت گفتگو نہیں کرنا چاہتے تو اس میں ایک گروہ کا طریقہ یہ ہے، لہٰذا آپ ان میں اپنے آپ کو شامل بے شک کرلیں، تو جو لوگ ان کے حق میں بولتے ہیں ان میں قسطنطنیہ کی ایک حدیث شریف وہ لیتے ہیں قسطنطنیہ۔ وہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو اس جہاد میں شامل ہوگا وہ حق پر ہوگا یعنی اس کے بارے میں فرمایا گیا۔ تو چونکہ وہ بتاتے ہیں کہ یزید اس میں شامل ہوا ہے لہٰذا ان کو مَغْفُوْرٌ لَّہُمْ کی بشارت ہے یعنی اللہ نے ان کو بخشش کیا۔ اور یزید کی اس میں شرکت ثابت ہے۔ اس کا جواب مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں خوب دیا ہے کہ
حدیث شریف ’’أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِيْ يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ‘‘ میں دو باتیں ہیں ایک "اول جیش" اور دوسرا "مدینۃ قیصر"۔ ان دونوں کو پہلے طے کرنا ہوگا کہ ان کا کیا مطلب ہے۔ اگر اول جیش (یعنی پہلا لشکر) سے محض جیش مراد ہے تو یہ لشکر اس لشکر جس کی امارت یزید کے ہاتھ میں تھی سے بہت پہلے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کے سرگردگی میں ہوئی جو 46ھ میں شہید کردیئے گئے تھے قسطنطنیہ ہو آئے تھے۔ جبکہ یزید جس لشکر میں تھے اس کو کسی نے بھی 49ھ سے پہلے نہیں بتایا۔ خود محمود عباسی نے بھی نہیں۔ اس پہلے لشکر کی تفصیل سنن ابوداؤد میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اگر اس سے فتح اور کامرانی والا جیش مراد ہو تو پھر اس سے مراد سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ مراد ہوسکتے ہیں جن کا عرف ہی یہی ہے۔ (کہ وہ فاتح ہے قسطنییہ کا) اس لئے مولانا کی تحقیق کے مطابق یزید اس بشارت والی جہاد میں شامل نہیں تھا۔
نہ وہ پہلے والوں میں ہے نہ وہ کامیابی والوں میں ہے یعنی کامیابی والوں میں تو تھے نہیں ان کے ہاتھ پہ تو فتح نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ پہلے والوں میں بھی نہیں ہیں، تو کس طرح اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں کیسی زبردست علمی دلیل دی ہے کہ آپ ان دونوں میں اس کو شامل نہیں کرسکتے اس وجہ سے بقول حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے یہ شوشہ شارح بخاری مہلب المتوفی 433ھ نے چھوڑا تھا کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت نکلتی ہے۔ اس وقت یہ اندلس میں قاضی تھے اور وہاں امویوں کی حکومت تھی۔ (یعنی بنی امیہ کی حکومت تھی) اس علمی حقیقت کو ایک طرف رکھ کر اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث شریف سے یزید کی مغفرت کی بشارت نکلتی ہے تو ہم یزید کے کفر کے قائل نہیں بلکہ فسق کے قائل ہیں اور فاسق کو اللہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، لیکن فاسق کو اگر آخرت میں معاف بھی کردیا جائے لیکن اگر دنیا میں اس کی توبہ ثابت نہ ہو تو اس کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاسکتا
سمجھ میں آرہی ہے ناں بات! اب یہاں پر ایک نکتے کی بات ہے۔ حضرت علامہ اقبال بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ما شاء اللہ ہمارے شاعر مشرق تھے، بڑے نیک آدمی تھے اور انہوں نے بہت اچھے اچھے اشعار کہے ہیں، اب کچھ لوگ سمجھتے ہیں (ہمارے نزدیک تو انہوں نے اخیر میں داڑھی رکھی تھی، اس کے ساتھ ہی فوت ہوئے ہیں، ہماری تحقیق کے مطابق) لیکن جن کی تحقیق یہ نہیں مثلاً ان کو اس کی تحقیق نہیں ہے، لیکن پھر بھی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ سمجھ میں آگئی ناں بات! ان کے لئے ذرا سوچنے کا مقام ہے، کیونکہ داڑھی جو ہے ناں وہ ظاہری سنت ہے یعنی سامنے کی بات ہے، تو اس کو کاٹنے والے کو فاسق کہا جاتا ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات! داڑھی کے کاٹنے والے کو فاسق کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر انکار کررہا ہے سنت کا، کیونکہ ظاہری طور پر جو گناہ کرتا ہے اس کو فاسق کہا جاتا ہے، جو چھپ کے کرتا ہے اس کو فاسق نہیں اس کو گناہگار کہا جاتا ہے۔ تو اگر کوئی داڑھی کاٹ رہا ہو اور اس کے ساتھ مر جائے، تو اس کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاسکتا بے شک اللہ تعالیٰ اس کو بہت اونچا مرتبہ دے دے، وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہے، وہ جس کے لئے جتنا بھی کردے اس سے انکار نہیں ہے، لیکن ہم تو ظاہر کے پابند ہیں ناں شرع ظاہر کو دیکھتی ہے آپ لوگوں نے سنا ہوگا ناں شریعت کس کو دیکھتی ہے؟ وہ ظاہر کو دیکھتی ہے اور یہ ظاہری سنت ہے۔ تو اس وجہ سے جو اس کا انکار کررہا ہے تو ظاہر ہے اس کو بعد میں رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاسکتا۔ تو یا تو سمجھ لے کہ انہوں نے داڑھی رکھی تھی پھر کہہ دیں رحمۃ اللہ علیہ، مان لیں، ٹھیک ہے ناں۔ اور اگر نہیں مانتا تو پھر اس معاملہ میں چپ رہے، کیوں ایک علمی مسئلہ میں مبتلا ہورہا ہے۔ تو یہ چیز ہے، میں اس لئے کہتا ہوں کہ یزید چونکہ فاسق تو تھے، اس نے یہ کام تو کیے تھے، اللہ جل شانہٗ نے اگر اس کو معاف کردیا تو ہم اس کے سامنے نہیں آتے، کیوں اللہ پاک کا کام اللہ پاک کا کام ہے، ہم اس میں درمیان میں کون ہیں جو بولیں۔ لیکن ظاہری طور پر چونکہ وہ اسی پہ مرے ہیں ہاں جی اور یہ کام انہوں نے کیے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاسکتا، اس کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں لعنۃ اللہ علیہ کہیں نہ کہیں، اس میں دو گروہ ہیں، جیسے میں نے بتایا ناں کہ اس میں دو مسلمانوں کے گروہ ہیں۔ اس میں علماء ہیں بڑے بڑے، جیسے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ لعنۃ اللہ علیہ کہتے تھے اور حضرت تھانوی صاحب نہیں کہتے تھے، دونوں بڑے عالم ہیں۔ ایک ایک approach رکھتا ہے دوسرا دوسری approach رکھتا تو ٹھیک ہے ناں صحیح بات ہے علماء کرام کے درمیان ایسی چیزوں پہ اختلاف تو ممکن ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن یہ بات لازمی ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جو ان کو لعنۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں وہ اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ ان کو معاف کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے وہ اس کے بارے میں نہیں کہتے کہ نہیں اس کو اللہ معاف نہیں کرسکتا، نہیں! ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ کافر تو نہیں ہے، کافر تو نہیں کہا، کافر تو نہیں کہا، کافر کہتے تو پھر اس کی معافی نہیں ہے، پھر وہ اس کی علیحدہ بات ہوتی، لیکن یہاں کافر تو نہیں کہا فاسق کہا ہے۔ تو اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بھی لعنۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ان کے لئے بھی موجود ہے دلیل، اور جو نہیں کہتے ہیں ان کے لئے بھی دلیل موجود ہے۔ اور جو مطلب یہ ہے کہ جو رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ان کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بس اتنی سی بات ہے۔
ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے، کافر نہیں کیوں؟ (یہ میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بتا رہا ہوں۔) فرماتے ہیں کہ شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا الزام اگر ان کو نہیں دیا جاسکتا تو یہ الزام تو ان کو دیا جاسکتا ہے کہ اس کا بدلہ اس نے کیوں نہیں لیا۔
یہ حضرت فرما رہے ہیں جو ان پہ لعنت نہیں کررہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ان پہ لعنت نہیں کررہے لیکن فرماتے ہیں کہ جو شہادتِ حسین کا الزام ہے، بعض لوگ کہتے ہیں (جو ان کی طرف سے جواب دیتے ہیں) کہ نہیں نہیں وہ اس نے حکم نہیں دیا تھا، یہ تو ان لوگوں نے اور ابن زیاد وغیرہ نے اپنی طرف سے کیا تھا، تو حضرت فرماتے ہیں پھر انہوں نے اس کا بدلہ کیوں نہیں لیا؟ میری نافرمانی کیوں کی؟ میں نے تو تم لوگوں کو شہید کرنے کے لئے تو نہیں کہا تھا۔ تو اگر بدلہ لے لیتے تو پھر ہم کہتے اچھا ٹھیک ہے اس نے تو نہیں کہا تھا، اس معاملہ کو اس نے disown کردیا۔ اگر اتنا بڑا کام اس سے پوچھے بغیر ہوا تو ان کے قاتلوں سے انتقام کیوں نہیں لیا گیا۔
دوسری بات مدینہ منورہ پر اس نے جو فوج کشی کرائی، مدینہ منورہ کو تین دن تک فوج کے حوالے کیا کہ وہاں جو مرضی ہو وہ کرو۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی تین دن بند رہی۔ اور وہاں ریاض الجنۃ میں گھوڑے باندھے گئے جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے، بہت سارے صحابہ کرام اور صحابیات شہید ہوگئیں، نَعُوْذُ بِاللہ بہت سارے صحابہ کرام کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی۔ اصول یہ ہے کہ جس معیار کا جرم ہوتا ہے اسی معیار کی توبہ ہوتی ہے۔ خفیہ گناہ کی توبہ خفیہ ہوسکتی ہے اور علانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے۔ عالم جب گناہ کرتے تو وہ منبر پر بیٹھ کر اعلان کرے گا کہ یہ میں نے غلط کیا ہے۔ یہ نہیں کہ یہاں منبر پر غلط بات کرلے اور جاکر کمرے میں کہہ دے کہ میں نے غلط بات کی ہے۔ تو کیا وہ توبہ ہوگی؟ کتاب میں کسی نے غلط لکھا ہے تو اس کو کتاب میں ہی لکھنا پڑے گا کہ میں نے غلط لکھا ہے۔
یہ ہمارے ایک دوست ہیں مفتی ہیں، تو اپنی کتاب میں اس نے کہا کہ جو ہے ناں حضرت حاجی فاروق سکھروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب تشریف لائے تھے ہمارے گھر میں تو شبیر نے ان سے کہا تھا کہ آپ ذکر بالجہر کریں، وہ مفتی ذکر بالجہر کے خلاف ہے۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ ذکر بالجہر کریں۔ تو انہوں نے کرلیا حالانکہ ایسا واقعہ نہیں تھا، ایسا نہیں تھا۔ میں نے نہیں کہا تھا بلکہ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ حضرت ذکر بالجہر بھی کرتے ہیں وہ تو اچانک حضرت نے فرما دیا کہ بھئی ذکر کرتے ہیں اور پورا بارہ تسبیح کا ذکر کرایا اور ریکارڈ بھی ہوگیا اَلْحَمْدُ للہ۔ تو وہ ظاہر ہے مطلب ہے کہ بات تو ہمارے گھر میں ہوئی لیکن میرے کہنے سے نہیں ہوئی۔ تو اس دوست مفتی صاحب سے میں نے عرض کیا کہ آپ نے کیوں لکھا؟ مجھ سے پوچھ لیتے، میں موجود تھا، میرا فون نمبر آپ کے پاس تھا، آپ مجھ سے پوچھ لیتے، آپ نے بغیر پوچھے کیوں لکھ لیا؟ کہتے ہیں نہیں نہیں آپ کی غلطی نہیں ہے۔ میں نے کہا غلطی ہے یا نہیں ہے اب مجھے بتاؤ میں کہہ رہا ہوں ناں کہ میری طرف سے نہیں ہوا، میں نے نہیں کہا تھا مجھے تو پتا بھی نہیں تھا۔ اب جس طرح آپ نے کتاب میں لکھا ہے اس طرح کتاب میں کہو کہ میں نے غلط کیا ہے۔ میں نے کہا آپ کا معاملہ اس طرح صاف نہیں ہوگا کہ آپ کہیں بس ٹھیک ہے آپ نے نہیں کیا۔ میں نے کہا آپ کا حل یہ ہے کہ آپ دوسری کتاب میں یا اسی کتاب کی دوسرے ایڈیشن میں لکھ لو کہ نہیں میں غلطی پہ تھا، شبیر صاحب نے نہیں کہا تھا اور انہوں نے اپنی طرف سے کیا تھا۔ تو مقصد یہ ہے کہ عالم جو ہوتا ہے وہ اس کو توبہ اس طرح کرنا ہوتا ہے جس طرح کا عمل ہوتا ہے اس طرح کا واپسی ہوتی ہے، ہاں جی۔ تو یہ بات ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں دیکھ لیں، جہاں جہاں غلطی ہوئی، آگے جاکر کتاب شائع کرا دی کہ یہاں یہاں پر غلطی ہوئی ہے اس کو ٹھیک کردو۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا کیا۔ عالم کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے۔ وہ علمی توبہ ہوتی ہے۔ جس level پر غلطی ہوتی ہے اسی level کی توبہ ہونی چاہئے۔ تو جو یزید کا حملہ تھا کیا اس کے بعد اس کا اس سے اس طرح کی توبہ ثابت ہے؟ کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جاؤ اب خانہ کعبہ پر سنگ باری کرو۔ وہاں پر اس کی فوج نے سنگ باری کی اور اسی دوران یزید مر گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ان کی فوج سے لڑ رہے تھے۔ پتا نہیں حضرت کو کشف ہوا یا اور کوئی بات ہوئی، انہوں نے یزید کی فوج سے کہا جاؤ تمھارا فاسق امیر مر گیا۔ تو یہ فاسق کا لفظ بھی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ تو صحابی کی دلیل بھی شامل ہوگئی۔ کیوں کہ دیکھیں ناں آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے ناں ’’أَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 6081)
ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں جس کے پیچھے بھی چلو گے تو ہدایت پاؤ گے۔‘‘
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تمھارا فاسق امیر۔ انہوں نے یزید کو فاسق کہہ دیا۔ اب اگر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس میں یعنی پیروی میں کوئی اس کو فاسق کہہ دے تو کون اس کو غلط کہے گا؟ بھئی ایک صحابی نے کہا ہے، لہٰذا اس پہ بات ہم (کرسکتے ہیں) جبکہ یہ چیز تابعی کے لئے نہیں ہے، تابعی کی بات پر ہم بغیر تحقیق کے عمل نہیں کرسکتے۔ صحابی کے معاملہ پہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحابی نے کیا ہے لہٰذا میں بھی کہتا ہوں۔ کیونکہ ’’اَلصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُوْلٌ‘‘ باقاعدہ حدیث شریف کی کتابیں پڑھو تو جو حدیث شریف صحابی تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے ساتھ وہ لکھتے ہیں یعنی جو کتاب والا ہوتا ہے: ’’وَھُوَ مِنَ الصَّحَابۃِ وَالصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُوْلٌ‘‘ اور وہ صحابہ میں سے تھا اور صحابہ سارے عادل ہیں۔ اس طرح ہی لکھتے ہیں ناں مولانا؟ تو صحابہ سارے عادل ہیں۔ تو اس وجہ سے صحابہ کے عدل کے تو سب قائل ہیں سب اہل سنت و الجماعت۔ لہٰذا اس میں کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔
جب اس کی فوج نے پتا کیا تو وہ واقعی مر گیا تھا۔ تو وہ توبہ کیے بغیر مرا ہے۔ اس لئے ان تین باتوں کی وجہ سے وہ فاسق ہے۔ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں بصراحت لکھتے ہیں۔ اور اس کو مسلمان کہنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فاسق تھا، شریر تھا، نشہ کا متوالا تھا اور ظالم تھا۔
ان ساری باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ یزید کے بارے میں اہل سنت میں یزید کے امتیاز تین سیاہ کارناموں کو غلط کہنے اور اس کی پاداش میں یزید کے ساتھ محبت نہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے (اہل سنت میں نہیں ہے، جو یزید کی حمایت کرے وہ اہل سنت و الجماعت میں نہیں رہے گا) اس لئے بعض اکابر یزید کے نام کے ساتھ پلید اور فاسق کا نام لکھتے ہیں البتہ اس پر لعنت کرنے میں اختلاف ہے کیونکہ یہ بد دعا ہے اس لئے جب تک کسی کے کفر کا یقین نہ ہو تو اس پر لعنت کرنا مناسب نہیں ہے لیکن یہ ہمارا نقطہ نظر ہے، بعض اکابر بوجوہ ان کے اوپر لعنت کرنے کے قائل ہیں ان کے ساتھ دلائل ہیں ہم نہ ان کو غلط کہتے ہیں نہ خود یزید پر لعنت کرتے ہیں۔ البتہ یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ پکارنا یہ کسی اہل سنت کا مسلک نہیں ہوسکتا، یہ نواصب کا ہی کام ہے۔ (یہ ناصبی ہے) اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے
ہاں البتہ فاسق کے لئے مغفرت کی دعا ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یا اللہ! یزید کو بخش دے۔ یہ دعا ہم بھی کرسکتے ہیں۔ ہاں مسلمان تھا، اس کے کفر کا کوئی یقینی ثبوت نہیں اور مسلمان چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔ نیز اس کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے کیونکہ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ جہنم لے جائے تو ہمیں کیا خوشی ہوگی؟ بالکل نہیں ہوگی۔ اور اگر یزید کو اللہ پاک جنتی بنا دے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ کیونکہ ہمیں سبحان اللہ کے ساتھ یہ دشمنی تو نہیں ہے۔ اگر اللہ پاک کسی کو معاف کرنا چاہے بالکل صحیح ہے، یہ اس کا کام ہے۔ لیکن اصول تو نہیں بدلے جاسکتے، فاسق کو فاسق کہنا چاہئے۔ لیکن اللہ پاک فاسق کو بھی بخش سکتے ہیں۔ اللہ پاک کی قدرت سے وہ نکلا ہوا نہیں ہے۔ ہاں کافر کو نہیں بخشتا۔ مشرک کو نہیں بخشتا۔ یہ اللہ پاک کا قانون ہے۔ یہاں سے اگر کوئی ایمان کے ساتھ چلا گیا تو اللہ پاک اس کو بخش سکتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے اصول کو تبدیل نہیں کریں گے۔ ہم یزید کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے۔ اب جو لوگ یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنے کے شوقین ہوں اور اس کے مقابلے میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغی کہیں تو ان لوگوں کا مقام کیا ہوگا۔ وہ اُس حدیث شریف جس میں یزید کو مغفور ثابت کیا جاتا ہے لیکن علمی لحاظ سے یہ مشکوک ہے جیسا کہ بتایا گیا کی وہ سے تو یزید کا اکرام کرتے ہیں اور وہ جو احادیث شریفہ ہیں جن میں حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نوجوانان جنت کا سردار کہا گیا اور حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں میرے پھول ہیں، کا فرمایا ہے۔ اور اس طرح اور احادیث شریفہ سے صرفِ نظر کررہے ہیں ان کو ناصبی نہ کہا جائے تو کن کو کہا جائے۔ ان ہی کو ہم ناصبی کہتے ہیں جن کو ازروئے حدیث گمراہ فرقہ کہا گیا ہے کیونکہ ایک فرقہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کے غلو میں گمراہ ہوگیا ان کو شیعہ کہتے ہیں انہوں نے اکثر حضرات صحابہ کرام کو مرتد کہا دوسرا فرقہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عداوت میں گمراہ ہوگیا ان کو ناصبی کہتے ہیں۔ در حقیقت یہ بھی شعبہ ہیں کیونکہ ان کا پرانا نام مروانی شیعہ ہے۔ یہ بالکل شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو اہل سنت میں شامل کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ اپنا زہر اہل سنت کے قلوب میں پہنچا دیتے ہیں۔ ان سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے۔ یہ دونوں صحابہ کے دشمن ہیں۔
اَلْحَمْدُ للہ پورے بیان میں میری زبان سے کسی صحابی کے بارے میں نَعُوْذُ بِاللہ کوئی بات نکلی ہے؟ اور مجھے اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں کیوں اپنی عاقبت خراب کرتا۔ کسی سنی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی غلط بات کرے۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ ہماری approach اس معنی میں بہت واضح ہے۔ ہم کہتے ہیں یزید حق پہ نہیں ہے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پہ تھے۔ انہوں نے اپنی جان (قربان کی) دیکھو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ما شاء اللہ ایک صوفی بزرگ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تو بنائے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہیں یعنی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ انہوں نے کرکے دکھایا کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہیں اور بقول حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے کہ جن کو بھی۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
یہ حضرت کے اشعار ہیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے:
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
سر دے دیا لیکن اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہیں دیا۔
حقہ کہ بنائے لَا اِلٰہ است حسین
