سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 573

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت جی، السلام علیکم! میں فلاں عرض کر رہا ہوں۔ مجھ میں یہ عیب ہے کہ دوران تصوف مجھ پر جو آزمائشیں آئیں اور جن لوگوں نے مجھے تکلیفیں پہنچائیں، ان کے بارے میں جب محفل میں بات ہوتی ہے تو باوجود اس کے کہ میں دل سے ان کو معاف کرچکا ہوں مگر پھر بھی ان کی غیبت میں شامل ہوتا ہوں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

غیبت گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےوقوفی بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ مثلاً انسان اگر کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو ظاہر ہے وہ نفع اپنے کسی پسندیدہ شخص کو ہی پہنچانا چاہے گا، اب دنیا میں کسی کو نفع پہنچانا ایک الگ بات ہے اور آخرت میں نفع پہنچانا اس سے کہیں زیادہ اہم اور اعلیٰ بات ہے، لیکن جس شخص کی غیبت کی جارہی ہو، ظاہر ہے وہ اس کے پسندیدہ افراد میں شامل نہیں ہوتا، چاہے انسان اسے معاف بھی کرچکا ہو، تب بھی دل کی گہرائی میں وہ پسندیدہ نہیں ہوتا، اس لیے اگر اس کی وجہ سے طبیعت میں انقباض ہو، اس سے بات کرنے کو دل نہ چاہے، طبیعت اس پر نہ آئے، تو یہ کوئی قابل گرفت بات نہیں، کیونکہ انقباض ایک غیر اختیاری چیز ہے، لیکن اگر ایسی حالت میں انسان اس کی غیبت میں شامل ہوجائے تو یہ سراسر بیوقوفی ہے، کیونکہ وہ اپنی نیکیاں اس شخص کو دے رہا ہے جو اس کے دل کو پسند نہیں، تو گویا ناپسندیدہ لوگوں کو نفع پہنچا رہا ہے، اور یہ بے وقوفی کی انتہا ہے، اس لیے جب بھی کسی مجلس میں اس قسم کی بات ہو تو انسان دل میں اعادہ کر لے کہ میں تو بیوقوف نہیں بننا چاہتا، اور خود کو ایسی باتوں سے دور رکھے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم، میرا نام فلاں ہے، میں نے ابھی حال ہی میں میٹرک کا امتحان دیا ہے۔ میں شانگلہ سے تعلق رکھتا ہوں، مہربانی فرما کر مجھے ذکر دے دیں۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ یہ ذکر شروع کر لیں: تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘، یہ تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ ہے۔ دو سو دفعہ اس کا دوسرا حصہ یعنی’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘۔ آپ ایک مجلس میں دونوں کرلیا کریں اور اس میں ناغہ بالکل نہ کریں، چالیس دن تک مسلسل روزانہ اس کو کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس دفعہ ’’اَلْحَمْدُ للهِ‘‘، چونتیس دفعہ ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی، اس کو عمر بھر کے لئے کرتے رہیں۔ چالیس دن کے بعد مجھے بتائیے گا تاکہ پہلے والے وظیفے کو تبدیل کیا جائے۔

سوال نمبر 3:

حضرت

It's getting very difficult to abstain from sins. Mobile is destroying my آخرت. It’s very shameful. I am getting disgusted by myself. حالات is changing in minutes. Neither I am enjoying the sins nor I am able to stay away from them completely. I feel disgust while sinning and move away from it but still I can’t stop it completely and thoughts are coming in my mind like bullets. I am doing the ذکر that was supposed to be done making little sound but I can’t do the ظاہری ذکر rather I am chanting at low voice like we do in رکوع and سجود. Is there any problem in this?

جواب:

You should stop using a smartphone. You should use only a simple phone. For communication, cou can use a smartphone in the presence of someone, not alone.

سوال نمبر 4:

Why is علاجی ذکر or مراقبہ not continued throughout life? During مراقبہ one is able to overcome نفس instantly and is able to do عبادات and other things more nicely. Then why it is stopped? جزاک اللہ خیراً

جواب:

یہ وہ سوال تھا جو مجھ سے کیا گیا تھا اور اپنے جوڑ میں اس کا تفصیلی جواب الحمد للہ میں دے چکا ہوں، تقریباً سارا بیان اسی پر ہوا تھا۔ بہرحال مختصر جواب یہ ہے کہ یہ جتنے بھی علاجی اذکار ہیں، یہ مقصد کے طور پر نہیں بلکہ ذریعہ کے طور پر ہیں۔ لہٰذا ذریعہ سے جو مقصد ہے وہ بنیادی بات ہوتی ہے حاصل کرنے کی، اور جو ذریعہ ہوتا ہے وہ depend کرتا ہے کہ آیا اس سے مقصد حاصل ہورہا ہے یا نہیں۔ اگر ہورہا ہے تو اچھی بات ہے، استعمال کرنا چاہئے، اور جب مقصد حاصل ہوجائے تو پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ مثلاً میں دوائی لیتا ہوں اگر خدانخواستہ بیمار ہوں، تو جب بیماری ٹھیک ہوجاتی ہے تو دوائی بند کر دیتا ہوں، لیکن کھانا پینا بند نہیں کرتا، وہ تو موت تک جاری رہے گا کیونکہ اسی پر زندگی قائم ہے۔ دوائی اصل غذا کے قابل بنانے کے لیے ہوتی ہے۔

ایک دفعہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ایک عورت اپنا بیٹا لے آئی کہ حضرت اس کی تربیت فرمائیں اور خانقاہ میں داخل کریں۔ حضرت نے فرمایا چھوڑ دیں۔ کچھ دنوں بعد وہ ماں اس سے ملنے آئی، دیکھا کہ بیٹے کے سامنے خشک روٹی ہے اور حضرت کے سامنے مرغ مسلم ہے، وہ حضرت کھا رہے تھے۔ ماں کو تکلیف ہوئی، کہا کہ میں نے تو تربیت کے لیے بھیجا تھا، تکلیف دینے کے لیے نہیں کہ آپ مرغ مسلم کھا رہے ہیں اور یہ خشک روٹی کھا رہا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو اس مرغ مسلم کے کھانے کے قابل بنا رہا ہوں کہ یہ کھا سکے۔

