عشرہ ذی الحج کے مبارک ایام کی سعادتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھانا

اس بیان میں عید الاضحی سے متعلق آیات و احادیث خطبات الاحکام کتاب سے پڑھی گئی ہیں

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مرحبا مسجد - ہائی وے لنک دربار روڈ، کری روڈ، راولپنڈی

ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن نہایت فضیلت والے ہیں جن میں عبادات، روزے اور ذکر کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، خاص طور پر یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان اور ذی الحجہ جیسے کچھ خاص ایام کو اس لیے فضیلت بخشی ہے کہ بندے ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر غفلت سے نکل آئیں اور تقربِ الٰہی حاصل کریں۔ بیانات اور وعظ کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان کو ان بابرکت دنوں کی اہمیت کا احساس ہو اور وہ سستی و غفلت سے نکل کر عمل کی طرف راغب ہو۔ قربانی ایک واجب عمل ہے جسے شوق، اخلاص اور محبت سے ادا کرنا اللہ کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے، اور محض دنیاوی مسائل یا پروپیگنڈے کی بنیاد پر اسے ترک کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سمیت فقیر صحابہ بھی قربانی میں پیچھے نہ رہے، کیونکہ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے نسبت رکھتا ہے، جو عام صدقات سے بدلنے والا نہیں۔ چاروں ائمہ کرام نہ صرف فقہ کے امام تھے بلکہ باطنی طور پر صوفی بھی تھے، جن کا دین فہم و اخلاص، نرمی اور دل کی کیفیت سے جڑا ہوا تھا۔ ذی الحجہ کے ان دنوں میں تکبیرات تشریق نو ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد کہنا لازم ہے، جو مرد و عورت، جماعتی و انفرادی سب نمازیوں کے لیے ہے۔ نماز کو محض رسم نہ بنایا جائے بلکہ اس میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے کا احساس بیدار کیا جائے، کیونکہ اصل ذکر یہ ہے کہ اللہ ہر وقت دل میں زندہ رہے، اور یہی عبادت کا اصل مغز ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر: 1-3)

وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَا مِنْ أَیَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهٗ فِيْهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِّنْهَا بِصِيَامٍ سَنَةٍ وَّقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِّنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ''۔ (ترمذی، رقم الحدیث:758) لَا سِيَّمَا صَوْمَ عَرْفَةَ الَّتِيْ قَالَ فِيْهَا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهٗ''۔ (مسلم، رقم الحدیث:1162) وَمِنْهَا التَّکْبِيْرُ دُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوْبَاتِ۔ ''وَكَانَ عَبْدُ اللهِ یُکَبِّرُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مِنْ یَّوْمِ النَّحْرِ، يَقُوْلُ: اَللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ''۔ (مصنف ابن ابي شیبة، رقم الحدیث:5631) ''وَكَانَ عَلِيٌّ يُّكَبِّرُ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مِنْ اٰخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ وَيُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ''۔ (مصنف ابن ابي شیبة، رقم الحدیث:5631) وَمِنْهَا إِحْيَاءُ لَيْلَةِ الْعِيْدِ، وَمِنْهَا الصَّلٰوةُ وَالْخُطْبَةُ، وَقَدْ سَبَقَا فِيْ خُطْبَةِ اٰخِرِ رَمَضَانَ، وَنُكَرِّرُ أَوَائِلَھُمَا تَسْهِيْلًا عَلَى الْإِخْوَانِ، ''وَهِيَ مَنْ أَحْیٰی لَيْلَتَیِ الْعِيْدَيْنِ''۔ (کنز العمال، رقم الحدیث:24107) ''وَكَانَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحٰى''۔


صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین وحضرات! اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ کہ اللہ پاک نے ہم کو یہ مبارک ایام جو شروع ہوچکے ہیں، نصیب فرما لیے۔ دیکھیں ایک شخص مکہ مکرمہ پہنچ جاتا ہے اور جیسے ہی قدم رکھتا ہے تو اس کی خوش نصیبی شروع ہوجاتی ہے کہ اس کی اب جو نیکی ہے وہ لاکھ گنا بن جاتی ہے۔ اگرچہ جو برائی ہے وہ بھی لاکھ گنا ہے لیکن اس کی طرف لوگ دھیان نہیں کرتے۔ بہرحال جو نماز پڑھے گا اس کا ایک لاکھ نمازوں کا اجر ہوگا۔ ہم پوری عمر میں ایک لاکھ نمازیں نہیں پڑھ سکتے، لیکن وہاں پر ایک نماز پر آپ کو ایک لاکھ نمازوں کا اجر ملتا ہے۔ اس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اللہ جل شانہ کا تعلق نصیب ہوتا ہے جو تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔ تو وہ فضیلت ہے مقام کی، اس مقام میں اگر کوئی جائز تجارت کی نیت سے بھی داخل ہوگا تو اس کو بھی یہ اجر ملے گا کیونکہ مقام کے لحاظ سے اجر ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے زمان کے لحاظ سے بھی اجر رکھے ہوتے ہیں، مثلاً رمضان شریف ہے، جیسے رمضان شریف شروع ہوجاتا ہے، سبحان اللہ! آپ ﷺ نے خود اس کے لئے خطبہ ارشاد فرمایا تھا کہ بہت عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے اور اس میں اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھتا ہے تو اس کو اجر فرضوں کا ملتا ہے اور جو فرض کا عمل کرتا ہے تو اس کو ستر فرضوں کا اجر ملتا ہے۔ پھر اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے افضل رات ہے۔ تو ظاہر ہے اگر کسی پہ رمضان شریف آجائے اور سب پہ رمضان شریف آتا ہے اَلْحَمْدُ للہ، کیونکہ جب تک انسان زندہ ہے تو رمضان شریف تو آتا رہے گا تو اس کو اس اجر کے حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ پاک نے اس کو ایک خوش نصیبی کا ذریعہ عطا فرما دیا ہے، اگر اس سے استفادہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن اگر غافل ہے تو گزرتا تو ہے، چاہے کوئی جانے یا نہ جانے رمضان کا مہینہ تو گزرے گا، وہ کسی کے لئے رکے گا تو نہیں۔ تو اس طریقہ سے وہ اس سے محروم ہوجائے گا۔ یعنی جو فضیلت ہے، جو اس میں برکات ہیں، جو اس میں سعادتیں ہیں، ان سے محروم ہوجائے گا۔ کس وجہ سے محروم ہوا ہے؟ جس کی بنیادی وجہ غفلت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر غفلت دور ہوجائے تو وہ بھی اس سے فائدہ اٹھانے والا بن جائے۔ یہ جو بیانات ہوتے ہیں اصل میں اس غفلت کو دور کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ بیانات صرف اس لئے کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ اس میں یہ فائدہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ کوشش کرلیں، کچھ محنت کریں۔

اب دیکھیں! ہم مختلف شعبوں میں جو لوگ جو کام کررہے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے شعبوں کے اپنے کچھ فوائد ہوتے ہیں۔ ان فوائد کو جب انسان دیکھتا ہے تو جی میں آتا ہے کہ میں بھی حاصل کرلوں، پھر اس کے لئے حاصل کرنا کوئی آسان تو نہیں ہوتا، اس کے لئے بڑی محنت اور کوشش کرنی ہوتی ہے لیکن وہ دن رات ایک کرکے ان چیزوں کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ کوشش اور محنت کرکے بھی وہ چیز حاصل نہیں ہو پاتی۔ لیکن یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ جس نے کوشش کرنے کا ارادہ کرلیا اس کو ارادے کا بھی اجر مل جاتا ہے، اس کے ارادے کا بھی ثواب مل جاتا ہے۔ چہ جائیکہ کوئی اس پر عمل کرلے۔ عمل کرے تو پھر تو دس گنا، سات سو گنا تک بغیر حساب والی بات ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ان ایام کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے، بنیادی مسئلہ اس میں صرف یہی ہے۔ آپ ﷺ کا طریقہ بھی یہ تھا کہ رمضان شریف جب آرہا تھا تو شعبان کے اخیر میں وعظ کیا اور اس کے بارے میں خبردار کرلیا۔ تو جو صلحاء امت ہیں ان کا یہ طریقہ ہے کہ جب کوئی بھی عمل قریب آجائے تو اس کے بارے میں بتاتے ہیں اور بتاتے اس نیت سے ہیں کہ خود مجھے فائدہ ہو، ہاں! دوسروں کو بھی تبعاً فائدہ ہوجاتا ہے لیکن اصل فائدہ تو انسان کو خود ہوتا ہے جو انسان کہتا ہے کہ یہ دیکھو ما شاء اللہ اس پہ یہ ملتا ہے، اس پر یہ ملتا ہے۔ اب اس میں اپنی طرف سے ہم کوئی بات بڑھانا نہیں چاہتے، جو اللہ نے فرمایا اور جو اللہ کے رسول نے فرمایا ہے ہمارے لئے تو وہی سند ہے، ہم اپنی طرف سے اس میں کوئی بات نہیں کرتے کیونکہ دین اوپر سے آیا ہوا ہے، دین ہماری طرف سے ادھر نہیں جارہا تو ہم نے تو ان کی بات کہنی ہے جن کی طرف سے یہ دین آیا ہے۔

اَلْحَمْدُ للہ، یہ ذی الحجہ بہت ہی فضیلت والا مہینہ ہے۔ علماء کرام نے اس کی تشریحات کی ہیں بعض حضرات کے نزدیک اس کا پہلا عشرہ رمضان سے بھی زیادہ فضیلت والا ہے۔ اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نہیں، رمضان شریف افضل ہے۔ بہرحال اس میں علمی اختلاف ہے، کچھ حضرات نے بیچ کی بات کی ہے، انہوں نے فرمایا ہے کہ اس کے دن رمضان شریف کے دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں رمضان شریف کے آخری عشرہ کی راتوں سے افضل ہیں۔ فضیلت دونوں میں ہے یعنی ادھر بھی فضیلت ہے ادھر بھی فضیلت ہے، لیکن چونکہ اس میں دن میں آتا ہے، عرفہ بھی دن میں آتا ہے اور عید الاضحیٰ بھی دن میں آتی ہے۔ اور یہاں ذرا غور فرمائیں اس آیت کریمہ میں جو ہم نے ابھی تلاوت کی ہے:

﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر: 1-3)

ترجمہ:1 "قسم ہے فجر کے وقت کی۔ اور دس راتوں کی۔ اور جفت کی اور طاق کی"

فجر تو ہر موسم میں آتی ہے، ہر وقت آتی ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن ﴿لَیَالٍ عَشْرٍ، یہ دس راتیں کون سی دس راتیں ہیں؟ عین ممکن ہے کہ رمضان شریف کی وہی دس راتوں کا فرمایا جارہا ہو، اور بعض علماء کرام کی تحقیق بھی یہی ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ اسی کے بارے میں کہا جارہا ہو جیسے بعض علماء کرام فرماتے ہیں، لیکن زیادہ ترجیحی قول رمضان شریف والا ہے۔ کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے اور یہاں جو فرمایا: ﴿وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ یہ جفت کی اور طاق کی قسم کھائی گئی ہے، جفت سے مراد علماء کرام دس ذی الحج لے رہے ہیں اور طاق سے مراد نو ذی الحج لے رہے ہیں۔ نو ذی الحج ما شاء اللہ یوم عرفہ ہے۔ عرفہ کی جو فضیلت ہے وہ آپ سب حضرات جانتے ہیں۔ اس کے بارے میں تو فرماتے ہیں حضور ﷺ کہ شیطان اس روز بہت زیادہ ذلیل ہوتا ہے کیونکہ اللہ پاک بہت زیادہ بخششیں فرماتے ہیں۔ اس دن تو یوم عرفہ ہے اور ساتھ جو دسویں ذی الحج ہے وہ یومِ نحر ہے، مطلب عید قربان کا پہلا دن ہے، اس کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے تو اس وجہ سے دن تو اس میں آتے ہیں اور جو راتیں ہیں وہ لیلۃ القدر چونکہ رمضان شریف میں آتی ہے، لہٰذا زیادہ ترجیحی قول یہی آتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ علماء کرام کی باتیں ہیں ہمیں تو ہر چیز میں قدر دیکھنی چاہئے۔ فرماتے ہیں: ”ہر شب شب قدر است گر قدر است“ یعنی اگر قدر کرے تو ہر رات شب قدر بن سکتی ہے یعنی ہم لوگوں میں اگر قدر ہو تو! میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ایک حدیث شریف ہے، جس کا میرے خیال میں اگر کسی کو استحضار ہو تو بہت ساری باتوں کا انسان کو پتا چل سکتا ہے، اور وہ ہے: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری: 7405) ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں‘‘ جو میرے ساتھ وہ رکھتا ہے۔ اب اگر ایک شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اجر اس کے لئے ہے اور وہ عمل اس کے لئے کرلے تو اس حدیث شریف کے مطابق اس کے ساتھ اللہ پاک کا معاملہ ایسا ہوجائے گا۔ یہ علمی بات نہیں ہے، قلبی بات ہے، علمی بات تو علماء کی بات ہوتی ہے، وہ کریں گے اور وہ علمی تحقیقات ہوتی ہیں اس میں ہم لوگ کچھ نہیں کہتے۔ اس میں اجتہادات بھی ہوتے ہیں، اختلافات بھی ہوتے ہیں، تحقیقات بھی ہوتی ہیں، وہ ساری باتیں اپنی جگہ پر ہیں لیکن ایک شخص کو شرح صدر ہے کہ یہ ہے تو ظاہر ہے اس کو تو فائدہ ہوگیا۔ تو اس طریقہ سے اگر ہم لوگ ہر رات کے ساتھ ہی یہی معاملہ کرلیں تو گمان کے مطابق اجر ملے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ بہترین رات کون سی ہے تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”لیلۃ القدر“۔ بات صحیح تھی، اس میں کوئی اختلاف نہیں، قرآن نے کہا ہے:

﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِﭤ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ (القدر: 1-3)

ترجمہ: "بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے"

یہی بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھی جاتی ہے، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”جس رات میں بھی جس کی توبہ قبول ہوجائے وہ اس کے لئے بہترین رات ہے“۔ اب ذرا غور فرمائیں، اگر لیلۃ القدر میں بھی کوئی اللہ کی طرف رجوع نہ کرے، گناہوں میں مشغول ہو یا اس قسم کا کوئی کام کررہا ہو تو اس کی لیلۃ القدر تو نہیں ہوئی، بلکہ ممکن ہے کہ اس کو اس کا کچھ وبال پڑے۔ اور ایک عام رات ہے لیکن اس کے دل میں آگیا کہ میں بہت بڑا گناہگار ہوں اور اللہ پاک کے سامنے رونا شروع کرلیا اور اللہ پاک نے اس کے رونے کو قبول کردیا، اس کو معاف کردیا تو بس سبحان اللہ، اس کا کام ہوگیا۔ یہاں ٹیکسلا میں ایک صاحب تھے جو بالکل دین کے بارے میں نہیں جانتے تھے، نوجوان تھے پتا نہیں اللہ پاک نے کس وجہ سے ان کے دل میں بات ڈالی کہ میں توبہ کروں، توبہ کرلی، اب نماز کے لئے جارہا تھا، نماز اتنی بھی نہیں پڑھتا تھا کہ اس کو معلوم ہوتا کہ مغرب میں کتنی رکعتیں ہوتی ہیں۔ راستے میں جارہا ہے، ایک بڑھیا عورت بیٹھی ہوئی تھی، اس سے پوچھا مائی، مغرب کی کتنی رکعتیں ہوتی ہیں؟ اس نے کہا کہ بیٹا تین ہوتی ہیں اور اس کے بعد دو رکعات۔ تو وہ مسجد میں گیا، پہلے تین رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد سجدے میں رونا شروع کرلیا، روتا رہا، روتا رہا اور اسی میں فوت ہوگیا۔ اس کا جنازہ تاریخی جنازہ تھا جن جن کو بھی پتا چل رہا تھا اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔ الغرض علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ والی بات تھی، جیسے آپ ﷺ کے ناموس پہ وہ شہید ہوگیا تو پھر لوگوں نے کیا کیا؟ کہ یہ تو اللہ کی محبت میں شہید ہوگیا۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو مقام دے دیا۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اگر عام رات میں بھی آپ کے دل میں آجائے کہ میں اللہ کا بننا چاہوں اور اللہ تعالیٰ کا بننے کے لئے جو ذرائع ہیں، جتنی سمجھ ہے اس کے مطابق وہ اختیار کرلیے تو اس کا کام تو بن جائے گا۔ یہی فرق ہوتا ہے عام علماء میں اور صوفی علماء میں، عام علماء علمی بات کرتے ہیں اور ظاہر ہے، اس میں کچھ اور نہیں کہتے اور ان کی ڈیوٹی بھی یہی ہے، لیکن صوفی علماء ان کے دل کی بات کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے دل کی حالت کیا ہے، اس کے حساب سے اللہ پاک کا معاملہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، وہ اس چیز کو بھی دیکھتے ہیں۔

بہرحال میں عرض کررہا ہوں کہ ماشاء اللہ یہ جو ابھی عشرہ شروع ہوگیا ہے اس میں جو دن ہیں وہ تو ہیں، ان کے بارے میں میں آپ کو بتا دوں کہ فرماتے ہیں: ”صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِّنْهَا بِصِيَامٍ سَنَةٍ“ کہ اس کا جو ایک روز کا روزہ ہے وہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ یعنی ایک روزہ اس پہلے عشرہ کا ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ لیکن یوم عرفہ کا معاملہ الگ ہے، یوم عرفہ کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهٗ“ اس کے بارے میں تو میں یہ گمان کرتا ہوں کہ پہلے سال کا اور اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا ہے۔ یہ یوم عرفہ کی بات ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، بہت بڑی بات ہے اور یہ سعادت سبحان اللہ، اللہ نے ہمیں دی ہے۔ ہم بے شک حج پہ نہیں گئے لیکن یہ سعادت حاصل کرسکتے ہیں۔ یوم عرفہ کی یہ سعادت عام ہے، جو بھی حاصل کرنا چاہے اس کو حاصل کرسکتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد جو دسویں ذی الحج ہے، اس میں روزہ تو نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ ظاہر ہے وہ تو عید ہے، عید الاضحیٰ کے تو تینوں دن روزہ رکھنا حرام ہے، لیکن ان کی فضیلت سبحان اللہ بہت زیادہ ہے، کیونکہ اس میں حاجیوں کے اپنے اعمال ہیں اور غیر حاجیوں کے جو عمل ہیں وہ بھی ہیں۔ حاجیوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ سبحان اللہ، اس وقت وہ آتے ہیں، ما شاء اللہ یہ پہلے وقوف سے شروع کرتے ہیں، وقوف مزدلفہ سے شروع ہوجاتا ہے، اس کے بعد وہ منیٰ میں جاتے ہی رمی کرتے ہیں۔ اور رمی ایسی بات ہے کہ اس سے شیطان ذلیل ہوتا ہے، جس کی دعا میں یہ ہے: ”رَغْمًا للِّشَیْطٰنِ وَرِضًا لِّلرَّحْمٰنِ“ شیطان کو ذلیل کرنے کے لئے یہ رمی کی جاتی ہے، پھر بعد میں سبحان اللہ! جو تمتع والے ہیں، جو قران والے ہیں وہ قربانی کرتے ہیں، اس کے بعد پھر حلق کرتے ہیں۔ تو ان کے تو اپنے اعمال ہیں۔ اور ہم لوگ جو حج پہ نہیں جاسکے وہ دو رکعت عید کی نماز پڑھتے ہیں اور اس کے بعد قربانی کرتے ہیں، جو قربانی کرسکتے ہیں۔

قربانی کی بات کرتا ہوں، یاد رکھنا چاہئے کہ بعض چیزیں اتنی زیادہ فضیلت کی ہوتی ہیں کہ اگر کسی پر واجب نہ بھی ہوں تو اس کا دل چاہتا ہے کہ کسی طریقہ سے میں کرلوں، یہ قربانی ان میں سے ہے کیونکہ اس کی ایک عجیب فقہی دلیل بھی ہے اور ایک قلبی بات بھی ہے اس میں۔ فقہی دلیل یہ ہے کہ اگر قربانی کا جانور مالدار جس پہ قربانی واجب ہے وہ اگر لے لے اور اس سے جانور گم ہوجائے اور پھر اس کو مجبوراً دوسرا جانور لینا پڑے اور لینے کے بعد اس کو وہ پہلے والا جانور بھی مل جائے تو اس کو اختیار ہے کہ جس جانور کو بھی ذبح کرلے اس کی قربانی ہوجائے گی۔ کیونکہ اس پہ واجب ایک ہے لہٰذا وہ کسی ایک کو بھی ذبح کرلے گا تو اس کی واجب قربانی ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ مالدار نہیں ہے، غریب ہے، اس پہ قربانی واجب نہیں ہے، اس نے محبت کی وجہ سے جانور لے لیا ہے اور وہ گم ہوجائے اور پھر اس کو اتنا شوق ہے کہ پھر دوسرا جانور لیتا ہے اور وہ پہلے والا جانور بھی مل جاتا ہے اس کے بعد، اب اس کو دونوں ذبح کرنے پڑیں گے۔ بظاہر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کون سی بات ہے؟ ایک اس کی علمی دلیل ہے کہ اس کے اوپر واجب تھا نہیں، اس نے اپنے اوپر واجب کردیا جیسے انسان نفل پڑھتا ہے، وہ نفل کی نیت کرلے تو اب وہ فرض ہوگیا اب اگر پورا نہیں کرے گا تو دوبارہ اس کی قضا کرنے پڑے گی، حالانکہ نفل کی قضا تو نہیں ہے لیکن اب وہ فرض ہوگیا ہے تو اب اس کو وہ پڑھنا پڑے گا، دو دفعہ کرے گا تو دو دفعہ پڑھنا پڑے گا، تین دفعہ کرے گا تو تین دفعہ کرنا پڑے گا؛ مطلب وہ جتنی دفعہ کرے گا تو اتنی دفعہ اس پر لازم ہوجائے گا۔ یہ علمی بات ہے، فقہی بات ہے۔ اور قلبی بات یہ ہے کہ اس شخص نے اتنے اخلاص کے ساتھ قربانی کا ارادہ کرلیا اور محبت کے ساتھ اس نے ارادہ کرلیا کہ اللہ پاک اسکی اس چیز کو واپس نہیں کرنا چاہتا، اللہ چاہتا ہے کہ یہ دونوں کرلے کیونکہ یہ آدمی عام لوگوں میں نہیں ہے یہ خاص لوگوں میں ہے۔

ایک دفعہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، یہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فقیہ بھی تھے، اور یہ اپنے مذہب کے امام بھی ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے پیچھے چلنے والے یعنی مقلد ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ صوفی بھی تھے اور اتنے واضح صوفی تھے کہ استاد بھی ان کو صوفی کے لقب سے پکارتے تھے۔ مشہور واقعہ ہے، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ان کے ساتھ تھے، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اصحاب الرجال میں بہت زیادہ متشدد ہیں، مطلب بہت زیادہ سختی کے ساتھ جانچ پرکھ کرنے والے ہیں راویوں کے بارے میں، وہ ان کے ساتھ تھے اور بھی ایک ساتھی تھے ان کا نام مجھے نہیں آتا۔ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے ارادہ کیا کہ اپنے استاد کا پتا کرلیں کہ یہ ثقہ ہے یا نہیں ہے، امتحان کا ارادہ کرلیا، حضرت امام احمد بن حنبل صاحب نے کہا کہ استاد ہے ہمارا، ایسا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بغیر اس کے کام نہیں ہوتا، پھر ہم کسی کے ساتھ کیسے بات کریں گے کہ ہمارا استاد ثقہ ہے، ہمارے پاس ثبوت ہونا چاہئے۔ ہوا یہ کہ انہوں نے دس دس حدیثیں لے لیں اور اس میں متن تبدیل نہیں کیا راویوں کو آگے پیچھے کرلیا، کسی کا راوی ادھر لے لیا، کسی کا راوی ادھر کرلیا یعنی راویوں کو آگے پیچھے کرلیا۔ حدیث میں متن الگ ہوتا ہے اور راوی الگ، اصل سند راویوں سے ہوتی ہے اور اصل حدیث پر اسی طرف سے ہی حکم لگایا جاتا ہے کہ وہ کیا ہے، صحیح اور ضعیف کا فتویٰ اسی پہ لگتا ہے۔ بہرحال انہوں نے استاد جی سے کہا کہ حضرت ہم نے آپ سے کچھ احادیث شریفہ سنی ہیں تو سنائیں آپ کو کہ کیا واقعی آپ سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! بالکل سنائیں۔ جب پہلی حدیث شریف انہوں نے سنائی تو اب متن تو صحیح تھا، راوی جب بیان کیے تو انہوں نے کہا کہ بھائی! یہ تم لوگوں نے مجھ سے نہیں سنی، اسے ایک طرف کردو۔ دوسری سنائی، دوسری بھی اس طرح تھی، اب استاد جی کا چہرہ بدلنا شروع ہوگیا کہ یہ کچھ گڑبڑ تو نہیں ہے، یہ قصداً تو نہیں کررہے؟ انہوں نے کہا یہ بھی میں نے تمھیں نہیں بتائی۔ تیسری حدیث بھی اس طرح سنائی، جب تیسری سنائی تو حضرت اٹھے اور تیسرا آدمی سامنے تھا، اسکو کہتے ہیں کہ تو تو یہ کر ہی نہیں سکتا یعنی تو اس قابل نہیں ہے کہ تو اس قسم کی شرارت کرسکے۔ امام صاحب سے کہتے ہیں، تو تو صوفی ہے تو بھی ایسا نہیں کرے گا۔ یحییٰ بن معین سے فرمایا ساری شرارت تیری ہے اور اٹھ کے ان کو ٹھڈے مار مار کے اپنے چبوترے سے نیچے گرا دیا۔ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا کہ میں نہیں کہتا تھا کہ اپنے استاد کے ساتھ نہیں کرتے؟ کہتے ہیں یہی ٹھڈے تو ہمارے سر کے تاج ہیں اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا استاد ثقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے اساتذہ صوفی سمجھتے تھے۔ یہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔

ہمارے اماموں کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتا ہے یہ صوفیاء تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت کے مطابق دو حضرات کے خلیفہ ہیں اور ایک کے مطابق تین کے ہیں، ان میں سے ایک امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ان کے خلیفہ ہیں اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے خلیفہ ہیں یہ دونوں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ہیں۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو اپنے شیخ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: لَوْلَا السَّنَتَانِ لَهَلَكَ النُّعْمَانُ“ اگر یہ دو سال میں نے ان کے ساتھ نہ گزارے ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا یعنی امام ابوحنیفہ ہلاک ہوجاتے۔ تو اتنے زیادہ اپنے شیخ کے ساتھ attach تھے۔ بہرحال! میں عرض کرتا ہوں کہ یہ چاروں امام صوفی تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق کے بیٹے امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں اور ایک حاجی صدر الدین مراشی رحمۃ اللہ علیہ کے بھی خلیفہ ہیں جو ہمارے چشتیہ سلسلہ میں آتے ہیں۔ چاروں امام باقاعدہ صوفیاء کرام گزرے ہیں لیکن ان کا تصوف اتنا مشہور نہیں جتنا کہ ان کا فقہ مشہور ہے۔ جبکہ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے بڑے مفتی تھے لیکن ان کا فتویٰ اتنا مشہور نہیں جتنا کہ ان کا تصوف مشہور ہے۔ یہ بعض حضرات کے ساتھ ایسا ہوجاتا ہے جنکی کئی چیزوں میں specialization ہوتی ہے تو ان کی کوئی specialization زیادہ مشہور ہوجاتی ہے۔

بہرحال! میں عرض کررہا تھا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ما شاء اللہ صوفی تھے تو ان کے پاس صوفیاء بھی آتے تھے اور ان کے پاس علماء بھی آتے تھے کیونکہ یہ دونوں میں تھے۔ ایک دفعہ ایک عالم بیٹھے ہوئے تھے تو ایک صوفی آئے۔ اس عالم کو یہ خیال ہوا کہ اس کو جانچ لوں کہ اس کے پاس کتنا علم ہے۔ ایسا ہوتا ہے بعض دفعہ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سمجھ گئے کہ یہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا بھائی! ایسا نہ کرو، لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے، تمہاری مرضی۔ انہوں نے ان سے پوچھا شیخ! آپ کچھ جانتے ہیں مسائل کے بارے میں؟ کہا کیا مسئلہ؟ کہتے ہیں کچھ زکوٰۃ کے بارے میں؟ کہتے ہیں، ہاں بتائیں، کون سی زکوٰۃ کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں؟ امراء کی زکوٰۃ یا فقراء کی زکوٰۃ؟ اب انہوں نے کہا کہ بھائی امراء کی زکوٰۃ تو میں نے سنی ہے، یہ فقراء کی زکوٰۃ کدھر ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ امراء کی زکوٰۃ تو یہ ہے کہ جب پورا سال گزر جائے صاحب نصاب پر تو اس پہ ڈھائی فیصد دے گا اور فقراء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ جتنا جمع کیا ہے وہ سارا اللہ کے راستے میں صدقہ کردے۔ کہتے ہیں اسکی دلیل کیا ہے؟ کہتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ سب کچھ اللہ کے راستے میں دے دیا اور شکرانہ میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ دے دیں۔ اس پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا کہ اب تسلی ہوگئی؟ میں نہیں کہتا تھا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارفین جو ہوتے ہیں ان کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ انہی کے دور کے بزرگ گزرے ہیں، تو یہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان کی مجلس میں سب سے پہلے جایا کرتے تھے تو بیٹے نے پوچھا حضرت یہ کیا آپ کررہے ہیں؟ ما شاء اللہ آپ اس وقت، وقت کے امام ہیں اور آپ جارہے ہیں ایسے ان پڑھ آدمی کی مجلس میں جو بالکل پڑھا ہوا نہیں ہے؟ آپ نے ان کو سادہ جواب دیا، ان کو فرمایا: ”بیٹا ہر ایک شخص اپنے مطلب کی بات کرتا ہے، میرا اس میں مطلب یہ ہے کہ میں جب ان کی مجلس میں جاتا ہوں تو اپنے علم پر عمل کی توفیق ہوجاتی ہے“۔ یہ تو حضرت نے ان کو جواب دے دیا، ایک اور دوسرے عالم نے پوچھا حضرت آپ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جاکر کیا کرتے ہیں؟ آپ خود امام ہیں آپ کی مجلس میں لوگ آتے ہیں۔ فرمایا: ”دیکھو میں عالم قرآن ہوں گا، اور وہ عارف باللہ ہے تو میں ان کی مجلس میں کیوں نہ جاؤں؟“ یہ میں آپ کو بات بتاؤں، یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں لیکن جن کی سمجھ میں آتی ہیں ان کو وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ ہاں البتہ ہمارے لئے عام باتیں کافی ہیں۔ ہم عام باتوں پہ چلیں، سادہ سادہ باتوں پہ چلیں ہمارے لئے کافی ہیں۔ یہ میں کبھی کبھی اس لئے بتایا کرتا ہوں کہ اگر کبھی کوئی پوچھے تو ہمیں کم از کم معلوم تو ہو کہ یہ چیز کیا ہے، کم از کم بے ادبی سے تو بچ جائیں۔ کیونکہ آج کل دور خطرناک ہے، بے ادبیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں، گستاخیوں سے انسان بچ جائے، کسی اللہ والے کے مقابلہ میں نہ آجائے، کیونکہ یہ خطرناک بات ہے، حدیث شریف ہے ناں کہ جو کسی ولی کو ایذا پہنچاتا ہے تو اللہ پاک کا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ تو اس وجہ سے اگر ہمیں یہ باتیں معلوم ہوں تو ہم کم از کم اپنے آپ کو خطرہ میں تو نہ ڈالیں۔ باقی یہ الگ بات ہے کہ یہ جو دین کی سادہ سادہ باتیں ہیں یہ کافی ہیں۔ یہ زیادہ باتیں اللہ پاک آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھیں گے، وہ جن کا مقام ہوتا ہے اس کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔

خیر میں عرض کررہا تھا کہ ابھی ما شاء اللہ یہ دن چل رہے ہیں، سب سے پہلے تو بات یہ ہے کہ ہم لوگ ان ایام کی قدر کریں، یہ آٹھ روزے تو رکھ ہی لیں تاکہ یہ ایک سال کا روزہ ہوتا ہے اس کا یعنی آٹھ سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ نویں کا جو روزہ ہے وہ تو دو سال کے لئے فرمایا اور روایت مسلم شریف کی ہے مطلب آپ اس کو رکھ سکتے ہیں۔ اور عید قربان پہ جو ہم لوگ قربانی کریں تو اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرلیں۔ ایک ہوتا ہے نَعُوْذُ بِاللہِِ مِنْ ذَالِکَ دل پہ بوجھ ہونا قربانی کے بارے میں کہ افوہ! بڑی مہنگائی ہے، اب تو یہ حالت ہے۔ اور آج کل تو الحاد کا دور ہے، ہر چیز کے اندر گڑبڑ بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا بہت چل رہا ہےناں تو اس میں lumpy skin disease کا شوشا چھوڑتے ہیں، یہ ہر دفعہ عید قربان کے وقت یہ چیزیں نکل آتی ہیں، پہلے دبی ہوتی ہیں اس وقت نکل آتی ہیں، اب میں نہیں کہتا ہوں کہ آپ لمبی skin والے کی قربانی کرو، عیب دار جانور کی قربانی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ عیب دار کسی وجہ سے بھی ہوگیا تو عیب دار کی قربانی نہیں کرنی چاہئے، لیکن اس ڈر کی وجہ سے انسان قربانی ہی نہ کرے یہ غلط بات ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ کیونکہ سب کو تو یہ بیماری ہے نہیں۔ اور نمبر دو بات یہ ہے کہ اگر مثال کے طور پر آپ کو پتا نہیں کہ عیب دار ہے اور وہ عیب دار ہو تو اس ڈر سے کم از کم قربانی نہ چھوڑیں کہ کہیں میں اس کا گوشت کھا لوں گا تو مر جاؤں گا۔ ایسا نہیں ہے، میرے پاس باقاعدہ ابھی ما شاء اللہ یہ رپورٹ آئی ہوئی ہے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی جو انہی چیزوں کا specialist ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ skin disease ہے، یعنی یہ صرف جلد کی بیماری ہے اس کا اندر خون پر بھی اثر نہیں جاتا، اس کا اندر گوشت پہ بھی اثر نہیں جاتا، اس کا اثر دودھ پر بھی نہیں جاتا۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ یہ بات نہیں ہے کہ آپ اس کو استعمال کرلیں گے تو نَعُوْذُ بِاللہِِ مِنْ ذَالِکَ آپ کو بھی یہ بیماری ہوجائے گی۔ نہیں بھائی، یہ transferable لوگوں کو نہیں ہے۔ یعنی اس لحاظ سے کہ اس کا گوشت کھا لیں گے تو آپ کو یہ ہوجائے گا، آپ نہ کریں قربانی اس کی کیونکہ عیب دار ہے اور عیب دار جانور کی قربانی نہیں کرنی چاہئے لیکن یہ نہیں کہ آپ اس کی وجہ سے قربانی چھوڑ دیں۔ یہ آج کل مسئلہ چل رہا ہے، تو بات یہ ہے کہ آپ ما شاء اللہ قربانی شوق اور محبت کے ساتھ کریں۔

اب میں آپ کو کچھ باتیں بتاتا ہوں، آج کل لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ قربانی کرنے کی بجائے آپ یہ پیسے غریبوں کو دے دیں، آج کل بڑی غربت ہے، سفید پوش لوگ ہیں، گھروں میں بیٹیاں بیٹھی ہوئی ہیں ان کو دے دیں، یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ میرے پاس ایک چھوٹی سی بات ہے، آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں مجھے بتاؤ زیادہ ثواب کم ثواب کو آپ ﷺ سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ آپ ﷺ سے زیادہ تو کوئی نہیں جانتا، آپ ﷺ نے حج کے موقع پہ سو اونٹوں کی قربانی کی ہے۔ اس وقت صحابہ کرام غریب تھے یا مالدار تھے؟ اکثر غریب تھے، کپڑے پورے نہیں ہوتے تھے۔ تو اگر اس قسم کی بات ہوتی تو آپ ﷺ یہ پیسے غرباء میں تقسیم نہ فرماتے؟ اس سے کیا پتا چلا؟ اس سے پتا چلا کہ اس کا معاملہ کچھ اور ہے، اس کی نسبت کچھ اور ہے، اس کی نسبت ہے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے ساتھ۔ یہی جواب قرآن نے دیا ہے کہ اس کی نسبت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے ساتھ ہے، اس نسبت کو کہاں سے لاؤ گے؟ ایک صاحب نے نماز جماعت سے رہ گئی تھی تو اس کو پچیس دفعہ پڑھ لیا تو رات کو خواب میں دیکھتا ہے ایک فرشتہ اس سے کہتا ہے پچیس دفعہ تو پڑھ لی ہے لیکن وہ فرشتوں کی آمین کہاں سے لاؤ گے؟ مطلب وہ جو جماعت میں امام کہتا ہے: ﴿وَلَا الضَّآلِّیْنَ اور ساتھ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، آپ کا آمین ان کے ساتھ ملے، وہ کہاں سے لاؤ گے؟ تو اس کا مطلب ہے کہ بھائی وہ نسبت کہاں سے لاؤ گے؟ آپ کروڑوں اربوں خرچ کرلو اور قربانی نہ کرو خسارے میں ہو کیونکہ واجب کے تارک ہو۔ اور اگر آپ نے قربانی کی ہو اور سارا گوشت خود بھی کھا لیا، سبحان اللہ! آپ کی واجب قربانی ہوگئی۔ اب اس کی مزید فضیلت کی بات ہے کہ آپ گوشت غریبوں کو کھلا دیں وہ آپ سے نہیں ہوا لیکن وہ مستحب امر ہے، وہ کوئی واجب امر نہیں ہے، واجب امر پہ آپ نے عمل کرلیا لہٰذا آپ کو کوئی ملامت بھی نہیں کرسکتا کیونکہ تارک مستحب پر ملامت نہیں ہے۔ تو جب یہ بات ہے کہ جو اللہ پاک فرماتے ہیں یہ گوشت اور خون اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتا بلکہ تمھارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے بس اس وجہ سے ہم لوگوں کو قربانی شوق اور محبت کے ساتھ کرنی چاہئے۔

اور اس میں ایک لطیف نقطہ یہ ہے کہ جتنا محبوب جانور ہو اس کو آپ قربان کریں گے تو اتنا آپ کی محبت جو خلق کے ساتھ ہے وہ ذبح ہوگی خالق کے لئے۔ نتیجہ کیا ہوگا کہ آپ خالق کی محبت حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ یہ چیز ما شاء اللہ ہمارے لئے باقاعدہ ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے اللہ پاک نے۔ تبھی تو فرماتے ہیں ناں کہ پل صراط پر چلنے میں ما شاء اللہ یہ ذریعہ بنے گی۔ تو ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے قرب کا یہ بہت بڑا وسیلہ ہے اس وجہ سے ہم قربانی کو محض ایک بوجھ سمجھ کر نہ کریں بلکہ اس کو محبت کے ساتھ کریں۔

آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ بیٹی جس وقت آپکا جانور ذبح ہورہا ہو تو آپ اس کے ساتھ کھڑی ہوجائیں، اس کا مطلب ہے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی کی تھی۔ اب مجھے بتاؤ کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غریب صحابہ میں تھے یا مالدار صحابہ میں سے تھے؟ غریب صحابہ میں سے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کے غرباء بھی زور لگاتے تھے کہ کچھ نہ کچھ کریں۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ سب غریب ہیں تو آپ کرو، میں فتویٰ نہیں دیتا ہوں، مفتی نہیں ہوں، میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ بات محبت کی ہے۔ اگر محبت کے ساتھ آپ یہ کرسکیں تو فضیلت کی بات ہے، نہ کرسکیں تو اس پر آپ کو کوئی جرم نہیں۔ لیکن جس پر واجب ہے اور وہ نہ کرے تو وہ مجرم ہے، مطلب تارک واجب ہے، اس سے پوچھا جائے گا۔ اس نے بہت بڑی فضیلت کو چھوڑ دیا اور بہت بڑا نقصان اپنا کردیا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

آج کل اس مسئلہ میں عورتیں زیادہ مصیبت میں مبتلا ہیں، ان کے پاس زیور ہوتا ہے، وہ زیور اتنا ہوتا ہے کہ اس پہ قربانی لگ جاتی ہے، زکوٰۃ بھی ہوتی ہے۔ اور پھر کہتی ہیں کہ ہمارے پاس اور پیسے ہیں نہیں تو ہم کیا کریں؟ اگر بیمار ہوجاؤ اور اس وقت ڈاکٹر کہہ دے کہ بھائی اتنا اس پہ خرچہ آئے گا اور آپ کے پاس صرف زیور ہو تو کیا کریں گی آپ؟ آپ اس وقت زیور کچھ رکھیں گی؟ بھائی کچھ حصہ اس کا بلکہ سارا ہی بعض دفعہ لوگ بیچ دیتے ہیں۔ بھائی ان میں سے جتنا اگر ہوسکے تو اس کو کرلو اور زکوٰۃ بھی دیا کرو اور ساتھ ساتھ قربانی بھی کرلیا کرو، اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے آپ کو بھی۔ تو بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ یہ قربانی بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔

اس میں اب ان شاء اللہ نو ذی الحج کو ایک اور حکم ہماری طرف متوجہ ہورہا ہے اور وہ ہے تکبیرات تشریق کا۔ تکبیرات تشریق منفرد پر بھی ہیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر بھی۔ اس میں علماء کرام کی تحقیقات ہیں لیکن ہمارے ہاں جو راجع قول ہے اس کے بارے میں بات کرتا ہوں کہ یہ مردوں پر بھی ہے عورتوں پر بھی ہے، جماعت والوں پر بھی ہے اور منفرد پر بھی ہے۔ جماعت والے اس فائدے میں ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی یاد آجاتا ہے تو سب کو یاد آجاتا ہے وہ پڑھ لیتے ہیں، باقی جو منفرد ہوتا ہے وہ اکثر بھول جاتا ہے تو اس کے لئے کچھ محنت اور کوشش کرنی پڑے گی اپنے آپ کو یاد رکھنے کے لئے کہ مجھے پتا ہو کہ میں یہ تکبیر کہہ دوں کیونکہ بعد میں تو نہیں پڑھ سکتے اسی وقت ہی پڑھ سکتے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ تکبیرات تشریق کا وقت کیا ہے؟ اس کا وقت نو ذی الحج کے فجر سے شروع ہوتا ہے اور تیرہ ذی الحج کے عصر کی نماز تک یہ تکبیرات ہم پڑھتے ہیں۔ ایک دفعہ ”اَللہُ أَکْبَرُ اَللہُ أَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَاللہُ أَکْبَرُ اَللہُ أَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ“ پڑھنا چاہئے۔

پھر یہ بات ہے کہ عید الاضحیٰ بڑی شان کی عید ہے، تو اس میں آپ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ﷺ آتے ہی نماز پڑھا دیتے اور پھر اس کے بعد خطبہ ہوتا تھا۔ واللہ اعلم، یہ بھی علماء کرام کی تحقیقات ہیں میں درمیان میں بہت زیادہ بات نہیں کرسکتا۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ خطبہ کے بعد دعا نہیں بلکہ نماز کے بعد دعا ہے۔ مطلب نماز جب ہوجائے گی کیونکہ نماز کے بعد تو دعا ہے ناں کیونکہ وہ تو ثابت ہے، باقی اس کے بارے میں تو ساقط ہے۔ تو نماز کے بعد اگر کوئی دعا کرلے تو ٹھیک ہے۔ بہرحال یہ سمجھانے کے لئے ہے، جیسے ہم باتیں کرتے ہیں، یہ بھی اس کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ مطلب یہ صرف سمجھانے کے لئے ہے، جیسے میں اس وقت یہ بیان کررہا ہوں تو کیا یہ جمعہ کا لازمی حصہ ہے؟ ایسا نہیں ہے، میں اگر سیدھا آتا ہوں اور ادھر جاکر میں خطبہ پڑھ لیتا پھر اس کے بعد نماز ہوجاتی، بس یہاں تک ہے معاملہ۔ یہ ہم عجمیوں کے لئے ایک نظم ہے جس کو ہمارے بزرگوں نے اس لئے شروع کیا کہ آخر دین کس وقت سیکھیں گے۔

ایک بات میں عرض کرتا ہوں یہ جمعہ کی نماز کا جو بیان ہوتا ہے یہ عوام کے لئے ایک ذریعہ ہے دین سیکھنے کا اس وجہ سے اس میں وہی باتیں سمجھانی چاہئیں جو دین کی ضرورت کی باتیں ہیں اور فوری ضرورت کی باتیں ہیں۔ دور دراز کی باتوں کی بجائے جن کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، ان باتوں کے کرنے کی بجائے وہ باتیں جو فرض عین علم کی باتیں ہیں وہ باتیں انسان کرلے تو اس سے ان شاء اللہ سب کو فائدہ ہوتا ہے اور اس وقت اس کے لئے پھر لوگ بھی آتے ہیں۔ لیکن اگر ہم قصے کہانیاں شروع کرلیں تو اس میں لوگوں کو دلچسپیاں نہیں ہوتی پھر بعد میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ خطبہ کے سننے کے وقت آجاتے ہیں۔ مجھے بتاؤ پھر ان کو کیا دین کی سمجھ آئے گی؟ لہٰذا اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ جس وقت جمعہ کا دن ہو تو اپنا وقت فارغ کرلو اور اس کے لئے پہلے سے آجایا کرو۔ ویسے بھی میں بتاتا ہوں کہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے بدعت جو رائج ہوئی ہے وہ جمعہ کی نماز کے لئے تاخیر سے لوگوں کا جانا ہے۔ یہ سب سے پہلے بدعت شمار ہوئی ہے۔ آج کل بعض دفع تو ہم دیکھتے ہیں کہ خطبہ ہورہا ہوتا ہے اور اس وقت لوگ آرہے ہوتے ہیں، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ وہ تو صاف بات ہے اور حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ جس وقت پہلے جو آتا ہے اس کو ثواب اونٹ کا ملتا ہے، پھر اس کے بعد گائے کا، پھر اس کے بعد مرغی کا، پھر انڈے کا اور پھر اس کے بعد فرشتے خطبہ سننا شروع کرلیتے ہیں اور رجسٹر بند ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں آنے والے حضرات تھوڑا سا سوچیں کہ وہ اپنے ساتھ کیا کررہے ہیں، خیر کا معاملہ کررہے ہیں یا نقصان کا معاملہ کررہے ہیں؟ تو ہمیں بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ یہ دین کو سیکھنے کے لئے ہمارے پاس ایک platform ہے، اس پر ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ دین بہت سارے ذریعوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، کتاب سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، سوشل میڈیا سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، انٹرنیٹ سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، لوگوں سے مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن جس چیز میں تقدس ہوتا ہے اس میں ساتھ ساتھ عمل بھی آتا ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ مثلاً ایک آدمی کو اللہ کے ساتھ محبت ہے اور وہ اللہ کی بات سنتا ہے تو عمل کرنے کا chance کتنا ہے اور دوسرے آدمی کو یہ کیفیت نہیں ہے تو وہ کتنا کرے گا؟ اس کو صرف discussion کا ایک ذریعہ بنائے گا اس کے اوپر عمل کی بات نہیں ہوگی۔ اب یہ مجھے بتائیں کہ مسجد کے ماحول سے بہتر ماحول کون سا ہے؟ بہترین جگہیں کون سی ہیں؟ مساجد ہیں اور بدترین جگہیں کون سی ہیں؟ بازار ہیں، تو اب جب بہترین جگہ پہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور آئے ہیں نماز کے لئے اور نماز کے انتظار میں بیٹھنے والا نماز میں شامل ہے یا نہیں ہے؟ تو سارے لوگ جتنے بھی نماز کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہیں وہ نماز میں شامل ہیں اب اس وقت اگر آپ کو کوئی دین کی بات بتائی جارہی ہے تو اس پر عمل کی توفیق زیادہ ہوگی یا اس کو سوشل میڈیا سے کوئی بات سمجھ میں آرہی ہے یا کسی اور طریقہ سے آپ کو کوئی بات کا پتا چل رہا ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق زیادہ ہوگی؟ اس وجہ سے ان چیزوں کی قدر کرنی چاہئے، یہ چیزیں آہستہ آہستہ ہمارے ہاں سے مٹتی جارہی ہیں تو اس کا نقصان پھر کیا ہوگا؟ اصل علم اٹھا جارہا ہے، الفاظِ علم کچھ نہ کچھ آرہے ہیں۔ اصل علم کے ساتھ معرفت ہوتی ہے، اس کے ساتھ عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ کیونکہ علم کو نور کہا گیا ہے۔ وہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والی بات ہے ناں کہ انہوں نے اپنے استاد وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت مجھے سوء حفظ کا مسئلہ ہے تو تھوڑا سا مجھے کچھ طریقہ بتائیں۔ فرمایا گناہ چھوڑ دو، کیونکہ علم ایک نور ہے وہ عاصی کے دل میں نہیں آتا۔ تو اس کو ایک نور کہا گیا ہے تو نورانی ماحول میں آئے گا ناں۔ نورانی ماحول میں نور آتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگ یہاں ان چیزوں کو بہت ضرورت سمجھیں اپنی۔ تو آئندہ جب بھی آئیں جمعہ کے لئے تو سویرے آجایا کریں۔ اس کا انتظار نہ کریں کہ امام آئے۔ دیکھو! امام نہیں آیا ہوا تو آپ بیٹھ کر تلاوت کریں، نماز کا وقت داخل ہوچکا ہو، زوال گزر چکا ہو تو آپ نماز پڑھ لیں۔ تو بہرحال حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔

اور ایک بات میں اور عرض کرتا ہوں جو ذرا صوفیانہ بات ہے، وہ یہ کہ دیکھو! نماز ہم سب کے اوپر فرض ہے اور ہم ہر وقت پڑھتے ہیں اَلْحَمْدُ للہ لیکن نماز کا ہمارے اوپر جو اثر ہونا چاہئے وہ نہیں ہے۔ وہ کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ ہم نے نماز کو routine کے مطابق لیا ہے۔ نماز کی عبادت والی بات آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے تو اس کا پھر یہ کیا ہوتا ہے، اس کو عبادت کے مفہوم میں لانے کے لئے جیسے:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

تو نماز سے پہلے آکر کم از کم تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ کر یہ سوچا کریں کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہورہا ہوں؟ اور میرا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ دیکھیں! میں آپ کو بات بتاؤں، جج کے سامنے جب انسان جاتا ہے جو اس کا فیصلہ کرنے والا ہو کہ بری کرنا ہے یا پھانسی دینی ہے، اس وقت اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اکڑ کے چلتا ہے؟ نہیں، اس وقت بڑی عاجزی اور بہت زیادہ apologizing ہوتا ہے، وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ بس جان نکل رہی ہے۔ تو ایسی صورت میں ہم ہوں، یہ اللہ پاک کا حکم ہمارے اوپر حاوی ہے ہر چیز میں حاوی ہے جس وقت اللہ چاہے کہ تو ختم ہوجا تو بس ختم، درمیان میں کوئی بات ہی نہیں ہے۔ تو اب جب یہ صورتحال ہے تو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے، تو علی کرم اللہ وجہہ جب نماز میں کھڑے ہوجاتے تو رنگ زرد ہوجاتا۔ لوگوں نے کہا حضرت! یہ کیا بات ہے، آپ کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، فرمایا: ”اللہ غفورٌ رحیم کے سامنے کھڑا ہونا ہے“۔ یہ دیکھیں، یہ سوچ لیں کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا کیا معاملہ ہے، ہم لوگ کبھی سوچتے بھی نہیں کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہورہے ہیں۔ جس وقت ہم نماز پڑھیں ”اَللّٰہُ أَکْبَرُ“ یہ تکبیر تحریمہ ہے۔ تکبیر تحریمہ کیا ہے؟ مطلب تمام چیزیں تمھاری حرام کرنے والی ہیں نماز کے علاوہ آپ کے اوپر۔ اب آپ نے سب کو پشت کی طرف ڈال لیا اور اللہ کی طرف رخ کردیا۔ ﴿اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ (الانعام: 79) مطلب والی بات کہ اللہ کی طرف میں اب رخ کرلیتا ہوں، تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ اگر ہم لوگ نماز سے تھوڑی دیر پہلے پانچ منٹ، دس منٹ پہلے یہ مراقبہ کرلیا کریں، سوچا کریں مراقبہ کا لفظ ذرہ heavy ہے، سوچا کریں کہ میں کس لئے آیا ہوں، اور اللہ کے سامنے کس لئے کھڑا ہورہا ہوں، اور اللہ پاک کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے؟ بس اس چیز کو جان کر جب آپ نماز پڑھیں گے تو اس نماز میں جان آئے گی۔ آہستہ آہستہ اس کو بڑھایا کریں ان شاء اللہ العزیز۔ ابھی عید کا سماں بھی آرہا ہے، عید میں ایک بات یاد رکھئے، عید کا مطلب ہے خوشی تو عید خوشی ہے لیکن خوشی کا مطلب جائز طریقہ سے خوشی ہو، ناجائز خوشی نہیں۔ ہر چیز میں جائز طریقہ ہوتا ہے، غم بھی ناجائز ہوتا ہے، جائز بھی ہوتا ہے اس طرح خوشی بھی جائز بھی ہوتی ہے ناجائز بھی ہوتی ہے تو ہر چیز کی جائز صورت اختیار کرلو۔ اس سے آپ کی روح کو بھی خوشی ملے گی جسم کو بھی خوشی ملے گی۔ اور اگر آپ اس کو ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں تو جسم کو خوشی مل سکتی ہے لیکن روح خفا ہوگی، روح تنگ ہوگی۔ آپ کو روحانی اطمینان نہیں حاصل ہوگا۔ اس وقت اتنے سارے مریض ہیں بے اطمینانی کے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں، جن کا مسئلہ ہی صرف یہ ہے کہ ہمیں اطمینان نہیں ہے، ہمیں پریشانی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں پتا بھی نہیں کہ کیوں نہیں ہے اطمینان لیکن اطمینان نہیں ہے۔ تو اطمینان کے جو ذرائع ہیں وہ ہم نے ختم کرلیے اب مجھے بتاؤ اطمینان کیسے حاصل ہو؟ تو یہی بات ہے کہ:

﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُﭤ (الرعد: 28)

ترجمہ: "یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے"

آگاہ ہو جاؤ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہوجاتا ہے۔ پس ہماری نماز کے اندر اصل ذکر آجائے:

﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ (طہ: 14)

ترجمہ: "اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو"

نماز قائم کرلو میری یاد کے لئے تو اصل یاد یہ بات ہے کہ مجھے اللہ یاد رہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں جیسے ہم اللہ اللہ کررہے ہیں تو یہ ذکر ہے۔ یہ ذکر کی ابتدائی صورت ہے، اصل ذکر کیا یہ ہے کہ مجھے اللہ یاد رہے۔ اس وقت مجھے پتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، مسجد میں ہوں، میں بار بار نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں مسجد میں ہوں، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں میں مسجد میں ہوں۔ یہ نہیں کہہ رہا لیکن مجھے پتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں مسجد میں ہوں۔ اس طرح میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ مجھے یاد رہے۔ بس یہ چیز اصل ذکر ہے، اگر ہمیں یہ حاصل ہوگیا تو یہ تمام اذکار کا نتیجہ ہے۔ اگر نماز میں یہ آجائے تو پھر نماز نماز بن جاتی ہے۔ ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ (طہ: 14) اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ- وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: "بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے"۔

﴿وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ یعنی جس کی نماز میں ذکر آگیا، سبحان اللہ! وہ تو بڑی چیز ہے، پھر تو وہ تمام چیزوں کو ختم کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے آپ کو بھی۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

عشرہ ذی الحج کے مبارک ایام کی سعادتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھانا - جمعہ بیان