یقینی بات ہے کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی جو حفاظت کرنے والا ہے وہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ تو اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے جتنے بھی بزرگ ہیں اور پھر مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہا کہ وہ فرماتے ہیں کہ بے شک مطلب یہ ہے کہ کوئی غوث ہو، اوتاد ہو، کتنا بڑا ولی اللہ کیوں نہ ہو ان کو جو فیض ملتا ہے وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کی اولاد کے ذریعہ سے جو اہل بیت ہیں ان کے ذریعہ سے ملتا ہے، ہاں جی۔ یہ خود حضرت فرماتے ہیں۔ تو پھر فرمایا چلتے چلتے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تک بات آگئی اور بالآخر حضرت امام مہدی علیہ السلام پر آئے گی یہ بات۔ کیونکہ حسنی حسینی سید ہوں گے، امام مہدی علیہ السلام جو ہیں وہ بھی حسنی حسینی سید ہوں گے، لہٰذا ہم لوگوں کو پہلے سے ابھی ذرہ ایسی بات کو مضبوط کرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دل میں کہیں کسی گوشے میں اہل بیت کی مخالفت ہو تو پھر امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ذرا مسئلہ بن جائے گا اور اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوجائے تو بے شک آپ کو برف کی تہوں کے اوپر سلوں کے اوپر پھسل کے ان کے پاس جانا پڑے چلے جاؤ ان کے ہاتھ پہ بیعت کرو۔ تو اتنا اہم کام ہے یہ تو اگر ایسے وقت میں آگئے امام مہدی علیہ السلام آگئے جس کے امکانات ہیں تو ایسی صورت میں پھر مجھے بتاؤ پھر کیا ہوگا اگر دل میں یہ مسئلہ ہوگا؟ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
اب میں آپ کو بات بتاؤں آخر میں چونکہ وقت تھوڑا رہ گیا، ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت فتنوں کا دور ہے اور فتنوں میں کوئی بھی پڑ سکتا ہے ہر ایک کے لئے اپنا اپنا فتنہ موجود ہوتا ہے کسی کے لئے کیا ہوتا ہے کسی کے لئے کیا ہوتا ہے، کوئی آنکھوں کے جرم میں مبتلا، کوئی کانوں کے جرم میں مبتلا، کوئی زبان کے جرم میں مبتلا، کسی کو زبان خراب کرلیتا ہے، کسی کو آنکھ خراب کردیتی ہے، کسی کو کان خراب کرے، کسی کو دوست خراب کر دے، کسی کو رشتہ دار خراب کرلیتے ہیں، مطلب کوئی نہ کوئی صورت کسی کے لئے بھی بن سکتی ہو۔ فتنوں کا دور ہے تو اس فتنوں کے دور میں بہت زیادہ بچنے کی کوشش کرنی چاہئے تو تین کاموں کو اپنے لئے ذمہ لازم سمجھیں ایک ہے صحبتِ صالحین۔ دیکھو جب ہم ہدایت مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے سورۃ فاتحہ میں یہ جو ہر رکعت کے اندر ہم پڑھتے ہیں سورۃ فاتحہ اس میں کیا مانگتے ہیں: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7) اس کا ترجمہ کیا ہے؟ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ ہدایت فرما دے راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا ہے، ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا غصہ ہے یا وہ گمراہ ہوچکے ہیں۔ اب دیکھیں اللہ جل شانہٗ دوسری جگہوں پہ ارشاد فرماتے ہیں قرآن میں ہی کہ جن پر اللہ کا انعام ہے وہ انبیاء ہیں صدیقین ہیں شہداء ہیں اور صالحین ہیں، کون سی آیت ہے شہداء و صالحین ہاں جی تو اب دیکھو یہ چار لوگوں کا بتایا کہ انعام ان پر ہوا ہے اب انبیاء کرام کا دور تو گیا مطلب وہ تو اب دوبارہ واپس دوبارہ نہیں آئیں گے، صدیقین بہت تھوڑے ہوتے ہیں، شہداء کا پتا ہی اس وقت چلتا ہے جس وقت وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں کون رہ گئے درمیان میں ہمارے لئے کون رہ گیا؟ صالحین رہ گئے تو صحبت صالحین یہ لازمی ہے اپنے آپ کو فتنوں سے بچانے کے لئے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (چونکہ آخری دور کے مجدد ہیں) تو فرمایا میں فتویٰ دیتا ہوں کہ صحبتِ صالحین آج کل فرض عین ہے، آج کل فرض عین ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان بھی نہیں بچتا۔ اب بتاؤ فتنوں سے بچنے کے لئے صحبت صالحین کتنی ضروری ہوا۔ اپنے اپنے لئے صحبت صالحین ڈھونڈو امریکہ جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، Russia جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، چین جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، سعودی عرب جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، ہندوستان جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، کراچی جاؤ تو وہاں ڈھونڈو، لاہور جاؤ تو وہاں ڈھونڈو۔ یعنی ہر جگہ آپ کو صحبت صالحین کا علم ہو کس کے پاس بیٹھ کر میں بچ سکتا ہوں اور ایک بات یاد رکھنا چاہئے شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے، شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے۔ جو اس کا طالب ہوتا ہے اللہ اس کو پہنچاتا ہے۔ میں امریکہ جارہا تھا 1984 کی بات ہے اور اَلْحَمْدُ للہ میں چونکہ (ایسا) تھا، تو صرف ایک رات میں نے Holiday Inn میں گزری ہے جب میری reservation تھی اور اس سے اگلے دن میں نے کہا میرے dues clear کرلیں کیونکہ ممکن میں دوبارہ یہاں نہ آؤں۔ تو وہ پریشان ہوگئے ظاہر ہے کمرشل لوگ ہیں کہ بھئی ہم سے کیا غلطی ہوئی۔ کہتے ہیں آپ ہمیں لکھ کردیں کیا غلطی ہوئی۔ میں نے کہا کوئی غلطی نہیں ہوئی، غلطی میری ہے۔ بس ممکن ہے میں آجاؤں لیکن ممکن ہے نہ آؤں تو پہلے dues clear کرلیں تاکہ وہ ایک دن کے میں آپ کو دے دوں پھر بعد میں دیکھا جائے گا۔ خیر انہوں نے due میرے clear کردیئے اس کے بعد میں جیسے آفس میں گیا ہوں تو وہاں جو سیکریٹری تھی، اس کو میں نے کہا یہاں تین یونیورسٹیاں ہیں ان یونیورسٹیوں میں سے ایک میرے دوست رہتے ہیں فلاں اس کا نام ہے اس کو تلاش کرو۔ ہاں جی۔ وہ بھی خدا کی بندی پتا نہیں کس طرح اس نے کیا، اُس وقت تو موبائل وغیرہ بھی نہیں تھے، عام ٹیلی فون تھا۔ لیکن اس نے دو گھنٹے کے بعد آکر مجھے کہا جی He is online اچھا خیر بہرحال یہ ہے کہ میں ادھر گیا اس سے ٹیلی فون پہ بات کی اس نے کہا آپ کیسے پہنچے؟ میں نے چھوڑ بتاؤ تمھاری جگہ کدھر ہے؟ تو اس نے مجھے بتانے کوشش کی تو میں نے کہا ان کو بتاؤ، ان کو ٹیلی فون پہ میں نے کہہ دیا تھا کہ جگہ نوٹ کرلو۔ وہ جگہ نوٹ کرلی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا ہوٹل جانا cancel کردو میں ہوٹل نہیں جاؤں گا، میں وہاں جاؤں گا وہاں سے مجھے Pick and drop دے دیں۔ تو وہاں سے مجھے Pick and drop دے دیا، میں گیا ہوں تو حیران ہوگئے کہ یہ کیسے آپ پہنچے۔ میں نے کہا بس اب پہنچ گیا ہوں اس کے قریب ماشاء اللہ بہترین اسلامی سنٹر تھام میرا باقی وقت ادھر گزرا، اس علاقہ کی بہترین جگہ وہ تھی، نمازیں بھی وقت پہ اور ساری چیزیں اَلْحَمْدُ للہ اپنے وقت پہ تو ہورہی تھیں۔ تو دیکھو اللہ پاک نے مجھے وہاں کی بہترین جگہ پہ پہنچا دیا اور پھر اللہ پاک نے Brookline جو نیویارک میں ہے، وہاں پر بہترین جگہ پہنچا دیا پھر جو ہے ایک اور جگہ ہے Minyan وہاں کی بہترین جگہ پہ پہنچا دیا۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ دیکھو جہاں میں گیا ہوں اَلْحَمْدُ للہ اللہ تعالیٰ نے (مدد کی)۔ جرمنی گیا ہوں تو وہیں پہ تقریباً دو دن کے بعد، کیونکہ جمعہ کو میں گیا ہوں اور اتوار کو مجھے اس جگہ پہ اللہ نے پہنچا دیا جو بہترین جگہ ہے۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے، جو چاہتا ہے اس کو مل جاتا ہے، لہٰذا ہم صحبتِ صالحین کے متلاشی ہوں پھر اللہ پاک دے گا، یہ کام اس کا ہے کہ کیسے دے گا، وہ اس کا کام ہے۔ لیکن آپ چاہیں تو سہی ناں، اللہ سے مانگو تو سہی، تو اللہ پاک دے گا۔ تو بہرحال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ایک تو یہ بات ہے کہ صحبت صالحین کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوسری بات ہے کہ کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہئے، کثرت کے ساتھ، آج کل کی بات ہے، وجہ کیا ہے؟ درود شریف کا مطلب کیا ہے کہ اللہ کی رحمت کو کھینچنا اور حضور ﷺ کی سنت کو کھینچنا، حضور ﷺ کی سنت سے انسان اللہ کا محبوب بنتا ہے اور اللہ کی رحمت سے انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ اب بتاؤ دونوں چیزیں ضروری ہیں یا نہیں ہیں؟ تو درود شریف کی کثرت بہت زیادہ، ہاں جی اور تیسری بات استغفار کی کثرت، بھئی فتنے کے دور میں گناہوں کا تو بہت زیادہ امکان ہوتا ہے ناں، تو اس وجہ سے بس استغفار استغفار استغفار استغفار تاکہ گناہ خدانخواستہ اگر ہوں تو فوراً معاف ہوجائیں، تو استغفار کریں۔ تو تین کام میں نے بتا دیئے، کیا کام بتا دیئے؟ ایک تو صحبتِ صالحین کا اہتمام، جس کے لئے جو بھی ہو، مجھے خود اپنے ساتھی بتاتے ہیں کوئی ٹیلی فون پہ بتاتا ہے کوئی whatsapp پہ بتائے کوئی کسی اور طریقہ سے کہ ہم جب خانقاہ آنا کم کردیں تو معاملہ گڑبڑ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اب اللہ پاک نے ان کے لئے یہ ذریعہ بنایا ہوا ہے، کہ جب ہمارا آنا جانا کم ہوجاتا ہے خانقاہ کو تو بس ہمارے ساتھ پھر وہ مسائل شروع ہوجاتے ہیں، کچھ غلطیاں اور نقصانات شروع ہوجاتے ہیں۔ اب یہ اللہ پاک ان کو دکھا دیتے ہیں، ہاں جی اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ جل شانہٗ کی رحمت والی جگہوں پر جہاں پر اللہ کی رحمتیں برستی ہیں وہاں اعمال کی وجہ سے، خانقاہ بھی انہی جگہوں میں سے ہوتی ہے کہ جہاں پر اللہ کی رحمت برستی ہے اور جو لوگ وہاں آتے ہیں ان کے اوپر بھی اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے، تو اس کے ذریعہ سے ان کی بچت ہوتی ہے۔ ہم جس وقت پشاور یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، یقین جانئے اسلامیہ کالج کے گیٹ سے داخل ہوتے ہی ہمیں اندازہ ہوجاتا کہ ہم مختلف جگہ پہ آگئے ہیں، یہ دنیا کی مختلف جگہ ہے، یہاں پر معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ایسے ہی ہمیں محسوس ہوتا تھا حضرت کی زندگی میں، ہاں جی، کیونکہ بس حضرت آپ اس کو حضرت کی ولایت کا اثر دیکھو یا جو بھی ہو وَاللہُ اَعْلَم! آپ اس کو جو بھی کہیں، وہ آپ کی اپنی بات ہے، لیکن ہمارے لئے تو بات یہ تھی کہ ہم جیسے ہی اسلامیہ کالج کے گیٹ کے اندر داخل ہوجاتے تو پتا چل جاتا کہ ہم مختلف جگہ پہ آگئے ہیں، ہاں جی۔ تو یہ بات ہے، کیونکہ اللہ پاک کی ایسی جگہوں پہ رحمت کی نظر ہوتی ہے، ہاں جی، یہ جو ہم لوگ قبروں کے بارے میں وہ نظریہ نہیں رکھتے جو بعض لوگ رکھتے ہیں، ہم کہتے ہیں جانا چاہئے کیونکہ اس میں عبرت ہوتی ہے اور اپنی موت کی یاد ہوجاتی ہے، لیکن وہاں سجدے کرنے کے لئے اور وہاں قبریں چومنے کے لئے نہیں یا اس کے طواف کرنے کے لئے نہیں، مطلب ہم لوگ یہی کہتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے اصل میں تو جن کی قبر پہ ہم جاتے ہیں انہوں نے بھی ان چیزوں کو جائز نہیں کہا، تو ہم کیوں ایسا کام کریں جن کو وہ ناجائز کہتے ہوں ہم وہ کام کیوں کریں، ہمیں تو وہ کام کرنا چاہئے جس سے وہ خوش ہوتے ہوں۔ تو قبرستان جائیں تو عبرت کے لئے جائیں اور اپنی آخرت کی یاد کے لئے جائیں ٹھیک ہے ناں! اور ان کے لئے ایصال ثواب کے لئے جائیں اور پھر یہ ہے کہ چونکہ اللہ کی رحمت وہاں برستی ہے، چونکہ کوئی بھی اللہ کا ولی جہاں پر مدفون ہے یا رہتا ہے وہاں اللہ کی رحمت برستی ہے، جب آپ ایسی جگہ پہ ہوں جہاں اللہ کی رحمت برستی ہو وہاں جب اللہ پاک سے مانگیں گے تو فائدہ ہوگا ناں، تو میں نے کیا کہا؟ اللہ سے مانگیں گے، یہ تو نہیں کہا ناں کہ اس بزرگ سے مانگیں گے۔ میں نے کیا کہا؟ جب اللہ سے مانگیں گے۔ چونکہ رحمت کی جگہ ہے ناں، تو رحمت کس کی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو رحمت جب برس رہی ہے تو آپ اس میں اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے کہ ہم نے پکا وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ سے، سورۃ فاتحہ کی قرات میں جب ہم رکعت میں پڑھتے ہیں: ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحہ: 4) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، یہ الفاظ میرے خیال میں آپ لوگوں کو سمجھ میں آرہے ہوں گے، عربی کے الفاظ ہیں: ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحہ: 4) کا مطلب کیا ہے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اب ’’تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ اس کا مطلب ہے کسی اور کی نہیں کرتے۔ جیسے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے ناں، کسی اور کی نہیں کرتے صرف اللہ کی کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں کسی اور سے نہیں، صرف اللہ پاک سے مانگتے ہیں۔ جہاں بھی مانگیں مسجد میں مانگیں، خانقاہ میں مانگیں، کسی بزرگ کی قبر پر مانگو، خانہ کعبہ میں مانگو، عرفات میں مانگو، مزدلفہ میں مانگو، حطیم میں مانگو، جہاں بھی مانگنا ہو تو اللہ سے مانگو۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ یہی بس بات ہے، بات کتنی سادہ ہے، اس کو بعض لوگوں نے کتنا مشکل بنا دیا ہے۔ تو بہرحال یہ بات میں عرض کررہا ہوں کہ یہ تین چیزیں اپنے ساتھ لازم رکھو صحبت صالحین۔ اور چوتھی چیز کیا ہے؟ فتنوں کا دور ہے ناں، تو فتنے کو پھیلانا یا فتنے کو پھیلنے دینا، اس میں ہم شریک نہ ہوں۔ کیا کہا میں نے؟ فتنے کو پھیلانا اور فتنے کو پھیلنے دینا، اس میں ہم شریک نہ ہوں۔ ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ: 2) قرآن پاک کی آیت ہے ناں، یعنی نیکی کے کام میں اور تقویٰ کے کام میں تعاون کرو اور جو اللہ پاک سے بغاوت ہے، گناہ ہے اس میں تعاون نہ کرو۔ اب مجھے بتاؤ کہ مجھے کوئی سوشل میڈیا پر کوئی clip آگیا یا کوئی چیز آگئی، اگر میں نے اس کو بغیر تحقیق کے forward کرلیا، تو یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے حدیث شریف کے مطابق، بغیر تحقیق کے اگر میں نے کسی کو کہہ دیا، کسی کو بتا دیا، یہ کس زمرے میں آتا ہے؟ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ تو مجھے بتاؤ جھوٹ کیا چیز ہے؟ اِثْم ہے یا نہیں ہے؟ گناہ ہے یا نہیں ہے؟ اس میں تعاون کرنا چاہئے؟ تو فوراً بھئی نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بہت شوق ہوتا ہے بعض لوگوں کو بس اِدھر سے ملے اور ٹھک ٹھک ٹھک، بھئی خدا کے بندے کیا کررہے ہو! آپ ذمہ دار بن رہے ہو، آپ کو کس نے کہا ہے کہ بھیجو؟ بھیجنا آپ کے اوپر لازم نہیں نمبر ایک، اور بھیجنے میں نقصان کا اندیشہ ہے، نقصان کا اندیشہ ہے، اُس نقصان میں اپنے آپ کو کیوں ڈالتے ہو جس کے لئے آپ سے کہا بھی نہیں گیا، خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کرتے ہو آ بیل مجھے مار۔ تو اس وجہ سے کوئی بھی اگر چیز آپ کے پاس آئے اس کو اس وقت تک آپ نہ کرو، نہ بھیجو جب تک تحقیق نہ ہو۔ اب میں آپ کو ایک طریقہ بتاتا ہوں جس کا جس مفتی کے ساتھ تعلق ہو، صحیح مفتی کے ساتھ یا شیخ کے ساتھ تعلق ہو، مفتی کے ساتھ علمی تعلق ہوتا ہے، شیخ کے ساتھ تربیت کا تعلق ہوتا ہے، ان کے ساتھ In contact رہیں، جب کوئی چیز آجائے اور آپ نے اگر شیئر کرنی ہو تو ان سے پوچھو، شیخ سے پوچھو اگر کوئی تصوف کے لحاظ سے بات ہے یا کوئی اس قسم کی بات ہے تو شیخ سے پوچھو، کیونکہ یہ چیزیں ان کو معلوم ہوتی ہیں اور اگر کوئی فتویٰ کی بات ہو تو اس مفتی سے پوچھو جو صحیح مفتی ہے، اس سے پوچھو، اگر وہ کہہ دے کہ ٹھیک ہے تو پھر تم بھی شیئر کرسکتے ہو، اور اگر غلط ہے، مطلب یہ کہا کہ بھئی مجھے نہیں معلوم، بس اتنا کافی ہے ان کا، پھر آپ یہ نہ کہیں مجھے کہہ دو کہ یقیناً (غلط ہے) بھئی وہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم، تو اس کا مطلب جب اس کو معلوم نہیں جس کا کام ہے تو پھر تجھے کیسے معلوم ہوگا، بھئی انجینئرنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیز ہے آپ انجینئر سے پوچھو تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں ہے، تو پھر آپ کو کیسے پتا ہوگا، یا ڈاکٹر کی بات کوئی ہو۔ تو مطلب یہ ہے کہ جو مفتی کا کام ہے ناں یہ چیز، وہ روز و شب اس میں رہتا ہے، وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم تو یہی بات کافی ہے ناں کہ بس چھوڑو، اس کو نہ بھیجو، کیا ضروری ہے اس کا بھیجنا؟ تو ایک بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو ہے ناں بلاوجہ In contact بھی نہ رہیں، کیونکہ اس میں بھی فتنے ہیں، ہاں جی۔ اور اگر کسی assignment کے طور پر ہیں بعض دفعہ assignment کے طور پر ہوتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ اس قسم کے کام کرتے ہیں جو دوسرے لوگوں کا توڑ کرتے ہیں، تو ٹھیک ہے وہ ایک اچھا کام ہے، لیکن اس کے لئے اصول و ضوابط ہیں اور وہ یہ ہے کہ خود اپنی طرف سے فیصلے نہ کریں، اگر تصوف سے متعلق چیزیں ہیں تو شیخ سے پوچھیں اور اگر علمی لحاظ سے بات ہے تو پھر کسی ایسے مفتی سے بہتر یہ ہے کہ اس شیخ نے recommend کیا ہو، کیونکہ ظاہر ہے اس کو کم از کم اگر وہ خود مفتی نہیں تو مفتیوں کا پتا تو ہوتا ہے کہ کون سے مفتی زیادہ reliable ہے، کیونکہ آج کل مسئلہ ہے ناں، یہ دنیا بہت زیادہ forward ہوچکی ہے، تو دنیاداری جہاں بھی آجائے تو وہاں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں تو اس وجہ سے شیخ سے اس لئے پوچھنا چاہئے کہ وہ کم از کم آپ کو ایسے مفتی کا پتا بتائے جو دنیاداری کی زد میں نہ آیا ہو، دنیاداری کی زد میں نہ آیا ہو کیونکہ دنیاداری کی زد میں جب آجاتا ہے تو ساری چیزیں نکل جاتی ہیں، ہاں جی۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو ذرا تھوڑا سا اس میں محتاط رہنا چاہئے کہ شیخ کے recommend کیے ہوئے مفتی سے رابطہ کرو اور اگر تصوف کی بات ہے تو پھر شیخ سے براہ راست رابطہ کرو، اگر وہ اجازت دیں تو پھر آپ کرلیں forward نہیں تو بالکل forward کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے بہت ساری چیزیں ملتی ہیں میں ویسے چھوڑتا ہوں نہیں forward کرتا، خواہ مخواہ میں کیوں اس پہ وقت لگاؤں، میرے لئے لازمی تو ہے نہیں، میرے لئے لازمی تو ہے نہیں۔ ہاں! جس کو کام دیا گیا ہو اس کا، وہ پھر مجبوری ہے اب دیکھو ناں: ﴿وَّلَا تَجَسَّسُوْا﴾ (الحجرات: 12) کا حکم ہے عام لوگوں کے لئے کیا ہے: ﴿وَّلَا تَجَسَّسُوْا﴾ تجسس نہ کرو، کسی کے بارے میں ٹوہ نہ لگ جاؤ۔ لیکن جس کو ڈیوٹی، جیسے پولیس کی ڈیوٹی دی گئی ہو انکوائری کی اور investigation کی، تو کیا وہ بھی نہیں کریں گے؟ وہ تو باقاعدہ تمام means استعمال کریں گے، ہاں جی۔ کیونکہ ظاہر ہے انہوں تفتیش کرنی ہے، معاملہ کا حل نکالنا ہے، تو ان کا کام ہے، اس کے لئے ان کے پاس tools بھی ہوں گے، ان کے ساتھ تعلقات بھی ہوں گے، رسوخ بھی ہوگا، ساری چیزیں انہوں نے سیکھی ہوں گی، وہ پھر کرسکتے ہیں اور کریں گے۔ لیکن چونکہ میں اس طرح نہیں ہوں، نہ مجھ سے پوچھا جارہا ہے، نہ میرا کام ہے، میں کیوں اپنے آپ کو خراب کروں۔ تو بس یہ چند باتیں میں عرض کرنا چاہتا تھا، اللہ کرے کہ ہمیں ان سب باتوں پر عمل کی توفیق ہوجائے۔ آج کل کا دور بڑا نازک دور ہے، اس میں اپنے ایمان کو بچانا بہت ضروری ہے، خدانخواستہ کوئی بات آپ کی زبان سے، آپ کے قلم سے ایسی نکلے، جس سے آدمی کفر کی حدود میں چلا جائے یا فسق کے حدود میں چلا جائے تو کتنی تباہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