ایک غذا جسمانی ہوتی ہے اور ایک روحانی۔ جسمانی غذا اگر معدہ ہضم نہ کر سکے تو روک دی جاتی ہے، نرم غذا دی جاتی ہے، کچھ fluid دیا جاتا ہے تاکہ زندہ رہے لیکن معدہ پر بوجھ نہ پڑے۔ جب معدہ ٹھیک ہوجائے تو سب کچھ کھانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ میرا گلا خراب ہوتا تھا، ڈاکٹر وجاہت اللہ بنگش ENT Specialist کے پاس گیا، اس نے گلا دیکھ کر کہا کہ گزارا تو ہوسکتا ہے لیکن علاج کر لو تاکہ سب کچھ کھا سکو، ورنہ پرہیز کرنا پڑے گا۔

اسی طرح علاجی ذکر اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ غذائی ذکر دوامی حاصل ہوجائے، کیفیت احسان حاصل ہوجائے، اور نفس مطمئنہ حاصل ہو۔ نفس مطمئنہ کے لیے نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے، مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، اور غذائی ذکر کو حاصل کرنے کے لیے کیفیت احسان حاصل کرنے کے لیے علاجی ذکر کرنا پڑتا ہے۔ اسی طریقہ سے combination مختلف بنتی ہیں۔ اسی طریقے سے یہ بات سامنے آئی تھی، بہرحال اس وقت پورا بیان اسی پر ہوا تھا۔

سوال نمبر 5:

ایک خاتون نے سوال پوچھا کہ میرا عالمہ کا کورس پورا ہوچکا ہے ابو کہتے ہیں کہ کسی سرکاری سکول میں teaching کی کوشش کرو اور اسلامیات کے لئے ٹیچر لگ جاؤ۔ مجھے یہ کرنا چاہئے یا نہیں، شریعت کا میرے لئے کیا حکم ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ لڑکیوں کے سکول میں ٹیچنگ کرنا درست ہے۔ پھر میں نے اسے اس کی کسی خاص حالت کے بارے میں ایک وظیفہ دیا تھا۔ اس نے کہا کہ وظیفہ تو میں نے شروع کر لیا ہے، لیکن اس کے ساتھ میرے معمولات چھوٹ رہے ہیں۔ درود شریف کا ورد بھی نہیں کر سکتی۔ اگر میں وقفہ وقفہ کے ساتھ پڑھوں تو کوئی حرج تو نہیں؟ مطلب ہر نماز کے بعد سو سو مرتبہ اور وقفہ کے ساتھ، کیونکہ میں مدرسہ بھی جاتی ہوں اور گھر پر بھی کام ہوتا ہے۔ معمولات بھی ہیں، تو مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

جواب:

جہاں تک تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا تعلق ہے، وہ آپ تقسیم کر سکتی ہیں۔ یہ غذائی اذکار ہیں۔ تلاوت بھی آپ وقفہ وقفہ سے کر سکتی ہیں۔ لیکن جہاں تک وہ خصوصی ذکر ہے جو میں نے آپ کو آپ کے مسئلہ کے لئے دیا ہے، وہ ایک وقت میں کرنے کا ہے۔ اس کی مثال exercise کی طرح ہے۔ اگر کوئی خاص exercise آدھا گھنٹہ کرنی ہو، اور آپ اسے دس دس منٹ میں تقسیم کر لیں تو وہ مطلوبہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ خاص ذکر بھی ہے، اس کو مکمل ایک وقت میں کرنا ہوگا۔ باقی اذکار کے بارے میں میں نے آپ کو وضاحت کر دی ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم حضرت میرے مرشد، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی، اَلْحَمْدُ للہ حسد کا مرض تو کافی حد تک control میں آگیا ہے، لیکن ابھی مجھے عُجب کا مرض تنگ اور پریشان کر رہا ہے۔

جواب:

عُجب کا بہت آسان علاج ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں عُجب ہے تو کہہ دیں: اگر پہلے میں اچھا بھی تھا تو اب عُجب کے ہوتے ہوئے تو اچھا نہیں ہوسکتا۔ عُجب تو حرام ہے، تو میں کیسے اچھا ہوں؟ تو اس سے عُجب کا علاج خود بخود ہوجائے گا، کیونکہ عُجب میں انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے۔ تو جب آپ کو پتا ہے کہ عُجب بیماری ہے اور بری چیز ہے، تو پھر میں کیسے اچھا ہوں؟ اپنے اچھا ہونے سے آپ خود ہی ان کار کر لیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم

I am فلاں. I wanted to ask you something. I want to listen to your lectures. I feel very disconnected from you but I don’t know how to make time? I wake up at 05:00 am in the morning and up to 06:00 am I do فجر نماز and Quran recitation. Then I study and go to sleep and at 09:00 am I go to college. From 12:00 am to 01:00 pm there is a break then again at 05:00 am college. Then I come back and study and do the Quran recitation and then اذکار at 12:00 pm and then sleep. I feel bad and disconnected. I feel like I am going away from اللہ تعالیٰ and you. I want اللہ تعالیٰ to pull me towards Him. I know I need to put some effort on my own but I am weak. Please make dua for me that اللہ تعالیٰ pull me towards Him and I missed you very much. Please don’t leave me when I do something wrong. Please don’t scold me when I do something wrong please. Don’t ignore me this month I will definitely try to do all my prayers regularly ان شاء اللہ. please make dua for me that I leave all the wrong things I am doing. sorry if I wrote anything wrong. may اللہ تعالیٰ give you very healthy long healthy life Ameen

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کے ارادے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھا ارادہ عطا فرمایا ہے، اور ان شاء اللہ، اللہ پاک آپ کی مدد بھی فرمائیں گے۔ لیکن آپ نے سستی نہیں کرنی۔ سستی کا علاج چستی ہے، لہٰذا جب کبھی سستی غالب آ جائے تو اسے اختیاراً چھوڑ دیں۔

آپ جو پڑھائی کر رہی ہیں، وہ ماشاء اللہ آپ کی regular تعلیم ہے، اور ساتھ جو نماز پڑھ رہی ہیں، وہ تو فرض عبادت ہے، اس سے کون روک سکتا ہے۔ نماز بھی پڑھنی ہے، قرآن بھی پڑھنا ہے، لیکن ساتھ جو ذکر میں نے آپ کو دیا ہے، وہ بھی بہت زیادہ نہیں ہے، اسے بھی شامل کر لیا کریں۔

تیسرا کلمہ، درود شریف، اور استغفار جیسے اذکار آپ چلتے پھرتے بھی کر سکتی ہیں، مثلاً کالج جاتے ہوئے راستے میں۔ اور مراقبہ بیٹھ کر کر لیا کریں۔ جہاں تک lectures کا تعلق ہے، آج کل لوگ کانوں میں ہینڈز فری یا ایئرفون لگا کر گانے سنتے ہیں، تو آپ mp3 player میں بیانات ڈال کر انہیں راستے میں سن سکتی ہیں۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ آپ کا وقت بھی اچھے انداز میں استعمال ہوجائے گا۔ اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے اور ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھے۔

سوال نمبر 8:

ایک صاحب نے پوچھا کہ حضرت زندگی میں direction ہونے کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

میں نے کہا: "تم زندگی کا مقصد پوچھنا چاہتے ہو؟" اس نے کہا: "زندگی کا مقصد تو خدا کو راضی کرنا ہے۔" میں نے کہا: "بالکل صحیح، لیکن ہر مقصد کے لیے کوئی ذریعہ ہوتا ہے۔" پھر میں نے وضاحت کی کہ اس کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں بیان فرمایا ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)

ترجمہ:1 "اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں"۔

پس عبادت ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ راضی ہوتے ہیں، اور جب عبادت سنت طریقے پر کی جائے، تو یہی ہماری زندگی گزارنے کی اصل direction ہے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم حضرت جی! مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا ہے جس سے ہر کوئی پریشان ہے۔ اس میں ہم کیا تدبیر اختیار کر سکتے ہیں؟ جیسے کفایت شعاری، قناعت اور صبر کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن ان پر عمل کے لیے کون سی حکمت عملی اپنائی جائے؟ کیونکہ نفس بہت سی چیزوں کا مزہ چکھ چکا ہے، انہیں چھوڑنے کا جی نہیں چاہتا۔ باوجود حالات کے دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ لوگوں، خاص طور پر رشتہ داروں میں ہماری کمی ظاہر نہ ہو۔ شادی بیاہ اور عید کی شاپنگ میں کمی کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔

حضرت جی! اس کے ساتھ یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ کیا مہنگائی ہمارے اعمال کے سبب سے ہے؟ اور انفرادی سطح پر ہم کیا کریں؟ کیا صبر و قناعت ہی اس کا حل ہے؟

جواب:

یہ مہنگائی صرف یہاں نہیں ہے، یہ پوری دنیا میں ہے۔ آج کل مختلف عوارض جیسے Corona اور Ukraine جنگ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ ان کے پاس تو اور کوئی تدبیر نہیں ہے، وہ تو صرف چیخنا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ ہمارے پاس صبر اور شکر والا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ نصیب فرما دیتے ہیں تو ہمارے لیے آسانی ہوجاتی ہے۔

باقی یہ ہے کہ انسان نہیں چھوڑنا چاہتا تو کس نے کہا کہ انسان چھوڑنا چاہتا ہے؟ نفس تو ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن کیا نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہیے؟ نفس کی ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی، البتہ جو جائز ہے وہ پوری کی جاسکتی ہے۔

میرے خیال میں ایک تو مہنگائی کی بات ہے، دوسرا یہ ہے کہ کسی کے پاس پیسے ہی نہ ہوں۔ اکثر صحابہ کرام غریب تھے، ان کے پاس کپڑوں کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، ایک دوسرے کے پیچھے چھپتے تھے۔ کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا۔ تو کیا یہ سب کچھ صرف ہمارے لیے ہے؟ ظاہر ہے وہ تو بڑے لوگ تھے اور انہوں نے کیسے زندگی گزاری۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دجال کے وقت میں بڑے مشکل حالات ہوں گے، اس وقت انسان ذکر پر گزارا کرے گا۔ تو اُس وقت کا تصور کر لیں۔ اس وجہ سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔

ایک ہوتا ہے اضطراری صبر، اور ایک ہوتا ہے اختیاری صبر۔ اگر اختیاری صبر نہیں کر سکتے تو اضطراری صبر کرنا پڑتا ہے۔ اضطراری صبر تب ہوتا ہے جب انسان کے پاس راستہ ہی نہ ہو۔ باقی یہ کہ فی الحال ہمارے حالات ویسے نہیں ہیں جیسے پچھلے لوگوں پر آئے تھے۔ اس لیے ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ ابھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ ہم خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ ضروریات تو تقریباً پوری ہورہی ہیں۔ تو ان پر شکر کریں تاکہ اللہ پاک مزید آسانی پیدا فرمائیں۔ صبر تو اضطراری کرنا پڑے گا، لیکن شکر اختیاری کرنا پڑے گا۔ اس طرح صبر اور شکر سے انسان کو زندگی گزارنی ہوگی۔ طریقہ یہی ہے۔

دوسری بات یہ کہ آمدنی limited ہوتی ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ میری آمدنی زیادہ ہو، لیکن کیا ہر خواہش پوری ہوتی ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ کہتے ہیں اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھلاؤ۔ تو اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں۔ مثلاً حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں سرکہ ہے تو یہ نہ کہے کہ میرے گھر میں سالن نہیں ہے۔ سرکہ کوئی مہنگی چیز نہیں، اور یہ خراب بھی نہیں ہوتی۔ ہم کئی کئی کھانے ایک وقت میں کھانے کے عادی ہیں، تو کم از کم ایک وقت میں ایک ہی ڈش کافی ہونی چاہیے۔ یہ سب کچھ سیکھنا پڑے گا۔ حالات جیسے بھی ہوں، ان کے مطابق چلنا سیکھنا ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب سے راضی ہوجائیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر، اس کے علاوہ لطیفہ قلب، روح اور سر دس منٹ اور لطیفہ خفی پندرہ منٹ کیا ہے۔ ناغہ نہیں ہوا البتہ ذکر اور مراقبہ دونوں بوجھل دل اور دباؤ کے ساتھ مکمل کئے۔ بارہ گھنٹے ڈیوٹی ہے، اس لئے دفتری مصروفیات کے باعث رات سونے سے پہلے ذکر اور فجر کے بعد مراقبہ کرتا رہا۔ مہینہ مکمل ہوچکا ہے، لطائفِ قلبی محسوس ہوتے ہیں۔ ایک دن کا ناغہ ہوا لیکن اس کی قضا مکمل کی۔ حضرت! دورانِ ذکر قبض کی سی کیفیت پیدا ہوتی رہی، اور نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ ذکر کرواتے رہے۔ آئندہ کے لیے آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

جواب:

یہ تو بارہا عرض کر چکا ہوں کہ اگر انسان کا ذکر کرنے کو جی چاہے تو اس سے صرف دل کو فائدہ ہوتا ہے، اور اگر جی نہ چاہے اور پھر بھی کرے تو نفس کا بھی علاج ہوتا ہے، کیونکہ نفس کی مخالفت بھی ہوجاتی ہے۔ تو جب ایک عمل سے دل اور نفس دونوں کو فائدہ ہورہا ہو تو اسے کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ ابھی ایک مہینہ مکمل ہوا ہے، تو اب اخفیٰ پر پندرہ منٹ کریں اور باقی چار لطائف پر دس دس منٹ۔

سوال نمبر 11:

علامہ اقبال کا ایک شعر ہے جس اس میں انہوں نے کہا ہے کہ: ؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگيری

اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب:

علامہ اقبال مرحوم کی زندگی کے کئی stages تھے۔ کیونکہ وہ شاعر بھی تھے اور صاحب بیان بھی تھے، اس لئے انہوں نے ہر stage میں باتوں کو اچھی طرح بیان کیا ہے۔ جیسے ان کا ایک شعر یہ بھی ہے کہ: ؎

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ سوشلزم اور کیمونزم سے متاثر تھے، اور کسی وقت غلام احمد قادیانی وغیرہ سے بھی متاثر تھے، تو ظاہر ہے اُس وقت جو اشعار کہے گئے اُن پر ان اثرات کی چھاپ تھی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا پلٹ گئی۔ پھر انہوں نے جو اشعار کہے، ان میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا پیر کہا اور خود کو مرید ہندی کہا۔ وہ اپنے اشعار میں مثنوی مولانا روم کا ذکر کرتے ہیں۔ منگل والے دن جب ہم اس پر بات کرتے ہیں تو مثنوی میں کہیں نہیں کہا گیا کہ خانقاہوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اس لئے اس شعر کی تاویل ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ خانقاہ اگرچہ تربیت گاہ ہے، لیکن تربیت ہمیشہ نہیں چلتی رہتی، بلکہ یہ مکمل بھی ہوتی ہے، اور جب تربیت مکمل ہوجائے تو اس کے بعد عمل میں آنا ہوتا ہے، میدان میں اترنا ہوتا ہے۔ خانقاہ سے تربیت لے کر انسان باہر آتا ہے، تاکہ اُس تربیت کو عملی زندگی میں implement کرسکے۔

مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ وہ جب بھی گشت کے لئے میوات جاتے تو فرماتے کہ اچھے لوگوں کی صحبت میں جانے کے باوجود دل پر اثر ہوتا ہے، اور پھر رائے پور یا سہارنپور کی خانقاہ میں چلے جاتے، یا اعتکاف کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہ سے جو نور ملتا ہے، وہ باہر کے کام میں استعمال ہوتا ہے، اور باہر کا کام دل کے نور کو متاثر بھی کرتا ہے، جس کو regain کرنے کے لئے خانقاہ لوٹنا پڑتا ہے۔

کچھ لوگ میدان میں جاتے ہیں پھر واپس آتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے خانقاہ چل رہی ہوتی ہے، تو ان کا مستقل خانقاہ میں بیٹھنا بھی مجبوری کے تحت ہوتا ہے اور وہی صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔ وہ خود باہر نہ جا کر بھی ان لوگوں کے عمل میں شریک ہوتے ہیں جو میدان میں نکلتے ہیں۔

مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ جب رائے پور جاتے تو وہاں شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ تھے، سہارنپور میں شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ تھے، تو خانقاہیں اُن سے چل رہی تھیں، اور ان کو کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ بھی میدان میں نکلیں۔ اس طرح کچھ لوگ موبائل ہوتے ہیں، اور کچھ پیچھے source بنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا علامہ اقبال نے صرف اُن لوگوں کے لئے کہا ہے جو تربیت مکمل کرکے میدان میں جانے والے ہوتے ہیں، ان کے اشعار کی تاویل اسی طرح کی جاسکتی ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی کیا مرید کے لئے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ میرا سلوک طے کیا جارہا ہے یا صرف شیخ کے علم میں ہونا کافی ہوتا ہے کہ مرید کا سلوک طے کیا جارہا ہے اور مرید کے لئے صرف شیخ کی ہر بات کا اتباع کرنا کافی ہوتا ہے؟

جواب:

اس معاملے میں کوئی Hard and fast rule نہیں ہے۔ بعض دفعہ پتہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نہیں ہوتا، اور یہ شیخ کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ کب بتایا جائے اور کب نہ بتایا جائے۔ جیسے ڈاکٹر کے پاس کبھی کینسر کا patient آجاتا ہے تو اگر مریض کو بتانے میں نقصان ہو کہ وہ depression میں چلا جائے، نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجائے یا Weight loss کرنا شروع کر دے تو پھر اسے نہیں بتایا جاتا، لیکن علاج جاری رہتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات مریض کو بتانا مناسب ہوتا ہے اور بعض اوقات نہیں۔

