عاشورہ کی حقیقت، اہلِ حق کا منہج، اور دور فتن کا علاج

آیات سورۃ زلزال، احادیث از خطبات الاحکام، نواں خطبہ عاشورا کے اعمال کے بارے میں

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد رحمان - سنگجانی، اسلام آباد

یہ بیان محرم اور عاشورہ کے روزے کی گہری اہمیت کو دل میں بساتا ہے، حدیث کی روشنی میں اس کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مشابہت سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے۔ صحابہ کرام، اہل بیت، اور امہات المؤمنین کو دین کے تین سنہرے ذرائع کے طور پر پیش کیا گیا، جن کے بلند مرتبوں کی داد دی گئی۔ امت کے موجودہ انتشار اور سوشل میڈیا کے فتنوں سے بچاؤ کے لیے تحقیق اور فہم و فراست کی دعوت دی گئی۔ دجال کے دھوکوں سے نجات کے لیے صادقین کی صحبت، درود شریف، اور استغفار کی کثرت کو رہنما اصول بنایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی اور خواجہ معین الدین چشتی رحمہما اللہ کی عظیم خدمات کو ہندوستان میں اسلام کی ترقی کی داستان سے جوڑا گیا۔ یزید کے واقعات پر لعنت کے تناظر میں اعتدال اور گہری سوچ کی ترغیب دی گئی۔ صالحین کی صحبت کو فرض عین قرار دیتے ہوئے اللہ کے قرب اور ہدایت کے حصول کے لیے خلوص نیت کی اہمیت بیان کی گئی۔ آخر میں، اللہ سے عمل کی توفیق اور امت کی رہنمائی کی دعا کے ساتھ یہ درس دل و دماغ کو منور کرتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٗ ۝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (الزلزال: 7-8)

فَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ‏''أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1163) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ''۔ (مسلم، رقم الحدیث: 1162) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''صُوْمُوْا عَاشُوْرَاءَ وَخَالِفُوْا فِیْهِ الْیَھُوْدَ، صُوْمُوْا قَبْلَهٗ یَوْمًا اَوْ بَعْدَہٗ یَوْمًا''۔ (مسند احمد، رقم الحدیث: 2154) ''وَكَانَ عَاشُوْرَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ: ''مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ''۔ (بخاری، رقم الحدیث: 4502) وَمِنَ الْأَوَّلِ إِبَاحَةً وَّبَرَکَةَنِ التَّوْسِعَةُ فِیْهِ عَلٰی عَیَالِهٖ؛ فَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''مَنْ وَّسَّعَ عَلٰی عَیَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ''۔ (شعب الِإیمان للبیھقي، رقم الحديث: 3513) ’’وَمِنَ الثَّانِي اتِّخَاذُہٗ عِیْدًا وَّمَوْسِمًا أَوِ اتِّخَاذُہٗ مَاْتَمًا مِّنَ الْمَرَاثِیْ وَالنِّیَاحَۃِ وَالْحُزْنِ بِذِکْرِ مَصَائِبِ أَھْلِ الْبَیْتِ وَاتِّخَاذِ الضَّرَائِحِ وَالْأَعْلَامِ وَمَا یُقَارِنُھَا مِنَ الْمَلَاھِیْ وَالشِّرْكِ وَالْاٰثَامِ‘‘۔

