اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میری آج فجر کی نماز قضا ہوگئی ہے، alarm set کیا تھا لیکن آنکھ نہیں کھلی، حضرت جی ناقابلِ تلافی نقصان دل پر بہت بوجھ بن گیا ہے۔ حضرت جی delete کیے گئے messages میں، میں نے اس امر کے لئے اپنی بدقسمتی کا لفظ استعمال کیا تھا پھر سوچا کہ آپ طبیعت مبارک پر گراں نہ گزرے اس پر معافی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ ہمت عطا فرما دیں اور سارے مسائل درست کردیں۔ بہرحال اگر غلطی ہوجائے تو اس غلطی سے بچنے کے لئے اگر انسان کوئی بندوبست کرلے تو experience بن جاتا ہے اور وہ مستقبل کی تلافی کا ذریعہ بن جاتا ہے، تو آپ اس پر سوچیں کہ آخر کیا غلطی ہوئی تھی، دیر سے سوئے تھے یا کیا وجہ تھی؟ یعنی وہ ساری باتیں ذہن میں رکھیں اور آئندہ کے لئے اس کا خیال رکھیں اور اپنے آپ کو کسی کے حوالے بھی یا کریں یعنی اگر آپ کی alarm سے آنکھ نہیں کھل سکی تو پھر بھی آپ کو کوئی جگا دے، اس طرح ایک دوسرے کو جگا کے ہم لوگ اس کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ باقی اس کے لئے چاہئے کہ آدمی توبہ کرلے اور بطور جرمانہ تین روزے رکھ لے تاکہ آئندہ سے نفس کو تأدیب ہو۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم! شاہ صاحب آپ نے مجھے ذکر دیا تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ قلب کا مراقبہ قلب دیا تھا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، لیکن اس مہینے مجھ سے قضا بھی ہوا ہے، کیونکہ میں ہاسٹل میں تھا اور وہاں اکثر فارغ ٹائم نہیں ملتا، کیونکہ کمرے میں اور بھی ساتھی ہیں، پھر یہاں زیادہ تر لوگ اس سے ناواقف ہیں اور بہت سے لوگ اس کو بدعت بھی کہتے ہیں جن سے بحث بھی کرتا ہوں۔ تو کیا میں ذکرِ خفی کردوں یا ایسے ہی جہر کے ساتھ کرتا رہوں؟ ان لوگوں سے کیا کہوں؟ ہاسٹل کے کمرے میں ایسا نہیں ہوسکتا تو وہاں کیا کروں؟ نیز آپ اگلے ذکر کی رہنمائی کردیں۔
جواب:
آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں اور آپ کہاں سے بات کررہے ہیں تاکہ میں وہاں کے حالات کے مطابق جواب دے دیتا۔ البتہ ہمارا ذکر تو آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں ضروری نہیں کہ جہرِ مفرِط ہو، بلکہ جہرِ معتدل بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً آدمی دل میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ آہستہ آہستہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ اگر ہاسٹل کے کمرے میں نہیں کرسکتے تو مسجد میں کیا کریں، نہیں تو کسی پارک وغیرہ میں جا کے کرلیا کریں، لیکن اس کے لئے کوئی صورت بنا لیں کیونکہ اگر یہی چیز شیطان نے آپ کے لئے مسئلہ بنا دی تو آپ کبھی بھی کام نہیں کرسکیں گے۔ جیسے انسان اپنا جسمانی علاج کرتا ہے اور بعض لوگ اس سے ناواقف ہوں تو ان کی ناواقفی کی وجہ سے اپنا علاج نہیں چھوڑا کرتے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں، مثلاً ہم Corona میں دیکھتے تھے کہ Corona کی جو حفاظتی تدابیر ہوتی تھیں، بعض لوگ اس پہ ہنستے تھے اور مذاق اڑاتے تھے، لیکن جب انسان اپنے آپ کی حفاظت کرتا ہے تو دوسروں کی پروا نہیں کرتا۔ لہٰذا اسی طریقے سے آپ بھی لوگوں کی پروا نہ کریں، البتہ آسانی کے لئے آپ کوئی ترتیب بنا لیں جس میں آپ مشورہ بھی کرسکتے ہوں۔ لیکن مجھے پورے احوال بتائیں پھر اس کے بعد میں کچھ کہہ سکوں گا۔
سوال نمبر 3:
Reminder for next Zikr.
حضرت السلام علیکم
I have been reciting Allah Allah nine thousands times followed by ‘‘یَا اَللہُ یَا سُبْحَانُ، یَا عَظِیْمُ، یَا رَحْمٰنُ، یَا رَحِیْمُ، یَا وَھَّابُ، یَا وَدُوْدُ، یَا کَرِیْمُ، یَا شَافِیْ، یَاسَلَامُ’’ hundred times followed by ‘‘یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ’’ ten times. Kindly advise me for the next. جَزَاکَ اللہ
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ اس کے کرنے کے بعد دس منٹ کے لئے آپ یہ تصور کریں کہ اللہ پاک آپ کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور آپ کا دل محبت کے ساتھ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم! حضرت جی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ ذکر کرلیا ہے۔
جواب:
اب ’’اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی اسی طرح کریں جس طرح آپ کررہے ہیں اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجت بھی پڑھ لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس اصلاحی سلسلے میں مدد فرمائیں۔
سوال نمبر 5:
سوال یہ ہے کہ اکثر آپ سے یہ بات سنی گئی ہے جو حضرات مریدین آپ سے سوال کرتے ہیں کہ معمولات میں کمی رہ گئی ہے یا ناغے ہوگئے ہیں، تو آپ کہتے ہیں اس کا تجربہ یہ ہوا ہے کہ اس کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ پوچھنا تھا کہ وہ کس قسم کا نقصان ہوتا ہے؟
جواب:
جس مقصد کے لئے یہ ہورہا ہے اس مقصد کو پورا ہونے میں دیر ہوجاتی ہے، یہی نقصان ہے۔
سوال نمبر 6:
معمولات میں کمی یا ناغے کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے، کیا اس کا اثر باقی اعمال پر بھی پڑتا ہے؟
جواب:
یقیناً اصلاح نہ ہو تو اس کے جتنے بھی اعمال ہیں اس پر اثر تو پڑتا ہے، مثلاً میں کوئی نماز پڑھتا ہے تو نماز تو پڑھ ہی لے گا لیکن نماز میں اگر خشوع و خضوع نہیں ہے، تو اس کے لئے اصلاح کی ضرورت ہوگی اور اگر اس کی اصلاح نہیں ہوئی تو خشوع و خضوع حاصل نہیں ہوگا۔ لہٰذا نماز میں نقصان ہوگیا، ظاہری نقصان تو نہیں ہوا لیکن باطنی نقصان ہوگیا۔ یہ تو میں نے صرف ایک مثال دی ہے، اس طرح کئی قسم کے باطنی نقصانات ہوسکتے ہیں۔
سوال نمبر 7:
بعض لوگ مَا شَاءَ اللہ نیکی کی راہ پہ چل رہے ہوتے ہیں، بعض لوگ اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، کیا یہ اللہ کی تقسیم ہے کہ لوگ خواہشات پہ چل رہے ہیں، جو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ سب کے ہیں اور اللہ پاک کی رشتہ داری کسی کے ساتھ نہیں۔
﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: 3-4)
ترجمہ1: ’’نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘۔
اللہ جل شانہٗ نے لگے بندھے اصول بتائے ہیں جو شریعت ہے اور اللہ پاک نے نفس بھی پیدا کیا ہے اور شیطان کو بھی پیدا کیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے نفس کی اصلاح کا بھی حکم دیا ہے اور شیطان کی نہ ماننے کا بھی اللہ نے حکم دیا ہے۔ اس کی بچت کے جو طریقے ہیں وہ اللہ پاک اللہ والوں پہ کھول دیتے ہیں، اور اس میں جو کوشش ہوتی ہے وہ انسان کی ایک اپنی ہمت اور کوشش کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس میں اگر کوئی شخص بچنے کی ہمت اور کوشش کرتا ہے تو اللہ پاک اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت قرآنِ پاک کی یہ آیت ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
اس وجہ سے جو بھی کوشش کرے گا اور اللہ پاک سے مدد چاہے گا تو اللہ پاک اس کی مدد ضرور فرمائیں گے۔ اب بعض لوگ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں لیکن دنیا کے کاموں میں، یعنی بڑے اچھے کامیاب contractor ہوگئے یا ڈاکٹر ہوں گے یا پروفیسر ہوں گے یا اچھے کاروباری ہوں گے، بڑے اچھے استاد ہوں گے اور اس میں اپنی تمام ہمتیں اور تمام صلاحیتیں استعمال کریں گے، لیکن جب دین کی بات آجاتی ہے تو پھر اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں کہ اللہ نے مجھے جیسا بنایا ہے بس ٹھیک ہے۔ ظاہر ہے یہ اس کو شیطان نے سکھایا ہے اور اس کے نفس نے اس کو مانا ہے، لہٰذا اس سے نکلنا تو ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔
سوال نمبر 8:
شاہ صاحب پیر والے دن جو آپ کی سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے، اس میں اگر کوئی ایسی بات یا کسی نے کوئی سوال کیا ہو جو میرے متعلق ہو، اور مجھے اس میں اپنے مسئلے کا حل ملتا ہو، تو کیا میں اس پہ عمل کرسکتا ہوں؟ جس طرح ابھی آپ نے جواب دیا ہے کہ آپ صلوٰۃ الحاجت پڑھ کے اپنے لئے تقویت مانگیں، اللہ تعالیٰ عافیت کے ساتھ آپ کو یہ راستہ طے کروا دیں گے۔
جواب:
بالکل صحیح ہے اور صلوٰۃ الحاجت والی بات تو اتنی general بات ہے کہ ہر ایک کو اس کی حاجت بھی ہے اور اگر حاجت نہ بھی ہو اور پھر بھی کرلے تو اس میں فائدہ ہی ہے۔ لہٰذا اس میں تو especially پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ جس میں دو تین رائے بن سکتی ہوں، مثلاً کسی ایک کے لئے مفید ہو اور دوسرے کے لئے مفید نہ ہو یعنی کوئی مسئلہ ہو، تو اس میں پھر پوچھنے کی ضرورت پڑے گی۔
سوال نمبر 9:
حضرت اگر سالک کو شیخ کوئی ذکر دے دے، جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’حَقْ‘‘ یا جو بھی ہو اور وہ کرتے ہوئے اس کو نیند آجائے اور اس کو وہ calculate نہ کرسکے، تو کیا اس طریقے سے ذکر کرنا بھی ٹھیک ہے یا calculate کرنا لازمی ہے؟
جواب:
کوشش کریں کہ جاگ کے ذکر کریں، اس کے لئے جو موانع ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائے، مثلاً اگر کوئی شخص تھکا ہوا ہے تو چائے پی لے اس کے بعد ذکر کرلے یا شور کی وجہ سے اس کے ساتھ مسائل ہیں تو شور سے خالی جگہ کو تلاش کرلے، یعنی جو بھی عوامل اس کے ذکر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ اگر ان عوامل کو دور کرسکتا ہے تو ان کو دور کرے اور اپنی طرف سے پوری ہمت کرے، اگر اس کے باوجود بھی اس قسم کا کچھ ہو تو بہرحال نقصان تو اس کا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ جو dose دی ہے وہ مکمل نہیں ہوئی۔ لیکن اس میں نقصان کو کم کرنے کے لئے یہی ہوسکتا ہے آدمی اندازہ کرلے کہ کتنا ہوچکا ہوگا اس کے حساب سے اس کو پورا کرلے۔
سوال نمبر 10:
اگر ایک بندے کو یہ معلوم ہے کہ میں ایک گھنٹے کے اندر تین ہزار مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہہ سکتا ہوں، اور ایک گھنٹے بعد اس کو نیند آجائے۔
جواب:
یہ تو ایک اندازہ ہی ہوگا، لیکن اندازہ اس صورت میں ہے جب کہ اصل تک رسائی نہ ہو، مثلاً اگر آپ ایک ہزار والی تسبیح لے لیں تو آپ جہاں بھی رکے ہوں گے آپ کا ہاتھ تو ادھر ہی ہوگا، اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہاں تک ہوا تھا۔ اور پھر ہزار میں تو غلطی بہت کم ہی ہوتی ہے، جیسے دو ہزار کیا یا تین ہزار کیا ہے، اتنی بڑی غلطی تو کوئی نہیں کرتا، اگر غلطی کرے گا تو سو میں کرے گا، لہٰذا سو کی جگہ ہزار دانے کی تسبیح رکھیں جس کا ذکر زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے قادری سلسلے کے جو بزرگ ہوتے ہیں وہ بڑے زیادہ زیادہ ذکر دیتے ہیں، تیس تیس ہزار مرتبہ، تو ان کی بڑی لمبی تسبیح ہوتی ہے اور وہ اس طرح کرتے رہتے ہیں، یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے، کیونکہ ان کو ایسا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی اس طرح لمبی تسبیح لے کے اس پہ جب ذکر کریں گے تو غلطی کا امکان کم ہوگا۔
سوال نمبر 11:
حضرت ذکر کے بارے میں ہی پوچھنا تھا کہ ویسے ہی اگر کوئی آدمی ثواب کے لئے کرنا چاہے تو لسانی ذکر بہتر ہے یا قلبی ذکر بہتر ہے؟
جواب:
اصل میں ثواب کے لئے جتنے بھی اذکار ہیں وہ تو سارے لسانی ہیں، جیسے آپ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو یہ لسانی ہے، اب اگر آپ قلب میں پڑھیں گے تو تلاوت کا ثواب نہیں ہوگا، یا ایسے ہی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کے ہونٹ میرے ذکر پر ہلتے ہیں تو اس وقت میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 509)
البتہ جو قلبی ذکر ہے وہ اگر انسان حاصل کرلے تو پھر دائمی ہوجاتا ہے، پھر انسان اگر لسانی ذکر بھی کرتا ہے تو ساتھ ساتھ قلبی ذکر چل رہا ہوتا ہے، اور اگر نہیں بھی کررہا ہوتا تو پھر بھی ساتھ ساتھ قلبی ذکر چل رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی کوشش کریں کہ اس کو دائمی کرلیں یعنی اگر کبھی کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، تو اس پہ اتنی محنت کرلیں کہ بغیر ارادے کے بھی چلتا رہے، باقی لسانی ذکر ثواب کے لئے کرتا رہے تو اس کو قلبی ذکر سے استحضار ہوگا اور لسانی ذکر سے مَا شَاءَ اللہ ثواب ہوگا۔
سوال نمبر 12:
کچھ اذکار ایسے ہوتے ہیں جو ویسے ہی زبان پہ چڑھ جاتے ہیں، جیسے تسبیح ہاتھ میں آئی تو خود بخود وہ چیز چل پڑتی ہے، تو وہ غیر اختیاری سی صورت بن جاتی ہے، پھر یہ کسی اور ذکر کا ٹائم ہو جو آپ نے بتایا ہوا ہو یا کسی شیخ نے بتایا ہوا ہو، جب وہ یاد آجائے تو غیر اختیاری کو فوراً چھوڑ دینا چاہئے یا اس کو مکمل کرلینا چاہیے؟
جواب:
دیکھیں! اپنا جو معمول ہے اس کو تو بہرحال پورا کرنا ہوتا ہے، مثلاً آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور نماز میں اگر آپ کی زبان پر کوئی ذکر چل پڑے، اسے آپ نماز میں تو نہیں کریں گے؟ آپ اس وقت رک جائیں گے یا آپ قرآنِ پاک کی تلاوت کررہے ہیں، اس دوران آپ کی زبان پر بہت اچھا ذکر مثلاً ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ اگر چل پڑا یا درود شریف، ظاہر ہے اس وقت تو آپ وہ نہیں کریں گے، آپ اس وقت فوراً تلاوت کی طرف واپس آجائیں گے۔ اس وجہ سے معمول کی طرف واپس آنا چاہیے، ہاں! البتہ عام اوقات میں جو زبان پہ چلا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 13:
ہمارے گھر کے قریب ایک ساتھی سلسلۂ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب وہ ذکر کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، وہ اپنے بائیں طرف جھک کے دیکھتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سارے لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے دل سے کافی آواز آتی ہے جو کہ اردگرد کے ساتھی بھی سنتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، اسی دوران وہ سو بھی جاتے ہیں۔ کیا ان کا ذکر جاری رہتا ہے یا کیا اس طرح ذکر ٹھیک ہے؟
جواب:
ذکر تو ٹھیک ہے کیونکہ ذکر کے کئی طریقے ہیں۔ خیال کے ذریعے سے بھی ذکر ہوتا ہے، زبان کے ذریعے سے بھی ہوتا ہے، دل کے ذریعے سے بھی ہوتا ہے اور سانس کے ذریعے سے بھی ہوتا ہے، یہ ذکر کی مختلف صورتیں ہیں۔ لہٰذا جس کے لئے اللہ تعالیٰ جو آسان کر دیں اور وہ چل پڑے تو اس کے مطابق پھر ہوجاتا ہے۔ جو لوگ نقشبندی سلسلے کے ہوتے ہیں وہ زیادہ تر خفی اذکار کرتے ہیں۔ اور خفی اذکار میں یہ ہوتا ہے کہ زبان تو نہیں چل رہی ہوتی، البتہ اندر ہی اندر ان کا دل چل رہا ہوتا ہے، لطائف چل رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ضبط کرتے ہیں یعنی باہر نہیں آنے دیتے، لیکن کبھی ان کا ضبط نہیں ہو پاتا تو زبان پہ بھی آجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایسے ہوتا تھا کہ ان کی زبان سے کبھی کبھی ایک نعرہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ نکلتا تھا، کیونکہ وہ چشتی تھے اور چشتیوں میں تو بہت زیادہ ولولہ انگیزی ہوتی ہے، تو باقاعدہ نعرہ بہت بلند ہوتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ ہمارے مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے لئے 7up لائے تھے، چونکہ حضرت کو معدے کا مسئلہ تھا تو اس وقت حضرت پیتے تھے، جب وہ حضرت کو دے رہے تھے کہ اتنے میں حضرت کا نعرہ لگا تو حضرت کی ٹوپی ادھر جا گری، تو مسرت شاہ صاحب نے اس کو مسکرا کے اٹھایا اور حضرت کے سر پہ رکھا، پھر وہ بوتل حضرت کو دے دی۔
ایک دفعہ ایک عربی نے نماز پڑھائی جو مولانا صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے، نماز کے بعد حضرت کا ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا نعرہ لگا تو اس عربی نے پوچھا: ’’مَا ھٰذَا یَا شَیْخُ؟‘‘ یہ کیا چیز ہے؟ حضرت نے فرمایا: ’’لَیْسَ فِی الْاِخْتِیَار‘‘ یعنی اختیار میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے حضرت نے اس کو آسان جواب دے دیا، خیر! وہ چلے گئے تو حضرت نے پھر بعد میں فرمایا کہ مسنون دعا ہے: ’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَذِکْرَكَ‘‘ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، ج1 ص: 474)
ترجمہ: ’’اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنا ذکر بنا دے اور اپنی خشیت بنا دے‘‘۔
حضرت نے تواضعاً فرمایا کہ بعض لوگ جو ذکر نہیں کرتے ان سے اللہ پاک زبردستی ذکر کرواتے ہیں۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ حضرت نے اتنا ذکر کیا تھا کہ وہ جسم پہ چل پڑا تھا۔ لہٰذا کبھی کبھی حضرت کا ایسا ہوتا تھا۔ تو بہرحال ایسا ہوسکتا ہے، ناممکن نہیں ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک ملفوظ میں فرمایا ہے کہ ضبط تو ہونا چاہئے لیکن اگر اللہ پاک گلے میں خود ہی ڈھول ڈال دے تو پھر خوب بجائے، یعنی کوشش تو کرنی چاہیے کہ ضبط ہو، لیکن اگر اللہ پاک کا ارادہ کسی کے ساتھ ہوجائے اور اس سے وہ چیز ظاہر ہوجائے تو بس ٹھیک ہے، پھر پروا نہ کرے پھر ہوتا رہے گا۔ میں نے خود حضرت سے ایک دفعہ پوچھا تھا، کیونکہ کبھی کبھی میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا تھا۔ تو میں دباتا تھا، باہر نہیں آنے دیتا تھا، میں نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت اس کے ساتھ کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا روکو نہیں، کیونکہ اگر روکو گے تو یہ بڑھے گا یعنی اس کی intensity بڑھے گی اور پھر جس وقت کھلے گا تو عین ممکن ہے کہ اس سے نقصان نہ ہوجائے۔ بعض دفعہ اتنا زور سے نعرہ نکلتا ہے کہ پھر پسلیاں ٹوٹ سکتی ہیں یا کوئی اور نقصان ہوسکتا ہے، اس وجہ سے وہ تھوڑا تھوڑا release ہونے دیں۔ جیسے پریشر ککر ہوتا ہے کہ اگر آپ اس کی بھاپ release نہ کریں تو اس کا pressure تو بڑھتا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ پھر دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ روکو نہیں۔ لیکن یہ سب کے ساتھ نہیں ہوتا، عمومی طور پر Under control ہوتا ہے یعنی ایسا کوئی نہیں کہ خواہ مخواہ وہ ہر وقت اچھل کود کرتا رہے جیسے نظر آتے ہیں، تو ایسا نہیں ہے اس کو مذاق نہیں بنانا چاہیے، جب کہ بعض لوگ مذاق بنا لیتے ہیں۔ اگر واقعی کسی کی اس قسم کی حالت ہے تو اس کی گنجائش ہے۔
سوال نمبر 14:
حضرت یہ آج کل جو کرنٹ لگاتے ہیں، یہ واقعی ایسے ہوتا ہے یا جان بوجھ کے ایسا کرتے ہیں؟
جواب:
یہ تو presumptuous type چیز ہے۔ آپ نے ان کو دیکھا ہوگا، کم ازکم میں نے تو دیکھا ہے کہ وہ جو توجہ ڈالتے ہیں، تو توجہ کی ہر ایک کی اپنی اپنی capability ہے کہ وہ کس level کا expert ہے، بعض لوگ تو اتنے expert ہوتے ہیں کہ آنکھوں سے ہی کیفیت transfer کردیتے ہیں، ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، بعض لوگ اس طرح ہاتھ میں ہاتھ لے کے اس کو جھٹکے دیتے ہیں، وہ جھٹکے خاص rythme سے دیتے ہیں اور اسی میں وہ کیفیت transfer کرتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ باقاعدہ وہ خود پہلے اپنے اوپر گزرواتے ہیں، اس طرح وہ energy store کرکے پھر اس کے اوپر وہ energy ڈالتے ہیں، تو اس سے وہ کیفیت اس کو transfer ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں جب کسی سے اس طرح کروانا ہو تو خود ہی پہلے اس طرح ہوجاتا ہے اور پھر اس کے ساتھ توجہ کرکے وہ شروع ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ تو صرف دو، تین دفعہ اس طرح ہوچکا ہوتا ہے اور وہ پھر ممکن ہے کہ سات، آٹھ دفعہ قلابازیاں کھا لے کیونکہ اس کو تجربہ نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 15:
اس میں یہ بھی دیکھا ہے کہ جس پر کم اثر ہوتا ہے اس کے آگے ہاتھ رکھ کے پھر اس کو تیز کرتے ہیں، وہ پھر اس سے کافی تیز ہوجاتے ہیں، لیکن لگتا اس طرح ہے کہ وہ ہوش میں ہی ہوتے ہیں۔
جواب:
بالکل اسی طرح ہے، ہوش میں یقیناً ہوتے ہیں، بے ہوش تھوڑی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی حرکت ان کے control میں نہیں ہوتی، البتہ ان کو اس میں مزہ ضرور آتا ہے کیونکہ جیسے لوگ رقص میں مزہ لیتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک اضطراری رقص ہے، یہ مزے کے لئے لوگ کرتے ہیں، مزہ بھی ہے اور ساتھ ان کو بزرگی کی گولی دیتے ہیں کہ پچاس ہزار سال اگر کوئی ولی عبادت کرے تو اس کو جو چیز ملتی ہے، وہ اس میں آناً فاناً مل جاتی ہے۔ پھر اس کو سلطان الاذکار کا لقب دیتے ہیں کہ یہ سلطان الاذکار ہے اور یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ پچاس ہزار سال کوئی ولی عبادت کرے تو تب اس تک پہنچ سکتا ہے اور ہمیں فوراً مل جاتی ہے۔ بہرحال ان لوگوں نے یہ بزرگی کی گولی بھی دی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ مزہ بھی ہوتا ہے، تو اس وجہ سے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 16:
یہ چیزیں وہ تصوف سے سیکھتے ہیں یا کوئی اور طریقہ کار ہے؟
جواب:
اصل میں یہ سب مجاذیب متمکن ہیں، جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا۔ ان کو جذب حاصل ہوچکا ہوتا ہے لیکن نفس کی اصلاح نہیں ہوتی، لہٰذا وہ نفس کے لئے استعمال ہورہا ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر نقشبندی سلسلے کے لوگ ہیں، آپ کو چشتی، قادری نہیں ملیں گے، حالانکہ ولولہ انگیزی تو چشتیہ میں ہے اور اچھل کود تو ان کے متقدمین میں تھی، اس وقت کے چشتی تو کافی control ہیں مَا شَاءَ اللہ، لیکن متقدمین میں باقاعدہ یہ ہوتا تھا۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے کبروی سلسلے میں ہوتا تھا۔ ان کا واقعہ ہے کہ ان کے ایک دوست سنار تھے، وہ پتھری کو مار رہے تھے، اس پہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو وجد آگیا، اس وجد کو جاری رکھنے کے لئے تاکہ ان کو نقصان نہ ہو، وہ مسلسل پتھری کو مار رہا تھا حتٰی کہ اس پتھری کا کچومر نکل گیا، لیکن اس نے اس کو روکا نہیں تاکہ حضرت کو تکلیف نہ ہو۔
سوال نمبر 17:
حضرت جی کوئی عظیمی سلسلہ ہے، یہ کون سا سلسلہ ہے؟
جواب:
عظیمی سلسلہ بھی نقشبندی سلسلہ ہے، لیکن یہ بگڑا ہوا نقشبندی سلسلہ ہے، اس کے اندر بہت جہالت کی باتیں ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نقشبندی کہتے ہیں لیکن وہ عقل ودماغ اس میں زیادہ استعمال کرتے ہیں اور مراقبات کی جگہ وہ تخیلات کرتے ہیں، یعنی ان کے جو مراقبہ ہال بنے ہوتے ہیں اس میں وہ باقاعدہ خیالات میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر شیخ کو اپنے اپنے experience بتاتے ہیں کہ میں نے یہ دیکھا، میں نے یہ دیکھا، ان کو پھر شاباش دیتے ہیں، اس میں مرد بھی ہوتے ہیں، عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایک عجیب قسم کا ڈرامہ انہوں نے بنایا ہوتا ہے، یہ عظیمی سلسلہ ہے۔ آپ ان کی جہالت کو دیکھیں کہ ان کا جو پیر ہے، اس کی جو وہ تصویر دیتے ہیں وہ ننگ دھڑنگ ہے۔ آپ اس کو مجذوب کہہ سکتے ہیں، مگر مجذوب تو مقتدیٰ نہیں ہوسکتے۔
سوال نمبر 18:
عظیمی سلسلے کی نسبت کسی بڑے بزرگ کی طرف ہے؟
جواب:
وہ نقشبندی سلسلے کا کہتے ہیں، لیکن بہرحال ان میں بعد میں جو شمس الدین عظیمی آئے ہیں، یہ کافی Learned scholar تھے، یہ کوئی عام آدمی نہیں تھے، لیکن اس لائن پہ چل پڑے، ان کا باقاعدہ روحانی ڈائجسٹ ہوا کرتا تھا، اس میں یہ چیزیں ہوتی تھیں۔ میں نے اس روحانی ڈائجسٹ کو کافی زیادہ پڑھا ہے۔
سوال نمبر 19:
ہمارے گھر میں ایک خاتون آتی ہیں، انہوں نے گھر میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے پیر صاحب عظیمی سلسلے سے ہیں۔
جواب:
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی صاحب دامت برکاتھم نے اس پہ کتاب لکھی ہے، اگر آپ چاہیں تو ان سے منگوا لیں۔ کبھی میرے پاس تھی لیکن شاید ختم ہوچکی ہے۔ عظیمی سلسلے کے بارے میں ہمارے پاس کچھ کاپیاں تھیں جو حضرت نے دی تھیں لیکن اب نیٹ پر کافی کچھ مل جاتا ہے۔ بہرحال اس وقت دجل وفریب اور فتنے اتنے زیادہ ہیں کہ بس اللہ ہی بچائے۔
یہ تعارف انہوں نے لکھا ہے: خواجہ شمس الدین عظیمی، پاکستان کے ممتاز روحانی اسکالر اور سلسلۂ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ شمس الدین عظیمی 17اکتوبر 1927ء بروز پیر بمقام قصبہ انبیٹھہ پیرزادگان ضلع سہارنپور (یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ شمس الدین عظیمی روحانی ڈائجسٹ کراچی اور روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل (برطانیہ) کے چیف ایڈیٹر ہیں۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت اگر سالک علاجی ذکر کے علاوہ بھی قلبی ذکر کرے تو یہ کیسا ہے؟ جیسے حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن سے میں آپ سے پہلے بیعت تھی، علاجی ذکر کے علاوہ بھی ہر وقت قلبی ذکر کار فرماتے تھے کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے قلبی ذکر کریں۔
جواب:
اگر کسی کا قلبی ذکر چل پڑا ہو تو ٹھیک ہے، وہ اس کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے جاری رکھ سکتا ہے۔ اور مَا شَاءَ اللہ اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کو یاداشت کا سلسلہ بنایا جاسکتا ہے، البتہ جب تک یہ چلے نہیں تو جس طریقے سے بتایا گیا ہو اسی طریقے سے کریں۔ ایک دفعہ اگر مکمل چلنا شروع ہوجائے پھر اس کے بعد ہم اس کو عام طور پہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں طریقہ یہ ہے کہ ہم صرف لطیفۂ قلب پہ نہیں رکتے، پہلے لطیفۂ قلب، پھر لطیفۂ روح، پھر لطیفۂ سِر، پھر لطیفۂ خفی، پھر لطیفۂ اخفیٰ یہ سارا پورا کرلیں، پھر اس کے بعد بے شک اس کو کرلیں۔
نصیحت:
دعا سے پہلے ایک بات عرض کرنی ہے، بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو ہمارے تجربات میں آرہی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے جیسے مثلاً کوئی چوہا یا بلی ہے یا کوئی سانپ ہے، جب تک وہ گھر سے باہر ہے تو اس کو گھر کے اندر نہ آنے دینا یہ زیادہ آسان ہے یعنی آپ دروازے بند کرلیں، سوراخ بند کردیں یا جو بھی ذریعہ ہو، تو یہ آسان ہے۔ لیکن ایک دفعہ وہ گھر کے اندر آجائے تو پھر وہ تگنی کا ناچ نچائے گا، پھر کبھی آپ صوفہ اٹھائیں گے، کبھی پردے گرائیں گے، کبھی الماری ہٹائیں گے، کبھی بسترے اٹھائیں گے، کبھی کیا کریں گے، کبھی کیا کریں گے، پھر بھی آسانی سے ہاتھ نہیں آئے گا۔ اسی طرح آج کل جو جنات ہیں، بلائیں ہیں اور چیزیں ہیں یا نظرِ بد ہے، یہ چیزیں جب تک انسان پہ نہیں آئی ہوتیں، اس وقت تک انسان سمجھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ بعض لوگ تو انکار بھی کردیتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن جس وقت ان پہ آنا شروع ہوجائیں تو پھر بعض دفعہ لوگ اتنے تنگ ہوجاتے ہیں کہ کفر تک جانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، یعنی عاملوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پھر پتہ نہیں کیا کیا مسائل ان کو ہوتے ہیں، اس کے لئے پھر ان کے کیا کیا نخرے برداشت کرتے ہیں، اور وہ بھی جھوٹ فریب اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں کرتے ہیں۔ تو یہ ہماری جو ’’منزلِ جدید‘‘ ہے یہ اصل میں ان چیزوں کو باہر رکھنے والی چیز ہے یعنی جب تک ان کا حملہ نہیں ہوا، آپ اس وقت تک اس کے ذریعے سے بچے رہ سکتے ہیں۔ ہاں البتہ حملہ ہوگیا تو پھر مزید بھی کچھ کرنا پڑے گا، کیونکہ اس وقت پھر کچھ مسائل ایسے ہوجاتے ہیں کہ اس کی کچھ intensity بڑھانی پڑتی ہے۔ لیکن جب تک انسان محفوظ ہے تو اس سے پہلے پہلے انسان کو خیال نہیں ہوتا۔ آدمی ان چیزوں کی ناقدری کرتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ بس یہ تو دوسرے لوگ کرلیں تو اچھا ہے۔ لیکن یہ ہماری اپنی حفاظت کے لئے ہے۔ اس میں قرآن کی آیات مبارکہ ہیں یا دعائیں ہیں، اور دعائیں بھی مسنون ہیں، اپنی طرف سے کوئی دعا نہیں ہے۔ جب سے ہمیں یہ ملی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں خود بھی اس پہ کار بند ہوں، میں اس وقت تک نہیں سوتا جب تک میں یہ پڑھ نہیں لیتا، کیونکہ مجھے اپنی حفاظت عزیز ہے، ہمارے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، اس وجہ سے انسان خود حفاطت کرے۔ مجھے یاد ہے کہ حیات صاحب (اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب فرمائے) حضرت نے خود مجھے فرمایا کہ ہم اپنی حفاظت کے لئے روزانہ تین ساڑھے تین گھنٹے معمولات کرتے ہیں۔ وہ چونکہ عامل تھے اور عاملوں پر حملے بھی زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے وہ اپنی حفاظت کے لئے معمولات کرتے تھے۔ اور یہ منزلِ جدید کو عمومی طور پر جو لوگ معمول کے مطابق پڑھتے ہیں، تو غالباً اس پہ پندرہ بیس منٹ لگتے ہیں، لیکن لوگ اس کی value نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی extra بوجھ ہے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘۔ لیکن ایسا نہیں ہے، یہ آج کل ہماری ضرورت ہے، کیونکہ اس وقت کسی وجہ سے بھی انسان target بن سکتا ہے، چاہے آپ کی دنیا کی position ایسی ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ حسد کریں اور آپ کو hit کریں یا آپ کی دینی position ایسی ہے کہ لوگ آپ کی مخالفت کریں اور آپ کو hit کریں۔ ممکن ہے کہ آپ کی سیاسی position ایسی ہو یا کوئی اور وجہ ہو۔ بہرحال آج کل یہ چیزیں بہت زیادہ ہیں، وجہ یہ ہے کہ سفلی چیزیں بڑی سستی اور آسان ہوگئی ہیں اور بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ خطرناک سے خطرناک تعویذ پانچ سو، ہزار میں مل جاتا ہے۔ اگر کوئی آپ کا دشمن ہے، وہ تو ایسے لوگوں کے پاس جائے گا، ان کے لئے کیا مشکل ہے، لہٰذا مسائل تو ہوں گے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ بھائی اس منزل کو حملے سے پہلے استعمال کرو اور اس کو معمول بنا لو تاکہ آپ کو فائدہ ہو، آپ کی حفاظت ہو۔ معمول بنانا اس لئے ضروری ہے کہ اگر مجھے اپنی حفاظت عزیز ہے تو اس کے لئے پھر مجھے کوشش بھی کرنی ہوگی۔ جیسے ہمارے حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب اپنی حفاظت کے لئے معمولات کرتے ہیں، دعائے انس کا حضرت کا معمول ہے۔ لہٰذا جب ان پر حملہ ہوا، تو اللہ پاک نے بچا لیا اور اپنی قدرت دکھا دی۔ جب گولیاں چلیں تو حضرت کا اپنی family سے پہلا سوال یہ تھا کہ آج دعائے انس پڑھی ہے؟ سب نے کہا کہ جی پڑھی ہے، تو حضرت نے فرمایا کہ پھر ٹھیک ہے۔ ان کے خاندان سے باہر صرف ڈرائیور تھا اور اس کو ہی گولی لگی۔ لہٰذا یہ چیزیں آج کل ہیں، یہ ہمیں ماننی پڑیں گی۔ مجھے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ مجھ پہ اثر نہیں ہوگا، ظاہر ہے کسی پر بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنی حفاظت کے لئے انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں اکثر یہ اس لئے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو لوگ ادھر آتے ہیں اور پھر ہم ان کو منزلِ جدید پڑھنے کا کہتے ہیں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ پھنس گئے، اب یہ بھی پڑھنی پڑے گی۔ بھائی نہ پڑھو، ہمارا کیا نقصان ہوگا؟ کس نے کہا کہ آپ پڑھو، اگر آپ کو اپنی حفاظت عزیز نہیں تو ہمیں بھی کوئی پروا نہیں، یہ ہمارا matter تو نہیں ہے، matter ہر ایک کا اپنا ہے۔ ہم نے تو ایک خدمت کی ہے، جو نہیں پڑھتا وہ بالکل اٹھ کے چلا جایا کرے، ہمیں کوئی urgency نہیں ہے کہ ہم خواہ مخواہ لوگوں سے پڑھوائیں۔ ہاں! بتانا مجبوری ہے، ہم نے بتانا ضرور ہے، کیونکہ ہمیں نظر آرہا ہے، اگر کسی کو نظر نہیں آرہا تو وہ نہ پڑھے۔ ہمیں تو نظر آرہا ہے کہ آج کل یہ مسائل ہیں۔ یہ ساری باتیں ہم اس لئے کہتے ہیں کہ ادھر نہ پڑھیں تو گھر میں پڑھ لیں، کیوں کہ ہم دکھانے کے لئے تو نہیں پڑھ رہے، ہم نے تو ان کو نہیں بچانا، اللہ نے بچانا ہے۔ پس یہ آج کل مسئلہ ہے، بلکہ میں بعض لوگوں کو دیکھتا ہوں جو ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ ذکر کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ابھی شروع کرلیں، پھر نماز کے بعد مکمل کرلیں، تو وہ نماز کے بعد نہیں آتے، بلکہ راستے سے نکل جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہمارے لئے پڑھ رہے ہیں یا وہ ہماری کوئی خدمت کررہے ہیں۔ بھائی ہماری خانقاہ ان کی وجہ سے نہیں بچی ہوئی، اس کی حفاظت کے لئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہم خود پڑھتے ہیں۔ لہٰذا ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ ہم پر کوئی احسان کرے کہ ہمارے لئے پڑھ رہا ہے، ہمارے لئے کوئی نہیں پڑھ رہا۔ اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اللہ پاک نے ہمیں اپنے طور پہ توفیق دی ہے اور ہم خود پڑھتے ہیں۔ جو لوگ یہاں پر رہتے ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ وہ سارے پڑھتے ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن بار بار میں یہ بات اس لئے کہتا ہوں تاکہ اگر کسی کے ذہن میں ہو کہ وہ اس مسئلے میں ہمارے اوپر احسان کرتا ہے، تو وہ سمجھ لے کہ وہ ہمارے اوپر احسان نہیں کررہا، بلکہ اپنے اوپر احسان کررہا ہے۔ آج کل مجبوریاں ہیں جو ہمیں نظر آرہی ہیں اور مستقبل میں تو اس سے بھی زیادہ مسائل آرہے ہیں، یہ تو ابھی start ہوا ہے۔ آپ کو اپنی اولاد پہ کوئی control نہیں رہے گا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اپنے ہاتھ پاؤں پہ بھی control نہیں رہے گا، آپ دیکھ رہے ہوگے کہ میں نہیں کرنا چاہتا اور آپ کریں گے، ایسے حالات آنے والے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ نے وقت کو نہیں پہچانا تو یہ چیزیں جب momentum gain کرلیں تو پھر ان کو روکنا آسان نہیں ہوتا۔ میں آپ کو صاف بتاؤں کہ جو شخص اس کو روزانہ معمول کے مطابق پڑھتا ہے، تو ایک وقت کے بعد وہ اس کا عامل ہوجاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس کی حفاظت ہوتی ہے۔ لیکن جب تک آپ کا معمول نہیں ہے آپ کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے، تو آپ اس کے عامل نہیں ہیں۔ مجھے بتائیں کہ اگر آپ سانپ سے اپنے گھر کو بچانا چاہتے ہیں، اور آپ پچاس سوراخ بند کر کے دو سوراخ کھلے چھوڑ دیں گے؟ ظاہر ہے تمام سوراخ بند کریں گے، کیوں کہ سانپ ان دو سوراخوں سے بھی آسکتا ہے۔ لہٰذا آپ نے ہر سوراخ بند کرنا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد کچھ بچت ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جب آپ اس کو مستقل پڑھنا شروع کردیتے ہیں تو پھر اس کے فوائد اور ثمرات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اب جس نے بچنا ہے اس کو تو اس قسم کے کاموں کی ضرورت ہوگی، کیونکہ جب حالات خراب ہوجاتے ہیں تو پھر ہمارے پاس آتے ہیں، لیکن میں تو عامل نہیں ہوں۔ پھر بہت رونے کی شکل بناتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔ وہ ساری باتیں ہمیں یاد ہیں کہ اس وقت ان پر کیا کیا گزرتی ہے اور وہ پھر ہمیں کیا کیا کہتے ہیں، وہ سارا کچھ ہمیں نظر آتا ہے، لیکن اس وقت ہم کیا کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم باقاعدہ عامل تو ہیں نہیں، البتہ حفاظتی طور پر ہمارے پاس یہ چیز ہے اور یہ میری نہیں ہے، بلکہ جن کی طرف سے آئی ہے ان کی ہے، یہ تو ایک نعمت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دیں۔
یہ باتیں میں نے آج اس لئے کی ہیں کہ ایک تو یہ منزلِ جدید والی بات میں نے کی ہے اور ایک یہ دعاؤں والی بات کہ جس وقت مناجاتِ مقبول سے دعائیں کرتا ہوں تو لوگ ایسے detach بیٹھے ہوتے ہیں جیسے کہ ادھر نہیں بیٹھے، کہیں اور بیٹھے ہوئے ہیں، صرف ہاتھ ادھر اٹھائے ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارے سب سے بڑے بڑے مقاصد کے لئے اس میں دعائیں ہورہی ہیں، ٹھیک ہے ترجمہ نہیں آتا، لیکن چیزیں تو ایسی ہیں، آپ کسی ایک کا بھی ترجمہ دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں، ہماری تمام چیزوں کے بارے میں اس کے اندر وہ دعائیں شامل ہیں۔ اس وجہ سے میں اکثر یہ مثال دیتا ہوں تاکہ سمجھ آجائے کہ اگر آپ کسی بزرگ کے ہاں چلے جائیں اور اس کا معمول یہ ہو کہ ظاہری دعا نہ کرے یعنی اکثر زبان سے چپکے سے دعا کرے، کیونکہ بعض لوگ خاموش دعا کرتے ہیں، اب اگر وہ خاموشی سے آپ کے لئے دعا کرنا شروع کرے اور آپ کو پتہ ہے کہ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہے تو آپ اس وقت کیسے بیٹھے ہوں گے، کیا آپ کو پتہ چل رہا ہے کہ آپ کے لئے کیا مانگ رہا ہے؟ نہیں پتہ چل رہا، لیکن آپ سو فیصد ان کے ساتھ ہوں گے کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے لئے مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا اسی طرح آپ ﷺ نے یہ دعائیں کن کے لئے مانگی ہیں؟ اپنی امت کے لئے۔ مجھے تسنیم الحق حلیمی صاحب کی بات یاد آرہی ہے، حضرت سے میں نے کہا کہ حضرت میری یہ پڑھنے کی عادت ہے: ’’بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمَالِہٖ، کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِہٖ، حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ، صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ‘‘۔ حضرت نے فرمایا: مَا شَاءَ اللہ بڑی اچھی عادت ہے، لیکن اس سے بھی اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے کہا حضرت ضرور بتایئے۔ فرمایا: اگر کسی افسر کے ساتھ آپ کا کام ہے اور آپ ان کو بتائیں اور وہ کہے کہ اچھا یہ درخواست لکھ دو، اور وہ ساتھ آپ کو درخواست کے الفاظ بھی بتائے کہ اس طرح لکھو، پھر اگر آپ اسی طرح لکھ دیں تو perfect منظور ہے، کیونکہ پہلے سے وعدہ ہے۔ اور اگر اس طرح آپ نہیں لکھتے بلکہ اپنی طرف سے جو زیادہ بہتر الفاظ آپ کو سمجھ میں آئے اور آپ نے وہ لکھ دیے تو عین ممکن ہے کہ اس پہ وہ کہے کہ میں نے جو بتایا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا؟ لہٰذا اب یہاں پر قرآنی دعائیں اور مسنون دعائیں یہ ایسی دعائیں ہیں سُبْحَانَ اللہ اس کا وعدہ ہے، اور قرآن کی دعائیں تو وہ دعائیں ہیں جو اللہ کے ہاں قبول ہوچکی ہیں اور اتنی قبول ہوچکی ہیں کہ ان کو باقاعدہ قرآن میں شامل کرلیا گیا ہے۔ وہ بھی کسی بندے کی دعائیں ہیں، لیکن اللہ پاک نے قبول فرمائیں۔ اور آپ ﷺ کی دعائیں تو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کا ہر کام اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، اب اگر اُن الفاظ سے ہم مانگتے ہیں تو اس کی قبولیت کا امکان بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ ہم یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم لوگ اس طریقے سے دعا مانگیں۔ اور چونکہ اس میں مَا شَاءَ اللہ سات دن میں سات منزلیں بن چکی ہیں، تو اس میں تقریباً قرآن کی اور مسنون دعائیں ساری آگئی ہیں، آپ ایک ہفتے میں ساری دعاؤں سے گزر جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے آپ سب کچھ مانگ لیتے ہیں جو آپ ﷺ نے مانگا۔ تو اس کی کیا اونچی شان ہے۔ اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ یہیں بیٹھے رہتے ہیں، کہتے کچھ نہیں ہیں، لیکن وہ ایسے detach بیٹھے ہوتے ہیں کہ جیسے وہ یہاں پر نہیں کہیں اور ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ ہمارے فائدے کی چیزیں ہیں، اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے، مجھے تو واللہ اعلم بہت فائدہ ہوا، ظاہر ہے میں بعض باتیں تو بتا بھی نہیں سکتا، مجبوری ہے، لیکن جو اس کی برکات نظر آئی ہیں اور محسوس ہوئی ہیں، آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ کتنی بڑی چیز ہے اور ہم اس کو underestimate کررہے ہیں۔
اسی طرح منزلِ جدید ہے، یہ میرے اپنے الفاظ تو نہیں ہیں، یہ تو قرآنی الفاظ ہیں، اگر آپ اس کے مفاہیم اور اس کا ترجمہ ذرا دیکھیں تو بالکل وہی ہے، بلکہ دعائے انس کو اگر آپ دیکھیں تو اس میں الفاظ کیا ہیں، وہی اللہ تعالیٰ پہ بھروسے کے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے اور یہی ساری چیزیں ہیں۔ اس ذریعے سے ہم اللہ پاک سے مدد مانگ رہے ہیں۔ پھر اگر مجھے پتا ہو کہ میں کیا مانگ رہا ہوں، تو مَا شَاءَ اللہ یہ بہت بڑا اصلاح کا باب ہے اور اللہ پاک سے مانگنے کا اور لینے کا کہ مَا شَاءَ اللہ اس ذریعے سے ہم لوگ مانگیں۔ اب دیکھیں قرآن پاک کی تلاوت کے بارے میں کا کتنا فائدہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں چاہوں کہ اللہ مجھ سے بات کرے تو قرآن پڑھتا ہوں اور جب میں چاہوں کہ میں اللہ سے بات کروں تو نماز پڑھتا ہوں۔ کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اللہ پاک کی بات ہے، کلام اللہ ہے، تو میں اللہ کی بات اپنے کانوں سے سن رہا ہوں، یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اس وجہ سے اگر میں قرآن اس طرح پڑھوں کہ بالکل مجھے اپنی آواز نہ آئے تو تدبر کے لئے تو ٹھیک ہے، اور اگر ہونٹ ہل رہے ہیں تو تلاوت کا ثواب بھی ملے گا، لیکن اگر ہونٹ نہیں ہل رہے تو پھر تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا، تدبر کا فائدہ ہوگا۔ لیکن جس وقت میں اس کو ذرا اتنی آواز سے پڑھوں کہ میرے کان بھی سنیں تو یہ پھر اللہ پاک کے الفاظ ہیں جو ہم سن رہے ہیں، تو کان اس میں مشغول ہوتے ہیں۔ اور اگر قرآن کے وہ الفاظ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو آنکھیں مشغول، ہونٹ مشغول، ذہن مشغول، دل مشغول، اب یہ ساری چیزیں اگر ہم کرلیں تو پھر قرآنِ پاک کا جو اثر ہوگا وہ ہمیں ملے گا، اس کی برکات ہمیں ملیں گی۔ تلاوت اس طرح بھی کرسکتے ہیں جیسے جلدی جلدی ہم تلاوت کرتے ہیں، ٹھیک ہے اس طرح بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر میں نے ان تمام چیزوں کو اس کے ساتھ کرلیا یعنی آنکھ اس کے ساتھ کرلی، کان اس کے ساتھ کر لئے، زبان اس کے ساتھ کرلی، دماغ ساتھ کرلیا اور دل بھی ساتھ کرلیا، تو پھر مَا شَاءَ اللہ قرآن کا نور تمام راستوں سے داخل ہوگا اور پھر ہم لوگ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ہمارے اکثر بزرگوں نے لکھا ہے کہ علماء کو بھی چاہیے کہ کبھی کبھی بغیر سمجھے بھی تلاوت کریں الفاظِ تلاوت کی برکات حاصل کرنے کے لئے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ غور کررہے ہیں تو الفاظ کی طرف آپ کا خیال نہیں جائے گا، لہٰذا الفاظ کا نور حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی اس طرح تلاوت کرنی چاہیے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کس انداز سے تلاوت کی جائے، جس سے قرآن کا اثر زیادہ سے زیادہ نصیب ہو۔ وہ فلسطینی جن کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ آپ ﷺ کے انداز میں قرآن پڑھ سکتے ہیں، ان کو اس کی اجازت ملی ہے، انہوں نے دو تین سال محنت کی ہے، ان کے ہاں ترتیب ہے، مسلسل آپ ﷺ کا طریقہ چلا آرہا ہے۔ میں نے جب وہ سنا تو میں واقعی حیران ہوا کہ قرآن سے مزے لینے کا کیا انداز ہے، یہ جو قرآن کے اندر اتنی ساری چیزیں ہیں یہ ویسے نہیں ہیں، اس کے اندر جو مد اور وقف وغیرہ ہیں، ان سب کے اپنے اپنے اثرات ہیں، یعنی ایک لفظ کو آپ ملاتے ہیں، ایک لفظ کو آپ لمبا کرتے ہیں، ایک لفظ کو آپ روکتے ہیں، تو اس کے پیچھے مفاہیم کا پورا ایک ذخیرہ ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے بہترین طریقہ تو آپ ﷺ کا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح پڑھا ہے، اس کو اس انداز سے اگر ہم پڑھیں گے تو پھر مَا شَاءَ اللہ اس کی برکات بہت زیادہ ہوں گی۔ اگرچہ پابندی ہم نہیں لگا سکتے، کیونکہ سارے مستحبات ہیں، لیکن برکات تو اس کی ہوں گی۔ پابندی تو صرف تجوید کی ہے کہ معنی اور مفہوم نہ بدل جائے، اتنا تو ہمارے اوپر فرض ہے لیکن اس کی جو برکات ہیں وہ تو پھر ان تمام چیزوں میں ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