عموماً جو special قسم کی treatment ہوتی ہے وہ بغیر بتائے کی جاتی ہے، اور یہ وقت، حالات اور مصلحت کے مطابق ہوتا ہے۔ بعد میں بے شک بتا دیا جاتا ہے، جیسے مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے شیخ نے فرمایا کہ آپ کی تکمیل کے لئے بعض باتیں بغیر بتائے کی گئیں۔ اسی طرح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ان کے شیخ نے بتایا تھا کہ آپ کی تکمیل کے لئے بعض باتیں نہیں بتائی گئیں۔ اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا کہ اگر پوری صحیح بات کر دوں تو لوگوں کا ذوق و شوق ختم ہوجاتا ہے، اور اگر پوری بات نہ کروں تو صحیح اور غلط آپس میں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔

سوال نمبر 13:

بندہ کی حضوری تقریباً چوبیس گھنٹوں میں بائیس گھنٹے رہتی ہے۔ اس میں کبھی زیادتی ہوتی ہے اور کبھی کمی ہوتی ہے۔ دماغ جیسے روشن روشن رہتا ہے۔ حضرت جی! جسم کے فنا کے بعد جو وجود حاصل ہوتا ہے، اسے وجود حقانی کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

یہ جو فنا ہوتا ہے، یہ وجودی نہیں بلکہ شہودی ہوتا ہے، اور بقا بھی اسی طرح ہوتی ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں میں اپنے شیخ کی بات عرض کرتا ہوں۔ اصل میں بہت سی باتیں جو پہلے درست تھیں، اب مسائل بن چکی ہیں۔ پہلے ان معارف کی ضرورت تھی، لیکن اب لوگ انہی میں الجھ کر اصل بات کی طرف نہیں آتے۔

میں نے کچھ ایسی ہی باتیں اپنے شیخ سے کیں تو حضرت نے فوراً فرمایا: "دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔" حضرت کی برکت سے الحمدللہ دل بالکل اس طرف مائل نہیں رہا اور اصل چیز کی طرف متوجہ ہوا۔ وہی ذوق جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، الحمد للہ وہ نصیب ہوا۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ معارف ابرِ نَیساں کی طرح برس رہے ہیں، اور راستے کی تمام چیزیں دکھا دی گئیں، مگر وہ سب گزر گئیں۔ اب صرف ایک ہی فکر ہے کہ کوئی سنت متروکہ ہو تو اسے زندہ کیا جائے۔ پھر فرمایا کہ اصل میں تین چیزیں ہیں: علم، عمل اور اخلاص۔ علم حاصل کرنا ہوتا ہے، اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، اور اس عمل میں اخلاص پیدا کرنا ہوتا ہے۔ طریقت کا مقصد یہی ہے کہ عمل میں جو رکاوٹیں ہیں یعنی شیطان اور نفس، وہ دور ہوجائیں، اور اخلاص حاصل ہوجائے تاکہ عمل مقبول ہو۔ اس کے علاوہ کچھ بھی مطلوب نہیں۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ بنیادی بات یہی ہے: علم، عمل اور اخلاص۔ اگر یہ حاصل ہوگیا تو مزید کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ باقی جو کچھ راستے میں پیش آئے، وہ محض Side effects ہیں۔ ان کو صرف راستے کے کھیل تماشے سمجھنا چاہئے، ان میں خود کو مشغول نہیں رکھنا چاہئے، نہ ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ بالخصوص آج کل کشفیات اور اس جیسی چیزوں سے بڑا نقصان ہوتا ہے، سب سے بڑا نقصان یہ کہ انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے، جو بہت خطرناک چیز ہے۔

حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا گیا کہ حضرت! میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب میں دیکھا ہے۔ حضرت نے جواب میں فرمایا: "میں نے انہیں جاگتے میں دیکھا ہے۔" اور یہ بالکل ٹھیک ہے۔ گویا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔" اصل بات یہی ہے کہ انسان کبھی خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے، کبھی کشفوں کی دنیا میں، کبھی اصطلاحات کی دنیا میں رہتا ہے، حالانکہ یہ سب چیزیں بذاتِ خود مقصود نہیں ہوتیں۔ اصطلاحات تو صرف چیزوں کو سمجھنے کے لیے ہوتی ہیں، نہ کہ ان میں گم ہونے کے لیے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو اصل بات یہی ہے کہ انسان علم رکھتا ہے الحمدللہ، اور اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر عمل میں رکاوٹ ہے، تو اسے دور کرنی چاہیے۔ رکاوٹ یا تو نفس کی سستی ہوگی، یا شیطان کا وسوسہ۔ شیطان کے وسوسے سے یوں گزر جانا چاہیے کہ اس کا کوئی اثر نہ لیا جائے۔ جیسے کوئی زنجیر سے بندھا کتا بھونک رہا ہو، تو انسان بےخوف گزر جاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ نقصان نہیں دے سکتا۔ اسی طرح شیطان کفر کے وسوسے بھی ڈالے تو ان کی پروا نہ کی جائے، کیونکہ وہ تمہارے نہیں، وہ اس کے وسوسے ہیں۔ وہ تو خود کافر ہے۔ لہٰذا ان باتوں کا اثر نہ لو۔ اور نفس کی سستی کا علاج ہے چستی۔ یہ انسان کی عقلی approach ہے۔ اگر عقل سے یہ چستی پیدا نہ ہو، اور سستی پر قابو نہ پایا جارہا ہو، تو پھر مجاہدہ کرنا ہوگا، اور سلوک طے کرنا ہوگا تاکہ یہ سستی ختم ہو۔ لیکن یاد رکھو! سلوک بذاتِ خود مقصد نہیں، بلکہ صرف ایک وسیلہ ہے، اصل مقصود وہ عمل ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو۔ ہمارا ذوق یہی ہے کہ ہم ان لمبی چوڑی اصطلاحات میں نہیں پڑتے۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے فضل سے ان بزرگوں کے معارف کو سمجھنے کا راستہ آسان کر دیا۔ اب ان کا مفہوم سمجھنا مشکل نہیں رہا۔ اور پتا چل گیا کہ اصل بات کیا ہے۔ بس اصل بات کو لے لو اور عمل کرو۔ ان چیزوں میں گم ہونا مقصد نہیں ہے۔ اصل کام عبادت ہے۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56)

