اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ایک صاحب نے مجھے السلام علیکم تحریر کیا ہے، بڑی اچھی بات ہے، سلام اللہ پاک کی طرف سے ہمارے لئے بڑا تحفہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَفْشُوْا السَّلَامَ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 3251)
ترجمہ: ’’سلام کو پھیلاؤ‘‘۔
لیکن تعارف بھی ضروری ہے، بغیر تعارف کے سلام کرنے سے تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کون ہے۔ ویسے بھی تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو سلام کرے، تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ مجھے کون سلام کررہا ہے، اس وجہ سے ہمارے ہاں جب اس طرح سلام آ جائے، تو پھر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔ اور بعض دفعہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ غیر معروف نمبروں کو میں بلاک کرتا ہوں۔ لہٰذا جتنے بھی حضرات ہیں، آئندہ کے لئے اگر وہ سلام بھیجتے ہیں، تو بے شک بھیجیں، میرے لئے سعادت ہے، لیکن ساتھ اپنا نام بھی لکھ دیا کریں، تاکہ معلوم ہو کہ کس کی طرف سے سلام بھیجا جا رہا ہے۔
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہوگیا تھا، سب لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ پندرہ منٹ ملا تھا اور ساتھ میں دس منٹ مراقبہ دعائیہ۔ حضرت جی! قلبی ذکر بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ باقی! مراقبہ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ کا اثر نہیں سمجھ سکی۔ مراقبہ دعائیہ بھی کرتی ہوں، ذہنی انتشار شدید ہے، اس لئے توجہ اور یکسوئی بہت زیادہ کم ہوگئی ہے، بس معمول کی غرض سے ذکر مراقبہ کر رہی ہوں۔ آگے کے لئے رہنمائی اور دعاؤں کی درخواست ہے۔ باقی معمولات بلا ناغہ ہیں، البتہ چہل درود شریف اور مناجاتِ مقبول میں کبھی کبھی کوتاہی ہوجاتی ہے۔
جواب:
اصل میں انسان جب کوئی کام مسلسل کرتا رہتا ہے، تو اس کا اثر ہوتا رہتا ہے، بے شک محسوس نہ ہو۔ مجھے بہت سارے ساتھی یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مراقبہ کرتے ہیں اور ذکر محسوس کرنا چاہتے ہیں، تو اس وقت محسوس نہیں ہوتا، لیکن دوسرے وقت میں محسوس ہوتا ہے۔ بعض دفعہ نماز میں محسوس ہونے لگتا ہے، بعض دفعہ کسی اور موقع پہ محسوس ہونے لگتا ہے، پس وہ جو بعد میں محسوس ہوتا ہے، وہ بھی اصل میں اسی کا اثر ہوتا ہے، لیکن اس وقت وہ محسوس نہیں ہورہا ہوتا اور دوسرے اوقات میں محسوس ہوجاتا ہے، لہٰذا آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، چاہے آپ کو feel ہو یا نہ ہو، لیکن آپ ذکر کی طرف متوجہ رہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پر ایک شعر فرمایا کرتے تھے:
یک لحظہ زدن غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہ کند آگاہ نباشی
یعنی ایک لمحہ بھی اس کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے، شاید وہ کرم کی نظر فرمانا چاہتا ہو اور تجھے پتا نہ ہو۔ اس وجہ سے ہم لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں، کیونکہ اس میں ایک ایک لمحہ ہمیں فائدہ حاصل ہورہا ہے، یعنی کتنا وقت ہمارا غفلت میں گزرتا ہے، کتنا وقت ہمارا فضول چیزوں میں گزرتا ہے، بلکہ گناہوں میں گزرتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو معاف فرمائے۔ ذکر کے جو لمحات ہیں، یہ تو اللہ پاک کا بڑا فضل ہے کہ ہمیں اس کام کے لئے بٹھا دیا، ورنہ ہماری کیا حیثیت ہے، یہ تو اللہ پاک کا کسی پر فضل ہوتا ہے کہ وہ اس کو ذکر کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں، لہٰذا آپ ذکر جاری رکھیں۔
اور مراقبہ دعائیہ؛ یہ تو اتنی بڑی نعمت ہے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں! اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں اور آپ کو شاید وقت پہ محسوس بھی ہوں گے، ان شاء اللہ۔ بس آپ جاری رکھیں۔
جہاں تک مراقبہ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ ہے، اس کا اثر اگر آپ نہیں محسوس کر رہے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اس مراقبہ کو سمجھ نہیں سکے کہ وہ مراقبہ کیا ہے، میں دوبارہ بتا دیتا ہوں۔ اصل میں اللہ جلّ شانہٗ خالق ہیں اور ہم سب مخلوق ہیں اور خالق کے ساتھ مخلوق کی کوئی مناسبت نہیں ہوتی، کیونکہ خالق خالق ہے اور مخلوق مخلوق ہے، لہٰذا بعض صفات مخلوق میں ناقص صورت میں موجود ہوتی ہیں، مثلاً: ہم بھی دیکھتے ہیں اور اللہ بھی دیکھتے ہیں، لیکن اللہ کا دیکھنا کامل ہے اور ہمارا دیکھنا ناقص ہے۔ ہم تو اس دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے، زمین کے اندر نہیں دیکھ سکتے، چھت کے اوپر نہیں دیکھ سکتے، دائیں بائیں limitations ہیں۔ لیکن اللہ پاک ہر حال میں دیکھتے ہیں۔ کوئی بے شک سخت اندھیروں میں بھی ہو، اس میں بھی اللہ پاک کو پتا چلتا ہے، یعنی اللہ پاک اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اللہ پاک کا سننا ہمارے سننے کی طرح نہیں ہوتا، ہمارا سننا limited ہے، جبکہ اللہ پاک کا سننا unlimited ہے۔ اس طرح اللہ پاک کے کلام اور ہمارے کلام میں کوئی مناسبت نہیں ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ یہ صفات ہماری بھی ہیں اور اللہ کی بھی ہیں، لیکن اللہ کی صفات کامل ہیں اور ہماری صفات ناقص ہیں، لیکن بعض صفات ایسی ہیں، جو مخلوق میں ہوتی ہیں اور خالق میں نہیں ہوتیں، مثلاً: ہم لوگ سوتے ہیں، اللہ نہیں سوتے۔ ہمیں اونگھ آتی ہے، اللہ کو اونگھ نہیں آتی۔ ہم کھانا کھاتے ہیں، اللہ کھانا نہیں کھاتے۔ شادی بیاہ، بچے؛ ان سب چیزوں سے اللہ پاک ہے، ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ میں یہ ساری چیزیں آ جاتی ہیں، اس وجہ سے اللہ جلَّ شانہٗ کے لئے ایسی صفات کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، یہ تنزیہ ہے۔ یعنی یہ تنزیہ ہے کہ اس کا مراقبہ کرنا کہ اللہ پاک ان تمام چیزوں سے پاک ہیں، تاکہ یہ چیز پکی ہوجائے اور ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی ایسی چیز ذہنی طور پر attach نہ کر لیں، جو اللہ کی شان کے مطابق نہیں ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ (الشوریٰ: 11)
ترجمہ1: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے ‘‘۔
اس مراقبہ کا مطلب یہی ہے۔ پندرہ منٹ کے لئے اس سوچ میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔
چہل حدیث شریف اور مناجاتِ مقبول میں جو کوتاہی ہوجاتی ہے، تو اپنا نقصان ہے، کیوں کہ یہ غذائی ذکر ہے اور غذائی ذکر میں علاج مقصود نہیں ہوتا، بلکہ ثواب مقصود ہوتا ہے۔ اور دعا تو ہماری ضرورت ہے، جب ہم دعا کرتے ہیں تو وہ ہماری ضرورت ہے، اگر ہم دعا نہیں کریں گے، تو کس کا نقصان ہوگا۔ مناجاتِ مقبول دعا ہے اور درود شریف آپ ﷺ کے لئے دعا ہے۔ پس جو شخص آپ ﷺ کے لئے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پہ کتنا کرم فرمائیں گے۔ لہٰذا یہ اپنا فائدہ ہے، اگر اس میں ناغہ ہوتا ہے تو اپنا ہی نقصان ہے، لہٰذا اس بات کا خیال رکھیں اور آئندہ کے لئے ایسی غلطی نہ کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ قرآن پاک میں حلال اور طیب کھانے کا ذکر ہے۔ طیب کا کیا معنی ہے؟ اس لحاظ سے Junk food کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
ایک تو یہ اصول یاد رکھیں کہ ہم یہاں پر مفتی بن کر نہیں بیٹھے، نہ شیخُ القرآن بن کے بیٹھے ہیں اور نہ شیخُ الحدیث بن کر بیٹھے ہیں، یہ باتیں ان سے پوچھنی چاہئیں۔ قرآن کی تفسیر شیخُ القرآن سے پوچھنی چاہئے، حدیث کی تفسیر شیخُ الحدیث سے پوچھنی چاہئے، ہمارے پاس تو جو آئے گا، وہ اپنی اصلاح کے لئے آئے گا، یہ ایک اہم field ہے۔ ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو تقریباً ہر field میں آگے تھے، ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ اگر مجھے صرف اس تصوف کے کام کے لئے رکھا جائے، تو میں اس پر بڑا خوش ہوں گا، کیونکہ اس کے لوگ بہت کم ہیں، باقی fields کے لوگ کافی موجود ہیں، مثلاً: کتنے شیخُ الحدیث ہیں، کتنے شیخُ القرآن ہیں، کتنے مفتی صاحبان ہیں، وہ حضرات کافی تعداد میں ہیں، لیکن اصل صوفی بہت کم ہیں، اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، صحیح صوفی بہت کم ہیں۔ جب حضرت اس طرح فرماتے ہیں، تو ہم لوگوں کی کیا حیثیت ہے، ہمیں تو کچھ اور آتا بھی نہیں ہے، اگر ہم اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں کو کرنے لگ جائیں، تو پھر یہ کام کون کرے گا؟ اس وجہ سے آئندہ کے لئے ایک تو اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ کوئی تفسیر کی کلاس نہیں ہے، نہ حدیث کی کلاس ہے اور نہ کوئی دار الافتاء ہے کہ یہاں سے فتوے پوچھے جائیں، ہاں! اصلاح کے لئے جو بھی آنا چاہتے ہیں، تو چوں کہ بزرگوں نے اس مقصد کے لئے بٹھایا ہے، ان کے حکم کے مطابق جتنی اللہ تعالیٰ سمجھ دے گا، اس کے حساب سے ان سے عرض کریں گے۔ آپ نے جو سوال کیا ہے، چونکہ اس کا تعلق تفسیرِ قرآن سے ہے اور قرآن میں اپنی طرف سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ یہ بہت خطرناک بات ہے، قرآن میں اگر کوئی اپنی طرف سے کوئی بات کہے گا، تو اپنے لئے مصیبت بنائے گا، اس لئے میں قرآن کی تفسیر مفسر کی زبان میں آپ کو سنا سکتا ہوں، چونکہ میرے پاس معارف القرآن مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر موجود ہے، اس میں حلال طیب کے لفظ کی جو تشریح لکھی ہے، وہ میں سنا دیتا ہوں، بس اتنا کام میں کرسکتا ہوں۔
﴿حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرہ: 168)
’’لفظ ’’حل‘‘ کے اصل معنی گرہ کھولنے کے ہیں، جو چیز انسان کے لئے حلال کر دی گئی، گویا کہ ایک گرہ کھول دی گئی اور پابندی ہٹا دی گئی۔ حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں پہ منحصر ہے: حلال کھانا، فرائض ادا کرنا اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع کرنا۔ لفظ ’’طیب‘‘ کے معنی ہے؛ پاکیزہ، جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی‘‘۔
یعنی جس چیز سے انسان کو نقصان اور تکلیف ہوتی ہو یا گھن آتی ہو، ان چیزوں کو نہیں کھانا چاہئے۔ پس پاکیزہ چیزیں ہم سب کے لئے ہیں۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ شریعت میں پاکیزہ چیزیں ہی حلال کی گئی ہیں، یعنی یہ تو confirm بات ہے کہ جو بھی گندی چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے منع کر دیا ہے۔ مثلاً: شراب ہے، یقین کیجئے کہ ہم جرمنی میں تھے، تو pubs کے سامنے گزرنا بھی بڑا مشکل ہوتا تھا، اتنی اس کی بدبو ہوتی تھی۔ اور اگر کوئی آدمی کسی شرابی کے قریب بیٹھا ہو، تو اس کو پتا چلتا ہے کہ شراب کیا چیز ہے اور اس کی کتنی بدبو ہوتی ہے۔ پینے والوں کو پتا نہیں چلتا۔ جیسے گندگی کا کیڑا اگر گندگی میں پھر رہا ہو تو اس کو گندگی کا کیا پتا، اس کی تو خوراک ہے، لیکن جو اس کے لئے نہیں ہے، وہ بہت تنگ ہوگا۔ اسی طریقہ سے جو حرام چیزیں ہیں، جیسے خنزیر اور شراب اور اسی طرح پیشاب خون جو بھی نجس چیزیں ہیں، ان کو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ پاک نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے، وہ تو طیب چیزیں ہیں۔ باقی یہ ہے کہ طبیعت کے لحاظ سے بھی جو مرغوب ہیں، وہ اس میں شامل ہیں، کیونکہ بعض چیزیں حلال ہوتی ہیں، لیکن طبیعت کو مرغوب نہیں ہوتیں، تو آپ کے اوپر لازم نہیں ہے کہ وہ کھائیں۔ جو طبیعت کو مرغوب ہیں، صرف وہی کھائیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے choice دیا ہوا ہے، البتہ حرام کو حلال نہیں کہا جاسکتا اور حلال کو حرام نہیں کہا جاسکتا، اللہ پاک نے جس چیز کو جو کہا ہے، اس کو ہم وہی کہیں گے۔ میرے خیال میں اتنی بات کافی ہے۔
باقی جو Junk food ہے، تو ڈاکٹروں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے، اس کے بارے میں میں کیا کہوں۔ Junk food کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کی صفائی کے نظام پہ بڑا بوجھ ڈال رہے ہیں، مثال کے طور پر ایک شخص Junk food کھا رہا ہے، تو اس کا جو Defence system ہے، جس کو immunity کا نام دیا ہے، تو وہ اس پہ لگ جائے گی، اس کی صفائی کرے گی، اب اگر وہ اس کی صفائی کرے گی، تو پھر کیا ہوگا؟ اگر اچانک آپ کے اوپر کسی جراثیم نے حملہ کر دیا یا کسی وائرس نے حملہ کر دیا، تو آپ کے پاس immunity تو بچی نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر آپ کی پولیس فورس ہے، وہ ایک Limited force ہے، اب اگر کہتے ہیں کہ یہ ویسے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں، چلو! ان کو کچھ کام دے دیں، اب ان کو کہیں کہ بھائی! فلاں جگہ جا کر آپ فلاں کام کریں۔ اور اتنے وقت میں کوئی ہنگامہ ہوجائے یا کوئی مسئلہ ہوجائے اور آپ کے پاس وہ فورس موجود نہ ہو، تو پھر کیا ہوگا؟ خواہ مخواہ میں آپ کا نقصان ہوجائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے جسم پر بلا وجہ بوجھ نہ ڈالے۔ یہ میں قرآن کے لحاظ سے نہیں کہہ رہا، قرآن کی بات پوری ہوگئی ہے، جو میں نے مفسر کی زبانی بتا دی ہے، اتنی بات ان کی ذمہ داری تھی، وہ پوری ہوگئی۔ لیکن چوں کہ Junk food ایک Medical term ہے اور اس کے بارے میں ڈاکٹر حضرات سے پوچھنا پڑتا ہے، تو ڈاکٹر حضرات نے جو کہا ہے، وہ میں نے آپ کو بتایا ہے، یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت صاحب! میرے ذکر کا ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے، اب دو سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، چار سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو بار ’’حَقْ‘‘ اور سو بار ’’اَللہ‘‘۔ اس میں تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو مرتبہ ہمیشہ کے لئے ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ دو سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، چار سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، اور چھ سو بار ’’حَقْ‘‘ کریں اور سو بار ’’اَللہ‘‘ ایک مہینہ کے لئے۔ اب تک جو ہوگیا، وہ تو ہوگیا، اب ایک مہینے کے لئے یہ کریں اور باقی ہمیشہ کے لئے جو ذکر ہے، وہ وہی ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت! پچھلے ماہ آپ نے جو ذکر جاری رکھنے کا فرمایا تھا، وہ مندرجہ ذیل ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللہ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللہُ اَللہ‘‘ چھ سو مرتبہ، پندرہ سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ ان اذکار کے ساتھ آپ نے مراقبہ بھی تعلیم فرمایا، جو الحمد للہ ہورہا ہے اور بہت اچھا ہورہا ہے۔
نمبر 1: مشکلات برقرار ہیں، ان کے حل کے لئے بہترین حکمت عملی صبر اور خاموشی کو اختیار کر لیا ہے۔
نمبر 2: ایسا لگتا ہے کہ متروکِ دنیا ہوگیا ہوں، اس کی برکت سے احساسِ کمتری کا اپنے اندر کوئی شائبہ نہیں پاتا۔
نمبر 3: اپنے تمام مسائل کا حل اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس پاتا ہوں، اپنی بخشش کی خواہش زیادہ غالب رہتی ہے۔
نمبر 4: کبھی کبھی جذبۂ انتقام اور بد دعا دینے کا وسوسہ آتا ہے، لیکن ایسے تمام جذبات کو محض وسوسہ مان لیا ہے۔
نمبر 5: خیالات کی دنیا میں جہاں بہت سی سوچیں آتی ہیں، وہاں اکثر نورانی حجابات میں پھنس جاتا ہوں۔ مثال کے طور پر ایسا ہو کہ صبر کا ایسا پہاڑ بن جاؤں کہ لوگ بھی کہہ اٹھیں کہ واہ! کیا صبر کرنے والا ہے۔ آج کے دور میں ایک صوفی کی مثال بن جاؤں، وغیرہ وغیرہ۔ گو ان کو بھی حجابات ہی مانتا ہوں، ان نورانی حجابات کا اپنے طور پر جو فوری حل تلاش کرتا ہوں، وہ موت کی یاد ہے، لیکن اصل حل کے لئے آپ سے رجوع کرتا ہوں۔ نعت اور کلام زیادہ سن رہا ہوں، آپ سے اصلاح اور رہنمائی کا طالب ہوں۔
جواب:
ما شاء اللہ! اللہ پاک مزید توفیقات عطا فرمائے۔ ذکرِ علاجی جو آپ کو بتایا ہے، وہ تو ابھی جاری رکھیں۔ اور آپ کے اوپر جو مشکلات آئی ہیں، اصل میں ہمارے سلسلہ کے اندر اس قسم کی باتیں ہیں، کیونکہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟“ اس نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اس نے تین مرتبہ کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو پھر فقر و فاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھال تیار رکھو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2350) اور دوسری حدیث میں ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2398) بعض دفعہ غیر اختیاری تکالیف آتی ہیں، تو وہ اصل میں دو باتوں کے لئے آتی ہیں: ایک تو یہ ہوتا ہے کہ مقامِ صبر باقاعدہ ہمارے سلوک میں ایک مقام ہے، اس مقام کو طے کرایا جاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس پر بہت بڑا اجر ہے، اتنا اجر ہے کہ جب وہ اجر اللہ تعالیٰ قیامت میں تکالیف والوں کو دے گا، تو بعض باقی لوگ جب دیکھیں گے، تو کہیں گے کہ کاش! ہماری جلد کینچیوں کے ساتھ کاٹی جاتی، لیکن آج ہمیں یہ اجر مل جاتا۔ پس صبر پر بہت زیادہ اجر ہے۔ قرآن پاک میں صاف ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156-157)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔
پس صبر بہت بڑی رحمت کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت نصیب فرما دے۔ مانگنی تو عافیت چاہئے، لیکن اگر ایسے حالات آ جائیں، تو ان پر صبر کے بغیر چارہ نہیں ہے اور صبر کا اجر بہت زیادہ ہے۔
متروکِ دنیا ہونا تو بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل تارکُ الدنیا ہونا تو مشکل ہے، جس پہ اللہ فضل فرماتے ہیں، اس کو متروکِ دنیا بنا دیتے ہیں یعنی لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہ جاتا ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ جن کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں مشہور ہونے کی وجہ سے، وہ خطرہ میں ہیں اور جو بالکل اندھیروں کے اندر رہتے ہیں، وہ لوگ محفوظ رہ جاتے ہیں۔ جو جتنے زیادہ کم مشہور ہیں اور صحیح راستے پہ ہیں، وہ اتنا زیادہ اللہ پاک کے قریب ہیں۔ باقی! آپ نے کہا کہ جذبۂ انتقام اور بد دعا کا وسوسہ آتا ہے۔ تو وسوسہ وسوسہ ہی ہوتا ہے اور وسوسے کو وسوسہ ہی سمجھنا چاہئے، وسوسے سے آگے اس کو نہیں بڑھانا چاہئے، اس کی پروا ہی نہیں کرنی چاہئے۔
اور نورانی حجابات سب سے سخت چیزیں ہیں، ان سے ہمیشہ بچیں، کیونکہ شیطان جب گناہ نہ کرا سکتا ہو، تو پھر نورانی حجابات کی صورت میں آتا ہے۔ نورانی حجابات سے انسان بڑی مشکل سے نکلتا ہے، کیونکہ اس میں مزہ ہوتا ہے، جس کو ہم بزرگی کہتے ہیں۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس چیز پر کافی taunting ہوتی تھی، جس میں بزرگی ذرہ بھر بھی دیکھتے، تو بس اس کی اچھی خاصی taunting ہوتی کہ یہ بزرگی نکل جائے۔ وجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے والی بات عجب کی صورت بن جاتی ہے اور یہ تو بہت خطرناک بیماری ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس سے بالکل بچانا چاہئے۔ کبھی کبھی شیطان خوابوں میں اور اس قسم کی چیزوں میں مبتلا کر لیتا ہے، کبھی روشنی نظر آتی ہے، کبھی کیا اور کبھی کیا، تو آدمی سمجھتا ہے کہ میں تو بزرگ ہوگیا ہوں۔ بھائی! بزرگی اس کو نہیں کہتے، حقیقت میں بزرگی کا پتا موت کے بعد چلے گا، اس دنیا میں تو اس کا پتا چلنا بڑا مشکل ہے۔ اصل بزرگی تو یہ ہے کہ شریعت پر استقامت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں صاف فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔
اس پر پھر بشارت دی:
﴿تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)
ترجمہ: ’’فرشتے ان پر بیشک (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے، جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے، تو تم منگوانا چاہو۔ یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے، جس کی بخشش بھی بہت ہے، جس کی رحمت بھی کامل‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں ہیں: اللہ کو رب سمجھنا اور پھر اس پر قائم رہنا۔ ان دو چیزوں پر اتنی بڑی سعادت ملتی ہے۔ پس صحیح اور حقیقی معنوں میں بزرگی یہ ہے، اللہ ہمیں نصیب فرمائے۔ لیکن اس کا پتا موت کے بعد چلتا ہے، موت سے پہلے پہلے جو بزرگ ہوتے ہیں، وہ کم از کم اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھتے۔ اور جو اپنے آپ کو بزرگ سمجھتے ہیں، وہ بزرگ نہیں ہوتے۔ اب بتاؤ کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ جو حقیقی معنوں میں بزرگ ہیں، وہ تو اپنے آپ کو بزرگ سمجھتے ہی نہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے ولی اللہ تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو کافر فرنگ سے بھی اچھا سمجھے، اس پر بھی معرفت کا دروازہ بند ہے۔ کیونکہ کافر فرنگ کے بارے میں یہ گمان تو ہوسکتا ہے کہ اگر یہ مسلمان ہوگیا، تو پتا نہیں کہاں پہنچ جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حالت دیکھیں کہ آپ ﷺ کو شہید کرنے کے لئے آ رہے ہیں، اور پھر وہ حالت دیکھیں کہ آپ ﷺ کے دست راز بنے ہوئے ہیں۔ پہلے کی کیا حالت ہے اور بعد کی کیا حالت ہے۔ ان کے بارے میں اگر پہلے اُس حالت میں کوئی کہتا کہ یہ ایسا ہے، تو incomplete بات ہوتی۔ یہ تو موت کے وقت معاملہ کھلتا ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ ان چیزوں میں اپنے آپ کو نہ پھنسنے دیں، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
باقی یہ ہے کہ آپ ہمت کرتے رہئے، اللہ کی مدد ساتھ ہوگی، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray and hope you are keeping well respected Sheikh. This is Zakriya from the UK. I started the مراقبہ last week and just wanted to update you on how it’s going. I find it quite difficult to focus consistently for the full ten minutes and find my mind drifting away frequently and getting inpatient. This is quite different to the جہر ذکر I was doing previously where I began enjoying it a lot towards the end and my eyes used to cheer up throughout. I began missing it a lot in this week but اَلْحَمْدُ للہ I have been consistent so far with my مراقبہ. It’s new but I just wanted to check if these احوال are okay. I also wanted to ask regarding the fast that we keep if we ever miss فرض صلوٰۃ. I keep them anytime I miss Salah but in the past year I have missed six or seven Salah in total for which I have not kept the three fasts. Should I keep the twenty fast which I would have to otherwise keep for the missing prayers now? Kindly remember me in your dua
جواب:
ما شاء اللہ! یہ آپ نے بالکل صحیح بات بتائی ہے، ایسے ہی ہوتا ہے۔ جہری ذکر instantly شروع ہوتا ہے، کیونکہ اس میں کسی انسان کی ایسی چیز نہیں ہے جو کہ اس کے control میں نہ ہو، سب اختیاری ہے۔ مثلاً: میں زبان سے اگر اللہ کہنا چاہتا ہوں اور زبان میری چلتی ہو، تو جو میں زبان پہ لانا چاہتا ہوں، تو میں لا سکوں گا، لیکن میرے دل میں یہ آ رہا ہے، یہ تو میں نہیں کرسکتا۔ دل پہ کسی کا اختیار نہیں ہے، یہ انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا جو بات آپ کہہ رہے ہیں، بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ذکر جہری میں کوئی مشکل نہیں ہے، تبھی تو ہم ذکرِ جہری پہلے دیتے ہیں اور ذکرِ جہری کو ہم ذکرِ سری کے لئے بنیاد بناتے ہیں، یہ ذکر بنیاد ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کے لئے بھی یہ help کرے گا، آپ اگر ذکرِ جہری جاری رکھیں گے، تو ان شاء اللہ مراقبہ میں بھی آسانی ہوگی۔ مراقبہ کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: بیرونی مداخلت کم سے کم ہو اور اپنی قلبی توجہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ یہ دو چیزیں چاہئے ہوتی ہیں۔ اب بیرونی مداخلت کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقے کرتے ہیں، جیسے بعض لوگ جو سونا چاہتے ہیں، تو وہ اپنا exhaust وغیرہ کھول لیتے ہیں، تو اس کے شور کے ساتھ وہ عادی ہوتے ہیں، تو اس میں وہ سو جاتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو باہر کے شور سے کاٹ لیتے ہیں۔ اسی طرح ذکرِ جہری بھی انسان کو باہر سے کاٹ دیتا ہے، جس کی وجہ سے یکسوئی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، اس وجہ سے ہم ذکرِ جہری پہلے کراتے ہیں، تاکہ یکسوئی پیدا ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ یکسوئی بہت بڑی چیز ہے، وہ مراقبہ میں استعمال ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے آپ یہ ذکر کریں۔ مراقبہ فوراً start نہیں ہوتا، بالخصوص مردوں کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے، جب کہ عورتوں کے لئے بہت آسان ہوتا ہے۔ عورتوں کے اندر فطرتاً یکسوئی زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا ان کا قلبی ذکر بہت جلدی شروع ہوجاتا ہے، لیکن مردوں کو اپنے آپ کو focus کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کر نہیں سکیں گے، ان شاء اللہ آپ کرسکیں گے۔ البتہ چونکہ صرف یہی ایک راستہ نہیں ہے، For example اگر کسی کو اس راستے سے کام نہیں ہوتا، تو کئی اور راستے بھی ہیں۔ ہماری پشتو میں ضرب المثل ہے، کہتے ہیں: فقیر تہ یو دروازہ بندہ نو شل دروازے کولاؤ۔ یعنی فقیر کے لئے ایک دروازہ بند ہو، تو بیس دروازے اور کھلے ہیں۔ اس وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ کے لئے اور راستے بھی ہیں، تو ان پہ بھی چلا سکیں گے۔ لیکن start میں تو آپ اس پر محنت کر لیں، امید ہے کہ ان شاء اللہ، یہ بہت اچھا ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں۔
اور روزوں کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے، یہ اصل میں نفس کے اوپر ایک بوجھ لانے والی چیز ہے، کیونکہ نماز جو عماد الدین یعنی دین کا ستون ہے، اگر اس میں غفلت ہو، تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہئے۔ اس لئے یہ ہماری طرف سے ایک جرمانہ ہوتا ہے، یہ کوئی شرعی فرض نہیں ہے۔ شرعی فرض اپنے وقت پہ جو روزہ ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے، لیکن یہ جرمانہ کے طور پر ہے، تاکہ نفس کو زجر ہو کہ آئندہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ پس ہر نماز پر تین روزے جرمانہ ہم کرتے ہیں کہ روزے رکھو، تاکہ آئندہ پھر نماز ضائع نہ ہو۔ آج کل لوگ نمازوں کو بہت کم سمجھتے ہیں، مثلاً: گرمیوں میں فجر کی نماز کھلی چھوڑ دیتے ہیں اور پروا ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ جو دیندار بھی ہوتے ہیں، تو وہ اٹھ کر صرف قضا پڑھ لیتے ہیں اور باقی تو پروا ہی نہیں کرتے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر لوگ سفر پہ جائیں گے، تو یوں سمجھتے ہیں کہ جیسے راستہ میں نماز پڑھنا ان کے اوپر فرض ہی نہیں، جب وہ اپنی جگہ پہ پہنچیں گے، تو ساری قضا نمازیں ادھر پڑھ لیں گے۔ یہ کوئی ہماری نانی کا گھر ہے کہ ہم جو مرضی میں آئے، کریں۔ یہ تو شریعت کی بات ہے۔ جو شریعت کا حکم ہے، اس میں ہماری بات نہیں چلے گی۔ اس وجہ سے نفس کے اوپر بوجھ لانا مقصود ہے، تاکہ نفس پھر ایسی جرات نہ کرسکے۔ لہٰذا ہر نماز کے لئے تین روزے آپ رکھیں، تاکہ آئندہ کے لئے نفس کو جرات نہ ہو اور وہ نماز نہ چھوڑ سکے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! امید کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا ذکر دو سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، دو سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘ ہے۔ الحمد للہ! یہ مکمل ہوگیا ہے۔ دل میں گناہ سے نفرت ہے اور نیکی کا شوق ہے۔ گناہ سے بچنے کی کوشش کے باوجود کبھی غلطی سے گناہ ہوجاتا ہے۔ بزرگوں کی کتب خاص طور پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم اختر صاحب رحمہما اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ منزل اور تمام ابتدائی اذکار پورے کرتا ہوں۔ کیا مناجات مقبول کی منزل شروع کر سکتا ہوں؟ مشترکہ گھر میں بھابھیوں سے کس انداز میں رہا جائے؟ دعاؤں میں یاد رکھیں، بندہ بھی آپ کو دعاؤں میں یاد رکھتا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ذکر تو ابھی آپ کریں: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، تین سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، تین سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اور دل میں گناہ سے نفرت ہونا؛ یہ اللہ پاک کا فضل ہے اور نیکی کا شوق ہونا؛ یہ بھی اللہ پاک کا فضل ہے، اس پر شکر کرنا چاہئے۔ گناہ کرنا نہیں چاہئے، لیکن اگر ہوجائے، تو فوراً توبہ کرنی چاہئے۔ بزرگوں کی کتابوں کا بالخصوص حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے میں بہت فائدہ ہے، آپ اس کو جاری رکھیں۔ مناجاتِ مقبول آپ شروع کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ تو قرآن اور حدیث کی دعائیں ہیں، ان میں ہمارا فائدہ ہے، آپ ضرور شروع کرسکتے ہیں۔
مشترکہ گھر میں بھابھیوں سے کس انداز میں رہا جائے؟ جس طرح باہر آپ عورتوں سے بچتے ہیں، اسی طرح گھر میں بھابھیوں سے بچنا ہے، بس آسان بات ہے۔ کیونکہ یہ غیر محرم ہیں۔ البتہ اس پر شور نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ آج کل فتنے کا دور ہے، آپ حق پر ہوں گے، لیکن لوگ آپ کو ناحق پر سمجھیں گے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔ (ترمذی، حدیث نمبر 1171) لہٰذا سب سے زیادہ تو اس سے بچنا چاہئے، لیکن اصل میں لوگ رواج کو شریعت سے آگے لیتے ہیں، شریعت پیچھی ہوتی ہے اور رواج پہلے ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے اتنے خوبصورت الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے، کہتے ہیں: اوہ! یہ تو اپنی بہنیں ہوتی ہیں۔ تو کیا باہر کی عورتیں بہنیں نہیں ہوتیں؟ وہ بھی تو بہنیں ہی ہیں۔ بھائی بہن یعنی اخوتِ اسلامی والا جو رشتہ ہے اس طرح تو ساری بہنیں ہوئیں، پھر شادی کس طرح کرو گے؟ یعنی اگر وہ اصل بہنیں ہوں، تو پھر شادی کس سے کرو گے؟ خواہ مخواہ اپنے آپ کو طفل تسلی دینے والی بات ہے۔ شریعت کی بات شریعت کی ہے۔ میں نے اپنے حضرت (اپنے شیخؒ) سے یہ باتیں پوچھی تھیں، حضرت نے مجھے فرمایا کہ آپ جب باہر ہوتے ہیں اور کوئی عورت آپ کے پاس کھڑی ہوجائے یا آپ کے سامنے آ جائے، تو آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آنکھیں نیچے کر لیتا ہوں۔ فرمایا: اندر بھی اسی طرح کر لیا کریں، یعنی گھر کے اندر بھی نگاہ نیچے کر لیا کرو، بجائے اس کے کہ اس کو کچھ کہو، جو آپ کی نہیں مانتے، خود کو کچھ کہو، جو مانے گا۔ بس یہی بات ہے کہ نگاہیں نیچے رکھیں۔ غض بصر اسی کو کہتے ہیں اور اس کا حکم باقاعدہ قرآن میں ہے۔ لہٰذا آپ غض بصر کر لیا کریں اور تنہائی میں بالکل نہ ملیں۔ بضرورت بات چیت ہو، تو وہ کرسکتے ہیں۔ جیسے باہر پھرنے والی عورتوں سے بھی بضرورت بات ہوسکتی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر کوئی راستہ پوچھے، تو آپ اس کو دیکھے بغیر بتا سکتے ہیں کہ فلاں راستہ ہے۔ اسی طرح کوئی دکاندار ہے اور اس سے کوئی عورت کوئی چیز خریدنے کے لئے آ جائے، تو اس کو چیز دے سکتا ہے، لیکن اس میل جول کو آگے نہیں بڑھانا چاہئے۔ پس اسی طریقہ سے بھابھیوں کے ساتھ بھی ایسا معاملہ یعنی غیر محرموں والا معاملہ رکھیں، البتہ اتنا فرق ہے کہ اس پہ شور نہیں کرنا چاہئے، تاکہ لوگ خواہ مخواہ آپ کے خلاف شور نہ کریں۔ باقی یہ ہے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں، اپنے آپ کو بچانا لازم ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اپنے بچوں کے مراقبہ کی report دینی ہے، ان کے مراقبہ کا تقریباً ڈیڑھ مہینہ ہوگیا ہے۔ ان کی ترتیب یہ ہے:
نمبر 1: اس کا مراقبہ شانِ جامع ہے، پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا شانِ جامع مراقبہ کرنا ہے۔ ایک ناغہ ہوا ہے۔
کیفیات: الحمد للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور اس کے ہونے کا یقین گناہوں سے بچنا اور اگر گناہ ہوجائے، تو ندامت کی کیفیت غالب رہتی ہے۔
نمبر 2: اس بچی کا مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا تھا کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ تجلیاتِ افعالیہ کا مراقبہ کرنا ہے۔ دو ناغے ہوئے ہیں۔
کیفیات: اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا یقین دن بدن بڑھ رہا ہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے اور اگر نماز لیٹ ہوجائے، تو دل میں مسلسل ایک ندامت شروع ہوجاتی ہے۔
نمبر 3: یہ ایک بچہ ہے، اس کے وظیفہ کی ترتیب یہ ہے کہ درود پاک دو سو مرتبہ، پہلا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار سو مرتبہ اور تیسرا کلمہ سو مرتبہ۔ اس مرتبہ اس کے تقریباً پندرہ ناغے ہوئے ہیں۔ یہ بات اس کے ذہن سے بالکل نکل گئی تھی کہ تیسرے کلمہ کا بھی ورد کرنا ہے۔ یہ کلمہ اس نے نہیں پڑھا۔ باقی! نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر تینوں کو استقامت ہے، اور اس مہینہ ہمارے گھر کا اجتماعی درود پاک پانچ لاکھ تھا۔ اب آپ حضرت سے درخواست ہے کہ آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! اللہ پاک نے آپ پر بڑا فضل کیا ہے کہ توفیقات سے نوازا ہے اور بڑی خوشی ہوئی۔ اور بچہ ما شاء اللہ! ابھی سمجھدار ہو رہا ہوگا، اس کو ان باتوں کی ذرا یقین دہانی کرا دیا کریں کہ اس میں ناغے نہ ہوں اور آہستہ آہستہ اس کو اس کام پہ لانا ہے۔ اور جن چیزوں پر استقامت ہے، تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور جن چیزوں میں کمی ہے، تو اس میں بہتری کی طرف لانے کی صورتیں بنانی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
ابھی آپ یوں کریں کہ جس کا مراقبہ شان جامع ہوچکا ہے، اس کو اب آپ مراقبہ معیت بتا دیں۔ مراقبہ معیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیسے ساتھ ہے؟ یہ اللہ کو پتا ہے، یہ ہمیں نہیں پتا۔ کیونکہ اللہ پاک کے ساتھ ہونے کا مطلب انسانوں کی طرح تو نہیں ہے، اس لئے یہ تو اللہ کو پتا ہے، لیکن اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے، کیونکہ اللہ پاک خود فرماتے ہیں کہ میں شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔ پس پندرہ منٹ یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں، جیسا کہ اس کی شان ہے۔
اور جو دوسری بچی ہے، اس کو صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ بتا دیجئے۔ اور جو بچہ ہے، وہ فی الحال یہی جاری رکھے، کیوں کہ اس کے ناغے بہت ہوئے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ اس کو reinstate کر لے۔
اور ابھی آپ لوگوں کو پتا چل گیا کہ بچیوں کے لئے یہ کیسے آسانی کے ساتھ ہو رہا ہے، مردوں کے لئے یہ کافی مشکل ہوتا ہے۔ بچیاں بہت جلدی جلدی ان تمام چیزوں تک پہنچ گئیں، کیوں کہ ان کے اندر یکسوئی ہوتی ہے اور یکسوئی سے ان کو فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! رمضان کے بعد سے اب تک کے احوال درج ذیل ہیں، رہنمائی کی درخواست ہے۔
نمبر 1: فجر کی نماز: چار نمازیں قضا ہوئی۔
نمبر 2: ذکر پرانے والا ہے، چھ ہزار والے میں وقفہ کرتا ہوں، جیسے ہزار ایک وقت میں۔ یکسوئی کم رہتی ہے، ذکر جہری کے لئے علیحدگی اور خاموشی میسر نہیں ہوتی، بچوں کا آنا جانا اور شور و غل لگا رہتا ہے۔
نمبر 3: اکثر وظائف اعتکاف کے بعد سے دیئے ہوئے ہیں، تاہم زبان کے استعمال پر control حاصل نہیں ہے۔ اکثر خاموش رہنے کا عزم ہوتے ہوئے بھی سخت بے احتیاطی ہوجاتی ہے، خصوصاً دفتری معاملات میں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔
جواب:
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ آپ ذکر کو اس طرح کریں، جس طرح کرنا چاہئے۔ اور ذکر جہری میں یہ بات ضرور ہے کہ زیادہ چیخ کر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ جتنا انسان اپنے طور پر خود سن سکے، یہ بھی کافی ہوتا ہے۔ اگر ایسی مجبوری ہو، جیسے آپ بتا رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اس طریقہ پہ کر لیا کریں، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ان شاء اللہ۔
باقی یہ ہے کہ ارادہ آپ کا خیر کا ہو۔ اور جب کبھی اس میں کمی ہو، تو آپ استغفار کریں اور پھر دوبارہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں۔ اس طریقہ سے بار بار آنے سے اور ہمت نہ توڑنے سے ان شاء اللہ ایک دن کامیابی ہوجائے گی۔ تیمور کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ دل چھوڑ گیا تھا کہ اب میں نہیں جیت سکتا۔ پھر وہ ایک چیونٹی کو دیکھ رہے تھے کہ وہ اوپر چڑھ رہی تھی اور بار بار گر جاتی تھی۔ پھر دوبارہ چڑھنا شروع کر لیتی۔ پتا نہیں سو مرتبہ یا کتنی مرتبہ وہ گری اور بالآخر وہ چڑھ ہی گئی۔ تیمور نے کہا کہ کیا میں چیونٹی سے بھی کمزور ہوں کہ میں اپنی ہمت توڑ دوں۔ چلو اس دفعہ ہمت کر کے پھر حملہ کرتے ہیں۔ پھر جب کوشش کی اور ہمت coverage کر لی، تو پھر جیت گئے۔ چنانچہ انسان کو سب سے زیادہ نقصان ہمت چھوڑنے سے ہوتا ہے، ورنہ اللہ پاک نے جو صلاحیتیں دی ہیں، ان کو استعمال میں لانے سے بڑے بڑے کام ہوسکتے ہیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ فلاں بچی کم سنی میں بیعت ہوئی تھی، اب بڑی ہوگئی ہے۔ پہلے چالیس دن کا وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا تھا، پھر تین سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ وظیفہ کیا تھا، اس کے بعد پانچ منٹ لطیفہ قلب پر ذکر ملا تھا۔ بچی کئی مہینوں سے یہی ذکر کرتی آئی ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا۔ اس بات کی اطلاع نہیں کر رہی اور اپنا ذکر بغیر اطلاع کے یوں ہی جاری رکھا ہوا تھا۔
جواب:
اب ان کو دس منٹ کا بتا دیجئے، ان شاء اللہ ہوجائے گا۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! تقریباً چار مہینے سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا، جو میری اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہے۔ حضرت جی! میرے شوہر کافی بیمار ہوگئے تھے، ان کی وجہ سے آیت کریمہ کی تسبیح تہجد کے ٹائم پر پڑھنے کو حصولِ اولاد کے لئے جو آپ نے مجھے دی تھی، وہ مجھ سے چھوٹ گئی اور مراقبہ بھی تب سے نہیں کیا، البتہ نمازوں کے بعد والا ذکر اور باقی تسبیحات جاری ہیں۔ الحمد للہ! دل کافی مطمئن ہے، اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔ پہلے جو کیفیت تھی، وہ اب نہیں ہے۔ دل کو سمجھ آگئی کہ جو اللہ کرتے ہیں وہی بہترین ہوتا ہے۔ حضرت جی! تسبیح اور مراقبہ کے بارے میں رہنمائی کریں کہ کہاں سے شروع کروں؟ حضرت جی! کچھ سوال ہیں، ان کے بارے میں بھی رہنمائی کر دیں۔
نمبر 1: اگر قریبی رشتہ داروں میں آپ کو پتا ہو کہ ان کی کمائی میں حرام شامل ہے اور وہ آپ کو تحائف دیتے رہتے ہوں، تو کیا ان کا استعمال کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ان کا کیا کیا جائے؟
نمبر 2: جو لوگ حرام کی بدولت بہت ہی شاندار زندگی کا رہن سہن رکھے ہوئے ہیں، جب کہ پہلے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ان کے لئے دل میں ایسا سوچنا کہ اللہ کرے کہ ان کو پکڑے، ان کا احتساب ہو اور سب ٹھاٹ باٹ ختم ہوجائے، تاکہ ان کو احساس ہو اور یہ اپنے رب کی طرف لوٹ سکیں۔ ایسا سوچنا کیسا ہے؟ اور خود اپنی ذات کو انسان کیسے پہچانے کہ یہ حسد جلن کی وجہ سے ہے یا واقعی ان کی بھلائی کا ارادہ ہے؟
نمبر 3: انسان اپنے اندر کی ریاکاری کو کیسے پہچانے؟
نمبر 4: گھر میں decoration کے لئے اصل مارخور کو stuff کروا کر رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
حضرت جی! میں اپنی family کو اپنے طور پر اللہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں، خاص طور پر بچوں کو اللہ سے جوڑنے کی طلب مجھ میں بہت زیادہ ہے، اور بہت سارے لوگوں کو میری ذات سے فائدہ پہنچتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب میری ذات سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے، تو میں بہت ہی زیادہ خوش ہوتی ہوں، لیکن اندر اندر ڈرتی ہوں کہ کہیں یہ اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے تو نہیں ہے۔ ان سارے معاملات کے لئے انسان اپنے لئے کون سا پیمانہ قائم کرے، جس سے وہ خود کو دیکھ سکے کہ کہاں صحیح اور کہاں غلط ہے؟ حضرت جی! اگر سلسلہ کی خواتین کے لئے کوئی Whatsapp گروپ ہے، تو اس کا نمبر شیئر کر دیں۔ اللہ کریم آپ پر ہمیشہ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کے شوہر کو صحت عطا فرما دے۔ باقی! جو آپ سے رہ گیا ہے، اب دوبارہ واپس اس کو reinstate کر لیں اور مراقبہ ابتدا والا شروع کر لیں، اور وہ یہ ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار تو سو سو مرتبہ جاری رکھیں اور ساتھ یہ ہے کہ مراقبہ دس منٹ سے شروع کر لیں، یعنی دس منٹ یہ سوچنا ہے کہ میرا دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ ایک وقت مقرر کر کے آپ اس کو جاری کر لیں۔ ایک مہینے کے بعد پھر مجھے اس کے بارے میں بتا دیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو اطمینان نصیب فرمایا ہے، یہ بہت غنیمت اور بہت بڑی نعمت ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔
باقی! آپ نے جو ان لوگوں کے بارے میں پوچھا ہے، جو حرام زندگی گزار رہے ہوں، تو ان کے بارے میں آپ چیزوں کے چھن جانے کا تصور کیوں کرتی ہیں؟ آپ صرف اتنا کہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے۔ اب اللہ پاک ان کو جیسے ہدایت دینا چاہے، وہ اس کا کام ہے، وہ اللہ پاک کی مرضی ہے، جس طریقہ سے بھی ہدایت دے دے، آپ صرف ان کے لئے ہدایت کی دعا کریں۔ ہدایت کی دعا بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا آپ ان کی ہدایت کی دعا کریں۔
باقی یہ ہے کہ جب کبھی آپ کو اس قسم کا مسئلہ ہو، تو اس پہ آپ استغفار کر لیا کریں اور پھر اپنی نیت کو درست کر لیا کریں۔ وہ اس طرح کہ آپ کہیں کہ اصل بات تو اللہ کا راضی ہونا ہے، مجھے تو اللہ کی رضا کے لئے کام کرنا چاہئے۔
اور اپنی family آپ جن لوگوں کو اللہ کی طرف راغب کرنا چاہتی ہیں، تو یہ بہت اچھی تڑپ ہے، البتہ اس میں حکمت سے کام لینا چاہئے، کسی کو اتنا بتانا چاہئے، جتنا وہ ہضم کرسکتا ہو۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بعض دفعہ vomiting ہوجاتی ہے۔
مفتی صاحب اپنا گروپ آپ کو شیئر کر دیں گے۔ لہٰذا جب کبھی اس قسم کی بات ہو، تو ضرور پوچھنی چاہئے، البتہ جو باتیں مفتیانہ مسائل کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں، تو ان کے بارے میں مفتیوں سے پوچھنا چاہئے، کیونکہ مفتی اسی کام کے لئے ہوتے ہیں۔ جیسے آپ نے پوچھا ہے کہ اگر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں پتا ہو کہ ان کی کمائی میں حرام شامل ہے اور وہ آپ کو تحائف دیتے رہتے ہیں، تو ان تحائف کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ان کا کیا کریں۔ (حضرت نے مجلس میں موجود مفتی صاحب سے اس سوال کا جواب دینے کا فرمایا، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ) اس کے بارے میں علماء یہ فرماتے ہیں کہ اگر ان کی غالب آمدنی حلال کی ہے، تو پھر اس میں گنجائش ہے، وہ تحائف لے سکتے ہیں اور اگر غالب آمدنی حرام کی ہے، تو یا تو ان کو آرام سے سمجھا دیا جائے، اور اگر ان کو آرام سے سمجھایا نہ جاسکے، تو پھر بعض علماء نے لکھا ہے کہ وہ لے کر بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کر دیا جائے اور کسی غریب کو دے دیا جائے، کیونکہ غریبوں کے لئے گنجائش ہوتی ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپی نے چالیس دن کی تسبیح مکمل کر لی ہے، مزید انہوں نے کیا کرنا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ نصیحت بھی چاہتی ہیں، انہیں کچھ نصیحت کیجئے۔ حضرت جی! اگر کوئی ایسی بات پیش آئے، جس سے متعلق دل میں کوئی خیال پیدا ہو، تو کیسے تصدیق کی جائے کہ صحیح ہے یا وسوسہ؟ بندی کی اکتوبر میں شادی ہے، سب سنت کے مطابق چاہتی ہے، جبکہ گھر والوں کو راضی کرنا آسان نہیں ہے، کوئی عمل بتا دیجئے کہ وہ آسانی سے راضی ہوجائیں۔
جواب:
ایک تو یہ کریں کہ آپی نے جو چالیس دن کی تسبیح مکمل کی ہے، تو اب ان کو بتا دیں کہ وہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے کریں۔ جو نماز کے بعد والا ذکر بتایا ہے، اس کو نماز کے بعد ہمیشہ کے لئے کرتی رہیں۔ اور اب مزید یہ کریں کہ دس منٹ کے لئے قبلہ رخ بیٹھ کر زبان بھی بند اور آنکھیں بھی بند کر کے یہ تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے، یعنی دل کی طرف متوجہ رہیں۔ اس کی مثال ایسے ہوتی ہے کہ جیسے کوئی بلی اپنے شکار پر جھپٹنے کے لئے تیار ہوتی ہے، تو اس کے جسم کے سارے اعضاء صرف اس چیز پر متوجہ ہوتے ہیں کہ میرا شکار اگر میرے سامنے آئے، تو میں اس کو پکڑ سکوں۔ اسی طرح اس مراقبے میں یہ کرنا ہے کہ جو میرے مطلب کی بات ہے یعنی ذکر، اگر وہ مل جائے، تو میں فوراً اس کو catch کر لوں، وہ مجھ سے miss نہ ہو۔ بس آپ اس کیفیت کے ساتھ دس منٹ کے لئے بیٹھ جایا کریں۔
باقی یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اس قسم کی بات ہو، تو اس کی تصدیق اس طرح کریں کہ اگر وہ شریعت سے متعلق ہے، تو کسی مفتی صاحب سے استفادہ کر لیں اور اگر اصلاح سے متعلق ہو، تو شیخ سے پوچھ لیا کریں۔
ما شاء اللہ! ’’شادی سنت کے مطابق ہو‘‘، یہ بڑی اچھی سوچ ہے، اس کے لئے ’’رَبِّ یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ‘‘ میں ’’بِالْخَیْرِ‘‘ میں یہ نیت کر لیا کریں کہ سب کچھ سنت کے مطابق ہو، اور اس کے لئے یہ دعا کرنا شروع کر لیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جناب محترم شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ خیر و عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ حضرت! آپ کا دیا ہوا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ اس کا ایک ماہ 12 جون کو پورا ہوا ہے، اب جو حکم ہو، ارشاد فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ دو سو، چار سو، چھ سو تو جاری رکھیں، لیکن ’’اَللہ‘‘ پانچ سو کی جگہ ہزار مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر 13:
حضرت! یہ پوچھنا تھا کہ اگر کسی انسان کو یہ محسوس ہو کہ مجھ سے یہ گناہ ہوا ہے اور اس کی مجھے یہ سزا ملی ہے، یعنی بعض دفعہ اگر یہ معاملہ بالکل کھل کے سامنے آ جائے، یعنی آپ کو دل کے اندر محسوس ہو کہ یہ گناہ اور یہ غلطی ہوئی ہے اور اس کی فوراً سزا ملنا شروع ہوئی ہے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
ایسا ہوسکتا ہے۔ اصل میں اللہ پاک بعض دفعہ بعض پر بعض باتیں کھول دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی کسی حرام میں مبتلا ہوجائے، تو اس کا نتیجہ پھر بہت برا آ جاتا ہے۔ اگر کوئی جھوٹ بول دے، اس کا نقصان اس کے اوپر ظاہر ہو جائے، یا کسی کو نقصان پہنچائے، تو اس کا اپنا نقصان ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس کو اس پر اچھی طرح توبہ کرنی چاہئے، جس طرح توبہ کا طریقہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر اس کام کا صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے اور اس میں قضا والی بات نہیں ہے، تو اس پہ تو صلوٰۃ التوبہ کافی ہوجاتی ہے، لیکن جس میں قضا والی بات ہے، جیسے نماز میں قضا ہے، روزے میں قضا ہے، تو اس میں قضا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ قضا کا تعلق نہیں ہے، تو پھر تین شرطیں پوری ہونی چاہئیں: ایک یہ کہ اس پر ندامت ہو، دوسری یہ کہ اس سے رکنا ہو اور تیسری یہ کہ آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم ہو۔ ان تین چیزوں سے توبہ پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اس میں قضا ہو، تو پھر قضا بھی کرنی پڑتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کا حق اس کے ساتھ وابستہ ہو، تو پھر اس کو اس کا حق دینا یا معاف کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مثلاً اگر غیبت کی ہو، تو توبہ کے ساتھ یہ بھی کریں کہ ان سے معافی مانگیں کہ کوئی کہا سنا ہو تو اس کو معاف کر دیجئے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کی تلافی کی جو صورت ہو، وہ کر لی جائے، تو اللہ پاک معاف کرنے والا ہے۔ اور یہ اس پر اللہ پاک کا فضل ہوتا ہے جس کو دنیا میں اس چیز کا موقع دیا جائے کہ وہ اس سے توبہ کر لے اور اس کو پتا چل جائے کہ اس کا نقصان یہ ہے، کیونکہ موت کے بعد تو سب کو پتا چلنا ہے۔ لیکن موت کے بعد والی صورت ایک خطرناک صورت ہے، زندگی میں بے شک کسی کو سخت سے سخت چیز کی بھی اطلاع ہوجائے، وہ اس کے لئے بہت ہی نرمی والی بات ہے، کیونکہ موت کے بعد والی سزا بہت سخت ہے۔ آپ ﷺ سے زیادہ کون پاک ہوسکتا ہے، لیکن آپ ﷺ نے بھی اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ اگر میں نے کسی کے اوپر سختی کی ہو یا میں نے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو، تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔ صحابہ حیران ہوگئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ نے ہمیں تکلیف کہاں پہنچائی ہے، آپ نے تو ہمیں راحت ہی پہنچائی ہے۔ پھر فرمایا کہ نہیں، موت کے بعد والا معاملہ مشکل ہے۔ پھر ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے ایک دفعہ مجھے چپت ماری تھی اور اس وقت میں نے قمیص نہیں پہنی ہوئی تھی، تو میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ باقی صحابہ کٹ گئے، انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے بدلہ لے لیں۔ لیکن آپ نے ﷺ روکا اور کہا کہ نہیں، اس کا حق ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدلہ لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے اس وقت قمیص نہیں پہنی ہوئی تھی۔ اس وقت آپ ﷺ نے قمیص اتاری۔ پھر اس کے بعد صحابی نے جب مہرِ نبوت دیکھی، تو فوراً اس پہ چمٹ گئے اور چومنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو سارا کچھ اس کے لئے کیا تھا، میں آپ سے کوئی بدلہ تو نہیں لینا چاہتا تھا۔ بس میرے دل میں حرص تھی کہ میں آپ کی مہرِ نبوت کو چوموں۔ اس میں اس صحابی کی محبت اپنی جگہ ہے، لیکن آپ ﷺ کا اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کرنا؛ اس میں امت کے لئے اتنا بڑا پیغام ہے کہ اس پیغام کو ہمیں recieve کرنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے کہ موت سے پہلے پہلے اپنے تمام معاملات clear کرنے چاہئیں، سب سے آسان بات یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 14:
اگر کوئی رشتہ دار یا حلقہ احباب میں سے کوئی شخص کسی پہ جھوٹ باندھے اور تہمت لگائے جو کہ اس بندے نے کام کیا نہ ہو اور وہ اس کو یقین دلائے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کی characterization ہو رہی ہو، تو اس کا کیا حل ہے؟
جواب:
اصل میں تہمت کی سزا تو شریعت میں مقرر ہے، لیکن چونکہ اسلامی سلطنت نہیں ہے، اس لئے کون کوڑے لگوائے گا۔ آپ تو نہیں لگوا سکتے۔ لہٰذا برداشت ہی کرنا پڑتا ہے۔ اپنے طور پر انسان ان کی تسلی کرائے کہ یہ کام میں نے نہیں کیا اور ان سے کہہ دے کہ یہ شواہد و ثبوت ہیں، میں نے یہ کام نہیں کیا، لیکن اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے، تو آپ بتا دیں۔ یا اگر اپنے رشتہ داروں میں بات ہو، تو رشتہ داروں میں سے کسی کو حَکم (فیصلے کرنے والا) بنا لیں اور ان کے سامنے بات کو لے آئیں، تاکہ وہ دونوں کی بات سن لے اور اس میں فیصلہ کر دے۔ اس طریقہ سے وہ اس چیز کو ختم کرنے کی کوشش کر لے۔ لیکن اگر اس کے باوجود بھی وہ مصر ہو، تو پھر آدمی برداشت ہی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں پھر انسان کر ہی کیا سکتا ہے، وہ انسان ان کے ساتھ لڑ تو نہیں سکتا، کیونکہ لڑنے میں اور مسائل ہیں۔ بس یہی حل ہے کہ اپنے آپ کو شر سے بچانے کی جتنی کوشش ہے، وہ کرلے۔ اور اگر خدا نخواستہ واقعی اس قسم کی بات ہو، تو پھر اس کی تلافی کرنی ضروری ہے۔
سوال نمبر 15:
حضرت! ایک حدیث شریف مشہور ہے، جس میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
’’مَنْ رَاٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهٖ، فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ، فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْإِيْمَانِ‘‘۔ (صحیح مسلم: 177)
ترجمہ: ’’جب تم میں سے کوئی کسی منکر کو دیکھے، تو اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی اسطاعت نہیں رکھتا، تو پھر اپنی زبان سے روکے۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو، تو پھر اپنے دل سے روکے۔ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے‘‘۔
پھر مسلم کی ایک روایت ہے، جس میں ہے: ’’لَیْسَ وَرَآءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ‘‘ (صحیح مسلم: 179)
ترجمہ: ’’اس کے بعد ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے‘‘۔
یعنی جو دل میں بھی برا محسوس نہ کرے، تو اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ اب مثال کے طور پر ایک موسیقی کی محفل لگی ہوئی ہے، ہنس کھیل رہے ہیں، تصویر کشی حد سے زیادہ ہورہی ہے اور کتنی نافرمانیاں ہورہی ہیں، اب دل میں جو ڈھیس پہنچتی ہے اور کسک ہوتی ہے کہ یہ غلط ہو رہا ہے، وہ بھی نہیں ہو رہا، یعنی اس وقت یہ کیفیات جو بن جاتی ہیں، وہ نہیں ہوتیں۔ کل مجھ سے کسی نے درسِ قرآن کے دوران یہ سوال کیا۔ تو پھر ہمیں اس حدیث کی رو سے دیکھا جائے، تو ہماری کیا کیفیات ہیں؟ اور یہ اندر کی کیفیات کب پیدا ہوتی ہیں اور کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟
جواب:
اصل میں آپ نے بہت نازک سوال پوچھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں، جو فتنے کا دور ہے۔ ایسے دور کے بارے میں فرمایا کہ صبح انسان مسلمان ہوگا، شام کو کافر ہوچکا ہوگا، اور شام کو مسلمان ہوگا، تو صبح کافر ہوچکا ہوگا۔ یہ ویسے تو نہیں ہوگا، اس کا کوئی سبب تو ہوگا۔ اور وہ سبب یہی ہے کہ انسان کے دل سے گناہ کے گناہ ہونے کا خیال مٹ جائے، وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھے۔ اور یہی چیز انسان کو ایمان سے خارج کرنے والی ہے۔ آج کل کے دور میں یہ چیز بہت زیادہ ہوگئی ہے، بلکہ اس سے بھی آگے کی بات ہے کہ جو لوگ برا سمجھتے ہیں، ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے، ان کو برا سمجھا جاتا ہے اور ان کو برا ثابت کیا جاتا ہے۔ لوگ بھی ایسوں کا ساتھ دیتے ہیں، لوگ حق کا ساتھ نہیں دیں گے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، قرآن پاک میں سورۂ شمس میں اللہ پاک نے سات قسمیں کھائی ہیں: سورج کی قسم، چاند کی قسم، زمین کی قسم، آسمان کی قسم، دن کی قسم، رات کی قسم اور نفس کی قسم۔ پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں: اس کا فجور اور برائی، اور اس کا تقویٰ۔ پھر فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا یعنی رذائل کو دبا دیا، تو وہ مکمل کامیاب ہوگیا اور جس نے اپنے نفس کو پاک نہیں کیا اور رذائل کو اس طرح ہی رہنے دیا، تو وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ پھر جو مثال دی ہے، میں اس مثال کی طرف آتا ہوں، مثال قوم ثمود کی دی ہے۔ قوم ثمود میں دو رنڈیاں تھیں، ان کا ایک عاشق تھا، معاملہ اس طرح تھا کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی جو معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چٹان سے باہر آئی تھی، وہ بہت بڑی اونٹنی تھی اور بہت اونچا اس کا قد تھا۔ وہ پانی بہت پیتی تھی، یعنی ایک دن پورا پانی وہی پی لیتی تھی اور پھر ایک دن باقی پوری قوم کے لئے باری مقرر کی تھی۔ وہ رنڈیاں کہتی ہیں کہ یہ اونٹنی اتنا پانی پی جاتی ہے، لہٰذا اگر تم اس کو مار دو، تو پھر ہم تمھاری ہوجائیں گی۔ ان کی وجہ سے وہ جال میں آگیا اور اس نے اس اونٹنی کو مارنا چاہا۔ جب اس نے اس اونٹنی کو مارنا چاہا، تو صالح علیہ السلام نے روک دیا کہ ایسا نہ کرو، یہ خدا کی اونٹنی ہے اور اس کی بھی باری ہے۔ اس پر ان کی قوم نے اس کا ساتھ دیا جو بدمعاش تھا، پیغمبر کا ساتھ نہیں دیا، تو اللہ پاک نے پوری قوم کو اڑا دیا۔ اس واقعے کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں اللہ پاک کے الفاظ کیا ہیں، فرمایا:
﴿وَلَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾ (الشمس: 15)
ترجمہ: ’’اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے‘‘۔
یعنی اللہ پاک کو کوئی پروا نہیں۔ اونٹنی کو ذبح کرنے کے بعد پھر ساری قوم کو ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح ہمارے اوپر جو اس وقت بہت زیادہ مسائل آ رہے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ اب گناہ کے گناہ ہونے کا احساس نہیں رہا۔ جیسے کہتے ہیں: قافلے کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔ اب یہ بات بہت زیادہ ہے کہ کوئی احساس ہی نہیں کرتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اور جو برا ہو رہا ہے، اس برائی کو لوگ محسوس نہیں کر رہے، بلکہ برائی کا ساتھ دینے میں لگ جاتے ہیں۔ دجال کے ساتھ بھی یہی ہوگا کہ اس کے ساتھ برائی کے sources بہت زیادہ ہوں گے، ان sources کی جو محبت لوگوں کے دلوں میں ہوگی، وہ لوگوں کو کھینچتے ہوئے اس کے پاس لے جائے گی، اس وجہ سے بہت کم لوگ اس سے بچیں گے۔ آج کل کے دور میں بہت زیادہ اس چیز کا امکان ہے کہ آج کل میں ہی دجال آ جائے، کیونکہ ساری شرائط تقریباً پوری ہوا چاہتی ہیں۔ ایسی صورت میں درج ذیل چیزیں بہت ضروری ہیں:
نمبر 1: صحبتِ صالحین بہت زیادہ ضروری ہے۔
نمبر 2: کثرتِ ذکر بہت ضروری ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: ﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الأحزاب: 41-42)
ترجمہ: ’’اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔
مختلف انداز میں اللہ پاک نے ذکر پر جو بہت زور دیا ہے اور آپ ﷺ نے بھی زور دیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دل کی حفاظت ذکر کے ذریعہ سے ہے۔ جب انسان ذکر کرتا ہے تو ذکر سے دل پاک ہوتا ہے۔ جب دل پاک ہوتا ہے، تو اس میں ظلمت کا احساس پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ جس وقت تک کوئی چیز پاک نہ ہو، تو آپ کو گندگی نظر نہیں آئے گی، اس کے اوپر کوئی دھبہ نظر نہیں آئے گا، لیکن جب پاک ہوجائے، تو کم از کم اس کے بعد جو نیا دھبہ ہوگا، تو وہ نظر آ جائے گا۔ اس وجہ سے جب انسان ذکر کرتا رہتا ہے، تو ذکر کے مسلسل کرنے سے انسان کے اندر احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی برائی ہو، تو اس کو وہ چیز بری لگتی ہے، اس وجہ سے ایک تو صحبتِ صالحین اختیار کرنی چاہئے اور دوسرا یہ کہ ذکر اللہ کثرت کے ساتھ کرنا چاہئے۔
نمبر 3: تیسری بات یہ ہے کہ شریعت کا علم یعنی گناہوں کی پہچان اور اس کو حاصل کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانے کا ارادہ کرنا چاہئے۔ جب ارادہ ہوتا ہے، تو پھر اسباب بھی سامنے آ جاتے ہیں، اس کے مطابق پھر انسان کو عمل کی توفیق بھی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ تین کام کر کے انسان اس سے بچ سکتا ہے۔
میں ایک صحیح بات عرض کرتا ہوں اور اس پر بہت تکلیف بھی ہے کہ آج کل مدرسے تو ہیں، لیکن فرضِ عین علم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، حالانکہ یہ ہر ایک کے اوپر فرض ہے، اس کے لئے تو گھر گھر مدرسے ہونے چاہئیں، ہر مسجد میں یہ ہونے چاہئیں، تاکہ لوگوں کو کم از کم فرضِ عین علم کا پتا چل جائے کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی چیز غلط ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ صحبتِ صالحین کی جگہوں کے ساتھ اپنا رابطہ آنے جانے کا رکھنا چاہئے، نہ صرف اپنا، بلکہ اپنے گھر والوں کا اور اپنے بچوں کا بھی انتظام کرنا چاہئے، کیونکہ یہ ہمارے اثاثے ہیں۔ اگر خدانخواستہ وہ ہمارے ساتھ نہ چلیں، تو پھر ہم کیسے چلیں گے۔ لہٰذا اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ ذکر اللہ کثرت سے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 16:
ذکر سیکھ کر کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی فرمایا کہ مجھے کثرت سے یاد کرو۔ اب بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ مجھے کثرت سے یاد کرو، تو پھر ہم نے اس کو limited کیوں کر دیا ہے کہ آپ سو دفعہ یہ پڑھو، چار سو دفعہ یہ پڑھو، یا تین سو دفعہ یہ پڑھو، تو یہ ہوجائے گا۔ ابھی جو شخص چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اللہ کا ذکر کررہا ہے، جب اس کو محدود کر کے بتایا جاتا ہے کہ آپ دو سو دفعہ یہ تسبیح پڑھیں، تو اس سے یہ ہوگا، اس میں ایک تو پابند کرنے والی بات ہے اور دوسرا اس پر مجھے تھوڑا سا ایک اشکال سا ہوا ہے کہ اکثر ہمارے علماء کرام جو بیان کرتے ہیں یا روایات میں بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام آپ یاد کریں گے اور پڑھیں گے، تو آپ کے لئے جنت واجب ہوجائے گی۔ اب بات یہ ہے کہ اگر صرف ننانوے نام یاد کر لینے اور پڑھ لینے سے جنت واجب ہوجائے، تو پھر تو جنت کو حاصل کرنا بڑا آسان ہوگیا۔ پھر بندہ اور کوشش کیوں کرے؟ اس بات کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ دوسرے اعمال بھی ضروری ہیں، یہ تو صرف ایک part ہے، آپ نے دوسرے اعمال بھی کرنے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی ہے، وہ تو کہے گا کہ ٹھیک ہے، اگر صرف یہ ننانوے نام یاد کرنے سے جنت ملتی ہے، تو پھر مجھے دوسرے اعمال کیوں کرنے چاہئیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اقبال کا ایک شعر جو کافی غور کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ بندۂ مولا صفات کیسے بنا جاتا ہے۔ اب جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، جب تک بندہ ان صفات کو اپنے اوپر نافذ نہیں کرے گا اور ان کے مطابق کام نہیں کرے گا، تو وہ نہ تو مولا صفات بنے گا اور نہ اللہ کا ہاتھ اس کا ہاتھ اور نہ اس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بنے گا۔ اب اگر ہم ’’یَا لَطِیْفُ، یَا خَبِیْرُ، یَا رَحِیْمُ‘‘ کرتے جائیں، لیکن ہم میں نہ لطافت ہے، نہ دوسروں کے لئے ہمارے اندر رحم کا جذبہ ہے، نہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرتے ہیں، تو صرف نام لینے سے ہمیں یہ تسلی کیسے ہوجاتی ہے کہ اللہ ہمیں جنت دے دے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اللہ کی صفات جو ننانوے ناموں میں ہیں، جب تک ہم ان پر عمل نہیں کریں گے اور ان کو اپنے آپ پر نافذ نہیں کریں گے، تو صرف ان کا ورد کرنے سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے۔
جواب:
آپ نے بہت اچھا کیا۔ اصل میں آپ نے یہ ساری چیزیں project کیں۔ اصل میں میں تو وہی بتا سکتا ہوں جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنی ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ ذکر دو قسم کا ہے: ایک ثوابی ذکر ہے، جس سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور ایک علاجی ذکر ہے، جس سے علاج ہوتا ہے اور حدیث شریف سے دونوں ثابت ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کی صفائی کا ایک آلہ ہوتا ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علاجی ذکر بھی ہوتا ہے، اب علاجی ذکر کا تعلق تجربہ کے ساتھ ہوتا ہے اور تجربہ ہر وقت کا اپنا ہوتا ہے۔ مثلاً: پہلے صحابہ کے وقت میں الگ تھا، تابعین کے وقت میں الگ تھا، تبع تابعین کے وقت میں الگ تھا، کیونکہ حالات اور لوگ بدل رہے ہیں، لہٰذا علاج بھی بدلے گا۔ پس علاجی ذکر تو تجرباتی ہوتا ہے، اس میں ایک خاص حد تک پہنچانے میں تدریج کی ضرورت ہوتی ہے۔ تدریج سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک دن میں سارا کچھ نہیں لا سکتے۔ لائیں گے تو آپ اس کو ختم کر دیں گے۔ تو یہ جو ہم لوگ محدود تعداد میں ذکر دیتے ہیں، یہ صرف تیاری کے لئے دیتے ہیں، یہ ان کا فائنل ذکر نہیں ہے، جس وقت ان کا فائنل ذکر ہوجاتا ہے، تو خدا کی قسم! ایک ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ انسان کا پورا جسم ذکر کررہا ہوتا ہے۔ آپ تو زبان کی بات کر رہے ہیں، اس حالت میں ہر وقت اس کا پورا جسم ذکر کررہا ہوتا ہے، ایسی حالت بن جاتی ہے۔ لیکن اس حالت تک پہنچانے کے لئے آپ نے تدریج کو اختیار کرنا ہے۔ تدریج میں یہ ہے کہ پہلے آپ سو سو مرتبہ، پھر دو سو دو سو، جیسے ابھی آپ نے سن لیا۔ پھر اس کے بعد تین سو تین سو، پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ دل کا، پھر آہستہ آہستہ دوسرے لطائف کا اور پھر چلتے چلتے پورے جسم پہ آ جاتا ہے۔ تو gradually ہم اس طرف جاتے ہیں۔ جیسے اسلام تدریج کے طور پہ آیا ہے، اسی طرح تربیت بھی تدریجی ہوتی ہے۔ البتہ ثوابی ذکر حسبِ توفیق ہے۔ حسبِ توفیق سے مراد یہ ہے کہ اس میں تعداد لازم نہیں ہے، اس میں اصل لازم اللہ کو یاد کرنا ہے، مختلف ناموں سے آپ یاد کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے بھی آپ یاد کرسکتے ہیں، جتنا چاہیں، یاد کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی ذکر ہے، نفل نماز بھی ذکر ہے، اب یہ ذکر جتنا آپ کریں گے، اتنا آپ کو اجر ملے گا اور آپ کو ثواب ملے گا۔ اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے، صرف آپ یہ دیکھیں کہ اس کی وجہ سے کوئی واجب تو disturb نہیں ہورہا، صرف آپ اس بات کا خیال رکھیں گے۔ میرے خیال میں آپ کی پہلی بات کا جواب ہوگیا۔
دوسرے سوال کے جواب کے بارے میں میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں، میں اکثر ساتھیوں سے عرض کرتا ہوں کہ اگر کسی چیز پہ وعدہ ہو اور وہ وعدہ حدیث شریف سے ثابت ہو، تو پھر دیر نہیں لگانی چاہئے، بلکہ فوراً اس پہ عمل کرنا چاہئے، اللہ پاک باقی باتیں خود ہی arrange کر لے گا، اس وعدہ پہ وہ باتیں شامل ہوتی ہیں۔ مثلاً: میں آپ کو ایک حدیث شریف سناتا ہوں:
’’اَفْشُوْا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَصِلُوْا الْاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوْا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ‘‘۔ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ السَّلَامِ۔ (سنن ابن ماجہ: 3251)
ترجمہ: ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں، تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے‘‘۔
اب یہ وعدہ ہے۔ میں اگر اس وعدہ کو سمجھ کر اس پر عمل شروع کر لوں، تو اس کے اندر کچھ ایسی صلاحیت ہے، جو مجھے پورے دین پر لے آئے گی۔ مثلاً: میں کہتا ہوں کہ بھائی! اور کچھ کام نہ کرو، لیکن فلاں بزرگ کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دو۔ مجھے بتاؤ کہ کیا یہ قرآن میں لکھا ہے؟ یا یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے یا کون سی حدیث میں آیا ہے کہ فلاں بزرگ کے ساتھ بیٹھو تو تمھیں سب کچھ مل جائے گا، لیکن تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی صحبت سے پورے دین پر آنا نصیب ہوجاتا ہے۔ جب افراد کے ساتھ ایسا ممکن ہے تو کچھ اعمال کے ساتھ بھی ایسا ممکن ہوگا۔ مثلاً تہجد کی نماز کا وقت ایک خاص قبولیت کا وقت ہے، اس قبولیت کے وقت کی برکت سے باقی زندگی بھی قبول ہوجاتی ہے۔ یا آپ کھانا کھلاتے ہیں، تو پتا نہیں کس کے دل میں دعا آ جائے اور آپ کا کام بن جائے۔ اور اگر آپ سلام پھیلا دیں، تو سلام کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے نیک خواہش رکھ رہے ہیں۔ جب آپ لوگوں کے لئے نیک خواہش رکھتے ہیں کہ آپ پر سلامتی ہو، تو فرشتے بھی آپ کے لئے وہی خواہش رکھیں گے، کیونکہ یہ طریقہ ہے کہ آپ کسی کے لئے دعا کرتے ہیں، تو فرشتے آپ کے لئے وہی دعا کرتے ہیں۔ جب ان کی دعا قبول ہوجائے گی تو آپ کا کام بن جائے گا۔ جیسے حدیث شریف ہے کہ اگر تم مجھے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز اور دو رانوں کے درمیان کی چیز کی ضمانت دو، تو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (مسند الشہاب، حدیث نمبر: 546) اب یہ ایسی چیز ہے کہ اگر میں اس پہ عمل کر لوں تو اس کی برکت سے دوسرے اعمال بھی مجھے نصیب ہوجائیں گے۔ باقی! جو آپ نے بات فرمائی ہے، تو اصل میں بعض احادیث ضعیف ہوتی ہیں اور ضعیف احادیث فضائل کے لئے استعمال ہوتی ہیں، مسائل میں استعمال نہیں ہوتیں۔ مثلاً کوئی تبلیغی جماعت میں جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ جس نے اللہ کے راستے میں نماز پڑھی، اس کو انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ اب مجھے اس کے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ اگر دینا چاہتا ہے، تو اس کو دے گا، مجھے اس کے ساتھ لڑنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن ہے ضعیف حدیث، اور وہ بھی interpretations ہیں، دوسری روایت سے جوڑ کر انہوں نے اس مطلب کو اخذ کیا ہے۔ بہرحال! ہم اس کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کرسکتے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر اللہ پاک کسی کو دینا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ البتہ مسائل چوں کہ صرف اور صرف قرآن کی آیات مبارکہ سے اور صحیح احادیث شریفہ سے اخذ کیے جاتے ہیں، اس لئے ان میں پھر اختلاف ہوتا ہے، اماموں کے درمیان بھی اختلافات ہیں اور وہ اجتہادی اختلافات ہیں۔
آپ کا تیسرا سوال اللہ کے ننانوے ناموں کے بارے میں ہے کہ وہ ان کو اپنے اوپر نافذ کرے۔ یہ تو میں خود کہتا ہوں، یہ آپ کی بات بھی ہے، لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی عرض کیا ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں بزرگوں کی بات بتاتا ہوں، اپنی بات نہیں بتاتا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے، جو کہ بہت بڑے بزرگ ہیں۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ سلوک طے کرنے میں طریقہ یہ ہے اگر کسی کو اپنا اسمِ مربی معلوم ہوجائے، تو اس اسمِ مربی کے ذریعہ سے انسان اللہ تعالیٰ میں فانی ہوسکتا ہے یعنی فنا فی اللہ حاصل کرسکتا ہے، یعنی اپنے نفس کی تمام چیزوں کو اللہ کے لئے چھوڑ سکتا ہے۔ میں اس کی ذرا تشریح کر دوں، آپ تو ننانوے نام بتا رہے ہیں، حضرت تو صرف ایک نام بتا رہے ہیں، لیکن اگر وہ کسی کو معلوم ہوجائے، تو اس میں بات یہ ہے کہ اس نام میں صرف نام لینا نہیں ہے، بلکہ اس نام کے ذریعہ سے اللہ تک پہنچنا ہے۔ اس نام میں پھر جو صفات اور حالات ہیں، ان کے مطابق اس کے اندر مسلسل محنت ہے، پھر وہی نام اس کو پہنچا دے گا۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں، ایک صحابی رسول ﷺ نماز میں سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے، صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یہ تو مسلسل اس طرح کرتے ہیں، آپ ﷺ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے اس سے محبت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی محبت تجھے جنت میں پہنچا دے گی۔ (بخاری، حدیث نمبر: 741) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے لئے کوئی ذریعہ بنایا ہوتا ہے، اگر وہ اس ذریعہ تک پہنچ جائے، تو اس کا کام بن جاتا ہے۔ اب اس میں یہ ہے کہ میں اپنے نفس کی وجہ سے عمل کروں یا میں صحیح طریقہ سے عمل کروں، کیونکہ نفس تو ہمیشہ ہمیں شر کی طرف لائے گا، سستی اور غفلت کی طرف طرف لائے گا۔ اس لئے اگر کسی کا کوئی شیخ، کوئی پیر یا کوئی رہبر ہو اور وہ اس کے ساتھ attach رہے، اپنا فیصلہ خود نہ کرے، بلکہ اس سے کروائے، تو یہ زیادہ اچھا ہے۔ جب وہ اس سے فیصلہ کروائے گا، وہ آپ کی بہتری کے بتائے گا۔ لیکن پہلے آپ check کر لیں کہ آیا وہ اس کے قابل بھی ہے یا نہیں، یعنی اس میں آٹھ نشانیاں دیکھ لیں، اگر وہ اس میں پائی جائیں، تو پھر آپ اس کے پاس جائیں، ویسے نہ جائیں، کیونکہ آج کل فتنے کا دور ہے۔ لیکن اگر آپ کو کہیں ایسا مل جائے، پھر آپ اپنا فیصلہ جب اس کے اوپر چھوڑ دیں، تو وہ آپ کے حال کے مطابق آپ کو پھر بتا سکتا ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ جب آپ اس کے مطابق کریں گے، تو آپ کو فائدہ بھی ہوگا۔ شیخ بنانا صرف اور صرف اس کے لئے ہے۔ بلکہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ قرآن اور حدیث سے اشارے ملتے ہیں، ان اشاروں کے استعمال سے ہم لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہمارا نفس بھی درمیان میں involve ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ ہم اشارہ صحیح نہ سمجھیں، ویسے ہی اپنے نفس کی خوش فہمی ہو، جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوجائے، اس خوش فہمی سے بچنے کے لئے ہمیں کسی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بس یہی بات ہے۔
سوال نمبر 17:
اکثر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو نیک عمل کرو، جو عبادت کرو، وہ ثواب کی نیت سے کرو کہ اس سے مجھے ثواب ملے گا۔ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ جب ہم ثواب کی نیت سے اچھا عمل کریں گے تو ہم اللہ کا حکم مان کر تو وہ عمل نہیں کر رہے کہ اللہ نے ہمیں کہا ہے کہ یہ کام کرو، بلکہ ہم صرف اپنی ذاتی غرض کے لئے کر رہے ہیں۔ جب ہم ثواب کی نیت سے عمل کریں گے، تو وہ عمل ہم سے از خود سرزد ہوجاتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم یہ کریں کہ یہ عمل میں اس لئے کروں گا کہ مجھے ثواب ملے یا نہ ملے، جنت ملے یا نہ ملے، یہ عمل میں صرف اور صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔
جواب:
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ تین قسم کے حضرات ہیں: آپ نے تو آج یہ بات کی ہے، آپ ان سے پوچھیں کہ میں یہ باتیں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ تین قسم کے حضرات ہیں: دنیا دار اور دیندار، اور پھر دینداروں میں دو قسم کے گروہ ہیں: وہ دیندار جو جنت اور دوزخ کی وجہ سے اعمال کر رہے ہیں اور وہ دیندار جو صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اللہ کی محبت میں اعمال کر رہے ہیں۔ اب جو دنیا دار ہوتے ہیں، وہ دینداروں کی بات کو نہیں جانتے، جب دین دار اپنے پیسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، یا چیزیں چھوڑ دیتے ہیں، تو دنیا دار کہتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں، ان کی بات وہ نہیں جانتے، چونکہ ان کے درمیان میں concepts کا بہت بڑا فرق ہے۔ تو جس طرح ان کے درمیان فاصلے ہیں، اسی طرح ان دونوں دینداروں کے درمیان بھی فاصلہ ہے، جو جنت اور دوزخ کی وجہ سے کر رہے ہیں یا جو اللہ کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ جو جنت اور دوزخ کی وجہ سے کر رہے ہیں، اُن کو اِن کی بات سمجھ میں نہیں آتی، لیکن یہ fact ہے۔ اب fact میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ ثابت کس طرح ہوتا ہے۔ ثابت اس طرح ہوتا ہے کہ جنت میں جب جنتی لوگ جمع ہوجائیں گے، اللہ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے۔ تو اس وقت یہ ہوگا کہ اللہ جل شانہ جنتیوں پر اپنے انعامات کی بارش فرمائیں گے اور باقاعدہ پوچھیں گے کہ کیا چاہتے ہو؟ اب لوگ کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں، تو اللہ پاک دے دے گا، پھر یہ چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں، تو پھر دے گا، حتیٰ کہ جب پھر اللہ کہے گا کہ اور کیا چاہتے ہو؟ تو وہ حیران ہوں گے کہ اب ہم مزید کیا چاہیں۔ پھر اس وقت علماء جو پہلے دنیا میں تھے اور اب ادھر بھی پہنچ چکے ہوں گے، تو ان لوگوں کو پتا ہوگا کہ یہ تو علماء تھے، وہ اپنے علماء سے پوچھیں گے کہ اب کیا مانگیں؟ علماء ان کو بتائیں گے کہ اللہ پاک کا دیدار ابھی نہیں ہوا، دیدار مانگو۔ پھر اللہ پاک دیدار کی محفل arrange کر لے گا اور اس میں پھر ٹائم کا کچھ پتا نہیں چلے گا کہ کتنا ٹائم گزرگیا ہے، ایسے عجیب لمحات ہوں گے کہ انسان سب کچھ بھول جائے گا۔ اور جب دیدار ہو جائے گا، تو اس کے بعد وہ کہیں گے کہ پہلے تو ہمیں کچھ نہیں ملا تھا، اصل تو یہی تھا۔ یعنی پہلے کی ساری چیزیں ان کی نظروں میں ہیچ ہوجائیں گی۔ اب بتائیں کہ جو پہلے کی چیزیں تھیں جو انہوں نے خود مانگی تھیں، وہ ان کی نظروں میں ہیچ ہوگئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو پہلے اس کا پتا نہیں تھا اور جب ان کو اس کا پتا لگ گیا تو ان پر حقیقت کھل گئی۔ اسی طرح جو لوگ دنیا میں اس حال میں ہیں کہ وہ وہی چاہتے ہیں جو دوسرے لوگ وہاں کہیں گے، تو ان کا حال کیا ہوگا۔ اور ایسے لوگ موجود بھی ہیں، گزرے ہیں اور اب بھی شاید ہوں گے ان شاء اللہ۔ چنانچہ ان کی بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ البتہ ایک بات میں ملانے کے لئے عرض کرتا ہوں، کیوں کہ کوئی concept ملانے کا بھی ہونا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ ایک شخص ہے، اگر وہ جنت اسی لئے مانگتا ہو کہ اللہ کی رضا کی جگہ ہے اور اللہ پاک جس سے راضی ہوتے ہیں اس کو یہ جگہ دیتے ہیں، لہٰذا میں جنت اس لئے مانگتا ہوں کہ اللہ کہتا ہے کہ جنت مانگو، تو بس پھر ٹھیک ہے، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے، پھر بات صحیح ہوگئی۔ کیوں کہ یہ اللہ کی رضا کے لئے مانگ رہا ہے، کیوں کہ وہ جنت اس کے مانگنے کی بنیاد نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ پاک کی رضا کے لئے مانگ رہا ہے، لہٰذا اگر کسی کی یہ حالت ہو، تو پھر اس میں کوئی بات نہیں ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ ہمیں بتاتے ہیں کہ رمضان شریف میں زیادہ جنت مانگو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ اب اس میں خود فرق ہوجاتا ہے کہ کچھ لوگ جنت اور دوزخ کو مقصود سمجھ کر مانگ رہے ہیں اور کچھ اس کو اللہ پاک کی طرف سے حکم سمجھ کر مانگ رہے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مانگو۔ اور اللہ تعالیٰ کی بات تو آپ ﷺ کے ذریعہ سے ہم تک آ رہی ہے۔ لہٰذا یہ اللہ کی بات ہوگئی۔ پس جب یہ اللہ کی بات ہوگئی تو جو اس وجہ سے مانگ رہے ہیں، وہ ان سے مختلف ہوگئے جو اپنے نفس کی وجہ سے مانگ رہے ہوں گے۔ اس وجہ سے ان کے حالات مختلف ہیں۔ بہرحال! اس میں بڑی تفصیلات ہیں۔
سوال نمبر 18:
حضرت! ویسے تعارف کرانا تھا کہ مجھے خود تو دو سال پہلے اصلاحی تعلق کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوچکی ہے، یہ ہمارے والد صاحب ہیں، ان کو میں نے کہا جیسا کہ آپ نے بھی بتایا کہ شیخ کامل کو تلاش کیا جائے۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ میں تلاش میں نہیں جاؤں گا۔ جو شیخِ کامل ہوگا، وہ اپنی نگاہ سے اپنی طرف کھینچ لے گا، پس میں وہیں مائل ہوجاؤں گا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ میں تلاش نہیں کروں گا، کامل وہی ہے، جو مجھے اپنی طرف کھینچے، نہ کہ میں اس کی طرف اس کی تلاش میں جاؤں۔
جواب:
یہ تو آپ کی خواہش ہے، لیکن میں قرآن کا حکم بتاتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔
اب اللہ پاک کا وعدہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ کوشش میں تلاش بھی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ایک آدمی اپنی بیماری کا علاج کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے ابتدائی کام تو یہی ہوا کہ ڈاکٹر کو تلاش کرے گا۔ ڈاکٹر کو کوئی بھی assume نہیں کرتا کہ ڈاکٹر میرے گھر آئے گا اور کہے گا کہ مجھ سے علاج کراؤ۔ بلکہ اگر کوئی ڈاکٹر ایسا کہے گا، تو شاید غلط بات ہوگی، لوگ کہیں گے کہ بھائی! اس میں کوئی چکر ہے، یہ کیوں میرے پاس آ کر مجھے کہتا ہے کہ مجھ سے علاج کراؤ۔ پس خود ہی انسان تلاش کرتا ہے اور اس کے بعد جب اس کو ڈاکٹر ملتا ہے تو پھر وہ اس کی بات مانتا ہے، تو علاج ہوجاتا ہے۔ البتہ اس میں ایک بات ہے، میرے ساتھ بڑے experiences ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ experience تو ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے، میرے ساتھ بھی ہوئے ہیں۔ میں ایک دفعہ حیدر آباد میں گیا تھا، وہاں پر دوست مجھے مختلف لوگوں سے ملوا رہے تھے۔ میں ایک محلہ میں گیا، وہ محلہ بڑا شاندار تھا، میں نے کہا کہ یہ کن کا محلہ ہے؟ بڑا شاندار محلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قصائیوں کا ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا، یہاں قصائی اتنے مالدار ہوتے ہیں، تو وہ ہنس پڑے۔ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ ڈاکٹروں کا محلہ ہے یعنی انہوں نے ڈاکٹروں کو قصائی سمجھ رکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ڈاکٹروں سے جلا ہوا ہوگا۔ میں نے کہا کہ اچھا، یہ بتاؤ کہ جب بیمار ہوتے ہو تو کدھر جاتے ہو؟ کہنے لگے کہ انہی کے پاس آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کو تو آپ نے قصائی کہا ہے۔ کہتے ہیں کہ پھر کیا کریں، ان میں کچھ اچھوں کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ خدا کے بندے! دیکھو! آپ خود کہہ رہے ہیں کہ پھر ہم ان میں سے اچھوں کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ پیروں میں اچھوں کو ڈھونڈ لو، لیکن وہ بات آپ کو سمجھ نہیں آتی۔ اس میں آپ کہتے ہیں کہ نہیں، بس جو پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسا ہوگا، میں تو اس کا انتظار کروں گا۔ تو جیسے آپ یہ بات سمجھ رہے ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک عملی چیز ہے، اور عملی چیز میں آپ عملی طور پر سوچیں گے۔ جیسے گاؤں میں ڈاکٹر نہیں ہوتا، تو وہاں کمپوڈر کو ڈاکٹر کہتے ہیں، کیوں کہ علاج تو کرنا ہوتا ہے، آخر کسی کے پاس تو جانا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ باقاعدہ کمپوڈر کو ڈاکٹر کہتے ہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی ضرورت کا اگر احساس ہوجائے، تو ہمیں واقعی ان تمام چیزوں کو ماننا پڑے گا۔ اور اللہ پاک بہت کریم ہے، بہت مہربان ہے۔ میں آپ کو خود اپنا واقعہ بتاتا ہوں، میں نے جس تصوف کو study کیا تھا، وہ اخباری قسم کا تصوف تھا، وہ اصل نہیں تھا، لیکن میں نے پڑھا تھا، تو میرا ذہن بن گیا تھا کہ جب میں جاؤں گا، تو ایسے لوگوں کو تلاش کروں گا۔ اور میرا خیال تھا کہ اس کے لئے جنگل جانا پڑے گا اور یہ کرنا پڑے گا اور وہ کرنا پڑے گا۔ خدا کی شان! میں نے پشاور اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، اسلامیہ کالج میں میرے خیال میں دو تین دن میرے گزرے ہوں گے کہ کسی نے کہا کہ یہاں ایک بزرگ ہیں مولانا اشرف صاحب، عصر کے وقت ان کی مجلس ہوتی ہے، چلو ہم بھی چلتے ہیں۔ تو میں بھی چلا گیا۔ جب میں نے وہ مجلس attend کی، تو بس قلبی کیفیت ایسی ہوئی کہ میں نے کہا کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے۔ تو پھر ہم ادھر آتے تھے۔ آپ یقین کیجئے کہ چار پانچ سال ہم نے ادھر گزارے، لیکن مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ پیر ہیں۔ ابھی تک ہم ان کو مولانا صاحب کہتے ہیں، پیر صاحب کا لفظ ان کے لئے ہماری زبان پہ کبھی نہیں آیا، لیکن وہ تھے پیر۔ پھر مجھے ایک بڑے عالم نے کہا کہ کیا آپ مولانا صاحب سے بیعت ہیں؟ میں نے کہا کہ مولانا صاحب بیعت کرتے ہیں؟ کہنے لگے خدا کے بندے! یونیورسٹی میں جو انقلاب ہے، یہ کن کے ذریعہ سے آیا ہے؟ یہ ان کے ذریعہ سے تو آیا ہے۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر میں نے ارادہ کیا اور میں نے کہا کہ ابھی ان شاء اللہ میں کوشش کروں گا۔ پھر سستی ہوگئی، کیوں سٹوڈنٹ تھا اور سٹوڈنٹ تو بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ پھر میں نے خواب دیکھا اور خواب میں ان کی طرف اشارہ ہوگیا، لیکن پھر بھی سستی ہوگئی۔ اس کے بعد پھر اشارہ ہوگیا، لیکن پھر بھی سستی ہوگئی۔ اور اس کے بعد تو جیسے کسی کے اوپر ڈنڈا اٹھا لیا جائے کہ اب سیدھے ہوتے ہو یا نہیں؟ جب اس طرح ہوا تو میں ڈر گیا۔ پھر میں سیدھا حضرت کے پاس چلا گیا اور حضرت سے بیعت ہوگیا۔ لہٰذا میں ڈنڈے کی وجہ سے بیعت ہوچکا ہوں۔ تو کیا ہمیں ڈنڈے کا انتظار کرنا چاہئے؟ جب ہمیں اشارہ مل جائے اور پتا چل جائے، تو پھر ہمیں لبیک کہنا چاہئے، پھر ہمیں بہت زیادہ دیر نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ موت کا کیا پتا، نہ اس کی موت کا پتا ہے اور نہ اپنی موت کا پتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بعض لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے جاتے جاتے وہ فوت ہوجاتے ہیں۔ کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ اور خود انسان کا بھی تو پتا نہیں ہوتا، آدمی ارادہ کرتا ہے، لیکن وہ درمیان میں ہی چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے میں آپ کو نشانیاں بتاتا ہوں، یہ fact کی بات بتا رہا ہوں، اس کی آٹھ نشانیاں ہیں اور پکی نشانیاں ہیں۔
نمبر 1: اس کا عقیدہ صحیح ہو، کیونکہ غلط عقیدے والے کے پاس جائیں گے تو اپنا عقیدہ خراب کرو گے۔
نمبر 2: کم از کم فرضِ عین علم اس کے پاس ہو۔
نمبر 3: فرضِ عین علم پر عمل ہو۔
نمبر 4: چوتھی بات یہ ہے کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہوں۔
نمبر 5: پانچویں بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ان کو باقاعدہ authorize کیا گیا ہو۔ یعنی ان کی اصلاح ہو چکی ہو۔
نمبر 6: چھٹی بات یہ ہے کہ اچھے لوگوں میں ان کی اچھی reputation ہو، یعنی جو لوگ جانتے ہوں، ان کی ان کے بارے میں اچھی رائے ہو کہ یہ صحیح ہیں۔
نمبر 7: ساتویں بات یہ ہے کہ مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔
نمبر 8: اور آٹھویں بات جو اللہ پاک عطا فرماتے ہیں، وہ یہ کہ ان کی مجلس میں اللہ یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔
یہ آٹھ نشانیاں اگر کسی میں نہ پائی جائیں، تو ان کے پاس نہیں جانا چاہئے۔ انگلینڈ میں ایک صاحب ہیں فاروق حسنی صاحب، جو کہ بعد میں مجھ سے بیعت ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا اور اس وقت انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں تھا، نہ مولانا اشرف صاحب کو دیکھا تھا، انہوں نے اپنا وہ خواب مجھے بھیجا کہ مولانا صاحب آپ کے پاس ہیں اور آپ کو کچھ نصیحتیں کر رہے ہیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ آپ جو آٹھ اصول بتاتے ہیں، وہ مجھے بہت پسند ہیں۔ تو مجھے یاد آ گیا کہ یہ آٹھ باتیں اکثر میں کرتا رہتا ہوں۔ تو وہ حضرت نے بات بتا دیں۔ مقصد میرا یہ ہے کہ ضرورت تو اس کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، البتہ ہر جگہ نہیں، پکی جگہ اور صحیح جگہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جس پہ دل بولے کہ یہ صحیح ہے۔
سوال نمبر 19:
میں ایک بات کرتا ہوں کہ کتابی تصوف سے تو میں گزرا ہوں، روحانیت کا بھی میں قائل ہوں، لیکن چونکہ کتابی تصوف کے ایک منظر سے واپسی ہوئے کافی وقت گزرا ہے، لیکن وہ کتابی روحانیت ذہن میں موجود ہے۔
جواب:
عملی تصوف ضروری ہے، کیونکہ تصوف سراپا عمل ہے۔
سوال نمبر 20:
میں Taxes میں ہوتا ہوں، وہاں پر حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ہیں، میں ان کی مجالس میں شریک ہوتا ہوں۔
جواب:
ما شاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، ویسے ایسے لوگ کم ملتے ہیں۔ اصل میں میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ میں خود امریکہ گیا ہوں۔ اور وہاں life style بڑا مختلف ہے، اس لحاظ سے وہاں اپنے آپ کو بچانے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر ایسی اچھی صحبت اللہ تعالیٰ کسی کو وہاں عطا فرمائے، تو یہ تو بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم جب جرمنی میں تھے، تو وہاں پر بھی کافی مشکل صورتحال تھی۔ یہ تو بڑا حوصلہ ہوتا ہے ایسے مسلمانوں کا جو وہاں پر ہوتے ہیں، بالخصوص اپنے بچوں کی حفاظت کرنا، کیونکہ اپنے آپ کی تو انسان آسانی کے ساتھ حفاظت کر لے، لیکن بچوں کی حفاظت بڑی مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں کے قوانین ایسے ہیں کہ جو مسائل create کرتے ہیں، مثلا: آپ اپنے بچوں کو کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اس لحاظ سے وہاں بہت ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کو ایسی صحبت مل جائے کہ جو ان کو کم از کم اپنی جگہ پہ رکھے۔ باقی میں آپ سے عرض کروں کہ اللہ پاک چاہنے والوں کو ہدایت دیتے ہیں، کیوں کہ اللہ پاک بہت کریم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں آپ کو یہاں یہ بات کر سکتا ہوں، خود میری اپنی observation ہے۔ میں جب امریکہ گیا، تو میری پہلی رات Holiday Inn میں جس میں reservation تھی۔ اگلے دن میں نے اس کو چھوڑ دیا اور مجھے نہیں پتا کہ میں کدھر ہوں گا۔ لیکن جب میں اپنے آفس گیا، تو آفس والوں کو میں نے کہا کہ یہ تین یونیورسٹیاں ہیں، ایک triangle سا بنا ہوا تھا۔ ان میں تین میں سے ایک میں میرے واقف تھے، میں نے کہا کہ اس نام کا آدمی ڈھونڈو۔ دو تین گھنٹے انہوں نے محنت کی، تو مل گیا۔ ٹیلی فون پر میرے ساتھ رابطہ ہوگیا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا کہ چھوڑو، اپنا address بتاؤ۔ انہوں نے بتایا، تو میں نے کہا کہ ان کو بتاؤ، مجھے تو پتا نہیں چلے گا۔ خیر! انہوں نے ان کو بتا دیا۔ میں نے کہا کہ میرے آنے جانے کا بندوبست وہاں کے لئے کرو۔ پھر میں وہاں چلا گیا، تو وہ بڑے خوش ہوگئے۔ بہرحال! وہ اسلامی سنٹر کے بالکل قریب تھے تو Best place اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دی، کیونکہ میں صرف دو ہفتے کے لئے گیا تھا۔ نمازوں کے لئے بہت آسانی رہی، تمام چیزوں کے لئے بڑا اچھا ماحول مل گیا۔ پھر وہاں Brookline میں تبلیغی جماعت کا اجتماع تھا، تو وہ اجتماع بھی میں نے attend کیا، اس کے لئے میں نے تھوڑا سا ٹائم بڑھا دیا، اس کے بعد واپسی پہ حج کا اللہ تعالیٰ نے بندوبست کردیا، تو وہ سفر بہت اچھا رہا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ شَکر خورے کو خدا شَکر دیتا ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے تو اللہ پاک ہر جگہ بندوبست کر دیتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ چاہتا ہو۔ اگر کوئی mind نہ کرے، تو میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ خود اللہ پاک چاہے، تو یہ تھوڑی سی زیادتی ہے، چاہنا ہمیں ہی ہے، کیوں کہ ہم طالب ہیں اور وہ مطلوب ہے، اس وجہ سے ہمیں طلب میں رہنا چاہئے۔ اور قرآن میں بھی یہی ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔
اس میں ﴿جَاهَدُوْا﴾ پہلے ہے، اس کے بعد ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ ہے، لہٰذا کوشش ہمیں کرنی چاہئے، پھر اللہ پاک راستہ بھی دے دیتے ہیں۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