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ


معزز خواتین و حضرات! کیونکہ میرا آنا یہاں پر تقریباً مہینے میں ہوتا ہے، اس دفعہ تو کافی دیر کے بعد حاضری ہوئی، درمیان میں رمضان شریف اور عید آگئی۔ جب دوسری دفعہ اگر آنا ہوگا تو اس وقت یہ محرم گزر چکا ہوگا، اس وجہ سے اس سے متعلق جو ضروری احکامات ہیں وہ بھی عرض کرنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ کے اوپر جو پریشانی کے حالات ہیں وہ کیوں ہیں اور ان کا علاج کیا ہے؟ ان کے علاج کے سلسلہ میں کتنی کوششیں ہورہی ہیں، ان کوششوں کو کامیاب کرنے کے لئے کیا ہوسکتا ہے؟ یہ بھی عرض ان شاء اللہ کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے محرم کی بات! محرم کا مہینہ ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے، اس وجہ سے ہجری کا سال چونکہ اس سے شروع ہوتا ہے اس کی بڑی اہمیت ہے، اور آپ ﷺ جس وقت مدینہ منورہ تشریف لے گئے یہود کو دیکھا کہ وہ دس محرم کا روزہ رکھ رہے ہیں، ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے آزادی ہوئی تھی اس دن، اس لئے ہم یہ روزہ رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر یہ بات ہے تو پھر تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ہم یہ روزہ رکھیں کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو ہمارے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام ایک ہے آدم علیہ السلام سے لے کر آپ ﷺ تک ایک ہی اسلام رہا ہے، ہر پیغمبر نے یہی بات کی کہ اللہ ایک ہیں اور اس وقت دین کے لحاظ سے جو بات ضروری ہوتی تھی وہ بتا دیتے تھے، ان پر جو کتاب نازل ہوتی تھی یا صحیفہ، اس میں بھی یہی باتیں ہوتی تھیں، اسلام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ موسیٰ علیہ السلام بھی ظاہر ہے اسلام کے پیغمبر، عیسیٰ علیہ السلام بھی اسلام کے پیغمبر، ابراہیم علیہ السلام یقیناً سب کے آباء اور آدم علیہ السلام تو پھر ہیں ہی سب کے والد، اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو ہمارا زیادہ حق بنتا ہے کہ اس دن روزہ رکھیں، صحابہ کرام نے عرض کیا (یہ بہت بڑا علمی نکتہ ہے) یارسول اللہ! کہیں یہود کے ساتھ مشابہت تو نہیں ہوجائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو اگلے سال ہم دو روزے رکھیں گے، ایک اس سے پہلے یا ایک اس کے بعد، ان میں سے دو رکھیں گے، یا نو دس رکھ لیں گے یا دس اور گیارہ رکھ لیں گے۔ اب دیکھیں! اصل حکم کو تبدیل نہیں کیا لیکن اس کی مشابہت بھی نہیں ہونے دی۔ اس سے پتا چلا کہ مشابہت کتنی خطرناک چیز ہے، ایک دینی بات جس کی آپ ﷺ تصدیق فرما رہے ہیں، اس میں بھی صحابہ کرام نے یہ سوچا کہ ان کی عید ہوگی۔ اس وجہ سے مشابہت سے ہمیں بہت زیادہ اپنے آپ کو بچانا چاہئے، کیونکہ جو جس قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں، کبھی بھی اغیار کی مشابہت نہیں کرنی چاہئے بالخصوص جو چیزیں ان کے شعار ہوں، جس سے ان کی پہچان ہو وہ تو بالکل اختیار نہیں کرنی چاہئیں۔ تو یوم عاشورہ کا جو روزہ تھا وہ پہلے رکھا جاتا تھا لازمی، جس وقت رمضان شریف کے مہینہ کا حکم آگیا تو رمضان شریف کے روزے فرض ہوگئے اور اس کے بارے میں فرمایا جو چاہے رکھے جو چاہے نہ رکھے، یعنی مستحب ہوگئے۔ یاد رکھئے کہ جو چیز پہلے سے فرض ہوتی ہے اور بعد میں فرض نہیں رہتی کوئی اور فرض ہوجاتی ہے تو اس کی وہ اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہے، ہاں البتہ اس میں اختیار دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی کرے تو کرے نہ کرے تو نہ کرے، لیکن وہ باقی مستحبات سے بہت زیادہ آگے ہوتا ہے۔ جیسے تہجد کی نماز یعنی پیغمبر کے اوپر یہ فرض تھی اور امتیوں کے اوپر فرض نہیں رہی، لیکن اس کی حیثیت باقی نوافل سے بہت آگے ہے۔ اس طریقہ سے جو عاشورہ کا روزہ ہے اس کی حیثیت بھی باقی نفلی روزوں سے زیادہ آگے ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا: جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کے ایک سال پہلے کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے اس روزہ کا اہتمام مناسب بات ہے، اگر کوئی رکھ سکے تو بڑی بات ہے اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔ محرم کے مہینے کے ساتھ کچھ اضافی چیزیں بھی وابستہ ہیں اور اس میں جو احتیاط کا پہلو ہے، وہ کیا ہونا چاہئے وہ بتانا بھی ضروری ہے، ہم اس میں کیا کرسکتے ہیں یہ بھی بتانا ضروری ہے اور کن چیزوں سے بچنا چاہئے، یہ بھی بتانا ضروری ہے۔ ایک بات میں عرض کروں۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ہادی کے مظہر ہیں، یعنی آپ ﷺ کے ذریعہ سے پوری امت کو ہدایت مل رہی ہے لیکن اس ہدایت کو پانے کے لئے تین راستے ہیں تین راستوں سے امت تک یہ ہدایت والی بات آتی ہے، یعنی دین تین ذریعوں سے ہم تک پہنچتا ہے۔ پہلا ذریعہ عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، جو سفر و حضر میں ساتھ رہتے تھے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیات۔ (دوسرا ذریعہ) کچھ گھر کے حضرات جن کو اہلِ بیت کہتے ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت فاطمۃ الزهراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ سب گھر کے حضرات ہیں، تو ان کے ذریعہ بھی دین ہم تک پہنچا ہے، کیوں کہ گھر میں کوئی اور صحابی تو نہیں جاسکتا، گھر میں تو یہ حضرات ہوتے تھے، جو بات حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کہی ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نہیں کہہ سکتے ناں، ظاہر ہے ان کے سامنے ہوئی نہیں، اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام سب سے افضل ہے، لیکن یہ تو روایت کی بات ہے جس کے سامنے بات ہوئی ہوگی وہی اس کو نقل کرسکتا ہے، اس طرح حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاطمۃ الزهراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، علی کرم اللہ وجہہ یہ پوری ایک لائن ہے جس کے ذریعہ سے ہم تک ہدایت پہنچ رہی ہے۔ اور تیسرا ذریعہ امھات المؤمنین کا ہے، امھات المؤمنین کو قربانیوں کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے! تو خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام بہت اونچا ہے اور علم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام بہت اونچا ہے، کیونکہ اس وقت اَلْحَمْدُ للہ احکامات آنے شروع ہوگئے تھے اور سب سے زیادہ سننے والی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں، گھر میں تھیں ، ان کی جو کم وقت کی شادی ہے، اس میں بھی بنیادی وجہ یہی تھی، اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خاتون کو جن میں صلاحیت تھی ان کو آپ ﷺ کی شریکِ حیات بنا دیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ دین ان کے سامنے آجائے اور پھر بعد میں وہ بتا سکیں۔ اس وجہ سے اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی کبھی کبھی اشکال ہوتا، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے پوچھتے۔ ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاص بات جو پردہ کی ہوتی ہے جاننا چاہی، لیکن شرم کے لحاظ سے کر نہیں سکتے تھے، ظاہر ہے ماں تھیں، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تم میرے بیٹے ہو کرو بات میں بتاؤں گی۔ انہوں نے بات کرلی تو انہوں نے اس کا جواب دے دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دین کے بہت سارے علوم کی امانتدار تھیں، جس کی ما شاء اللہ وقتاً فوقتاً امت کو جب ضرورت پڑتی تھی اس کا اظہار فرماتی تھیں اور اس طرح اور صحابیات بھی تھیں اور ساتھ یہ امہات المؤمنین۔ ان تینوں راستوں سے جو دین آتا ہے اگر کسی نے تینوں راستوں سے لے لیا تو مکمل دین لے لیا، اگر ان میں سے کسی سے لیا اور کسی سے نہیں لیا، بعض لوگ اہلِ بیت کی بات کرتے ہیں صحابہ کے خلاف ہوتے ہیں، بعض لوگ صحابہ کی بات کرتے ہیں اہلِ بیت کے خلاف ہوتے ہیں، بعض لوگ امھات المؤمنین کے بارے میں اچھا رویہ نہیں رکھتے، یہ بیچارے محروم ہیں۔ ان کو صرف اتنا حصہ مل رہا ہے جتنے کو وہ مان رہے ہیں باقی سے محروم ہیں۔ مگر ان تینوں میں سے کسی کا بھی کسی نے انکار کردیا، تو ان کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ و صحابیات کا جو ہر گروپ ہے، ان کے بارے میں آپ ﷺ کے بڑے اونچے کلمات مبارکہ ہیں۔ جیسے عام صحابہ کرام کے بارے میں ہے:

’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی‘‘ (سنن ترمذی :2641)

ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں‘‘۔

’’اَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ فَبِاَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اِهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح :6018)

ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے‘‘۔

اور دوسرا طبقہ اہل بیت کے بارے میں بہت اونچے کلمات فرمائے، علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں، حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، فرمایا: حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں، جنت کے سردار ہیں، نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ہے:

’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآءِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ (صحیح بخاری :3426)

اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ بڑے اونچے اونچے کلمات مبارکہ ان سب کے بارے میں ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں۔ اب اگر کسی نے کسی کے بارے میں بھی غلط گمان کرلیا، ان میں سے کسی کے بارے میں بھی، وہ حق پر قائم نہیں رہے، وہ حق سے ہٹ گئے۔ ان میں جو صحابہ کے مخالف ہیں وہ بھی، یا اہلِ بیت کے مخالف ہیں وہ بھی اور جو امھات المؤمنین میں سے کسی کے مخالف ہیں وہ بھی۔ اس بات کو ہمیں بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ایک بات جو سامنے آرہی ہے جو خطرناک ہے، reaction، یہ بہت حقیقت کی بات ہے، reaction ہوتا ہے انسان میں، تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہیں، اس کے جواب میں جو صحابہ کے حق میں لوگ ہیں، وہ اہل بیت کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ بہت بڑی حماقت کی بات ہے، یہ تو باہم شیر و شکر تھے، ان کا تو مسئلہ clear ہے، بعد میں آنے والے مفت میں اپنے آپ کو خراب کررہے ہیں۔ تو ہم لوگ اگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں بات کرتے ہیں اتنے ہی زور سے اہل بیت کے حق میں بات کرتے ہیں، یہ ہمارے لئے ضروری ہے۔ اتنے ہی زور سے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، اللہ پاک نے ان سے بہت بڑا کام لیا، ہندوستان میں اسلام کا جو دفاع حضرت کے ذریعہ سے ہوا اس کی مثال نہیں ملتی، دینِ اکبری کا جو سارا structure جو تباہ کردیا حضرت نے! بہت بڑی بات ہے۔ دو بڑے صوفیوں کا اس ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش پر بہت زیادہ احسان ہے، دو بڑے صوفیوں کا، ایک حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، ان کے ذریعہ سے ہندوستان میں اسلام صحیح معنوں میں داخل ہوا ہے، نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ میں مسلمان ہوئے ہیں، نوے لاکھ لوگ کوئی معمولی بات نہیں ہے اُس دور کی بات ہے، اور یہ اغیار کی باتیں ہیں، اغیار کہہ رہے ہیں نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے ہیں۔ اس مغربی پاکستان جو ہمارا پاکستان ہے اس میں چپے چپے پہ ان کی ماشاء اللہ نقل و حرکت رہی ہے، اپنے شیخ حضرت عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سے، عجیب بات ہے! عجیب اللہ نے بعض لوگوں کو صلاحیت دی ہوتی ہے، یہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، ہمیں اپنے اکابر کی ہسٹری معلوم ہونی چاہئے کہ یہ ہمارا اثاثہ ہے، اگر ہم اپنے اکابر کے بارے میں نہیں جانتے، بہت ساری چیزوں کو ہم ظاہر ہے چھوڑ دیں گے۔ تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ان میں اتنی صلاحیت تھی کہ جب حضرت عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے، تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر حضرت نے ان کو خلافت دے دی، چوبیس گھنٹے کے اندر اندر، اس کے بعد باوفا اتنے تھے، ایک تو صلاحیت اتنی تھی اور باوفا اتنے تھے کہ بیس سال حضرت سے جدا نہیں ہوئے، خلافت ملی ہے، آج کل تو جس کو خلافت مل جاتی ہے بس السلام علیکم بڑا آدمی ہوگیا۔ نہیں! ایسی بات نہیں تھی، بیس سال حضرت کے ساتھ رہے حضرت کے سامان اٹھاتے رہے، حضرت کے ساتھ، حضرت سیاح تھے، مطلب ان کی خانقاہ کوئی ایسی نہیں تھی کہ بس جہاں تھے وہیں تھے، بلکہ مختلف جگہوں پہ جاتے تھے تو بیس سال کے بعد حضرت نے رخصت فرمایا، بس اب جاؤ اب خود کام کرو۔ حج پہ گئے وہاں سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، وہاں سے تشکیل ہوئی ہندوستان میں، ہندوستان تشریف لائے تو یہاں پر بڑے واقعات تھے، وہ تفصیلات کا یہاں ذکر شاید مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وقت تھوڑا ہوتا ہے، لیکن یہاں حضرت کے ذریعہ سے نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے اور اسلام کی داغ بیل صحیح معنوں میں مرکزی ہندوستان میں رکھی گئی، محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ آئے تھے پہلے لیکن وہ صرف سندھ کی حد تک، ملتان کی حد تک، اندرونی ہندوستان میں کون گئے ہیں؟ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ۔ تو میں عرض کررہا ہوں ایک تو یہ بزرگ، اور دوسرے بزرگ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جب مسلمانوں پہ کڑا وقت آیا اکبر کی وجہ سے، بڑے علماء شہید ہوگئے اور کچھ کو جلاوطن کردیا اور کچھ چپ رہنے پر مجبور ہوگئے، اس وقت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل اکبر کے پاس ہی اپنی جھونپڑی سے سلسلہ شروع کرلیا اور اس حد تک اللہ پاک نے ان کو کامیابیاں عطا فرمائیں، مسلسل محنت کرنے کی وجہ سے اکبر کے نصف سے زیادہ درباری یا تو حضرت کے مرید ہوگئے یا حضرت کے معتقد ہوگئے، اب اکبر ان کو اپنا سمجھتا تھا، لیکن وہ اکبر کے نہیں تھے، ان میں ایک ان کا جو بڑا رئیس تھا، عبدالرحیم خان خاناں رحمۃ اللہ علیہ، وہ بھی تھے۔ تو بہرحال اس وقت بھی مقابلہ کیا سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اور مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے۔ جس وقت اکبر چلا گیا اس کے بعد جہانگیر جو تھا، اس کی باری نہیں تھی، خرم کی تھی، لیکن خرم میں اسلام کی طرف اتنی آمادگی نہیں تھی، وہ ذرا باپ کے نقشِ قدم پہ تھا، تو اکبر کے اُن درباریوں کی وجہ سے جہانگیر کو آگے لایا گیا، یہ پہلی کامیابی تھی، جہانگیر آگیا۔ اس کے بعد پھر جہانگیر کے کان لوگوں نے بھرنے شروع کیے، نتیجتاً حضرت کو انہوں نے قید کردیا، لیکن جب حضرت کو قید کرلیا تو مہابت خان کی مسجد کا آپ لوگوں کو پتا ہوگا پشاور میں، مسجد مہابت خان، یہ بہت بڑے جرنیل تھے جہانگیر کے لشکر میں، اس نے بغاوت کردی، کیوںکہ مرید تھے حضرت کے، بغاوت کردی۔ تو جتنے بھی جرنیل ان کی سرکوبی کے لئے جاتے ان کو گرفتار کرلیتے، اب بادشاہ ڈر گیا کہ یہ تو میرے لئے مصیبت پڑ گئی، ظاہر ہے یہ تو میری بادشاہت خطرہ میں ہوگئی، ان کے ساتھ کچھ روابط (رکھنا چاہے) خیر! وہ تیار نہیں ہوتے تھے تو پھر انہوں نے کہا کہ آپ حضرت سے بات کرلیں، حضرت ان کی قید میں تھے۔ حضرت نے مہابت خان کو خط لکھا کہ ہم حکومت نہیں کرنا چاہتے، حکومت یہ لوگ کریں لیکن شریعت کے مطابق کریں، آپ ان کو باعزت طریقہ سے رہا کریں جو آپ نے پکڑے ہیں، انہوں نے سب کو باعزت طریقہ سے رہا کیا، اس سے حضرت کی دھاک جہانگیر کے اوپر پڑ گئی، جہانگیر ان کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتا اور پھر حضرت کے ذریعہ سے دینی احکام جاری ہوتے رہے، حتیٰ کہ شاہ جہان کا دور آگیا، شاہ جہان باقاعدہ حضرت کا مرید ہوگیا اور اس کا بیٹا اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ ان کے بیٹے کا ما شاء اللہ بہت بڑا ساتھی بنا اور وہ تخت جس پر بیٹھ کر اکبر فقہاء کو سفہاء کہتا تھا، اس پر بیٹھ کر اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ساتھ علماء کرام کو بٹھایا اور فتاویٰ عالمگیری لکھوائی، اتنا فرق ہوا، چار پشتوں میں اتنا بڑا انقلاب آگیا۔ تو میں عرض کررہا ہوں ان دو بزرگوں کی برکت سے بہت فائدہ ہوا ہے مسلمانوں کو، ہندوستان اور پاکستان پر بڑا احسان ہے ان کا۔

میں عرض کررہا ہوں کہ کیونکہ اکبر کے اوپر، جو صحابہ کے مخالفین تھے، ان کا اثر تھا، ابو الفضل فیضی یا دوسرے حضرات جو تھے، ان لوگوں نے بہت کام خراب کیا تھا، اکبر کی ساکھ خراب کر دی تھی، اس وجہ سے حضرت ساری عمر صحابہ کے مخالفین کے خلاف لڑتے رہے۔ یعنی دیکھ لو اہل حق کی بات سنو، باوجود اس کے کہ صحابہ کرام کے مخالفین کے ساتھ لڑتے رہے، لیکن صاف صاف فرما دیا کہ علی کرم اللہ وجہہ کے ذریعہ سے جو باطنی نسبت کی تقسیم ہوتی ہے وہ چاہے غوث ہوں چاہے قطب ہوں چاہے اوتاد ہوں سب حضرت کے اور حضرت کے خاندان کے ذریعہ سے ہوتی ہے، جتنے بھی امام جیسے امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، امام باقر رحمۃ اللہ علیہ، امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اور امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ یہ سب امام جن کو دوسرے لوگ اپنا امام سمجھتے ہیں، وہ ہمارے امام ہیں، ان سب کا ذکر کرکے فرمایا: ان سے ہوتے ہوئے یہ سب چیزیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پہ منتج ہوگئیں اور ان کے ذریعہ سے پھر یہ تقسیم شروع ہوگئی۔ اب ذرا غور فرمایئے! ہم اہل سنت و الجماعت کے لئے کیا خوبصورت نقشہ ہے، ہم لوگ صحابہ کرام کے حق میں بھی ہیں، اہل بیت کے حق میں بھی ہیں، امھات المؤمنین کے حق میں بھی ہیں، ہم کسی کے مخالف نہیں ہیں، سب کے اونچے مقاموں کو مانتے ہیں اور ان کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ جو ان میں سے کسی کے بھی خلاف ہے ان کے ساتھ ہم نہیں ہیں، ہمارا کام اعتدال والا ہے، یہی اہل سنت و الجماعت کی پہچان ہے۔ بہرحال میں عرض کررہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو، کیونکہ میں آپ کو بہت عجیب بات سناؤں ایک عالم ہیں پنڈی میں رہتے ہیں، عاشورہ کے دن مجھے ٹیلی فون کیا شاہ صاحب! اس دن میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ 313 مرتبہ درود شریف پڑھ کے امام حسین رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کرو، یہ بات اس نے سن لی، میں سرگودھا جارہا تھا، راستے میں تھا۔ تو واپسی ہوگئی، اس سے میری ملاقات ہوئی، کہتے ہیں شاہ صاحب! کمال ہوگیا۔ میں نے کہا کیا ہوگیا؟ کہتے ہیں جیسے ہی میں نے ایصال ثواب کیا میرا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے سینہ کھل گیا اور جو مسئلہ تھا اس میں، وہ ختم ہوگیا، میں نے کہا کہ کیا مسئلہ تھا؟ کہتے ہیں ہم نے تو یزید زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ یہ پنڈی کی بات بتا رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میں یہ باتیں کررہا ہوں۔ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ ان چیزوں کو نہیں جانتے دیکھو بات سنو! وہی عالم جو تھا، جس سے میری بات ہوئی، اس کو اَلْحَمْدُ للہ clear تو ہوگیا اور ایک ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ شرح صدر، وہ ہوگیا اس کو، لیکن ایک ہوتا ہے علمی طور پہ اطمینان، یہ الگ بات ہے، تو میں نے اس سے کہا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں یا تابعی ہیں؟ کہتے ہیں صحابی ہیں۔ میں نے کہا یزید صحابی ہے یا تابعی ہے؟ کہتے ہیں تابعی ہے، میں نے کہا کہ تابعی اور صحابی کے درمیان اختلاف ہوجائے تو کس کا ساتھ دو گے؟ کہنے لگے صحابی کا۔ کہتے ہیں اوہو! میرا تو خیال ہی نہیں تھا اس کا۔ اتنی موٹی بات لوگوں کو پتا نہیں ہوتی اور بڑے عالم بنتے ہیں، بڑے فلاسفر بنتے ہیں، بھائی جو صحابی اور تابعی میں فرق نہیں کرسکتا وہ کون سا عالم ہے؟ ان چیزوں کو جاننا چاہئے، صحابی کا ایک مقام ہے۔ آپ ﷺ نے جو روکا ہے ناں کہ ان کے ہاتھ سے اگر کوئی قتل بھی ہوجائے پھر بھی ان کو کچھ نہ کہو۔ یہ کس کے بارے میں تابعی کے بارے میں کہا ہے؟ صحابی کے بارے میں کہا ہے۔ ’’بِاَیِّہِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ کس کے بارے میں فرمایا؟ صحابی کے بارے میں فرمایا ہے۔ تابعین کو اگر کچھ ملتا ہے صحابہ کے ذریعہ سے ملتا ہے، اگر کوئی تابعی صحابی کے خلاف ہوجائے تو اس کی تابعیت بھی ختم ہوگئی۔ بھئی مجھے بتاؤ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ہے کنعان، بیٹا ہے ناں؟ بیٹا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ انہوں نے اللہ پاک سے اس کے لئے دعا مانگی، اللہ پاک نے کیا جواب دیا؟ یہ تیری اہل نہیں ہے، اس کی اہلیت سے انکار کیا۔ اگر کوئی تابعی صحابی کے خلاف ہوجائے اس کی تابعیت بھی ختم ہوگئی، اس وجہ سے یزید کے بارے میں حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ جو شیخ الحدیث تھے بنوری ٹاؤن کے اور بہت بڑے شیخ الحدیث تھے، ان کی کتاب میرے پاس ہے، انہوں نے ساری گزشتہ کتابوں کے حوالے دے دے کر ایک بڑی عجیب بات فرمائی ہے، فرمایا بعض علماء کرام یزید کے بارے میں کہتے ہیں یزید لعنت اللہ علیہ، بعض لوگ اس کا برا مانتے ہیں۔ کہتے ہیں برا نہیں ماننا چاہئے، ٹھیک ہے نہ کہو، کیونکہ جو کہتے ہیں وہ کسی وجہ سے کہتے ہیں، کس وجہ سے کہتے ہیں؟ کیونکہ آپ ﷺ نے پانچ باتیں بتائی تھیں جن میں ہوں ان پہ اللہ کی لعنت، اللہ کے فرشتوں کی لعنت۔ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں؟ جس نے میرے خاندان کی حرمت کو خراب کیا، جس نے مدینہ منورہ کی حرمت کو خراب کیا، جس نے خانہ کعبہ کی حرمت کو خراب کیا، اور دو اور باتیں ہیں، یہ تینوں باتیں یزید میں نہیں تھیں؟ تینوں باتیں یزید میں نہیں تھیں۔ خاندان کی حرمت کو خراب کیا، ظاہر ہے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، یہ تو سب کو پتا ہے لیکن مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گے، ان کے ساتھ جو زنگی تھے۔ تین دن تک مدینہ مباح تھا۔ اور بہت خطرناک، ابھی بھی اگر آپ جنت البقیع چلے جائیں تو وہاں پر ایک چھوٹا سا مقبرہ ہے جو کہ ان شہیدوں کا ہے جو ان کے ہاتھ سے صحابہ اور صحابہ کی اولاد شہید ہوئی۔ اور خانہ کعبہ پر باقاعدہ گولہ باری کی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جو باتیں ہوئی ہیں، تین باتیں تو اس میں پائی گئیں۔ لہٰذا اس کو جو لوگ لعنت اللہ علیہ کہتے ہیں، کوئی نہ کہے تو زبردستی نہیں ہے، بعض حضرات سکوت فرماتے ہیں، ٹھیک ہے، لیکن جو سکوت بھی فرماتے ہیں وہ بھی بات یہی کرتے ہیں، کہتے ہیں بات ایسی ہے۔ ہم اس لئے سکوت کرتے ہیں کہ شیطان کے خلاف بھی بلاوجہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاہئے، وہ اس وجہ سے سکوت فرماتے ہیں، یہ نہیں کہ یزید کو حق پر سمجھتے ہیں۔ بہرحال حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سکوت فرماتے تھے، مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ لعنت اللہ علیہ کہتے تھے اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سکوت فرماتے تھے، لیکن سکوت فرمانے کے ساتھ ساتھ یہ بات فرماتے تھے کہ یہ اس وجہ سے ہے۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو ذرا خیال رکھنا پڑے گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی اور کی مخالفت میں اپنے آپ کو غرق نہ کریں اور یہ باتیں اب اس لئے بھی ضروری ہیں کہ اس وقت امت مسلمہ بہت انتشار میں ہے، بہت زیادہ انتشار میں ہے، سوشل میڈیا شیطان کا ایک بہت بڑا tool بن گیا ہے، اس کے ذریعہ سے شیطانی چیزیں design ہوکر باقاعدہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں اور عموماً جو ہمارے سادہ لوح لوگ ہیں، پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن ہیں سادہ لوح، جانتے نہیں ہیں، وہ جیسے کوئی clip آتا ہے یا کوئی forward چیز ہوجاتی ہے اس کو فوراً forward کردیتے ہیں دوسروں کو بغیر تحقیق کے۔ حالانکہ اس پر حدیث شریف موجود ہے اگر آپ کو کسی چیز کے بارے میں بتایا جائے، تو جب تک آپ نے اس کی تحقیق نہ کی ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے، اس کو دوسروں کو بتانا وہ جھوٹ میں آتا ہے، اس وقت سب سے زیادہ نقصان اس بات سے ہورہا ہے، لوگ جھوٹ کو سچ میں چھپا دیتے ہیں، اس طریقہ سے جھوٹ design کرلیتے ہیں جس کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے، علماء کرام سمجھ سکتے ہیں۔ مجھے خوب یاد ہے رائیونڈ میں ہمارے حضرت غلام مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوا کرتے تھے، وہاں پر حضرت ہدایات دیا کرتے تھے اور کارگزاریاں سنتے تھے، حضرت کا کام تھا، ایک دفعہ کارگزاری سن رہے تھے، اس میں یہ بات فرمائی: بھائیو بزرگو اور دوستو! اگر آپ لوگ کہیں سے کوئی بات سن لو کسی بیان میں، تو دوسری جگہ اس کو اس وقت تک بیان نہ کرنا جب تک کہ علاقہ کے علماء سے تحقیق نہ کروا لیا کرو کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ پھر مثال دی، مثال کیسے دی، انہوں نے اٹھایا ایک شخص کو، بھئی! گشت کے آداب سناؤ۔ کھڑا ہوگیا، گشت کے آداب بیان کرنے لگا، گشت کے آداب میں بیان کیا کہ گشت اتنا اونچا عمل ہے کہ اس کے پہلے قدم پہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ کہا رک جاؤ، کس سے سنا ہے؟ کس سے سنا ہے؟ اب یہ مشہور بات ہے یا نہیں ہے؟ بالکل میری آنکھوں کے سامنے بات ہوئی ہے، کس سے سنا ہے؟ فرمایا چپ! خدا کے بندے سارے گناہ تو توبہ سے معاف ہوتے ہیں، گشت سے بہت سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسے لیلۃ القدر میں بہت سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور اس طرح جیسے ابھی میں نے عرض کیا کہ عاشورہ کا روزہ رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں، یہ سب وہ گناہ ہیں جو گناہِ صغیرہ ہیں، کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں، موٹی بات ہے، اس کے لئے توبہ کرنا پڑتی ہے اور پھر فرمایا اگر کوئی قتل کرکے ہمارے ساتھ گشت کرلے اور وہ کہے میرا قتل معاف ہوگیا، پھر آپ کیا کرو گے؟ گویا کہ اس کی مثال دے دی کہ آپ نے کبھی بھی کسی کی بات سن کر بغیر تحقیق کے آگے نہیں پھیلانی، بہت اہم بات۔ آج کل اس بات کی بڑی ضرورت ہے، کیونکہ سوشل میڈیا اتنا زیادہ اہم ہوچکا ہے، ہر شخص کے پاس موبائل ہے اور موبائل پر تو یہ ہوتا ہی ہے اور ہر ایک کو دنیا جہاں سے خبریں ملتی ہیں اور یہ بھی شوق ہوتا ہے جذبۂ رونمائی کہ انسان اپنے آپ کو جو ظاہر کرتا ہے، تو اس وجہ سے آدمی کہتا ہے کہ میں بھی اچھی اچھی چیزیں send کردوں کہ میرا بھی نام ہوجائے گا۔ تو اس میں پھر غلط باتیں بھی شامل کرلیتے ہیں۔ کئی لوگوں کو میں نے بتایا ہے، انہوں نے غلط باتیں send کیں، میں نے کہا بھائی تحقیق کرلو کدھر ہے؟ پتا چلتا ہے کہ بھئی اس کی تو کوئی بنیاد ہی نہیں تھی، میں نے کہا آپ خود ہی تحقیق کرلیں جس سے بھی پوچھنا ہو پوچھ لیں۔ اس وقت بہت ضروری ہے دجل اور فریب کا توڑ صرف تحقیق ہے، دجل و فریب، دجال جو آئے گا اس کے پاس یہی tool ہوگا، دجال جو ہے وہ دجل و فریب کا ماہر ہوگا۔ اور اِس وقت میرے خیال میں نام لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میرے خیال میں دجل و فریب کھل کے سامنے آگیا ہے، کھل کے سامنے آگیا ہے۔ ایسی بات جو بالکل کھلے آنکھوں سے جھوٹ ہوگی اور آپ کو اس طرح بتائیں گے آپ کو اس پہ یقین آجائے گا، بالکل اِس وقت یہی صورتحال ہے۔ تو یہ دجال جو ہوگا یہ ان کا سب سے بڑا ہوگا، ان کے پاس میڈیا بھی ہوگا، ان کے پاس عورتیں ہوں گی، ان کے پاس کھانے ہوں گے، ان کے پاس اچھے لباس ہوں گے، ان کے پاس کیا کیا نہیں ہوگا، ان کے پاس آپ کا control بھی ہوگا۔ یاد رکھئے! یہ بجلی کی تار جو ہوتی ہے high voltage والی، اگر ایک خاص distance اس پہ اگر آپ اس کے پاس گئے، تو پھر آپ نہیں جاسکتے، وہ کھینچ لے گی۔ پھر آپ چاہیں بھی تو نہیں جا سکتے، بس اس سے پہلے پہلے واپس ہوجاؤ تو واپس جا سکتے ہو۔ تو یہی بات ہے کہ یہ جو دجال ہوگا ایک خاص zone میں کوئی آگیا تو پھر وہ بچ نہیں سکے گا، اس وجہ سے دجال کے مقابلے کے لئے نہیں فرمایا، دجال سے بھاگنے کا (حکم) ہے۔ جس وقت ہم پڑھ رہے تھے یہ Nuclear Engineering ہمارے teacher تھے reactor analysis ہمیں پڑھاتے تھے اس نے سوال کیا students سے کہ بھئی اگر hundred curie کا source ہے تو آپ کیا کریں گے؟ radiation۔ تو ہم نے اپنے اپنے طور پہ بتا دیا shielding کرلیں گے یہ کرلیں گے وہ کرلیں گے، جیسے ہم نے پڑھا تھا۔ وہ مسکرا رہے تھے، جس وقت ہم خاموش ہوئے کہتے ہیں:

gentleman you will run away from there آپ اس سے دوڑیں گے shielding wielding وہاں کام نہیں آتی، جتنی دیر میں آپ shielding کریں گے اس میں آپ کا کام ہوچکا ہوگا۔ دجال کی بھی یہی صورتحال کہ دجال کے ساتھ مقابلہ کا نہیں فرمایا، بھاگنا ہے دور ہوجانا ہے دور ہوجانا ہے، اور اس سے پہلے اپنے لئے صادقین کی محفل کا بندوبست کرنا ہوگا: ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)

ترجمہ: ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔

اس وقت صادقین کا ٹولہ جو ہوگا وہ بالکل clear ہوچکا ہوگا، یعنی اس وقت دجال بھی بالکل clear ہوگا ماتھے پہ کافر لکھا ہوگا، اس کے باوجود بھی لوگ اس کی طرف جائیں گے اور امام مھدی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے وہ بھی بالکل clear ہوں گے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب ان کا ظہور ہوجائے، تو بے شک اگر برف کی سلوں پر پھسل کر بھی آپ جاسکتے ہو تو وہاں جا کر ان کے ساتھ ملنا ضرور اور ان کے ہاتھ پہ بیعت کرلینا یعنی اتنا اہم کام ہوگا۔ جیسے صحابہ کرام کے دور میں ہجرت ضروری تھی، ہجرت نہیں کی تو ان کا معاملہ قرآن پاک میں ظاہر ہے ان کے بارے میں آتا ہے۔ اس طریقہ سے امام مہدی علیہ السلام کے وقت پھر ان کے پاس جانا ضروری ہوگا ان کی بچت اسی میں ہوگی۔ اس لحاظ سے چونکہ وہ بھی اہل بیت میں سے ہوں گے حسنی حسینی سید ہوں گے، مجھے بتاؤ اگر کسی کو بغض ہوگا سادات کے ساتھ یا اہلِ بیت کے ساتھ، ان کے پاس جائے گا؟ ان کے لئے تو بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا، اس لحاظ سے یہ چیزیں بالکل بھی clear کرنی چاہئیں، ہمیں clear کرنی چاہئیں، ہمیں کبھی بھی ان تینوں گروہوں میں سے کسی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا، تین گروہوں: صحابہ کرام کے ساتھ، اہل بیعت کے ساتھ، امھات المؤمنین کے ساتھ، بہت اہم بات میں عرض کررہا تھا کہ اس وقت میں جو دجل و فریب چل رہا ہے، اس کا توڑ کیا ہے؟ ایک اس کا علمی توڑ ہے وہ علماء کررہے ہیں اور کریں گے بھی ان شاء اللہ، اُس وقت ایسے علماء پیدا ہوجائیں گے ان شاء اللہ جن کا project ہی یہی ہوگا، لیکن ایک اس کا روحانیت توڑ ہے، علم یہاں کام کرتا ہے اور روحانیت یہاں کام کرتی ہے اور جب دل و دماغ آپس میں مل جاتے ہیں تو پھر کام ہوجاتا ہے، صرف دماغ کافی نہیں ہوتا، صرف دماغ کافی نہیں ہوتا۔ بہت ساری باتیں ہم جانتے ہیں جیسے شوگر کا مریض ہے کیا اس کو پتا نہیں ہوتا کہ (شوگر کے لئے) میٹھا کھانا نقصان دہ ہے؟ اچھی طرح پتا ہوتا ہے اور عمر بھی ان کی ما شاء اللہ ایسی ہوتی ہے جو سمجھداری کی عمر ہوتی ہے، باقی لوگوں کو عقل سکھانے والی ہوتی ہے، لیکن جب میٹھا سامنے آجاتا ہے تو ساری چیزیں آگے پیچھے ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ تو کام کررہا ہے دل نہیں کررہا۔ اس وجہ سے جب دل و دماغ اکھٹے ہو کر ایک چیز پہ متفق ہوجائیں، پھر کام بن جاتا ہے۔ اور نفس پر قابو ہوجائے اور روحانیت، اب روحانیت کے لئے میں آپ سے عرض کروں کیا کرنا چاہئے۔ اس کو آپ اچھی طرح نوٹ کرلیں اور آگے بھی اس کو پھیلائیں، یہ ضروری ہے۔

ایک درود شریف کی کثرت۔ ما شاء اللہ آپ حضرات جانتے ہیں قرآن پاک میں ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر درود پڑھتے ہیں اے ایمان والو! ان پر درود و سلام پڑھتے رہا کرو‘‘۔

’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ، وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ‘‘۔

درود پاک کے بارے میں اللہ نے جس انداز میں حکم دیا ہے کسی اور چیز کے بارے میں ایسا حکم نہیں دیا، اللہ بھی کررہا ہے فرشتے بھی کررہے ہیں۔ یہ کوئی بہت ہی special بات ہے صرف معمولی بات نہیں ہے۔

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ﴾ (الأحزاب: 56)

اچھا اب درود پاک میں ہوتا کیا ہے؟ وہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے: دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ کم سے کم ہے۔ رحمت کس چیز کو کہتے ہیں؟ یہ اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ ہے اس کے ذریعہ سے اللہ کے قریب ہوتا ہے آدمی۔ لعنت کس چیز کو کہتے ہیں؟ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے آدمی، تو جو رحمت کا سلسلہ ہے اس کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے تاکہ اللہ پاک کی رحمت ہم پر آئے، روحانیت ہمارے دلوں میں آجائے، اللہ کا قرب ہمیں نصیب ہوجائے اور پھر سبحان اللہ! ہمارا کام بن جائے۔ ایک تو یہ بات۔ دوسرا یہ کہ جو گناہ ہم سے ہوئے ہیں اللہ ہمیں معاف کردے، استغفار کی کثرت، استغفار کی کثرت، بہت زیادہ استغفار کرنا، اس وقت استغفار بہت ضروری ہے، ہمارے گناہ بہت زیادہ ہیں، ان گناہوں سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم بہت زیادہ کثرت سے استغفار کرلیں اور جب ہم بہت زیادہ استغفار کریں گے نیت کے ساتھ، ندامت کے ساتھ، توجہ کے ساتھ تو ان شاء اللہ! اللہ پاک ہمیں شیطان کے شر سے بچا دیں گے۔ اور کہتے ہیں استغفار سب سے بڑی علمقندی ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اللہ پاک کی دوری سے بچ جاتا ہے جو گناہ ہوچکے ہوں وہ اللہ پاک معاف فرما دیتے ہیں۔ تو بہرحال یہ دو کام ضرور کرنے چاہئیں۔ وہ کیا ہیں؟ درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور استغفار کثرت کر ساتھ کریں اور تیسرا ایک کام یہ ہے: ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) جہاں بھی جاؤ تو صادقین کے ساتھ رہو، جہاں بھی رہو تو اچھے لوگوں کے ساتھ رہو، دیکھو ہم سورۃ فاتحہ میں مانگتے ہیں:

﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7)

اللہ پاک نے ہماری زبان سے کون سی دعا نکلوائی؟ اے اللہ سیدھے راستے کی ہدایت فرما دے راستہ ان لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوچکا ہے ان لوگوں کا رستہ نہیں جن پر تیرا غصہ ہے اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہوچکے ہیں۔

اب دیکھیں! انعام کن پہ ہوتا ہے؟ وہ قرآن پاک بتاتا ہے وہ انبیاء ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں اور صالحین ہیں۔ انبیاء کرام اس دنیا سے تشریف لے گئے، صادقین بہت تھوڑے ہوتے ہیں، شہداء اس دنیا سے چلے جا چکے ہوتے ہیں جس وقت شہید ہوجاتے ہیں، باقی رہ گئے صالحین! اس لئے صالحین، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں فتویٰ دیتا ہوں، (میرے پاس لکھا ہوا ہے) اس وقت صحبتِ صالحین فرضِ عین ہے، کیونکہ اس کے بغیر ایمان بھی نہیں بچتا اس وجہ سے صحبت صالحین کا اہتمام کرنا چاہئے، جہاں بھی جاؤ، کراچی جاؤ وہاں تلاش کرو، لاہور جاؤ وہاں تلاش کرو، امریکہ جاؤ وہاں تلاش کرو اور یاد رکھو! اللہ پاک کا معاملہ ایسا ہے:

’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ‘‘ (صحیح بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

تو جس کا گمان اللہ کے ساتھ یہ ہو کہ مجھے اللہ پاک نصیب فرمائیں گے، اس کو امریکہ میں بھی دیں گے، اس کو ماسکو میں بھی دیں گے، میرا کم از کم اَلْحَمْدُ للہ (تجربہ کا لفظ ذرا کہنا گستاخی ہے لیکن) میں نے دیکھا ہے اللہ پاک مدد فرماتے ہیں، اللہ مدد فرماتے ہیں۔ آپ کو پہنچا دیں گے وہاں پر، بے شک بہترین لوگوں کے پاس پہنچا دیں گے آپ نیت تو کریں ناں۔ جہاں بھی جائیں صادقین کے ساتھ ہونے کی نیت کرلیں، درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھیں، استغفار کثرت کے ساتھ کریں اور میں نے عقیدے کے لحاظ سے جو باتیں عرض کیں، ان کو یاد رکھیں۔

اللہ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور آپ کو بھی۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

عاشورہ کی حقیقت، اہلِ حق کا منہج، اور دور فتن کا علاج - جمعہ بیان