ترجمہ: "اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں"۔

اللہ نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ درمیان میں اور کوئی مقصد نہیں ہے، باقی سب چیزیں اسی عبادت کے حصول کے ذرائع ہیں۔

اب اگر ہم زندہ رہنے کے لئے تاکہ عبادت کر سکیں job کرتے ہیں، دکانداری کرتے ہیں، کچھ اور کام کرتے ہیں، غذا کھاتے ہیں، سوتے ہیں، آرام کی ضرورت ہوتی ہے، shelter کی ضرورت ہوتی ہے، یہ سب اس لئے ہے تاکہ ہم عبادت کر سکیں۔ ہر وہ چیز جو اللہ کے لئے کی جائے، وہ عبادت ہے۔ مثلاً آپ انجینئرنگ کرلیں، اور اس میں نیت یہ ہو کہ میں اللہ کا حکم پورا کروں گا اور امت کے اس شعبہ میں مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کروں گا، میں دین کا سپاہی ہوں اور اسی شعبہ میں کام کروں گا۔ تو یہ عبادت بن گیا۔ آپ ڈاکٹر ہیں، اگر اس شعبہ کو اللہ کے قرب کے لئے استعمال کریں تو وہ عبادت بن جائے گا۔ آپ کا کوئی بھی بڑے سے بڑا عہدہ ہو، اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جوڑ دیں، یعنی اللہ کی رضا کے لئے کریں، تو وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اس طرح پوری زندگی عبادت ہوسکتی ہے۔ دین کا اصول آسان ہے کہ جو کام دین کا ہے اگر دنیا کے لئے کریں تو وہ دنیا بن جاتا ہے، اور دنیا کا کوئی کام دین کے لئے، اللہ کے لئے کریں تو وہ دین بن جاتا ہے۔ آدمی ریا سے بچے، کیونکہ ریا سے دین کا کام دنیا بن جاتا ہے۔

مثلاً اگر میں انجینئرنگ یا ڈاکٹری دنیا کے لئے کر رہا ہوں تو وہ ریا نہیں، کیونکہ وہ دنیا کا کام ہے۔ لیکن اگر میں اس کو اللہ کے لئے کروں تو وہ improve ہوسکتا ہے۔ عبادت جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ یہ اللہ کے لئے ہے، اگر دنیا کے لئے کریں تو دنیا بن جاتی ہے یعنی یہ deteriorate ہوجاتی ہے۔ اور جو دنیا ہے، اس کو اللہ کے لئے کریں تو دین بن جاتا ہے، یعنی وہ improve ہوجاتا ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ساری چیزیں عدم سے وجود میں آئیں، اللہ تعالیٰ کی تجلی کے تنزل کے ذریعہ۔ اسی طریقہ سے ہم دنیا کی چیزوں کو للّٰہیت کے ذریعہ دین کا بنا سکتے ہیں، اور دین کی چیزوں کو نفس کے شر سے دنیا کا بنا سکتے ہیں۔ اگر یہ نکتہ کسی کو سمجھ میں آ گیا تو دین پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

بہرحال میں کسی کو degrade نہیں کرنا چاہتا، لیکن چیز تو یہی ہے۔ اب جیسے پوچھا گیا کہ "وجودِ موہوبِ حقانی" جو فنا کے بعد حاصل ہوتا ہے شہودی طور پر، وجودی طور پر نہیں۔ کیونکہ وجود فنا نہیں ہوسکتا، وجود تو برقرار رہتا ہے، یہی انسان چلتا پھرتا ہے، لیکن فانی ہوتا ہے۔ چنانچہ جس کو فنا حاصل ہوگیا، اس کے فنا کا مطلب یہ ہے کہ نفس کی وہ خواہش، جو اللہ کے حکم کو پورا کرنے میں مزاحمت کرتی تھی، وہ ختم ہوگئی، یہ فنا ہے۔ لیکن اس فنا میں بھی عجب کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جب یہ عجب بھی فنا ہوجاتا ہے، تو اسے فناء الفناء کہتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو "وجودِ موہوبِ حقانی" حاصل ہوتا ہے، وہ "بقا" کہلاتی ہے۔ گویا اب ہوتا تو انسان ہے، لیکن اس کا کام اللہ کے لئے ہوتا ہے، اس لئے کہتے ہیں: ؎

گفتۂ او گفتِ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود

یعنی گفت بندے کا ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اللہ کی طرف سے آتا ہے، اس کی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں ہوتی۔ تفصیلات بہت زیادہ ہیں، اس میں میں نہیں جانا چاہتا، کیونکہ مقصد lecture دینا نہیں ہے، مقصد صرف ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

سوال نمبر 14:

حضرت فریب اور وسوسوں میں difference کیا ہے؟

جواب:

فریب ایسی چیز ہوتی ہے، جسے دھوکہ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کچھ دکھاتے ہیں اور اصل میں کچھ اور ہوتا ہے، تو یہ فریب کہلاتا ہے۔ وسوسہ شیطان کا ہوتا ہے۔ اصل میں انسان کے دل کے اندر دو channels ہوتے ہیں: ایک رحمانی اور ایک شیطانی۔ یہ دونوں انسان کے ساتھ پیدائشی طور پر جڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نفس کے اندر بھی دو چیزیں موجود ہوتی ہیں: فجور اور تقویٰ۔ یہاں بھی انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کس کو اختیار کرتا ہے: شیطانی وسوسے کو follow کرے یا رحمانی الہام کو، فجور کو implement کرے یا تقویٰ کو۔ اسی اختیار کے بارے میں فرمایا:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔ یعنی جس نے اس کے فجور والے تقاضوں کو دبایا اور تقویٰ کو غالب کر دیا۔ اور فرمایا:

﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 10)

ترجمہ: ’’اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

یعنی اس کے فجور کو کھلا چھوڑ دیا۔

اگر انسان شیطانی channel کو opt کرتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کا رحمانی channel بند ہونے لگتا ہے، یعنی ضمیر کی آواز دبنے لگتی ہے۔ اور اگر وہ رحمانی channel کو اختیار کر لیتا ہے تو شیطانی channel بند ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب شیطانی channel مکمل بند ہوجائے اور رحمانی مکمل کھل جائے، تو وہ لوگ وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شیطان ان کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ یعنی ان پر برائی اثر ہی نہیں کرتی۔ اور اگر کسی کا رحمانی channel بند ہوجائے اور شیطانی مکمل کھل جائے، تو ان کے بارے میں فرمایا:

﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰى سَمْعِهِمْ وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (البقرہ: 7)

ترجمہ: "اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے"۔

ایسے لوگ شیطان کے آلہ کار بن جاتے ہیں، جو کچھ شیطان چاہتا ہے وہی کرتے ہیں۔ لہٰذا وسوسہ ایک ایسا دھوکہ ہے، جو انسان کے اختیار سے وابستہ ہے، وہ جس طرف جھکتا ہے، وہی اس کی راہ بن جاتی ہے۔

سوال نمبر 15:

میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ فریب سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟

جواب:

فریب سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے شیطان کے وسوسے کی پروا نہ کی جائے، کیونکہ سب سے بڑا فریبی تو شیطان ہے۔ دوسرا یہ کہ شریعت پر عمل کیا جائے، کیونکہ جب کوئی بات سمجھ نہ آئے تو قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور قرآن و سنت ہی شریعت ہے۔ شریعت پر عمل شروع کر دیا جائے تو فریب سے بچا جاسکتا ہے، کیونکہ فریبی انسان آپ کو صرف شریعت سے ہٹاتا ہے۔ اگر کوئی شخص صراطِ مستقیم پر ہو تو وہ گمراہ نہیں ہوسکتا، جیسا کہ کہا جاتا ہے: "بر صراطِ مستقیم ہرگز کسے گمراہ نیست" مثال کے طور پر، اگر میں لاہور کا ٹکٹ لے لوں تو پہنچوں گا بھی لاہور ہی، کہیں اور نہیں۔ اسی طرح اگر میں شریعت پر چل رہا ہوں تو میری منزل بھی وہی ہوگی جہاں شریعت لے جانا چاہتی ہے۔

سوال نمبر 16:

اس کے لئے کوئی ذکر ہوگا؟

جواب:

میں جو ذکر دے رہا ہوں وہ اسی کے لئے ہے۔

سوال نمبر 17:

میں مفتی صاحب کے مقتدیوں میں سے ہوں، میرا نام میجر فیصل ہے۔ ہمارا یونٹ ساتھ ہی ہے۔ آپ کا ذکر خیر ہوا تھا تو کسی کی وساطت سے آپ سے ملاقات کے لئےحاضری ہوئی تھی۔ کوشش کریں گے کہ آپ سے سیکھنے کے سلسلے میں ان شاء اللہ آتے جاتے رہیں۔

جواب:

یہ ہمارے بزرگوں کے راستے ہیں جن سے ہم نے سنا یا پڑھا ہے، اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے ہم اسی کو بیان کرتے ہیں۔ دین میں انسان اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دین ایسی چیز ہے جس میں کوئی شخص اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے بیان کے لیے invite کیا گیا۔ میں مسجد میں پہنچا اور دوسری تیسری صف میں بیٹھا۔ اگلی صف میں ایک شخص تھا جو تھوڑی دیر بعد اچھل کر اُٹھتا تھا۔ میں نے میزبان سے کہا: "کیا یہ شخص بھی آپ نے بلایا ہے؟" تو وہ کہنے لگے، "ہاں۔" میں نے کہا: "پھر میں جارہا ہوں۔" انہوں نے پوچھا: "کیوں؟" تو میں نے کہا: "ضرور یہ شخص کوئی فتنہ کرے گا، اور اگر میں اسے روکوں گا تو بھی لڑائی ہوگی کیونکہ لوگ کہیں گے کہ صوفی آپس میں لڑتے ہیں، اور اگر نہیں روکا تو بھی مسئلہ ہوگا کیونکہ وہ غلط بات کرے گا۔ تو بہتر ہے کہ میں چلا جاؤں، آج کی محفل ان کی ہے، پھر کسی وقت واپس آ جاؤں گا۔"

وہ شخص بہت گھبرا گیا اور کہنے لگا، "حضرت، مجھے معاف کریں، غلطی ہوگئی ہے، آپ کوئی راستہ بتائیں، کیا کروں؟" میں نے کہا، چلو پھر یہ کرو کہ floor مجھے دے دو، میں balance طریقے سے بات کرتا ہوں تاکہ مسئلہ نہ بگڑے، اور مقصد دین کا پیغام دینا ہے۔ تو انہوں نے کہا: ہاں، یہ تو آسان ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں ان کے ساتھ ان کا کوئی boss بھی آیا ہوا تھا۔ جب سب بیٹھ گئے تو مجھے کہا، "آپ ذرا آ کر دین کی بات کریں۔" تو میں نے صرف اتنا کہا کہ دیکھو، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے صفتِ ہادی کے مظہر تھے اور آپ ﷺ کی طرف سے دین آیا ہے۔ وہ ہمیں تین واسطوں سے پہنچتا ہے: صحابہ کرام سے، اہل بیت کی طرف سے، اور امھات المؤمنین کی طرف سے۔ یہ تین واسطے ہیں۔ اگر کسی نے ان تینوں سے لے لیا تو انہوں نے پورا دین لے لیا، اور اگر کسی نے ایک سے لیا اور دوسرے سے نہیں لیا تو اس نے ناقص دین لیا کیونکہ کچھ حصہ رہ گیا۔ اور اگر کسی نے کسی ایک کی مخالفت کی تو اس نے کچھ بھی نہیں لیا کیونکہ اس نے آپ ﷺ کے قول کی مخالفت کی۔ ان تینوں گروہوں میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ تعریفی اقوال فرمائے گئے ہیں، تو ظاہر ہے اگر اس قول کی مخالفت کی جائے تو پھر انسان کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ چونکہ ان کے جو boss تھے وہ شیعہ تھے، تو یہ بات ان کی مخالفت میں جارہی تھی۔ اس لیے اس نے خوشامد کے طور پر مجھے کہا: "شبیر صاحب! آپ کوئی نئی بات کر لیں، پرانی باتیں چھوڑ دیں۔" میں نے کہا: میرا دین پرانا ہے، میں تو پرانی باتیں کروں گا۔ اگر آپ کا دین نیا ہے تو آپ نئی بات کر سکتے ہیں، مجھے تو نئی باتیں نہیں آتیں، مجھے پرانی باتیں آتی ہیں۔

اس پر وہ جو تھے boss تھے دھاڑ پڑے کہتے ہیں: "اگر بات کرنی تھی تو تمیز نہیں ہے، تو پھر یہاں کیوں بیٹھے؟ آرام سے بیٹھ جاؤ، اچھی بات چل رہی تھی تو خواہ مخواہ تم نے درمیان میں اپنی ہانک دی۔" کہتے ہیں: "سر! میں نے تو ان سے عمرہ سیکھنا چاہوں گا۔" میں نے کہا: "سکھا دوں گا، ان شاء اللہ، ذرا تھوڑا سا rest کر لیں، ان شاء اللہ بعد میں سکھا دوں گا۔"

مقصد میرا یہ ہے کہ ہمارا دین پرانا ہے، اور جب دین پرانا ہے تو باتیں بھی پرانی ہوں گی، یا صحابہ کی باتیں ہوں گی، آپ ﷺ کی بات ہوگی، یا صحابہ کی بات ہوگی، یا بزرگوں کی بات ہوگی۔ تو اس میں سے کوئی اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں کرتا۔ ہاں البتہ interpretation آج کل کے حالات کے لحاظ سے، یہ ایک سلسلہ مسلسل قیامت تک چلتا رہے گا، کیونکہ حالات نئے آ رہے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ۔ مثلاً موبائل جو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے، یہ پہلے نہیں تھا۔ اب پہلی کتابوں میں اس کا ذکر ہی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ جتنی خباثتیں اور شرارتیں اور چیزیں ہیں، اس سے کوئی ان کار تو نہیں کر سکتا۔ اب اس کے بارے میں کوئی بات کرے گا تو کرے گا، تو دین کی مناسبت سے۔ لیکن وہ باتیں اس لحاظ سے نہیں ہوں گی، لیکن ہوں گی پرانی، اس لحاظ سے کہ دین کے لحاظ سے ہوں گی۔ البتہ اس کو understand کرنا ذرا نئی بات ہوگی۔ تو اس لحاظ سے اس قسم کی بات ہوسکتی ہے۔ باقی یہ ہے کہ دین پرانا ہے، دین میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

بہت خوشی ہوئی کہ آپ یہاں پر آئے۔ اَلْحَمْدُ للہ، ساتھی آتے ہیں۔ یہ کافی حضرات میجر صاحبان ہیں یا کرنل حضرات ہیں، جو بھی ماشاء اللہ تشریف لاتے رہتے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ دین سب کا ہے، دین میں تو یہ تخصیص نہیں ہے کہ فلاں کے لیے ہے اور فلاں کے لیے نہیں ہے۔ اس لئے جو بھی حضرات طلب رکھتے ہیں اور جہاں سے ان کی طلب پوری ہوتی ہے، تو پھر وہاں پر وہ تشریف لاتے ہیں۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے ٹیلی فون آیا۔ کہنے لگے: "شاہ صاحب، آپ سے ملنے کی سبیل کیا ہوسکتی ہے؟ کیسے ملاقات ہوسکتی ہے؟ میں نے کہا: ہماری مجالس ہوتی ہیں، آپ کسی میں بھی تشریف لا سکتے ہیں۔ پوچھا: کس وقت ہوتی ہیں؟ میں نے کہا: مغرب سے عشاء تک، اور جگہ کی location بھی بتا دی۔ ان دنوں ہماری مجلس مسجد صدیق اکبر کے پاس گھر میں تھی۔ وہاں وہ تشریف لائے، مجلس میں شریک ہوئے، بات چلتی رہی۔ بیان ختم ہونے کے بعد کہنے لگے: "میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔" بیعت ہوگئی۔ پھر انہوں نے اپنا کارڈ دیا۔ میجر جنرل اقبال حیدر صاحب تھے، ماشاء اللہ بہت رفاعی کاموں میں آگے تھے۔ انہوں نے اپنی story سنائی کہ مثنوی شریف کا درس میں نے ویب سائٹ پر تین بار سنا۔ اسی سے تعارف ہوا اور پھر یہاں تشریف لائے۔ ماشاء اللہ اتنی جلدی ترقی کی کہ میں خود حیران ہوگیا۔ مخلص تھے، طلب میں تھے، جب راستہ ملا تو جم گئے۔

ان دنوں میرے پیر میں تکلیف تھی، بیان کے بعد پیر سستانے کے لیے لمبا کر لیتا تھا۔ میں نے پیر سیدھا کیا تو وہ فوراً لپک کر آئے، دبانے لگے۔ میں نے کہا: "یہ سب چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں، یہ کرتے ہیں، آپ سے میں نہیں کہتا۔" تو ہنس کر کہنے لگے: "سر! اس سے نہ روکیں، بڑے سلوٹ مارے ہیں، اب مجھے یہ کرنے دیں، مجھے خوشی ہوتی ہے۔" اس اخلاص اور درد کے ساتھ جو انہوں نے یہ بات کہی، اسی طلب کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے جلدی ترقی دی، اور آج ماشاء اللہ، اللہ ان سے بڑا کام لے رہا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ چاہے کوئی آرمی میں ہو، بیورو کریٹ ہو، تاجر ہو، عالم ہو یا عام آدمی ہو، دین کی طلب سب کو ہے۔ جس کے دل میں بھی یہ ہو کہ مجھے اللہ پاک کے پسندیدہ راستے پر چلنا ہے اور کامیاب ہونا ہے، تو وہ ڈھونڈے گا اور کوشش کرے گا۔ اور جہاں اسے صحیح جگہ محسوس ہوگی، وہاں اللہ پاک اسے نوازیں گے۔ الغرض راستہ تو ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب