سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 579

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں وقت میں آپ سے بیعت ہوئی تھی، معمولات کا بتانے کے لئے آپ سے رابطہ کیا ہے، میں نے صرف ایک دفعہ رابطہ کیا ہے بس۔ موجودہ سبق سو مرتبہ استغفار، سو مرتبہ درود پاک، سو مرتبہ تیسرا کلمہ، لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح دس منٹ ہے۔ کیفیت: اَلْحَمْدُ للہ! ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ میں کبھی کبھی ناغہ ہوتا ہے اور معمولات کا چارٹ نہیں بھرتی، کیونکہ مجھے چارٹ کے بارے میں علم نہیں تھا، اب اس مہینے کا بھروں گی ان شاء اللہ۔

جواب:

رابطہ کمزور ہے، اس لئے اپنا رابطہ بڑھایئے اور ہر مہینے رابطہ کر لیا کریں اور معمولات کا چارٹ بھی رابطہ کا ایک اچھا ذریعہ ہے، اس لئے معمولات کا چارٹ بھر لیا کریں۔

سوال نمبر 2:

Regarding which you told me to find out my weaknesses, I think that I still have no concentration in my prayers and secondly, I know that this دنیا is not important but I still cannot avoid it. This is my main weakness جزاک اللہ

Sheikh, I feel very poor. I need more and more closeness with Allah and your kindness. Please guide me. جزاک اللہ

Sheikh, I really hope to meet you again. Please do dua for me. Ameen! جزاک اللہ خیراً

جواب:

So I think you should continue. As far as your weaknesses are concerned, just after doing ذکر concentrate on this and see what illnesses and weaknesses are coming in your mind about yourself. this will help you ان شاء اللہ to find out and this is very important. Actually, everything is done for this (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10﴿ so اللہ سبحانہ و تعالیٰ says that a person who cleans his نفس is a successful person and those who can’t do it and don’t do it, so, they are not successful. Therefore, to be successful in the life hereafter, we should do it. It’s very necessary and for this, ذکر is done. When we do ذکر, our hearts become clean. When the heart is clean, it is lightened and when it is lightened then we see the bad things which are here in ourselves. Therefore, concentrate on this thing. It is very important.

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت صاحب! مجھے مندرجہ ذیل ذکر کرتے ہوئے تیس دن ہوگئے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے، برائے مہربانی آگے ارشاد فرما دیں۔

جواب:

اب آپ باقی تو وہی کرلیں جو کررہے ہیں، لیکن ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ کرلیں اور یہ ایک مہینے کے لئے ہے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 4:

Monthly اذکار update and احوال:

السلام علیکم my dear and respected مرشد. I hope you are well. یا سیدی دامت برکاتھم all اذکار completed for this month without any ناغہ اَلْحَمْدُ للہ

ذکر ترتیب is like this: two, four, six and thirty five hundred. بنوریہ لطائف and ten minutes on لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی and لطیفۂ اخفیٰ. I am able to sense ‘‘اَللہ اَللہ’’ from all sensing points. I can also feel myself gently rocking backwards and forwards during مراقبہ fifteen minutes مراقبہ تنزیہ و صفات سلبیہ on لطیفۂ خفی.

مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ کے دوران کبھی کوئی وزنی چیز دل اور سینے پر آرہی ہوتی ہے اور کبھی پسینہ بھی آنے لگ جاتا ہے۔ پچھلے سارے مراقبات کرنے کے بعد غفلت میں جانا بہت کم ہوگیا تھا، لیکن اس مراقبہ کے بعد غفلت میں چلا جانا تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ ایک دو بار مراقبہ کے دوران میں اپنا وجود گویا کہ بھول گیا تھا اور مجھے صرف اپنا لطیفۂ خفی محسوس ہو رہا ہے۔ سیدی Please advise further۔

جواب:

ابھی آپ ان شاء اللہ! اس طرح کرلیں کہ ذکر تو یہی کریں اور لطائف بھی یہی کریں۔ البتہ مراقبہ تنزیہ کی جگہ اب مراقبہ شانِ جامع کرلیں یعنی یوں سمجھ لیں کہ چاروں لطائف (جو گزرے ہیں، ان) کا جو فیض ہے، وہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پہ آرہا ہے، بس اب یہ کرلیں، باقی چیزیں وہی ہوں گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ شیخ محترم! میرا مراقبۂ معیتِ الہٰی اللہ کے کرم سے مکمل ہو چکا ہے، مجھے اللہ کا ساتھ ایسے محسوس ہوا کہ ہمیشہ نادانی میں اور ہر حال میں دنیاوی آلودگی سے اللہ نے مجھے کب اور کیسے بچا کر رکھا ہے؟ شیخ محترم! اس دوران میں ایسے حالات سے گزری ہوں کہ انسان کو دنیاوی لحاظ سے مکمل طور پر انکار ہوجاتا ہے کہ اس مشکل سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ اس مشکل کے پہلے دن میرے سامنے یہ آیت گزری کہ کہہ دو میرے بندوں کو جن کو حالات ناممکن لگ رہے ہیں کہ میں ہر شے پر قدرت رکھتا ہوں۔ شیخ محترم! ایسا لگا کہ یہ آیت اس وقت میرے لئے تھی، پھر دنیا کا دروازہ جب بند ملا تو میں نے آیت کریمہ پڑھنا جاری رکھی، اس کے ذریعے اللہ نے ہماری مدد معجزانہ طور پر فرمائی۔ رب کے ساتھ بہت clearly قرب محسوس ہوا ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ اس دوران ہم نے یہی سیکھا کہ کچھ بھی ہوجائے، مگر رب پر صبر کے ساتھ پختہ عقیدہ رکھنا چاہئے اور مزید یہ کہ میری کوشش بھی یہ ہو کہ میں دوسروں کو مثالیں دے کر رب کی طرف لانے کی کوشش کروں، اس کی بڑائی بیان کروں کہ یہ دیکھیں! اللہ ایسے مدد فرماتے ہیں۔ شیخ محترم! اگلے مراقبہ کے لئے رہنمائی کیجئے۔

جواب:

ماشاء اللہ! مراقبۂ معیت جو آپ کو حاصل ہوا ہے اَلْحَمْدُ للہ، اس مراقبۂ معیت کو موجود رکھتے ہوئے، اس میں ہی اللہ تعالیٰ سے مانگنا شروع کرلیں یعنی پندرہ منٹ کا جو مراقبۂ معیت ہے، اس میں دل سے اللہ پاک سے مانگنا ہے، نہ کہ زبان سے۔ بس یہی شروع کرلیں اور جو بھی مانگنا ہے، وہ مانگیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ سوال یہ ہے کہ آج کل بچوں کے پاس موبائل کے لئے وقت ہی وقت ہے، لیکن منزل پڑھنے کی طرف نہیں آتے، اس صورت میں ماں ہونے کے لحاظ سے ’’منزل جدید‘‘ پڑھ کر اپنے اہل و عیال کا حصار کرنا چاہیں تو کیا منزل جہاں مکمل ہوتی ہے، وہاں تک پڑھ کر حصار کریں یا آخر تک حصار میں سب کو شامل کیا جائے؟

جواب:

ان کے لئے دعا کر لیا کریں، کیونکہ ’’منزل جدید‘‘ خود پڑھنے کی چیز ہے، ہر کسی کو اپنی اپنی پڑھنی چاہئے، اس لئے بس آپ ان کے لئے دعا کرسکتی ہیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا ذکر ساڑھے چار ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کا ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب پانچ ہزار مرتبہ شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت جی! کچھ دن پہلے ہی بے احتیاطی ہوگئی ہے کہ میرا غیر محرم سے اختلاط ہوگیا تو نظروں کی حفاظت میں نہیں کر سکا، تب سے دل پر بہت اثر ہوگیا ہے، تلاوت اور ذکر نہیں ہو پا رہا اور نماز کے لئے مسجد جانے کو بھی دل نہیں کرتا، جبکہ آپ کی تعلیم سے یہ بات جانتا ہوں کہ ہمت کرنی ہے۔

جواب:

یقیناً ہمت بھی کرنی ہے، لیکن یہ بات یاد رکھئے کہ جو نظروں کی حفاظت نہیں کرتا، تو وہ گویا کہ اپنی محنت کو خود ہی تباہ کرتا ہے۔ ایک بات اور یاد رکھئے کہ نظریں جو ہیں، یہ دل کا دروازہ ہے یعنی کان، زبان اور نظر دل کے دروازے ہیں، دل ان کے ذریعہ سے سنتا ہے، ان کے ذریعہ سے بولتا ہے اور ان کے ذریعے سے دیکھتا بھی ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو پھر یہی بات ہے کہ جو اس کا مارا ہوتا ہے، وہ گنوا رہا ہوتا ہے۔ اور اب آپ کو خود ہی اس کا تجربہ ہوگیا ہے کہ ایسا ہوجاتا ہے، اس لئے ایسی صورت میں آئندہ کے لئے اس تجربہ سے فائدہ اٹھائیں اور ایک تو دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیں کہ اللہ پاک آپ کو معاف کرلے اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ لیں کہ اب اللہ پاک آپ کو اس پر استقامت نصیب فرمائے اور جو نظروں کا مجاہدہ ہے، اس کو شروع کرلیں، تاکہ اس پر استقامت نصیب ہوجائے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I pray you are well beloved Sheikh. This is فلاں from the UK. I have just completed my first مراقبہ for over a month in which I was to sit facing the قبلہ, my eyes closed imagining that Allah is looking at my heart with love and my heart is saying Allah Allah for ten minutes. I regret to inform you that I missed two days in total. It feels as though I have felt very little at all in مراقبہ. Most days, in fact, I don’t think I feel it at all. On some days, I do feel it, and experience a certain sensation in my heart. I struggle a lot to focus on Allah during it and keep forcing my mind and heart back. May اللہ تعالیٰ forgive me!

جواب:

ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ آپ اس مراقبہ کو جاری رکھیں، کیونکہ یہ اتنا جلدی نہیں حاصل ہوتا، کسی کو کتنی دیر میں تو کسی کو کتنی دیر میں ہوتا ہے اور یہ depend کرتا ہے طلب کے اوپر اور ہمت کے اوپر، آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، ان شاء اللہ! یہ continue ہوجائے گا، لیکن جب تک نہ ہو، تو اس وقت ہمت نہ ہاریں، باقاعدہ اس کوشش کو جاری رکھیں اور ناغہ بالکل نہ کریں، کیونکہ ناغہ سے بہت نقصان ہوتا ہے، اس لئے ناغے سے بچنے کی کوشش کرلیں۔

سوال نمبر 10:

In this month, there have been three main changes in my life.

No. 1: I have started doing وضو which I struggled with at the start but now, I have started to get used to it and trying to follow the sunnah. I have attached the photo of it below my message.

No. 2: I have also made the habit of always praying تحیۃ الوضو after doing وضو.

No. 03: I also started a simple English تفسیر course two weeks ago on the instruction of my dad. Unfortunately the turn out of the general public is not very high with only a handful of people coming. Kindly request your advice and duas. I have a great desire to pray تہجد but as our فجر starts at 1:33 am, I found that I stay until فجر. I get a headache in the morning and my sleep feels incomplete no matter how much I sleep. Kindly advise next.

I also have two questions dear Sheikh. How should we read ‘‘منزل جدید’’ in our house? Our mother read some other وظائف such as سورۃ بقرہ and then blows on water. How should she recite ‘‘منزل جدید’’? Also, should every single بالغ family member read‘‘منزل جدید’’ for himself or is it sufficient for the elders to read? Is writing a personal dairy beneficial for the سالک? Kindly remember me in your duas.

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے جو مُد کے برابر پانی سے وضو شروع کیا ہے، یہ بہت اچھا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت نصیب فرمائے اور سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اور تحیۃ الوضو کی عادت بھی بہت اچھی ہے، ماشاء اللہ! یہ صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔ اور ماشاء اللہ! جو تفسیر کا کورس ہے، بے شک ایک آدمی بھی بیٹھے، آپ فکر نہ کریں، کیونکہ مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے۔ اور تہجد والی جو بات ہے، تو اگر آپ تہجد اس وجہ سے نہیں پڑھ سکتے کہ آپ کے سر میں درد ہوتا ہے، تو پھر یوں کریں کہ عشاء کی نماز کے بعد وتر اور سنتوں کے درمیان چار رکعت اس نیت سے پڑھ لیا کریں، تو کسی نہ کسی حد تک compensation ہوجائے گی۔ اور جو ’’منزل جدید‘‘‘ ہے، یہ ہر ایک کو خود اپنی اپنی پڑھنی ہوتی ہے، اس لئے ہر ایک خود پڑھ لیا کرے، باقی جو آپ کی والدہ ہے، تو میرے خیال میں ان کا اگر ٹیسٹ ہوگیا اور ان کو کوئی سحر وغیرہ نہیں ہے، تو پھر ان کو سورۃ بقرہ روزانہ تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اب ثواب کے لئے بے شک پڑھ لیا کریں، مگر بطور عمل نہ پڑھیں۔ اور یہ ’’منزل جدید‘‘ ان شاء اللہ! اس وقت کافی ہوجائے گی، البتہ اگر کوئی سحر وغیرہ پہلے سے موجود ہے، تو پھر جس عامل کے ساتھ رابطہ ہوگا، اس کے مشورہ پہ عمل کریں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ شاہ صاحب! آپ نے مجھے ذکر دیا تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ کا قلب پر مراقبہ دیا تھا کہ قلب ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، لیکن اس مہینے مجھ سے قضا بھی ہوا ہے، کیونکہ میں ہاسٹل میں تھا اور وہاں خالی ٹائم اکثر نہیں ملتا تھا، کیونکہ وہاں کمرے میں اور ساتھی بھی ہوتے تھے اور پھر یہاں پر زیادہ تر لوگ اس سے ناواقف ہیں، بہت سے لوگ اس کو بدعت بھی کہتے ہیں، جن سے پھر میں بحث بھی کرتا ہوں۔ تو کیا میں ذکر خفی کرلوں یا ایسے جہر کے ساتھ کرتا رہوں؟ اور ان لوگوں سے کیا کہوں اور ہاسٹل کے کمرے میں ایسا نہیں ہوسکتا، تو وہاں میں کیا کروں؟ نیز آپ اگلے ذکر کی رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اگر مسجد وغیرہ کا انتظام ہوسکتا ہو تو کسی کونے میں بیٹھ کے خفی آواز کے ساتھ کر لیا کریں۔ خفی آواز سے مراد یہ ہے کہ اتنی آواز کے ساتھ کر لیا کریں کہ آپ اس کو خود سنیں، میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہے۔ باقی کال کرنے کا جو وقت ہے، وہ دو بجے سے لے کر تین بجے تک ہے روزانہ، سوائے جمعہ کے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔ حضرت! میرے ذکر کرنے کو تقریباً دو مہینے ہو چکے ہیں۔ میرا ذکر یہ ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘، دو سو مرتبہ ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘۔ ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کے ذکر میں یکسوئی زیادہ رہتی ہے، اس کے علاوہ پانچ منٹ کا مراقبہ ہر لطیفہ پر اور ہر نماز سے پہلے پانچ منٹ محسوس کرنا کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ مراقبہ چالیس دن باقاعدگی سے ہوا اور سفر کی وجہ سے کچھ خلل آگیا، تقریباً دو سے تین نمازوں میں ہوتا ہے اور اس سے ہر نماز میں بہتری بھی ہے، لیکن جو یکسوئی ہوتی ہے ویسی نہیں ہے، رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

آپ اس طرح کرلیں کہ ابھی دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ اور چار سو مرتبہ ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کرلیں اور باقی اسی طریقے سے کرلیں۔ ان شاء اللہ العزیز! مزید اس کو آگے بڑھائیں گے، ابھی کیونکہ آپ کو ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اس لئے اس کو ان شاء اللہ! زیادہ بڑھائیں گے اور ان شاء اللہ پھر آپ مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ حضرت جی! میرے ذکر کی ترتیب کچھ یوں ہے: دو سو، چار سو، چھ سو، پانچ سو اور دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ خفی پر مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ ہے۔ احوال: حضرت جی! جون کے آخر اور جولائی میں ذکر اور مراقبات پورے نہیں کرسکتا تھا کام زیادہ ہونے کی وجہ سے۔ میں ذکر شروع تو کرتا، لیکن مکمل نہیں کرسکتا تھا، کبھی آنکھ لگ جاتی، کبھی بہت تھک جاتا تھا اور جائے نماز پر ہی سو جاتا تھا۔ حضرت جی! دادی بہت بیمار ہیں، میں ان کو اکثر کلمہ کی تلقین کرتا رہتا ہوں اور وہ اَلْحَمْدُ للہ! پڑھتی بھی رہتی ہیں، لیکن کبھی کبھار وہ پڑھتی ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ یَا رَّسُوْلَ اللہ‘‘ میں کہتا ہوں کہ آپ پڑھیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ مگر وہ پڑھتے پڑھتے پھر کہتی ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ یَا رَّسُوْلَ اللہ‘‘، میرے دل میں آتا ہے کہ وہ ایسا نہ پڑھیں۔ حضرت! پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ آپ ذکر کروا رہے ہوتے ہیں اور ہم ذکر کررہے ہوتے ہیں کہ آپ اچانک ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ یَا رَّسُوْلَ اللہ‘‘ کرواتے ہیں، میں چونک پڑتا ہوں، آپ کے پاس میری دادی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت جی! ایک اور خواب میں دیکھتا ہوں کہ مجھے ایک بندہ چابی دیتا ہے اور میں دروازہ کھولتا ہوں جس کی پرانے زمانے والی کنڈی ہوتی ہے، اندر ایک قبر ہوتی ہے، جس کے اردگرد ایک اینٹ کی چاردیواری ہوتی ہے اور قبر پر ہلکی ہلکی گھاس ہوتی ہے، میں بہت ادب سے کھڑا ہوتا ہوں اور درود شریف پڑھتا ہوں اور دل میں خیال آتا ہے کہ درود ابراہیمی کی بہت فضیلت ہے، پھر درود شریف پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔

جواب:

دراصل آپ کی دادی کی چونکہ زبان پہ یہ چڑھا ہوا ہے، اس وجہ سے وہ قصداً نہیں کہتی، لیکن زبان سے ویسے ہی نکل جاتا ہے، مگر بہرحال آپ اس کو remind کرتے رہیں، یہ اچھی بات ہے، کیونکہ اگر خود اس میں اس کا نقصان نہ ہو، لیکن باقی لوگوں کا نقصان ہوسکتا ہے، اس وجہ سے ان کو بتایا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ حضرت! پچھلے چند ہفتے سے اصلاحی ذکر میں کیفیات بہت مختلف تھیں، ابھی یہ حالت ہے کہ ذکر کرتے وقت سانس چڑھ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر ہمت نہ کروں تو میں منفی سوچوں کے نیچے دب جاؤں گا، بدن کے جوڑوں میں درد بھی ہوتا ہے، کوشش کرتا ہوں اس سے نکلنے کی، لیکن تھکاوٹ ہوجاتی ہے، ساتھ ہی معدے کے بیماری بھی ہے، ڈاکٹر نے پوچھا تھا کہ سانس تو نہیں چڑھتا (شاید اسی کا اثر ہوگا) اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کے ذکر میں باقی ذکر کے مقابلہ میں آسانی ہوتی ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، بیماری کے علاج تک صرف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کریں اور آپ جتنا ذکر کرتے ہیں، ان سارے اذکار کی جتنی تعداد ہے، اتنی تعداد میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کر لیا کریں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ مراقبہ کرتے وقت محسوس نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے کہ یوں ہی بیٹھی ہوئی ہوں، کبھی کبھی دل سخت تنگ ہوجاتا ہے، مشکل سے مراقبہ پورا کرتی ہوں، لیکن مراقبہ سے بہت اثر ہے کہ حق گوئی کی قوت بڑھ گئی ہے، پہلے حق بات کرتے ہوئے کسی کی ملامت سے ڈرتی تھی، مگر اب نہیں ڈرتی، اس کے علاوہ اپنی نظر میں اپنی حقارت بھی بڑھ گئی ہے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا یقین پختہ ہوگیا ہے اور جب نماز پڑھتی ہوں تو دنیا سے بالکل کٹ جاتی ہوں، یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے خانہ کعبہ کے سامنے سجدے میں پڑی ہوں، اللہ تعالیٰ میری نماز سن رہا ہے، جس کی وجہ سے نماز میں خوب لطف ملتا ہے، نماز ختم کرلوں تو وہ لطف محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ فی الحال اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے، دونوں کو کبھی محسوس کرتا ہوں، کبھی محسوس نہیں کرتا۔

جواب:

لطیفۂ قلب کو پندرہ منٹ کریں۔

نمبر 4: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے۔ دل میں صفائی بڑھ گئی ہے اور تکلیف دہ باتوں کو برداشت کرنا آگیا ہے، پہلے سخت باتوں پر جتنی تکلیف ہوتی تھی اب اتنی نہیں ہوتی، بلکہ بالکل آسانی سے سہہ لیتی ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، اس کو فی الحال مزید جاری رکھیں۔

نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے۔ اس بات پر یقین پختہ ہوگیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔

جواب:

اب آپ مراقبہ تجلیات افعالیہ کی جگہ مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ کریں۔

نمبر 6: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا، دو ماہ کر لیا ہے، پچھلی دفعہ مراقبہ کا مفہوم سمجھایا تھا، مگر اب سمجھنے کے باوجود بھی کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 7: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 8: ان دو طالبات نے چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ پورا کر لیا تھا، پھر آپ کی طرف سے ان کو درود شریف پڑھنے کا حکم ہوا تھا، تو اب تک دونوں درود شریف پڑھتی ہیں، لیکن اب یہ بچیاں بڑی ہوگئی ہیں۔

جواب:

ابھی ماشاء اللہ! ان کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ بتا دیں۔

نمبر 9: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت قرآن پندرہ منٹ ہے۔ قرآن کے بارے میں یقین پختہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، قرآن مجید کے ساتھ محبت بڑھ گئی، قرآن مجید کی آیت میں تدبر کرنا نصیب ہوگیا ہے۔ جواب:

ماشاء اللہ! اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 10: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ حقیقت کعبہ کی حقیقت مجھ پر واضح ہوئی ہے کہ اس کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعظیم کی وجہ سے ہے، اس کے علاوہ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس مراقبہ کو ابھی جاری رکھیں۔

نمبر 11: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ کعبہ کی عظمت دل میں بڑھ گئی ہے، نماز میں کبھی محسوس ہوتا ہے کہ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہی ہوں اور کعبہ پر پڑنے والی تجلیات مجھ پر بھی پڑ رہی ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 12: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ ہے، محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر پہ دس دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ کریں۔

نمبر 13: ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا ہوگیا ہے۔

جواب:

اب اس کو پہلا سبق دے دیں کہ یعنی قلب والا ذکر دس منٹ کے لئے بتا دیں۔

نمبر 14: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے، کچھ محسوس نہیں ہوتا، ابھی فی الحال اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 15: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ احسان کے ساتھ صبح و شام دو دو رکعت نماز پڑھنا ہے۔ ہر نماز کو بہت توجہ کے ساتھ ادا کرتی ہوں، دوسروں کو نماز کی ترغیب دیتی ہوں، دنیا میں جو کچھ بھی تکلیف آئے تو یہی سوچتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہیں اور وہ مجھے دیکھتا ہے، تو میں تکلیف پر واویلا کیوں مچاؤں؟ جب خوشی آئے تو حد سے نہیں گزرتی کہ کہیں مجھ سے کوئی گناہ نہ ہوجائے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! ایک سوال ہے کہ اکثر بزرگانِ دین کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ فلاں نے دعائے حادثات نہیں پڑھی ہوگی، جس لئے accident ہوا۔ میرا بھی accident ہوا ہے، لیکن میں نے سفر کی دعا، دعائے حادثات اور آیت الکرسی پڑھی تھی، اَلْحَمْدُ للہ! fracture کوئی نہیں ہوا، نہ ہی جانی نقصان ہوا، لیکن چوٹیں لگی ہیں۔ کیا دعاؤں کے اثر کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یا میرے پڑھنے کے یقین میں مسئلہ ہے؟

جواب:

آپ نے خود ہی بتا دیا کہ آپ کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، نہ ہی fracture وغیرہ ہوا، تو کیا یہ کوئی کم بات ہے؟ جبکہ اس سے کچھ بھی ہوسکتا ہے، سیکنڈوں میں پتا نہیں کیا کیا ہوجاتا ہے، لہٰذا اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور ناشکری سے توبہ کریں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر ہوں گے، بندہ کو جو ذکر ایک مہینے کے لئے دیا تھا، اس کو بلاناغہ اَلْحَمْدُ للہ! پورا کر لیا ہے۔ ذکر یہ ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پندرہ منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر اور باقی لطائف پر دس منٹ تک مراقبہ ہے۔ سارے لطائف اَلْحَمْدُ للہ! محسوس ہوتے ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب آپ اس طرح کرلیں کہ مراقبۂ احدیت شروع کرلیں اور وہ اس طرح ہے کہ دس دس منٹ تمام لطائف پر اور باقی ذکر بھی اس کے ساتھ اور اس کے علاوہ آپ یہ تصور کرلیں کہ اللہ جل شانہٗ کی طرف سے فیض آرہا ہے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے شیخ پر اور شیخ سے آپ کے قلب پر آرہا ہے، بس اب یہ آپ شروع فرما لیں پندرہ منٹ کے لئے، باقی چیزیں وہی رکھیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

حضرت مراقبۂ معیت میں کیا محسوس کرنا ہوتا ہے؟

جواب:

مراقبۂ معیت میں بس معیت ہی محسوس کرنی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی خیر و عافیت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ کیفیت کوئی خاص نہیں ہیں۔ حضرت جی! دوسرا مسئلہ کچھ یہ ہے کہ آج کل طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن بہت بڑھ گیا ہے، والدین کے پاس بھی نہیں بیٹھتا اور نہ ہی ان کی خدمت کررہا ہوں، بچوں کی طرف سے بھی غفلت ہے، ان کی پڑھائی کے معاملات بھی بہت نظر انداز کررہا ہوں، برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا یعنی یہ ساری باتیں ہمت کی ہیں، اگرچہ آپ کا جی نہ چاہتا ہو، پھر بھی آپ بہت سے کام کرتے ہیں، جیسے انسان بعض دفعہ نہیں چاہتا، لیکن دفتر جاتا ہے، کیونکہ ڈیوٹی ہوتی ہے، اب ایسی صورت میں وہ کیا کرے کہ جی بھی نہیں چاہتا، لیکن کرنا پڑتا ہے، بس اسی طرح یہ آپ کی ڈیوٹی ہے کہ بچوں کے معاملات کا اور والدین کی خدمت کا خیال رکھیں۔ اس وجہ سے اس میں آپ اس کا انتظار نہ کریں کہ جی چاہے گا تو پھر کریں گے۔ البتہ آپ کا جی جب نہیں چاہے گا، مگر پھر بھی آپ کریں گے تو پھر آپ کو اجر زیادہ ملے گا، اس بات کو سوچ کر آئندہ کے لئے اس قسم کی باتوں سے اجتناب کریں، جس سے آپ کو نقصان ہو۔

سوال نمبر 20:

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کی مجلس میں ایک بات آئی تھی کہ جب نفس کے حجابات دور ہوجاتے ہیں تو پھر کشف ہوسکتا ہے۔ اس کے متعلق یہ سوال ہے کہ صحابہ کرام کو جو کشف ہوتا تھا، تو ان کو اپنے عیوب کا کشف ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگوں کو اور کشف ہوتا ہے، چاہے کشف کونی ہوتا ہے یا کشف زمانی ہوتا ہے۔ تو اصل کیا چیز ہے یعنی کشف کی اصل حقیقت کیا ہے؟

جواب:

دیکھیں! کشف کونی یا کشف زمانی، یہ انسان کی طبیعت پر منحصر ہے، اللہ پاک نے کسی کی طبیعت اس کی بنائی ہو تو یہ کافر کو بھی ہوسکتا ہے، اس لئے اس کا قبولیت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے، البتہ اصل ہے کشف علمی ہے، جیسے عیوب کا آپ نے بتا دیا، ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے بچائے۔ لہٰذا اب اگر ایک انسان کو موت سے پہلے پہلے اندازہ ہوجائے کہ میں غلط جارہا ہوں تو یہ کتنی بڑی بات ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، جس کے ساتھ بھی ہوجائے، بس ایسے لوگوں پہ اللہ پاک کا بڑا کرم ہوتا ہے کہ جن کو وقت پہ یہ بات حاصل ہوجائے، چاہے الہام کے ذریعہ سے ہو، چاہے وہ کشف کے ذریعہ سے ہو، چاہے کسی کے بتانے کے ذریعہ سے ہو، بہر صورت یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے۔ مجھے حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اچھے ماحول میں ہمارا دل جاری ہوجاتا ہے، لیکن ہمارا برے ماحول میں جاری ہوجاتا ہے، یہ سن کر اس وقت تو میں حیران ہوگیا، مگر بعد میں مجھے خود ہی سمجھ آگیا کہ واقعی اس کو برے ماحول میں جاری ہونا چاہئے۔ چونکہ لطیفہ لطافت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، تو جب انسان لطافت حاصل کرلے تو اس کو اپنا ذکر قلبی محسوس نہیں ہوتا، اگرچہ ہوتا ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا، جیسے بہت High frequency پہ کوئی جہاز میں جارہا ہوں تو اس کو چلتا ہوا محسوس نہیں ہوتا اور سائیکل وغیرہ پر کوئی جارہا ہو تو اس کو چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے، گاڑی میں بھی چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن جہاز میں محسوس نہیں ہوتا، لیکن جہاز کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب frequency زیادہ ہوجاتی ہے تو پھر محسوس نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی گاڑی جب کھڑی ہوئی اسٹاٹ ہو تو ساتھ ساتھ ہل رہی ہوتی ہے اور اس کی vibration ہوتی ہے اور جب چل رہی ہوتی ہے تو پھر وہ ہل نہیں رہی ہوتی، بس صرف چل ہی رہی ہوتی ہے، لہٰذا جس وقت ایک انسان گناہ کے میں ماحول میں جاتا ہے تو لطافت سے کثافت میں آجاتا ہے، اس وقت جو قلبی کیفیت محسوس ہو رہی ہے، وہ alarming ہے یعنی پتا چلتا ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ نور کی حالت میں ہے، اس لئے جس وقت گناہ کی حالت میں جائے گا تو ظلمت ہوگی اور ظلمت سے اس کو پتا چلے گا کہ میں کچھ غلط کررہا ہوں، یعنی اس کو تنبیہ ہوجاتی ہے کہ اوہ ہو! یہ تو ظلمت شروع ہوگئی ہے۔ جیسے بعض اچھے لوگ جو ہوتے ہیں، ان سے اگر کوئی بات زبان سے بھی غلط نکلتی ہے تو فوراً ان کو دل پہ ظلمت کا احساس ہوتا ہے اور فوراً پھر متوجہ ہو کر استغفار کرتے ہیں کہ یہ تو ٹھیک نہیں ہوا یا اسی طرح کوئی اور چیز اس طرح ہوجاتی ہے تو فوراً ان کو تنبیہ ہوجاتی ہے، تو یہ اصل چیزیں ہیں جو کہ صفائی کرتی رہتی ہیں، ان سے خود بخود صفائی ہوتی رہتی ہے۔ باقی کشف زمانی اور کشف کونی، یہ تو میں نے آپ کو بتایا کہ کافر کو بھی ہوسکتا ہے۔

سوال نمبر 21:

عیوب کا جو پتا چلنا ہے، تو کیا یہ ذکر کا اثر ہوتا ہے یا مجاہدہ کا بھی اثر ہوتا ہے؟

جواب:

مجاہدہ جو ہوتا ہے، یہ کشف کا محرک ہے، اس میں کشف کونی، کشف زمانی آتا ہے یعنی اگر کسی میں صلاحیت ہے تو ان کو کشف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی لوہا magnet بن سکتا ہے اور کوئی نہیں بن سکتا، اب جو magnet نہیں بن سکتا تو اس کو جتنا بھی مقناطیس کے ساتھ رگڑتے رہو، اس سے کچھ نہیں ہوتا، جبکہ جو لوہا magnet بن سکتا ہے، اس کو چند دفعہ بھی کرو گے تو کچھ نہ کچھ اثر اس میں آجاتا ہے، اسی طریقہ سے جن کی ساخت اللہ نے ایسی بنائی ہوتی ہے، تو ان کو مجاہدہ سے کشف ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ذکر میں بھی اس قسم کی چیزیں ہوجاتی ہیں اگر یکسوئی پیدا ہوجائے، یعنی یکسوئی سے بھی ان کو کشف وغیرہ ہونے لگتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا Side effect ہے، تو آپ اس کو Side effect کہہ سکتے ہیں۔ بس اگر ہوجائے تو اچھی چیز کے لئے استعمال کرلیں، غلط چیز کے لئے استعمال نہ کریں۔ اسی وجہ سے جو مجذوب متمکن ہوتے ہیں، ان کو بھی توجہ اور اس قسم کی چیزیں یکسوئی کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہیں، مگر چونکہ ان کے نفس کا علاج نہیں ہو چکا ہوتا، لہٰذا وہ اس کو غلط چیزوں کے لئے استعمال کرنا شروع کر لیتے ہیں، لوگوں کو متأثر کرنے کے لئے شروع کر لیتے ہیں، دکانداری شروع کر لیتے ہیں یعنی اس قسم کے کام شروع کر لیتے ہیں، اس لئے پھر نقصان میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو یہ چیز حاصل ہوجائے اور وہ فوراً اس کو اچھائی کے لئے استعمال کریں یعنی اپنی بیداری کے لئے کہ مجھے ضرورت ہے اور اپنے عیوب کا پتا چلنا شروع ہوجائے اور اس کے لئے پھر سلوک شروع کرلیں، تو وہ مستقل طور پر ایک فائدہ ہے، کیونکہ جو گرمی ان کو حاصل ہوئی ہے، اس گرمی سے فائدہ اٹھا کر وہ سلوک طے کریں، تو وہ چیزیں permanent ہوجائیں گی۔ خیر اصل میں اس کا بنیادی فائدہ یہی ہے، ورنہ خواہ مخواہ یہ ضائع ہوجائے گا۔

سوال نمبر 22:

ذکر یا مراقبہ کی وجہ سے انسان کو اپنے عیوب کا پتا چلتا ہے یا دل کی صفائی کی وجہ سے؟

جواب:

ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے اور نفس کے حجابات مجاہدہ سے دور ہوتے ہیں اور نفس پر قابو ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 23:

عیوب کا بھی یہی معاملہ ہے کہ انسان کے اندر جو عیوب ہیں، وہ بھی مجاہدہ کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں؟

جواب:

مجاہدہ کی وجہ سے یہ ہوتا ہے کہ جتنی جتنی اصلاح ہوتی جاتی ہے، اتنے عیوب کھلتے جاتے ہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دے دوں جو بہت اچھی مثال ہے کہ کبھی دانتوں میں گوشت پھنستے ہوئے محسوس کیا ہے؟ مثال کے طور پر پانچ دانتوں میں گوشت پھنسا ہوا ہے، تو جو سب سے زیادہ ہو آپ کو صرف وہ محسوس ہوگا، باقیوں کا گوشت زیادہ تر محسوس نہیں ہوگا، مگر جب اس کو نکالیں گے تو اس کے بعد جو نمبر two زیادہ والا ہوگا، وہ محسوس ہوگا، پھر جب آپ اس کو نکالیں گے تو پھر اس کے بعد نمبر three زیادہ والا جو ہوگا، وہ محسوس ہوگا۔ یہ مجھے تو کم از کم ایسا ہوتا ہے، آپ لوگوں کو ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، مجھے نہیں پتا۔ لہٰذا یہ بھی گویا کہ تہ بہ تہ چیزیں ہوتی ہیں کہ جو عیوب سب سے زیادہ ہیں، وہ آپ کو محسوس ہو رہے ہیں، جب وہ دور ہوجائیں گے، پھر اس کے بعد next، جب وہ دو ہوجائیں گے، تو اس کے بعد next، اس طریقے سے بڑھتا جاتا ہے۔ ماشاء اللہ! کافی interesting بات ہے۔

سوال نمبر 24:

حضرت! یہ پوچھنا تھا کہ جس طرح آج کل نیٹ کے اوپر بہت سے پروفیسر حضرات جن کے شاید آپ کو بھی نام پتا ہوں، جیسے قاسم علی شاہ ہیں، حماد صافی ہیں، شیخ عاطف احمد ہیں، اس طرح کے بہت سے ہیں جو لوگوں کو زندگی گزارنے کے کافی فارمولے دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ فلاں جگہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو یہ کام کرلیں، یا آپ ناکام ہیں تو یہ کرلیں، آپ پریشان ہیں تو یہ کرلیں، ڈپریشن میں ہیں تو یہ کام کرلیں، اس سے یہ چیز ختم ہوجائے گی۔ اب بڑے بڑے ان کے ملفوظات ہوتے ہیں، ان کے لوگ بڑے لیکچرز کرواتے ہیں۔ خیر ان کو سننے سے جو سالک ہے، اس کو فائدہ ہوتا ہے؟ یعنی جو اچھی چیز ہے، وہ اس سے لے لے۔

جواب:

دیکھیں! یہ حضرات جتنا بھی کرتے ہیں، یہ صرف عقل اور علم کی بنیاد پر ہے، اس کا دل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو مسائل دل کے ہیں، وہ ان چیزوں سے حل نہیں ہوں گے اور جو نفس کے مسائل ہیں، وہ بھی ان چیزوں سے حل نہیں ہوں گے یعنی عقل بعض چیزوں سے مطمئن ہوجاتی ہے، جس کو کہتے ہیں convince ہوجانا، لیکن جب دل ساتھ نہیں ہوتا تو وہ صرف ایک سطحی بات ہوتی ہے، جو آپ کو معلوم ہے اور معلوم سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ جیسے فلاسفر type جو لوگ ہوتے ہیں، وہ باتیں بہت کرتے ہیں، لیکن وہ باتیں انسان کی ادھر ہی رہ جاتی ہیں، عمل میں نہیں آتیں۔ مثلاً شوگر کے بیمار کو ڈاکٹرز کتنا کہتے ہیں کہ کہ آپ نے میٹھا نہیں کھانا، جن کا personal ڈاکٹر ہے، وہ بھی کہتا ہے، نیٹ پر کھول کے دیکھو تو سارے نیٹ والے کہتے ہیں کہ یہ نہیں کھانا۔ مگر لوگ عمل کرتے ہیں؟ نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ذہن والی بات ہے یا یہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ صرف علمی استحضار ہے۔ لہٰذا اس سے فائدہ پہنچتا ہے، مگر اس وقت فائدہ پہنچتا ہے جب آپ اس کے ساتھ دل کی محنت بھی کریں یعنی دل کی محنت کریں یا پھر مجاہدہ کی محنت کریں یعنی نفس والے مجاہدہ کی محنت کریں۔ جیسے تبلیغ والے جو بیان کرتے ہیں، تو ان کا بیان آپ کو گھر میں فائدہ نہیں دیتا، مگر جب آپ باہر نکلتے ہیں، مجاہدہ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد سمجھ میں آتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ باہر نکلو، پھر ہماری باتیں سمجھ میں آئیں گی یعنی باہر نکلنے کا مجاہدہ جب ساتھ شامل ہوجاتا ہے تو پھر ان کی چیزیں سمجھ میں آجاتی ہیں، ورنہ یہاں کتنے لوگ بیان سنتے ہیں، بس ادھر ایک کان سے سن لیا دوسرے کان سے اڑا دیا۔ لہٰذا یہی اصل میں بنیاد ہے کہ یا نفس کی محنت کو ساتھ ملا دو یا پھر دل کی محنت کو ساتھ ملا دو، پھر وہ چیز عمل میں آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بہرحال یہ پروفیسر حضرات کی بات کو میں غلط تو نہیں کہتا، کیونکہ باتیں تو ان کی experience کی بنیاد پر ہوتی ہیں، علمی لحاظ سے بڑی پکی باتیں ہوتی ہیں، اگر کسی کو عمل کی توفیق ہوجائے تو اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اور مسئلہ ہے ہی عمل کا، جیسے علامہ اقبال کا ایک شعر ہے، جس پر میں نے کچھ تفریح کی ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔

اب یہ بات بالکل صحیح ہے، لیکن یہ عشق کیسے ملے گا؟ کیا صرف اس بات سے مل جائے گا؟ علامہ اقبال کی شاعری کتنے لوگ پڑھتے ہیں، کیا وہ چیز حاصل ہوگئی ان کو؟ نہیں، بس ذہنی باتیں کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ میرے پاس پوری کتاب پڑی ہوئی ہے جو ایک پروفیسر نے لکھی ہے، لیکن بس کتاب کی حد تک ہے یہ چیزیں یعنی پروفیسری کی جو باتیں ہوتی ہیں، وہ صرف کتاب تک آجاتی ہیں، دماغ تک آجاتی ہیں اور انسان کو ایک خیال ہوجاتا ہے کہ میں نے بہت زبردست چیز پڑھی ہے اور اس کا بہت زبردست فائدہ ہے، لیکن وہ خود بھی اس سے فائدہ حاصل نہیں کرتا، چہ جائے کہ دوسروں کو دے دے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ’’مثنوی شریف‘‘ کا درس دیتے تھے، اس وقت ایک اور پروفیسر تھے جو فارسی زبان کے ماہر تھے، وہ بھی ’’مثنوی شریف‘‘ کا درس دیتے تھے اور ان کا درس بھی مشہور تھا، مگر جب حاجی صاحب تشریف لائے تو پروفیسر صاحب نے دیکھا کہ میرے لوگ آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں حتیٰ کہ صرف چند لوگ رہ گئے ہیں، باقی سب حاجی صاحب کی مجلس میں چلے گئے ہیں، انہوں نے کہا یار! یہ کیا بات ہے، حاجی صاحب کے پاس کیا ہے، چلو میں بھی دیکھ لوں، میں بھی تجربہ کرلوں، تو وہ بھی حاجی صاحب کی مجلس میں چلے گئے اور اپنے جو چند ساتھی تھے، ان کو بھی لے گئے، بس گئے تو پھر حاجی صاحب کی مجلس کے ہی ہوگئے، اب روزانہ جانے لگے، ان کے اپنے ساتھیوں نے پوچھا کہ آپ نے مجلس چھوڑ دی؟ کہتے بھائی! میری مجلس اور حاجی صاحب کی مجلس کا فرق ہے، میری مجلس ایسی ہے کہ جیسے میں کسی مکان کے باہر کھڑے ہوکر آپ کو پوری تفصیل بتا دیتا ہوں کہ اس میں اتنے کمرے ہیں، اس میں اتنی کھڑکیاں ہیں، اتنے روشن دان ہیں، اس کے اتنے صوفے ہیں، ایسے اس میں پردے ہیں، اس میں یہ چیزیں ہیں یعنی ساری چیزیں مجھے معلوم ہوں، میں وہ آپ کو ساری بتا دوں، لیکن حاجی صاحب اس طرح کرتے ہیں کہ گھر کے اندر لے جاتے ہیں کہ خود ہی دیکھ لو یعنی آپ کو پورے گھر کی سیر کرا دیتے ہیں، گویا انہوں نے اپنے لحاظ سے بات کی ہے کہ میری علمی باتیں ہیں، ان کی حال کی باتیں ہیں اور حال اور قال میں کوئی مقابلہ نہیں ہے، قال قال ہی ہوتا ہے۔ بلکہ آپ پروفیسر کی بات کرتے ہیں، قرآن پاک کا جو درس دینے والے حضرات ہیں اور حدیث شریف کا درس دینے والے جو حضرات ہیں، اگر وہ حال والے نہ ہوں، تو لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے؟ نہیں، صرف علم کی باتیں، علمی معلومات ہوتی ہیں، لیکن عمل کی توفیقات نہیں ہوتی۔ لیکن جو صاحبِ حال ہوتا ہے، وہ ایک بات سادہ سی کرلے، تو فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کسی اور کو بٹھا دیا کہ آپ بیان کریں، انہوں نے علمی لحاظ سے پورا زور لگایا یعنی جتنا وہ کرسکتے تھے بڑی اونچی مثالیں دیں، مگر سارے لوگ اِدھر اُدھر متوجہ ہیں، کوئی تنکا توڑ رہا ہے، کوئی کیا کررہا ہے اور کوئی کیا کررہا ہے۔ وہ حیران ہوگئے اور نیچے آگئے، انہوں نے کہا حضرت! میں نے تو پوری کوشش کی، لیکن لوگوں پہ اثر نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا اچھا! پھر حضرت خود بیٹھ گئے اور اتنا کہا کہ طبیعت ٹھیک نہیں تھی، تہجد کے لئے کچھ دودھ رکھا تھا کہ اس وقت پیئوں گا، بلی آگئی اور پنجا مار دیا اور دودھ سارا گر گیا۔ اب آپ بتاؤ! اس بات کا رونے کے ساتھ کون سا تعلق تھا، مگر سارے لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت! یہ کیا بات ہے؟ وہ بھی عجیب بات تھی اور یہ بھی عجیب بات ہے۔ انہوں نے کہا: بیٹا! آپ زبان سے بات کرتے ہیں، میں دل سے بات کرتا ہوں، اس لئے فرق تو ہوتا ہے۔ بلکہ یہ مجھے بالکل تجربہ ہوا ہے، کھلی آنکھوں سے تجربہ ہوا ہے، میں نام نہیں لیتا، لیکن علمی لحاظ سے بہت اونچے بزرگ ہیں، وہ تشریف لائے تو مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا چونکہ یہ طریقہ ہوتا تھا کہ جب کوئی عالم آتا تھا تو ان سے درخواست فرماتے کہ آپ بیان فرما دیں، اس لئے ان سے بھی کہا کہ آپ بیان کریں، انہوں نے بیان کیا، وہ بیان ہم نے سنا، بہت اونچا بیان تھا علمی لحاظ سے، لیکن اثر کے لحاظ سے وہ چیز نہیں تھی، پھر اس کے بعد مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، حضرت نے ان سے بھی کہا کہ آپ بیان کرلیں، اب حضرت نے بیان کیا تو بس پتا چل گیا کہ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اب کیا بات ہے کہ اتنا بڑا عالم اور دوسری طرف مولانا صاحب جو بالکل سادہ سادہ باتیں کرتے ہیں، جو حضرت کی usual باتیں ہوتی تھیں، مگر اس کا بہت اثر ہوا۔ تو یہی بات ہوتی ہے کہ علمی باتیں اور ہوتی ہیں اور پھر اس کے ساتھ حال شامل ہوتا ہے، تو وہ اور ہوتی ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ سے جو متأثر ہوئے تھے، وہ کس بات سے متأثر ہوئے تھے؟ علمی بنیاد سے متأثر ہوئے تھے؟ نہیں۔ بلکہ وہی حال والی بات تھی کہ جو کہتے تھے، وہ نظر آتا تھا، محسوس ہوتا تھا، پتا چلتا تھا، اس کا رنگ اور ہوتا تھا۔ لہٰذا یہی چیز ہوتی ہے کہ حال اور قال کا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا جو حضرات اس قسم کے بیانات کرتے ہیں، وہ قال کے درجہ میں ہوتے ہیں، باقی کسی کو اس کے بارے میں کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

سوال نمبر 25:

دوسرا سوال یہ ہے کہ شیخ سے جو رابطہ ہوتا ہے اور مرید جو اپنے عیوب بتاتا ہے، تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے، مگر بعض ایسے عیب ہوتے ہیں یا بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ انسان کسی سے نہیں کرسکتا، وہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہوتی ہیں، وہ زبان پہ بھی نہیں لا سکتا، اس کا پھر کیا حل ہے؟

جواب:

میں نے حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا کہ حضرت بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو میں کسی کے سامنے نہیں کہہ سکتا، اس کو میں پوچھ لیا کروں یا رہنے دیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ پوچھ لیا کریں، کیونکہ کبھی بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں، یعنی اگر نہیں پوچھا تو کسی وقت بھی اس سے کوئی نقصان ہوسکتا ہے۔ اور شیخ کا معاملہ چونکہ بالکل different ہوتا ہے، شیخ کو اسی مقصد کے لئے پکڑا ہوتا ہے، جیسے ڈاکٹر کے پاس کوئی جاتا ہے اور کوئی پردہ کی جگہ ہوتی ہے تو دوسرے کے لئے دکھانا تو جرم ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر کو دکھانا جرم نہیں ہوتا، بلکہ وہ علاج کا حصہ ہوتا ہے، البتہ ڈاکٹر کو اس طرح کرنا چاہئے جیسے طریقۂ کار ہے کہ وہی جگہ دیکھے جو متأثر ہے یعنی اس کے اپنے قوانین ہیں، وہ ڈاکٹروں کو سیکھنے چاہئیں، لیکن ڈاکٹر سے پردہ نہیں ہوتا اس مسئلہ میں، کیونکہ وجہ یہ ہے کہ اگر وہ نہ کرے تو پھر اس سے زیادہ نقصان ہوجائے گا، پھر بالآخر وہی کرنا پڑے گا، لہٰذا اس طرح شیخ کے ساتھ بھی جو رابطہ ہوتا ہے، وہ بھی اللہ کے لئے ہوتا۔ اور شیخ کا جو قلب ہوتا ہے، یقین جانئے ارادوں کے سمندر ہوتے ہیں، جو کچھ ہے سب ڈوب جاتا ہے، جیسے کبھی کبھی ہمارے گھر والوں کو بعد میں کسی اور طریقے سے پتا چل جاتا ہے، لیکن مجھ سے کسی نے خود بات کی ہوتی ہے، مگر میں نہیں بتاتا، پھر جب ان کو خود پتا چل جاتا ہے، تو کہتی ہیں آپ کو پتا تھا؟ میں نے کہا ہاں۔ کہتی ہیں پھر آپ نے کیوں نہیں بتایا؟ میں نے کہا میں کیوں بتاتا؟ میں نے آپ سے نہیں کہنا تھا، جس کا معاملہ تھا وہ میرے ساتھ تھا۔ لہٰذا یہ انتہائی درجہ کی رازداری مشائخ کی ہوتی ہے، ورنہ اگر یہ راز بتانے لگیں تو بہت بڑا فساد برپا ہوجائے، پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوجائیں، لیکن اس طرح نہیں کرتے۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے عالم ہیں، وہ خود فرماتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ للہ! میری کوئی بات حضرت سے مخفی نہیں ہے، کیونکہ جب کوئی سالک خود فیصلہ کرنے لگے کہ میں یہ بتاؤں، یہ نہ بتاؤں تو راستہ کٹ گیا یعنی اس میں اب وہ والی بات یعنی جو اصلاح کی نیت ہے، وہ distrub ہوگئی، اس وجہ سے امداد بھی رک جاتی ہے اور مسئلہ بن جاتا ہے، اسی لئے اکثر میں بعض ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بعض حضرات آتے ہیں جو limited اصلاح چاہتے ہیں، مثلاً تبلیغی جماعت میں کوئی آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سب کچھ کریں، لیکن تبلیغ سے ہمیں نہ روکیں۔ تو بالکل آپ کو ہم نہیں روکیں گے اور یقیناً صحیح بات ہے کہ ہم ان کو روکتے بھی نہیں ہیں اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے، لیکن جو ہمیں اختیار دے دیں، ان کو الگ فائدہ ہوتا ہے اور جو اختیار نہ دیں، ان کو الگ فائدہ ہوتا ہے، یہ پکی بات ہے کہ جو اختیار دیتا ہے، وہ گویا کہ کسی کے بارے میں اگر کہہ سکتے ہیں تو پھر ان کو اس لحاظ سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی عرفی مثال اس طرح ہے کہ جتنا اونچا پانی کا level ہوتا ہے، اتنا pressure زیادہ ہوتا ہے، ایسے ہی آپ نے اگر شیخ کے ساتھ ایسا معاملہ رکھا ہو کہ اپنے آپ کو اس سے کم سمجھا ہے تو pressure زیادہ ہوگا، اگر برابر سمجھا ہے تو pressure بالکل نہیں ہوگا یعنی اس کے لحاظ سے یہ معاملہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی ایسی بات ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ بات تو نہیں بتانی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حد تک اعتماد نہیں ہے، لہٰذا پھر مسائل ہوں گے۔

سوال نمبر 26:

حضرت جی! بعض لوگوں کی روحانیات ذکر و اذکار سے (اگرچہ کوئی معمولی ذکر ہی وہ کرتا ہو) بہت بڑھ جاتی ہیں، ان کو کشف اور اچھے اچھے خواب نظر آنے لگتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ذکر بھی بہت زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں یہ ساری چیزیں بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی یہ چیزیں بالکل نہیں ہوتیں، اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

جواب:

ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی میں نے جو بات کی ہے کہ جس کو ذکر کرنے سے اپنے عیوب نظر آنے لگے اور اس کی فکر ہونے لگے تو وہ اصل فائدہ ہے، خوابوں کا اور کشفوں کا تعلق اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کسی کو اللہ پاک نے اگر ساخت ایسی دی ہے کہ ان کو ان چیزوں کے ساتھ مناسبت ہے، تو اس کو پھر کوئی محرک چاہئے، اس محرک کے ساتھ ان کو کشف ہونے لگے گا، لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میں ہوں کہ مجھے کشف نہیں ہوتا، بے شک میں روزانہ ایک لاکھ مرتبہ ذکر کروں۔ بس مجھے نہیں ہوتا، مجھے اللہ پاک نے ایسے ہی بنایا ہے، اب میں کیوں اس کی فکر کروں، مجھے اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ جو چیز غیر اختیاری ہو، اس پر کوئی فیصلہ ہی نہیں ہے، اس پر گرفت بھی نہیں ہے، اس پر ثواب بھی نہیں ہے۔ مثلاً کرامت ہے، یہ کشف سے اونچی چیز ہے، لیکن ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہنے سے جو ثواب ملتا ہے، کرامت سے ایسا نہیں ملتا، چاہے وہ کتنی بڑی کرامت کیوں نہ ہوں۔ اب بتائیں! جس کو ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہنے کی توفیق ہوجائے، جس کو قرآن پاک کی تلاوت کی توفیق ہوجائے، جس کو اپنا کوئی عیب دور کرنے کی توفیق ہوجائے، جس کو خدمت خلق کی توفیق ہوجائے، تو سمجھ لو کہ اس کو اصل چیز مل رہی ہے۔ میں آپ کو یہاں سنا سکتا ہوں کہ میرے پاس لوگوں کے Whatsapp message پڑے ہوئے ہیں، اللہ پاک بڑی توفیقات سے نوازتے ہیں، اور میں کہتا ہوں ماشاء اللہ! اللہ پاک کا شکر ہے، لیکن جو مجھے کہتے ہیں کہ مجھے اچھا خواب آیا ہے تو بعض دفعہ تو میں جواب بھی نہیں دیتا، کیونکہ ان کو خوابوں کے ساتھ دلچسپی ہوتی ہے، اگر میں اس کو encourage کرلوں تو پھر ان کی سوچ اس طرف بڑھ جائے گی اور ایک ایسی چیز جس میں اس کو کوئی فائدہ نہیں، میں اس کی سوچ اس طرف کیوں بڑھاؤں؟

سوال نمبر 27:

یہ جسم کے ساخت کی وجہ سے ہوتا ہے؟

جواب:

یہ انسان کی اپنی طبیعت کے مطابق ہوتا ہے، طبیعت کی ساخت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے بعض ساتھی ہیں، ان کو کشف بہت ہوتے ہیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کشف ہوتا ہے؟ میں نے کہا جو کشف سے بہتر چیز ہے، وہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے بہتر چیز کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا کشف سے بہتر چیز یہ ہے کہ آپ میں مثبت تبدیلی آجائے، یہ ہے اصل چیز۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو کتنا کشف ہوتا تھا، ان کے مکاشفات بہت زیادہ ہیں، مگر حضرت خود فرماتے ہیں کہ جن کو کشف نہیں ہوتا، ان کی معرفت زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ میں نے اس پہ غور کیا اور سوچا کہ یہ کیوں فرمایا ہے۔ تو اس میں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ جن کو کشف نہیں ہوتا، ان کی معرفت کی بنیاد قرآن و سنت ہوتی ہے، جو قطعی ہے۔ اور جن کو کشف ہوتا ہے، ان کی بنیاد ظنی ہے۔ اب جس کی بنیاد ظنی ہو تو وہ کشف زیادہ پائیدار ہوگا یا جن کی معرفت کی بنیاد قرآن و سنت ہو وہ زیادہ پائیدار ہوگا؟ اس وجہ سے جن کو کشف نہیں ہوتا، ان کا رخ اس طرف کردیا جاتا ہے، فائدہ ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔ ہمارے مفتی حبیب اللہ صاحب حیدر آباد کے جو بہت بڑے عالم ہیں، وہ مجھے ایک دن کہنے لگے کہ میں جب آپ کے اشعار سنتا ہوں یا بیان سنتا ہوں تو مجھے پتا چلتا ہے کہ یہ فلاں قرآن کی آیت کے مطابق ہے، یہ فلاں حدیث شریف کے مطابق ہے یعنی مجھے بالکل صاف نظر آتا ہے کہ یہ فلاں قرآن کی آیت کے مطابق ہے اور یہ فلاں حدیث کے مطابق ہے۔ میں نے کہا: لکھا کریں خدا کے بندے! تاکہ ہمیں بھی فائدہ ہو۔ دراصل یہ حافظ قرآن بھی ہیں اور حدیث کے بھی اور اَلْحَمْدُ للہ! استحضار بھی ہے۔ خیر! میں نے ان سے کہا کہ آپ بتایا کریں، اس میں ہمیں بھی فائدہ ہوگا، کیونکہ اشعار انسان کے بس میں نہیں ہوتے، بس اللہ پاک کی طرف سے جو آجائے تو آجائے، اب اس میں اگر وہ اس طرح آگئے ہیں کہ اس میں قرآن و سنت کا مفہوم ہے، تو اس سے زیادہ بہتر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ یہ بہت بہترین چیز ہے۔

سوال نمبر 28:

شیخ صاحب! یہ کشف کیا ہوتا ہے؟

جواب:

چھپی ہوئی چیزوں کا نظر آنا کشف ہوتا ہے، چاہے وہ موجودہ حال کے لحاظ سے ہوں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی چیز نظر آجائے، جیسے دیوار کے پیچھے مجھے چیز نظر نہیں آتی، لیکن اچانک مجھے نظر آجائے تو یہ کشف ہوگا، کیونکہ آنکھوں سے تو نظر نہیں آسکتا، لیکن مجھے اگر نظر آجائے تو وہ کوئی اور نظام ہوگا اور یہی کشف ہوگا۔ اب چھت کے اوپر کیا ہے؟ کراچی میں کیا ہورا ہے؟ فلاں جگہ پہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ پتا چل جائے تو یہ کشف ہوگا اور یہ کشفیات کونیہ ہیں۔ زمانی کشف یہ ہے کہ پانچ دن کے بعد کیا ہونے والا ہے، اِس وقت کیا ہونے والا ہے، یعنی یہ جو چیزیں ہیں، یہ بھی کشف ہیں اور کشف زمانی ہیں۔ ایک کشف علمی ہوتا ہے، کشف علمی سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بہت بڑی بڑی کتابیں ہیں اور آپ کو نہیں معلوم کہ فلاں چیز کہاں پر ہے، مگر آپ کو کشف ہوجائے کہ فلاں صفحہ پہ دیکھو، آپ وہ صفحہ کھول لیں اور وہاں پر آپ کو مل جائے، تو یہ بھی کشف ہوگا، لیکن یہ کشفِ علمی ہے۔ جیسے حضرت کو خواب میں نظر آیا تھا، جب غالباً وہ قادیانیوں کے بارے میں کورٹ میں حوالہ پیش کررہے تھے، انہیں ایک حدیث شریف نہیں مل رہی تھی، نہیں پتا چل رہا تھا کہ کدھر ہے، اگرچہ سنا تھا، لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کدھر ہے، تو خواب دیکھا کہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’اوجز المسالک‘‘ میں وہ موجود ہے اور جگہ بھی بتا دی گئی، جب کھول کر دیکھا تو وہیں پر مل گئی۔ اب دیکھیں! بے شک کشف کوئی چیز نہیں ہے، لیکن ان کو تو بہت فائدہ ہوا، اور یہ علمی فائدہ ہے، اور یہ وہی بتا سکتے تھے، کوئی اور نہیں بتا سکتا تھا، اس لئے خواب میں بتا دیا اور کام ہوگیا۔ میرے خالو تھے، ان کو بھی کشف ہوتا تھا، ایک دفعہ ایک کلاس کا پیپر مکشوف ہوا تھا، انہوں نے باقاعدہ لکھ کے دے دیئے اور پھر وہی سوال آئے۔

سوال نمبر 29:

السلام علیکم۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں تو اس طرح لگتا ہے کہ جس طرح نہ پڑھی ہو اور جب اکیلے پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ پڑھی ہے۔

جواب:

دیکھیں! بیٹا بات سنو، ہمارے سمجھنے سے یا نہ سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا، فیصلہ اللہ پہ ہے اور اللہ کا فیصلہ ہمیں پتا چلے گا حضور ﷺ سے، کیونکہ ہمیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ پاک کیا فرماتے ہیں، اللہ پاک کس چیز کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، اس کا فیصلہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز کو لازم پکڑیں۔ لہٰذا ہمیں بے شک اس میں مزہ آئے یا نہ آئے، لیکن ثواب اس میں زیادہ ہے اور اللہ کا قرب اس میں زیادہ ہے، بے شک آپ کو محسوس نہ ہو کہ محسوس ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، وہ تو میرا خیال ہے، میری سوچ ہے، لیکن آپ ﷺ نے جو فرمایا ہے، اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور یہ ویسے بھی فطری بات ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ذکر میں زیادہ یکسوئی ہوتی ہے، نماز میں زیادہ یکسوئی نہیں ہوتی، کیونکہ نماز میں مسلسل چیزیں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں یعنی کبھی آپ قیام کررہے ہیں، کبھی رکوع کررہے ہیں، جس سے آپ کا ذہن انتقال کررہا ہوتا ہے، ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف ذہن انتقال کررہا ہوتا ہے اور جب انتقالات ہوتے ہیں تو وہ اس وقت یکسوئی کو کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ اور جماعت میں تو انتقالات خود نہیں کررہے ہوتے، وہ کسی اور کے کہنے پہ کررہے ہوتے ہیں، اس میں پھر اور بھی یکسوئی کٹتی ہے۔

سوال نمبر 30:

یہ کشف بعض اوقات بندے کو خود نہیں ہوتا، بلکہ کوئی اور آدمی ہوتا ہے کوئی عام آدمی یا خاص آدمی، اس کو اس بندہ کے بارے میں کشف ہوتا رہتا ہے، مثلاً میرے بارے میں کسی ایک آدمی کو مخصوص خواب آتا ہے اور مجھے پیغام ملتا ہے اس کی طرف سے، اور اکثر ایسے ہوتا ہے کہ وہ بات مجھے پتا ہوتی ہے کہ میں کیا کررہا ہوں، مثلاً جس آدمی کو خواب آتا ہے، وہ آکر مجھے بتاتا ہے کہ آپ نے یہ کام نہیں کیا؟ وہ فلاں آدمی کہہ رہا ہے کہ آپ یہ کام کرلیں، جیسے میں اپنے اساتذہ کے لئے صبح کے وقت دعا کرتا تھا، مگر کچھ عرصے سے ایسے ہوا کہ صبح ٹائم کم ہوتا تھا تو میں نے اجتماعی دعا شروع کرلی اور نام لینا چھوڑ دیئے، تو ہمارے ناظرے کی ایک استاذ ہیں، جن سے ناظرہ قرآن مجید میں نے پڑھا ہے، وہ میری چھوٹی بہن کو خواب میں آگئے اور ان کو آکر پیغام دیا کہ جاکر کہو کہ کھڑکی سے جو ٹھنڈی ہوا آتی تھی وہ آپ نے کیوں بند کرلی ہے؟ مگر اس نے سوچا کہ ایسے ہی بس خواب ہے، وہ چونکہ ان کے بھی استاذ ہیں، اس لئے دوسرے دن آکر ان کو خوب ڈانٹا، جیسے وہ پڑھائی کے زمانے میں مارتے تھے، اسی طرح آکے کہا کہ آپ نے پیغام نہیں دیا ہے؟ تو اس نے صبح سویرے مجھے بتایا۔ اور اکثر جو پیغامات ہوتے ہیں یا والد کی باتیں ہوتی ہیں، وہ ان کی طرف سے آتے ہیں اور مجھے پتا ہوتا ہے کہ یہ کام ہے، لیکن مجھے کشف نہیں ہوتا، اور ان کو اکثر ہوتا ہے۔

جواب:

اچھا ہے کہ آپ کو نہیں ہوتا، مگر آپ کو پتا چل جاتا ہے، لیکن آپ اس سے بچے ہوئے ہیں، کیونکہ کشفیات کے تو بذات خود مسائل ہوتے ہیں، اس لئے جن کو نہیں ہوتا، وہ اچھے رہتے ہیں، مجھے بھی نہیں ہوتا، اس لئے بڑی سہولت ہے۔

سوال نمبر 31:

بعض اوقات والد صاحب ان کو خواب میں آجاتے ہیں اور مستقبل کے لئے کوئی پیغام ان کو دے دیتے ہیں کہ ان کو بتاؤ کہ یہ اس طرح کرے۔

جواب:

بس شریعت پہ پرکھا کریں، اگر شریعت کے مطابق ہے تو عمل کرسکتے ہیں، پھر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا واحد check یہی بات ہے یعنی کوئی کشف، کوئی الہام یا کوئی خواب اگر وہ شریعت کے ساتھ ٹکرا رہا ہو تو پھینک دو، اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے اور اگر شریعت کے مطابق ہے اور آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ ٹھیک ہے، تو کرلیں عمل، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باقی کشفیات کا mechanism سمجھ میں نہیں آتا، لیکن ہے تو سہی۔ ہمارے حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ بہت کچھ لکھا ہے کہ عقلی، نقلی اور کشفی علوم، اور اس میں فرمایا کہ کشف کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن ہے ظنی، اور جو نقلی ہے وہ محدود ہے، لیکن ہے قطعی یعنی بات وہی ہے جو اللہ نے فرما دیا:

﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ﴾ (المائدہ: 3)

ترجمہ1: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا‘‘۔

یعنی جو دین آگیا بس وہ آگیا، اب اس میں کچھ نہیں بڑھایا جاسکتا اور نہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا عقلی میں پھر یہی بات ہے کہ آپ اس کو دیکھیں، اس کو compare کریں قرآن و سنت سے اور کشفی کو دونوں سے compare کرلیں یعنی قرآن و سنت سے بھی اور عقلی سے بھی، اگر دونوں میں ٹھیک ہے تو پھر وہ صحیح ہے۔

سوال نمبر 32:

ایک نگاہ کی حفاظت ہوتی ہے، دوسرا دل کی نگاہ کی حفاظت ہوتی ہے، تو یہ کس طرح ہوگی کہ اس میں مختلف خیالات آتے ہیں۔ ایک ملفوظ میں نے آج کل پڑھا ہے، جو میرے خیال میں شیئر ہوا ہے، اس میں یہ تھا کہ بعض لوگ نگاہ کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن دل کی حفاظت نہیں کرتے یعنی دل کی نگاہ کی حفاظت نہیں کرتے۔

جواب:

اللہ تعالیٰ سے نظر نہ ہٹانا یہ دل کی نگاہ ہے اور اللہ پہ ان کی نگاہ نہ ہونا، بلکہ لوگوں پہ ہونا جسے اشراف نفس کہتے ہیں یعنی اشراف نفس یہی چیز ہے کہ مخلوق پہ نظر ہے، مخلوق کی جیب پر نظر ہے، اور جب مخلوق کی جیب پر نظر ہے تو ظاہر ہے کہ دل کی حفاظت نہیں ہے، اسی لئے اشرافِ نفس حرام ہے۔ توحیدِ افعالی یہی تو چیز ہے یعنی توحیدِ افعالی کا جو ہم مراقبہ کراتے ہیں، وہ اسی لئے کراتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ کرتے ہیں اور تاکہ یہ چیز اتنی پختہ ہوجائے کہ مخلوق سے کوئی امید نہ ہو۔ جیسے تبلیغ والے بار بار کہتے ہیں کہ اللہ سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہماری سمجھ میں آجائے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب